Chitraltimes Banner

جب کھیل سیاست کی بھینٹ چڑھا ۔ جیت کر بھی ہارنے والوں کی کہانی  ۔ تحریر: ثناءاللہ مجیدی

Posted on

جب کھیل سیاست کی بھینٹ چڑھا ۔ جیت کر بھی ہارنے والوں کی کہانی  ۔ تحریر: ثناءاللہ مجیدی

دنیا کے وسیع و عریض نقشے پر کھیل محض جسمانی ورزش یا وقتی تفریح نہیں بلکہ ایک ایسی زندہ اور پراثر زبان ہے جو سرحدوں کی دیواریں توڑ کر دلوں کو جوڑتی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو دو ازلی دشمن قوموں کو بھی ایک لمحے کے لیے قریب لے آتی ہے اور اختلافات کی راکھ میں امید کی چنگاری بھڑکا دیتی ہے۔ برصغیر کی سرزمین پر کرکٹ کا یہ سحر اور بھی گہرا ہے؛ یہاں یہ کھیل محض گیارہ کھلاڑیوں کی کوشش نہیں بلکہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن اور اربوں خوابوں کا محور ہے۔ جب پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مدِمقابل آتے ہیں تو میدانِ کرکٹ فقط ایک کھیل کا میدان نہیں رہتا بلکہ جذبات، توقعات، قومی انا اور اجتماعی نفسیات کا آئینہ بن جاتا ہے۔

تاہم، کھیل کی اصل روح ہمیشہ سے ایک ہی ہے: کھیل کو کھیل سمجھنا۔ جیتنے والے کا وقار اس بات میں ہے کہ وہ اپنی فتح کو غرور میں بدلنے نہ دے، اور ہارنے والے کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی شکست کو دل کی کشادگی سے قبول کرے اور حریف کو داد دے۔ یہی وہ تہذیب ہے جس نے کھیل کو سیاست کے زہر سے محفوظ رکھا، یہی وہ روایت ہے جس نے اسے نسلوں کے لیے روشنی اور یکجہتی کا استعارہ بنایا۔

افسوس، ایشیا کپ 2025 کا فائنل اس روایت کی روح کے لیے گویا ایک سوگوار لمحہ ثابت ہوا۔ وہ لمحہ جب کھیل کے روشن افق پر سیاست کی سیاہ بادل چھا گئے، جب میدانِ کرکٹ میں شرافت اور کھیل کا وقار پسِ پردہ چلا گیا، اور باقی رہ گئی صرف انا کی تلخی، ضد کی گرفت اور تعصب کی دھند۔ یوں محسوس ہوا جیسے اس عظیم روایت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی ہو۔

صرف چار ماہ قبل، 6 اور 7 مئی 2025 کی درمیانی شب کو پاکستان آرمی نے وہ ناقابلِ فراموش کارنامہ سرانجام دیا جس نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ بھارتی فضائیہ کے6 رافیل طیارے، جن پر بھارت اپنی برتری اور ناقابلِ تسخیر طاقت کا گھمنڈ کرتا تھا، پاک فضائیہ کے شاہینوں کی برق رفتار کاری ضربوں کا شکار ہو کر زمین بوس ہوگئے۔ وہ لمحہ بھارت کی تاریخ پر ایک ایسا ناسور بن گیا جس کا داغ کبھی نہ مٹے گا۔ اس دن کی ہزیمت کو بھارت نے وقتی طور پر دبانے کی کوشش تو کی، مگر اپنی انا کے خالی پن کو وہ کبھی بھر نہ سکا۔

یہی زخم اُس کے دل میں سلگتا رہا اور یہی کرب اُسے کھیل کے میدان تک کھینچ لایا۔ چنانچہ ایشیا کپ کا فائنل محض ایک کرکٹ میچ نہ رہا، بلکہ بھارتی انا کی جنگ بن گیا—ایسی جنگ جس میں گیند اور بلّے سے زیادہ انا اور ضد کی ٹکر تھی۔

