Chitral Times

May 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سائنسی اعتبار سے روزہ کے روحانی اور طبعی فوائد  –   پروفیسرعبدالشکورشاہ

Posted on
شیئر کریں:

سائنسی اعتبار سے روزہ کے روحانی اور طبعی فوائد  –   پروفیسرعبدالشکورشاہ

مسلمانوں کے لیے روزہ خالصتا ایک روحانی عمل کا ہے مگر سائنس روزہ کے عصابی، جسمانی، روحانی اورتوازن غذائیت کے فوائد آشکار کر چکی ہے۔صدیوں سے رمضان المبارک مسلم دنیا میں خوشیوں اور سعادتوں کا ماہ تصور کیا جاتا ہے۔سکیریا یونیورسٹی شعبہ طب کے پروفیسرمورات الیمندار کے مطابق سائنسی شواہد اس بات کو ثابت کر تے ہیں کہ موجودہ مہلک وباء کے دوران روزہ رکھنا کیسے انتہائی مفید ہے۔ اگر کوئی فرد باقاعدہ نیند، مناسب اور بروقت غذائیت سے بھر پور کھانے اور زندگی کے عام معمولات کو باقاعدگی سے ادا کرے تو اسے دوسروں کی نسبت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ متذکرہ بلا عوامل کے برعکس عمل کرنے والے روزہ داران فوائد سے محدود انداز میں مستفید ہو پاتے ہیں۔زمانہ قدیم سی ہی مختلف سائنسدان اور مذاہب روزہ کے طبعی فوائد کے بارے بات کرتے رہے ہیں۔

سب متفق ہیں کہ روزہ جسم میں میٹابولزم کے نظام کو خودکار انداز میں نئے سرے سے بحال کر تا ہے۔یہ ڈی ٹوکسیکیشن کے عمل کو تیز کر تا ہے۔ یہ عمل انسانی ذہن کے لیے بہت کاآمد ہے۔ روزہ کے دوران  انسانی دماغ سے نیٹروفیکٹر BDNFکو متحرک کر تا ہے جو اعصابی خلیوں کی پیداوار کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ خلیے انسانی جسم میں موجود میٹابولزم نظام کے اہم حصے ہیں جو جسم میں محکمہ تعمیر و مرمت کی طرح کام کر تے ہیں۔ ان کے زریعے جسم ختم ہو جانے والے ٹشوز کو نہ صرف دوبارہ سے بناتا ہے بلکہ خراب ٹشوز کو ٹھیک کرنے کا کام بھی سرانجام دیتے ہیں۔ یہ خلیے خون کے سفید خلیوں کی پیداوار، ان کی تقویت دینے کے ساتھ ساتھ کسی بیماری کی صورت میں جسم میں موجود قدرتی نظام مدافعت کو طاقتور بناتے ہیں۔ روزہ اور جسم میں BDNFمیں رطوبت کی سطح میں بلندی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔روزہ کی وجہ سے زیادہ خلیوں کی پیداوار انسانی دماغ کے لیے بہت مفید ہے۔روزہ دماغ کو مناسب آرام بھی فراہم کر تا ہے۔ جب جسم کے باقی حصے جیسا کہ معدہ اور دیگر عضو۔ روزے کی وجہ سے جب ہم کھانا پینابند کر دیتے ہیں تو جسمانی عضو کی معمول کی سرگرمی رک جاتی ہے جس سے جسم کے دیگر حصوں کے ساتھ دماغ کو بھی آرام میسر آتا ہے۔انسانی دماغ میں 100بلین سے زیادہ اعصاب بیک وقت ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ قائم کیے ہوتے۔ رمضان کے دوران جسم میں کم غذائیت کی ترسیل کی وجہ سے انسانی دماغ کو موصول ہو نے والے پیغامات اور سگنلز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔

روزہ کی وجہ سے ہمارا دماغ آرام کرنے کے بعد دوبارہ پہلے سے بہتر انداز میں کام شروع کر دیتاہے۔ روحانی نقط نظر سے بھی دماغ جب زندگی کے لیے کسی خاص چیز کی اہمیت اور اس کی تکمیل کو محسوس کرتا ہے تو اسے راحت،آرام اور تسکین ملتی ہے۔ کسی اچھے اور نیک مقصد کی تکمیل کے بعد ملنے والی خوشی اور راحت بھی انسان کی دماغی اور نفسیاتی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ وہی راحت ہے جو ہمیں رمضان میں روزے اور عبادات کے زریعے نصیب ہوتی ہے۔ رمضان میں روزہ کے سبب دماغی آرام اور کم عصابی بوجھ کی وجہ سے ہمارے اندر توجہ کی بھر پور صلاحیت پیدا ہو تی ہے۔ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بے پناہ دیگر امور شامل ہیں جن سے پرہیز کرنے سے ہی روزہ کی روح کو پایا جا سکتاہے۔ اپنی عادات، خواہشات، منفی رجحانات پرقابو پانے سے نہ صرف قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ روحانی اعتبار سے بھی اعلی صفات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ روزہ انسان کو اس کی زیادہ تر سابقہ سرگرمیوں سے روک کر عصابی تقویت کا سبب بنتا ہے۔قرآن پاک کی تلاوت سائنسی لحاظ سے پریشانی اوراضطراب سے نجات دلاتی ہے اورانسانی دماغ میں توجہ کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ سائنسی اور طبعی نقطہ نظر سے روزہ سے ہمارے اندر نیند اور غذائیت میں توازن پیدا ہوتا ہے۔

