Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تاریخ انسانی کی باخبرترین نسل –  محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

تاریخ انسانی کی باخبرترین نسل –  محمد شریف شکیب

پچاس سال سے زیادہ عمر کی موجودہ نسل کو تاریخ انسانی کی باخبرترین نسل کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ اس نسل سے جہاں طبی شعبے، تعلیمی میدان اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جو حیرت انگیز ترقی دیکھی ہے۔وہ آج تک کسی انسانی نسل نے نہیں دیکھی ہوگی۔مجھے بھی اس نایاب انسانی نسل سے تعلق کا شرف حاصل ہے۔ہم نے جب گاؤں میں ہوش سنبھالا تو زندگی بہت سادہ اور خوشیوں سے لبریز تھی۔ گھر میں روشنی کے لئے دیودار کی لکڑیوں کا استعمال کیاجاتا تھا۔ شادی بیاہ پر روشنی دینے والی یہ لکڑیاں تحفے میں دی جاتی تھیں۔کچھ گھروں میں چربی جمع کرکے ان سے دیئے جلائے جاتے تھے۔ پھر مٹی کے تیل کا دور آیا۔ اس کے ساتھ تیل خاک کے دیئے اور بعد ازاں لالٹین کا دور ٓیا۔مگر یہ عیاشی کا سامان گاؤں میں صرف ان گھروں میں دستیاب ہوتا تھا جن کے بھائی بیٹے لاہور، پشاور، اسلام آباد اور کراچی میں ملازمتیں کرتے تھے۔ لالٹین کے بعد مٹی کے تیل کے گیس آگئے۔ گاؤں میں دو ایک کاریگر ہی وہ گیس جلانے کا طریقہ جانتے تھے۔

 

شادی بیاہ یا ثقافتی تقریبات میں ان کاریگروں کو خصوصی طور پر بلایاجاتا تھا۔ خط لکھنے اور پڑھنے والا گاوں میں ایک آڈھ بندہ ہوتا تھا۔ جب پردیسیوں کے خطوط آتے تو انہیں پڑھنے اور جواب لکھنے کے لئے ہمیں بلایاجاتا تھا اور اچھی خاصی مہمانداری کی جاتی تھی۔ جب پردیسی چھٹیوں پر گھر واپس آتے تھے تو خط پڑھنے اور جواب لکھنے والے کے لئے بھی تحائف لے کر آتے تھے۔مزدوری دے کر کام کروانے کا کوئی رواج نہ تھا۔ گاؤں کے نوجوان مل جل کر اپنے سارے کام انجام دیتے تھے۔کوئی مکان بنارہا ہو۔ تو لوگ لکڑیاں، قالین، غالیچے، کدال، بیلچے اور گھر کی ضرورت کا سامان اسے تحفے میں دیتے تھے۔جب گاؤں میں کسی کا انتقال ہوجاتا تو پورا گاؤں سوگوار اور ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوتی۔سودا لینے گاؤں سے چند نوجوان سال میں دو بار اپنے علاقے سے ساٹھ ستر میل دور بازار جاتے تھے۔ گاؤں سے خشک میوہ جات، اونی پٹیاں،ہاتھوں سے بنائی گئی گھریلو استعمال کی اشیا بازار میں بیچ کر ان کے عوض مصری، نمک، چائے، کپڑے، چادریں،مٹی کا تیل اور گھریلو ضرورت کی دیگر چیزیں خرید کر لاتے اور گاؤں والوں میں تقسیم کرتے تھے۔1965میں ہمارے ایک عزیز کراچی سے ریڈیو لے آئے۔

 

پورا گاؤں اسے سننے کے لئے جمع ہوگیا۔ ریڈیو کے مالک نے واپس جاتے وقت اسے فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ ہالینڈ والا فلپس کمپنی کا ریڈیو تھا۔ پانچ سو روپے اس کی قیمت مقرر کی گئی۔ میرے والد نے چار بیل فروخت کرکے پانچ سو روپے جمع کئے اور اس ریڈیو کو خرید لیا۔ جو آج بھی میرے پاس خاندان کی امانت اور آثار قدیمہ کے طور پر محفوظ ہے۔جب لاہور، پشاور اور کراچی سے لوگ چھٹیوں پر گھر آتے تو پورے گاؤں کے بڑوں کے لئے تحائف لے کر آتے۔ ہر گھر مین ان کی دعوتیں ہوتیں۔ پھر سکاوٹ، پولیس، خاصہ دار، تعلیم اور صحت کے شعبے میں ملازمتیں پیدا ہوئیں۔رفتہ رفتہ ٹیلی فون اور تار بھیجنے کا دور آیا۔ گاؤں کے کچے مکانات کی جگہ پختہ عمارتوں نے لے لی۔مرغ بانگ پر صبح بیدار ہونے والے لوگ ٹائم پیس خرید کر اس میں الارم سیٹ کرنے لگے۔

 

جب بجلی آئی تو زندگی کے طور طریقے، اقدار اور رسومات بھی بدلنے لگے جب موبائل فون آیا تو زندگی کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔ آج چترال، دیر، کوہستان، ہنگو،کرک، لنڈی کوتل اور وزیرستان میں بیٹھا شخص امریکہ، افریقہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس،دوبئی اور سعودی عرب میں بیٹھے اپنے عزیزوں کے ساتھ سکائپ اور واٹس ایپ پر لائیو گفتگو کرتا ہے۔ رشتے داروں سے ملنے، اپنوں کی خبرگیری کرنے، دعوتیں کرنے، دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹانے کی کسی کے پاس فرصت نہیں رہی۔زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا ہونے کے ساتھ ہماری بہت سی روایات، رسومات اور اقدار متروک ہوگئے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پچاس سال پہلے کا دور اچھا تھا۔ لوگوں میں خلوص، ہمدردی، صلہ رحمی اور ایثار کے جذبات پائے جاتے تھے۔آج نفسا نفسی کا عالم ہے۔بلبل چترال امیر گل نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا منظوم انداز میں یوں ذکر کیاتھا کہ گذرے ہوئے کل کا دن آج کے دن سے بہتر تھا۔اور آنے والے کل سے آج کا دن اچھا ہے۔ دنیا کی مثال اس ریت کی سی رہ گئی ہے جس میں سے سونے کے ذرات چھان کر نکالے گئے ہوں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
69709