Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان – ”آر ایچ سی شاگرام “- محمد جاوید حیات 

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان – ” آر ایچ سی شاگرام “- محمد جاوید حیات

گاٶں شاگرام پاکستان کے دور افتادہ ضلع چترال اپر اور چترال اپر کے دور افتادہ تحصیل تورکھو کا دارالحکومت ہے ۔تحصیل تورکھو افغانستان کی سرحد پہ ہے یہاں سے آگے پاک سر زمین ختم ہوتی ہے یہ تحصیل پسماندگی میں اپنی مثال آپ ہے ۔یہاں پہ نہ ڈھنگ کی سڑک ہے نہ پینے کا پانی نہ اچھا خاصا تعلیمی ادارہ۔۔۔ لے دے کے صحت کا ایک مرکز ہے جس کا ذکر ہو رہا ہے ۔تحصیل تورکھو کے لیے آج سے 15 سال پہلے پختہ سڑک کا خواب دیکھا گیا تھا وعدہ ہوا تھا فنڈ آۓ ٹھیکداروں نے خرد برد کیا لیکن حکومت نے ان کو انعام سے نوازا وہ دھندناتے پھر رہے ہیں ان کی چمکتی گاڑیاں قوم کے خون پی کرحاصل ہوٸی ہیں اور یہ دنیا کا واحد راستہ ہوگا جو 15 سال میں دو کلو میٹر بنا ہے وہ بھی ناقص ہے ۔مذکورہ تحصیل کےلیے کیبل بچھانے کا کام شروع ہوا اس کے ساتھ تحصیل موڑکھو مستوج وغیرہ میں کام شروع ہوا وہ مکمل ہوۓ مگر تورکھو میں کوٸی بھی نیٹ ورک نہ ہونے کے برابر ہے

 

بنکوں میں اے ٹی ایم مشینیں نصب ہیں مگر بند ہیں ملک میں ہر کہیں دفتری کام آن لاٸین ہیں مگر یہاں کے طلبا اور دفتری لوگ دربدر پھر رہے ہیں ۔بجلی نہیں ہے ۔۔کہیں کہیں گاٶں گاٶں نجی سطح پر این جی اوز کی مدد سے منی بجلی گھر تعمیر ہوۓ ہیں ۔جن سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ گھروں کو روشنی دیتی ہے باقی موباٸل تک چارج نہیں ہوتے ۔یہ باونڈری میں موجود تحصیل کی حالت زار ہے حالانکہ یہ مراعات یافتہ ہونا چاہیۓ ۔اس کے گاٶں گاٶں وطن پر قربان ہونے والے شیر دل سپوتوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں ۔وطن کی مٹی اس کے باشندوں کی آنکھوں کا سرما ہے ۔تحصیل میں حکومت نے ایک صحت سنٹر بناٸی یہ 90 کے عشرے کی بات ہے اچھی خاصی عمارت بن گٸ اگر یہ بھی حکومت کے رخم و کرم پر ہوتی تو آج یہاں کے درو دیوار پہ حسرت برس رہی ہوتی عمارت خستہ ہوتی اور حکومتی عملے کےانتظار میں ویران ہوتی شکر ہے کہ آغا خان ہیلتھ سروس اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا ۔ایم او یو ساٸن ہوا اور اغا خان ہیلتھ سروس نے صحت کی سہولیات فراہم کرنے پر راضی ہوٸ ۔۔آج یہ ار ایچ سی فعال ہے کام کر رہا ہے ۔مجھے چند دن پہلے اپنی بچی کے ساتھ وہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔

 

میں نے وہاں ہل چل دیکھا۔ خدمت دیکھا۔ ڈیوٹی دیکھا ۔۔وارڈ میں مریض مسیحا کے منتظر نہیں ہیں مسیحا ان کے سرہانے کھڑے ہیں ۔سسٹم ایک حد تک کمپیوٹیراز ہے اگرچہ فیسیں بہت بھرنے پڑتے ہیں لیکن کام کے عوض بھرنے پڑتے ہیں مریضوں کو بنیادی سہولیات دی جاری ہیں میری مریض کے ساتھ اٹنڈنس تھے مجھے کہیں جانا نہ پڑا البتہ ہیڈ نرس نے نہایت شاٸستہ اور ان پڑھ دیہاتی کو سمجھانے کے انداز میں مجھ سے ایک فارم پر دستخط کراٸی میں فارم پر اپنا دستخط کر دیا ۔ناچیز کوصوبے کے بڑے ہسپتالوں میں جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے قطاروں میں کھڑے ہونے، منت سماجت کرنے اور ذلیل ہونے کا بھی اتفاق ہوا ہے اس لیے یہاں کا عملہ شاباش کا مستحق ہے وہ اپنے کام احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں ۔ ہمارے حکومتی اداروں میں ایک المیہ یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں میں کوٸ ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں ہوتا اگر خواہ مخواہ تعینات ہو جاۓ تو یہ اس کو سزا کے طور پر لیتا ہے لیکن مذکورہ ار ایچ سی کا عملہ اس جھنجھٹ سے بالا ہیں ۔

