Chitral Times

May 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

حقوق نسواں کا نیا پہلو – محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

حقوق نسواں کا نیا پہلو – محمد شریف شکیب

شنید ہے کہ بھارت میں خواتین کی ایک تنظیم نے ایسی گالیوں کی فہرست تیار کی ہے جن میں عورتوں کا کوئی ذکر نہ ہو۔نئی گالیوں کو سوشل میڈیا کے زریعے پھیلایا جائے گا تاکہ لوگ ماں بہن کی گالی کے بجائے ان پرمزاح اور بے ضرر گالیوں کا استعمال کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کریں۔محققین کے مطابق گالی دینے کا رواج تب سے شروع ہوا جب انسان نے کوئی زبان سیکھی اور بولنا شروع کر دیا گالی دینا غصے، جھنجلاہٹ کا پہلا اظہار ہے اور عام طور پر مخالف کی ذات، عقیدے، مسلک اور گھر کی عورتوں کو گالیاں دے کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے یا مخالف کو اشتعال دلا کر لڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔خواتین کی مذکورہ تنظیم کا موقف ہے کہ جھگڑا دو مردوں کے درمیان ہوتا ہے اس میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو برا بھلا کہنے کا کیا جواز بنتا ہے۔

 

مردوں کے درمیان جب بھی کوئی بحث جھگڑے میں تبدیل ہونے لگتی ہے تو گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بحث یا جھگڑا دو مردوں کے درمیان بھی ہو رہا ہو تب بھی گالیاں خواتین ہی سے منسوب ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر گالیوں کا مرکزی خیال خواتین ہی ٹھہرتی ہیں۔ گالیوں کو لوگوں کی زبان سے ہٹانے کے لئے “گالی پروجیکٹ” کے نام سے شروع کئے گئے منصوبے کا بنیادی مقصد لوگوں کو ایسی گالیوں کے ممکنہ متبادل دینا ہے۔گالی پراجیکٹ کی ڈائریکٹر نیہا ٹھاکر کہتی ہیں کہ آج کل کے ماحول میں ویسے غصہ اور گالی دینے کی وجوہات کئی ساری ہیں، جیسے حکومت سے ناراضی، آنے جانے میں پریشانی، نوکری، رشتے۔ لوگوں میں چڑچڑاہٹ اور غصہ اتنا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے ہی گالیاں ان کی زبان پر ناچنا کرنا شروع کر دیتی ہیں۔گالی پروجیکٹ کا مقصد یہ ہے کہ غصہ نکالنے کے لیے جو گالیاں لوگ دے رہے ہیں اس میں تھوڑی آگاہی لائی جائے۔اورایسی گالیاں استعمال کی جائیں جس سے سامنے والے کو بھی برا نہ لگے اور آپ کا کام بھی ہوجائے۔ہماری کوشش گالیوں کا ایسا مجموعہ تیار کرنا ہے جو عورت مخالف نہ ہو، ذات یا مذہب کے خلاف متعصب، یا تضحیک آمیز نہ ہو۔ہم انھیں ایسے الفاظ کا آپشن دے رہے ہیں جن کے ذریعے آپ اپنی بات بھی کہہ دیں اور وہ مزے دار یا مزاحیہ بھی ہوں۔اب تک ایسی پانچ سو گالیوں کا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے۔نئی گالیوں کے الفاظ کو سمجھنے اور پرکھنے کے بعد انھوں نے ان الفاظ کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع کیا۔

 

ان کے مطابق زیادہ تر لوگوں کا ردعمل اچھا رہا لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ ایسی ’کلین‘ گالی دے کر انھیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ انھوں نے گالی دی ہے۔غصے کے اظہار کے لئے گالی دینا ہی واحد آپشن نہیں ہے۔بعض مواقع پر چپ رہنا گالی دینے سے زیادہ پر اثر ہوتا ہے۔ ہلکی پھلکی، پر مزاح اور بے ضرر قسم کی گالیاں وضع کرنے کا جو منصوبہ شروع کیا گیا ہے اس کی سو فیصد کامیابی کی ضمانت اس لئے نہیں دی جا سکتی کہ ہمارے معاشرے میں گالی دینا رواج اور اقدار کا حصہ بن چکا ہے کچھ لوگوں کے لئے گالی دینا تکیہ کلام بن چکا ہے وہ جب تک چند معلظات نہ اگلیں انہیں کھانا پانی ہضم نہیں ہوتا۔حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے آج تک اس اہم مسئلے پر توجہ ہی نہیں دی کہ مردوں کی لڑائی میں خواتین کو گالی دینابھی حقوق نسواں کے منافی ہے۔حالانکہ خواتین کے درمیان لڑائیوں میں کبھی مردوں کو گالیاں نہیں پڑتیں۔عورتوں کے حقوق کے علم برداروں کو توہین کے اس نئے پہلو پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔مہذب گالیوں پر مشتمل کتاب آنے والے چند مہینوں یا سالوں میں منظر عام پر آئے گی۔انہیں رائج کرنے کے لئے نصاب میں شامل کیا جاسکے گا اس پر ماہرین تعلیم و لسانیات کو ضرور غور کرنا چاہئے۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
67532