Chitral Times

مذہب , قوانین اور سیاست………جی ۔کے۔ سریر

 ! ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
پرنس کریم آغا خان کی چترال آمد کے موقع پر یوں لگ رہا تھا کہ علاقے کے دونوں سنی اور اسماعیلی برادری کے بیچ عشروں پر محیط غلط فہمیوں اور کدورتوں کا میل دھل رہا ہے. چترال کے طول و عرض میں جہاں سنی برادری اسماعیلی رضاکاروں کے شانہ بشانہ کئی ایک خدمات میں ہاتھ بٹارہی تھی وہاں اہلاً وسہلاً کی گونج پر امن و رواداری کے شادیانے بھی بجاۓ جارہے تھے جس میں چند سنی علماء کا کردار قابل ستائش تھا. جیسا کہ سمندروں کی کچھ زیادہ ہی خاموشی ایک نئی طغیانی کا پیش خیمہ ہوتی ہے, چترال کی فضاؤں میں امن و آشتی پر دل کو راحت  ہورہی تھی. یہاں پر سوشل میڈیا میں ایک  پوسٹ اور اس پر ایک  فرد کی کمنٹ سے متعلق اصول و عواقب پر اتنا کہنا مناسب ہوگا کہ کسی بھی افراط و تفریط سے بچنے کے لیے ان کلمات سے متعلق شرعی و قانونی اصولوں کی دو ٹوک تشریح و وضاحت سے لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے.
سرِ دست قانونی مغالطوں, ارتکابِ جرم اور عوامی ردِ عمل پر لب کشائی کرنا مناسب ہوگا. بہت سوں کا گماں ہے کہ ایسے واقعات میں عدالتیں ملزموں کو کیفرِ کردار تک نہ پہنچاکر انتشارو فسادات کا باعث بنتی ہیں. اس موقف میں جتنی صداقت گستاخی کے واقعات پر ہے اتنی ہی باقی مقدمات پر بھی منطبق ہوتی ہے. مگر یہ طے ہے کہ ملکی قوانین کے اندر جرم اور جرائم کے ساتھ نمٹنا بہرحال قانون کے محافظوں کی صوابدید ہے. یہ دلیل دینا کہ چوںکہ عدالتیں انصاف نہیں کر پارہی, اس لیے ان افراد کے ساتھ قانون سے بالاتر اور اداروں سے باہر ہی نمٹ لینا چاہیئے یا امن و امان کی صورتحال دگرگوں کرکے انصاف کرنے پر مائل بلکہ مجبور کیا جاۓ غلط سوچ کا شاخسانہ ہے. گذارش یہ ہے کہ چوںکہ عدالتیں قتل, دھشت گردی, ڈاکہ زنی, عورتوں کے خلاف تشدد, زنا بالجبر, رشوت ستانی اور دیگر قبیح جرائم پر بھی مسؤلین کی توقعات پر پوری نہیں اترتیں. تو کیوں نہ ہم ایسے مقدمات میں بھی مظلوموں کی دادرسی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ظالموں اور مجرموں کو فسادات کے زریعے کیفر کردار تک پہنچائیں؟ اسی نکتے سے منسلک ایک اور رعایت یہ ہے کہ ملکی قوانین ویسے بھی کاریگر ثابت نہیں ہورہے. تو کیوںکر ان کے وجود, ضرورت اور ان پر کاربند رہنا غیرمفید تصور نہ کیے جائیں؟…درحقیقت اس طرز فکر کو لوگوں کی دیدہ دلیری یا پھر معصومیت کہی جاسکتی ہے جو ایک جانب احترامِ قانون کے مسلمہ اصولوں کی شعوری طور پر خلاف ورزی کرتے ہوۓ ان کے پرخچے اڑاتے ہیں مگر دوسری طرف قانونی اداروں کے کمزور ہونے کا رونا بھی روتے ہیں. ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ چھوٹا ہو یا بڑا جرم صرف جرم ہوتا ہے جن سے متعلق ملک میں قوانین اور متعین سزاء و جزاء کا نظام موجود ہے.  نوغیت کے اعتبار سے کچھ جرائم کو عدالتوں کے اندر اور کچھ باہر بیچ بازار نمٹانے کی حمایت کرنا کسی طور درست نہیں ہے. واضح رہے کہ عوام کی جانب سے قوانین پر من و غن عمل پیرا ہوکر انہیں مضبوط کیا جاسکتا اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائی جاسکتی ہے, نہ کہ انہیں جان بوجھ کر ذک پہنچا کر.