 

اے کے ایچ ایس پی ان کو ٹھیک ٹھاک سولت مہیا کر رہی ہے۔مجھے کسی ڈاکٹر سے ملنے کا موقع نہیں ملا البتہ ارہ ایچ سی کے چیرمین ریٹاٸرڈ استاد نصیر الدین صاحب سے چند غیر رسمی باتیں کرنے کا موقع ملا ان کو سن کر اچھا لگا انھوں نے بتایا کہ میں عوام کی طرف سے اس ہسپتال کا ذمہ دار ہوں میں اس کے عملے کی خدمت کے لیے ہوں میں رضا کار ہوں اگر کہیں ہسپتال میں ایمرجنسی ہو تو میں اپنے رضا کاروں کے ساتھ حاضر ہوتا ہوں ہسپتال کے عملے کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوتا ہوں میں ان کی میٹنگوں میں حاضر ہوتا ہوں اور ان کے عوام کے اور سرکار کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہوں انھوں نے بتایا کہ ہسپتال میں تین مرد ڈاکٹرز (میڈیکل آفیسرز)اور ایک زنانہ میڈیکل آفیسر موجود ہے جو ہمہ وقت عوام کی خدمت میں لگے رہتے ہیں 5 نرسس ہیں ایک ہیڈ نرس ہے ٹیکنیشنس ہیں داٸ اور کلاس فور ہیں سکیوریٹی گارڈ ہیں ہسپتال کے اندر میڈیسن مہیا کی جاتی ہیں ٹیسٹ (خون کا، یورین کا، ای سی جی ، ایکسرا شوگر وغیرہ کے ٹسٹ ) ہوتے ہیں۔

 

خواتین کے کیسس بہت اطمنان بخش ہیں زچہ و بچہ کو بنیادی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں ۔ایمبولنس ہے ۔وارڈوں میں مریض کو سہولیات ہیں ۔البتہ انھوں نےزور دے کر بلکہ دھاٸ کے طور پر کہا کہ اس ہیلتھ سنٹر میں ماہر امراض خواتین زچہ و بچہ(گاٸنیکالوجسٹ) کی اشد ضرورت ہے ۔علاقہ پسماندہ ہے۔ موسمی حالات سخت ہیں ۔سڑکوں کی حالت مخدوش ہے اس وجہ سے ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے زندہ بچنے کے امکانات نہیں ہوتے ہیں ان کو بونی چترال تک پہنچانا ممکن نہیں ہوتا اکثر روڈ بند ہونے کی وجہ سے مریض کو چارپاٸ پہ ڈال کے کندھوں پہ اٹھاکے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے اور آگے ریفر کرنے کی صورت میں مریض کا بچنا ممکن نہیں ہوتا اور یہاں پر وہ سہولیات میسر نہیں ہوتے جن کو مریض کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔

 

آر ایچ سی شاگرام تحصیل تورکھو اور تریچ یوسی کے عوام کے لیے ایک مسیحا سنٹر ہے مجھے ان کے عملے پہ فخر ہوا اور خدمت خلق کےاس جذبے کو داد دینا پڑا ۔قوم ان جذبوں سے پنپتی ہیں ۔۔نصیرصاحب بجا طور پر ان خدمت گاران قوم کی تعریف کرتے ہیں۔ قوم کے یہ نوجوان اچھے ہیں ۔کسی بھی محکمے میں اگر سسٹم move کرے تو اس کی ساکھ بنتی ہے ہمارے ہاں کم کم ایسا ہوتا ہے دنیا میں (ریپٹ سروس سسٹم ) دیکھنے کو ملتا ہے محمکہ صحت کو اس سسٹم کی اشد ضرورت ہے اس لیے کہ کبھی کبھی ایمرجنسی یہاں پہ نافذ ہوتی ہے اس لیے عملے کو مستعد اور تیار رہنا پڑتا ہے۔۔میں غریب عوام کا ایک فرد ہوں اگر مجھے ان کی سروس اچھی لگی ہے تو ضرور ان کی خدمت عوام تک پہنچتی ہے صرف صاحب لوگوں تک محدود ہماری بدبختی یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
73000