دبئی کرکٹ اسٹیڈیم اس روز انسانوں کے ہجوم سے یوں لبریز تھا گویا سمندر کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہوں۔ ہر سمت رنگ بکھرے تھے—کہیں سبز ہلالی پرچم ہواؤں میں رقصاں تھے تو کہیں ترنگے کے رنگ لہروں کی طرح لہک رہے تھے۔ جذبات کی تپش ایسی تھی کہ فضا بھی لرزتی محسوس ہو رہی تھی۔
کھلاڑی جب میدان میں اترے تو لمحے گویا تھم گئے۔ ہر گیند ایک نیا امتحان، ہر شاٹ ایک نئی داستان۔ کبھی پاکستان بازی لے جاتا اور تماشائیوں کے نعروں سے آسمان گونج اٹھتا، تو کبھی بھارت پلڑا بھاری کر کے دلوں پر بجلیاں گراتا۔ اسٹیڈیم کی اسکرین پر وقت اور تاریخ کے اوراق پلٹتے محسوس ہو رہے تھے، جیسے کرکٹ نہیں، تقدیر لکھی جا رہی ہو۔

آخرکار، یہ اعصاب شکن معرکہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ بھارت نے بازی جیت لی، لیکن شکست کے باوجود پاکستانی دل شکستہ نہ تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کھیل کی اصل روح جیت اور ہار کے ترازو سے کہیں بلند ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے بتایا کہ کرکٹ صرف گیند اور بلے کا کھیل نہیں، بلکہ قوموں کے جذبات، برداشت اور حوصلے کا آئینہ بھی ہے۔

یہ منظر اپنے اندر کئی لمحے سموئے ہوئے تھا۔ کھیل صرف گیند اور بلے کا نام نہیں، بلکہ یہ تہذیب، برداشت اور شائستگی کا مظہر ہوتا ہے۔ جب بھارت نے ہاتھ ملانے سے انکار کیا اور ٹرافی کو لینے سے گریز کیا، تو اس نے دراصل اپنی ہی جیت کے ماتھے پر ایک داغ لگا دیا۔
یہ جیت کم اور شکست زیادہ محسوس ہوئی۔ کیونکہ اصل فتح وہی ہوتی ہے جس میں حریف بھی عزت کرے اور دنیا بھی تعریف کرے۔ مگر یہاں تو صورتِ حال برعکس تھی۔ اسٹیڈیم کی خاموشی ایک صدا بن گئی، جو ہر زبان پر یہی سوال دہرا رہی تھی: کیا کھیل صرف اسکور بورڈ پر لکھی گئی اعداد و شمار کا نام ہے یا پھر اس کے پیچھے ایک اخلاقی روح بھی سانس لیتی ہے؟

دنیا نے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ ایک ٹرافی، جو عام طور پر خوشی اور جشن کی علامت سمجھی جاتی ہے، وہ خود شرمندہ کھڑی تھی۔ اس پر حروف جیسے منقش ہو گئے ہوں، گویا وہ بھی پکار اٹھے ہوں کہ یہ جیت نہیں، یہ کھیل کی حرمت کا جنازہ ہے۔
یوں بھارت نے لمحۂ فخر کو لمحۂ عار میں بدل دیا۔ اور تاریخ کے اوراق میں یہ دن صرف ایک جملے کے ساتھ محفوظ ہو گیا: فاتح بھارت، مگر مغلوب کردار۔
پاکستانی کپتان سلمان آغا اس لمحے خاموش مجسمے کی طرح کھڑے تھے۔ ان کی آنکھوں میں صبر کی روشنی اور دل میں زخمی غیرت کی آگ سلگ رہی تھی۔ اسٹیڈیم کے شور میں بھی ان کی آواز جب اٹھی تو وہ تیز ہوا میں گونجتے بادل کی گرج جیسی سنائی دی:

“میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا۔ کھیل وہ رشتہ ہے جو دشمن کو بھی دوست بناتا ہے، دلوں میں نفرت کے کانٹے نکال کر محبت کے پھول اگاتا ہے۔ مگر آج میں حیران ہوں کہ یہ کون سا کھیل ہے جس میں جیتنے والا ہاتھ نہ ملائے؟ یہ کون سی فتح ہے جو ٹرافی اٹھانے سے شرمائے؟ یاد رکھو! یہ ہماری نہیں، کھیل کی توہین ہے، اور کھیل کی توہین دراصل انسانیت کی توہین ہے۔”
ان جملوں کی بازگشت بجلی کی لپک کی طرح پھیلی، اور ہزاروں تماشائی دم بخود رہ گئے۔

