Chitral Times

دھڑکنوں کی زبان……….. میں سر بکف ہوں……….. محمد جاوید حیات

Posted on

میں نون لیگی ہوں یا پی ٹی آئی کا شیدائی ۔۔میں پی پی پی کا جیالا ہوں یا قاف کا سحر زدہ ۔۔میں جماعت اسلامی کا ورکر ہوں یا جماعت علمائے اسلام کا عاشق صادق ۔۔۔تمام لیڈروں کو تنبیہ کرتا ہوں۔ کہ میں سب کچھ سمجھنے لگا ہوں ۔۔میں اردولکھ پڑھ سکتا ہوں اس وجہ سے تاریخ کی کتابیں کھنگالتا ہوں ۔۔میں انگریزی سمجھنے لگا ہوں اس وجہ سے سب کی ٹوٹی پھوٹی انگریزی اندازتا سمجھنے لگا ہوں ۔۔میری جیب میں ٹیلی فون سیٹ ہے اس کو کھول کر ۔۔ٹویٹ۔۔فیس بک۔۔واٹس وغیرہ سب میں موجود سب کچھ پڑھتا ہوں ۔۔گوگل کھول کر سب کی تاریخ سب کا پروفائل سب کی کار کردگی پڑھتا ہوں ۔۔اب آپ سب قیدی ہیں ۔۔ننگے تڑنگے قیدی ۔۔کو ئی حرکت چھپی ہیں ۔۔جلوس میں جاتے ہوئے کسی کا ہاتھ کسی سے ٹکرائے ۔۔راہ چلتے کسی کا دوپٹہ سرک جائے ۔۔لندن میں کسی ہوٹل میں دونوں بیٹھ کر ایک کپ چائے پیءں ۔۔کوئی کسی کو ترنگ میں آکر مسیچ کرے ۔۔کوئی کسی سے کہدے ۔۔۔شاباش بیٹا ۔۔کسی کی مور کو بلی کھا جائے ۔۔کوئی سینٹ کی ٹکٹ کے لئے بھتہ لے لے ۔۔کوئی معمولی حرکت چھپی نہیں ہوتی ۔۔تم مجھ سے کیسے چھپ سکتے ہو۔۔تم مجھے اندھرے میں کیسے رکھ سکتے ہو ۔تم جھوٹے الفاظ کی غلاف پہن کے سکرین کے پیچھے کیسے جا سکتے ہو ۔۔تم عیان ہو بلکہ عریان ۔۔مجھے پارٹی نہیں خدمت چاہئے ۔۔میں نے تھوڑی بہت فارسی پڑھی ہے ۔۔۔ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود را دید او محروم شد

مجھے تیرے بنگلوں سے کوئی کام نہیں۔۔ مجھے تیری جائیداد سے کوئی مطلب نہیں ۔۔۔مجھے تیری کمپنیوں اور کار خانوں سے عرض نہیں ۔۔مجھے تیری اثاثوں سے کیا دلچسپی ۔۔میں تیری قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر تیرے ناز نہیں اٹھاسکتا ۔۔نہ ’’جی حضور‘‘کے اداب مجھے آتے ہیں ۔۔میں ایک گمنام فرد ہوں ایک چھپی طاقت ۔۔تم مجھ سے چھپے نہیں ہو ۔۔میں نے تجھے خوب پڑھا ۔۔میرے پاس دو طاقتیں ہیں ۔۔ایک ووٹ اور حمایت کی طاقت ۔۔دوسری طاقت یہ کہ میں گڑگڑاکے کائنات کے مالک کے حضور دھائی دونگا ۔۔اپنی کوتاہؤں کی معافی مانگوں گا ۔۔کیونکہ سرور عالمﷺ نے فرمایا ۔۔کہ جس قوم سے اللہ ناراض ہوتا ہے اس پر برے حکمران مسلط کرتا ہے ۔۔تو میرا رب تمہیں مجھ سے ہٹائے گا ۔۔کیونکہ وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے ۔۔تم اپنا خیال رکھنا ۔۔خد مت پہ یقین رکھ ۔۔خدمت مجھ پہ حسان نہ سمجھ ۔۔آپ نے وعدہ کیا کہ خدمت کرو گے اپنے وعدے کا پاس رکھ ۔۔ لیڈر شپ عبادت بھی بن جاتی ہے ۔۔تمہارے دل میں درد ہو سوز ہو خدمت کی آرزو ہو ۔۔تو شرارت اور دوکھے کو سیاست نہ سمجھ یہ اسلامی لحاظ سے منافقت کہلاتا ہے جو جھنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوتا ہے ۔۔تو حقوق سلب نہ کر ایسے کو ظالم کہا جاتا جس کا انجام بہت برا ہے۔۔تو کسی کا برا نہ سوچ اس کو بد خواہ کہا جاتا ہے بدخواہ کی بدخواہی اس کو نقصان پہنچاتا ہے ۔۔جو دوسروں کا برا سوچے اس کا اپنا انجام برا ہوتا ہے ۔۔تو اقربا پروری نہ کر یہ بے انصافی ہے ۔۔تو پروپکیڈا نہ کر تو پروپگنڈے کو ’’سٹریٹ پالیٹکس ‘‘ کہتے ہو سٹریٹ پالیٹس بے لوث خدمت کو کہتے ہیں تم غلط سوچتے ہو ۔۔کریڈٹ دوکھ ہے کریڈیٹ ’’لیا‘‘نہیں جاتا ’’دیا‘‘ جاتا ہے تو اسلامی ملک کا لیڈر ہے اگر اسلام کا دعوہ ہے اور اسلامی پارٹی کا کارکن ہونے پہ فخر ہے تو فخر موجوداتﷺ کی پاک زندگی کے اندر رہ کر خلافہ راشیدین کی زندگی سے باہر نہ نکل ۔۔اقتدار کو اللہ کی امانت سمجھ ۔۔اگر تو مغرب زندہ ہے تو ملکاولی ،بسمارک ،افلاطون کو نہ پڑھ یہ تمہیں درندگی سیکھاءں گے۔۔ تم لوتھر ،شیگویرا کو پڑھ ۔۔ جنھوں نے قوم کی بے لوث خدمت کی ۔۔۔میں بیدار ہوگیا ہوں ۔۔میرے ہاتھ میں جادو کا ڈبہ ہے اس کو کھولتا ہوں تو پوری دنیا میرے سامنے آجاتی ہے ۔۔میں اس کو استعمال کر سکتا ہوں ۔۔میں ڈنکے کی چوٹ پہ تجھے ریجکٹ کروں گا ۔۔میں لڑنے لگا ہوں اب میرے حقوق پہ سودا بازی نہیں ہو سکتی ۔۔اب میری ترقی کے راستے میں کوئی روڑا نہیں اٹکا سکتا ۔۔اب میں سر بکف ہوں۔۔ اب میرے سامنے احتیاط سے بات کر ۔۔میں تیری بات کاٹ سکتا ہوں ۔۔مجھ میں دلیلوں سے کسی چیز کو ثابت کرنے کی صلاحیت آگئی ہے ۔۔میں باخبر ہوں۔۔۔ میں اگاہ ہوں ۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6855

دھڑکنوں کی زبان…….. ’’کیا تعلیم عام ہو رہی ہے ؟‘‘……….محمد جاوید حیات 

Posted on

جب لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تو اس کو جہالت کا دور کہا جاتا تھا ۔۔قلم روشنائی سے نابلد تھے ۔۔ان کو پتہ نہ تھا کہ دنیا کتنی بڑی ہے ۔۔گول ہے کہ سپاٹ ۔۔یہ پہاڑ دریا ،یہ جنگل بیابان ،یہ پربت و کوہسار ،یہ لق و دق صحرا ،یہ فضائے بیکران ان سب کے سامنے انسان سہما سہما سا تھا ۔۔ان سے خوف زدہ تھا ۔۔اس لئے کبھی درندوں چرندوں ،پرندوں ۔۔کبھی درخت ،دریا، سمندر ،پہاڑ ،صحرا ،اور کبھی خیالی بلاوں کو اپنا آقا سمجھ کے اپنے آپ کو ان کے رحم و کرم پہ چھوڑ رکھا تھا ۔۔بھلا ہو تعلیم کا کہ اس نے انسان کو پوری کائنات کا آقا بنا لیا ۔۔خالق کائنات نے کہا کہ ہم نے کائنات کو تیرے قبضے میں دیدیا ۔۔انسان نے اپنا یہ مقام علم ہی کی بدولت حاصل کر لیا ۔۔مگر انسان ایک سماجی مخلوق ہے ۔۔یہ اکیلا زندہ نہیں رہ سکتا ۔۔اس لئے اس کو زندہ رہنے کے لئے ایک دوسرے کا احترام ،ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال ،ایک دوسرے کی مجبوریوں میں مدد، ایک دوسرے سے محبت کرنا ہوتا ہے ۔۔ورنہ یہ دنیا جتنی بھی ترقی کرے انسانوں کی دنیا نہیں کہلائے گی ۔۔نہ انسان نام کی مخلوق اشرف کہلایا جائے گا ۔۔انسانوں کو دنیا میں اکھٹے زندہ رہنے کے لئے انہی اقدار کی ضرورت پڑتی ہے ۔۔خواہ یہ تعلیم و تربیت سے جلا پاتے ہیں یا بے تعلیمی سے ۔۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب تعلیم یافتہ سفاک اور ظالم ہوجاتا ہے تو وہ بے تعلیم سے بدتر ہو جاتا ہے دنیا اس کی سفاکی یاد رکھتی ہے مگر اس کی تعلیم بھول جاتی ہے ۔۔تعلیم کا پہلا کام اقدار سیکھانا ہے اس کے علاوہ لکھنا پڑھنا سیکھنا،تجربہ کرنا ،کسی فن میں مہار ت حاصل کرنا۔۔ہنر ہے تعلیم نہیں ۔۔ہواباز جہاز اُڑاتا ہے یہ اس کا ہنر ہے لیکن وہ شریف با اخلاق باکردار کتنا ہے وہ اس کی تعلیم ہے ۔۔جراح بڑے بڑے اپریشن کرتا ہے یہ اس کا ہنر ہے وہ مہذب کتنا ہے یہ اس کی تعلیم ہے ۔۔سیاست ہنر ہے اس کے اندر رہتے ہوئے لوگوں سے حسن سلوک تعلیم ہے ۔۔۔فخر موجوداتﷺ نے معلمی کی صفت یہ قرار دیا کہ مکارم اخلاق کی تکمیل ہو ۔۔آجکل تعلیم کا دور دورہ ہے ۔۔معاشرے کے اندر سب تعلیم یافتہ ہیں کسی بھی گھر میں کوئی ان پڑھ نہیں ۔۔ہر طرف ہنر کی روشنی ہے میری ناقص رائے میں یہ علم کی روشنی نہیں ۔۔یہ دور ہنر کا ہے تعلیم کا نہیں۔۔ کیونکہ کردار اپنے مقام سے گرتا جا رہا ہے ۔۔آپ آج کے انسان میں ہنر ہر لحاظ سے ڈھونڈ سکتے ہیں مگر تعلیم نہیں ملے گی۔۔ تمہاری توقعات شکست کھائیں گے تمہیں مایوسی ہو گی ۔۔ڈاکٹر تیرے سلام کا جواب نہیں دے گا بے شک تیرا علاج کرے گا ۔۔ہوا باز تیرا جہاز اڑائے گا مگر تجھ سے ہاتھ نہیں ملائے گا ۔۔بیٹی تیری بہو بیٹی بنے گی ۔۔لیکن تجھے ابو کہتی ہوئی کترائے گی ۔۔تیرا بڑے آفیسر کابیٹا صبح دیر سے اُٹھے گا لیکن تمہارے ساتھ ناشتے کی میز پہ نہیں بیٹھے گا ۔۔کالجوں میں ،یونیورسٹیوں میں ،دوسرے سب تعلیمی اداروں میں طالب علموں سے کردار کی خوشبو نہیں آئے گی ۔۔نوجوان عجیب لباس میں اپنے ہاتھ میں موبائل سیٹ سے کھیلے گا ۔۔اس کا لباس پوشاک نشست بر خواست ڈھنگ کی نہیں ہوگی مگر تم اس پہ اعتراض بھی نہیں کر سکو گے کیونکہ وہ کسی یونیورسٹی ،کالج وغیرہ میں ’’تعلیم ‘‘ حاصل کر رہا ہو گا ۔۔ٍاب سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم عام ہو رہی ہے یا صرف ہنر سیکھا جارہا ہے ۔۔اس لئے یہ ہنر کا دور ہے اور ہنر جابجا عام ہو رہا ہے تعلیم نہیں ۔۔یورپ جو ہمارے لئے خوابوں کی سر زمین ہے ۔۔وہاں یہ سب کچھ محسوس کیا جا رہا ہے ۔۔وہ ہنر یعنی سائنس میں ہم سے بہت آگے گئے ہیں لیکن اقدار مٹنے کی وجہ سے ان کا معاشرہ جنگل بنتا جارہا ہے ۔۔وہ آجکل ’’اخلاق حسنہ ‘‘ کو سوشل کیپٹل ‘‘ کہنے لگے ہیں ۔۔سوشل سائنس میں پی ایچ ڈی کو ’’سوشل ڈاکٹر ‘‘ کہنے لگے ہیں ۔۔ہمارے ہاں معاشرتی اقدار مٹنے کو اقبال نے بہت پہلے محسوس کیا تھا ۔۔انھوں مشینوں کی تجارت کو دلوں کی موت کہا تھا اور خداوندان مکتب سے خاک بازی کے درس دینے کا شکوہ کیا تھا ۔۔آج کی زن آزادی ۔۔والدین کی نافرمانی ۔۔جذباتیت جسکی وجہ سے خودکشیاں بڑھ گئیں ہیں ۔۔نقل دوسروں کی آنکھیں بند کرکے پیروی ،دین سے دوری ،سادگی سے بے زاری ،توقیر عزت و احترام ،خلوص ایثار قربانی ،قومی شناخت سے نالان ہونا ۔۔یہ سب نری جہالت ہیں تعلیم نہیں اب کون کہتا ہے کہ تعلیم عام ہو رہی ہے ۔۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پھر سے اپنا گھر آنگن کو تربیت کا گہوارہ بنائیں ۔۔کلاس روم میں ہنر سے زیادہ تربیت اور اخلاق پہ زور دیا جائے ۔۔معاشر ے میں ہر طرف کردار کی نگرانی کیا جائے ۔۔اُمت مسلمہ تلوار سے زیادہ اپنے کردار سے دینا فتح کر گئی بلکہ اصل فتح جو دلوں کی فتح کہلاتی ہے ۔۔دنیا میں جو جو قومیں ڈوبی ہیں وہ پہلے اخلاقی لحاظ سے اور کردار کے لحاظ سے ڈوب گئے ۔۔پھر ان کا نام و نشان مٹ گیا ۔۔ کم ازکم میرے لئے یہ ایک سوال ہے کہ۔۔۔’’ کیا تعلیم عام ہورہی ہے ‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
6656

دھڑکنوں کی زبان ………….. یہ تھکے ماندے ہارے لوگ…………محمد جاوید حیات 

Posted on

الف تین دفعہ وزیر اعظم بن چکا ہے ابھی چوتھی بار کے لئے اتنا پریشان ہے کہ گویا اس نے کبھی اسمبلی دیکھی ہی نہیں ہے ۔۔ب۔۔فوج کے بڑے عہدوں سے لے کر صوبے کے گورنر تک رہ چکا ہے ابھی لگتا ہے کہ کسی معمولی عہدے کی کرسی پہ بھی بیٹھا نہیں ہے ۔۔
ج۔۔صوبائی اسمبلی کی سیٹ پہ کئی بار رہ چکا ہے ۔۔ابھی قومی اسمبلی کے لئے اتنا پریشان ہے گویا کہ یہ کبھی اسمبلی ہال دیکھا ہی نہیں ہے ۔۔
د۔۔فرسٹ کلاس کا ٹھیکدار ہے کئی بلڈنگیں بناچکا ہے ۔۔بینک بلنس ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ کبھی پیسہ دیکھا ہی نہیں ہے ۔۔سرکاری ملازم پنشن لینے کے بعد ایسا لگے گا کہ وہ ایک بار بھی تنخواہ لی ہی نہیں ۔۔سب حیران و پریشان ،سب سرگردان۔۔سب زندگی کے ہاتھوں ہارے ہوئے ۔۔زندگی نے ان کو بہت کچھ دیا ۔۔وہ کہتے ہیں کچھ نہیں دیا ۔۔زندگی نے خوشی دی ۔۔وہ کہتے ہیں آنسو دیا۔۔ زندگی نے دولت دی وہ کہتے ہیں کچھ نہیں دیا ۔۔زندگی نے پھول دیا۔۔ وہ کہتے ہیں کہ کانٹا دیا ۔۔ یہ تھکے ہارے بے وفا لوگ ۔۔یہ احسان فراموش کچ ادا لوگ ۔۔یہ لوگ مطمین کیوں نہیں ہوتے ۔۔الف ۔۔ب ۔۔ جیم سب پریشان ۔۔وقت کا جو دورانیہ ان کو دیا گیا۔۔ ۔۔یہی ان کو بھی دیا گیا جن کو زندگی نے کچھ نہیں دیا ۔۔نہ رہنے کو گھر ۔۔نہ کھانے کو روٹی۔۔ نہ پہننے کو ڈھنگ کا کپڑا ۔۔۔۔جیب خالی آنکھوں میں افسردگی ۔۔تنہائی کا شکار ۔۔انسانوں کے ہجوم میں تنہا ۔۔ان کو شریف ہونا ہے ۔۔ان کو سر جھکانا ہے ۔۔ان کو منہ چھپانا ہے ۔۔ان کو ہاتھ پھیلانا ہے ۔۔ان کو ادب سے نیچی آواز میں باتیں کرنی ہے ۔۔ان کی جوانی کی کوئی قیمت نہیں ۔۔ان کا حسن ارزان ہے ۔۔ان کی نشیلی معصوم اکھیوں میں عضب کی کشش ہے مگر ان کو کوئی سرمگین نہیں کہتا ۔۔ان کی نرگیسی آنکھوں کو صرف نیلی کہا جاتا ہے خوبصورت نہیں کہا جاتا۔۔لیکن یہ مطمین ہیں ۔۔ان کے مقابلے میں جن کو زندگی نے سب کچھ دیا ۔۔تھکے ماندے ہارے ہوئے ہیں ۔۔حیران و پریشان و سرگردان ہیں ۔۔ ان کے لئے ہر لمحہ عذاب ہے ۔۔فکر کے ہاتھوں دق ہیں ۔۔ان کو اپنے کپڑوں کی فکر ہے خوراک پوشاک کی فکر ہے ۔۔محلے بنگلوں کی فکر ہے ۔۔اپس میں ایک مقابلہ ہے ۔۔دوڑ دھوپ ہے ۔۔درمیان میں ان کی صحت خراب ہوجاتی ہے ۔۔کمائی علاج میں گھل جاتی ہے ۔۔پھر موت سر پہ آکھڑی ہوتی ہے ۔۔وہ انگشت بدندان ہوتے ہیں ۔۔حیران و پریشان ہوتے ہیں ۔۔یہ عیاشیوں سے تھکتے ہیں ۔۔دولت کی تجوریوں سے تھکتے ہیں ۔۔آرام کرسی میں بیٹھنے سے بیزار ہوتے ہیں ۔۔زندگی ان کو تھکا دیتی ہے ۔۔وقت ان کو دھوکہ دیتا ہے ۔۔رنگیاں خواب ہیں وہ ان خوابوں کے سہارے وقت گنوا دیتے ہیں ۔۔راجا ابراہیم اودھم بڑا عیاش ہوا کرتا تھا ۔۔ایک د ن شکار پہ گیا ہو ا تھا ۔۔کنیز نے اس کے سونے کا کمرہ درست کیا ۔۔نرم بچھونوں پہ ہاتھ پھیری۔۔آرزو ہوئی کہ ایک لمحے اس پہ سر رکھ کے سویا جائے ۔۔سر رکھتے ہی اس کو نیند آگئی ۔۔ایسے سوئی کہ اودھم شکار سے واپس آیا ۔۔دیکھا کہ کنیز اس کے بستر پہ سوئی ہوئی ہے اس کو خوب مارا ۔۔کنیز پہلے رونے لگی پھر کھلکھلا کے ہنسی ۔۔اودھم حیران ہو ا۔۔وجہ پوچھا تو کنیز نے کہا ۔۔مجھے تم پہ ہنسی آتی ہے ۔۔اس نرم بچھونے پہ میں چند لمحے کے لئے سوئی تو اتنی مار پڑی۔۔ تم ساری عمر اس پہ سوتے رہے ہو ۔۔قیامت کے دن تمہارا کیا حشر ہوگا ۔۔اودھم چیخ اٹھا ۔۔حقیقت کی آنکھیں وا ہوگیں ۔۔محل چھوڑ کے ایسے چلا۔۔کہ پھر واپس نہیں آیا ۔۔اس کی سب پریشانیاں ختم ہوگیءں۔۔اگر بڑھاپا نہ ہوتا ۔۔اگر موت نہ ہوتی ۔۔اگر محلات اقتدار اور کرسی کی کوئی گیرنٹی ہوتی تو بجا تھا ۔۔ یہ سب دو دن کی ہیں۔۔ دو دن کی حیثیت ہی کیا ہے ۔۔۔الف ۔۔با ۔۔جیم۔۔ دال کو چاہیے کہ زندگی کو حقیقت کی نظر سے دیکھیں ۔۔اگر خوشیاں ہیں تو وہ اپس میں بانٹیں ۔۔اگر مصیبتیں ہیں تو ان کو مل کر شکست دیں ۔۔مجھے ان شکست خوردہ پریشان اور تھکے ہارے لوگوں پہ ترس آتا ہے ۔۔زندگی دینے والے نے اس کو بہت اسان اور سیدھا سادہ بنایا ہے ۔۔اس کو گزارنے کے گر بھی سیدھا سادہ ہیں ۔۔یہ فانی ہے۔۔ مختصر ہے اور خوبصورت ہے ۔۔اس کاہر ہر پل خوبصورت ہے ۔۔جہان امیری میں خوبصورتی ہے وہاں غریبی میں اس سے بھی زیادہ خوبصورتی ہے ۔۔جھونپڑیوں کے اندر محلوں کے اندر سے بھی خوبصورتی ہے ۔۔ایک غریب شریف زادے کی آنکھوں میں ایک امیر زادے کی آنکھوں سے زیادہ معصومیت اور چمک ہے ۔۔ایک مزدور کے گھر پکائی ہوئی سادہ ساک میں ایک امیر کے گھر میں انواغ و اقسام کے ہفت خوان سے زیادہ لذت ہے ۔۔سردار دوجہانﷺ کو فرش پہ آرام ملتا تھا۔۔ ہمیں کیوں نہیں ملتا ۔۔فاروق اعظمؓ اپنے سرہانے اینٹ رکھا کرتے تھے آپ ؓ کو سکوں کی نیند آتی تھی ۔۔ہمیں کیوں نہیں آتی ۔۔ان کے کپڑوں میں پیوند سجتے تھے ہمارے قیمتی کپڑے ہمیں سکون سے محروم کیوں کر دیتے ہیں ۔۔ہم تھکے ماندے ہارے لوگ زندگی کے ہاتھوں آخر کو ہار جاتے ہیں اور ڈھیر ہوکر خاک کا رزق بن جاتے ہیں ۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
4106

