Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھوپ چھاؤں – عبرتناک –  الیاس محمد حسین

Posted on
شیئر کریں:

دھوپ چھاؤں – عبرتناک –  الیاس محمد حسین

“مدینہ منورہ کی ایک بستی میں ایک خاتون انتقال کرگئی اسے آخری غسل کے دوران محلے کی ایک عورت نے اس مرحومہ کی میت کی ران پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اس کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اس نے یہ الفاظ کہے اور اللہ تعالی نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کھینچ دی! پھر جو ہوا وہ ناقابل ِ یقیں تھااس خاتون کا انتقال مدینہ کے مضافات کی ایک بستی میں ہوا اور مرنے والی ایک پاک باز،رحمدل اور اچھی خاتون تھی غسل دینے والی عورت نے نہ جانے کیوں مرنے والی پر بہتان باندھ دیا کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے کے الفاظ کہے تو اس کا ہاتھ میت کی ران کے ساتھ چپک گیا۔ چپکنے کی قوت اس قدر تھی کہ وہ عورت اپنا ہاتھ کھینچتی تو میت گھسیٹنے ہوتی تھی مگر ہاتھ نہ چھوٹتا تھا۔

 

جنازے کا وقت قریب آ رہا تھا بہتان لگانے والی کا ہاتھ میت کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور بے حد کوشش کے باوجود جدا نہیں ہو رہا، تمام عورتوں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھینچا، مروڑا غرض جو ممکن تھا کیا مگر سب بے سود رہا!یک دن گزرا، رات ہوئی، دوسرا دن گزرا،پھر رات ہوئی سب ویسا ہی تھا، میت کی حالت خراب ہونے نے لگی اور اس کے پاس ٹھہرنا،بیٹھنا مشکل ہو گیا! لوگوں کا کھانا پینا حرام ہوگیا غسل دینے والی کی ہوائیاں اڑنے لگیں اس نے کئی باردل ہی دل میں اس بہتان کی معافی بھی مانگی گیکن اس کا ہاتھ میت کی ران سے جدا نہ ہوا یہ ایک ایسا منظر تھا جو آج تک کسی نے دیکھا نہ سنا مرحومہ کے پسماندگان،پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے علماء کرام، قاری صاحبان اور تمام اسلامی طبقے سے مشاورت شروع کردی کسی نے کہا عورت کا ہاتھ کاٹ کر جدا کردیا جائے اور میت کو اس کے ہاتھ سمیت دفنا دیا جائے۔ مگر اس فیصلے کو عورت اور اس کے خاندان نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم غسل دینے والی کو عمر ئھر کیلئے معذور نہیں کر سکتے لہذا ہمیں یہ فیصلہ قبول نہیں!

 

دوسری صورت یہ بتائی گئی کہ میت کے جسم کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے اور ہاتھ کو آزاد کر کے میت کودفنا دیا جائے اس بار میت کے خاندان نے اعتراض اٹھایا کہ ہم اپنی میت کی یہ توہین کرنے سے بہر حال قاصر ہیں!!!مگر بے سود!!!!! ہر نتیجہ بے نتیجہ نکلا اس دور میں امام مالک ؒ قاضی تھے یہ عجیب و غریب معاملہ امام مالکؒ تک پہنچایا گیاکہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے! امام مالک، اس گھر پہنچے اور صورتحال بھانپ کر اس عورت سے سوال کیا “اے عورت! سچ سچ بتانا کیا تم نے غسل کے دوران اس میت کے بارے میں کوئی بات کی تھی؟”

عورت نے سارا قصہ امام مالکؒ کو سنایا اور بتایا کہ اس نے غسل کے دوران باقی عورتوں کو کہا کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں!!
امام مالکؒ نے سوال کیا “کیا تمھارے پاس اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کوئی گواہ موجود ہے”
عورت نے جواب دیا کہ اس کے پاس گواہ موجود نہیں!

امام مالکؒ نے پھر پوچھا “کیا اس عورت نے اپنی زندگی میں تم سے اس بات کا تذکرہ کیا تھا؟”
جواب آیا “نہیں ”

تو امام مالک ؒنے فوری حکم صادر کیا کہ اس عورت نے چونکہ میت پر تہمت لگائی ہے لہذا اس کو شریعت کی حد مقررہ کے مطابق 80 کوڑے لگائے جائیں!
حکم کی تعمیل کی گئی اور 70 بھی نہیں 75 بھی نہیں 79 بھی نہیں پورے 80 کوڑے مارنے کے بعد اس عورت کا ہاتھ میت سے الگ ہوا! (حوالہ: بکھرے موتی،جلد اول)آج ہم تہمت لگاتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے اور جھٹ دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں۔استغفراللہ ہم سب کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے تہمت اور بہتان ایسے گناہ ہیں جن کی کوئی معافی نہیں اس سے معاشرہ میں بگاڑ پیداہوسکتاہے فقط زیب ِ داستان کیلئے کسی کا گھر خراب ہوسکتاہے،معاشرے میں ذلیل ورسوا ہوسکتاہے اللہ ہمیں ان جھوٹی باتوں سے محفوظ رکھے جن کے نتائج بڑے ہولناک ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
72972