اس قسم کے واویلا یا ڈھونک رچانے والے اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اصل معاملہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کا نہیں ہے. ہم بطور قانون پسند اور مہذب شہری زیادہ سے زیادہ کسی جرم کی تردید کرسکتے اور ملزم کو متعلقہ اداروں کے سپرد کرکے اپنے حصے کے قانونی, اخلاقی اور مذہبی فرض سے سبکدوش ہوسکتے ہیں. اگر شواہد یا پھر دعوے کی کمزوری کی بناء مقدمہ ڈھیلا پڑجاتا ہے اور ملزم بری ہوجاتا ہے تو کسی بھی الزام و نتائج یعنی گناہ و قانون شکنی کے ارتکاب سے ہم بھی بری الزمہ ہوجاتے ہیں. لہذا کسی بھی قیمت پر اپنے من مرضی کے عدالتی فیصلے پر اڑ جانا قانونی ضرورت سے زیادہ سیاسی مصلحت سمجھی جاسکتی ہے.
مذہبی ایشوز کو لوگوں کے جذبات برانگیختہ کرنے, ان سے سیاسی فائدہ اٹھانے اور خود ہی اقتدار پر متمکن ہونے کے باوجود ہڑتال اور جلسہ جلوس بلانے کی ہر روش و کوشش قابلِ مذمت و مواخدہ ہے. رسولِ پاک ؐ کی ذات کو سیاسی اعراض کے لیے استعمال کرنا انتہائی حرکت اور بددیانتی ہے. اس سے ایک طرف انصاف و اخلاق اور جمہوری اصولوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے تو دوسری جانب معاشرے کو ہراساں اور خوف و دھشت میں مبتلا کرکے طرح طرح کے ذہنی امراض, علمی انتشار اور نتیجتاً سماجی پسماندگی کو فروع دیا جاتا ہے.
یہ بات فہم وفراصت سے بالاتر ہے کہ عوامی عدالت لگاکر انفرادی افعال پر لوگوں کو اشتعال دلایا جاۓ یا فرد کے جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو دی جاۓ. جس طرح کی ہرزہ سرائی اور میڈیا ٹرائل آج کل دیکھنے کو مل رہی ہے کیا اس قسم کی تادیبی کارروائیوں اور تحقیرو تشنیع کا ہم خود بھی متحمل ہوسکتے ہیں؟ کیا واقعی مذہبی جذبات صرف کسی خاص کمیونٹی کے حصے میں آتے ہیں جبکہ انہیں مجروح کرنے کا قانون کسی خاص جماعت و مسلک کے لیے مخصوص ہیں؟ ہم نے مزید گنجائش نہ رہنے پر “لکم دینکم ولی یدین” کی تلقین پڑھی تھی. جاہلانہ حرکتوں اور دوسروں کی کھلم کھلا دل آزاری کی بےخطر آزادی سے بھلا عشقِ رسولؐ کی کونسی شکل ثابت کی جارہی ہے؟ کچھ لوگ عذرِ لنگ پیش کرتے ہیں کہ ایسے واقعات پر جذبات کا بےساختہ استعمال ایک فطری عمل ہے. تو کیا فطری جذبات کے اظہار کی سبھی شکلوں مثلاً قتل و غارت, زنا وغیرہ کو بھی قابلِ قبول مان کر ارتکاب کرنے والوں کو مواخذے سے مستثنیٰ قرار دیے جائیں؟ کیا آپ نے سوچا ہے کہ ان جیسے منفی رویوں اور نظریات کو بڑھاوا دے کر ہم معاشرے میں کس قسم کے طرزِ عمل کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں؟ شہریوں کے ایسے رویوں سے قانون کے ہاتھ مضبوط ہوجاتے ہیں یا اپاہچ؟
اس موقع و مقام پر من حیث القوم ہمیں خود اپنی گریبانوں میں جھانکنا ضروری ہے. ہم چترالی شرافت, مثالی امن, بھائی چارے اور رواداری کا گن گاتے رہتے ہیں, مگر عملاً اور حقیقتاً ہم کونسا گل کھلارہے اور علاقے سے باہر کی دنیا کو کس طرح کا پیغام دے رہے ہیں؟ یہ عرض کرنا بےجا نہ ہوگا کہ امن و آشتی کی زیادہ تر زمہ داری اکثریتی طبقے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ کھلے دل کا اظہار کرے. ہم میڈیا پر بلند بانگ دعوے کرکے یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ مسلمان دنیا بھر کے پرامن مگر مظلوم لوگ ہیں. مگر گھر کے اندر سہی, کیا اس دعوے پر عمل کرکے حق و صداقت ثابت کیا جانا چاہیئے کہ نہیں؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ صبرو استقامت, برداشت و رواداری, حقوق کی پاسداری اور احترام انسانیت وغیرہ کا اصل امتحاں آزمائش کی گھڑیوں میں ہوتا ہے. جوانمردی کا مظاہرہ میدانِ کارزار میں کیا جاتا ہے. اچھے دنوں میں شاید ان کا کوئی مفہوم بھی نہیں بنتا.
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
3176

ایک ڈاکٹر, ہزاروں کہانیاں………..جی ۔کے۔ سریر چترال

Posted on

ایک حضرت انساں سے ملاقات ہوئی. فرمانے لگے:
“ایک ڈاکٹر کے بننے میں کتنی محنت درکار ہوتی ہے. ماں باپ دولت لٹاتے, کبھی کبھار جاگیر تک بیج دیتے ہیں اور بچہ دن رات ایک کرتا ہے. تب کہیں جاکر ہزاروں امیدواروں کو شکست فاش دے کر سیٹ ملتی اور ڈاکٹر بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجاتا ہے. ان میں سے بھی شاذو نادر اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ خون پسینہ بہا کر ایف-سی-پی-ایس کا تاج اپنے سر پر سماتے ہیں. اب انہیں حق پہنچتا ہے کہ وہ جیسا چاہیں مریضوں سے سلوک روا رکھیں اور دولت کمائیں. لوگوں کا کونسا کردار بنتا ہے کہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر بننے والا ڈاکٹر ان کی بھلائی کا سوچے یا ان کے سامنے جوابدہ ہو؟”

یہ صاحب صحت کے پیشے سے منسلک ہونے کے باوجوخود ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ ‘شاہ سے بڑھ کر بادشاہ کا وفادار’ کے بمصداق ہمارے علاقے کے ایک جیتے جاگتے کردار کی وکالت میں لب کشا تھے جن کی دھن دولت پر اکثر انگلی اٹھائی جاتی ہے. ممدوح یعنی ڈاکٹر صاحب زندگی کی تمام تر آسائشوں کو اپنا بنیادی حق گردان کر لوگوں کے اعتراضات کو بددیانتی اور حسد کہہ کر ٹال دیتے ہیں. مگر کیا معترض ہونا, جواب طلب کرنا اور ڈاکٹر سے امیدیں رکھنا دراصل حسد ہے؟ کیا واقعی ایک ڈاکٹر کے بننے میں معاشرے کا کوئی حصہ نہیں ہوتا؟

عوام اپنے خون پسینے کی کمائی پر سالانہ اربوں کی ٹیکس ادا کرتا ہے. حکومت انہی ٹیکسوں سے ادارے بناتی, وسائل اور افرادی قوت مہیا کرتی اور چلاتی ہے. یہی ادارے لاکھوں طالب علموں کو پڑھنے, سیکھنے اور تربیت کے مواقع فراہم کرتے ہیں تبھی جاکر معاشرے کے چپے چپے میں ہم سب روزگار حاصل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں جن میں ڈاکٹر کا پیشہ بھی شامل ہے. کہا جاتا ہے کہ ایک عام سا ڈاکٹر کے بننے کے لیے صرف آخری چار سالوں میں سرکار کا 25/30 لاکھ سکہ رائج الوقت لگتا ہے. ظاہر ہے یہ پیسہ درختوں پر نہیں اگتا بلکہ لوگ خون پسینہ ایک کرکے کماتے اور سرکار کے حوالے کرتے ہیں.

قابل غور یہ ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر کی تمام تر بہتر تنخواہ, مراعات اور زندگی کی سہولیات کے باوجود ان کی ذمہ داریاں اس ذہنیت سے پرکھی جاسکتی ہیں تو معاشرے میں موجود باقی پیشوں سے منسلک افراد کو کیوں کر مستثنیٰ قرار نہیں دیے جاسکتے؟ کیا صرف ایک ڈاکٹر بننے میں محنت, وسائل اور وقت صرف ہوتے ہیں؟ اگر مکافات عمل کے طور پر باقی شعبہ حیات سے متعلق لوگ مثلاً انجنئیر, سوشل ورکر, سیاستدان, وکیل, دوکاندار, مزدور, پانی و بجلی کے محکموں کا عملہ وغیرہ یہی سلوک ڈاکٹر کے ساتھ روا رکھیں گے اور اسی منطق پر دلیل دیں گے تو کیسا لگے گا؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ معاشرتی ذمہ داری اور اجتماعی بھلائی کا کہہ کر ہم ایک ڈاکٹر سے آخر چاہتے کیا ہیں؟ ہمیں اس کی دولت چاہئیے یا ہم مفت کا علاج کروانا چاہتے ہیں؟

دراصل معاشرے نے جتنی قربانیاں دے کر ڈاکٹر بننے اور عزت ووقار کی زندگی بسر کرنے کے قابل بنایا ہے جوابأ ہم طب کے پیشے سے منشلک افراد سے بہت معمولی اور ان کے فرائض کے عین مطابق توقع کر رہے ہیں. ہم انہیں براہ راست مخاطب کرکے چاہتے ہیں کہ صحت معاشرے کی بہبودو ترقی کے لیے اولین اور ناگزیر شعبہ ہے. لہذا آپ ڈھیر ساری تنخواہوں اور مراعات کو حلال کرنے کی خاطر وقت پر ہسپتال تشریف لایئے اور مقررہ وقت پر لے جایئے. دفتری اوقات میں مریضوں کا معائنہ پوری دیانتداری اور خلوص سے کیجیئے. ایسا کرتے ہوۓ بین الاقوامی ضابطے کے مطابق 15/20 مریض چیک کرنے پر اصرار مت کیجئے. یہ ملک غریب ہے اور یہاں وسائل کم, مسائل زیادہ ہیں. اگر پھر بھی یہی اصول چاہئیے تو ذاتی کلینک میں بھی اس پر سختی سے عمل پیرا ہوکر ڈیڑھ ڈیڑھ سو مریضوں کا معائینہ بھی مت کیجیئے گا.

ہم آپ سے یہ چاہتے ہیں کہ میلوں سفر کرکے آۓ ہوۓ ناداروں, مفلسوں, بچوں, عورتوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں, یقینی بنائیں کہ مرض سے افاقہ ملے گا. ان کو دھتکارنا, ان کی عزت نفس مجروح کرنا یا پھر علاج کے نام پر صحت کی مزید پیچیدگیوں کا باعث بننا قانونی تقاضوں, اخلاقی اقدار, طب کے پیشے اور آپ کے فرائض منصبی سے میل نہیں کھاتا. حسن سلوک کے علاوہ براہ کرم علاج معالجہ اور ادویات تجویز کرتے وقت چند سوالات کو بھی پیش نظر رکھئیے گا کہ:

جن ادویات کو آپ تجویز فرما رہے ہیں کہیں متعلقہ کمپنیوں کی طرف سے تخفے کا کہہ کر آپ کو رشوت تو نہیں مل رہی ہے؟ غیر ضروری طور پر مہنگی ادویات کی جگہ کہیں متبادل, موثر مگر سستی ادویات تو دستیاب نہیں ہیں؟ کیا مجوزہ دوائیوں میں وہ خاصیت اور صلاحیت موجود ہے جس سے متوقع علاج ممکن ہو؟ کہیں آپ صرف فروخت کی خاطر زیادہ ادویات تو نہیں لکھ رہے؟ کیا کوئی دوائی آپ کے پاس یا اسٹور میں دستیاب ہے کہ جس سے غریب مریضوں پر مالی بوجھ ہلکا ہوسکتا ہے؟ آپ کے زیر نگرانی تکنیکی سہولیات اور عملے وغیرہ کی صورتحال کتنی قابل اطمینان ہے؟

بغیر معذرت اور تاویلات کے علاوہ ان باتوں اور استفسار کو پیش نظر رکھ کر آپ ہی بتایئے کہ انسانیت اور اجتماعی فلاح کے لیے کیا واقعی ہم آپ سے کچھ زیادہ کا تقاضا کر رہے ہیں؟

مگر پڑھنے والے ٹھہرئیے! غلط فہمی پر مبنی یہ تصورات اور ان پر بنیاد ذمہ داریوں سے فرار صرف کچھ ڈاکٹروں کے ساتھ مخصوص نہیں. اس کہانی, کردار اور سوچ کے پیچھے ہمارے معاشرتی المیے کا عکس جھلک رہا ہے کہ جسے دیکھ کر ہم سب کو اپنے اپنے منہ پر لپٹی حماقتوں اور بےحسی کا دھول دھونے کی ضرورت ہے. ہمیں وہ اخلاقی ہمت درکار ہے کہ اپنی گریبانوں میں جھانک کر کوتاہیوں کی موٹی موٹی شہتیر اتار پھینکیں. البتہ اتنا اور عرض ضروری ہے کہ کسی دفتر کے بابو, پولیس والے, ٹھیکیدار اور اس طرز و نوغ کے کردار معاشرے کے لیے نمونے نہیں بنتے. مثالیں ہم ان افراد کے اعمال نامے دیکھ کر اپناتے ہیں جن کا تعلق مقدس کہلانے والے پیشوں اور طبقوں سے ہوتا ہے. ہم قانون کی برتری, اعلے اخلاقی رویوں اور انسانی بہبود کی بےعرض کاوشوں کے لیے زیادہ تر اساتذہ, ڈاکٹر, عدلیہ اور اس کے جملہ متعلقین, مذہبی افراد اور سیاست دانوں کی طرف دیکھتے ہیں. اور اگر یہ افراد مجموعی لحاظ سے بےحسی, بدچلنی, غیرذمہ داری اور اخلاقی دیوالیہ پن میں ملوث ہوں تو باقی معاشرے کا بگڑنا مقدر بن جاتا ہے.

یہ بات دھیان میں رہے کہ کسی بھی کردارکشی کی نیت کے بغیر اس کہانی کا اطلاق ان ڈاکٹروں اور دوسرے سرکاری و غیرسرکاری لوگوں پر ہوتا ہے جن کی تصویرکشی کی گئی ہے. ہم ہزاروں خدمت خلق سے سرشار ان افراد کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ جن کے دم قدم سے ملک اور معاشرے کا پہیہ چلتا ہے, جن میں فرض شناس ڈاکٹر بھی شریک ہیں.

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
543