دھڑکنوں کی زبان ……یہ جو چلمن ہے ۔۔۔……..محمد جاوید حیات 

Posted on

یہ جو چلمن ہے یہ ہر آفت سے بچاؤ کی ڈھال ہے ۔۔قران نے اس کو ’’جلابیب‘‘کہا ۔۔اور ہم نے دوپٹا ۔۔چادر ایک احساس کا نام ہے ۔۔ایک ا صطلاح ۔۔ایک تصور ۔۔ایک باب ۔۔قران نے کہا کہ جب باہر نکلنے کی ضرورت پڑے تو اپنی لمبی چادروں کا گو نگٹ نکال کے باہر نکلا کرو ۔۔یہ آیت کریمہ کا ہوبہو ترجمہ نہیں ۔۔درس ہے ۔۔پیغام ہے ۔۔۔مومنہ خواتین سے کہدو ۔۔۔سب خواتیں سے کہہ دو ۔۔جو اپنے آپ کو عورت کہتی ہے اس سے کہدو ۔۔عورت کائنات کی خوبصورتی ہے ۔۔کائنات کا رنگ ہے ۔۔بو ہے ۔۔رونق ہے ۔۔شان و شوکت ہے ۔۔دلوں کی مسرت ۔۔چہروں کی چمک ۔۔لمحوں کی خوشبو ۔۔پھولوں کا رنگ ۔۔قوض قزح۔۔ابشار جھرنا ۔۔سمندر کی پہنائیاں ۔۔دریا کی موجیں ۔۔قطروں کی دمک ۔باد نسیم کی اٹکھلیاں ۔۔تاروں کی ٹمٹماہٹ ۔۔چاند کی چاندنی ۔۔دھوپ کی تمازت ۔۔ایک کشش ۔۔ایک جذبہ ۔۔ایک خوشگوار درد۔۔ایک ’’ہونے‘‘ کا احساس۔۔ایک اُمید کا منبع ۔۔ایک آرزو کا شیش محل ۔۔ایک ظالمہ ۔۔۔’’پنکھ ہوتے تو اڑے آتے ۔۔رسیا او ظالمہ تجھے دل کا داغ دیکھلاتے ۔۔‘‘پھر گھر نام کی عمارت کے اندر ایک ہلچل ۔۔ایک تحریک ۔۔ایک رونق ۔۔ایک زندگی ۔۔ایک شادمانی ۔۔اس کے ہونے سے سب کے ہونے کا احساس ۔۔اس کے نہ ہونے سے سب کے نہ ہونے کا احساس ۔۔پھر ناموں کے چمکتے تارے ۔۔ماں ۔۔۔بہن ۔۔۔بیٹی ۔۔زندگی کا ساتھی ۔۔رازدان ۔۔خوشی غمی کا شریک ۔۔دمساز ۔۔ہمدم ۔۔اتنی خوبصورت کہ دیکھ کے بندہ اپنا ہوش کھو کھو بیٹھے ۔۔سلطنتیں قربان ہوں ۔۔زندگیاں لوٹائی جائیں ۔۔جانیں گنوائی جائیں ۔۔شان و شوکت تج دی جائیں ۔۔لڑائیاں لڑی جائیں ۔۔بنجارہ بن جایا جائے ۔۔صحرا نوردی میں عمریں لٹائی جائیں ۔۔نغمے لکھے جائیں ۔۔تانیں اور سر ایجاد کی جائیں ۔۔محفلیں سجائی جائیں ۔۔کتابیں لکھی جائیں ۔۔حرم سرائیں تعمیر ہوں ۔۔انعامات اور نوازشوں کی بارشیں ہوں ۔۔پھر حسد کی آگ میں سب کچھ جل جل کر راگ ہوں ۔۔پھر رنگیں فسانے جنم لیں ۔۔دستانیں سنائی جائیں وفا امر ہوں ۔۔بیوفائیاں لازوال ہوں ۔۔یہ انمول موتی عورت کہلاتی ہے ۔۔انچل اور چلمن کا تعلق اس سے ہے ۔۔جلابیب اس کی خوبصورتی ہے ۔۔انچل اس کی پہچان ہے ۔۔یہ ایک انعام ہے ۔۔جس کو ملا ۔۔ملا ۔۔سب کو تو انعام نہیں ملتا ۔۔یہ انمول موتی جس کے حصے میں آئے اس کو تاکید ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے۔۔ زمانے کی نگاہوں سے اس کو بچانے کی تاکید ہے ۔۔وقت کی گرد اس پہ نہ پڑے ۔۔اس پھول کی خوشبو صرف اس کی ہو جس کے لئے یہ ہے ۔۔اس کی خوشی کے لئے سب کچھ کیا جائے ۔۔یہ حسن نمائش کے لئے ہر گز نہیں ۔۔ اس کی نمائش خالق کائنات کو بھی پسند نہیں جس نے اس لازوال حسن کو تخلیق کیا ۔۔اس کوماں بنا کر اس کے قدموں کے نیچے جنت رکھی ۔۔اس کو بیٹی بنا کر گھر کی رونق بنا یا اور اس کی پرورش کے انعام میں جنت عطا کرنے وعدہ کیا۔۔اس کو بہن بنا کر ایک لازوال محبت کا دریا بہا دیا ۔۔اس کو شریک حیات بنا کر زندگی مکمل کی ۔۔تب اس حسن بے مثال کی نمائش حرام قرار دی گئی ۔۔تب چلمن کی اہمیت بڑھی۔۔ تب انچل ایک تعارف بن گیا ۔۔تب چادرایک ڈھال بن گئی ۔۔اور یہ مسلمہ حقیقت بن گئی ۔۔۔کہ جو چلمن کے پیچھے ہے ۔۔وہی بیٹی ہے ۔۔جو انچل کی آڑ میں ہے وہی بہن ہے ۔۔جو چادر کی محافظت میں ہے وہی ماں ہے ۔۔جو گونگٹ کی ڈھال میں ہے وہی شریک حیات ہے ۔۔اس سمے غیرت کے امتحانات آتے ہیں ۔۔ جو ان امتحانات سے کتراتے ہیں وہ راہ نکالنے کی جستجوکرتے ہیں اس نمائش کی حوصلہ افزائی کی کوششیں ہوتی ہیں ۔۔دلائل دی جاتی ہیں ۔۔لیکن وقت گواہ ہے جب بھی یہ حسن لازوال نمائش پہ آیا اس کی قدر گھٹتی گئی ۔۔اتنی کم ہوئی کہ اس کی بازار میں بکنے والی معمولی چیز کے برابر بھی حیثیت نہ رہی ۔۔کوئی اس کو مقام دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوا ۔۔ہر دور میں اس چلمن کی قدر بڑھتی رہی ہے آج بھی اسی کی آڑ میں قدر ہے ۔۔۔یہ جو چلمن ہے ۔۔یہ دوست ہے ہمارا ۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4077

دھڑکنوں کی زبان ……….. اپنے بیٹے محمد اشفاق جاوید کے نام……محمد جاوید حیات ’’ ‘‘

Posted on

میرے لخت جگر سنو۔۔ میں وہ ساری باتیں اور جذبات جو آپ کو بتا نا چاہتا ہوں ۔۔شاید زبانی آپ کو نہ بتا سکوں یا تو سنتے سنتے تمہیں ناگوار لگیں یا تمہارے پاس اتنا وقت نہ ہو یا تو ان کو ایک کان سے سن کر دوسرے کا ن سے اڑا دو۔۔اس لئے آپ کے نام ایک نامہ لکھ رہا ہوں شاید دنیا کا کوئی باپ ہوگا جس کے جذبات ا پنے لخت جگر کے لئے ایسے نہ ہوں ۔ مجھے یقین ہے سب کے مجھ جیسے ہیں ۔۔اولاد ہر باپ کی امید کے گلستان کے پھول ہوتے ہیں ۔۔میں نے سوچاکہ اگر تو یہ خط نہ پڑھے گا تو دنیا میں موجود کوئی باپ پڑھے گا تو اس کوتسلی ہو جائے گی کہ اس کے جذبات بھی اسی طرح ہیں۔۔ بیٹا!حضرت آدمُ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی ۔۔حضرت یعقوب ٰنے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی ۔صدیق اکبرؓ نے ا؂پنے بیٹے سے کہا ۔۔بیٹا!سچائی کی تلوار بن جا۔۔حضرت عمر فاروقؓ نے کہا ۔بیٹا!عدل کا ترازو بن جا۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے مرتے وقت خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی اولاد کو حلال رزق کھیلایا ۔۔۔ حضرت عبدالقادر جیلانی کی ماں نے کہا کہ بیٹا ! کبھی جھوٹ مت بولنا ۔۔حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو بڑی تفصیل سے نصیحت کی یہاں تک فرمایا ۔۔بیٹا! اونچی آواز میں مت بولنا ۔۔سب سے بری آواز گدھے کی ہے ۔۔ان سب کے سامنے میری کیا حیثیت ہے بیٹا! میں ایک ناچیز زرہ ہوں ۔۔۔مگر باپ ہوں ۔۔ایک کمزور ناداں ناواقف سا۔۔ایک کم فہم کم علم ناگوار سا۔۔ایک خواب دیکھنے والا ۔۔امید کا پل باندھنے والا ۔۔آرزووں کی جنت آباد کرنے والا۔۔حسین مستقبل کا پجاری ۔۔جب آپکے دنیا میں آنے کی خبر مجھے دی گئی تو اس سمے میری عجیب درگت ہوئی مجھے تمہاری ماں پہ بہت پیار آیا ۔۔میرا سر خود بخود مہربان اللہ کی مہربانیوں کے آگے جھک گیا ۔۔میں نے سوچا کہ میں ’’مکمل‘‘ہو گیا ہوں ۔۔اب میں کسی کو ’’اپنا‘‘ کہہ سکتا ہوں اب دنیا میں میرا تعارف ہو جائے گا ۔۔اب میں کسی کو حکم دے سکوں گا ۔کسی کو بلا جھجک نصیحت کر سکوں گا۔میں کسی کی نسبت بن سکونگا ۔ کوئی میرا حوالہ بن سکے گا ۔۔اس سمے میں نے خواب دیکھا بیٹا!کہ تو مجھے دیکھ کے ہنس رہا ہے ۔۔تیری آنکھوں میں ایک چمک ہے ۔۔ایک روشنی۔۔ میرا حوالہ ۔۔تیری آنکھیں کچھ ڈھونڈ رہی ہیں۔۔ تو بلک رہا ہے ۔۔تو نے اپنی ماں سے میری محبت چھین لی ہے ۔۔یہ میری پہلی قربانی ہے بیٹا!۔۔اب تو بات کرنے لگا ہے ۔۔مجھے تیرے حرف حرف اور لفظ لفظ کی حفاظت کرنی ہے۔۔ تیرے لہجے میں مٹھاس بھرنا ہے ۔۔تیرے جملوں کو احترام کی خلغت سے مزین کرنا ہے ۔۔تجھے بتانا ہے کہ تلوار کا زخم زبان کے زخم سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔۔اب تو پاؤں پاؤں چلنے لگا ہے ۔۔تیرا ہاتھ پکڑ کر گلشن انسانیت کی سیر کرنی ہے ۔۔تجھے ہر پھول کے بارے میں بتانا ہے ۔۔اس میں رشتووں کے پھول ۔۔دوستی کے پھول ۔۔شرافت احترام کردار کے پھول ۔۔قربانی خدمت اورایثارکے پھول۔۔بیوفائی حسد اور دشمنی کے کانٹے ۔۔عربت افلاس اور مجبوریوں کے کانٹے ۔۔لالچ حرس اور ہوس کے کانٹے ۔۔سارے کانٹے اور پھول تجھے دیکھانے ہیں اور ان کے بارے میں تجھے سمجھانا ہے ۔۔۔پھر تجھے بتانا ہے کہ تو بھی اسی گلشن کا ایک پھول ہے ۔۔تجھے قسم دلانا ہے کہ تو پھول بن۔۔ کانٹا نہ بن ۔۔تیرے کردار کی خوشبو سے یہ گلشن معطر ہو ۔۔اب تجھے سکول بھیجنا ہے تعلیم و تربیت کے ناخداؤں کے حوالہ کرنا ہے ۔پھر تیری ہر ضرورت پوری کرنی ہے ۔۔یہ لو وردی ٹوپی ۔۔یہ لو کاپی قلم ۔۔یہ لو کتابیں ۔۔پھر جیب خرچ۔۔تمہاری جیب کبھی نوٹوں سے خالی نہ ہو ۔۔ اگر ایسا ہوگا تو اپنے ساتھیوں کے سامنے بے حوصلہ ہو جاؤگے پھر تیرے اساتذہ کا احترام کرنا ۔۔پھر تیرے لیے خواب دیکھنا ۔۔لمحے لمحے تیری آنکھوں کا مطالعہ کرنا کہیں اس میں افسردگی نہ اترے ۔۔تیری خوراک پوشاک کا خیال رکھنا۔
پھر تیرے ہر ٹسٹ امتحان کے لئے کامیابی کی دعائیں کرنا ۔۔پھر تیرا لاپرواہ خود سر معرور ہونا اور میرا دل ہی دل میں کڑنا ۔۔دوسروں کے اچھے بچوں پہ رشک کرنا ۔۔یہ سب میری زندگی کے لمحے لمحے ہیں جو تیرے لئے خواب دیکھتے دیکھتے کٹ گئے ہیں ۔۔اب تو بڑا ہوگیا ہے ۔جب تیری تعلیم مکمل ہو جائے گی تو کبھی یہ نہ کہنا کہ مکمل ہوگئی ۔۔تو شریف بننا اپنی شرافت کو جتانا مت ۔۔تو عظیم بننا اپنی عظمت کی تشریح نہ کرنا ۔۔تو با صلاحیت بننا مگر اپنی بے صلاحیت ہونے کو بھولنا نہیں ۔تو خوبصورت اور قیمتی لباس پہننا مگر ان چیتڑوں کو مت بھولنا جو تمہارے ارد گرد لوگوں کے بدن پہ ہیں ۔۔تو قیمتی گاڑی میں بیٹھنا مگر اس ٹیکسی کو نہ بھولنا جس میں لوگوں کو ایک پاؤں رکھنے کی جگہ ہوتی ہے ۔۔تو آرام کرسی پہ بیٹھنا اور نرم بچھونوں پہ سونا مگر اس خالی فرش کو نہ بھولنا جو کسی مجبور کی قسمت میں ہوتا ہے ۔۔تو ایک بڑے دفتر میں چمکتی کرسی میں بیٹھنا مگر باہر اپنے انتظار کرنے والوں کا دھیان رکھنا ۔۔تو اپنے اختیارات استعمال کرنا مگر حق اور انصاف کی دولت ہاتھ سے نہ گنوانا۔۔تو بے شک قہقہے لگا کے ہنسنا مگر کسی مجبور کی مجبور ی ،کسی نادان کی نادانی ،کسی غریب کی غربت ،کسی تنہا کی تنہائی پہ نہ ہنسنا ۔۔زندگی مختصر، وقت بے وفااور خوشیاں آنی جانی ہیں ۔۔تو میری باتوں کا برا نہ منا نا۔۔۔بڑوں کی باتیں سچ ہوا کرتی ہیں ۔۔میرے منہ سے نکلے ہوے لفظ لفظ تیرے لئے سوغات ہیں ان کا احترام کرو گے ۔۔میرے چاند اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
3919

