Chitral Times

بزمِ درویش ۔ توبہ کے مسافر (آخری حصہ) ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ توبہ کے مسافر (آخری حصہ) ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں حیرت کے شدید جھٹکوں سے گزر رہا تھا میرے قلب و باطن میں بھونچال سا آگیا تھا میں حیرت سے ساتھ آئے جاگیر داردوست کو دیکھ رہا تھا کہ یہ تم مجھے کہاں لے کر آگئے ہو تم تو یتیم بچیوں اور بے آسرا بیوہ خاتون کی بات اور مدد کا کہہ کر مجھے لائے تھے جبکہ کہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ نکلا تھا تھوڑی مزید بات چیت کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ یہ خاتون اپنی لڑکیوں کے ساتھ جسم فروشی کا کوٹھا چلا رہی ہے آجکل گاہک یا جسم کے خریدار نہیں آرہے تھے تو اُس کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ کسی دشمن یا حریف خاندان نے جادو وغیرہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے اب گاہکوں کی آمدورفت کم ہو گئی تھی مُجھ فقیر سے یہ روحانی مدد مانگ رہی تھی کہ کوئی ایسا عمل وظیفہ روحانی منتر کریں کہ زیادہ سے زیادہ خریدار آکر کوٹھے کی رونق کو دو بالا کردیں نسل در نسل جسم فروشی کے دھندے میں رہنے کی وجہ سے بوڑھی اِس کام کو غلط نہیں سمجھ رہی تھی بڑی ڈھٹائی سے بولی پروفیسر صاحب پہلے ہمارے پیر صاحب زندہ تھے وہ آکر کئی دن ہمارے گھر ٹھہر کر علاج کرتے تھے ہم اُن کی خدمت اور نذرانہ بھی پیش کرتے تھے بچیاں ان کو دباتی بھی تھیں ہم تو اُن کی ہر طرح کی خدمت کرتے تھے جس وجہ سے یہاں پر گاہکوں کی لائن لگی ہوتی تھی.

 

اب چند سال پہلے وہ انتقال کر گئے ہیں تو ہمارا دھندہ بند ہو کر رہ گیا ہے کاروباری بندش کھولنے کے لیے میں دو تین پیروں کے پاس گئی ہوں ان کو گھر بلا کر خاطر مدارت بھی کی ہے لیکن کام کو تو جیسے کسی کی نظر ہی لگ گئی ہے اب میرے بیٹے نے اُس جاگیر دار کی طر ف اشارہ کیا آپ کی بہت تعریف کی ہے تو اب آپ سے ہاتھ جو ڑ کر منت کرتی ہوں کہ ہمارا کام جو بند ہو چکا ہے اِس کو کھول دیں آجکل تو حالات اِس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ دال روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں اگر اِس مشکل وقت میں یہ بیٹا ہماری مدد نہ کرتا تو ہم تو فاقوں سے مر ہی جاتے یا سڑکوں پر رات کے اندھیروں میں گاہکوں کی تلاش کر تے اب بوڑھی نے مجھے نرم کر نے کیلئے زور شروع کر دیا اشاروں میں اپنی خدمت کا بھی تذکرہ کر رہی تھی میرے جسم سے دھوا ں سا نکل رہا تھا کہ یہ میں کہاں آکر پھنس گیا ہوں میں شدید پریشان ہو چکا تھا حیرت اور گھبرائی نظروں سے ساتھ آئے دوست کی طرف دیکھا جو شرمندہ شرمندہ سا بیٹھا تھا کیونکہ جو تعارف اور نقشہ اُس نے اِس خاندان کا کھینچا تھا یہاں آکر معاملہ بلکل ہی الٹ نکلا وہ بھی شرمندہ اور پریشان سا بیٹھا تھا میرے اعصاب بکھر چکے تھے میرا باطن دماغ طلا تم خیز موجوں کا شکار تھے کچھ دیر تک تو میرے خیالات منتشر رہے لیکن پھر میں نے خود کو سنبھالنے کی کو شش کی اور بوڑھی عورت کی طرف دیکھتے ہو ئے کہا میں جا کر اچھی طرح آپ کے مسئلے کا کوئی حل نکالتا ہوں پھر آپ کو طریقہ علاج بھی بتا ؤں گا مجھے دو تین دن سوچھنے کا موقع دیں

