Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔۔”ارض وطن کی خیر“۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

ڈاکٹر عطا الرحمن سے پوچھا گیا۔۔۔سر! کویڈ کی ویکسین ہمارے ہاں کب پہنچے گی؟
جواب افسردگی میں تھا مہینوں لگینگے۔۔۔میزبان شریر تھا۔۔۔سر آخر کتنے مہینے؟۔۔۔سرد مہری سے جواب تھا۔۔کم از کم بارہ مہینے۔۔۔اس کا مطلب تھا بہت سارے مہینے۔۔جب ہم سب مرکھپ کے مٹی میں مل گئے ہونگے۔۔۔سوال کرنیوالے نے سوال داغ دیا۔۔۔سر! ہمارے ہاں ویکسین کی تیاری کا کوئی خواب ہے۔۔جواب دھائی جیسا تھا۔۔۔نہیں یہاں پر وہ سہولیات نہیں ہیں۔۔۔جواب دینے والا افسردہ تھا اس کو اپنی ناکامی نامرادی شکست اور نا اہلی کا احساس تھا۔اس کو پتہ تھا کہ چین اس وقت غلام تھا اور چینی افیون پیتے تھے جب وہ آزاد تھا۔۔جاپان تباہ ہوچکا تھا جب وہ آزاد تھا۔کوریا کا نام تک نہ تھا جب وہ آزاد تھا۔برطانیہ ٹوٹ چکا تھا جب وہ آزاد تھا۔امریکہ ابھی سر اُٹھا رہا تھا۔۔اس کی عمر بہت ساروں سے زیادہ ہے۔ہماری بد بختی وہاں سے شروع ہوئی جب ہمارے سر سے بابائے قوم کا سایہ اُٹھ گیا۔۔

پھر تیہتر سالوں میں بھی ہم سنبھل نہ سکے۔۔جب ہم آزاد ہو اس وقت سے ہمارے ہاں تعلیمی ادارے موجود تھے ہم نے ان میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔۔کوئی تحقیقی گوشہ کہ وہاں بیٹھ کرطلباء تحقیق کرسکیں کوئی سہولت جو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ہو۔۔یہ سب کچھ دوسری دنیا میں ہوتا ہے۔اگر ہمارے طلباء اتنے نا اہل ہیں تو وہ باہر دنیا کیوں چلے جاتے ہیں۔مجھے ڈاکٹر عبد السلام کا وہ جملہ یاد ہے جب انہوں نے پی ایچ ڈی کرکے ایک خواب لے کر گورنمنٹ کالج لاہور آیا کہ حکومت اسے اس کے معیار کے مطابق لیبارٹی بنا کے دے گی وہ وہاں پر تحقیقی ادارہ بنائے گا۔نوجوانوں کو سائنس دان بنائے گا لیکن اس کو یہاں پر فٹ بال اسوسیشن کا انچارچ بنایا گیا دو چار سالوں کے بعد وہ بد دل ہوکر ملک چھوڑ کر چلا گیا اور پھر اپنی صلاحیت دنیا کو دیکھا دی۔۔اگر ارض پاک اس کا خواب پورا کرتی تو وہ یہاں بیٹھ کر نوبل پرایز حاصل کرتا۔۔ہماری بد بختی وہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ہم Independant ہو کر بھی dependant ہیں ہم نے ماچس کی تیلی خود نہیں بنائی نہ اس پر سوچا۔جس کو اس پر سوچنا تھا وہ اپنے پیٹ کے غم میں رہے۔

جایدادیں بنائی پیسے ملک سے باہر لے گئے میرے خیال میں کوئی بدتر سے بد تر دشمن بھی اپنی دولت اپنے گھر سے اٹھا کے کسی دوسرے گھر میں نہیں رکھتا۔ڈاکٹر صاحب کا جملہ بحیثیت قوم ہمارے منہ پر طمانچہ تھا۔۔وہ خود اتنا مایوس تھا کہ شاید کوئی درد والا انسان اتنا ہو۔اس جدید سانسی دور میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ارض پاک دنیا کے غریب ترین ممالک کی صف میں نہیں ہے۔۔۔اس مٹی میں سب کچھ ہے اللہ نے اس کو سونا بنا دیا ہے اس کے باشندے ایسے ایسے ہیرے ہیں کہ باہر دنیا میں جا کر نام کماتے ہیں۔۔لیکن وہ یہاں پر بے قدر ہیں۔۔

کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ اگر یہ سر زمین کسی زندہ قوم کے پاس ہوتی تو اس کا یہ حال نہ ہوتا۔اس کے پہاڑ سونے اُگل رہے ہوتے۔۔اس کی زرخیز زمین فصلوں کا انبار لگاتی۔اس کا گوادر کب کا بندرگاہ بن چکا ہوتا۔اس کے شہر صاف ستھرے ہوتے۔اس کی سڑکین چہرے دیکھاتیں۔اس کے خوبصورت مناظر ساری دنیا کو کھینچ لاتے۔۔اس کے تعلیمی ادارے دنیا کو نئی نئی نظریات سے روشناس کراتے۔۔لیکن ہم اپنے سے چھوٹوں سے ٹیکنالوجی کی بھیک مانگتے ہیں ملنے پر خوش ہوتے ہیں۔ہم نا اہل ہیں بالکل نا اہل ہیں۔ عطا الرحمن صاحب کا جملہ ہمارا تعارف ہے۔۔۔۔۔۔ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں۔۔سوائے خود غرضی اور نا اہلی کے۔۔۔۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
44646