Chitral Times

May 12, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اسرائیل  امریکہ تعلقات میں شدیدکھنچاؤ – از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسرائیل  امریکہ تعلقات میں شدیدکھنچاؤ – از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

دی ٹائمزآف اسرائیل ۲۰ جولائی ۲۰۲۳کے مطابق اس وقت امریکہ اسرائیل تعلقات شدیدتناؤ کا شکار ہیں اوران دونوں ریاستوں کے تعلقات میں تاریخ کی بدترین سردمہری دیکھنے کو آرہی ہے۔امریکی صدرجوبائڈن نے اسرائیلی حکومت کے  عدالتی اصلاحات منصوبے پر شدیدتنقیدکی ہے اور اس معاملے میں کھل کر مظاہرین کی حمایت کااعلان بھی کردیاہے،امریکی موقف کے مطابق موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اسرائیلی عدالت عظمی  کوکمزورکرنے پر عمل پیراہیں جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور عوامی آزادیوں پرقدغن لگ جائے گی جس کامنطقی نتیجہ یہ ہوگاکہ وزیراعظم کی ذات مضبوط ترہوتی چلی جائے گی اورجمہوریت اور پالیمانی ادارے کمزورسے کمزورترہوتے چلے جائیں گے۔ یہ عدالتی اصلاحات اسرائیلی وزیراعظم بن یامین یتن یاہوکی تجویزکردہ ہیں۔۴جنوری۲۰۲۳کواس مقصدکے لیے وزیراعظم نے ایک منصوبے کااعلان کیاجس میں ملک کی عدالت عالیہ کے کچھ قانونی فیصلوں کے تعطل اورعدالت میں کچھ تعیناتیوں کے بارے کی تفصیل شامل تھی۔اس منصوبے کی تفصیل بتاتے ہوئے اسرائیلی وزیرانصاف “یاروی لیون”نے کہاکہ اس منصوبے سے عدالتی نظام جہاں مضبوط ہوگاوہاں عوام کابھی عدلیہ پر اعتماد بحال ہوجائے گا۔۵جنوری۲۰۲۳کوتل ابیب میں تعینات امریکی سفیرنے اس منصوبے پراپنےتحفظات کااظہارکیا۔اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے امریکہ کس حد تک اسرائیل کے داخلی معاملات میں دخیل ہے۔۱۲جنوری۲۰۲۳کو اسرائیلی عدالت عالیہ کے قاضی القضاۃ “ایسترہوط”نے کھل کراس منصوبے کی مخالفت کی اور کہاکہ اس منصوبے کے باعث عدلیہ مفلوج ہوجائے گی اور جمہوریت کوشدیدخطرات لاحق ہوجائیں گے۔اب امریکی صدر نے بھی اس معاملے پراپنے موقف کاکھل کراظہارکردیاہے۔بآسانی  اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اندرخانے یہ امریکہ اسرائیل سرد جنگ ایک عرصے سے جاری ہوگی جس کادھواں اب باہرنکل کرآسمان کوچھورہاہے۔

 

دی   اکنامسٹEIU (The Economist Intelligence Unit )کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدرجوبائیڈن نے اسرائیلی حکومت کے فلسین کے مغربی کنارے میں اسرائیلی تعمیرات پربھی اپنے شدیدتحفظات کااظہارکیاہے کہ اسرائیلی حکومت کا معاندانہ رویہ ناقابل فہم ہے جب کہ بہت سے امور طے ہوچکنے کے بعد بھی  ہنوزہٹ دھرمی قائم ہے۔امریکہ اس بات پربھی سخت نالاں ہے کہ ارض فلسطین پر جن دوریاستوں کے قیام کامنصوبہ طے ہواتھا اسرائیلی حکومت اس کی مسلسل خلاف ورزی کررہی ہے  جس کے نتیجے میں بعض اوقات پرتشددکاروائیوں میں انسانوں کے ضیاع تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت ایک شدت پسندرویے کی حامل ہے کیونکہ تاسیس ریاست سے اب تک کم و بیش ایک ہزارقرادیں جو اقوام متحدہ کے متعدداجلاسوں میں منظورہوچکی ہیں  لیکن اسرائیل نے انہیں جوتے کی نوک پررکھاہے۔ساری دنیاایک طرف ہے اور اسرائیلی حکومت کا پرتشددرویہ دوسری طرف ہے،اسلامی ملکوں کے عوامی و حکومتی ردعمل کوبھی اسرائیلی حکومت نے آج تک درخوراعتنانہیں سمجھا اور فلسطینی مسلمانوں کی آبادیوں،بستیوں،تعلیمی اداروں،بازاروں اور ہسپتالوں تک کو اپنے جہازوں کی بمباری اورٹینکوں کے گولوں سے چھلنی چھلنی کیے رکھا اورپھرواویلا کیا کہ فلسطینی مسلمان دہشت گردہیں۔ان سب پرمستزادیہ کہ بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پڑوسی ممالک کی تنصیبات بھی اسرائیلی شدت پسندی سے محفوظ نہیں۔

 

اسرائیلی حکومت کے ساتھ امریکی صدر کے اختلاف کی اورجہت اسرائیلی حکومتی اتحادمیں مذہبی سیاسی جماعتوں کااشتراک ہے جس کے باعث امریکی صدرنے موجودہ حکومت کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہاہے کہ یہ “دہائی کی سب سے زیادہ شدت پسندحکومت”ہے۔اس سے بڑھ کراورکیاہوسکتاہے کہ اخباری اطلاع کے مطابق امریکی بائڈن انتظامیہ نے دواسرائیلی وزراکو “اشتعال انگیز”قراردے کر ان سے سفارتی مقاطعہ(بائیکاٹ) کیاہواہے۔ان میں سے ایک “صہیونی مذہبی جماعت(Religious Zionist Party)کے وزیرمالیات “بیزالال Bezalel Smotrich”ہیں اور دوسرے”یہودی جماعۃ القوۃ Jewish Power Party”کے قومی سلامتی کے وزیر” اطمار بن گر Itamar Ben-Gv”r”ہیں۔امریکی انتظامیہ انہیں دونوں حکومتی وزراکو مغربی کنارے کی یہودی آبادکاری اور فلسطینی زیرانتظام علاقے میں عدم استحکام کی ذمہ دارسمجھتی ہے۔دوحکومتوں کے درمیان سفارتی سطح پر اس قدر دوری باہمی تعلقات میں شدیدترین سردمہری کا پتہ دیتی ہے۔اسرائیلی ریاست کے قیام سے آج تک شاید اتنا زیادہ فاصلہ ان دوریاستوں کے درمیان کبھی نہیں رہا۔بلکہ دامے درمے سخنے قدمے اسرائیل اورامریکہ باہم مل ہی دنیاپر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہے۔خاص طورپر اسرائیلی حکومت نے توہمیشہ امریکہ کاکندھااستعمال کیااور امریکہ کی مشرق وسطی مسلمان دشمن منصوبوں پر اسرائیلی قیادت  کی خاموش آشیرباد اسے بھی حاصل رہی۔اورجب کبھی دنیانے اسرائیلی ریاست کی سرزنش کاارادہ کیاتو مملکت اسرائیل کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ امریکہ نے سلامتی کونسل کی تلوارکواستعمال کرکے بڑی بے دردی سے کاٹ ڈالے۔

 

امریکی انتظامیہ کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کے انتخاب کے بعداسے بیت الابیض(وائٹ ہاؤس)میں باقائدہ سے دعوت دے کر عزت افزائی اور شاباش دی جاتی ہے۔لیکن اس بار امریکہ اسرائیل فاصلوں کاایک اورشاخصانہ اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی وزیراعظم کے انتخاب کے بعد بن یامین نتن ہاہوکو امریکی حکومت کی طرف سے نہ صرف یہ کہ کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی بلکہ امریکہ کی طرف سے یہ وضاحت بھی سامنے آئی کی مستقبل قریب میں اس طرح کی بیٹھک کاکوئی ارادہ بھی فی الحال نہیں ہے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسرائیلی وزیراعظم کو اپنی ناراضگی باورکرانے کے لیے امریکہ میں اسرائیلی سفیرکے بھائی “اسحاق ہارزوق”جو اسرائیلی ریاست کے صدر ہیں ،ان کو دعوت دے دی گئی۔اس ملاقات میں امریکی صدر نے اسرائیلی صدر سے اپنے تحفظات کااظہار بھی کیاخاص طور پر عدالتی اصلاحات کے خلاف اسرائیلی شہروں میں ہونے والے مظاہرے موضوع گفتگورہے۔امریکی حکومت ہرسال تقریباََچاربلین ڈالرزکی خطیررقم بطورامداد اسرائیلی حکومت کو پیش کرتی ہے،اس بار جب اسرائیلی وزیراعظم کوملاقات کے لیے تودعوت نہ دی گئی لیکن ٹیلی فون پر گفتگوکرتے کرتے ہوئے جوبائڈن اوربن یامین نتن یاہوکے درمیان  امدادسمیت متعددامورپرتبادلہ خیالات ہوا لیکن کوئی قابل ذکرفیصلہ سامنے نہ آسکا،اوراخباری اطلاع کے مطابق ان جملہ معاملات کوآئندہ ایسی ملاقات پراٹھارکھاگیا جس کاوقت اورجگہ بھی طے نہ ہوسکے۔تاہم  واشنگٹن میں نیشنل سیکورٹی کونسل کے نمائندے “جان کربے”نے وضاحت کرتے ہوئے کہا امریکی صدر کی طرف اسرائیلی وزیراعظم کودعوت نہ دینے کے عمل کی غلط تشریح نہ کی جائے۔

