Chitral Times

May 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نیاسال اور پرانی روش –  پروفیسرعبدالشکورشاہ

Posted on
شیئر کریں:

نیاسال اور پرانی روش –  پروفیسرعبدالشکورشاہ

تو نیا ہے تو دکھا،صبح نئ شام نئ
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئ۔

نئے سال کے آغاز پر ایک ہندسے کا بدلنا کوئ جدت نہیں ہے۔ہم جس دیس میں رہتے ہیں اس میں نئے سال پرانی روش کا کلیہ چلتا ہے اور ہمیں ایک ہندسے کے بدلاو کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں پی ایچ ڈی میٹرک پاس کو ووٹ دیتا ہے تاکہ وہ ملک و قوم کی قسمت بدلے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں مطالعہ پاکستان میں سوئ گیس کے بے پناہ ذخائر پڑھائے جاتے جبکہ گھر میں انڈہ فرائ کرنے کے لیے گیس دستیاب نہیں ہے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں ایمبولینس اور آگ بجھانے کی گاڑی دیر سے اور پیزا وقت پر پہنچتا ہے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں دکھ دردکے وقت سہارا دینے کے بجائےسب غائب ہوجاتے اور طعنے دینے کے لیے سب حاضر رہتے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں محسن قوم قید کیا جاتا اور رقاصاوں کو پروٹوکول دیا جاتا۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں جج کے کمرے کے باہر 50 کا اشٹام 200 میں فروخت ہوتا ہے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں عدلیہ پر تنقید توہین عدالت اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ،فوج پر تنقید ملکی سلامتی کے لیےخطرہ اورملا پر تنقید اسلام کی توہین تصور کی جاتی جبکہ یہ سب ملکر 75 سالوں سے ناانصافی،مارشل لاء اور فرقہ واریت کے زریعے عوام کی توہین کررہے۔

 

ہم ایسے دیس کے باسی ہیں جہاں غریب کو ڈسپرین کی گولی نہیں ملتی مگردہشت گردوں،راہزنوں،ڈکیتوں اور محافظوں کی گولی کا نشانہ بن جاتے۔ہم ایسے غریب دیس میں رہتےجہاں افسران اقوام متحدہ کے ملازمین سے زیادہ تنخواہ لیتےہیں۔ہم ایسےملک میں رہتے ہیں جہاں سیاستدان عوام سے ٹیکس نہ دینے کا راگ الاپتے جبکہ خود عوام کے ٹیکسوں پر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے۔ہم ایسے دیس میں رہتے جہاں عورتوں کے قوانین مرد بناتے،جوانوں کے بڈھے سیاستدان،غریبوں کے امیر،مزدوروں کے صنعتکار اورہاریوں کے جاگیردار۔ہم ایسے دیس میں رہتے جہاں اپنے لاکھوں بچے سکول نہیں جاتے مگر ہم دشمن کے بچوں کو پڑھانا چاہتے۔ہم ایسے دیس کے باسی ہیں جہاں مذہب ٹوپی،داڑھی،ٹخنوں سے اوپر شلوار تک محدود ہے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں ہفتہ بھر گانے بجانے،رقص و سرور،آتش بازی اور دیگر غیر اسلامی رسومات کے بعد دلہن کو قرآن پاک کے سائے میں رخصت کرتے۔ہم ایسے دیس میں رہتے جہاں لوڈشیڈنگ کا راج ہے جبکہ کتابوں میں ہم خودکفیل ہیں۔ہم ایسے دیس میں رہتے جہاں بلین کیوبک فٹ پانی ضائع ہوتا،فصلوں کے لیے پانی نہیں،نہریں خشک ہیں جبکہ کتابوں میں ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے۔

 

