Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ توبہ کے مسافر۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔ توبہ کے مسافر۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں روزانہ کی طرح آج بھی اپنے دفتر پہنچا تو حسب ِ معمول چند لوگ مختلف گروپوں میں اِدھر ادھر میرے انتظار میں تھے آنے والے مختلف بنچوں اور ٹولیوں میں اِس انتظار میں تھے کہ میں پہلے کس سے ملتا ہوں میں نے جب آنے والے لوگوں پر نظر دوڑائی تو اِسی دوران ملازم نے آکر کہا جناب وہ سامنے جو ماں بیٹی بیٹھی ہیں وہ صبح سویرے سب سے پہلے کی آئی ہوئی ہیں آپ برائے مہربانی پہلے اُن سے مل لیں لہذا میرے قدم اب اُس عورت اور بیٹی کی طرف اٹھ گئے میں نے قریب پہنچا تو ماں بیٹی میرے احترام میں اٹھ کھڑی ہوئیں ماں کی عمر پچاس سال سے زیادہ جبکہ بیٹی بیس سال کے لگ بھگ ہو گی ماں کے چہرے آنکھوں اور جسمانی خدوخال سے بڑھاپا جھلکتا نظر آرہا تھا چہرے کی زردی اور جسمانی اعضا کی بے ترتیبی یہ بھی بتا رہی تھی کہ بڑھتی عمر غربت خوراک کی کمی سے قوت مدافعت کمزور پڑنے سے جسم بیماریوں کی آما جگاہ بنتا نظر آرہا تھا چہرے پر زندگی کی لالی کی جگہ زردی اور سیاہی میرے خیال کی تصویف کر رہی تھی آنکھوں اور جسم سے نشر ہوتا خوف بتا رہا تھا کہ عورت غربت اور بیوگی کے پل صراط سے گزر رہی ہے کیونکہ امیر خاندان کی عورتوں میں خاص قسم کا احساس تفاخر نظر آتا ہے

 

یہی فخر اُن کے اعتماد کا باعث بنتا ہے اِس عورت کے چہرے اور آنکھوں میں پرانے کھنڈرات کی بے بسی پراسراریت سی تھی جو اُس کی لاچارگی کا چلتا پھرتا اشتہار تھا اب میری نظر جوان بیٹی کے چہرے پر پڑی تو یہاں بھی جوانی کی طغیانی طوفان سرخی حرارت پھرتی تو دور کی بات خاموش سناٹے کی کیفیت طاری تھی دونوں کی ذبوں حالی بتا رہی تھی کہ دونوں کے ساتھ تقدیر زندگی نے اچھا نہیں کیا زندگی اپنی تمام تر تلخ بھیانک حقیقتوں کے ساتھ دونوں پر وارد تھی اِس سے دونوں اب زندگی کے خوبصورت رنگوں اور بہاروں کے لیے اِس تلاش میں تھیں کی کس طرح اُن کی بے رنگ زندگی میں بھی دلکش رنگ آجائیں دونوں کی حالت زار دیکھ کر میری ہمدردی اور شفقت کی تمام حسیں بیدار ہو گئیں میں میٹھے شفیق لہجے میں بولا جی باجی اور بیٹی بتائیں میں آپ دونوں کی کیا مدد کر سکتا ہوں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ بہت صبح سویرے آگئی تھیں جبکہ میں تو اِس وقت آتا ہوں تو ماں بولی پروفیسر صاحب کوئی بات نہیں شکرہے آپ آگئے ہمیں تو خوف ہو رہاتھا کہ پتہ نہیں آپ نے آج آناہے کہ نہیں آپ آگئے تو جان میں جان آگئی ہے پروفیسر صاحب میں یہاں جو بھی لوگ آتے ہیں اِن سب سے زیادہ پریشان تکلیف دکھ میں ہوں بلکہ آپ کی زندگی میں شاید ہی میرے جیسی دکھی عورت آئی ہوگی میں مسلسل غربت اور مسائل کی چکی میں پیس رہی ہوں خوشی سکون راحت کے لیے در بدر بھیک مانگ رہی ہوں لیکن شاید خوشیاں اور خوشگوار زندگی مُجھ سے روٹھ چکی ہے

 

اب دامن مراد پھیلائے آپ کے در پر آئی ہوں سر مجھے بہت سارا وقت چاہیے تاکہ میں تفصیل سے آپ کو اپنی زندگی کے غم سنا سکوں آپ برائے مہربانی باقی لوگوں سے مل لیں ہم انتظار کر لیتی ہیں جیسے ہی آپ فری ہو نگے ہم سے تفصیل سے مل لیجئے گا میں نے بہت سمجھایا کہ آپ پہلے مل لیں لیکن عورت بضد رہی کہ نہیں پہلے آپ باقی لوگوں سے مل لیں پھر آرام سے میری بات سنیں میں نے عورت کو بہت سمجھایا لیکن جب وہ نہ مانی تو دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہو گیا میں اِس عورت اور بیٹی کو بھی عام غربت اور بیٹی کی شادی نہ ہو نا رشتے نہ آنا یا رشتوں کا آکر ٹھکرا کر چلے جانا سمجھا لیکن بعد میں یہ کیس بہت ہی حیران کن اور مختلف نکلا میں جس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا زندگی کا وہ پہلو سامنے آیا کہ میرے ہوش ہی اُڑ گئے دونوں ماں بیٹی سامنے بینچ پر خاموش بیٹھی تھیں میں دوسر ے لوگوں سے مل رہا تھا اِس دوران جب بھی دونوں پر نظر پڑتی تو دونوں میں خاموشی اور بے گانگی کی چادر تنی ہو ئی تھی دونوں بینچ کے آخری کناروں پر ایک دوسرے سے بے خبر بیٹھی تھیں دونوں کا اِس طرح خاموشی سے بیٹھنا میرے لیے بہت حیران کن تھا کیونکہ ایک سے زائد عورتیں کسی جگہ پر موجود ہوں اور دونوں کے منہ پر تالے لگے ہوں یہ نہ ماننے والی بات تھی اب میں نے دونوں ماں بیٹی کو سنجیدگی سے دیکھنا شروع کر دیا