 

پھر میں تقریبا جان چھڑا کر واپس آگیا اور فیصلہ کیا کہ دوبارہ کبھی اُس گھر پر نہیں جاؤں گا لیکن خدا ئے لازوال کا فیصلہ کچھ اور تھا مجھے اگلے ہی دن ایک لڑکی کا فون آتا ہے کہ سر میں وہی لڑکی ہوں جن کے گھر آپ کل آئے تھے میں آپ کی حالت پریشانی دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ آپ ہمارے دھندے کے بارے میں جان کر بہت پریشان ہو ئے ہیں سر میں پانچویں نمبر کی چھوٹی لڑکی ہوں سر میری چار بہنیں اِس دھندے میں ملوث ہیں جبکہ ہم چھوٹی تین بہنیں ابھی اِس لعنت سے محفوظ ہیں بلکہ پڑھ بھی رہی ہیں والدہ ہمارے لیے کسی اچھے مالدار گاہک کی تلاش میں ہیں سر کیا آپ ہمیں اِس گناہ دلدل سے نکالنے کی کو شش نہیں کریں گے یا ہماری والدہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گی سر اگر آپ نے ہماری مدد نہ کی تو روز محشر میں آپ کی بھی شکایت لگاؤں گی کہ آپ نے بھی ہماری مدد نہیں کی سر خدا کے لیے کچھ کریں ہمیں زنا کاری کے اِس گھناونے دھندے سے نکالیں سر ہمارا بھی شریف پر سکون خو شگوار زندگی گزارنے کا حق ہے پلیز ہماری مدد کریں پھر بہت رو پیٹ کر التجا ئیں کر کے لڑکی نے فون بند کر دیا اور میں سوچوں کے سمندر میں غوطے کھانے لگا کہ کس طرح معصوم لڑکیوں کو اِس دھندے سے نکالوں میں ساری رات جاگتا رہا صبح تہجد کے وقت سر سجدے میں رکھ کر خدا سے مدد کی درخواست کی تو امید کی کرن جاگی ایک راستہ نظر آیا اور پھر میں پلان بنا کر سو گیا

 

صبح میں نے جاگیر دار صاحب کو بلا لیا اور کہا یار یہ بہت خطرناک جادو کا کیس ہے لیکن تم میرے دوست ہو اِس لیے میں تمہارے لیے یہ کام ہر حال میں کر وں گا اب میں نے روزانہ اِس سے ملنا شروع کر دیا ساتھ میں بوڑھی عورت اور لڑکیوں کو وظیفے پر لگا دیا میں جاگیر دار کے قریب ہو نا چاہتا تھا لہذا بوڑھی عورت کے گھر بھی گیا ان کو مختلف اعمال وظیفوں میں مصروف کر دیا جاگیردار میرے قریب ہو تا گیا جب پکی دوستی میں آگیا تو ایک دن کہا تم جس لڑکی کو پسند کرتے ہو یہ تمہارے لیے بہت لکی ثابت ہو گی اس سے شادی کر لو پھر اِس کو بیوٹی پارلر بنا دو باقی بہنیں بھی مصروف ہو جائیں گی اِس طرح جب یہ توبہ کر کے نیکی کے راستے پر آجائیں گی تمہاری محبوبہ بیوی بن کر ساری زندگی تمہارے ساتھ جائز رشتے میں رہے گی آخرت میں اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا جاگیر دار پر میری دوستی کا رنگ چڑھ چکا تھا اللہ کی مدد بھی آچکی تھی فوری طور پر مان گیا لہذا تین بہنوں کو میک اپ کی تربیت دلا کر اِن کو پارلر پر بٹھا دیا گیا شروع میں جب پارلر نہیں چلا تو میں نے بوڑھی سے کہا کیوں کہ آپ لوگ گناہ کر تے آئے ہو اگر آپ ماضی کے گناہوں پر توبہ کرلیں تو اللہ معافی کے رزق کے دروازے بھی کھول دے گا بات بوڑھی اور لڑکیوں کے دماغ میں آگئی اِس لیے رو رو کر خدا سے معافی اب دن رات پارلر کے چلنے کی دعا میں شروع کردیں تو بہ رنگ لے آئی چند مہینوں میں ہی پارلر چلنا شروع ہو گیا تو میں نے دوست سے کہا بوڑھی کو عمرے پر بھیجوں تاکہ نیکی اندر اتر جائے لہذا بوڑھی اپنی بیٹی او ر دوست کے ساتھ جواب اُس کا داماد بن چکا تھا عمرے پر چلی گئی عمرے پر جانے سے گناہوں کا زنگ پوری طرح سے اُتر گیا بوڑھی کے دل سے توبہ کی او رنیکی کے راستے پر گامزن ہو گئی