ہم ایسے دیس میں رہتے جہاں چین کے علاوہ ہماری کسی پڑوسی سے نہیں بنتی جبکہ مطالعہ پاکستان میں سب کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ہم ایسے ملک میں رہتےجس کی شہ رگ پہ دشمن قابض اور ہماری ارضی جنت میں جہنم کا سماں ہے۔ہم ایسے دیس میں رہتے جہاں کے چیف جسٹس،آرمی چیف،وزیراعظم،وزیر مشیر حکومت اور ملازمت یہاں کرتے پنشن یہاں سے لیتے مگر خود کو بیرون ملک محفوظ سمجھتے اور ریٹائر ہوتے یا اقتدار جاتے ہی بیرون ملک منتقل ہوجاتے۔ہم ایسے دیس میں رہتے جہاں 30 سال حکومت کرنے کے باوجود اپنے علاج کے لیے ایک ہسپتال بھی نہیں بناسکے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں کے لیڈراور افسران ارب پتی ہیں مگر ملک بھکاری ہے۔ہم ایسے دیس اور دور میں رہتے جہاں ماں باپ کی خدمت کو عار اوررن مریدی کو جدت تصورکیا جاتا ہے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں جج لباس خلاف کعبہ جیسا پہنتے مگر فیصلے یزید جیسے کرتے۔ہم ایسے دیس کے باسی ہیں جہاں کولر کے ساتھ گلاس کو زنجیر سے باندھ کر رکھا جاتا ہے مگر قتل،رہزن،ڈکیت،سمگلر،بھتہ خور اور قبضہ مافیا وغیرہ آزاد پھرتے ہیں۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں ہمارے تعلیمی نظام سے بھاگ جانے والے کامیاب بزنس مین،وزیر،مشیر،وزیراعظم وغیرہ بن جاتے جبکہ تعلیمی میدان میں گولڈ میڈل لینے والے صرف نوکر بھرتی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں کا دھکے کھاتے پھرتے۔ہم ایسے دیس میں رہتےہیں جس کے پاس اب ایٹم بم بیچنے کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہوا۔ہم ایسے دیس میں بستے ہیں جسے کتابوں میں زرعی ملک پڑھایا جاتا مگر ہم گندم اور بہت سی دیگر اشیاء باہر سے منگواتے ہیں، جہاں زمین ملے اس پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جس کا پورا نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ھے مگر ہم اسلام اور جمہوریت دونوں سے ہی محروم ھے۔ہم ایسے دیس کے باشندے ہیں جس کے جھنڈے میں دو رنگ ہیں۔ سبز رنگ امیروں کو ظاہر کرتا‏ ھے، سفید رنگ مافیا کو،ڈنڈا فوج کی علامت اور اس کے ساتھ لگی رسی بیچاری عوام کو ظاہر کرتی جسے ان سب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔چاند ستارہ سرکاری افسروں کی اجارہ داری کو ظاہر کرتا ھے۔

 

ہم ایسے دیس میں بستے ہیں جس کےچار باقاعدہ،ایک دھونس کا انتظامی اورایک بےقاعدہ صوبہ ہے،ہم دھکے سے آزادکشمیر کو بھی صوبہ بنانا چاہتے پہلے صوبے تو سنبھالے نہیں جاتے نئے بنانے چلے۔مقبوضہ کشمیر تو آزادکروانے سے رہے آزادکشمیر کو ہی فتح کریں ویسے بھی ہم اپنے ہی ملک کو فتح کرنے میں لاثانی ہیں۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جو 1947 میں انگریزوں سے آزاد ہوا مگر انگریزوں کے غلاموں،سہولتکاروں اور ہرکاروں سے تاحال آزاد نہیں ہو سکا ہے اور ان سے آزادی کیلئے کوئی بھی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ہم ایسے دیس میں بستے ہیں جہاں مردوں کو زندہ اور زندوں کو مردے سمجھا جاتا ہے۔ہم ایسے دیس میں جی رہے جہاں سیاسی اور مذہبی جادوسر چڑھ کر بولتا ہے اور عوام ان دو نوسربازوں کی مجاور ہے۔ہم ایسے دیس میں بستے ہیں جس کا ہر ادارہ ہی ریاست ہے کوئ بھی ادارہ دیس کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ان منی ریاستوں کی باہمی رسہ کشی میں نقصان بیچاری عوام ہی کا ہوتا ہے۔