دھڑکنوں کی زبان ……….. شادی ایک عالم دین کی ‘‘…….محمد جاوید حیات ’’

Posted on

کائنات کی شہزادی خاتون جنت اور جنت کی خواتین کی سردار کے لئے فخر موجودات ﷺکے پاس رشتے آئے ۔۔محسن انسانیت ﷺ نے سکوت اختیار کیا پھر رشتہ پسند کیا ۔۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ بیٹی کے لئے مناسب رشتہ قبول کرنا اسلام میں ہے کائنات کی شہزادی کے رشتے کے موقع پر شیر خداؓ سے پوچھا گیا کہ ولیمے کے لئے کچھ ہے ۔۔جواب آیا کہ کچھ نہیں ہے ۔۔زرہ رہن رکھا گیا ۔۔ولیمے کا بندوبست ہوا ۔۔ہم اس کے پیروکار ہیں ہمیں اس بات پہ فخر ہے ۔۔یہ ہمارے ماڈل ہیں ۔۔ہمارے معاشرے میں جب رشتے ہوتے ہیں تو ہم یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ اس سمے ہمارے خدا کا کونسا حکم ہم پہ لاگو ہے ۔۔ہمارے بنی ﷺ کی کس سنت کا اتباع کرنا ہے ۔۔اس لئے ہمیں اس بے ہنگم شور اور بے ربط اجتماع میں وہ معیار ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔۔مرے محترم دوست اور بھائی کی شادی میں وہ معیار مجھے مل گیا ۔۔مولانا نثار احمد ایم فل سکالر ہیں اور دونوں علوم دین و دنیا سے خبر دار بھی ۔۔مرنجان مرنج ، ہنس مکھ ،زندہ دل ، صاحب وجاہت ،مہذب و محترم ،حلیم الطبع ،بذلہ سنج ،مونس ،صاف گو اور شگفتہ دہن ،با کردار ،اللہ کا کلام دل میں ۔۔نثار کی زات اور شخصیت کے اور حوالے بھی ہیں ۔۔ان کی شادی ایک عالمہ اور معلمہ سے طے پائی تھی۔۔مجھے پتہ نہیں کیوں یہ احساس ستانے لگا کہ اس شادی میں سنت رسول ﷺ کی پابندی ہوگی ۔۔خوشیاں اللہ کے دین کے مطابق ہونگی ۔۔معیار انسانیت جاگ اُٹھے گا ۔۔سنت نبوی ﷺ کی خوشبو ہر طرف پھیلے گی ۔۔دس دسمبر کو شادی کی تاریخ طے تھی ۔۔ہم سب مدعو تھے ۔۔دس بجے کاشانہ نثار چلے وہاں پہ مختصر نشست تھی معززیں علاقہ جمع تھے ۔۔علمائے کرام دوست احباب ساتھی رشتہ دار ۔۔ڈی ای او محکمہ تعلیم ا حسان الحق صاحب شمع محفل تھے اچھا لگا کہ ایک استاد کی خوشی میں محکمے کے سب سے بڑے آفیسر کا موجود ہونا اچھی روایت ہے ۔۔ گھنٹے بعد روانگی تھی ۔۔ہم مختصر قافلہ بنے ۔۔چند گاڑیاں چند گنے چنے معتبر لوگ ۔۔پروفیسر سیف الانام کے ساتھ میرا سفر ٹھرا ۔۔پروفیسر شاہد کے گھر جانا تھا ۔۔کوئی ہاؤ ہو نہیں کوئی شور شرابا نہیں ہر ایک کے چہرے پہ ہلکی سی مسرت ۔۔ایک سنت کا اتباع ۔ایک خوشی کی تکمیل ۔ایک فرض کا نباہ ۔۔خطیب شاہی مسجد مولانا خلیق الزمان ہما رے میزبان تھے ۔۔آپ کا بر خوردار مولانا خذیفہ خالیق ہمارے میزبان تھے ۔۔پروفیسر شاہد سفید ٹوپی میں چاند لگ رہا تھا ہمارے میزبان تھے ۔۔جب کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں پہ پھر علم و کردار کے چاند تارے جمع تھے ۔۔یہ تھے چترال کے جید عالم دین مولانا حبیب اللہ صاحب ۔۔یہ تھے حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ۔۔یہ تھے مولانا روم صاحب ۔۔یہ تھے اکاونٹنڈ قادر صاحب ۔۔یہ تھے پروفیسر سیف ۔۔ان کی خوبصورت باتوں ۔۔انداز ۔۔اور سنجیدگی سے ماحول معطر ہورہا تھا ۔۔یہ شہزاد ندیم محکمہ تعلیم چترال کے ایک فعال اور قابل آفیسر جس کی شخصیت کی خوشبو اپنی جگہ ۔۔۔شہزاد ایک نوجوان ،ایک عمل رو ،ایک جدت طراز ،ایک طرہ شناس ،پرگو مگر خاموش سمندر ،سوچ کی لو۔۔ سمجھنے کی حس سے مالامال ،کراری طبیعت ،کبھی کلمو کلمو کہنے کو ضروری نہ سمجھے ۔۔جو درست وہی راست ۔۔شہزاد اپنی زات میں انجمن ہیں مجھے آفس سے باہر بھی بہت بھلے لگتے ہیں ۔۔ یہ تھے چترال میں پولو کی دنیا کے شاہنشاہ صوبیدار میجر مقبول احمد۔۔ یہ تھے ریٹایرڈ صوبیدار محمد زمان صاحب جو نثار صاحب کے والد گرامی ہیں ۔۔ یہ ہیں محمد وسیم سابق پرنسپل ہائی سکول بمبوریت۔۔ یہ عزیزالرحمان ۔۔یہ ہیں شفیق احمد بمبوریت ۔۔۔۔ یہ ہیں شانی کیمرے کی دنیا اس سے آباد رہتی ہے ۔۔ یہ ہیں مختار احمد۔۔کتنے اور تارے تھے جو جلمل چمکتے تھے ۔۔ ایسی محفلوں میں بحثیں ہوتی ہیں ۔۔تکرار کے بعد توتکار تک نوبت پہنچتی ہے ۔۔مگر یاں پہ سما ہی کچھ اور تھا ۔۔۔ یوں زعفران زار محفلیں کبھی کبھی جما کرتی ہیں ۔۔جس میں محبت اور احترام خوشبو بن کر پھیل جائے ۔۔مختصر سی نشست اور پر تکلف ظہرانے کے بعد روانگی ہوئی ۔۔برات میں وہی شائستگی اور سادگی ۔۔سادگی اسلام کی روح ہے ۔۔خوشی غمی دونوں اسلام کی شان کے مطابق ہوں تب آسانیاں ہیں ۔۔اسلام دین فطرت ہے ۔۔ہم لوگوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی زندگی کو اپنے لئے عذاب بنا رکھا ہے ۔۔شادیوں میں دونوں خاندانوں کی خوشیاں شامل ہوتی ہیں ان خوشیوں میں اضافے کا نام شادی ہے کیوں کہ اس کو ’’خانہ آباد ی ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔۔آج ہم نے اسی خوشی کو اپنے لئے عذاب بنا رکھا ہے ۔۔جہیز کا عذاب ۔۔ولیمے کا عذاب ۔۔اونچ نیچ کا عذاب ۔۔زات پات کا عذاب ۔۔خاندان کا عذاب ۔۔انہی عذابوں میں کتنی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں ۔۔اگر عین اسلامی شادی ہو تو کبھی کسی کی شان اور مقام پہ فرق نہیں آئے گا ۔۔بلکہ اس میں اللہ کی مدد شامل ہوگی اور سنت رسول ﷺ کی پیروی سے دنیا و آخرت میں سرخروئی ہوگی ۔۔نثار کی شادی اسلامی تھی اس لئے مزہ آیا ۔۔یوں اور بھی سادہ ہونا چاہئے ۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
3239