 

تین بیٹیوں کی شادی باقی کو اعلی تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں بھیجا اِس طرح ایک طوائف زادی سیدھے راستے پر آگئی اب ہم آج کے واقع پر آتے ہیں جہاں ایک طوائف زادی جسم فروشی کا فتوی یا راستہ مانگ رہی تھی میں نے اپنے حلقے میں ان دوستوں کے بارے میں غور کر نا شروع کیا جو اِس ماں بیٹی کی مدد کر سکتے ہوں تو اچانک مجھے غازی الحاج یاد آگیا جو میرے پاس ایک بار اپنے ڈرائیور کے مسئلے کے لیے آئے تھے آکر کہنے لگے جناب میں نے بارہ حج چالیس عمرے کئے ہیں لوگ مجھے غازی الحاج کہتے ہیں کیونکہ میں روس کے خلاف افغانستان میں جنگ بھی لڑ چکا ہوں بہت خیرات صدقہ کرتا ہوں لیکن قلب و روح کی بے چینی نہیں جاتی میں کوئی ایسی نیکی کرنا چاہتا ہوں جو قبول ہو اور دل کی بے قراری کو چین بھی آجائے اب میں نے سامنے بیٹھی عورت سے کہا اگر آپ کی بیٹی کی شادی اچھی جگہ کرادوں آپ بھی داماد کے گھر میں رہیں تو کوئی اعتراض تو بیٹی بولی سر آپ رشتہ دیکھیں میں ماں کو منا لوں گی لہذا اگلے دن میں غازی صاحب سے ملا اور کہا آپ کے دو بیٹے ہیں جو شادی کر کے امریکہ میں رہتے ہیں آپ اپنے بھانجے ڈرائیور کے ساتھ اکیلے ہیں بھانجے کے والدین نہیں ہیں تو ایک رشتہ ہے جس میں نیکی بھی ہے پھر ساری بات بتا دی لہذا چند دنوں بعد بیٹی کی شادی غازی صاحب کے بھانجے سے کرا دی ایک سال بعد حاجی صاحب نے پیار سے میرے ہاتھ پکڑ لیے اور بولے پروفیسر صاحب میں جوسکون چاہتا تھاوہ اِس نیکی سے مل گیا اور سچی تو بہ بھی نصیب ہو گئی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
68536

بزمِ درویش ۔  توبہ کے مسافر (حصہ دوئم) ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔  توبہ کے مسافر (حصہ دوئم) ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