 

دو گھنٹے گزر گئے لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا لیکن دونوں صبر سے بیٹھی ہو ئی تھیں میں ذہنی طور پر تیار تھا کہ یہ جیسے ہی ملنے کا کہیں گی میں فوری طور پر مل کر کوئی وظیفہ بتا کر فارغ کر دوں گا لیکن وہ تو شائد صبرکا ڈرم پی کر آئی تھیں اِسی دوران کوئی شخص مٹھائی لے کر آیا تو میں نے حسب معمول لوگوں میں بانٹنے کا کہا اور بانٹنے والے کو اشارہ کیا کہ وہ سامنے ماں بیٹی صبح سے بیٹھی ہیں پہلے جا کر اُن کو دو دونوں شاید بھوک کا شکار تھیں اِس لیے مٹھائی اٹھا کر کھانا شروع کر دی جب مٹھائی سب میں بانٹنے کے بعد بچ گئی تو میں نے اشارہ کیا جا کر دونوں کے درمیان رکھ دے اور اشارے سے کہا باجی آپ صبح سے بھوکی ہیں کھا کر اپنی بھوک کو مٹائیں میرے اشارے پردونوں نے مٹھا ئی کھانا شروع کر دی میں لوگوں سے ملنے میں مصروف رہا پانچ گھنٹے گزر گئے تو میں دونوں کی طرف گیا اور جا کر بیچ کے کنارے پر بیٹھ کر بولا دیکھیں باجی اگر آپ اِس انتظار میں ہیں کہ لوگ ختم ہو جائیں گے تو آپ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں یہ لوگوں کی سپلائی تو مغرب تک اِسی طرح جاری بلکہ زیادہ ہو تی جائے گی مجھے آپ کو اِس طرح ہی دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا ہے آپ برائے مہربانی اپنی بات کریں اگر مجھے سمجھ آئی تو آپ کو مشورہ دوں گا یا دعا دے کر واپس بھیج دوں گا میرے اصرار کر نے پر عورت اپنا مسئلہ سنا نے پر تیار ہو گئی

 

پھر خوف میں لتھڑے لہجے اور کانپتی آواز سے بولی آپ وعدہ کریں کہ میری پوری بات سنیں بغیر مجھے اٹھا کر واپس نہیں بھیجوں گے بلکہ میری مدد اور مشورہ دیں گے آپ کو اللہ نبی ؐ کا واسطہ وعدہ کریں آپ میری مدد کریں گے عورت التجا یہ لہجے میں رو رو کر ایک ہی بات کہ میری پوری بات سن کر مدد کی بھی کوشش کروں گا تو میں نے وعدہ کیا باجی آپ بے فکر ہو کر بات کریں میں پو ری کو شش کروں گا کہ آپ تسلی سے تفصیل سے اپنا مسئلہ بیان کریں میں بھی اُس کو روتا دیکھ کرپریشان ہو گیا تھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے عورت نے بولنا شروع کیا سر میں اِس بھردنیا میں اکیلی ہو ں نہ بہن نہ بھائی نہ ماں نہ باپ نہ خاوند صرف میں اور میری یہ بیٹی ہے ذریعہ معاش کوئی نہیں خاندانی پراپرٹی بھی نہیں ہے والدین یا خاوند سے وراثت میں بھی کچھ نہیں ملا زندگی کی بھاری زنگ آلودہ گاڑی کو چلانے کے کچھ جو پاپڑ بیلتی آئی ہوں یہ میں ہی جانتی ہوں میں ان پڑھ ہوں میری بیٹی میڑک پاس ہے یہ چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہے جس سے ہمارا مشکل سے گزارا ہوتا ہے ایک سال سے میں شوگر جگر کی مریضہ ہوں اب پیسے زیادہ چاہیے اب میں اپنا خاندانی کام پیشہ اپنی بیٹی سے کرانا چاہتی ہے کیونکہ مرتے وقت حرام بھی حلال ہو جا تا ہے لیکن میری بیٹی گستاخ ہے نہیں مانتی میں کسی مولوی کے پاس نہیں ایک درویش کے پاس آئی ہوں میری بیٹی کو سمجھائیں اور میری بات مانے تو میں بولا باجی آپ کا خاندانی کا م کیا ہے تو بیٹی روتے ہوئے بولی یہ طواف اور میں طواف زادی ہوں یہ مجھے جسم فروشی پر مجبور کر ہی ہیں۔ (جاری ہے)


شیئر کریں: