Chitral Times

May 8, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شہادت علامہ ڈاکٹر عادل خان شہید….تحریر :محمد نفیس دانش فاضل:جامعہ دارالعلوم کراچی

شیئر کریں:

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر ذی روح نے انتقال کرنا ہے اِس دنیا سے اُس دنیا کی طرف جہاں راحت یا تکلیف کا انحصار ہمارے اعمال پر ہے؛ اس لیے اہل علم کہتے ہیں کہ موت زندگی کے اختتام کا نام نہیں بلکہ لامحدود زندگی کے آغاز کا نام ہے۔ جو لوگ زندگی جیسی نعمت کو کسی عظیم مقصد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں، وہ حیاتِ جاوداں پا لیتے ہیں۔ دینِ اسلام میں اللہ کی راہ میں اپنی زندگی قربان کر دینے والوں کو شہید کہا جاتا ہے یعنی وہ اپنی جان قربان کر کے دراصل اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ زندگی رب العزت ہی کی امانت تھی‘ لہٰذا اسی کو یہ امانت لوٹا رہے ہیں۔

پاکستان چونکہ قائم ہی دینِ اسلام کے نام پر ہوا ہے؛ اس لیے نظریاتی اور جفرافیائی سرحدوں کے محافظ لوگوں کے ایمان کی اور سرزمین کی حفاظت کے لئے ہر شیر دل عالم دین اور سپاہی کے دل میں یہ تمنا بے تاب رہتی ہے کہ کسی بھی طرح اسے اپنے دین اور مادرِ وطن پر جان قربان کر دینے کی سعادت نصیب ہو جائے۔ تحریک ناموس رسالت ہو یا تحریک ختم نبوت دین کی چوکیداری کرنے والوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے تاریخ کے روشن ابواب قائم کیے ہیں اور اسی طرح جفرافیائی سرحدوں کے محافظوں نے 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر لڑی جانے والی جنگ‘ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں نیز سیاچن اور کارگل کے معرکوں میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے جس بہادری سے اپنی جانیں وطن پر نثار کیں عصر حاضر میں ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ وہ والدین جن کے یہ جگر گوشے تھے، وہ بہن بھائی جن کا یہ مان اور ان کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز تھے‘ وہ یار دوست جن کے ساتھ یہ بچپن میں کھیلے تھے‘ ان سب کے لیے یہ باعث فخر تھے۔ اس لوگوں کے عقائد،نظریات اور دھرتی کا تحفظ کرتے ہوئے ہمارے یہ بھائی بھری جوانی میں مٹی کی رِدا اوڑھ کر ہمیشہ کے لئے سو گئے مگر قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جا رہا ہے۔

‘‘شہادت کے رتبے پر فائز ہونے والے ان مجاہدوں کو جس سج دھج اور اکرام سے خدائے بزرگ و برتر کے دربار اور بارگاہِ رسالت مآبؐ میں پیش کیا جاتا ہو گا‘ اس شان کا اندازہ لگانا ہمارے لیے کسی طور ممکن نہیں کہ جس طرح اُس جہاں کے حالات، وہاں کی کیفیت ہم سے اوجھل ہے، اسی طرح وہاں کے انعام و اکرام بھی ہمارے احاطۂ ادراک سے ماورا ہیں۔ ہمیں بس اللہ رب العزت سے دعا کرنی چاہیے کہ اپنے حبیب کریم حضرت محمد مصطفیٰؐ کے صدقے ہمیں اُخروی زندگی میں ان شہدائے کرام کی رفاقت عطا فرما دے۔میں جس عظیم شہید کا تذکرہ کرنے لگا ہوں وہ استاد العلماء، شیخ الحدیث حضرت علامہ ڈاکٹر عادل خانؒ صاحب ہیں ، انہیں 10 اکتوبر کو کراچی میں مشہور اور مصروف شاہراہ پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ، مختلف زاویوں سے ان کے قتل کی واردات کی 4 ویڈیوز میں دیکھ چکا ہوں ، یقیناً قاتلوں کی دستیاب ویڈیوز اس سے کہیں زیادہ ہوں گی جو کہ ریاست اور حکومت نے حاصل کر لی ہوں گی ، ڈاکٹر علامہ عادل خانؒ کا پیچھا کہاں سے شروع ہوا اور واردات کیسے مکمل ہوئی ساری تفصیل کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لی ، لیکن اس کے باوجود حکومت قاتلوں کو اتنا وقت گزر جانے کے باوجود گرفتار نہیں کر سکی، جس سے سندھ حکومت کی عدم دلچسپی اور غیرسنجیدگی واضح ہے ، اور ابھی حالیہ واقع مفتی عبداللہ صاحب والا بھی ٹارگٹ کلنگ کا پیش آگیا جس میں حملہ آور واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ مجھے ان کو مارنے کا 4 لاکھ روپے وغیرہ ملیں ہیں ۔دوسری طرف احتجاج نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا نے بھی حکومت پر اپنا دباؤ کم کردیا ، قاتلوں نے بھی سوچا ہوگا کہ مفتی نظام الدین شامزئیؒ ، مولانا یوسف لدھیانویؒ ، مفتی سعید احمد جلالپوریؒ ، علامہ عبدالغفور ندیمؒ ، مفتی عتیق الرحمنؒ ، مفتی عبدالمجید دین پوریؒ، مولانا اسلم شیخوپوریؒ اور مولانا سمیع الحق صاحب سمیت سینکڑوں اکابر علماء کی طرح یہ خون بھی ہضم ہو جائے گا ، کیونکہ قاتلوں نے مفتی تقی عثمانی صاحب پر بھی قاتلانہ حملہ کیا تھا انہیں پھر بھی کوئی گرفتار نہیں کرسکا تھا ، جس کی وجہ سے اُن کے حوصلے بہت بڑھ چکے ہیں ،

یہ بات بھی طے ہے کہ قاتلوں کا بہت ہی زیادہ اثر و رسوخ ہے ، لیکن اس بار قاتلوں کے ناپاک عزائم کے سامنے کراچی کی علماء کمیٹی ڈٹ گئی ، کئی خطرات کے باوجود اس کمیٹی نے مولانا عادل خانؒ کے قتل کو ہضم کرنے کی کوششوں پر بیدار رہ کر پانی پھیر دیا۔علامہ ڈاکٹر عادل خانؒ صاحب کی یوں تو عمر 63 سال تھی ، اگر ہم ان کی زندگی کا سطحی مطالعہ بھی کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ ان 63 سالوں پر ان کی 40 دن کی زندگی بازی لے گئی یعنی 30 اگست 2020 کو جب عاشورہ کے موقع پر کراچی میں توہین صحابہ ہوئی اور اس توہین کے خلاف علامہ ڈاکٹر عادل خان شہیدؒ نے اصولی مؤقف اپنایا اور بکھری امت کو متحد کرنے کا فریضہ انجام دیا ، یہ کارنامہ ان کی زندگی کا سب سے روشن باب ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی ، انہوں نے ان 40 دنوں میں جس انداز میں گستاخ صحابہ کو للکارا ، ان کی للکار سے ایسا نہیں لگتا تھا کہ انہوں نے اس تحریک کا ابھی آغاز کیا ہے ، ان کی گفتگو اور اعتماد سے یوں لگتا تھا کہ انہوں نے برسوں اس عنوان پر محنت کی ہے ، ان کا ایک جملہ میرے دل میں گھر کر گیا یہ جملہ ہر تحریکی کارکن کے لئے مشعل راہ ہے ، علامہ ڈاکٹر عادل خانؒ 2 ستمبر 2020 کو علماء کرام سے اپنے بیان میں فرما رہے تھے کہ جسے قیادت کا شوق ہے اسے قیادت دیں گے ، جسے آگے آنے کا شوق ہے اسے آگے آنے کا موقع دیں گے لیکن یہ بات ذہن نشین کر لیں کسی کو بھی اس مئوقف کا سودا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، ایک مخلص بندے کی یہی نشانی ہے کہ وہ اپنے عہدے کے لئے بھاگ دوڑ نہیں کرتا ، البتہ وہ یہ کوشش ضرور کرتا ہے کہ قیادت کسی بازیگر اور سوداگر کے ہاتھ میں نہ جائے ، علامہ عادل خان شہیدؒ اسی طرف اپنے بیان میں اشارہ فرما رہے تھے ۔میرا سب قارئین سے سوال ہے کہ کبھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ اکابر علماء کا دشمن اگر یونہی خون بہاتا رہا اور کسی دن اللہ نہ کرے کہ ہمارے استادِ محترم مفتی تقی عثمانی صاحب ، مفتی منیب الرحمن صاحب ، مولانا منظور مینگل صاحب اور علامہ فاروقی صاحب وغیرہ کی طرز کے چند اور علماء بھی ان کا نشانہ بن گئے تو اسلامی دنیا کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اسلام دشمنوں کے لئے کیسا کھلا ماحول ہو جائے گا ، اس لئے حالات کی سنگینی کا اندازہ کریں اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں ۔


خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیریہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت ہے
 تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں حق و باطل میں معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے۔ اہل حق ہمیشہ قلیل تعدا د اور بے سروسامانی کی حالت میں حق وصداقت کے اصولوں کی خاطر مصروفِ جدوجہد رہے اور اللہ تعالیٰ نے اُنکو قدرو منزلت عطا کی ۔دنیا میں باطل کی قوتیں کامیاب ہوکر بھی تاریخ میں ذلت و رسوائی کا نشان بنیں۔حق کے رستے میں جدوجہد ہی اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے اور ایک حق پرست انسان کیلئے یہی کامیابی ہے چاہے مقاصد حاصل ہوں یا نہ ہوں مگر جذبہ عمل ہی انسانیت کا سرمایہ عظیم ہوتا ہے۔حضرت امام حسین ؑ نے دین حق کی خاطر ظالم یزید کی بیعت سے انکار کردیا۔اما م عالی مقام اپنے ساتھیوں سمیت اسلام کی سربلند ی کی خاطر کربلا میں شہید ہوگئے مگر یزید کی اطاعت نہ کی اور رہتی دُنیا کیلئے شجاعت اور صداقت کا درس دے گئے۔قتل ِ حسین اصل میں مرگ یزید ہےاسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام مالک ؒ ، امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ ؒ کو کلمہ حق بلند کرنے پر ظالم اور جابر عباسی خلفاء کے ہاتھوں جیلوں میں کوڑے اور سخت جسمانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ سچائی کے اصولوں پر ثابت قدم رہے ۔ آج تاریخ اسلام کے یہ تینوں بہادر امام مسلمانوں کے دلوں میں انتہائی قدرو منّزلت کے ساتھ زندہ ہیں۔


یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیساگر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیںتاریخ انسانی اِس حقیقت کی گواہ ہے کہ جو افراد، گروہ اور قوم حق وانصاف ،اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار، عدل وانصاف اور سچائی کے اصولوں کی خاطر ظالم اورمُطلق العنان حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق بلند کرتے ہیں حکمرانوں کی خواہشات کے سامنے سرجھکانے سے انکار کردیتے ہیں دنیاوی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سچائی کی شمعیں روشن کرتے ہیں تو ایسے عظیم انسانوں کی عظمت کو فرشتے بھی سلام پیش کرتے ہیں ایسے پرعزم انسانوں کے کردار کے اجلے پن سے رب کریم کی یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سربسجو د ہونے کا حکم دیا تھا۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان فرشتوں سے برتر اور اشر ف المخلوقات اِس لئے ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر باطل سے مزاحمت اور ٹکرائو کا راستہ اختیار کرتا ہے اور جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے۔ خدا کی راہ میں شہادت اُسکا مطمع نظر بن جاتا ہے یہاں سے انسان عظمتوں اور رفعتوں کے اُس سربفلک مینار پر پہنچ جاتا ہے جسے اہل دانش و علم انسانیت کی معراج کہتے ہیں جو اسلام کے غازیوں اور شہداء کی میراث ہے۔ایسے عظیم اور باکردار افراد کا تعلق جرات مند اور بہادروں کے اُس قبیلے سے ہوتا ہے جنکا نام تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ اور جاوید رہتا ہے اور رہتی دُنیا تک اَمر ہوجاتا ہے۔عظیم الشان عالم باعمل ڈاکٹر عادل خان شہید نے سچائی کی ترویج کی خاطر حکمرانوں کے زبان بندی پر مبنی احکامات ماننے سے صریحاً انکار کردیا۔حکرانوں کی آمرانہ سوچ کے سامنے مزاحمت کی اور دشمنانِ صحابہ کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ناموس کی علی الاعلان چوکیداری کی، جس کی قیمت اِس عہد ساز عالم دین کو جام شہادت نوش کر کے چکانی پڑی کیونکہ وہ جانتے تھے ؎


حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیریبدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
اگر عوام نے علماء کا ساتھ دیا تو ان شاءاللہ قاتل بھی گرفتار ہوں گے اور آئندہ علماء کی مناسب سیکورٹی کابندوبست بھی ہوگا اور اگر عوام نے ساتھ نہ دیا تو یہ سوچ کر دل گھبرا جاتا ہے کہ نہ پھر یہ قاتل ملیں گے اور نہ ہی آئندہ اکابر علماء کی مناسب سیکورٹی ہوگی ، پھر اللہ نہ کرے کوئی حادثہ ہوگیا تو یقیناً آج کے گفتار کے غازی بھی ذمہ دار ہوں گے کردار کے غازی میدان عمل میں ہیں جبکہ گفتار کے غازی باتیں گھڑنے میں مصروف ہیں کہ کسے کیا کہہ کر مطمئن کرنا ہے ، انا پرست لوگ آج بھی ناک سے نیچے نہیں دیکھ رہے ہیں ، لیکن اللہ کی مدد کردار کے غازیوں کے ساتھ ہے میرا کامل یقین ہے کہ کردار کے غازی کامیاب ہوں گے ، دنیا میں بھی آخرت میں بھی لیکن گفتار کے غازی محض منہ تکتے ہی رہ جاتے ہیں۔استادِ محترم آپ کی :
وہ شفقتیں عنایتیں ہمیں رلا رہی ہیں ابوہ انکی نیک صحبتیں ہمیں رلا رہی ہیں ابوہ خصلتیں وہ عادتیں ہمیں رلا رہی ہیں ابوہ فخرِ گل نہیں رہا نہ رونق بہار ہےیہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہےہر ایک سمت پیار کے دئیے جلا کے چل دیاوہ نفرتوں کی آندھیوں کا شر مٹا کے چل دیا


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
44641