Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فاٹا انٹرم ریگولیشن کا خاتمہ …………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پشاور ہائی کورٹ نے انٹرم ریگولیشن 2018کو آئین سے متصادم ہونے کی بناء پر کالعدم قرار دیا ہے اور خیبر پختونخوا حکومت کو قبائلی اضلاع میں باقاعدہ عدالتی نظام قائم کرنے کے لئے ایک ماہ کی مہلت دی ہے۔ عدالت عالیہ کے دو رکنی بنچ نے اپنے ریمارکس میں واضح کیا کہ 25ویں ترمیم کے بعد ڈپٹی کمشنر کے عدالتی اختیارات ختم ہوگئے ہیں۔ ان کی طرف سے بدستور عدالتی اختیارات استعمال کرنا غیر آئینی ہے۔ وفاقی حکومت نے قبائلی علاقوں میں رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کی جگہ فاٹا انٹرم گورننس ریگولیشن کا قانون متعارف کرایا تھا۔ صدر نے 28مئی2018کو انٹرم ریگولیشن پر دستخط کئے تھے۔ جس کے تحت قبائلی علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لئے انگریزوں کے وضع کردہ قانون ایف سی آر کو ختم کردیا گیا۔ پولے ٹیکل ایجنٹ کا نام ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ کا نام اسسٹنٹ کمشنر رکھ دیا گیا۔ عمائدین علاقہ پر مشتمل جرگہ سسٹم بحال رکھا گیا تاہم یہ طے کیا گیا کہ رواج کے حوالے سے عمائدین حتمی فیصلہ کریں گے۔ انٹرم ریگولیشن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ قبائلی علاقوں تک بڑھانے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ عدالت عالیہ کا موقف تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اورآئین میں 31ویں ترمیم کے بعد قبائلی علاقوں کا نظام ایف سی آر کی طرز پر چلانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالتی فیصلے پر خیبر پختونخوا حکومت کا کیا ردعمل ہوتا ہے اور کیا ایک ماہ کے اندر قبائلی اضلاع میں سپریم کورٹ رجسٹری اور ہائی کورٹ کے سرکٹ بنچ قائم کرنا ممکن ہے۔ اس پر تبصرہ صوبائی حکومت کے اقدامات کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم فی الوقت ایک کروڑ قبائلی عوام مخمصے کا شکار ہیں۔ صوبے میں ان کی شمولیت کے باوجود صوبائی اسمبلی میں ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ قبائلی اضلاع سے صوبائی اسمبلی کے ممبران کا چناواور بلدیات کے انتخابات اگلے سال کرانے کا فیصلہ تو ہوا ہے مگر اس کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی۔ صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع کی معاشی بحالی کے لئے وفاق سے خصوصی فنڈ دینے اور قابل تقسیم محاصل سے قبائلی اضلاع کو تین فیصد حصہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اب تک نہ وفاق نے اپنے حصے کا فنڈ دیا ہے نہ ہی صوبے قبائلی علاقوں کو این ایف سی میں تین فیصد حصہ دینے کے روادار نظر آرہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں قبائلی اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کے اندر آئی ڈی پیز بننے پر مجبور ہوئے تھے۔ طے یہ پایا تھا کہ ان علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرکے اور قبائلیوں کو نقصان کا معاوضہ دے کر انہیں گھروں کو واپس بھیجا جائے گا۔ اب تک لاکھوں آئی ڈی پیز گھروں کو واپس جاچکے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو گھروں کی جگہ کھنڈر ہی ملے ہیں۔ بیشتر آئی ڈی پیز کو روزمرہ اخراجات کے لئے ملنے والی رقم بھی نہیں ملی۔ نہ ہی گھروں کی تعمیراور کاروبار کی بحالی کے لئے انہیں کوئی معاوضہ دیا گیا۔ اختیارات کی منتقلی کے نامکمل ایجنڈے کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے ہزاروں ملازمین کو کئی مہینوں سے تنخواہیں بھی نہیں ملیں۔قبائلیوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ انضمام کے نام پر صرف نام بدلے گئے ہیں کوئی تبدیلی انہیں نظر نہیں آرہی ۔ کل پولے ٹیکل ایجنٹ جو اختیارات استعمال کرتا تھا آج ڈپٹی کمشنر وہی اختیارات استعمال کرتا ہے۔ ایف سی آر کے خاتمے کے باوجود انتظامیہ کے پاس لوگوں کو مشتبہ قرار دے کر مہینوں جیل کی سلاخوں میں بند رکھنے کا اختیار حاصل ہے۔ ہر حکومت قبائلیوں کو ملکی سرحدوں کو بے تنخواہ محافظ قرار دیتی رہی ہے۔ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام قبائلی عوام کا اکثریتی فیصلہ ہے۔ قبائلی علاقوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کا خمیازہ پوری قوم اور خود قبائلی اب تک بھگت رہے ہیں۔اب جبکہ اتفاق رائے سے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس فیصلے پر فوری عمل درآمد ہونا چاہئے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومت اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کریں تو قبائلی عوام میں پائے جانے والے احساس محرومی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں مصلحت کوشی کی گنجائش نہیں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کو کم از کم دس سال کے لئے خصوصی توجہ کا علاقہ قرار دیا جائے اور اس کے لئے خاطر خواہ بجٹ مختص کیا جائے۔ تویہ جفاکش قوم اس کا بدلہ جلد چکاسکتی ہے۔ اوروہاں کے معدنی وسائل پورے ملک کو خوشحال بنانے کے لئے کافی ہیں۔


شیئر کریں: