Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گلگت چترال ہائی وے اور غذر انتظامیہ کی نااہلی ۔ شاہ عالم علیمی

Posted on
شیئر کریں:

گلگت چترال ہائی وے اور غذر انتظامیہ کی نااہلی ۔ شاہ عالم علیمی

گگت سے چترال تک روڑ کی تعمیر ہورہی ہے۔ 2000ء تک یہ روڑ بہت ہی مشکل سنگلاخ پہاڑوں پر بمشکل فور بائی فور جیب گاڑیوں کی گزر گاہ تھا۔  گلگت سے غذر تک سفر میں پورا دن لگ جاتا تھا۔
پھر کارگل جنگ میں غذر کے سینکڑوں جوانوں کی شہادت کے  بعد اس وقت کے فوجی امر جنر ل پرویز مشرف نے خصوصی دلچسپی سے یہ سڑک تعمیر کروایا۔
تاہم یہ روڑ پھنڈر سے آگے نہیں بن سکا۔ غذر خاص کا پورا علاقہ روڑ سے محروم رہا۔ مٹوٹی پل سے شندور تک روڑ کا پی سی ون پلاننگ کمیشن سے  آخری سانسیں لیتی مشرف حکومت نے منظور کرایا۔ اور روڑ کے 800 ملین روپے جاری بھی کردیئے۔
بدقسمتی سے فوراً بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ائی۔ یہ روڑ تعمیر ہونے سے رہ گیا۔ 800 ملین روپے اس وقت کے سی ایم جی بی مہدی شاہ اور پارٹی نے گھوسٹ پروجیکٹس کی طرف منتقل کرکے ہضم کرلئے۔ مہدی شاہ اور ان کے سرکل کی اس سرعام بدعنوانی اور بدنیتی کے خلاف ہزاروں لوگوں نے تین دن تک گاہ کوچ، گوپس اور پھنڈر میں احتجاج کیا۔ تاہم مگرمچھ کے پیٹ سے کبھی کچھ واپس نہیں نکال سکتا سو ایسا ہی ہوا۔
آہستہ آہستہ گلگت سے پھنڈر تک روڑ بھی خراب ہوتا رہا اور کچھ سالوں کے اندر ناقابل استعمال ہوگیا۔
2014ء میں حکومت پاکستان اور چین نے 60 ارب ڈالر سے زائد کی رقم سے کثیر الجہتی تعمیرات کا پاکستان میں آغاز کیا۔ چونکہ پاکستان گلگت بلتستان کی بدولت چین کا ہمسایہ ہے لیکن جی بی میں اس میگا پراجیکٹ سے ایک بھی منصوبہ ابھی زیرتعمیر نہیں۔
اپریل 2021ء کو حکومت نے گلگت بلتستان میں  370 ارب کے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا۔ ان میں غذر کے لیے ایک بھی منصوبہ شامل نہیں تھا۔ عوام کے بھرپور احتجاج کے بعد سرکار نے مجبوراً گلگت شندور روڑ کی تعمیر کا اعلان کیا۔
اس روڑ کو تعمیر کرنے کا دعوی سابق حافظ حفیظ الرحمان سرکار نے بھی کیا تھا۔ لیکن بوبر گرنجر کے سامنے آدھ کلومیٹر  “ہائی وے” سے آگے نہیں جاسکے۔
اس تمام کہانی میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے سال سپریم کورٹ آف پاکستان کو گلگت چترال روڑ کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ یہ روڑ پچھلے بیس سال میں ایک نہیں دو دفعہ تعمیر ہوچکا ہے۔ اور اس کی پی سی فور (کسی بھی منصوبے کی تکمیل کی رپورٹ) بھی جمع کروادی گئی ہے۔
ہم نے اس سے پہلے بھی یہ کہا تھا کہ گلگت بلتستان میں سینکڑوں گھوسٹ پروجیکٹس کی تعمیر کی گئی ہے اور اربوں کھربوں روپے کا اس ضمن میں غبن کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کو جمع کروائی گئی رپورٹ ہمارے دعوی کی تصدیق کرتی ہے۔ درجنوں فٹ بال گروانڈز ، اسکول ، کالج ، اسپتال ، روڑ سڑکیں کاغذوں پر مکمل کیے گئے اور خوب پیسہ بنایا گیا۔
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان جیسا دوردراز ائین اور قانون سے باہر علاقے میں عجب کرپشن کی غضب کہانیاں بلکہ حقیقی ڈرامے جنم لے رہے ہیں۔
اس سے دو بڑے مسائل پیدا ہورہے ہیں؛ اول ایک چھوٹا سا طبقہ وسائل پر قبضہ کرکے ایلیٹ طبقے میں تبدیل ہورہا ہے جبکہ 99 فی صد غریب عوام ، جن کے نام پر پیسے بٹورے جاتے ہیں، غربت کی لیکر میں نیچے سے نیچے چلا جارہا ہے اور تیزی سے محرومیاں جنم لے رہی ہیں۔
