Chitral Times

May 11, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

رات کے12بجے – تحریر: فیاض الاسلام

Posted on
شیئر کریں:

رات کے12بجے – تحریر: فیاض الاسلام

دنیا ہے امتحان تمھارے فراق کا ۔ اب صبر کا نصاب ضروری سا ہوگیا

(رات کے بارہ بجے)شاید پڑھنے والے کے ذہن میں یہ گانے کے بول ہو۔لیکن اگر اس کی پس منظر میں جائیں، تو پڑھنے والے کو خود بخود انداذہ ہوجائیگا۔کہ اس کی پس منظر کچھ حقیقت رکھتا ہے۔بہت سی مثالیں ہیں،جیسا کہ رات کے بارہ بجے کے بعد تاریخ بدل جاتی ہے۔اور رات کے بارہ بجے سال بدل جاتی ہے۔اور پوری دنیا میں سال بدلنے پر جشن کا سما ں ہوتا ہے۔اور اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ گھروں،گلی محلوں اور چوراہوں پر چراغاں ہوتے ہیں۔لوگ مختلف انداز میں خوشی کا اظہارکرتے ہیں۔اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔اب آتے ہیں ذرا دوسرے پس منظر کی طرف۔

(رات کے بارہ بجے)رات تو ویسے بھی تاریکی ہوتی ہے۔اب میں یہاں پر جس تاریکی کا ذکر کرتا ہوں وہ ہمارے نئی نسل اور نوجوان کے اوپر چھائی ہوئی ہے اور چھارہی ہے۔اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو۔

چند دن پہلے میں ایک فوٹو سٹیٹ والے کے دکان پر بیٹھا تھا کہ ایسے میں آٹھ طلباء دکان کے اندر داخل ہوئے۔آتے ہی سارے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ان میں سے ایک فوٹو سٹیٹ والے کے قریب کھڑا ہوگیا اور ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھما دیا اور ان سے کہا،انکل یہ کتاب لے لو۔اس کے اندر جن صفحوں پر نشانیاں لگی ہوئی ہیں اس سے آٹھ،آٹھ کاپییاں مائیکرو سائز کی بنا لیں۔مجھے سو فیصد اندازہ ہوگیا کہ ان کا امتحان ہے اور نقل کی بھر پور تیاری کی جا رہی ہے۔میں نے ان سے پوچھا،بیٹا! یہ آپ کیا کر رہے ہیں وہ کہنے لگے انکل،ہمارا فرسٹ ائیر کا امتحان شروع ہے اور امتحان کی تیاری کررہے ہیں۔میں نے کہا بیٹا! یہ کیسی تیاری ہے؟ کہتے ہیں انکل اس کے بغیر پاس ہونا،یا اچھے نمبر لینا ناممکن ہے۔میں نے کہا بیٹا۔یہ کام نہ کرو اچھی بات نہیں ہے،یہ ایک لعنت ہے اور نقل کے ذریعے پاس ہونا کامیابی نہیں ہے۔اصل کامیابی آپ کی اپنی قابلیت ہے اپنی ذہن سے کام لو اور اپنی محنت سے امتحان دو۔میں نے کہا آپ محنت کرو،کامیابی ضرور ملے گی۔جواب میں کہنے لگے انکل!اب آپ والا زمانہ نہیں ہے۔اب تو صرف پاس ہونا نہیں ہے۔اب تو نمبرز کا گیم ہے۔جن کے نمبرز زیادہ ہو وہی کامیاب ہے۔اسلئے کہ کالجز اور یونیورسٹیوں کی اتنی زیادہ میرٹ ہے کہ صرف پاس ہونا ہی کافی نہیں ہے۔نمبرز لینے پڑتے ہیں بلکہ خریدنے پڑتے ہیں۔میں کافی گہرے سوچ میں پڑ گیا اور پھر پوچھا کہ آپ نے کتاب کے اندر صفحوں کا انتخاب کس طرح کیا ہے کہ آپ نے فوٹو سٹیٹ والے سے کہا کہ صرف انہی صفحوں سے کاپیاں بنالیں۔انہوں نے کہا انکل! ہمیں پتہ ہیں نہ اسلئے ان سے کہا ہے کہ صرف یہی بنا لیں۔میں نے پوچھا کس طرح؟وہ میرے نزدیک بیٹھ گیا اور کہا انکل!سنو۔۔۔۔

