Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

معجزات نبویﷺ – (ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معجزات نبویﷺ – (ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

 

لفظ”معجزہ“کا مطلب عاجزکردینایعنی مجبور کردیناہے۔نبی کے ہاتھ سے صادرہونے والا ایسا کام جو دوسرے کو لاجواب کردے اور اسکاکوئی توڑ پیش نہ کیاجاسکے اور نہ ہی اسکا کوئی جواب دیاجاسکے،معجزہ کہلاتاہے۔اصطلاح میں ”خرق عادت“ کومعجزہ کہاجاتاہے جو صرف انبیاء علیھم السلام سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔”خرق عادت“سے مرادایسا امر جو عام معمول سے ہٹ کر ہو۔مثلاََ عام حالات میں ڈنڈا زمین پر پھینک دینے سے ڈنڈا ہی رہتاہے لیکن اللہ تعالی کے نبی حضرت موسی علیہ السلام جب اپنا ڈنڈا یعنی عصا زمین پر پھینکتے تو وہ اژدہا بن جاتا،عام آدمی کو آگ میں پھینکنے سے وہ جل جاتا ہے لیکن اللہ تعالی کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکاگیاتو وہ صاف بچ کر آ گئے اورپیٹ میں جو چیز بھی جائے وہ ہضم ہوجاتی ہے لیکن اللہ تعالی کے نبی حضرت یونس علیہ السلام چالس دنوں تک مچھلی کے پیٹ میں رہے لیکن زندہ باہر نکل آئے وغیرہیہ سب معجزے تھے۔حضرت موسی علیہ السلام کے متعددمعجزے قرآن مجیدنے نقل کیے ہیں،یدبیضی،یعنی اپنادست مبارک بغل میں ڈالتے تونکالنے پروہ سورج کی طرح روشن ہوتااوراس سے آنکھ ملاناممکن نہ تھی،مصریوں پرسات عذاب آئے اوران کی زندگی اجیرن ہوجاتی تھی جب کہ سڑک کے دوسری جانب اسرائیلیوں کی بستی میں اس عذاب کاشائبہ تک نہ ہوتاتھا،ایک ہی راستے پرچلتے ہوئے نبی کی پیروکار بچ گئے اورفرعون کے پیچھے چلنے والے ڈوب گئے،صحرائے سینامیں بادلوں کاسایہ،من و سلوی اور وافرپانی کی فراہمی وغیرہ سب معجزات ہیں۔اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدمین مبارکین سے پھوٹنے والے شیریں چشمے کاآج تک بہتے چلے جانابھی ایک معجزہ ہے۔خرق عادت جب غیرانبیاء سے صادرہوتواسے ”کرامت“کہتے ہیں جیسے اصحاب کھف کاصدیوں تک زندہ رہناوغیرہ۔

 

محسن انسانیتﷺ نے بھی اپنی حقانیت کے ثبوت میں متعدد معجزے پیش کیے۔آپ ﷺ کا سب بڑا معجزہ قرآن مجید ہے،یہ ایک زندہ کتاب ہی نہیں بلکہ زند ہ معجزہ ہے جو تاقیامت زندہ رہے گا۔اس کتاب کی زبان کازندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔دنیامیں کسی زبان کی عمرساٹھ ستر سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی،اس مدت کے بعد وہ زبان تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعدمتروک ہی ہوجاتی ہے جب کہ قرآن مجید کی زبان گزشتہ کئی صدیوں سے اسی طرح محفوظ و مامون چلی آرہی ہے۔قرآن کی پیشین گوئیاں آج تک سچ ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں اوراس کتاب کے سربستہ راز کھلتے ہی چلے جارہے ہیں۔صدیوں کے بعد پیداہونے والے انسانی قبیلے کے اعلی ترین دماغ اس کتاب پر قلم اٹھاتے ہیں لیکن ہر آیت ان کواپنی نئی نئی اطلاعات سے آگاہ کرتی چلی جاتی ہے۔اس کتاب کامعجزہ ہے کہ اسے من و عن حفظ کرلیاجاتاہے۔کوئی کتنی اچھی غزل،ہو،گانا ہو،ناول ہو یا فلم وغیرہ ہو اس سے کتنی دفعہ کوئی التفات کرتا ہے پھر تھک جاتاہے لیکن صدیوں سے انسانیت اس کتاب کو پڑھتی چلی آرہی ہے،سنتی چلی آرہی ہے اور سناتی چلی آرہی لیکن کبھی کسی نے اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔دنیاکی واحدکتاب ہے جسے وہ لوگ بھی پڑھتے اورسنتے ہیں جواس کی زبان سے ہی واقف نہیں ہیں۔اس کتاب سے وہ لوگ بھی فیضیاب ہوتے ہیں جواس پرایمان بھی نہیں رکھتے۔یہ قرآن مجیدکا اعجازہے کہ اس کے اعراب،حروف،آیات و سورتیں اور ترتیب ورموزاوقاف وغیرہ کلیتاََاسی طرح ہیں جس طرح اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو بتائے،جبریل علیہ السلام نے آپﷺپرنازل فرمائے،آپﷺنے صحابہ کواملاکرائے اورصحابہ کرام  نے پوری دیانتداری کے ساتھ امت تک پہنچائے اورنسل درنسل آج تک پہنچے اوراسی طرح تاقیامتیہ کتاب کسی تحریف وترمیم سے محفوظ رہے گی۔کیونکہیہ واحدآسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود بارالہ نے لی ہے۔

