اس سے پہلے کہ چترال میں اسلام کی آمد کے حوالے سے بات کریں اس نکتے کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آج جس طرح ہم چترال سے مراد ایک مخصوص جیوگرافی جانتے ہیں ماضی میں نہ یہ جیوگرافی ہمیں ملتی ہے اور نہ ہی کسی ایک مخصوص خطے کا مخصوص نام بلکہ مختلف ناموں کی وجہ سے مورخیں کو کسی مخصوص جگہ کی شناخت کرنے میں مسائل کا سامنا ہے اس وجہ سے اکثر قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلا بلور، کوہستان، دردستان،، قشقار، چھترار وغیرہ ناموں کے ساتھ تاریخ میں مختلف باتیں، قصے اور کہانیاں موجود ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ چترال کا ذیادہ تر حصہ بدخشان ِ کبیر کا حصہ رہا ہے جو تاجکستان، ایران اور افغان بدخشان پر پھیلا ہوا ایک خطہ تھا۔ ریسرچ کے دوران مشہور ایرانی صوفی شاہ نعمت اللہ کی کتاب سے واسطہ پڑاجو پندرویں صدی میں لکھی گئی ہے لفظ چترال اور گلگت ایک شعر کے اندر موجود ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں نام عرصہ دراز سے موجود ہیں البتہ وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی جیوگرافی بدلتی رہی ہیں۔ جہاں تک چترال میں اسلام کے آمد کی بات ہے اس کے حوالے سے میں نے چترال کے اکثر مصنفیں کو حقیقت کے برعکس کچھ غیر منطقی افسانوی کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا ہے بلکہ کچھ کو اُ ن کہانیوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
مثلا ایک کہانی بیان کیجاتی ہے کہ خاتم النبیں رسولﷺ کے چچا آمیر حمزہ اسلام پھیلاتے ہوئے تورکُو ہ آئے اور ایک مشہور حکمران اور پہلوان بہمن کوہستانی کو شکست دیکر آٹھویں صدی کے دوراں چترال میں دین اسلام پھیلایا، در حقیقت یہ کہانی ایک افسانوی کردار داستانِ امیر حمزہ سے اُٹھا کر چترال کے ساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے آمیر حمزہ کا انتقال رسولﷺ کے دور میں ہی جنگ اُحد میں ہوا ہے اور یاد رہے کہ مستند تاریخ کے مطابق آمیر حمزہ نے کسی اسلامی فوج کی سربراہی کرکے اسلام پھیلانے کے حوالے سے کبھی کسی مہم کا حصہ بھی نہیں رہے۔ اس کہانی کو جیٹمار (۸۸۹۱) منشی عزیز الدین (۸۶۹۱) وزیر علی (۴۸۹۱) نے بھی اپنے تحاریر کا حصہ بناکر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ جبکہ پروفیسر رحمت کریم بیگ اسی کہانی کو دسویں صدی میں دیکھاتے ہیں اور یہ تھوڑا ساحقیقت کے قریب بھی لگتا ہے کیونکہ یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بہمن کوہستانی موجود ہی نہیں تھا البتہ اُس کی کہانی کو اُٹھا کر داستان امیر حمزہ سے جوڑ کر مزید پیچیدگیاں کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسی نام سے کوئی اور سپاسالار موجود ہو مگر تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے۔ محمد عرفان صاحب اپنے حالیہ شائع شدہ کتاب (چترال میں اسلام) کے اندر بھی اس کہانی کو نہ صرف اپنے تحقیق کا حصہ بنایا ہے بلکہ اس کو قریب از حقیقت بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں
کہ ۷۵۶ /۶۴۶ء حضرت عثمان رض کے خلافت کے دوران مسلمان فاتحین آگے بڑھے، داغستان اور مغربی ترکستان میں داخل ہوئے اُس وقت مسلمانوں کے ایک فوجی دستے کا علاقہ تورکھو میں داخل ہوکر لوگوں کو اسلام سے متعارف کرانے کا عندیہ ملتا ہے۔:
عرفان صاحب نے اس کے لئے کوئی تاریخی مواد فراہم نہیں کیے ہیں کہ کیا عندیہ ملتا ہے بلکہ دوبارہ امیرحمزہ کی کہانی سے مدد لینے کی کوشش کی ہے اور لکھتے ہیں کہ آمیر حمزہ کی لڑائی مژگول میں بہمن کوہستانی سے ہوئی او آمیر حمزہ نے بہمن کوہستانی کو مارڈالا اور اس علاقے میں اسلام پھیلایا۔اس موضوع پر محمد عرفان صاحب نے بہت ہی بہتریں کوششیں کی ہیں کہ دور خلافت اور عباسی خلافت کے دوران وسط ایشیا، جنوبی ایشیا کے تواریخ سے کوئی مواد مل جائے جن سے اس بات کی دلیل مل جائے کہ چترال میں اسلام دور خلافت یا اس کے اس پاس ہی پھیلی ہے لیکن کوئی بھی مواد اس حوالے سے واضح نہیں ہیں۔ البتہ پروفیسر حسن دانی کے ہاں کابل کے شاہ کی حکومت (۵۱۔۴۱۸) عباسی خلیفہ ماموں رشید کے دور میں گرائی گئی تھی۔اُن کے مخطوطات میں سے ایک کے اندر بلور کا نام استعمال ہوا ہے لیکن اُس کی بھی کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے کہ کس حکمران کو شکست دیا گیا تھا اور اسلام پھیلایا گیا۔ بہر حال یہ بات ماننا پڑے گا کہ آٹھویں، نویں صدی یا اس کے ارد گرد چترال میں کم از کم دین اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے مواد ڈھونڈنا میری نظر میں ایک غیر منطقی کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
اکثر مورخیں و مصنفیں کے مطابق دسویں صدی کے دوران اپر چترال اور لوئر چترال دونوں الگ الگ حکمرانوں کے زیر حکومت رہی ہیں۔رحمت کریم بیگ اور دوسرے سکالرز کے ہاں اپر چترال میں اسلام ایک غیر مسلم حکمران سومالک کی شکست سے شروع ہوتی ہے جبکہ لوئرچترال میں کلاشہ حکمرانی کے دور میں ہی اسلام کی ابتدا ہوئی ہے۔ میرزہ محمد غفران، حشمت اللہ خان اور کئی اور نامور لکھاریوں کے ہاں ایک اسماعیلی کمانڈر تاج مغل نے براستہ بروغل اپر چترال میں وارد ہوئے اور سومالک کو شکست دے کر دینِ اسلام کی ترویج کی اور ورشیگوم سے ہوتے ہوئے گلگت میں ایک غیر مسلم حکمران ترا خان کو شکست دے کر مشرف بہ اسلام کیا۔ گلگت میں آج بھی اُن کے نام سے منسوب مغل مینار موجود ہے۔ حشمت اللہ خان کے ہاں تاج مغل نے نہ صرف سومالک اور ترا خان کو شکست دے کر مسلمان بنایا بلکہ لوئر چترال میں رئیسہ حکومت کی بنیاد بھی رکھی۔ حشمت اللہ خان کے ہاں رئیسہ کا پہلا حکمران شاہ نادر رئیس عقیدتاََ اسماعیلی مسلمان تھا۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ جنرل اسماعیلی تاریخ کے اندر نہ ہی اس اسماعیلی کمانڈر کے بارے میں کوئی معلومات ہیں اور نہ اُن کے اس مہم جوئی کے حوالے سے کوئی اشارے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بدخشان کے میر اور پیر خاندانوں سے کوئی ایک فرد ہو جس نے اردگرد کے علاقوں میں حکمرانوں کو شکست دے کر اسلام پھیلانے کی کوشش کی ہو۔ اس کی تاریخ ِ آمد ۰۲۳۱
ء بتائی جاتی ہے۔
اسلام کے آمد کے رو سے لوئر چترال کو بھی دو حصوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آرندو سے چترال ٹاون تک اسلام کی آمد کے حوالے سے اہل سنت ولجماعت کے ایک مشہور عالم اخوند سالک کا نام لیا جاتا ہے جس نے تیرویں صدی کے دوران بریکوٹ سے وارد ہوئے اور دین اسلام کی ترویج کی۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب کے تحقیق کے حساب سے اخوند سالک دیر اور کوہستان میں بھی دین اسلام کی ترویج کی اور اُن کی آمد تقریبا سولہویں صدی کے بعد کی ہے مذکورہ عالم کے بعد اور بھی کی جید علما کے آمد کے حوالے سے مواد ملتی ہیں لیکن اس مختصر مقالے کا مقصد صرف پہلی مرتبہ دین اسلام کی ترویج کرنے والے شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔
لوئر چترال کا بالائی حصہ لٹکوہ ایریا ہے جس کا تاریخی نام انجگان ہے۔ میرے مطالعے کے حساب سے انجگان تاریخی اعتبار سے گیارویں صدی سے پہلے موجودہ چترال کا حصہ ہی نہیں رہا ہے بلکہ یہ بدخشان ِ کبیر کا ایک مخصوص حصہ ہوا کرتا تھا جس کے واضح اثرات آج بھی موجود ہیں۔ یہاں کے تمام رسم و رواج، طرز زندگی، نسلی مماثلت، مذہبی، جغرائیائی اور ثقافتی تعلق بدخشان اور وسط ایشیا کے ساتھ مشترک ہے۔یہانتک کہ اس علاقے کا نام بھی انجگان ہے جو کہ اُسی راستے میں موجود بدخشان کے علاقوں منجان اور یمگان سے مماثلت رکھتا ہے۔ چترال اور گلگت بلتستان کے تمام مورخیں بلخصوص میرزہ محمد غفران، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، پروفیسراسرارالدین، ڈاکٹر عزیزاللہ نجیب، فدا علی ایثار، ڈاکٹر نیک عالم راشد وغیرہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ انجگان چترال اور گلگت میں وہ پہلا علاقہ ہے جس میں اسلام براستہ دوراہ(شاہ سلیم) گیارویں صدی کے دوران بدست سید نا ناصر خسرو اوراُن کے شاگردوں کے ذریعے سے پھیلی ہے۔ البتہ کچھ مصنفین اپنے تحفظات کا اظہار کچھ اِن معنوں میں بھی کرتے ہیں کہ شاید ناصر خسرو خود تشریف نہیں لائے بلکہ اُن کے شاگردوں میں سے کوئی آئے ہیں اور اس دلیل پر اکتفا کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے سفرنامے میں اس کا اظہار نہیں کیا ہے۔یہاں پر اس بنیادی نکتے کو سمجھنا ضروری ہے کہ ناصر خسرو حج سے واپسی کے دوران مصر میں جب فاطمی امام مستنصرباللہ سے ملاقات کی اور اسماعیلی مسلک قبول کی اُن کو حجتِ خراسان کے ٹائٹل سے نوازا گیا اور اُس نے خراسان و بدخشان میں اسماعیلی دعوت پھیلائی اب بدخشان کبیر یاکوہستان یا خراسان اُن کے دعوت کا حلقہ تھا اور اُن تمام علاقوں کا بنفس نفیس دورہ کئے اور دعوت پھیلائی اور انجگان بھی منجان اور یمگان سے ملحقہ ایک علاقہ ہے چہ جا کہ ناصر خسرو اپنے مغرب کے سفرنامے میں وہ انجگان کے دورے کو شامل کرے جو اُس کے اسماعیلی مسلک قبول کرنے سے پہلے کا ایک دورہ تھا۔ قارئیں کا ناصر خسرو کے زندگی کے بارے میں اس بات کو بھی جاننا ضروری ہے آپ کی پیدائش1004ء کی ہے اور تاریخِ وفات 1088ء جبکہ1054۱ ء سے لیکر 1088ء تک یعنی34کی زندگی، کام اور سرگرمیوں کے بارے میں تاریخ خاموش ہے میرا قوی خیال ہے کہ یہی وہ دورانیہ ہے جب ناصر خسرو بدخشان اور اسکے مضافات میں اسماعیلی دعوت پھیلارہے تھے۔
دوسری بات اگر ناصر خسرو کے بدخشان کے اندر دعوت کے حوالے سے ثبوت اُنہی کے مذہبی عقیدے، فلسفیانہ افکار کے کتابوں، سفرنامے اور دیوان اشعار میں ڈھونڈنے لگے آپ ناصر خسرو کو بدخشان کے کسی بھی علاقے میں نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ کوئی بھی اپنے حلقہ دعوت کے اندر کام کرتے ہوئے اور تبلیغ کرتے ہوئے سفرنامہ نہیں لکھتا۔ اور اگر روزنامچہ لکھا بھی ہو تو ہمیں معلوم ہے کہ آپ کی بہت ساری کتابیں آج موجود بھی نہیں ہیں جن کے صرف نام ہم تک پہنچے ہیں ہوسکتا ہے اُن کے اندر بدخشان کے اندر کی سرگرمیوں کا ذکر موجود ہو۔ واللہ اعلم۔ اس کے علاوہ علاقہ انجگان میں موجود ایک مظبوط مذہبی روایت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جہاں ناصر خسرو سے منسوب تہوار کے ساتھ ساتھ ناصر خسرو کی چلہ کشی اور زیارت (آستانہ) آج بھی موجود ہے جہاں علاقے کے لوگ ایک مذہبی عقیدت کے ساتھ دورہ کرتے ہیں اور سالانہ عرس ایک تہوا ر کی صورت میں مناتے ہیں جس سے پھتک کے نام سے جانتے ہیں۔
موجودہ بدخشان کے اندر پائے جانے والے مذہبی و ثقافتی روایات اور تاریخی مواد او ر انجگان میں پائے جانے والے روایات تقریبا ایک جیسے ہیں۔افغان مصنف پروفیسر ابراہیم بامیانی (2000) نے ناصر خسرو اور اُن کے شاگردوں کے حوالے سے بدخشان میں موجود روایات کو کتابی شکل دی ہے جو کہ انجگان میں پائے جانے والے روایات کے ساتھ ملتی ہیں مثلا ناصر خسرو کا اپنے شاگردوں کے ساتھ دورہ انجگان(شاہ سلیم) دونوں طرف یکساں پایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ایک مستند مواد ناصر خسرو کی بدخشانِ کبیر میں کئے گئے سرگرمیوں پر لکھی گئی قدیم کتاب بحر لاخبار (سیاحت نامہ ناصر) ہے جو کہ رحمان قلوو نے لکھی ہے۔اس کتاب میں ناصر خسرو کے چترال کے دورے کے بارے میں واضح الفاظ موجود ہیں۔ بحرالاخبار (سیاحت نامہ ناصر) کے مطابق ناصر خسرو نے بدخشان کبیر(جو ماضی میں کوہستان کے نام سے جانا جاتا رہا ہے) کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ چھترار(چترال)کا بھی دورہ کیا ہے۔ اسماعیلی تاریخ کے اہم محقق مشہور مغربی سکالر ایوانوف Iwanove اور وسط ایشیا کے اسماعیلی تاریخ پر ریسرچ کرنے والا دورِ حاضر کے قابل سکالر ڈینیل بے بن Danial Baben بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ناصر خسرو کا چترال (انجگان)تک آمد ایک حقیقت ہے البتہ اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ناصر خسرو سریقول، یارقند اور تبت تک سفر کئے تھے جو بعض مصنفیں بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے تاجک سکالر غلاما دو شفتولو اپنی پی ایچ ڈی تھیسیس (The Hegiography of Nasir Khusraw and The Ismailis of Badakhshan) میں لکھتے ہیں۔
He (Danial Baben) points out that, in addition to an account of Nasir Khusraw’s life and mission to Badakhshan, this text (Sayahat Namaey Nasir) offers of his travel to neibhouring region such as Tibbet, which seem to be mis-reading as the Siyahat namah Nasir offers no such account, although it certainly narrates stories about the travels to other regions of Badakhshan (Kuhistan) including Chitral (Chitrar), the regions of Upper Oxus valley and those on the right side of the Punj river mentioned by Ivanow.
بہر حال ناصر خسرو کی خراسان میں اسماعیلی مذہب پر ریسرچ کرنے والے تمام سکالرز کے ہاں ناصر خسرو تاجک بدخشان، شکاشم، خواہاں،زیباک، واخان، یمگان، منجان اور انجگان (لٹکوہ چترال) وغیرہ کا نہ صرف دورہ کیا ہے بلکہ وہاں اپنے نائبین کا انتخاب بھی کیا تھا۔ جہانتک اُن کے شاگردوں کے بارے میں موجود لٹریچر کی بات ہے دو نام ذیادہ مشہور ہیں۔سید ملک جہان شاہ (عرف عمر یمگی) اور سید سہراب ولی۔جنہوں نے ناصر خسرو کے ساتھ اِسماعیلی مذہب کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کئے۔ بحرالاخبار (سیاحت نامہ ناصر)، تذکرہ ناصر خسرو، ایوانوف، ڈینیل بیبن، غلامادوشفتولو، ڈاکٹر عزیزاللہ نجیب، ڈاکٹر نیک عالم راشد، فدا علی ایثار سمیت بے شمار مصنفیں کے کتابوں اور مقالوں میں ناصر خسرو کے ان دو شاگردوں کے بارے میں نہ صرف معلومات ملتی ہیں بلکہ ان کے درمیاں حلقہ دعوت کی تقسیم کی وضاحتیں بھی ملتی ہیں۔
ان دونوں بزرگوں کے بارے میں چترال کے ایک قابل تاریخ دان ہدایت الرحمان نے بھی کافی فارسی مواد ہمارے ساتھ شئیر کئے ہیں جو اِن دونوں کے شجرہ نصب اور تبلیغی کاموں کے حوالے سے وضاحتیں موجود ہیں۔ بحرالاخبار سیاحتِ ناصر اور تذکرہ ناصر خسرو کے مطابق سید عمر یمگی کو ماذون اکبر یعنی ناصر خسرو کےChief Disciple تھے جو دعوت کی ساری ذمہ داریاں سنبھالتے تھے۔ اور سیاحت نامہٗ ناصر کے ورق نمبر ۶۹ میں یہ درج ہے اور غلامادو شفتلو نے بھی اپنے ریسرچ کے اندر مذکورہ کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے ضاحت کی ہے کہ بحر الاخبار سیاحتِ ناصر کے مطابق سنگ لیچ، زیباک، اشکاشم، واخان، شغنان، روشن اور درواز سید سہراب کے حلقہ دعوت میں جبکہ شاہ سلیم، چھترار، خاش، یمگان(اسپنج) اور ملحقہ علاقے عمر یمگی کے دائرہ دعوت میں شامل تھے۔
Nasir Khusraw then divides the places (takavah) under the dawa between Syed Suhrab and Malik Jahan Shah (Umar Yumgi). Place such as Sangtigh (probably Sanglich), Zibak, Ishkasum, Vakhan, Shughnan, Rushan and Darvaz are placed under Syed Suhrab’s control. Other places including Shah Salim, Chitrar, Khash (In Yumhan Valley), Ispanj and other areas are assigned to Malik Jahan Shah.
ان کے علاوہ ایک خاتوں ریسرچر فوزیہ جنجوعہ کی ایک بہت جامع ریسرچ مقالہ میری نظر سے گزری جو کہ ید غا زبان پر کی ہے۔ اپنی مقالے کے اندر بڑی وضاحت سے سید ملک جہاں شاہ (عمر یمگی)کے انجگان میں آنے اور اسماعیلی مذہب کے پھیلانے کے حوالے سے کافی مواد جمع کی ہے۔ ا ُن کے ہاں یدغہ در اصل یمگان منجان اور ملحقہ علاقوں میں بولی جانے والی زبان ہے اور یہ سید عمر یمگی کے اولاد کی وجہ سے اس علاقے میں موجود ہے۔ وضاحت کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔
……they (Darvesh) are the preachers and patrons of the Ismaili Sects….Nasir Khusraw came to this region with his Disciple Syed Malik Jahan Shah and spents some years here in preaching the Ismaili Faith….
سیاحت نامہ ناصر اور دوسرے مصنفیں کی باتوں کی توثیق اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ آج انجگان گرم چشمہ میں موجود زیارت ناصر خسرو کے گرد و نواح میں موجود تقریبا چار گاوں پر مشتمل آبادی جو کہ درویش کے نام سے منسوب ہیں عمر یمگی کے اولاد ہیں۔اُن کے باقول درویشی کا لقب ناصر خسرو نے اُن کے بابا یعنی عمر یمگی کو دیے تھے۔ یہ آ ج بھی بحیثیت خلیفہ و قاضی اس علاقے میں قدیم مذہبی و ثقافتی روایات و رسومات کی نمائندگی کرتے ہیں جو ناصر خسرو سے منسوب ہیں قارئیں کی دلچسپی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اسی خاندان کا ایک بزرگ سید مطائب شاہ مرحوم جو کہ چیرمین خلیفہ کے نام سے مشہور رہے چترال کی اہم مذہبی، سماجی و سیاسی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔المختصر: اِن تمام مذکورہ بالا تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا عین منطقی ہے کہ لٹکوہ انجگان ایریا میں دینِ اسلام گیارویں صدی کے وسط تک پھیل چکا تھا ایک ادنی محقق کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ ناصر خسرو اپنے شاگرد عمر یمگی کے ہمراہ بنفس نفیس انجگان تشریف لائے اور اسماعیلی؎
عقیدے کی ترویج کی اور مذکورہ موضوع پر لکھنے والے تقریبا تمام مصنفیں اور محققین لٹکوہ انجگان میں ناصر خسرو اور اُن کے شاگردوں کی آمد کو اس خطے میں اسلام پھیلانے کی پہلی کامیاب کوشش مانتے ہیں۔