 

دی نیویارک ٹائمز۱۹ جولائی کی اشاعت میں امریکی صدر نے اس اخبارکے نمائندے “تھامس فرائڈمان”کو اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے بھی اسرائیلی عدالتی اصلاحات کے بارے میں اسرائیلی حکومت کے خلاف اپنے تحفظات کااظہارکیا،خاص طورپر انہوں نے اسرائیلی انتظامیہ کواپنے ایک پیغام میں کہاکہ وہ بہت تیزی سے پیش قدمی مت کریں اورحزب اختلاف کے ساتھ مل کر اس بحران پرقابوپانے کی مصالحانہ کوشش کریں اور ،امریکی صدرنے مزیدکہاکہ جمہوریت کی بقا میں ہی ان دونوں ریاستوں کے درمیان اچھے تعلقات کی بقاہے۔اخباری نمائندے”تھامس فرائڈمان”نے اپنے تبصرے میں کہاہے کہ گزشتہ پچتھر(۷۵)سالوں میں امریکہ اسرائیل تعلقات میں اتناکھچاؤ شایدنہیں تھاجتناآج دیکھاجارہاہے۔اسی کالم نگار نے کم و بیش ایک ہفتہ اپنی ایک تحریرمیں لکھاتھا کہ بائڈن انتظامیہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کونظرثانی کے مراحل سے گزارناچاہتی ہے۔اخباری اطلاع کے مطابق اسرائیلی صدر نے ۱۹ جولائی کوکانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی جمہوریت کے بارے میں تشویش کااظہارکیاتھااورکہاتھاکہ اگرامریکہ مضبوط ہے تواسرائیل بھی مضبوط ہے اوراگراسرائیل مضبوط ہے توامریکہ محفوظ ہے۔

 

آپ ﷺ قنوت نازلہ میں یہ دعامانگاکرتے تھے:”اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔ترجمہ:  یا اللہ !اُن کے آپس میں اختلاف ڈال دے اور اُن کی جماعت کو متفرق کردے اور اُن کی طاقت کو پارہ پارہ کردے اور اُن کے قدم اکھاڑ دے اور اُن کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے اور اُن کو ایسے عذاب میں پکڑ لے جس میں قوت و قدرت والا پکڑتا ہے اور اُن پر وہ عذاب نازل فرما جس کو آپ مجرم قوموں سے اٹھایا نہیں کرتے ” ( جواہر الفقہ : ۴۴۵/۲، ۴۴۶، ۴۴۷، ط: زکریا ، جدید )۔قرآن مجیدنے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا کہ ” وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ”:ترجمہ”اورجب ان کاجالوت اوراس کے لشکروں سے مقابلہ ہواتوکہنے لگے  اے ہمارے پروردگارہم پرصبرکافیضان کراورہمیں ثابت قدم رکھ اوران کافروں کے مقابلے  میں ہماری مددفرما”۔وقت بدلتے دیرنہیں لگتی،یہ گزشتہ امت اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں جوالفاظ استعمال کرتی تھی  آج یہ خودانہیں کے مستحق ہوگئے ہیں۔محسن انسانیت ﷺ کی یہ  دعابھی آج ان پر نہ صرف یہ کہ صادق آرہی ہے بلکہ بیان کردہ حقائق بتارہے ہیں کہ بہت جلد یہ دعا اللہ تعالی کے ہاں سے اپنی قبولیت لے کر زمین پر نازل ہونے والی ہے،ان شااللہ تعالی۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
76957