Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مری حادثہ اور ہماری زمہ داریاں – کریم علی غذری

شیئر کریں:

مری حادثہ اور ہماری زمہ داریاں – کریم علی غذری

گزشتہ ہفتے سیاحوں کی  جنت نظیر وادی ملکہ کوہسار مری میں قدرتی حسن و منظر سے لطف اندوز ہونے والوں کے ساتھ اندوہناک حادثہ پیش ایا۔  اس پر جتنا بھی رنج و غم کا اظہار کیا جائے کم ہوگا۔ ہمدردی کے جتنے اوراق کو پلٹا جائے تو اس المناک حادثے کو بیان کرنے کے الفاظ نہیں ملیں گے۔ موت برحق ہے لوٹنا اسی خالق کائنات کی طرف  اسی کے حکم سے ہے۔ لیکن جب اللہ نے انسان کو اشراف المخلوقات کے عظیم لقب سے نوازا ہے تو اس کے پیچھے چند عوامل بھی ہیں جن کی وجہ سے وہ اشراف المخلوقات کے عظیم منصف پر فائز ہے۔ عقل وہ اوزار ہے جو تمام جانداروں میں انسان کو ممتاز بناتا ہے اور عقل ہی کے مثبت استعمال سے انسان مختلف خطرات اور نقصانات سے محفوظ ہوتا چلا آرہا ہے۔ 


عظیم دھماکے یعنی دی بیگ بینگ سے شروع ہونی والی کائنات میں 13.6 ارب سال اور زمین کے 4.6 ارب سال میں ارتقاء سے عقل نے زندگی کے ہر شعبے میں چونکا دینی والی کامیابیاں سمیٹی ہے۔ عقل اور علم کے وسیع نظریے کو سامنے رکھ کر سائنس و ٹیکنالوجی، طب، فلکیات کے شعبے نے ہر طرح فتوحات سمیٹی ہے۔ ایٹم کے اندر پروٹان کے چارجز سے لیکر گلکسی اور بلیک ہول تک رسائی عقل اور علم کی روشن دلیلیں ہیں۔ لیکن اگر ہم ان نایاب قدرتی نعمتوں سے استفادہ حاصل نیہں کرسکتے ہیں تو خود کو کس طرح اشراف المخوقات کے ترازو میں تول سکتے ہیں۔ جب بھی پاکستان میں کوئی المناک حادثہ رونما ہوتا ہے سارا الزام حکومت، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کندھوں پہ ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر تنقید برائے اصلاح کے بجائے تنقید برائے تنقید کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔  کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بحیثیت شہری ہم پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔  پاکستان کی ائین کا نفاذ ہم پر ہوتا ہے اور ہم کو اس کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔

31 دسمبر کی شب اور پھر 5 جنوری کو محکمہِ موسمیات نے مری میں طوفان کی پیشن گوئی کی تھی اور اس دوران میں این ڈی ایم اے نے پی ڈی ایم اے کو الرٹ جاری کیا تھا کہ موسم میں ہونی والا بدلاو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا جس کی وجہ سے ایک المناک واقعہ نے جنم لیا، 22 چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گئے۔ ایڈونچر کے شوقین تو ہم سب ہیں لیکن زندگی کو خطرے میں ڈال کر بیغیر کسی تیاری کے ایڈونچر کرنا کسی طرح بھی عقل سلیم کی دلیل نہیں انسانی زندگی بہت قیمتی شے ہے جس کی قدر ہونی چاہیں۔ اگر کچھ یہ سب لوگ زمہ داری کا مظاہرہ کرکے مجاز اداروں کی باتوں پر عمل کرتے تو یقیناً اس حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔  مری میں اس وقت 4000 کے قریب گاڑیوں کے پارکنگ کی گنجائش ہے مگر 3 دن کے دوران 95 ہزار سے زائد گاڑیاں مری کے حدود میں داخل ہوچکی تھیں۔

باوجود اس کے مری میں ہوٹل، ریسٹورنٹ، موٹیلز بھر چکے ہیں سیاح جوق در جوق مری کے راستوں پر رواں دواں تھے۔ کیا ہماری خود کی اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہے کہ سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود موت کے کنویں کی طرف لپکے؟ خود کو اور اپنوں کو یوں اذیت ناک موت سے ہمکنار کروائیں؟ قدرتی حسن و منظر سے تو اس وقت لطف ہوسکتے ہیں جب زندگی باقی رہے گی۔ ایڈونچرز کے نام پر خود کو خطرے میں ڈالنا کہاں ذی شعور انسان کی علامت ہے۔ دوسری بات وہاں کی مقامی باشندوں پر تنقید کے تیر چلائے جاتے ہیں اور لوگ ان پر فوقیت حاصل کرنے یا اپنے علاقے کو ان پر ترجیح دینے میں  لگے ہوئے ہیں، سیاحوں کی زبانی سنیے تو مقامی افراد نے بڑھ چڑھ کر سیاحوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی  مگر ان لوگوں نے گاڑی میں رات گزرنے کو ترجیح دی۔ بہرحال اگر احتیاط کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا جائے تو آنے والے وقت میں اس طرح کے دردناک حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 21

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57315