 

ہم ایسے دیس میں رہتے جو چار ریاستوں پر مشتمل ہے ریاست بھٹووزرداری،ریاست شریفین و حواری،ریاست ملا وحلواری اور ریاست عمرانیہ و یوتھیا شامل ہیں۔دنیا ایٹم بم بنا کر ترقی کرتی مگرہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جو ایٹم بم بنا کر تنزلی کا شکار ہے ترقی ایٹم بم بنانے سے نہیں بلکہ بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی سے ہوتی ہے جاپان ہی کو دیکھ لیں۔ ہم ایسے دیس میں بستے ہیں جس کا دفاع اس قدر مضبوط ھے کہ چھ گنا بڑے ملک انڈیا کو دن میں تارے دکھا سکتا ہے،گھر میں گھس کر مارسکتا ہے ہم دن کو تارے دکھا سکتے مگر رات کو ہمیں دشمن کے جہاز نظر نہیں آتے، ‏اور کمزور اتنا ھے کہ چار مولوی کہیں نکل آئیں تو قابو نہیں آتے۔ ہم ایسے دیس کے باسی ہیں جس کے تاجر عوام کو جی بھر کر لوٹتے ہیں مگر ریاست کو ٹیکس دیتے ہوئے انہیں باقاعدہ موت آتی ھے.ہم ایسے دیش کے باشدے ہیں جس کی تین بڑی صنعتیں ہیں سب سے بڑی صنعت کرپشن فری لمیٹڈجس میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے.

 

دوسری بڑی صنعت مذہب لمیٹڈ اور تیسری سیاست لمیٹد ہے۔ان کے علاوہ دوسرے درجے کی صنعتوں میں تعلیم لمیٹڈ، صحت لمیٹڈاور انصاف لمیٹڈ بھی بڑے کاروباروں میں شمار‏ ہوتے ہیں۔ ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں شخصی حفاظت اور امن و امان صرف سیاسی رہنماؤں اور طاقتور شخصیات کو دستیاب ھے،غریب آدمی صرف اللہ کے آسرے پہ زندہ ھے۔اگر آپ اس دیس میں رہتے ہیں تو آپ کی عظمت اور ہمت انتہائی قابل تعریف ہے۔ فکر نہ کریں ان دنیاوی تکالیف سے گزرنے کے بعد آپ کی آخرت بھلی ہو گی۔ہم ایسے دیس میں بستے ہیں جو اربوں ڈالرز کامقروض ہے مگر ہمارے خزانے میں پیسوں کے بجائے ایک دوسرے کی گندی آڈیوز اورویڈیوزکے سوا کچھ نہیں ہے ہر ہفتے کوئ نہ کوئ سکینڈل سامنے آجاتا۔ہمارے پاس اس دیس کے لیے ترانے بنانے اورجعلی ترقی کی تشہیر کے علاوہ کسی چیز کی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جو چند خاندانوں کی ملکیت ہے یقین نہ آئے ائیرپورٹس،پلوں،سڑکوں،سکولوں کالجوں اور ہسپتالوں وغیرہ کے نام ہی پڑھ لیں۔ہم اس دیس کے باشندے ہیں جہاں بدکاری آسان اور نکاح مشکل ہے۔ہم اس دیس میں رہتے ہیں جس کی قومی زبان صرف فائلوں تک محدود ہے ہم نے لسانی ترقی اتنی کرلی ہے کہ ہر حرف سے سیاسی پارٹی بنارکھی ہے مگر اردو زبان کی زبان ہی کاٹ دی ہے۔ہم ایسے دیس کے باشندے ہیں جو 24 گھنٹے غربت کا رونا روتے ہیں مگر نئے سال کے موقعہ پر آتش بازی اور ہلڑ بازی سے یہ سب جھوٹ معلوم ہوتا ہے۔ہم ایسے اسلامی جمہوریہ میں بستے ہیں جہاں سود کو حرام منوانے میں 75 سال لگ گئے مگر ابھی تک اسلامی جمہوری ریاست اسے حرام ماننے کو تیار نہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
69901