مجھے لگا جیسے بہت سارے خطرناک زہریلے بچھوؤں کو میرے جسم پر ڈنک مارنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو یا مجھے قیمہ بنانے والی مشین میں ڈال دیا گیا ہو روزانہ میرے پاس مختلف قسم کے لوگ اپنے مسائل کے لیے آتے ہیں ہر بندے کا مسئلہ دوسرے سے مختلف لیکن ایسا سوال اور سوالی کہ وہ میرے پاس اِس لیے آئی تھی کہ وہ اپنی جوان بیٹی سے جسم فروشی کا دھندہ کروانا چاہتی ہے بیٹی نیک سیرت بیٹی جسم فروشی کے لیے تیار نہیں وہ اِس کام کو گناہ عظیم سمجھتی ہے جبکہ ماں کے نزدیک انوکھی دلیل کہ جب انسا ن مرنے لگے یا حالات اِس قدر ناقابل برداشت اور تکلیف دہ ہو جائیں کہ زندگی کا دھاگہ ٹوٹنے لگے تو زندگی کی ڈوری کو بچانے کے لیے جسم فروشی بھی حلال ہو جاتی ہے جب بیٹی نے بار بار ماں کی غلط ڈیمانڈماننے سے انکار کیا تو پہلے تو ماں نے خوب ڈانٹا سمجھایا دھمکایا لیکن جب مارنے پیٹنے کے بعد بھی بیٹی کے عزم و استقلال میں سوئی کے برا بر بھی کمزوری نہ ہوئی تو ظالم ماں میرے پاس لے آئی کہ شاید بیٹی ضدی دماغی خلل کی مالکہ ہے جو مجبوری کے حالات میں بھی ماں کی بات نہیں مان رہی

 

میں نے معصوم بیٹی کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں غم اور کرب کا دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا جیسے اُس کو کباب بنانے والی سیخ پر پرو کر آگ کے شعلوں پر دکھ دیا گیا ہو وہ بیچاری مجبوری بے بسی لاچارگی دکھ پریشانی کے آگ برساتے ریگستانوں سے ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی تھی۔ بے بسی مجبوری پریشانی کا چلتا پھرتا اشتہار بنی میرے سامنے بیٹھی تھی اُس کے چہرے پر قبرستانوں کاسناٹا اور ویرانی تھی اُس کے انگ انگ سے دکھ پریشانی جھلک رہی تھی میں بھی سر سے پاؤں تک اُس کے درد دکھ میں جھلسنے لگا میری آنکھوں میں بھی غم کا سمندر کروٹیں لینے لگا اب میں نے دنیا کی انوکھی مختلف بے رحم ماں کی طرف دیکھا تو وہ بولی پروفیسر صاحب میں کسی مولوی کے پاس فتوی لینے نہیں آئی مجھے پتہ تھا اگر میں یہ سوال لے کر کسی مولوی کے پاس جاؤں گی تو وہ مجھے دھکے دے کر گالیاں دے کر دفع کر دے گا کہ زندگی میں دوبارہ کبھی اُس کے پاس ایسا سوال لے کر نہ آؤں اِس لیے میں آپ کے پاس آئی ہوں کہ آپ روحانیت تصوف فقیری درویشی کا دعوی کر تے ہیں خدمت خلق کے نعرے مارتے ہیں انسان سے محبت پیار مدد کا راگ الاپتے ہیں میں دیکھنے آئی ہوں کہ آپ کی خدمت خلق کا غبار کتنی دیر میں ہوا سے خارج ہو تا ہے

 

آپ جو دن رات انسانیت مدد اخوت بھائی چارے خدمت خلق کی جگالی کرتے ہیں کس طرح مجھے راستہ دکھاتے ہیں میں اندھیروں کی دلدل میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دھنسی جارہی ہوں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی آپ کے پاس امید لے کر آئی ہوں خدا کے لیے مجھے اِس دلدل سے نکالیں یا میری بیٹی کو سمجھائیں کہ جس پیشے سے میرا خاندان صدیوں سے منسلک ہے وہی ہماری پناہ گاہ بنے گا آج کا معاشرہ بانجھ ہو چکا ہے مہنگائی کا عفریت سب کو چاٹ چکا ہے آج لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں نصیب یہ ہمارے جیسوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گا میں نے اپنی بیٹی کے کہنے پر کئی سال پہلے تو بہ کر لی تھی اِس بیچاری نے دن رات محنت کر کے ٹیوشن پڑھا کر گھر کا خرچہ چلانے کی کوشش کی اب میں شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ ہوں دوائیاں لوں تو بھوک سے مرنے لگتے ہیں اگر پیٹ بھریں تو شوگر جسم کو کھانا شروع اور بلڈ پریشر دماغ کی رگیں پھاڑنے لگتا ہے اب میں توبہ کو قائم نہیں رکھ سکتی اب توبہ توڑ کراپنے پرانے دھندے پر جانا پڑے گا پھر دیر تک ماں معاشرے کی بے حسی اور مہنگائی کا رونا رو رو کر مجھے اور اپنی بیٹی کو قائل کرنے کی کو شش کر تی رہی کہ میری بیٹی کو یہ کہہ دیں کہ مرتے وقت حرام بھی حلال ہو جاتا ہے بیٹی کی آنکھوں سے غم کی نہریں مسلسل بہہ رہی تھیں جبکہ میں بے بسی کا بت بنا ماں کی باتیں سن رہا تھا ساتھ ہی میرا دماغ راستہ حل ڈھونڈ رہا تھا کہ کس طرح اِس عورت کو خطرناک ارادے اور بیٹی کو جسم فروشی کے دوزخ میں گرنے سے روک سکوں پھر میں اپنے ماضی کے اوراق پلٹتا چلا گیا کہ ماضی میں کہاں کس طرح ایسا کیس آیا اور پھر خدا کی مدد سے اُس کا حل کیا تو پندرہ سال پہلے کا دولت مند جاگیر دار یاد آگیا جب وہ کسی طوائف زادی کے عشق میں مبتلا ہو کر مُجھ فقیر تک پہنچا.

 

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایک پڑھا لکھا امیر جاگیردار میرے پاس آنا شروع ہو ا کیونکہ وہ طوائف زادی کے عشق میں مبتلا تھا طوائف زادی اور اُس کی ماں کو شک ہو گیا تھا کہ اُن کے گھر خاندان پر جادو ہو گیا ہے بہت سارے عاملوں سے جادو کا علاج کروایا لیکن جب آرام نہ آیا تو طوائف ماں نے جاگیر دار سے کہا تم ہمارے بہت سارے کام کرتے ہو اب اِس کام میں بھی ہماری مدد کرو کسی اچھے روحانی معالج کو تلاش کرو جو اپنے کام کا خوب ماہر ہو لہذا اُس عامل بزرگ کو لے کر میر ے گھر آؤ اُس کے آنے سے میرے گھر پر چھائے نحوست اور جادو کے اثرات ختم ہو جائیں گے جاگیر دار کی والدہ میرے پاس آئی تھی دو بار میں بھی اُس عورت کے گھر گیا تووہاں جاگیر دار صاحب سے میری سر سری سی ملاقات ہوئی جاگیر دار صاحب پر دولت کاخمار چڑھا ہوا تھا اپنی ہی دنیا میں مست تھا لیکن یہ جان گیا تھا کہ گھر والے مُجھ سے روحانی علاج وغیر ہ کرواتے ہیں تو جب طوائف زادی نے فرمائش کی کہ کسی عامل روحانی معالج کو حاضر کرو تو اُس کو میری یاد آگئی لہذا مجھے متاثر کرنے اور قریب ہو نے کے لیے بہت سارا فروٹ اور مٹھائی کے ڈبے لے کر میرے پاس حاضر ہوا کہ میری صحت ٹھیک نہیں مجھے دم کر دیں وظیفہ بتادیں۔

 

پھر اگلے ہی دن پھر آگیا کہ آپ کے علاج سے مجھے بہت سکون ملا ہے مجھے پر سکون نیند آتی ہے آج سے میں بھی آپ کا چاہنے والامرید ہوں مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے پاس ریگولر آیا کروں تو میں نے کہابھائی یہاں سینکڑوں لوگ روزانہ آتے ہیں تم بھی آجایا کرو لہذا اُس نے مجھے پھانسنے دوست بنانے کے لیے اب دوسرے تیسرے دن میرے پاس آنا شروع کر دیا دوسری ملاقات میں ہی میں نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ یہ جو فروٹ مٹھائیاں اور مختلف چیزیں لاتے ہو اب نہیں لایا کرو کوئی خوشی کا موقع ہو تو ٹھیک ہے ورنہ روزانہ ٹھیک نہیں ہاں اگر تم کو سخاوت کا شوق ہے تو اپنے گاؤں محلے میں غریبوں کو تلاش کرو جا کر ان کی مدد کرو لہذا اب اُس نے تحائف لانے بند کر دیے لیکن میری مدد کی کوشش کرتا سر میری فلاں فلاں جگہ جان پہچان ہے اگر کوئی کام ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا بہت شرافت نرمی محبت سے آتا سر مجھے دم کریں سر میں آپ کے روحانی علاج سے بلکل ٹھیک ہو گیا ہوں اِس طرح آنے جانے سے وہ میرے قریب ہو گیا میں جانتا تھا یہ کسی چکر میں ہے پھر آہستہ آہستہ کہنے لگا سر ایک بیوہ عورت اپنی جوان بچیوں کے بہت بیماری اور جادو کے اثرات ہیں آپ کسی دن وقت نکالیں جا کر اُن کا علاج اور خدمت خلق کرتے ہیں میں شروع میں تو مصروفیت کا بہانا بنا کر ٹالتا رہا لیکن جب اُس نے بہت مجبور کیاتو ایک دن اُس عورت کے گھر گیا تو عورت بہت احترام سے ملی اپنی سات جوان بیٹیوں سے ملوایا پھر کہا پیر صاحب دعا کریں میرا کام بلکل بند ہو گیا اب تو کوئی گاہک گھر کی دہلیز پار نہیں کرتا تو میں نے پوچھا کونسا گاہک آپ کیا کام کرتی ہیں تو ماں بولی پیر صاحب ہم ناچ گانے والے لوگ ہیں لوگوں کا دل بہلاتے ہیں وہ گاہک آج کل نہیں آرہے۔ (جاری ہے)

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
68358

بزمِ درویش ۔ توبہ کے مسافر۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ توبہ کے مسافر۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں روزانہ کی طرح آج بھی اپنے دفتر پہنچا تو حسب ِ معمول چند لوگ مختلف گروپوں میں اِدھر ادھر میرے انتظار میں تھے آنے والے مختلف بنچوں اور ٹولیوں میں اِس انتظار میں تھے کہ میں پہلے کس سے ملتا ہوں میں نے جب آنے والے لوگوں پر نظر دوڑائی تو اِسی دوران ملازم نے آکر کہا جناب وہ سامنے جو ماں بیٹی بیٹھی ہیں وہ صبح سویرے سب سے پہلے کی آئی ہوئی ہیں آپ برائے مہربانی پہلے اُن سے مل لیں لہذا میرے قدم اب اُس عورت اور بیٹی کی طرف اٹھ گئے میں نے قریب پہنچا تو ماں بیٹی میرے احترام میں اٹھ کھڑی ہوئیں ماں کی عمر پچاس سال سے زیادہ جبکہ بیٹی بیس سال کے لگ بھگ ہو گی ماں کے چہرے آنکھوں اور جسمانی خدوخال سے بڑھاپا جھلکتا نظر آرہا تھا چہرے کی زردی اور جسمانی اعضا کی بے ترتیبی یہ بھی بتا رہی تھی کہ بڑھتی عمر غربت خوراک کی کمی سے قوت مدافعت کمزور پڑنے سے جسم بیماریوں کی آما جگاہ بنتا نظر آرہا تھا چہرے پر زندگی کی لالی کی جگہ زردی اور سیاہی میرے خیال کی تصویف کر رہی تھی آنکھوں اور جسم سے نشر ہوتا خوف بتا رہا تھا کہ عورت غربت اور بیوگی کے پل صراط سے گزر رہی ہے کیونکہ امیر خاندان کی عورتوں میں خاص قسم کا احساس تفاخر نظر آتا ہے

 

یہی فخر اُن کے اعتماد کا باعث بنتا ہے اِس عورت کے چہرے اور آنکھوں میں پرانے کھنڈرات کی بے بسی پراسراریت سی تھی جو اُس کی لاچارگی کا چلتا پھرتا اشتہار تھا اب میری نظر جوان بیٹی کے چہرے پر پڑی تو یہاں بھی جوانی کی طغیانی طوفان سرخی حرارت پھرتی تو دور کی بات خاموش سناٹے کی کیفیت طاری تھی دونوں کی ذبوں حالی بتا رہی تھی کہ دونوں کے ساتھ تقدیر زندگی نے اچھا نہیں کیا زندگی اپنی تمام تر تلخ بھیانک حقیقتوں کے ساتھ دونوں پر وارد تھی اِس سے دونوں اب زندگی کے خوبصورت رنگوں اور بہاروں کے لیے اِس تلاش میں تھیں کی کس طرح اُن کی بے رنگ زندگی میں بھی دلکش رنگ آجائیں دونوں کی حالت زار دیکھ کر میری ہمدردی اور شفقت کی تمام حسیں بیدار ہو گئیں میں میٹھے شفیق لہجے میں بولا جی باجی اور بیٹی بتائیں میں آپ دونوں کی کیا مدد کر سکتا ہوں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ بہت صبح سویرے آگئی تھیں جبکہ میں تو اِس وقت آتا ہوں تو ماں بولی پروفیسر صاحب کوئی بات نہیں شکرہے آپ آگئے ہمیں تو خوف ہو رہاتھا کہ پتہ نہیں آپ نے آج آناہے کہ نہیں آپ آگئے تو جان میں جان آگئی ہے پروفیسر صاحب میں یہاں جو بھی لوگ آتے ہیں اِن سب سے زیادہ پریشان تکلیف دکھ میں ہوں بلکہ آپ کی زندگی میں شاید ہی میرے جیسی دکھی عورت آئی ہوگی میں مسلسل غربت اور مسائل کی چکی میں پیس رہی ہوں خوشی سکون راحت کے لیے در بدر بھیک مانگ رہی ہوں لیکن شاید خوشیاں اور خوشگوار زندگی مُجھ سے روٹھ چکی ہے

 

اب دامن مراد پھیلائے آپ کے در پر آئی ہوں سر مجھے بہت سارا وقت چاہیے تاکہ میں تفصیل سے آپ کو اپنی زندگی کے غم سنا سکوں آپ برائے مہربانی باقی لوگوں سے مل لیں ہم انتظار کر لیتی ہیں جیسے ہی آپ فری ہو نگے ہم سے تفصیل سے مل لیجئے گا میں نے بہت سمجھایا کہ آپ پہلے مل لیں لیکن عورت بضد رہی کہ نہیں پہلے آپ باقی لوگوں سے مل لیں پھر آرام سے میری بات سنیں میں نے عورت کو بہت سمجھایا لیکن جب وہ نہ مانی تو دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہو گیا میں اِس عورت اور بیٹی کو بھی عام غربت اور بیٹی کی شادی نہ ہو نا رشتے نہ آنا یا رشتوں کا آکر ٹھکرا کر چلے جانا سمجھا لیکن بعد میں یہ کیس بہت ہی حیران کن اور مختلف نکلا میں جس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا زندگی کا وہ پہلو سامنے آیا کہ میرے ہوش ہی اُڑ گئے دونوں ماں بیٹی سامنے بینچ پر خاموش بیٹھی تھیں میں دوسر ے لوگوں سے مل رہا تھا اِس دوران جب بھی دونوں پر نظر پڑتی تو دونوں میں خاموشی اور بے گانگی کی چادر تنی ہو ئی تھی دونوں بینچ کے آخری کناروں پر ایک دوسرے سے بے خبر بیٹھی تھیں دونوں کا اِس طرح خاموشی سے بیٹھنا میرے لیے بہت حیران کن تھا کیونکہ ایک سے زائد عورتیں کسی جگہ پر موجود ہوں اور دونوں کے منہ پر تالے لگے ہوں یہ نہ ماننے والی بات تھی اب میں نے دونوں ماں بیٹی کو سنجیدگی سے دیکھنا شروع کر دیا

 

دو گھنٹے گزر گئے لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا لیکن دونوں صبر سے بیٹھی ہو ئی تھیں میں ذہنی طور پر تیار تھا کہ یہ جیسے ہی ملنے کا کہیں گی میں فوری طور پر مل کر کوئی وظیفہ بتا کر فارغ کر دوں گا لیکن وہ تو شائد صبرکا ڈرم پی کر آئی تھیں اِسی دوران کوئی شخص مٹھائی لے کر آیا تو میں نے حسب معمول لوگوں میں بانٹنے کا کہا اور بانٹنے والے کو اشارہ کیا کہ وہ سامنے ماں بیٹی صبح سے بیٹھی ہیں پہلے جا کر اُن کو دو دونوں شاید بھوک کا شکار تھیں اِس لیے مٹھائی اٹھا کر کھانا شروع کر دی جب مٹھائی سب میں بانٹنے کے بعد بچ گئی تو میں نے اشارہ کیا جا کر دونوں کے درمیان رکھ دے اور اشارے سے کہا باجی آپ صبح سے بھوکی ہیں کھا کر اپنی بھوک کو مٹائیں میرے اشارے پردونوں نے مٹھا ئی کھانا شروع کر دی میں لوگوں سے ملنے میں مصروف رہا پانچ گھنٹے گزر گئے تو میں دونوں کی طرف گیا اور جا کر بیچ کے کنارے پر بیٹھ کر بولا دیکھیں باجی اگر آپ اِس انتظار میں ہیں کہ لوگ ختم ہو جائیں گے تو آپ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں یہ لوگوں کی سپلائی تو مغرب تک اِسی طرح جاری بلکہ زیادہ ہو تی جائے گی مجھے آپ کو اِس طرح ہی دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا ہے آپ برائے مہربانی اپنی بات کریں اگر مجھے سمجھ آئی تو آپ کو مشورہ دوں گا یا دعا دے کر واپس بھیج دوں گا میرے اصرار کر نے پر عورت اپنا مسئلہ سنا نے پر تیار ہو گئی

 

پھر خوف میں لتھڑے لہجے اور کانپتی آواز سے بولی آپ وعدہ کریں کہ میری پوری بات سنیں بغیر مجھے اٹھا کر واپس نہیں بھیجوں گے بلکہ میری مدد اور مشورہ دیں گے آپ کو اللہ نبی ؐ کا واسطہ وعدہ کریں آپ میری مدد کریں گے عورت التجا یہ لہجے میں رو رو کر ایک ہی بات کہ میری پوری بات سن کر مدد کی بھی کوشش کروں گا تو میں نے وعدہ کیا باجی آپ بے فکر ہو کر بات کریں میں پو ری کو شش کروں گا کہ آپ تسلی سے تفصیل سے اپنا مسئلہ بیان کریں میں بھی اُس کو روتا دیکھ کرپریشان ہو گیا تھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے عورت نے بولنا شروع کیا سر میں اِس بھردنیا میں اکیلی ہو ں نہ بہن نہ بھائی نہ ماں نہ باپ نہ خاوند صرف میں اور میری یہ بیٹی ہے ذریعہ معاش کوئی نہیں خاندانی پراپرٹی بھی نہیں ہے والدین یا خاوند سے وراثت میں بھی کچھ نہیں ملا زندگی کی بھاری زنگ آلودہ گاڑی کو چلانے کے کچھ جو پاپڑ بیلتی آئی ہوں یہ میں ہی جانتی ہوں میں ان پڑھ ہوں میری بیٹی میڑک پاس ہے یہ چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہے جس سے ہمارا مشکل سے گزارا ہوتا ہے ایک سال سے میں شوگر جگر کی مریضہ ہوں اب پیسے زیادہ چاہیے اب میں اپنا خاندانی کام پیشہ اپنی بیٹی سے کرانا چاہتی ہے کیونکہ مرتے وقت حرام بھی حلال ہو جا تا ہے لیکن میری بیٹی گستاخ ہے نہیں مانتی میں کسی مولوی کے پاس نہیں ایک درویش کے پاس آئی ہوں میری بیٹی کو سمجھائیں اور میری بات مانے تو میں بولا باجی آپ کا خاندانی کا م کیا ہے تو بیٹی روتے ہوئے بولی یہ طواف اور میں طواف زادی ہوں یہ مجھے جسم فروشی پر مجبور کر ہی ہیں۔ (جاری ہے)

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
68204