Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اسمبلی کے فلور پر………. تحریر:مفتی ثناء اللہ انقلابی گلگلت

Posted on
شیئر کریں:

گلگت بلتستان میں پاکستان کے منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی آمد پر اسمبلی فورم میں جو کچھ ہوا اس پر افسوس کے سوا کیا کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔کل تک گلگت بلتستان کی عوام کے بارے میں مشہور زمانہ قول زبان زد عام تھا نمکین چائے پینے والے میٹھے لوگ، سیاسی اتار چڑھاؤ کے موسم خزاں میں بھی اپنے آباؤ اجداد کے درخشندہ ماضی اور قابل رشک روایات واقدار کے امین ایک بہترین میزبان کی حیثیت سے بہاروں میں کھلتے شگوفوں اور خوشبو سے معطر گلاب و چنبیلی کی طرح ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ مہمان کا پرتپاک استقبال کر کے ایک بہترین پیغام تاریخ میں رقم کرتے مگر صد افسوس ایسا نہ ہو سکا ۔ مہدی شاہ کے دور میں ہزاروں اختلافات کے باوجود حزب اختلاف ن لیگ نے پانچ سالہ دور میں قابل رشک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا مگر کیا کیا جائے جب کوئی قوم عروج سے زوال کا سفر شروع کرتی ہے تو پہلی اور آخری نشانی یہی ہے کہ اس قوم کے سرکردہ لیڈر حواس باختگی میں جمہوری اقدار اور عالمی سیاسی آداب و اخلاق سے عاری اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں ۔ حال میں تو گلگت بلتستان کی عوام کے مینڈیٹ کی توہین پر اتر آئے یوں ایک خوشگوار ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے چند نا عاقبت اندیش منتخب نمائندوں نے جی بی اسمبلی میں بد مزگی کا ماحول فراہم کیا ایسے حالات میں مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی سیاسی شعور سے نا بلد غریب عوام کیا توقع رکھے گی اپنے ان نا سپاس سیاسی نمایندوں سے موجودہ نازک صورت حال میں منتشر قوم کو یہ لوگ کیسے ایک قوم ایک وطن ایک نظریہ پر جمع کر سکیں گے جو چند گھنٹے خاموشی بردباری کے ساتھ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو سننے کی صلاحیت سے یکسر خالی ہیں وہ لوگ کیسے اس متنازع خطے کی ملٹی کمیونٹی عوام کو جدید دور کے چیلنجز اور عالمی بدلتے حالات میں اپنا کھویا وقار اور عظمت رفتہ کی بحالی کے راستے میں قوم کو ڈال سکیں گے ۔ اسمبلی فورم کے ممبرا ن تو سنجیدگی اور حسن تکلم کے بے تاج بادشاہ شائستہ زبان اور اعلیٰ اخلاق کے پر تو ہوتے ہیں مگر یہاں تو جی بی اسمبلی کو مچھلی بازار بنایا ہوا ہے، گالم گلوچ ، عدم برداشت ، ہاتھا پائی کے واقعات تو مہذب معاشرے کے مقدس ایوانوں کی توہین کے زمرے میں آتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آئندہ انتخابات میں ایسے نمائندوں کو اسمبلی کے فلور پر بھیجے جن کی نمائندگی قوم کو قعرمذلت سے نکال کر کامیابی و کامرانی اور ترقی کے عوج ثریا سے روشناس کرائیں ۔ الیکشن کے دنوں میں قومیت، لسانیت اور فرقہ واریت کے خوفناک لباس میں ملبوس سیاسی شعور سے کوسوں دور نابالغ ، لڑاکو اور فسادی قسم کے نمائندوں کی دولت کی ریل پیل کی چمک آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے پھر وہی ہوتا ہے جو آج کل گلگت بلتستان کے مقدس ایوانوں ہوا۔ تف ہے ایسی قیادت اور ایسی نمائندگی پر جو برداشت ، تحمل اور صبر کے لباس سے عاری ہو کر بد مزگی کے اسباب مہیا کر کے پوری قوم کی تذلیل کے مرتکب ٹھہرتے ہیں ہیں پھر فخریہ انداز میں اخبارات و جرائد کی شہ سرخیاں بن کر قومی دولت سے حاصل شدہ آرام دہ گاڑیوں میں باڈی گارڈوں کی جھرمٹ میں قہقہے لگا کر منظر سے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔گلگت بلتستان کی عوام اور اہل دانش و صحافی برادری کی بڑی اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے حالات میں قلم و کاغذ کا رشتہ قلم کے تقدس کے عین مطابق استعمال کر کے معاشرے کے ان گھناؤنے کرداروں کے ملفوف چہروں کی نقاب کشائی کر کے اصل حقائق سے پردہ اٹھائیں اور بتائیں اپنی قوم اور عوام کو کہ آپ کے ووٹوں کا مذاق سر عام اڑانے والے نمائندگی کا استحقاق نہیں رکھتے ۔جب گاڑی کا ڈرائیور ذہنی مریض ہو تو سواریوں کی دعائیں کوئی کام نہیں دیتی بلکہ منزل مراد تک رسائی سے قبل گاڑی کے ایکسیڈنٹ ہونے کا قوی اندیشہ مسافروں کو مسلسل ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتا ہے ایسے ہی منتخب نمائندے ریاستی آداب و اخلاق سے عاری اوچھے اور البیلے انوکھے اور نرالے حرکات و سکنات سے ماحول پراگندہ کریں تو ایسی قوم جلد اپنا وجود خطروں میں ڈال کر ہلاکت و بربادی سے اپنے رشتے استوار کرتی ہے۔ گلگت بلتستان کے باسیو خدا را اب کی بار ایسی غلطی مت کرنا کہ تمہیں دوبارہ ندامت کے آنسو بہانا پڑیں ، بڑی مشکل سے امن کا خوبصورت ماحول پروان چڑھا ہے ریاست مزید امن و سلامتی ، محبت و پیار کے جذبات کو پروان چڑھانے کی متقاضی ہے نہ کہ عد م برداشت ، ضد ، بغض، حسد اور کینہ کے ذہنی مریضوں کی آماجگاہ ہے ، ذہنی مریضوں کے لئے شفا خانے بنے ہوئے ہیں نہ کہ اسمبلیاں لہٰذا الحذر ایسے نا عاقبت اندیش نمائندوں سے قابل مذمت ہیں ریاست کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے ہم آواز بننے والے لیڈران کے غیر مناسب رویئے ہم گلگت بلتستان کی قوم امید کرتے ہیں کہ آئندہ کے لئے ہماری امیدوں پہ یوں پانی نہ ڈالا جائے بلکہ مکمل بردباری کے ساتھ ریاست کو چلنے دیا جائے۔ موجودہ ن لیگ کو چین و سکون کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کا موقع دیا جائے تاکہ حالیہ دنوں کی بد مزگی سے عوام میں پائی جانے والی بے نا م سی تشویش کا ازالہ ہو سکے۔


شیئر کریں: