Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔  توبہ کے مسافر (حصہ دوئم) ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔  توبہ کے مسافر (حصہ دوئم) ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

مجھے لگا جیسے بہت سارے خطرناک زہریلے بچھوؤں کو میرے جسم پر ڈنک مارنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو یا مجھے قیمہ بنانے والی مشین میں ڈال دیا گیا ہو روزانہ میرے پاس مختلف قسم کے لوگ اپنے مسائل کے لیے آتے ہیں ہر بندے کا مسئلہ دوسرے سے مختلف لیکن ایسا سوال اور سوالی کہ وہ میرے پاس اِس لیے آئی تھی کہ وہ اپنی جوان بیٹی سے جسم فروشی کا دھندہ کروانا چاہتی ہے بیٹی نیک سیرت بیٹی جسم فروشی کے لیے تیار نہیں وہ اِس کام کو گناہ عظیم سمجھتی ہے جبکہ ماں کے نزدیک انوکھی دلیل کہ جب انسا ن مرنے لگے یا حالات اِس قدر ناقابل برداشت اور تکلیف دہ ہو جائیں کہ زندگی کا دھاگہ ٹوٹنے لگے تو زندگی کی ڈوری کو بچانے کے لیے جسم فروشی بھی حلال ہو جاتی ہے جب بیٹی نے بار بار ماں کی غلط ڈیمانڈماننے سے انکار کیا تو پہلے تو ماں نے خوب ڈانٹا سمجھایا دھمکایا لیکن جب مارنے پیٹنے کے بعد بھی بیٹی کے عزم و استقلال میں سوئی کے برا بر بھی کمزوری نہ ہوئی تو ظالم ماں میرے پاس لے آئی کہ شاید بیٹی ضدی دماغی خلل کی مالکہ ہے جو مجبوری کے حالات میں بھی ماں کی بات نہیں مان رہی

 

میں نے معصوم بیٹی کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں غم اور کرب کا دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا جیسے اُس کو کباب بنانے والی سیخ پر پرو کر آگ کے شعلوں پر دکھ دیا گیا ہو وہ بیچاری مجبوری بے بسی لاچارگی دکھ پریشانی کے آگ برساتے ریگستانوں سے ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی تھی۔ بے بسی مجبوری پریشانی کا چلتا پھرتا اشتہار بنی میرے سامنے بیٹھی تھی اُس کے چہرے پر قبرستانوں کاسناٹا اور ویرانی تھی اُس کے انگ انگ سے دکھ پریشانی جھلک رہی تھی میں بھی سر سے پاؤں تک اُس کے درد دکھ میں جھلسنے لگا میری آنکھوں میں بھی غم کا سمندر کروٹیں لینے لگا اب میں نے دنیا کی انوکھی مختلف بے رحم ماں کی طرف دیکھا تو وہ بولی پروفیسر صاحب میں کسی مولوی کے پاس فتوی لینے نہیں آئی مجھے پتہ تھا اگر میں یہ سوال لے کر کسی مولوی کے پاس جاؤں گی تو وہ مجھے دھکے دے کر گالیاں دے کر دفع کر دے گا کہ زندگی میں دوبارہ کبھی اُس کے پاس ایسا سوال لے کر نہ آؤں اِس لیے میں آپ کے پاس آئی ہوں کہ آپ روحانیت تصوف فقیری درویشی کا دعوی کر تے ہیں خدمت خلق کے نعرے مارتے ہیں انسان سے محبت پیار مدد کا راگ الاپتے ہیں میں دیکھنے آئی ہوں کہ آپ کی خدمت خلق کا غبار کتنی دیر میں ہوا سے خارج ہو تا ہے

 

آپ جو دن رات انسانیت مدد اخوت بھائی چارے خدمت خلق کی جگالی کرتے ہیں کس طرح مجھے راستہ دکھاتے ہیں میں اندھیروں کی دلدل میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دھنسی جارہی ہوں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی آپ کے پاس امید لے کر آئی ہوں خدا کے لیے مجھے اِس دلدل سے نکالیں یا میری بیٹی کو سمجھائیں کہ جس پیشے سے میرا خاندان صدیوں سے منسلک ہے وہی ہماری پناہ گاہ بنے گا آج کا معاشرہ بانجھ ہو چکا ہے مہنگائی کا عفریت سب کو چاٹ چکا ہے آج لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں نصیب یہ ہمارے جیسوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گا میں نے اپنی بیٹی کے کہنے پر کئی سال پہلے تو بہ کر لی تھی اِس بیچاری نے دن رات محنت کر کے ٹیوشن پڑھا کر گھر کا خرچہ چلانے کی کوشش کی اب میں شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ ہوں دوائیاں لوں تو بھوک سے مرنے لگتے ہیں اگر پیٹ بھریں تو شوگر جسم کو کھانا شروع اور بلڈ پریشر دماغ کی رگیں پھاڑنے لگتا ہے اب میں توبہ کو قائم نہیں رکھ سکتی اب توبہ توڑ کراپنے پرانے دھندے پر جانا پڑے گا پھر دیر تک ماں معاشرے کی بے حسی اور مہنگائی کا رونا رو رو کر مجھے اور اپنی بیٹی کو قائل کرنے کی کو شش کر تی رہی کہ میری بیٹی کو یہ کہہ دیں کہ مرتے وقت حرام بھی حلال ہو جاتا ہے بیٹی کی آنکھوں سے غم کی نہریں مسلسل بہہ رہی تھیں جبکہ میں بے بسی کا بت بنا ماں کی باتیں سن رہا تھا ساتھ ہی میرا دماغ راستہ حل ڈھونڈ رہا تھا کہ کس طرح اِس عورت کو خطرناک ارادے اور بیٹی کو جسم فروشی کے دوزخ میں گرنے سے روک سکوں پھر میں اپنے ماضی کے اوراق پلٹتا چلا گیا کہ ماضی میں کہاں کس طرح ایسا کیس آیا اور پھر خدا کی مدد سے اُس کا حل کیا تو پندرہ سال پہلے کا دولت مند جاگیر دار یاد آگیا جب وہ کسی طوائف زادی کے عشق میں مبتلا ہو کر مُجھ فقیر تک پہنچا.

 

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایک پڑھا لکھا امیر جاگیردار میرے پاس آنا شروع ہو ا کیونکہ وہ طوائف زادی کے عشق میں مبتلا تھا طوائف زادی اور اُس کی ماں کو شک ہو گیا تھا کہ اُن کے گھر خاندان پر جادو ہو گیا ہے بہت سارے عاملوں سے جادو کا علاج کروایا لیکن جب آرام نہ آیا تو طوائف ماں نے جاگیر دار سے کہا تم ہمارے بہت سارے کام کرتے ہو اب اِس کام میں بھی ہماری مدد کرو کسی اچھے روحانی معالج کو تلاش کرو جو اپنے کام کا خوب ماہر ہو لہذا اُس عامل بزرگ کو لے کر میر ے گھر آؤ اُس کے آنے سے میرے گھر پر چھائے نحوست اور جادو کے اثرات ختم ہو جائیں گے جاگیر دار کی والدہ میرے پاس آئی تھی دو بار میں بھی اُس عورت کے گھر گیا تووہاں جاگیر دار صاحب سے میری سر سری سی ملاقات ہوئی جاگیر دار صاحب پر دولت کاخمار چڑھا ہوا تھا اپنی ہی دنیا میں مست تھا لیکن یہ جان گیا تھا کہ گھر والے مُجھ سے روحانی علاج وغیر ہ کرواتے ہیں تو جب طوائف زادی نے فرمائش کی کہ کسی عامل روحانی معالج کو حاضر کرو تو اُس کو میری یاد آگئی لہذا مجھے متاثر کرنے اور قریب ہو نے کے لیے بہت سارا فروٹ اور مٹھائی کے ڈبے لے کر میرے پاس حاضر ہوا کہ میری صحت ٹھیک نہیں مجھے دم کر دیں وظیفہ بتادیں۔

 

پھر اگلے ہی دن پھر آگیا کہ آپ کے علاج سے مجھے بہت سکون ملا ہے مجھے پر سکون نیند آتی ہے آج سے میں بھی آپ کا چاہنے والامرید ہوں مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے پاس ریگولر آیا کروں تو میں نے کہابھائی یہاں سینکڑوں لوگ روزانہ آتے ہیں تم بھی آجایا کرو لہذا اُس نے مجھے پھانسنے دوست بنانے کے لیے اب دوسرے تیسرے دن میرے پاس آنا شروع کر دیا دوسری ملاقات میں ہی میں نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ یہ جو فروٹ مٹھائیاں اور مختلف چیزیں لاتے ہو اب نہیں لایا کرو کوئی خوشی کا موقع ہو تو ٹھیک ہے ورنہ روزانہ ٹھیک نہیں ہاں اگر تم کو سخاوت کا شوق ہے تو اپنے گاؤں محلے میں غریبوں کو تلاش کرو جا کر ان کی مدد کرو لہذا اب اُس نے تحائف لانے بند کر دیے لیکن میری مدد کی کوشش کرتا سر میری فلاں فلاں جگہ جان پہچان ہے اگر کوئی کام ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا بہت شرافت نرمی محبت سے آتا سر مجھے دم کریں سر میں آپ کے روحانی علاج سے بلکل ٹھیک ہو گیا ہوں اِس طرح آنے جانے سے وہ میرے قریب ہو گیا میں جانتا تھا یہ کسی چکر میں ہے پھر آہستہ آہستہ کہنے لگا سر ایک بیوہ عورت اپنی جوان بچیوں کے بہت بیماری اور جادو کے اثرات ہیں آپ کسی دن وقت نکالیں جا کر اُن کا علاج اور خدمت خلق کرتے ہیں میں شروع میں تو مصروفیت کا بہانا بنا کر ٹالتا رہا لیکن جب اُس نے بہت مجبور کیاتو ایک دن اُس عورت کے گھر گیا تو عورت بہت احترام سے ملی اپنی سات جوان بیٹیوں سے ملوایا پھر کہا پیر صاحب دعا کریں میرا کام بلکل بند ہو گیا اب تو کوئی گاہک گھر کی دہلیز پار نہیں کرتا تو میں نے پوچھا کونسا گاہک آپ کیا کام کرتی ہیں تو ماں بولی پیر صاحب ہم ناچ گانے والے لوگ ہیں لوگوں کا دل بہلاتے ہیں وہ گاہک آج کل نہیں آرہے۔ (جاری ہے)


شیئر کریں: