Chitral Times

Apr 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

“موسمی تبدیلی سے متاثرہ بریپ گاؤں” – تحریر: حاجی یار خان بریپ

شیئر کریں:

“موسمی تبدیلی سے متاثرہ بریپ گاؤں” – تحریر: حاجی یار خان بریپ

 

اپرچترال کی خوبصورت  گاوں بریپ کو وادی یارخون کا گیٹ وے کہا جاتاہے اس کی لمبائی تقریبا سات کلومیٹر ھے یہاں کے باسی دور رئیس سے قبل یہاں آکر آباد ہیں رئیس دور کا قلعہ اب بھی موجود ھے جس کو”رئیسو ڈوک” کہتے ہیں دور خوشوخت کے ابتدائی ایام میں بریپ شاہ خیراللہ مہتر کا بھی مسکن تھا وادی یارخون میں مختلف جنگیں بھی لڑی گئی ہیں جنگ سکردو میں شامل کئی غازی یہاں مدفون ہیں یہاں 13 قومیت کے لوگ موجود ہیں یہاں تین بڑے نالے ھیں جن پر گلیشیر سال بھر ڈھکا رہتا ھے _ سلابوں سے قبل بریپ کم و بیش 700 گھرانے تھے سیلابوں کے بعد تقریبا 50 متاثرہ خاندان دوسری جگہوں میں شفٹ ھو گئے اب تقریبا 650 گھرانے موجود ھیں _ تقریبا سات کلومیٹر کا یہ گاؤں ہر طرف سرسبز و شاداب تھا اس کو سیبوں کا جنت کہا جاتا تھا یہاں فصلوں سے بہترین پیداوار حاصل کیا جاتا تھا – بریپ کے لوگوں کی معیشت کا دارومدار کھیتی باڑی ، مال مویشی پالنے، سیبوں کی باغات ، محنت مزدوری اور نوکریوں پر ھے IUCN کے 2001 کے satellite image کے مطابق چترال کا کل رقبہ 14850 مربع کلومیٹر ہے جس کا 3 فی صد سے بھی کم اراضی قابل کاشت ہے –

 

گاؤں بریپ میں ایک گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول فار بوائز ، ایک اغاخان ہائیر سیکنڈری سکول ،ایک گورنمنٹ گرلز ھائی سکول ،تین گورنمنٹ پرائمیری بوائزسکولز، ایک گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول موجود ھیں – بریپ میں ایک (بی ایچ یو) ، ایک آغا خان ہیلتھ سنٹر اور ایک پاپولیشن پلاننگ سنٹر موجود ھے – بریپ میں تین بڑے نالے( گول ) موجود ہیں جو “درونگوچھوغ” “درکھوت گول” اور “چھکان گول” کے نام سے جانے جاتے ہیں تینوں نالوں میں سیلاب آتے ھیں جن کی وجہ سے گاؤں سیلاب کی زد میں رہتا ہے اور تباہی کا سبب بنتا ہے گاؤں کے بزرگ سناتے ہیں کہ 2005 سے پہلے بھی کئی سیلاب تینوں نالوں میں آچکے ھیں اور تباہی پھیلائے ہیں باوجود اس کے گاؤں کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت متاثرہ جگہوں کی از سر نو آباد کاری کرتے رہتے ہیں بزرگ لوگ فرماتے ھیں کہ 1901 میں “درونگوچھوغ” نالہ میں شدید سیلاب آکر جملشٹ گاؤں کے ایک حصے کو مکمل تباہ کیا جس سے لوگوں کو اپنی زمینات کی شناخت مشکل ہو گئی لوگ اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ(میجر گرڈین) کے پاس درخواست لے کر ائے وہ ان کے زمینات کی نشان دہی کی – 2005 سے 2023 تک ” درکھوت ” نالہ اور ” چھکان نالہ میں سیلاب زیادہ آگئے 10 جولائی 2005, جولائی 2008,جولائی 2010, جولائی 2015,اگست 2018, 19 اگست 2022, اور 22 جولائی2023 کے بے رخم سیلابوں نے ذیل نقصانات کئے_ 60 سے زیادہ گھر مکمل تباہ ہوئے_ 25 سے زیادہ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا_

chitraltimes flood hit area of yarkhoon valley mastuj brep

فصلات، جنگلات، باغات وغیرہ کا تخمینہ لگانا مشکل ھے اگر چہ بریپ میں پہلے بھی سیلاب آگئے تھے جو گاؤں میں تباہی مچائے تھے کئی لوگ بےگھر ھو چکے تھے لیکن 2022 کے سیلاب کا آنکھوں دیکھا حال پیش کیا جاتا ہے، 19 اگست 2022 کو رات کا وقت تھا موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ جاری تھا دور سے لوگوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں” کہ آپنے کو بچاؤ سیلاب آرہا ہے” بجلی دو دنوں سے غائب تھی موبائل فون اور چارجرز میں چارچ ختم ہو گئے تھے اندھیری رات کو روشنی کا بندوبست نہ تھا اور اس وقت سیلاب آب و تاب سے رواں دواں ھو چکا تھا تو ایسی حالت میں دوسری چیزوں کے بارے میں کیا بات کی جائے جبکہ انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو چکا تھا سیلاب کی گرج دار اواز بلند ہوتا گیا کیا دیکھتا ہوں کہ سیلاب کے خوف سے خواتین بچوں کو کندھوں پر اٹھائے ،بعض خواتین بھیڑ بکریوں اور گائے وغیرہ کو سامنے کرکے، ٹریکٹر اور مزدہ والے بوڑھے مرد و خواتین کو اس میں ڈال کر اور بعض لوگ بیمار و بزرگ لوگوں کو کندھوں پر اٹھائے نا معلوم محفوظ مقامات کی طرف جا رھے ھیں کیونکہ بریپ میں کوئی محفوظ جگہ نہیں جہاں پناہ لی جائے روشنی نہ ھونے کی وجہ سے مال مویشی “جہاں چاہ وہاں راہ” کے مطابق چل رہے تھے مرغیاں بھر پور آواز نکال کر اپنی مرضی سے اندھیرے میں گھومتے پھرتے تھے بچے ماں باپ کو ڈھونڈ کر روتے ہیں جبکہ مائیں بچوں کی تلاش میں چیخ رہی ہیں خواتین روتی ھیں کہ ھمارے گھروں کا سیلاب نے کیا حشر کردیا ھوگا مرد سرگردان ہیں کہ سیلاب کا گزر کہاں سے ھو گا

 

 

اپنے بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو بچانے کے لئے پریشان پھیرتے ہیں یہ تقریبآ صبح کے چار بجے کا وقت تھا بارش تھامنے کا نام نہیں لیتی ، اتنے میں سیلاب اپنی پوری طاقت سے اپنی گزرگاہ (برساتی نالے) کو چھوڑ کر صرف گھروں کے درمیان میں سے گزرناشروع کیا دیکھتے ہی دیکھتے کئی گھروں کو گرا دیا اللّٰہ اللّٰہ کرکے صبح کی روشنی ائی، پانچ گھنٹے کی مسلسل سیلاب کے بعد کچھ کمی اتی گئی اور تقریباً 10 بجے صبح سیلاب نے ندی کی شکل اختیار کرلی – سیلاب کے آنے کی خبر سن کر لوگوں کے ہوش و حواس اڑ گئے تھے سب کو آپنی ، بچوں کی اور بزرگوں کی جانیں بچانے کی فکر تھی ایک دوسرے کو پہچانا بھی مشکل ہو گیا تھا ہر کوئی پریشان اور ٹینشن کے عالم میں تھا روتی ہوئی مائیں بچوں کا نام لے کر اندھیرے میں پکارتے تھے – صبح ہوتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ گاؤں کے سارے لنک روڈ اور سڑکیں نیست و نابود ہو چکی ہیں لوگ متاثرہ جگہوں اور تباہ شدہ گھروں کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سیلاب کے ملبوں میں دھنس جاتے تھے لوگ اپنے متاثرہ گھروں اور زمینات کو دیکھنے سے قاصر تھے یارخون ویلی/بروغل ویلی کا راستہ منقطع ہو چکا تھا – سیلاب نے پینے کے پانی اور آبپاشی کے نظام کو مکمل طور پر ختم کردیا تھا پینے کے لئے پانی لانا درکنار ھو گیا نہریں سیلاب برد ھونے کی وجہ سے بچے ھوئے فصلوں کو بچانا مشکل پڑ گیا –

chitraltimes flood distroyed brep houses1

بریپ میں آغا خان ہیلتھ سنٹر اور گورنمنٹ کا بی ایچ یو موجود ہے بی ایچ یو میں عرصے سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر موجود نہیں ہے اب وادی بروغل اور یارخون ویلی سے بیماروں کو بونی یا چترال کے ھسپتالوں میں پہچانا ناممکن ہو گیا- جن لوگوں کے گھر سیلاب کی نذر ہو گئے ان کے مویشی خانوں کے ساتھ چارے بھی سیلاب میں بہہ گئے تو مویشیوں کو چارہ باہر سے نہ لا سکے البتہ گاؤں میں جن کے پاس چارہ موجود تھے وہ ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیتے ایک دوسرے کے مویشی خانوں کو استعمال میں لے آتے – ایک طرف بعض لوگوں کے مکانات مکمل طور پر منہدم ہو گئے تھے تو دوسری طرف لوگوں کے مکانات جزوی طور پر منہدم ہو گئے تھے اب ان لوگوں کو کھلے آسمان تلے رہنا پڑا ، ساتھ ساتھ خوراک کا مسئلہ گھمبیر ہو گیا جن کے خوراک سیلاب میں بہہ گئے تھے ان کو فوری خوراک کی فراہمی بھی بہت مشکل پڑ گیا اسی طرح آپس کی ہمدردیوں سے خوراک اور دوسری ضروریات وقتی طور پر حل کر لئے – سیلاب کی وجہ سے بچوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے بڑے بھی اپنے متاثرہ مکانات ، جائیداد،باغات اور فصلات کو دیکھ کر ٹینشن میں پڑ گئے اور ان کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوئے کیونکہ ان کی زندگیوں کی جمع پونچی دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے – جن کے گھر مکمل طور پر سیلاب میں بہہ گئے تھے ان کے لئے زندگی ایک عذاب بن گیا گھر کے افراد کو کھلے آسمان تلے چھوڑنا ناقابل برداشت تھا اس طرح جزوی نقصانات والوں کے لیے بھی مشکل مرحلہ تھا کیونکہ بچے ہوئے مکانات سے ملبہ فورآ ہٹانا آسان کام نہیں تھا-

 

ان دنوں بزرگوں ،بچوں اور بیماروں کی خبر گیری سیلاب زدگان کے لئے مزید مسئلہ پیدا کردیا ایک طرف رہنے کی جگہ کا مسئلہ پھر ان کے لئے خوراک اور ادویات/ علاج کا بندوبست کرنا بھی آسان نہ تھا بزرگ شہریوں کی حالت بھی اس منظر کو دیکھ کر غیر ھو گئی تھی – سیلاب شروع ہونے سے قبل ہی بجلی کا مسئلہ پیدا ہوگیا بجلی نہ ھونے کی وجہ سے گھروں میں لائٹس ، چارجرز بند اور موبائلز خاموش ہوگئے اھل خانہ ، رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطہ منقطع رہا جس کی وجہ سے پریشانیاں بڑھ گئیں، بریپ تاریکی میں ڈوب گیا بریپ کے اندر ہی لوگ ایک دوسرے کی حال پرسی سے محروم رہے – سیلاب سے رابطہ سڑکیں منقطع ہوئیں جس سے طلباء و طالبات کو سکول جانا کئی دنوں تک بند رہا جو ان کی پڑھائی پر برا اثر پڑا – اپنی مدد آپ کے تحت بریپ کے لوگوں نے متاثرین کے ساتھ برابر کا ساتھ دئیے جو متاثر نہیں ہوئے ہیں وہ اپنی ہر چیز متاثرین میں بانٹ دئیے اور ان کو حوصلہ دئیے- گورنمنٹ نے اشیائے خوردنی /ٹینٹ کے علاوہ مکانات کے فل نقصان والوں کو چار لاکھ، جزوی نقصانات والوں کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار ، وغیرہ رقم ادا کئے جبکہ امامت کے ادارے بے گھر اور جزوی نقصانات والے افراد کو ” محفوظ گھر(شیلٹر) تعمیر کرلئے ساتھ ہی ان کو امدادی سامان اور راشن بھی تقسیم کئے جبکہ دیگر این جی اوز اور مخیر حضرات نے بھی امدادی سامان اور راشن تقسیم کئے۔
(معیشت کی بحالی اور آبادکاری کے لئے مقامی لوگوں کی تجاویز)

chitraltimes flash flood hit Brep area with a pso pump

1- بریپ کا سیلاب سے بچ شدہ حصے کو محفوظ کرنے کے لئے ” “چھیکان گول” نالے کی چینیلائزیشن (کھودائی) کرنے کے ساتھ ساتھ پشتیں (protection walls) تعمیر کرنا از حد ضروری ھے جس سے بچ شدہ گاؤں میں موجود گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول،گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ، 2 پرائمیری سکول، آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول، 5 جماعت خانے، مسجد، پوسٹ افس،گرین گودام،چیک پوسٹ، آغا خان ہیلتھ سنٹر، بی ایچ یو، دفتر ویلیج کونسل،دفتر آغا خان لوکل کونسل، دفتر طریقہ بورڈ، دفتر سوشل ویلفئر بورڈ، دفتر مصالحتی بورڈ، دفتر والنٹیئر کور، 200 سے زائد دوکانیں، آرا مشینیں، چکی مشینیں، گورنمنٹ پاپولیشن پلاننگ سنٹر اور تقریبا 400 گھرانے و دیگر املاک محفوظ ھو سکتی ہی_

2- سیلاب سے متاثرہ کھیتوں، باغات اور جنگلات سے سیلاب کے ملبے کو ھٹا کر دوبارہ قابل کاشت بنانا چاہیئے اور پودے لگانے کے قابل بنانا چاہیئے زمین کے مالکان کو مفت پودے ،کھاد، کیڑے مار ادویات اور گندم کے بیچ دینا چاہئیے-

3- سیلاب کی روک تھام کے لئے چیک ڈیم بنائے جائیں اور پانی uplift کرکے جنگلات لگائے جائیں-

4- گلیشرز کو پگھلنے سے بچنے کے لئے جدید طریقے سے کوئی تدارک کی جانی چاہئیے – 5- سیلابوں کی گذرگاہوں میں گورنمنٹ کے قانون کے مطابق مناسب جگہ چھوڑا جائے اور لوگوں کو بے جا اور غیر قانونی مداخلت کرنے سے منع کیا جائے تاکہ سیلاب کا گزر بآسانی ھو سکے_

6- میوہ جات کے علاوہ cash crops ،جگے کی مناسبت سے لگایا جائے –

7- انٹر نیٹ کی مناسب سہولت بریپ میں نہیں ھے بریپ ایریا میں ٹیلی نار کا کوئی بوسٹر موجود نہیں ھے یہاں PTCL بوسٹر کی اشد ضرورت ھے تاکہ انٹر نیٹ کی سہولت سے نوجوان بے روزگار طبقہ مستفید ھو سکے جیسے فری لینسنگ، آن لائن کاروبار وغیرہ –

8- سیلاب آنے سے قبل انسانی جانوں کو بچانے کے لئے “early warning system” نصب ھو ساتھ ھی “search light” کی بھی اشد ضرورت ہے – 9- گاؤں کے لوگوں نے خود کوشش کرکے بھیڑ، بکریاں پالنا ختم کردئیے تاکہ پہاڑوں پر ان کو چرانے کی وجہ سے سیلاب نہ ائے-

نوٹ، اگر ,چھیکان گول، نالے میں کھدائی نہ کی گئی اور سائیڈ میں حفاظتی بند تعمیر نہ کئے گئے تو یہ خوبصورت گاؤں سیلاب کی نذر ہو جائے گا تو ایسی حالت میں 400 گھرانے کو سنبھالنا حکومت اور دیگر اداروں کے لئے مشکل ھو جائے گا

chitraltimes flash flood hit Brep area of upper chitral

chitraltimes flash flood hit Brep area with apple gardens


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
87278