جب ہمارا امتحان شروع ہورہا تھا تو ہم سارے دوست بیٹھ گئے۔صلاح مشورہ کیا کہ کیا کرنا ہے امتحان سر پر ہے۔کافی سوچ بچار کے بعد ہم ایک نتیجے پر پہنچ گئے کہ ہمیں ایک بندے کا موبائیل نمبر مل گیا۔اور ان سے رابطہ کیا۔ان کو کہا کہ ہمارا امتحان شروع ہونے والا ہے۔آپ کا نمبر کسی نے دیاہے۔آپ ہمارے لئے کیا کر سکتے ہیں؟انہوں نے کہا میں وہ کچھ کر سکتا ہوں جو کوئی نہیں کر سکتا۔ہمارا تو کام ہوگیا اور ہر ایک ساتھی کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ پڑے اور خوشی کے مارے اس رات سو بھی نہ سکے۔خیر اس بندے نے کہاکہ جلدی سے اپنا ایک واٹس ایپ گروپ بنائیں اور اس میں ایسے سٹوڈنٹس کو ایڈ کریں۔ جو خرچہ دے سکتا ہو۔ہم سارے دوستوں نے ہاں کرلی۔اور ایک واٹس ایپ گروپ بنایا۔اور اس میں ایک سو پچاس کے قریب سٹوڈنٹس کو ایڈ کیا۔میں نے کہا، مجھے وہ گروپ دکھا سکتے ہو۔انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں۔مجھے اپنا موبائیل دے دیااور بولا یہ دیکھیں۔

 

میں نے جب اس کا موبائیل لیا اور اس میں دیکھا تو ایک گروپ کا نام پڑھتے ہی چونک اٹھا۔گروپ کا نام تھا (نقل مار گروپ)۔گروپ کو کھولا تو دیکھا کہ اچھے اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والے بچے اس گروپ میں دیکھ لئے۔جب میسجز کھولے تو بے تحاشا میسجز،پیپرز،شارٹ قوسچن موصول شدہ گیلری میں ملے۔میں نے کہا یہ کیا ہے؟کہتا ہے کہ یہ سارے وہ پیپرز ہیں جو ہمیں پرچہ دینے سے ایک رات پہلے اسی واٹس ایپ گروپ میں مل جاتے ہیں۔اور اس کے لئے ہم باقاعدہ ایزی پیسہ کے ذریعے رقم بھیجتے ہیں تب جاکے ہمیں اپنی بھیجی ہوئی رقم کے بدلے کل آنے والا پرچہ بہ آسانی واٹس ایپ کے ذریعے مل جاتی ہے۔ان کا کہنا ہے۔کہ ہم آنے والے کل کے پرچے کیلئے ہر سٹودنٹ ۰۰۳ روپے اپنے گروپ کے ایک ساتھی کے پاس جمع کرتے ہیں۔اس سے تقریبآٓ پینتالیس ہزار روپیہ بنتے ہیں۔ اور وہ آگے ایک بندے کو ایزی پیسہ کرتا ہے۔اور ٹھیک (رات کے بارہ بجے)ہمیں اپنا کل کا پرچہ واٹس ایپ گروپ میں مل جاتا ہے۔اور صبح ہوتے ہی ہم جب پرچہ حل کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔تو انہی سوالات کے جوابات ہمارے جیبوں میں پڑے ہوتے ہیں۔ہمیں یہ ڈر نہیں ہوتا کہ امتحانی ہال میں کوئی ہم سے نقل لے لیگا۔یعنی ایک تیر دو شکار۔۔۔۔

 

یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ اب کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ قصوروار کس کو ٹہرائیں؟آیا والدین،جنہوں نے بچوں کو کھلی آزادی دی ہے۔اور بچوں کے موبائیل کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔جس سے بچوں کی پوری تباہی یقینی ہے۔لیکن بیچارے والدین کو کیا پتہ کہ (بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے )۔یا اساتذہ قصور وار ہیں؟جن کا اپنے طلباء پر کوئی زبردستی ہو ہی نہیں سکتی۔اسلئے سکول کے قوانین میں اب(مار نہیں پیار)۔اسی وجہ سے بچوں نے شارٹ کٹ اختیار کیا۔یا پھر ہمارے ادارے،وہ اسطرح کہ میرٹ کے نام پر بچوں کے مستقبل پر کھلواڑ شروع ہے اور نمبر گیم چل رہی ہے۔یاہوسکتا ہے نظام کی خرابی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔کہ کوئی مربوط اور مضبوط نظام کو قائم کرنے کے لئے ہمارا نظام بذات خود مفلوج ہے۔بس (رات کے بارہ بجے) کا پس منظر یہی تاریک مستقبل ہے۔جس کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ میں نے اور کچھ نہیں کہنا۔صرف یہی دعا ہے کہ – الٰہی اارزو میری یہی ہے۔میرا نور بصیرت عام کر دے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
75782