Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عظیم محدث: امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ۔ (13صفریوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام ابو عبدالرحمن احمن بن شعیب ہے۔آپ چونکہ خراسان کے شہر”نساء“ میں پیدا ہوئے اس لیے اس نسبت سے آپ کو”نسائی“کہتے ہیں۔امت مسلمہ میں آپ کی پہچان ایک محدث کی ہے،آپ نے سنن نسائی کے نام سے صحیح احادیث کا ایک عظیم الشان مجموعہ ترتیب دیا۔آپ نے بڑی عرق ریزی سے قابل اعتماد احادیث نبویﷺکو جمع کیا،اس مقصد کے لیے آپ نے دوردراز کے سفر کیے  اوربہت تکالیف بھی برداشت کیں۔امت مسلمہ میں کل دس کتب احادیث کو سند کادرجہ حاصل ہے،چھ اہل سنت کے ہاں جنہیں صحاح ستہ کہاجاتا ہے جس کامطلب ”چھ صحیح کتابیں“ہے اور چار اہل تشیع کے ہاں جنہیں ”کتب اربعہ“کہاجاتا ہے یعنی ”چارکتابیں“۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی سنن نسائی کاشمار صحاح ستہ میں ہوتاہے۔

                امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدئش 215ھ میں ہوئی،اس وقت”خراسان“ ممالک اسلامیہ کا بہت اہم صوبہ سمجھاجاتاتھا۔خراسان کا اسلامی تاریخ میں جہاں بہت اہم سیاسی کردارہے وہاں یہ علاقہ اپنی علمی کاوشوں میں بھی پیچھے نہیں رہا،امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ سمیت امت کے بہت وقیع بزرگ اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔امام نسائی نے پندرہ سال کی عمر میں حدیث کاعم سیکھنا شروع کیا۔علم حدیث نبویﷺ کے حصول کے لیے آپ نے خراسان جیسے دوردراز علاقے سے حجاز،عراق،شام اور مصر جیسے ممالک تک کا سفر کیا۔اس زمانے میں علم کے حصول کے لیے سفر کرنا بہت ضروری خیال کیاجاتا تھا،کسی کو اس وقت تک اچھاعالم نہ سمجھاجاتا جب تک کہ وہ دوردرازکے سفر کر کے تو اچھے اچھے اور قابل اساتذہ فن سے حصول علم نہ کرآتا۔آپ کاآبائی وطن اگرچہ خراسان تھا لیکن آپ نے خدمت حدیث نبویﷺ کے لیے ہجرت کی اور مصر میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

                علمی دنیاکی یہ حسین روایت ہے کہ استاد اپنے شاگرد سے اور شاگرد اپنے استاد سے پہچانا جاتاہے۔گم نام اساتذہ کو انکاکوئی شاگرد روشن کردیتاہے اور نالائق طالب علم کسی استاد کی نسبت سے آسمان کا ستارہ بن جاتاہے۔لیکن علمی تاریخ انسانیت نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب استاد اور شاگرد دونوں آسمان علم کے سورج چاند ستارے تھے۔حضرات قتیبہ بن سعید،اسحاق بن راہویہ،سلیمان بن اشعث جو امام ابو داؤد کے نام سے معروف ہیں اور ابوعبداللہ بن اسمائیل جنہیں ایک زمانہ امام بخاری کے نام سے پہچانتاہے اور سعید بن نصر،محمد بن غشار اور علی بن حجرجیسے نابغہ روزگار لوگوں امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے حصول علم کیا۔

                آپ سے اگرچہ ہزارہالوگوں نے سماع حدیث کیا یعنی حدیث کاعلم حاصل کیا۔آپ جب درس حدیث دیاکرتے تھے تو مساجد کے صحن میں جگہ کم پڑ جاتی تھی،مخلوق خدا امڈ امڈ کر آپ کے درس میں شرک سماع ہوتی۔نہ صرف قرب و جوار سے بلکہ دوردراز سے اور بہت اچھے اوراعلی دینی و دنیاوی مراتب کے لوگ آپ کے سامنے طالب علم بن کر بیٹھتے تھے۔تاہم تاریخ نے آپ کے جن شاگردوں کے نام اپنے سینے میں محفوظ کیے ہیں ان میں سے حافظ ابوقاسم اندلسی،علی بن ابوجعفرطحاوی،ابوبکربن حداد فقیہ،ابوالقاسم الطبرانی،حافظ ابوعلی نیشاپوری،ابوعلی حسن السیوطی اور الحسن العسکری لوگ قابل ذکرہیں،یہ اگرچہ اپنی اپنی جگہ مکمل دبستان علوم ورشدہیں لیکن امام نسائی کا شاگرد ہونا بھی انکے لیے قابل فخر امور میں شامل ہے۔

                دولت مندلوگ جس طرح اپنا سرمایا اپنی اولاد میں چھوڑ جاتے ہیں،اہل اقتدار جس طرح اپنی جاگیر اپنے وارثوں کے نام کر جاتے ہیں اسی طرح اہل علم لوگوں کی میراث انکی کتب اور انکی نصانیف ہوتی ہیں جو انکی روحانی اولاد اپنے سینے سے لگا  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اگرچہ بہت سی نصانیف چھوڑیں اور ان میں سب سے اہم سنن نسائی ہی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی تصانیف آپ کا روشن سرمایا ہیں۔ان تصانیف میں سے خصائص علی رضی اللہ عنہ،المجتبی،مسندامام مالک ؒ،فضائل صحابہ رسول ﷺ،کتاب الجرح والتعدیل،اسماء الرواۃ اور مناسک حج زیادمشہور ہیں۔آپ چونکہ بنیادی طور پر محدث تھے اس لیے اسی میدان علم سے متعلق کتب و تصانیف ہی آپ کے قلم سے پھوٹنے والی روشنیاں ہیں۔

                امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ سرخ و سفید چہرے اوروجیہ شخصیت کے مالک تھے۔آپ کا دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے پر رہتاتھا۔خوش لباسی اور خوش خوراکی کے کئی قصے آپ سے منسوب ہیں۔اما م نسائی رحمۃ اللہ علیہ بھناہوا مرغ بہت شوق سے کھاتے تھے اور اس وقت کے مروج بہت اچھے اچھے مشروب کھانے کے بعد پیاکرتے تھے۔آپ کچھ عرصہ”حمص“شہر میں قاضی بھی رہے لیکن بوجوہ یہ منصب ترک کردیااور زیادہ وقت تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کو دینے لگے۔دمشق کی ایک مسجد میں ایک بار آپ حضرت علی کی منقبت میں اپنی کتاب کے اقتباسات سنا رہے تھے تو بعض لوگ طیش میں آگئے اورحضرت کو مارناپیٹناشروع کر دیا۔بہت زخمی حالت میں جوش ایمان آپ کو حجاز مقدس کھینچ چلا،حرم کعبہ پہنچ جانے کے باوجود بھی آپ کی علالت باقی تھی اور اسی حالت میں صفاومروہ کے درمیان خالق حقیقی سے جا ملے۔یہ13صفر 303ھ کی تاریخ تھی۔

                امام ابو عبدالرحمن نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ شہرت انکی شہرہ آفاق تالیف ”سنن نسائی شریف“ ہے۔اسکا شمار صحاح ستہ میں ہوتا ہے۔”سنن“اس کتاب حدیث نبوی ﷺ کو کہتے ہیں جس کے ابواب کی ترتیب فقہ کی کتابوں کے مطابق تیار کی گئی ہو۔ امت کے بے شمار بزرگ اس کتاب”سنن نسائی شریف“ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں حتی کہ بعض علمائے حدیث نبویﷺاس کتاب ”سنن نسائی شریف“کو بخاری و مسلم پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔پہلے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ”سنن کبری“تصنیف کی تھی۔یادرہے کہ یہ وہ وقت تھا جسے تاریخ حدیث میں دور فتن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب جب امیر رملہ کو پیش کی تو اس نے پوچھا کیا اس میں سب صحیح احایث ہیں؟آپ نے جواب دیا نہیں،تب امیر رملہ نے کہا کہ میرے لیے ایک ایسی کتاب تیار کریں جس میں سب احادیث صحیح ہوں۔اس پر امام صاحب نے ”سنن نسائی شریف“کی تدوین کی۔

                احادیث نبوی ﷺ کے اس مجموعہ ”سنن نسائی شریف“میں  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے وہی اسلوب اختیار کیا ہے جو امام بخاری اؒور امام مسلم ؒنے اپنی تالیفات میں اختیار کیا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث کو متعدد مقامات پر تحریر کیاہے اور اس سے مسائل بھی اخذ کیے ہیں۔امام صاحب نے متعدد مسائل کے لیے مختلف ابواب تشکیل دیے ہیں۔ایک حدیث کو بہت سارے لوگ روایت کر رہے ہوں تو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے سب راویوں کا ذکر کر دیتے ہیں۔فن اصول حدیث کی اصطلاح میں ایک حدیث کے بہت سارے راویوں کے سلسلے کو ”طرق“کہتے ہیں۔حدیث کا بیان کرنے والا راوی اپنے سے زیادہ مرتبہ کے آدمی کی مخالفت کرے تو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اس کا بھی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں ایسی حدیث کو”شاذ“کہتے ہیں۔

                حدیث بیان کرنے والے پہلے زمانے کے لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین تھے،ان کے بعد تابعین آئے،پھر تبع تابعین آئے اس کے بعد فقہا کا دور شروع ہوتا ہے تب محدثین کا زمانہ آتاہے۔کسی بھی حدیث میں کسی بھی زمانے کے راوی میں کوئی خامی ہو تو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اسکا بھی ذکر کرتے ہیں اس عمل کو فن اصول حدیث کی اصطلاح میں ”راوی پر نقدکرنا“کہتے ہیں۔بعض اوقات متن حدیث پر بھی نقد و جرح کرتے ہیں اور یہ آپ کی کسر نفسی ہے کہ بعض اوقات طویل بحث کر چکنے کے بعد بھی لکھ دیتے ہیں کہ ”میں اس بات کو حسب منشا نہیں سمجھا“۔

                علمائے حدیث نے  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی اخذکردہ احادیث کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے،پہلی قسم کی وہ احادیث ہیں جو امام بخاری ؒاور امام مسلم ؒنے بھی اپنی کتابوں میں درج کی ہیں،یہ اعلی درجے کی احادیث ہیں۔دوسری قسم کی وہ احادیث ہیں جو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے درج کی ہیں اور وہ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ کی قائم کردہ سخت شرائط پر بھی پوری اترتی ہیں لیکن ان دونوں بزرگوں امام بخاری ؒو امام مسلم ؒنے بوجوہ ان حدیثوں کو درج نہیں کیا۔تیسری قسم کی احادیث وہ ہیں مزکورہ بالا دونوں اقسام میں نہیں آتیں۔

                امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس نابغہ روزگار کتاب ”سنن نسائی شریف“میں کم و بیش ساڑھے پانچ ہزار احادیث رقم کی ہیں۔اس کتاب کے قبول عام کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ صدیاں گزرجانے کے باوجود یہ کتاب زندہ ہے،آج بھی مشرق سے مغرب تک علوم اسلامیہ کے طلبہ و طالبات اور علماء و عالمات اس کتاب کی درس و تدریس سے وابسطہ ہیں۔اس کتاب کی بہت سی شروحات لکھی گئی ہیں،”الاعان فی شرح سنن نسائی“،”زوائد نسائی“اور زہرالربی علی اللمجتبی“بہت مشہور ہیں آخرالزکرشرح کی تالیف حافظ جلال الدین سیوطی ؒ جیسی ہستی کے قلم کامبارک نتیجہ ہے۔اللہ تعالی امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کو غریق رحمت کرے اور اللہ کرے اس کتاب سے پھوٹنے والی کرنیں باغ حدیث نبویﷺ کو تاقیامت روشن و تابندہ رکھیں۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52604