دھڑکنوں کی زبان …………. مجھے متاثر کیا ۔………… محمد جاوید حیات

Posted on

شہید اسامہ وڑائچ چترال کے ڈی سی تھے ۔۔بہت تھوڑے وقت میں اتنے سارے کام کر گئے کہ اب اس کو ایک احساس ایک وژن ایک تحریک اور ایک معیار کا نام دیا جا رہا ہے ۔۔اس کی یادیں ان کی باتیں ان کی خدمات کو چترال کا ذرہ ذرہ خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔۔ان کی خدمات میں اُسامہ کیریر اکیڈیمی کا قیام ایک بڑا کار نامہ تھا ۔۔جو چترال کے نوجوانوں کے لئے ایک تحفے سے کم نہیں۔صرف ایک سال میں اس اکیڈیمی سے دو بچے آغا خان میڈیکل کالج کے لئے کوالیفائی کر گئے اور ایک بچی نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخہ لیا ۔۔اس اکیڈیمی نے سائنس اینڈ آرٹ نمائش کا اہتمام کیا تھا ۔۔نمائش جی سی ایم ایچ سکول چترال کے ہال میں کیا گیا تھا ۔۔تمام مشہور پبلک سکول اور کالجوں کے علاوہ سرکاری سکولوں اور کالجوں نے بھی بھر پور حصہ لیا تھا ۔۔دو دن کی نمائش میں بچے بچیوں نے اپنی صلاحیتیں منوائیں خاص کر سرکاری کالجوں اور سکولوں کے بچے بچیاں نما یاں رہے ۔۔نمایاں وزیٹرز میں پی ٹی آئی کے ضلعی صدر جناب عبدالطیف صاحب اور جناب رحمت غازی صاحب نے خصوصی طور پر نمائش کا دورہ کیا اور بچوں کی حوصلہ افزائی کی ۔۔باقی لیڈر وں نے اس نمائش کو کوئی اہمیت نہیں دی جس سے ان کی لیڈر شپ کی تعلیم اور نوجوان نسل سے محبت کا پتہ چلتا ہے ۔۔سائنس اور آرٹ میلہ میں مختلف اعلی تعلیمی اداروں کے بچے شریک تھے ان میں کالجوں اور سکولوں کے بچے بڑھ چڑ کر حصہ لے رہے تھے ۔۔اس میلے میں سرکاری سکولوں نے شرکت کی تھی یہ معاشرے میں موجود اس طبقے کے لےئے حیرانگی او ر اچھنبے کی بات تھی کہ سرکاری سکولوں کے بچوں میں یہ قوت پرواز کہاں سے آگیا کہ وہ ایف سی پی ایس ،آغا خان ہائر سکینڈری سکول ،چترال پبلک سکول ،چترال ماڈل سکول وغیرہ اداروں کے شاہینوں کے مقابلے میں آئیں۔۔میں جب جی سی ایم ایس چترال کے تاریخی ہال میں داخل ہوا ۔۔تو ہال کے اندر ایک اور دنیا آباد تھی ۔۔منتظمیں نے لاوڈسپیکر پہ میرے آنے کا اعلان کیا ۔۔میں ششدر رہ گیا کہ انھوں نے ایک ناچیز کو اتنی اہمیت دی ۔۔جی سی ایم ایچ ایس کے میرے شاگرد دوڑ کر میرے سینے سے لگے ۔۔میں دوڑ کر اپنے شاگردوں کے پاس پہنچا ۔۔پراجیکٹ لگا ہوا تھا ۔۔چارٹ پہ گورنمنٹ ہائی سکول بمبوریت لکھا ہوا تھا ۔۔میں نے اپنے بچوں کو دل سے لگایا ۔۔قاضی واحد اللہ جو اس پروجیکٹ کا ڈایریکٹر تھا ۔۔مجھے تفصیل بتا دی ۔۔پھر میں نے مختلف پراجیکٹو ں کا دورہ کیا ۔۔چترال کے پیارے پیارے بچے بچیاں اپنے اپنے پراجیکٹوں کے ساتھ کھڑے تھے ۔۔آنکھوں میں چمک ،دل میں جذبہ، حرکات میں تجسس ۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ہال آکاش ہے یہ سب ہمارے مستقبل کے روشن ستارے ہیں ۔۔انھوں نے ایک حسین دنیا آباد کر رکھے تھے ۔۔ان کی معصومیت ان کا پیار بھر ا لہجہ ، ان کا بھولپن ۔۔جی چاہتا تھا کہ یہاں ہی رہا جائے ۔۔منتظمین نے چار پراجیکٹ جائزے کے لئے میرے حوالے کیا ۔۔یہ سب آرٹ اور ڈرائینگ کے پراجیکٹ تھے ۔۔میرے ساتھ جے کے سریر اور تھے ۔۔میں جب گورنمنٹ زنانہ ڈگری کالج کی بچیوں کے پراجیکٹ میں پہنچا تو ان کے سکیچ نے مجھے بہت متاثر کیا ۔۔انھوں نے پوری زندگی کو اپنی پنسل کے ذریعے کاغذوں پہ ڈال چکی تھیں ۔۔یہ تھیں سومہ تہرین ،زینب نور،حفصہ سجاد ۔۔سوال کرنے پہ بتائے کہ وہ وفا ۔۔زندگی کی رنگینیوں ۔۔تہذیب و ثقافت ۔۔۔صحت۔۔نزاکت ۔۔عورت کی خوبصورتی ۔۔شاستگی اور فطرت کی خوبصورتی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔فطرت میں کونسی چیز بہت خوبصورت لگتی ہے تمہیں ۔۔۔اس سوال پہ سب کے جوابات روایتی تھے ۔۔کسی نے کہا ۔۔پھول ۔۔کسی نے دریا کہا ۔۔کسی نے موسم کا حوالہ دیا ۔۔کسی نے رنگ ۔کسی نے ابشار جھرنا کہا ۔۔میرے غیر منطقی خاموشی پہ ایک بچی نے تھوڑا غصہ میں استفسار کیا کہ سر ! خاموش کیوں ہو تمہیں نیچر کی کونسی خوبصورتی پسند ہے ۔۔۔میں نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا شاید وہ میری انکھوں میں اُترے ہوئے جذبے سے سہم سے گئے ۔۔میں نے کہا ۔۔بیٹا !آپ کے گھروں میں چھوٹے بچے ہیں کہ نہیں سب نے یک زبان ہو کر بڑے اشتیاق سے کہا ۔۔ہاں سر!چھوٹے بہن بھائی ۔۔اف سر! نواسے نواسیاں ۔۔بھتیجے ۔۔ اف سر! ہم سمجھ گئے پلیز !ان معصوم انکھوں میں جو خوبصورتی ہے کہیں نہیں ۔۔ہاں بیٹا ! گلشن انسانیت کے پھولوں سے خوبصورت فطرت کی کونسی چیزہے جن کو تم خوبصورت کہتے ہو ۔۔ایف سی پی ایس کی کیلی گرافی اور چترال پبلک سکول اور کالج کی پینٹنگ نے بہت متاثر کیا ۔۔ اُسامہ شہید کیریر اکیڈیمی کی طرف سے دو بچیوں نے چند پینٹنگ لے کے میلہ میں شامل تھیں ۔ان سے ملا تو اُسامہ بہت یاد آیا ۔۔ان کی آنکھوں میں اُسامہ کی یادیں تھیں ۔۔مقابلے ختم ہوئے ۔۔ٹینس گراونڈ میں اجتماع جم گیا ۔۔مہمان خصوصی اے سی جناب عبد الا کرم صاحب تھے ۔۔صدارت ڈی ڈی او محکمہ تعلیم جناب ممتاز محمد وردگ فرما رہے تھے ۔۔سٹیج پہ پروفیسر عظمی شیر ، پرنسپل ایف سی پی ایس ، ایکاونٹنٹ چترال سکاؤٹ ، اورگورنمنٹ سکول کا ایک استاد بیٹھے ہوئے تھے ۔۔اُسامہ وڑائچ کیریر اکیڈیمی کے پروفیسر تنزیل نے اکیڈیمی کی تاریخ ،شہید اُسامہ کی خدمات اور اس سائنس اور آرٹ میلہ کی تفسیل بتا دی ۔۔ایف سی پی ایس کے پرنسپل رحیم اللہ صاحب نے خطاب کیا ۔۔کسی سرکاری ادارے کے استاد کو دو منٹ بات کرنے کی دعوت نہیں دی گئی۔۔ شاید ۔۔اُستاد کی اہلیت اڑے آئی یا یوں سمجھا گیا کہ اتنی بھری محفل میں کسی سرکاری سکول کا اُستاد بات نہیں کر سکتا ۔۔ بہر حال سٹیج پہ جو اردو بولی جا رہی تھی ۔۔سن سن کر سرکاری سکول کا اُستاد سر جھکائے بیٹھا تھا اور شاید غالب کی روح قبر میں بے چین ہوگی ۔۔مقابلوں کا اعلان ہوا تو اسی سرکاری سکول جو پسماندہ علاقے کا کہا گیا نے کمسٹری کا پروجیکٹ جیت کر یہ ثابت کیا کہ جیت کسی کا بھی مقدر ہوسکتی ہے ۔۔سرکاری سکولوں میں گورنمنٹ ہائی سکول بمبوریت نے کمسٹری میں پہلا انعام حاصل کیا ۔۔گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج نے سکیچ میں پہلا انعام جیتا ،ہائی سکو ل بلچ ،ہائی سکول بونی ،گرلز ہائی سکول موڑدہ نے انعامات جیتے ۔۔مرد قلندر اقبال نے کہا تھا
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مہمان خصوصی نے اپنی تقریرمیں اساتذہ کی تعریف کی ۔۔اتنا اور کہنا چاہیے تھا کہ اصل اساتذہ وہ ہیں جو سرکاری اداروں میں ان بچوں کو پڑھاتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں جن کا کوئی پوچھتا نہیں وہاں پہ کوئی میرٹ نہیں ۔۔ملک میں ایک جیسا نصاب نہیں ایک جیسا نظام نہیں ۔۔اس لئے آج بھی گورنمنٹ کے اساتذہ کو دوسری صف میں جگہ دی جاتی ہے ان کو پہلی صف میں جگہ کب ملے گی ۔۔
عضب ہے پھر تیری نھنی سی جان ڈرتی ہے
تمام رات تیری کانپتے گذرتی ہے

صدر محفل نے گورنمنٹ کے اداروں کی کارکردگی کو سراہا ۔۔آپ نے سکولوں میں بہتری کا ذکر کیا سہولیات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ انشااللہ بہت جلد سر کاری اداروں میں میرٹ پہ داخلہ ہو گا ۔اور لوگ آرزو کرینگے کہ ان کے بچے کسی سرکاری ادارے میں پڑھیں۔۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged ,
2335

دھڑکنوں کی زبان ……….شاہناز قوم کی ایک درد مند بیٹی……….محمد جاوید حیات

Posted on

بمبوریت سیاحوں کے لئے ایک خواب نگر ہے ۔۔یہاں کی کلاش کلچر جو دنیا کی منفرد ترین تہذیب ہے لوگوں کو ادھر کو کھینچ لاتی ہے ۔۔یہاں پہ روز روز مختلف قسم کے لوگوں سے ملا قات ہوتی ہے ۔۔ ان کے بارے میں رائے قائم کیا جاتا ہے ۔۔ان میں سے بہت کم لوگ احساس کے در کھڑکاتے ہیں اور پھر یادوں کی کتاب میں اپنے صفحے چھوڑ جاتے ہیں وہ پھر یاد نہ بھی کریں مگر ان کی یادیں خوشبو بن کر مشام جان معطر کرتی رہتی ہیں۔۔ شاہناز ان میں سے ایک ہیں جو تیس منٹ کی مختصر ملاقات میں ایک ملن کا احساس دلا کے چلی گئیں ۔۔میں اپنے سکول میں اپنی کسی کلاس میں تھا ۔۔کلاس فور نے آکر کہا کہ سر آپ کے دفتر میں ملاقاتی ہیں ۔۔میں دفتر میں داخل ہوا تو دو مہمان خواتین بیٹھی ہوئیں تھیں ۔۔تعارف کرائے تو ایک بشری تھیں اور ایک شاہناز تھیں ۔۔اسلام آباد سے آئیں تھیں ۔۔خدمت خلق مشن تھا ۔۔فلاحی کاموں میں بڑھ چڑ کر حصہ لیتی تھیں ۔۔شاہناز کی باتوں سے اپنایت کی خوشبو آرہی تھی ۔۔مذید تعارف سے پتہ چلا کہ شاہناز ہنزہ گلگت کی بیٹی تھی اور اسلام آباد میں رہتی تھیں شہناز اختر کی پیدائش علی آباد ہنزہ میں حبیب اللہ بیگ کے ہاں ہوئی ۔۔آپ نے ایف ایس سی تک آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول ہنزہ میں تعلیم حاصل کی ۔۔اعلی تعلیم قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی ۔ آپ نے یہاں سے انتھروپالوجی میں ایم اے کیا ۔۔اب ان کی ایم فل آخری مرحلے میں ہے ۔۔شاہناز کو پڑھنے پڑھانے سے جنون کی حد تک شوق ہے ۔۔ وہ جب ہنزہ اپناآبائی گھر آتی ہیں تو گاوں کے بچے بچیوں کو جمع کرکے ان کو پڑھاتی ہیں ۔۔وہ مختلف سکولوں اور کالجوں میں ایک رضاکار کے طور پر پڑھاتی رہی ہیں ۔۔ان کا صرف ایک خواب ہے وہ یہ کہ قوم کے بچوں خاص کر بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔۔وہ مستحق بچوں کی تلاش میں رہتی ہیں ۔۔ان کا کہنا ہے کہ ان کا ماڈل ان کے ابو ہیں جو خود بھوکے رہیں گے مگر دوسروں کو کہلاتے ہیں ۔۔یہ جملہ کہتی ہوئی ان کی آنکھوں میں چمک اتر آئی کہ ۔۔۔’’سر جی!جب ابو تنخواہ لیتے ہیں تو اس روز بہت دیر سے مگر مطمین گھر آتے ہیں ہم سب سمجھتے ہیں کہ آج ابو کو تنخواہ ملی ہوگی اور آپ دیر تک یہ تقسیم کرتے رہے ہونگے ‘‘شہناز فلاحی کاموں میں حصہ لینے کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہیں ۔۔انھوں نے بہت سارے تنظیمی اداروں میں کام کیا ہے ۔۔ان میں یو ایس ایڈ ،ایف پی پی اے اور دوسرے پرایویٹ تعلیمی ادارے شامل ہیں ۔۔ان کو مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا وسیع تجربہ ہے ۔۔ان کا خواب ہے کہ ایک یتیم خانہ بنائے اور وہاں پر مستحق بچوں کو رکھے ان کی پرورش کرے ان کی تربیت کرے اوران کو اعلی تعلیم دلائے ۔۔۔خواب ہر کوئی دیکھا کرتا ہے مگر ان کی تعبیرکی جدو جہد بہت کم لو گ کرتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی کوششوں کے بارآور ہونے کا یقین نہیں ہوتا ۔شاہناز کی باتوں سے خلوص کی خوشبو آرہی تھی ۔۔خدمت خلق کا جذبہ کوئی معمولی جذبہ نہیں ہوتا ۔۔وہ لوگ جو دوسروں کے لئے جینے کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے ہیں وہی امر بن جاتے ہیں وہی درد دل رکھتے ہیں اور گلشن انسانیت کی خوشبو وہی ہوتے ہیں ۔۔شہناز اپنے ساتھ بچوں کے لئے گفٹ لےئے پھرتی ہیں ۔۔جب ان کو تخفہ پیش کرتی ہیں تواس کو ایک طمانیت کا احساس ہو تا ہے ۔۔انھوں نے بچوں کے لئے کھیلوں کے سامان ،پنسل بال پائنٹ ارو دوسرے تخفے لائی تھی ۔۔اس کی انکھوں میں یہ سوال بار بار اٹھتا تھاکہ تم اس پسماندہ علاقے میں فلاح کے کیا کیا کام کرتے ہو ۔۔سوال زبان پہ نہیں لائی سوال التجا بن گیا ۔۔پلیز سر ! اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہان میں
ہے زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا
اس سمے شہناز عزم کی چٹان لگی ۔۔زندگی بڑا سر پھیرا ہے ۔۔یہ لمحوں کی گنتی ہے ۔۔اگر ان لمحوں کی اہمیت کو سمجھا جائے تب زندگی قیمتی بن جاتی ہے ۔۔کم وقت میں زیادہ کا م کیا جاسکتا ہے ۔۔ماضی لپیٹا جا سکتا ہے ۔۔حال کے ہاتھ میں ہاتھ دیا جا سکتا ہے ۔۔مستقبل کو خوش آمدید کیا جاسکتا ہے۔۔شہناز پہاڑوں کی شہزادی ہے ۔۔پہاڑوں جیسی عزم و ہمت ہے ۔۔اقبال نے تڑپ کر ان جیسوں کو مرد کوہستانی کہا تھا ۔۔جو قوم لالہ سحرائی بن جائے اس کو تن اسانی راس آتی ہے ۔۔اس کے پاس آگے بڑھنے کے لئے ہمت نہیں ہوتی ۔۔شہنا زپھول ہے لالہ سحرائی ہے لیکن اپنا بسیرا چٹانوں پہ رکھی ہے ۔۔بمبوریت کی اس سنگلاح وادی میں کہکشان سے ہوتے ہوئے آنا اور ایک آرزو لے کے آنا معمولی بات نہیں ۔۔شہناز جب اپنی آرزو بیان کر رہی تھی تو مجھے بہت اچھی لگی ۔۔ میں نے سوچا کہ شہناز کے عزم کوالفاظ کا جامہ پہنایا جائے۔۔تاکہ بہت اچھا کو اچھا کہنے کا قرض ادا ہو ۔۔اور چھوٹے قلم کار کو اطمنان ہو کہ انھوں نے بھلائی کے کام میں مدد کی ۔۔جو قران کی رو سے تعاون ہے ۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2062

دھڑکنوں کی زبان ………. قیامت کا نامہ ………محمد جاوید حیات

Posted on

کاش میرے پاس الفا ظ ہوتے ۔۔کاش میرے الفاظ میں اتنی طاقت ہوتی کہ اس کی محبت کے سمندر کو سمیٹ سکتے ۔۔کاش میرے الفاظ میں اتنی خوشبو ہوتی کہ اس کے وجود کو خوشبو سے بھر دیتے ۔۔کا ش میرے الفاظ میں اتنی روشنی ہوتی کہ اس کے رُخ انور کو چمکا دیتے ۔۔کاش میرے الفاظ کی اتنی خوبصورت آواز ہوتی کہ صبح وشام اس کے حسن کے گیت گاتا ۔۔کا ش میرے الفاظ تتلیاں ہوتے ۔۔تو پر پھیلا کے اس کے گلاب چہرے کا طواف کر تے ۔۔کاش میرے الفاظ خواب ہو تے تو اس کی نیند میں آتے ۔۔کاش میرے الفاظ نیند ہوتے تو اس کی پیاری آنکھوں میں آرام کرنے آتے ۔۔کاش میرے الفاظ خوبصورت موسم ہوتے ۔۔اس کے گاؤں میں آتے اس کو مجھ سے پیار ہوتا ۔۔کاش میرے الفاظ اس کے الفاظ ہوتے ۔۔وہ بہت خوش ہوتا کہ اس نے خط نہیں لکھا بلکہ الفاظ کا موتی پرویا ہے ۔۔اس نے مجھے خط لکھا ۔۔اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ۔۔اس کے پیارے دل نے یہ الفاظ سوچا ۔۔ اس کی پیاری زبان سے یہ ادا ہوئے ۔۔اور اسکی پیاری انگلیوں نے وہ خوش قسمت قلم پکڑی ہونگی ۔۔اور اس کی پاکیزہ محبت الفاظ بن کر کاغذ پہ بکھر گئی ہوگی ۔۔اس نے لکھا ہے کہ اس کو مجھ سے محبت ہے ۔۔اس کو میری محبت کی ضرورت ہے ۔۔مجھے اس کے بھول پن پہ بہت پیار آیا ۔۔میرا جی بھر آیا ۔اگر یہ دل نکال کے دینے کی چیز ہوتی تو میں یہ نکال کے اس کے سامنے رکھتا اور کہتا ۔۔۔یہ لو میرے چاند ۔۔ دل تمہارے سامنے رکھا ۔۔یہ جان اس کے کام آتی تو ہزار بار قر بان کر دیتا ۔۔میں اس کو کیسے یقین دلاؤں کہ مجھے اس سے اس سے بھی زیادہ محبت ہے ۔۔وہ میری روح میں سمایا ہوا ہے مری روح کی تازگی اس سے وابستہ ہے ۔۔وہ سحاب بن کر میری بنجر آرزووں پر برستا ہے ۔۔وہ خوشبو بن کر میرے مشام جان کو معطر کرتا ہے ۔۔وہ پھول بن کر میری حیات کے چمن کو نکھارتا ہے ۔وہ چاند بن کر میرے آکاش کو خوبصورت بناتا ہے ۔۔وہ یاد بن کر میرے ماضی کو صورت بخشتا ہے ۔۔وہ اُمید بن کر مجھے جینا سیکھاتا ہے۔۔وہ میرے دنوں کی اُلٹ پھیر ہے ۔۔وہ میری ساعتوں کی خوشگواری کا ضامن ہے ۔۔وہ میری صبح کی ٹھنڈک ہے ۔۔وہ میری شام کا سہانا پن ہے ۔۔وہ میری راتوں کی خاموشی ہے ۔۔وہ مرے دنوں کی ہل چل ہے ۔۔وہ میری زندگی ہے ۔۔وہ میری دنیا ہے ۔۔وہ میرے لئے کھلی کائنات ہے ۔۔اس نے اپنی چھوٹی سی پاکیزہ محبت الفاظ بنا کر کاغذ میں محفوظ کیا ہے ۔۔اور لا کے میرے سامنے رکھا ہے ۔۔میں ان الفاظ کی قیمت لگا تا ہوں تو ہر ہر لفظ میرے لئے میری جان سے بھی زیادہ قیمتی ہے ۔۔میں ان کی قیمت کیسے ادا کروں ۔۔میں ان کو اپنی محبت کے ساتھ تولتا ہوں تو ہر ہر لفظ میری پوری محبت سے بھاری ہے ۔۔اور وہ بہت سارے الفاظ ہیں ۔۔اب میں اس کو یقین دلانے کے لئے اپنے الفاظ پرکھتا ہوں تو کوئی لفظ اس کو یقین دلانے کے لئے مناسب مجھے نہیں ملتا ۔ میں کیا کروں۔۔ اس کو اپنی جان کہوں ۔۔تو جان آنی جانی ہے اس کا اعتبار ہی کیا ۔۔میں اس کودل کہوں تو دل دھڑکتا ہے ۔۔دھڑکنوں کا کیا رُک بھی سکتی ہیں ۔۔۔اس کو اپنی روح کہوں ۔۔روح بدن سے کسی بھی وقت بے وفائی کر سکتا ہے ۔۔زندگی کہوں تو زندگی کا نٹوں کا سیج ہے ۔۔میرے پاس الفاظ کہاں ہیں ۔۔نہیں ہیں ۔۔اس کی محبت کے اظہار کے جواب کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔۔اس نے لکھا ہے کہ اس کو میری محبت کی ضرورت ہے اس کو کیسے سمجھاؤں کہ جتنی اس کی محبت کو مجھے ضرورت ہے اس کو میری محبت کی اتنی ضرورت کہاں ہے ۔۔وہ میری روح ہے ۔۔روح بدن سے تو جدا نہیں ہوسکتی ۔۔وہ کہتا ہے کہ وہ مجھے خوش دیکھ کر خوش رہتا ہے اور افسردہ دیکھ کر آفسردہ ہوتا ہے ۔۔میں کوشش کروں گا کہ کبھی اسکے سامنے افسردہ نہ ہو جاؤں ۔۔خوش رہنے کا بہانا کروں ۔۔پھر اس کے سامنے سے ہٹوں تو رورو کر دل کا بوجھ ہلکا کروں ۔۔پھر دل کی تختی پہ اس کا نام آنسووں سے لکھ کر اس کا طواف کروں ۔۔اس نے لکھا ہے کہ اس کو مجھ سے محبت ہے۔۔۔ اس کو محبت کی آگ میں جلنے کا تجربہ نہیں اس لئے وہ مجھے اپنی محبت کی شدد کا یقین کس طرح دلائے ۔۔اس کا دل صرف دھڑکا ہوگا ۔ایک بار یا ایک سے زیادہ بار ۔۔اس کے دل کے ہزار ٹکڑے کہاں ہوئے ہونگے۔۔وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا ۔۔اس نے مجھے ایک محبت نامہ لکھا ہے ۔۔اور مجھے امتحان میں ڈالا ہے کہ میں اس کے محبت نامے کا جواب لکھ سکوں گا کہ نہیں ۔۔۔میں نہیں لکھ سکوں گا ۔۔اگر مجھے الفاظ ملیں گے بھی تو وہ خوشبو کہاں سے لاؤں گا جو اس کے الفاظ میں ہیں ۔۔وہ بھول پن کہاں سے لاؤں جو الفاظ بن کے کاغذ پہ نکھرے ہوئے ہیں ۔۔یہ چند الفاظ میری زندگی کے سوغات ہیں ۔۔میں سوچتا ہوں ۔۔یہ دولت کہاں چھپا کے رکھوں ۔۔اس کا خط ۔۔اس کا محبت نامہ ۔۔اس نے اس لکھنے کے سمے کو ’’ یادگار لمحہ ‘‘ کہا ہے ۔۔میں اس کے یادگار لمحوں کوکہاں محفوظ کرکے رکھوں ۔۔یہ ساری کائنات بھی مجھے حوالہ کیا جائے تو اس کو رکھنے کے لئے میرے پاس جگہ نہ ہوگی ۔۔میں ڈرتا ہو ں کہ کوئی اس کو دیکھ نہ لے پڑھ نہ لے۔۔میں اس کو پوری کائنات کی نظروں سے چھپا کر کہاں لے جاوءں ۔۔میں چاہتا ہوں کہ اپنا سینہ چیر کر اس محبت نامے کو اس میں چھپا کے رکھوں جس طرح چاہتا ہوں کہ وہ جو میری روح میں سمائی ہوئی ہے کبھی کسی کی نظروں کے سامنے نہ آجائے ۔۔مگر یہ میرا خواب ہے ۔۔وہ سب کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے ۔۔ساری نگاہیں اس کا طواف کرتی ہیں ۔۔میں جل کر راکھ ہو جاتاہوں ۔۔میں اس کو کسی کی آنکھوں سے نہیں چھپا سکتا ۔۔البتہ اس کا یہ محبت نامہ چھپانے کی فکر میں ہوں ۔۔اللہ اس کی پاکیزہ محبت کو شاداب رکھے ۔۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
1188

دھڑکنوں کی زبان ……..’’ خداوندان مکتب اور شاہین بچے‘‘………محمد جاوید حیات

Posted on

شادی کی تقریب تھی ۔۔مسکراہٹیں قہقہوں میں بدل گئی تھیں ۔۔بھانت بھانت کے لوگ تھے ۔۔وکیل ۔۔ڈاکٹرز ۔پولیس آفیسرز ۔پروفیسرز ۔مختلف محکموں کے نوجواں ذمہ دار ۔۔این ٹی ایس میں آئے ہو ئے نوجوان اساتذہ ۔۔ان کی قہقہوں میں ،میں محو سا ہو گیا تھا ۔۔مگر ان کی گپ شپ سے اتنا شور اُٹھ رہا تھا کہ کوئی بات سنائی نہیں دیتی تھی۔۔ہم تو کلاس میں خاموش بیٹھے رہتے ۔۔ماں کہتی کہ کوئی بات کر رہا ہو تو خاموش رہا کر ۔۔یا اللہ یہ اعلی ٰ تعلیم یافتہ لوگ ۔۔یہ تو شور مچا رہے ہیں ۔۔یہ تو ’’مچھلی ‘‘بازار ۔۔ایک زہر بھری ہنسی چہرے پہ پھیل جاتی ہے ۔۔ان کے اساتذہ ۔۔یہ تو اپنے اساتذہ کا حوالہ دیتے ہیں ۔۔فلانا ’’سر ،،میم ،،۔۔شور مچاتے ۔۔میم۔۔ سر ۔۔ کیا کبھی کسی ’’میم‘‘ یا’’ سر ‘‘نے ان سے یہ نہیں کہا کہ میں بات کر رہا ہوں۔۔ آپ ذرا خاموش ہو جائیں ۔۔وہ آنکھوں میں اُترا ہوا احترام جو بڑھوں بزرگوں کے لئے ہو تا تھا ۔۔وہسانسوں میں اُترا ہوا پیار جو اپنوں کے لئے ہوتا تھا ۔۔وہ دل میں پیدا ہوئی شفقت جو چھوٹوں کے لئے ہوتی تھی ۔۔وہ کہاں گئیں ہیں ۔۔وہ کلاس روم میں ہوتی تھیں ۔۔استاد سراپاکردار ہوا کرتا تھا ۔۔ان کی’’ میموں ‘‘اور ’’سروں ‘‘نے تو ان کو شور مچانا سیکھایا ہے ۔۔یہ تو دوسروں کی بات نہیں سنتے ہیں ۔۔یہ صرف اپنا سناتے ہیں ۔ان کی دلیلیں ۔۔ان کی تشریحات ۔۔ان کا علم اس شور میں کہیں گم ہو جاتا ہے ۔۔ہمارے زمانے میں سکول تربیت کی جگہ ہو تی تھی ۔۔ہم سکول جاتے اس کے گیٹ میں پہنچ جاتے تو ایک خوف ساطاری ہوتا ۔۔استاد کا خوف ۔۔تربیت کا خوف ۔۔کام کا خوف ۔ہم اپنے کپڑے درست کرتے ۔۔اپنی حرکتوں پہ قابو کرتے ۔۔ہنسی روکتے ۔۔نگاہیں نیچی رکھتے ۔۔ہماری خوفزدہ نگاہیں استاد کو ڈھونٹیں ۔۔استاد نے کہا ہے۔۔ آرام سے اپنی کلاس میں بیٹھو ۔۔ہم پھر حرکت نہ کرتے ۔۔ہمیں پھر استاد کی بات کا ۔۔استاد کے حکم کا اور استاد کے عمل کا انتظار رہتا ۔۔احترام کی ایک چھتری تھی جس کے نیچے ہم پرورش پاتے ۔۔کتابوں میں موجود عبارتوں ،فارمولوں ،دلائل،تشریحات،تاریخ اور معلومات کی اتنی اہمیت نہیں تھی جتنی تہذیب ،ترتیب ،انداز،افکار ،محبت ،احترام ،اقدار ،اور اخلاق و کردار کی اہمیت تھی ۔۔شکایت اس بات پہ کم ہوتی تھی کہ بچے نے گھر کا کام نہیں کیا ہے ۔۔البتہ اس بات کی شکایت ہوتی تھی کہ اس نے کسی کو طعنہ دیا ۔۔ایک دوسرے کو بر اکہا گیا ۔۔ایک دوسرے سے جھوٹ بولا گیا ۔۔ان سب تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دیکھ اور سن کر مجھے اپنا وہ زمانہ یاد آیا اور سوچنے پہ مجبور ہوگیا کہ کیا خداوندان مکتب اپنی وہ تربیت اور انداز چھوڑ گئے ہیں یا تعلیم و تربیت کا انداز ہی بدل گیا ہے ۔۔تعلیم تو تربیت سے ثانوی چیز ہے ۔۔آج بچوں کی یہ آزادی ،یہ بے راہ روی ،یہ اکڑ دیکھ کر لگتا ہے کہ اداروں میں استاد کی وہ روایتی تربیت وہ اخلاق و کردار کی تعلیم کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہم بحیثیت قوم اپنے اقدار کھوتے جا رہے ہیں ۔۔ہمارے بچے پہلے گھروں میں تربیت پاتے پھر سکول سے تربیت حاصل کرتے تھے ۔آج گھروں میں دولت نے بچوں اور والدیں دونوں کو اندھا کر دیا ہے ۔بچے کے جی میں جو آئے والدیں پورا کرتے ہیں ۔۔ان کی ہر بری بھلی خواہش پوری ہوتی ہے ۔۔پھر بری پہ قدغن کوئی نہیں ۔۔اسی کو بچوں کی آزاد روی اور حوصلہ کہا جاتا ہے ۔۔ان کو ان روایات اور تہذیب کا سبق نہیں پڑھایا جاتا جو ایک قوم کی حیثیت سے ہماری پہچان ہے ۔۔قومی زبان ،قومی لباس ،قومی شناخت ،قومی روایات ہمارے نزدیک فضول سی چیزیں ہیں ۔یہ نہ ہماری تعلیم و تربیت کا حصہ ہیں نہ ان کو سیکھنا ،اپنانا ہمارے لئے ضروری ہے ۔۔ملک و قوم سے محبت، سچ اور صداقت کی حمایت ،آپس میں محبت احترام ،روایات کی پاسداری والدیں اور بزرگوں کی توقیر ،قانون کی پابندی ،مفید شہری ہونے کے اصول یہ سب تعلیم بلکہ اصل تعلیم ہیں ۔۔نہ والدیں کو ان سب کی فکر ہے نہ خداوندان مکتب کو ان کی فکر ہے ۔۔ہم بے شک مادی طور پہ آگے بڑھیں مگر اخلاقی طور پہ جتنا پیچھے جائیں اتنا ہماری نجات ہے ۔۔خداوندان مکتب شیروں کی تربیت بھی کر سکتے ہیں گیدڑ بھی پالتے ہیں صداقت کی چٹان بھی بنا سکتے ہیں جھوٹ کا شیش محل بھی تعمیر کر سکتے ہیں جس کے باہر رنگینیاں ہو ں اور اندر اندھیرا ۔۔یا اندر فانوس روشن ہوں اور باہر اندھیرا ۔۔خداونداں مکتب کو چاہیئے کہ ان صداقتوں کا حوالہ ہوں تب وہ معمار کہلانے کا حق رکھتے ہیں ورنہ تو خاکم بدہن مسمار کہلایں گے جس کا خمیازہ قوم اٹھائے گی۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
914

دھڑکنوں کی زبان ………. میر کارواں زندہ باش۔۔ محکمہ تعلیم چترال……محمد جاوید حیات

Posted on

وقت اگر ظالم نہیں نہ سہی ۔۔مگر یہ کسی کو معاف نہیں کرتا ۔۔اگر کوئی اس کے تقاضے نہ سمجھے تو اس کی رفتار کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتا ۔۔اور اگر کوئی اس کی رفتار کے ساتھ سفر نہ کرے تو اتنا پیچھے رہ جاتا ہے کہ راستے ہی میں کہیں مٹ جاتا ہے اور اپنا نام و نشان کھودیتا ہے ۔۔آج سے صرف ایک قرن(چھتیس سال) سال پہلے ہی تعلیم کے جو تقاضے تھے۔۔وقت کی جو رفتار تھی۔ وہ آج نہیں ہے بلکہ وقت پر لگا کے اڑ رہا ہے ۔۔پل پل تقاضے بدل رہے ہیں ۔۔مناظربدل رہے ہیں ۔۔کاروان علم و عمل بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔۔اقدار بدلے ہیں ۔۔زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے ۔۔انسان نصف مشینی ہے ۔۔پرواز بلند ہے ۔۔برتری ہے ۔۔ترقی کی دوڑ ہے ۔۔دنیا کی قومیں ریس کورس میں اپنی پوری قوت سے اُتری ہیں ۔۔دن رات کام ہورہا ہے ۔راتوں رات نئی ٹیکنالوجی متعارف ہو رہی ہے ۔۔جو اس ٹیکنا لوجی سے متعارف نہیں وہ ان پڑھ تصور ہو تا ہے ۔۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک خداداد میں تعلیم کے ان تقاضوں میں تضاد ہے ۔۔حکومتی تعلیمی ادارے جو عام عوام اور غریبوں کو ’’ تعلیم یافتہ ‘‘ بنانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں ان میں اس ماحول کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔کیونکہ بڑے بڑوں کے لئے اور ادارے ہیں ۔۔ان میں جدید ماحول مہیا ہے ۔اب غریب کے لئے کون سوچے ۔۔ان حکومتی اداروں کے اندر جو تعلیمی ماحول ہے اس کی اصلاح ، اس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بنانے اس کو جدید سہولیات مہیا کرنے ۔ان میں موجود اساتذہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دینے اور ان کی محنت کی نگرانی کا کون سوچے ۔۔اس بے توجہی اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان اداروں میں تعلیمی عمل کمزور ہے ۔۔پھر ان میں کوئی میرٹ نہیں ۔۔معیار اور مقدار اکھٹے ہیں ۔۔سونوں کو کندن بنانے کے لئے آگ میں ڈالنے کی اجازت نہیں ۔۔مگر ’’کندن ‘‘ کا تقاضا کیا جاتا ہے ۔۔پرائمری میں سہولیات اور سخت محنت کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں تو یہ کمزوری برقرار رہے گی ۔۔حکومت کی این ٹی ایس کی بنیاد پہ بھرتیوں سے اُمید روشنی کی کرن بن گئی ہے کہ یہ نئے تعلیم یافتہ نوجوان بہتری لائیں گے لیکن ان کو بھی ہراسان کیا جاتا ہے کہیں پالیسی بدلنے ،کہیں شرائط میں تبدیلی۔ کہیں اور شوشے چھوڑے جاتے ہیں ۔۔بات سسٹم کی ہے اگر سسٹم شفاف اور مضبوط ہو گا تو کام ہو گا اگر سسٹم سست ہوگا تو خواب پورا نہیں ہوگا نہ کوئی پورا کر سکے گا ۔۔ضلع چترال میں محکمہ تعلیم میں ایک نمایان تبدیلی کا احساس اس لئے ہو رہا ہے ۔۔کہ محکمے کے زمہ داراں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ ہمیں روایات کو توڑنا ہے ۔۔موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھنا ہے ۔۔ٹیکنالوجی کے اس جدید اور تیز دور میں ہمیں اپنے آپ کو اس دوڑ میں شامل کرنا ہے آج وہ پسماندگی نہیں کہ گھوڑے کی پیٹھ پہ اداروں کا دورہ کیا جاتا تھا ۔۔ارڈر مہینوں میں بھی اداروں میں نہیں پہنچ پاتا ۔۔اچھائی ،برائی ،محنت ،غفلت کا پتہ نہ چلتا ۔۔آج ائی ٹی کا دور ہے اور اس کے تقاضے ہیں ۔۔محکمہ تعلیم چترال نے صرف ایک سال کے عرصے میں چترال کے سرکاری اداروں ،ان کے اندر سرگرمیوں اور اساتذہ کی کاوشوں کو اُجاگر کرکے اس با ت کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ ۔۔۔
اوالعزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر پھاڑتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں ۔۔
اس مہرے کا سہرا خاص کر ممتاز محمد وردگ صاحب کے سر سجتا ہے جو چترال میں ڈی ڈی اوبن کے آئے اور ایک سال سے کم عرصے میں ایک نمایاں تبدیلی کاا حساس دلایا ۔۔وردگ صاحب اور ان کا عملہ اتنا متحرک رہا کہ آج اس دور افتادہ اور دور دراز ضلعے کا کوئی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں کہ محکمہ تعلیم کا یہ زندہ دل آفیسر وہاں نہ پہنچا ہو ۔یہ اپنایت کا وژن ہے کہ یہ محکمہ متحرک ہے ۔۔آپ کا نگران آپ کی خبر گیری کرنے والا موجود ہے ۔۔آپ کا پرسان حال ہے ۔۔آپ قوم کے معمار ہیں ۔۔یہ حوصلہ ہی کاروان کو مضبوط کرتاہے ۔۔کام کا پتہ چلتا ہے محنت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔۔آج ضلع کے سارے سکولوں کی کا رکردگی میڈیا پہ ہے ۔۔ان کے اندر سرگرمیوں کا ریکارڈ سوشل میڈیا پہ ہے ۔۔سر گرمیوں کی حوصلہ فرسائی ہو رہی ہے ۔۔اساتذہ کی کاوشوں کو سراہا جا رہا ہے ۔۔آج اساتذہ کا تعارف ہے ۔۔ ان کی پہچان ہے ۔۔یہ وقت کے تقاضے ہیں ۔۔یہ کام پہلے بھی ہوتے تھے یہ عظیم اساتذہ خاموشی سے قوم کی تعمیر میں لگے ہوئے ہو تے ۔۔ان کو اشتہار بننے اور مشتہر ہونے کی فکر نہ تھی مگر آج کے دور کے تقاضے ایسے ہیں ۔۔آج خلوت کی جگہ جلوت کو دیکھا جاتا ہے اس لئے آج کے دور کے چکا چوند میں ان کی خدمات ماند پڑتی تھیں اب کی بار عیان ہو رہی ہیں ۔۔ اس سال پورے سال کے لئے ایکشن پلان دیا گیا۔۔ اس پہ عمل ہو رہا ہے ۔۔ سالانہ قومی تہواروں کو منانے کے لئے خصوصی اہتمام کیا گیا اس وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں کی ساکھ بڑھی ۔۔ سالانہ امتحانات میں اعلی کار کردگی دیکھانے والے بچوں کو انعامات دئے گئے ۔۔سکولوں کے اندر ہاوس سسٹم متعارف کرایا گیا جو آج سے سو سال پہلے ہارواڈ یونیورسٹی میں متعارف کرایا گیا تھا جس پہ مغرب بڑا فخر کرتا ہے ۔۔ دو بار داخلہ مہم چلائی گئی ۔۔اس سال سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کی افتتاح شاندار طریقے سے منایا گیا ۔۔اور پہلی دفعہ ضلع کے اعلی آفیسرز اس بات کو ماننے پہ مسرور و مجبور ہوگے کہ واقعی قوم کے معمار قوم کے نونہالوں کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں ۔۔یہ تبدیلیاں مسلسل جدو جہد سے ممکن ہوتی ہیں ۔۔میر کاروان کے دست راس ہونے کاروان کا حصہ بننے اور ہراول دستے میں شامل ہونے سے ممکن ہوتی ہیں ۔۔آج ایک عزم پروان چھڑرہا ہے ۔آج محکمہ تعلیم کا دفتر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان آفیسروں کی محنت سے چل رہا ہے ۔۔کسی میز پہ کوئی کا م رُکتا نہیں ۔کوئی مسئلہ لٹکتا نہیں ۔کسی کو شکوہ نہیں ۔بس ان کی محنت کی تشہیر چاہئیے تھا تشہیر ہو رہی ہے ۔اگر معمار کے دل میں تعمیر کا درد ہو تو تعمیر ممکن ہوتی ہے ۔۔ممتاز صاحب ایک پر عزم آفیسر ہیں ان کو اساتذہ کی محنت اور مقام کا اندازہ ہے ۔انشا اللہ سرکاری اداروں میں بہت جلد وہ تبدیلی آئے گی کہ لوگ غیر سرکاری تعلیمی اداروں کو بھول جائیں گے ۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
689

دھڑکنوں کی زبان ……….. ’’ چترال پولیس سے گذارش ہے ‘‘……..محمد جاوید حیات

Posted on

دنیا کی واحد حقیقت اور طاقت قانون ہے ۔۔جس کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے ۔۔اگر اس کی پاسداری ہو تو وہ قوم وہ گروپ وہ ملک ناقابل شکست ناقابل تسخیر اور قابل رشک بن جاتا ہے ۔۔قران عظیم الشان میں اللہ کے دیئے ہوئے قوانین جن کا اطلاق پہلے فخر موجوداتﷺ اور پھر آپﷺ کے خلافاؓ کے ہاتھوں اوج کمال تک پہنچے ۔۔دنیا کی تاریخ اس بات پہ گواہ ہے کہ عظیم قوموں کی پہچان قانون کی پاسداری میں ہے ۔۔ہمارے ملک خدادات میں بجا طور پر قوانین ہیں مگر ان کی پاسداری میں کوتاہی ہونے کی وجہ سے آئے روز مسائل زیادہ ہوتے جاتے ہیں ۔۔ہمارے ہاں قوانین نافذکرنے والے ادارے ہیں انتظامیہ عدلیہ ہے ۔۔ان کے پاس عملداری پاس داری ہے مگر افسوس عوام کی جم غفیر ان ثمرات سے محروم رہتی ہے ۔۔اس لئے دھائیاں ہیں ۔۔فریادیں ہیں ۔۔چترال پولیس اپنی مثالی شرافت اور اپنی فرض شناسی میں بے مثال ہے مگر بعض مجبور ہو کر انہی کو پکارا جاتا ہے کیونکہ قانون کے محافظ وہ ہیں ۔۔جان و مال کے محافظ وہ ہیں ۔۔برائیوں کو بیخ وبن سے اُکھاڑنے کا کام ان کو سپرد ہوا ہے ۔۔معاشرہ ایک بے ہنگم شور کا نام ہے ۔۔ایک بے ربط اجتماع ہے ۔اس کو ربط اور ترتیب میں ڈالنے کے لئے قانون ہوتا ہے قانون میں ایک طاقت ہے مگر اندازہ لگا یا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی اس طاقت کو پولیس کی شرافت کھا رہی ہے ۔۔قانون کی وہ روایتی طاقت کمزور ہوتی ہے ۔۔قانون وہ طاقت ہے جو جلوت وخلوت میں ایک جیسی طاقت رکھتی ہے ۔۔جو جہان ہے۔ قانون وہاں ہے ۔۔اور قانون کا احترام اس پہ لازم ہے ۔۔مگر ایسا نہیں ہوتا ۔۔انتظامیہ ٹریفک کے لئے کرایہ وضع کرتا ہے ۔۔ مگر کرایہ ڈرائیور کی مر ضی سے ادا کرنا ہوتاہے ۔۔مسافر اگر اس سے لڑ بھڑ جائے تو تھانہ جانا پڑے گا کیونکہ پولیس کہتی ہے کہ اگر ڈرائیور زیادہ کرایہ لے تو رپورٹ کریں ۔۔اب ایک بندہ اپنی مجبوری میں کہیں جا رہا ہے وہ اپنا کام چھوڑ کر ایک ڈرائیور سے کس طرح کیس لڑے ۔۔سوال ہے کہ یہ ڈرائیور قانون سے ڈرتا کیوں نہیں ہے ۔۔ہر ڈرائیور کے ساتھ ایک پولیس کا سپاہی ڈیوٹی تو نہیں کر سکتا ۔۔ٹریفک قانون میں بچوں کے لئے ڈرایونگ بند ہے ۔۔اٹھارہ سال سے کم عمر بچہ گاڑی بائیک لے کے روڈ پہ نہیں آسکتا ۔۔لیکن سوال ہے کہ اس قانون میں طاقت کیوں نہیں ہے کیا ہر بچے کے ساتھ پولیس کا ایک سپاہی ڈیوٹی کرئے گا ۔۔آئے روز حادثات ہوتی ہیں لیکن سڑکوں پہ اسی طرح رش ہے ۔۔ایک شہر ناپرسان ہے ۔۔ہم ایک والد کے ایک استاد کے ایک بڑے ہونے کی حیثیت سے اپنا کونسا کردار ادا کرتے ہیں ۔۔پولیس کے پاس ایک ڈنڈا ہوتا تھا ۔۔ایک خلوص ہوتا تھا اس کو ’’پولیس گردی ‘‘ کا نام دیا گیا ۔اور پولیس کو اس قانوں کی گرفت میں دینے کی کوشش کی گئی جس میں روح تک نہیں اور مجرم اسی قانون کا سہارا لے کر دندناتا پھرتا ہے ۔ایک بچہ جو بائیک لے کے روڈ پہ آتا ہے ۔۔پولیس اس کی سرزنش کر تی ہے ۔۔اس کا باپ اسی سرزنش کو پولیس گردی کہتا ہے۔۔یہی بچہ اگر اکسیڈنٹ ہو کے مر جائے تو وہی باپ پھر پولیس کو الزام لگاتا ہے ۔۔کہ قانون نہیں ہے ۔۔اس وجہ سے شکوہ کرنا پڑتا ہے کہ قانون کی پاسداری میں رو رعایت تصور سے بالا ہے ۔۔قرآن کی رو سے گذری ہوئی قومیں اشراف اور غربا میں فرق کرتے تھے یہی فرق ان کو لے ڈوبا ۔۔۔فخر موجوداتﷺ نے فرمایا ۔۔اگر میری بیٹی [اتفاق سے اس عورت کا نام بھی فاطمہ تھا ]چوری کرتی تو محمدﷺ اس کا ہاتھ کاٹ دیتے ۔۔بس پولیس کا ایک حکم ہو کہ آج کے بعد کوئی بچہ بائیک نہیں چلائے گا ۔۔خواہ وہ امیر کا بیٹا ہو ،غریب کا ہو ۔۔آفیسر کا ہو ماتخت کا ہو ۔۔اسی قانون کو اپنا محافظ سمجھ کر والدین بھی اس پہ عمل کریں اور دوسرے سب افراد ۔۔اس وجہ سے چترال پولیس سے گذارش ہے کہ قانون کا ہاتھ مضبوط ہوں اور کسی کی جرات نہ ہو کہ وہ قانون شکنی کرے ۔۔پرُامن اور مہذب شہریوں کا یہ خواب ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو ۔۔۔ چترال امن کا تاج محل ہے اس لئے یہاں پہ قانون کا احترام بھی مثالی ہونا چاہئے ۔۔ہمیں چترال پولیس پہ فخر ہے ۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
482