 

محسن انسانیتﷺ کا یہ معجزہ تھا کہ دائی حلیمہ سعدیہ جب مکے آرہی تھیں تو انکا گدھا سب سے مریل چال چل رہاتھا،سب قافلے والے رک رک کر انکا انتظار کرتے،دائی حلیمہ کے شوہر کو ڈانٹتے کہ گدھا تیزچلاؤ،وہ ساتھ آ ملتے تو پھر قافلہ چلتا۔جب یہ قافلہ واپس آ رہاتھا اور محسن انسانیتﷺ دائی حلیمہ کی گود میں تھے تویہی مریل گدھا سب سے آگے بھاگتا تھا اور قافلے والے اسکوآہستہ چلنے کاکہتے تھے۔بنواسد میں جب یہ مبارک بچہ پہنچ گیا تو اس قبیلے کے جانوروں کے تھن ایسے ہوگئے جیسے جاگ گئے ہوں،برتن بھربھرکر دودھ جیسے امڈنے لگا۔دوسرے قبائل کے لوگ اپنے لڑکوں کو ڈانٹتے تھے کہ تم بھی وہیں جانورچراؤجہاں اس گھرانے کے بچے چراتے ہیں،وہ لڑکے کہتے کہ وہیں تو چراتے ہیں لیکن دودھ اتنا نہیں نکلتا۔انہیں کیا معلوم یہ کسی گھاس یا خوراک کی وجہ سے دودھ نہیں نکل رہا بلکہ یہ تو معجزہ نبویﷺ ہے۔اہل مکہ نے حضرت ابوطالب سے درخواست کی کہ آپ متولی کعبہ ہیں اورایک عرصے سے بارش نہیں ہوئی،جانوربھی پیاسے مررہے ہیں اورخشک سالی کاراج ہے،حضرت ابوطالب نے اپنے ننھے بھتیجےﷺکوگودمیں بٹھایا،اس کے مبارک سرپراپنے ہاتھ رکھے اوردست ہائے دعادرازکردیے،دیکھتے ہی دیکھتے امڈتی ہوئی گھٹاؤں سے آسمان بھرگیااورایسی بابرکت بارش ہوئی کہ وادی میں جل تھل ہوگیا۔

 

اہل مکہ میں سے ایک بار کسی نے تقاضاکیاکہ چاندکودوٹکڑے کر کے دکھاؤ،آپﷺ نے ا نگشت مبارکہ سے اشارہ کیاتو چانددوٹکڑے ہوگیاایک ٹکڑا ایک سمت میں دوسرا دوسری سمت میں اس حد تک گرے کہ نظروں سے چھپ گئے اور پھر دونوں آن کر باہم مل گئے۔قرآن نے اس معجزے کی تصدیق کی ہے اورچاندپر جانے والوں نے چاند کے عین وسط میں ایک ایسی دراڑ کامشاہدہ کیاہے جو پورے چاند پر نظر آتی ہے۔ہندوستان کی ریاست ”کیرالہ“کے راجہ نے شق قمرکامعجزہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا،اس نے ہندوجوتشیوں سے پوچھاتوانہوں نے اپنی کتابوں میں درج آخری نبیﷺکی اس نشانیکاحوالہ پیش کردیا،تب راجہ نے ایک وفدمکہ بھیجااور629ء میں ”چیرامن“کے نام سے تاریخ اسلام کی سب سے پہلی مسجدہندوستان کی خوش قسمت سرزمین پرتعمیرہوئی۔معراج شریف کا سفر آپ ﷺکا ایک شاندار معجزہ ہے۔آپ ﷺ براق پرتشریف فرماہوئے اور بیت المقدس پہنچے وہاں سب انبیاء علیھم السلام کی امامت کرائی،پھر ساتوں آسمانوں کی سیر اوراللہ تعالی سے ملاقات کے بعد زمین پر تشریف لے آئے۔لوگوں نے پوچھافلاں قافلہ جو مکہ اور بیت المقدس کے درمیان میں ہے کس جگہ تھا؟؟آپ ﷺ نے جومقام بتایا قافلے نے واپسی پر اسی رات کو اس مقام پر قیام کی تصدیق کر دی۔

 

محسن انسانیتﷺ کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ کی پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوئیں اور آج تک سچ ہی ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں۔ایک بار آپﷺ کعبۃاللہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ ایک مسلمان نے اپنی کمر دکھائی جو کافروں کے تشدد کے باعث بری طرح جھلس کر زخمی ہو چکی تھی اس نے  عرض کیا کہ ان کے لیے بددعا کیجئے۔آپ ﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کی قسم ایک وقت آئے گا کہ صنعا سے حضرموت(عرب کے دو کونے)تک سونے سے لدی پھندی ایک نوجوان عورت تن تنہا سفر کرے گی اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہوگا۔حضرت سلیمان منصور پوری نے اپنی کتاب ”رحمۃ اللعالمین“میں ایسی کئی روایات کونقل کیا ہے جن میں کسی نوجوان خاتون کا ذکر کیاگیا ہے جو ایک شتر پر سوار ہو کر تن تنہا صنعا سے حضرموت تک گئی اور اسکے جسم پر سونے کے زیورات گویا لدے ہوئے تھے۔ہجرت مدینہ کے سفر میں جب سراقہ بن مالک نے آپﷺ کوآن گھیراتوآپﷺ نے فرمایاسراقہ کیا حال ہوگا جب قیصروقصری کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے۔دورفاروقی میں جب  ایران فتح ہوا تو اس وقت کے بادشاہ لوگ اپنے ہاتھوں میں قیمتی دھاتوں کے کنگن پہنا کرتے تھے،اسی طرح کے کنگن ایران سے مدینہ لائے گئے تو حضرت عمر نے سراقہ بن مالک کو بلوا بھیجااس کے آنے پر اسے بادشاہ کے کنگن پہنائے گئے اور اسکے دونوں بازو کندھوں تک ان قیمتی کنگنوں سے بھر گئے۔اسی سفر کے دوران جب آپ ام معبد کے خیمے میں پہنچے تو آپ ﷺ سمیت پورے قافلے کوشدید بھوک لاحق تھی،اس خاتون کے ہاں ایک مریل بکری بندھی تھی۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں کچھ کھانے کو دو تو اس نے عرض کی کچھ میسر ہوتاتو مانگنے کی نوبت نہ آتی،اس بکری کے بارے میں استفسار ہواتوام معبد میں کہا اس میں دودھ کاکیاسوالیہ تو چلنے کے قابل ہی نہیں کہ ریوڑ کے ساتھ جاتی۔آپ ﷺ نے اس بکری کی کمرپر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس خیمے کاسب سے بڑابرتن لا کراس میں دودھ دوہنا شروع کیاگیا۔مریل بکری جو چلنے سے قاصر تھی دست نبویﷺکے معجزے کے باعث اسکے تھنوں سے نکلنے والے دودھ سے وہ سب سے بڑا برتن لبالب بھرگیا۔آپ ﷺنے قرب قیامت کی جن نشانیوں کی پیش گوئیاں فرمائی تھیں آج ہم حرف بحرف پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔

 

غزوہ احزاب جسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں،اس جنگ سے قبل جب خندق کھودی جارہی تھی توایک بہت بڑا اور سخت پتھرحائل ہوگیا،بہت زور لگایاگیالیکن نہ ٹوٹا۔تب آپ ﷺ کو اطلاع کی گئی،آپﷺ تشریف لائے اورکدال سے ایک ضرب لگائی،چنگاریاں نکلیں اور آپ ﷺ نے فرمایا روم فتح ہوگیا،پھر دوسری ضرب لگائی چنگاریاں نکلیں اور آپ ﷺ نے فرمایا ایران فتح ہوگیاپھر تیسری ضرب لگائی اور چنگاریاں نکلیں اور آپ ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم بحرین کے سرخ محلات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔بعد میں آنے والے دنوں میں روم اور ایران تو بہت جلد فتح ہوگئے اور روم کے بھی متعدد علاقے زیراسلام آگئے صرف قسطسطنیہ کا شہر باقی رہ گیا۔اس شہر کو فتح کرنے کے لیے اور نبی علیہ السلام کی پیشین گوئی پوری کرنے کے لیے کم و بیش چودہ بادشاہوں نے لشکر کشی کی اور آٹھ سو سال بعد قسطنطنیہ کا یہ شہر بھی اسلام کا زیرنگیں آ گیااور سچے نبیکی پیشین گوئی پوری ہو گئی۔غزوہ خندق کے موقع پر جب سب نے پیٹ پر پتھرباندھ رکھے تھے تو ایک صحابی اپنے گھر گئے اور بکری کابچہ ذبح کیااور ساتھ ہی گھروالوں کومیسر آٹے سے روٹیاں پکانے کا کہ کر آپ ﷺ کے پاس حاضرہوئے اورکان مبارک میں عرض کی کہ سات آٹھ افراد کاکھانا تیار ہے تشریف لے آئیے،آپﷺ اس مورچے پرموجودساٹھ ستر افراد کے ساتھ پہنچ گئے۔اس صحابی کے چہرے پرپریشانی کے آثار ہویدادیکھ کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاتھالی ہٹائے بغیرسالن نکالتے رہو اور اوپرسے رومال ہٹائے بغیرروٹیاں نکالتے رہواسی طرح اس سات آٹھ افرادکے کھانے کو ساٹھ ستر افراد نے سیرہوکرتناول کیااور مہمانوں کے چلے جانے پر پہلے جتنا کھاناپھر بھی باقی دھراتھا۔

 

آپ ﷺ کے دست مبارک میں شفا تھی،غزوہ خیبر کے موقع پرجب حضرت علی آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھے تو آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان آنکھوں میں لگادیااسکے بعد تاحیات حضرت علی آنکھوں کی تکلیف سے محفوظ رہے۔ایک بار دودھ کے بھرے چھوٹے سے کٹورے میں آپ نے اپنی انگلیاں ڈالیں اور اس پیالے سے منہ لگاکرسب اصحاب صفہ نے دودھ پیااور پھر بھی اس پیالے میں اتنا ہی دودھ باقی تھا۔آپ ﷺ نے خود فرمایاکہ ایک پتھر مجھے سلام کیا کرتا تھاحتی کہ جانوروں کی زبان سمجھ لینا بھی آپ ﷺ کا ایک معجزہ تھا،جب کچھ لوگ شرف ملاقات کے لیے حاضر خدمت اقدسﷺہوئے تو انکے اونٹ نے اپناسر لمبا کرکے تو قدمین شریفین پر رکھ دیااور اپنی زبان میں ڈکارا،آپﷺ نے فرمایایہ مجھ سے شکایت کررہاہے کہ تم اس سے کام بہت لیتے ہو کھانے کو کم دیتے ہو اور تشدد بھی کرتے ہو۔وہ لوگ کم و بیش دوماہ بعد اس اونٹ کو پھرلائے اور خدمت اقدسﷺ میں پیش کرکے عرض کی اس دوران ہم نے اس سے کوئی کام نہیں لیااور صرف کھلایاپلایا ہے،آپ ﷺ اس کی صحت دیکھ لیں اور اجازت ہو تو ہم اس سے کام لینا شروع کر دیں۔حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپﷺ نے اونٹ ذبح کرنے شروع کیے توہراونٹ آگے سے آگے بڑھ کرآپﷺ کے سامنے پیش ہونے کی سعیکرتاتھاکہ آپﷺ کے دست مبارک سے ذبح ہونے کی سعادت حاصل کرسکے۔

 

اللہ تعالی نے فرمایاکہ ”وَ لَقَدْ أَنْزَلْنَا اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ وَ مَا یَکْفُرُ بِہَا اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ(۲:۹۹)“ترجمہ:”ہم نے آپﷺکی طرف نہایت واضع آیات(نشانیاں)نازل کی ہیں،جن کابدکاروں کے سواکوئی بھی انکارنہیں کرتا“۔ہرقلب سلیم کے لیےیہ نشانیاں مقناطیس کی مانندہیں،اس کادل ان کی طرف کھنچاچلاآتاہے،اس کی آنکھوں پرموجودپردے چھٹ جاتے ہیں،کانوں کی گرانی دورہوجاتی ہے اور قرآن وحدیث سماعت کے ذریعے رس گھولتے ہیں اور،عقل و فہم کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں اور نورایمان اس کے دل میں گھرکرلیتاہے اور اس دنیامیں ہی اسے جنت کے لیے چن لیاجاتاہے۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو آخری نبیﷺکی امت سے اٹھائے گئے اوراسی حیثیت انہوں نے اپنی جانیں عزرائیل علیہ السلام کے سپرد کیں اورآخرت میں جب فرشتے حاضری لگائیں گے توان کا شمارامت مسلمہ میں سے ہوگا۔ان کے نصیب کاکیاہی کہنا کہ جنہیں ختمی مرتبﷺروزمحشراپنی امت میں شمارکریں گے،اللہ تعالی کے ہاں ان کی شفاعت فرمائیں گے،جنت میں اپنے ساتھ لے کرداخل ہوں گے اوران لوگوں کی خوش قسمتی کبھی نہ ختم ہونے والی ہے جنہیں جنت الفردوس میں رحمۃ اللعالمین کاپڑوس میسرآئے گااور یہ انعامات کبھی کبھی کبھی بھی ختم نہ ہوں گے۔اللہ تعالی ہمیں بھی ان میں شامل فرمادے،آمین۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
66748