سائنسی کے مطابق اگر ہم رمضان کے معمولات کو رمضان کے علاوہ بھی اپنی زندگی کاحصہ بنا لیں تو ہمارے بہت سارے طبعی، روحانی اور نفسیاتی مسائل حل ہو جائیں۔ تراویح پڑھنے کے بعد سحری تک تھوڑی دیر کے لیے سو جانا بھی طبعی نقطہ نظر سے انتہائی مفید ہے جوعرف عام میں قہلولہ یا نیپ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مختصر نیند دماغ کو آرام پہنچانے کا ایک زریعہ ہے۔ ہمارے جسم کوخوراک کی طرح مناسب نیند اور آرام کی بھی اشد ضرورت ہے۔ قہلولہ سے ہمارے اندر روحانیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ روزہ نظام انہضام کو بھی بہتر بناتا ہے۔ سائنسی لحاظ سے جسم کے اعضاء کو سال میں کم از ایک مرتبہ ڈیٹوکسیفائی کا موقعہ ملنا چاہیے اور رمضان المبار ک کا مہینہ یہ موقعہ فراہم کر تا ہے۔ روزہ کے زریعے ہم جسم میں موجو د چربی کو استعمال کرتے ہیں جس سے ہماری نہ صرف صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ ہمیں جسم میں موجود فالتو چربی سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ غذاء کی عدم دستیابی کی صورت میں جسم کے اندر موجودچربی کا ذخیرہ استعمال میں آتا ہے۔

اس کی وجہ سے جسم میں موجود نقصان دہ ٹوکسن مر جاتے ہیں۔ سال بھر ہمارہ معدہ غذاء کے انہضام میں دن رات مصروف رہتا ہے۔ رمضان میں روزہ کی وجہ سے ہمارے معدے کو کم بوجھ کی وجہ سے آرام کا موقعہ ملتا ہے۔ معدے کے آرام اور کم بوجھ کی وجہ سے ہمارا جسم دیگر نظاموں کی پرتوجہ دے پاتا ہے جیسا کہ نظام قوت مدافعت۔روزہ ہمیں اوکسیڈیٹیو سٹریس جو کینسر کا سبب بنتا ہے اس سے محفوظ رکھتا ہے اور کینسر پھیلانے والے خلیوں کی رفتارکو سست کر نے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین غذائیت اس بات پر متفق ہیں کے روزہ وزن کو کم کرنے کے لیے موثر ترین اور سب سے سستاطریقہ ہے۔ موجودہ دور میں وزن میں بے جا غیر ضروری اضافہ شہروں میں ایک بڑی بیماری بن چکا ہے جو کئی دیگر امراض کو جنم دیتا ہے جن میں دل کا دورہ جیسا جان لیوا مرض بھی شامل ہے۔ کم کھانے سے جسم میں انسولین کی مقدار کم ہوتی ہے جو شوگر جیسی عام بیماری کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے۔

سائنسی اعتبار سے جو افراد رمضان کے روزے رکھتے ہیں ان کے جگر کی حالت بھی دوسروں کی نسبت کافی بہترہوتی ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے چکنائی کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ بہت ساری سائنسی تحقیقات کے مطابق روزہ جسم میں کلیسٹرول کی مقدار کو قابو کر تا ہے اور چربی والے ٹشوز کو کم کر تا ہے۔ اس سے دل کے امراض کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہمارے جسم میں ایڈیپونیکٹن نامی ایک ہارمون موجود ہے جو ہمارے دل کی حفاظت کے ساتھ گولکوز کی سطح کو متوازن رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق روزہ اس ہارمون کو زیادہ متحرک اور جاندار بنانے میں مدد دیتا ہے۔ عام طور پر افطار میں زیادہ کھانا نہیں کھایا جاتا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں سحری میں کم کھایا جائے گا اور افطاری تک کام کاج سرانجام دینے میں مشکل درپیش آتی ہے۔ سائنسی لحاظ سے بھی افطاری میں کم کھانا مفید ہے بصورت دیگر آنتوں اور معدے کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ افطاری کو دوحصوں میں کرنا سائنسی اعتبار سے زیادہ مفید ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
60357