میرا مشورہ ہے کہ 2010ء سے 2022ء تک گلگت بلتستان میں ہوئے منصوبوں کی آڈٹ کروائی جائیں اور زمہ داروں کو انصاف کے کٹہیرے میں لایا جائے۔
اب واپس آتے ہیں گلگت چترال روڑ کی طرف ؛ جب سے اس روڑ کا پی سی ون منظور ہوا ہے تب سے حکومت اور عوام کے بیج جنگ جاری ہے۔ حکومت نے اول اول تو غذر کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ چالیس روپے فی مربع فٹ زمین لینے کا اعلان کیا۔ چالیس روپے فی مربع فٹ! موسیؑ کے رب کی قسم آج صبح ہی میں نے چوالیس 44 روپے میں دو انڈے خریدا ہے صرف دو انڈے۔ یعنی کہ غذر کی زمین ایک انڈا کے برابر بھی نہیں ہے۔
غذر میں انتظامیہ میں موجود لوگ غیرمقامی ہوتے ہیں۔ چونکہ علاقہ بہت پرامن اور پرسکون ہے تو یہاں ایسے لوگ پوسٹ ہوکر آتے ہیں جن کی کریڈیبلیٹی پر سوالیہ نشان ہمیشہ لگا ہوتا ہے یا تو وہ سفارشی ہوتے ہیں یا خواتین۔
اس سے ہمیں کوئی مسلہ نہیں ہے۔ مسلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اس وسیع اور پھیلے ہوئے ضلع کے بارے صیح علم نہیں ہوتا۔ کہنے کو یہ ایک ضلع ہے حقیقتاً یہ چار سابقہ ضلعوں پر مشتمل ستم رسیدہ علاقہ ہے۔ جو ایک متعصب بدعنوان نظام کے ظلموں میں جھکڑا ہوا ہے۔
کسی بھی منصوبہ کے پی سی ون کا مطلب ہوتا ہے اس کے جملہ فوائد اور کامیابی کا تخمینہ۔ اور منصوبہ ہوتا ہی عوام کے لیے ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ پچاس فٹ پر مشتمل روڑ کے لیے سو ایک سو چالیس فٹ زمین لینا اور وہ بھی چالیس روپے فی مربع فٹ کے حساب سے کونسا انصاف ہے اور کونسی عقل کی بات ہے! غذر پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے جہاں آباد زمین بہت ہی محدود ہے جس پر لوگ گندم اور جوار اگا کر زندہ رہتے ہیں۔ اس زمین پر روڑ بنایا گیا تو لوگ کہاں جائیں گے؟ سب سے بڑی ناانصافی کی بات یہ ہے کہ ایسے روڑ دوسری جگہوں پر اپنے مطلوبہ زمین پر ہی تعمیر کیا جاتا ہے لیکن غذر کے لوگوں کے ساتھ دوہرا سلوک کیا جارہا ہے۔
اس پر احجاج پر احتجاج ہوئے اور حکومت نے آخر کار آبادی والے علاقہ میں پچاس فٹ اور غیرآباد علاقوں میں سو فٹ زمین لینے کا فیصلہ کیا۔
تاہم انتظامیہ اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی غذر خاص کے علاقے مٹوٹی پل سے لیکر چمرکھن تک سو فٹ پر ہی بضد نظر آتے ہیں حالانکہ یہ پورا علاقہ آباد ہے۔ اس میں کہیں بھی غیر آباد علاقہ نہیں ہے۔
آج پھر عوام سڑکوں پر ہے۔ احتجاج کررہے ہیں۔ اگر حکومت روڑ بنانے میں مخلص ہے تو پھر عوام کی بات سنے اگر یہ ایک بار پھر اس علاقے میں روڑ نہ بنانے کا حکومت کا ہی اپنا کوئی چال ہے تو پھر اپنی دھونس دھندلی کہیں اور لے جائیں غذر خاص کے لوگ ایسے ہی ٹھیک ہیں۔
اس سارے ڈرامے سے ایک بات عیاں ہوگئی ہے کہ غذر انتظامیہ نااہل لوگوں پر مشتمل ہے وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کررہی ہے۔ روڑ سروے اور کمپنسیشن سے پہلے عوام کو اعتماد میں نہیں لے سکے۔ اور کمپنسیشن سے پہلے غریب لوگوں کی زمینں اکھاڑنا شروع کردیا۔
 وزیراعلیٰ گلگت بلتستان اس بات کا نوٹس لیں اور غذر خاص کے پہلے سے محروم لوگوں کو اعتماد میں لیں اس پہلے کہ ان کا اعتماد آپ پر سے اٹھ جائیں۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
67158