ور پھر تعریفات کا ایسا طوفان اٹھا جس نے حق و باطل کی لکیر کھینچ دی۔ دنیا نے دیکھا کہ بھارت کی جیت کس طرح شکست کے داغ میں بدل گئی، اور پاکستان کی شکست عزت و وقار کے تاج میں ڈھل گئی۔
سلمان آغا کا یہ جملہ تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف میں لکھا گیا کہ:
“اصل جیت ٹرافی کی نہیں، کردار کی ہوتی ہے۔”

یہ واقعہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ جب کھیل کو سیاست کا غلام بنا دیا جائے تو جیت کے تمام رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ بھارت نے کرکٹ کو اپنی انا اور سیاسی تعصب کی بھینٹ چڑھا کر نہ صرف کھیل کی حرمت کو مجروح کیا بلکہ اپنی فتح کو بھی بے وقعت بنا دیا۔ وہ شاید سمجھتے تھے کہ رافیل کے زخم کو کھیل کے میدان میں سہلا لیں گے، مگر بھلا کھیل انا کے مرہم کا نام ہے؟ کھیل تو دراصل دلوں کو جوڑنے اور اقوام کو قریب لانے کا حسین وسیلہ ہے۔

یہ منظر نوجوان نسل کے لیے ایک زندہ درس ہے کہ کھیل کا اصل مقصد صرف ٹرافی تھامنا یا اسٹیڈیم کی روشنیوں میں جشن منانا نہیں، بلکہ انسانیت کے دلوں کو ایک دوسرے سے پیوست کرنا ہے۔ اگر کوئی فاتح اپنی اخلاقیات اور شرافت کو کھو بیٹھے تو اس کی جیت ریت کے محل کی طرح بکھر جاتی ہے، لیکن اگر شکست خوردہ قافلہ صبر و وقار کے ساتھ ڈٹ جائے تو وہی تاریخ کے اوراق میں حقیقی فاتح کے طور پر یاد رہتا ہے۔

پاکستانی کھلاڑیوں نے اس دن اپنی روشنی سے دنیا کو بتا دیا کہ وہ کھیل کو کھیل ہی سمجھتے ہیں، نہ کہ سیاست کا ہتھیار۔ بھارتی کھلاڑیوں کے غیر اخلاقی طرزِ عمل کا جواب انہوں نے خاموشی، وقار اور صبر سے دیا، اور یہی خاموشی گونج بن کر دنیا کے کونے کونے تک پہنچی۔
کپتان سلمان آغا کے پرعزم اور بلیغ الفاظ نے پاکستان کے بیانیے کو نہ صرف وقار بخشا بلکہ یہ پیغام دیا کہ پاکستان شکست قبول کر سکتا ہے، مگر عزت و غیرت میں کبھی شکست نہیں کھاتا۔

یوں پاکستان نے دنیا کو باور کرا دیا کہ میدان میں ہار کر بھی عزت کا پرچم بلند رکھنا ہی اصل جیت ہے۔
28 ستمبر 2025 کا دبئی فائنل کرکٹ کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ضرور تھا، مگر پاکستان کے لیے یہ دن عزت، وقار اور کردار کی سربلندی کا دن بن گیا۔ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اصل جیت ٹرافی کو ہاتھوں میں تھامنے میں نہیں، بلکہ کھیل کی روح کو زندہ رکھنے میں ہے۔

پاکستان نے 7مئی کو رافیل کے آسمان پر گرنے سے لے کر دبئی کے میدان میں وقار کی فتح تک بارہا یہ ثابت کیا کہ کامیابی کا معیار توپ و تفنگ یا کسی سونے کی ٹرافی نہیں، بلکہ حوصلہ، اخلاق اور عزت ہے۔ یہ وہ جیت ہے جو دلوں کو مسخر کرتی ہے، جو تاریخ کے اوراق پر امر ہو جاتی ہے، اور جو آنے والی نسلوں کے لیے چراغِ راہ بن جاتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
114335