Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سنوغر کا ملنگ…..تحریر: سردار علی سردارؔ اپر چترال

شیئر کریں:

زیارت خان زیرک ؔ( 1880ء)کے عشرے میں چترال کے خوبصورت گاؤں سنوغر میں زوندرے خاندان میں  پیدا ہوئے۔یہاں جوان ہوا ، معاشرتی امور میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیااور اپنے خوبصورت گاؤں سنوغر کے لئے شعرو شاعری کی اور مختلف نشیب و فراز سے گزر کر  آخر کار اس دارِ فانی سے رختِ سفر باندھ لیا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق اگرچہ انہیں  بنیادی تعلیم پر کوئی دسترس حاصل نہیں تھی تاہم  قدرت نے انہیں بہت صلاحیتیں دے چکی تھی۔انہوں نے اپنے اجداد سے گھڑ سواری،شکاراور تیراکی جیسے اہم ہنر سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے مشہور طبیب صفایت شاہ سنوغر کی مجلس میں علمِ طب کا تقرری درس  سننے کا موقع مل گیا تھا ۔ جس کی صحبت سے انہیں علمِ طب کی بنیادی باتین معلوم تھیں۔عفوانِ شباب ہی سے انہیں بڑے بڑے لوگوں کی محافل  میں بیٹھنے اور گفتگو کرنے کے مواقع میسّرتھے  ۔چترال کے حکمران جب بھی مستوج کا دورہ کرتے تو سنوغر میں وہ ضرور قیام کرتے  جہاں شاہی دربار ضرور منعقد ہوتا ۔سنوغر جنالی میں پولو کے میچ کے ساتھ ساتھ ثقافتی کھیل پیش کئے جاتے جن میں زیارت خان زیرکؔ بھرپور حصّہ لیتے۔ اسطرح شاہی دربار کے محفل یعنی( محرکہ)میں بھی انہیں شمولیت کی دعوت مل جاتی  جس سے ان میں آیاّمِ  جوانی ہی سے آدابِ شاہی کے طور طریقے اور مراسم سے واقفیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ امراء اور وزراء سے تعلقات قائم ہوتے رہے ۔

بچپن سے شعرو شاعری سے دلچسپی پیدا ہونے لگی۔زیرک ؔ تخلص رکھا  اور اپنے خیالات کا اظہار انتہائی خوبی کے ساتھ کرنے لگے تھے۔لیکن آپ کی شہرت ملنگ یا گدیری کے نام سے ہوئی ۔ اور لوگ آپ کو گدیری کہہ کر پکارتے تھے۔آپ  نے اپنی شاعری میں دقیق مسائل کو رمز و کنائے کی زبان میں استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ آپ کے اشعار کو نہیں سمجھتے تھے اور اس ناسمجھی کی وجہ سے آپ کو گدیری کے نام سے یاد کرتے تھے۔لیکن درحقیقت آپ کوئی پاگل اور دیوانہ نہیں تھے  بلکہ ایک سمجھدار ،دانشمند  اور باآدب انسان تھے۔اسی نسبت سے آپ نے اپنا تخلص زیرکّ رکھا ہے جس کے معنی عقلمند کے ہوتے ہیں۔جیسا کہ آپ نے اپنے ایک شعر میں اس حقیقت کی ترجمانی کی ہے کہتے ہیں:

وطنہ کھل روئے تھرار  ای   اوا  گدیری  اسوم      سلوکان ہوش نوکوراک اُمورو  رویان کیہ جاشوم

ترجمہ: یہ مانا کہ وطن میں سب لوگ دانا اور ہوشیار ہیں سوائے میرے۔ لیکن جو لوگ رمز و اشارے اور سلوک کی باتوں کو نہیں سمجھ سکتے میرے آگےاُن کی کوئی قدر نہیں ہے۔

زیرکؔ کی شاعری

زیارت خان زیرکؔ کی شاعری پر انجمنِ ترقی کہوار چترال نے جولائی  (1987ء) میں  دوروزہ سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں چترال کے بااثر شخصیات، قلم کار، ادیب،شعراءاور ماہرین تعلیم نے اپنے اپنے گران قدر مقالوں کی صورت میں زیرکؔ کی شاعری اور آپ کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ یہ تمام مجموعہ مقالات ” آئینہ کہوار کی شکل میں اہلِ قلم کے ہاں محفوظ ہیں۔

شیر ولی خان اسیرؔ “کہوار شاعری میں زیارت خان زیرکؔ کا کردار “کے حوالے سے اپنے ایک معنی خیز مقالے میں زیرکؔ کی شاعری کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں” کہ زیارت خان زیرکؔ کا دور ہر قسم کی پریشانیوں میں گزرا۔ وقت کے مہتروں کا منظور نظر نہ بن سکا ۔ اس حد تک زیرِ عتاب رہے کہ انہیں سنوغر سے جلا وطن کیا گیا اور تحصیل  موڑکہوکے گازو نام کے ایک بےآب گاؤں اور چترال بلچ میں نظر بند کیا گیا۔ جہاں انہیں پیٹ پالنے کو روٹی نہ ملی اور تن ڈھاپنے کو کپڑا میسر نہ آیا لیکن زیرکؔ کی خودداری مستحکم رہی”۔( آئینہ کہوار ، مجموعہ مقالات  دو روزہ سیمینار  جولائی 1987 ء ترتیب و تدوین گل مراد خان حسرتؔ)

زیرکؔ کی شاعری میں وطنیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے  تاہم عشقیہ مضامین کے ساتھ ساتھ اخوت،انسانیت،ہمدردی،سلوک ،فلسفہ اور  سوزوگداز کی باتیں سب شامل ہیں۔اور وہ ہر چیز کو اشارہ و کنائے میں بیان کرنے کا فن جانتا ہے ۔اسی نسبت سے اس کا تخلض بھی زیرک ؔ رکھا گیا ہے جس کی باتیں عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ زیرکؔ کی شاعری کا محور سنوغر یعنی اُس کا  آبائی  گاؤں ہی تھا  جس کو وہ  دل سے چاہتا تھا ۔ اس سے جی بھر کے محبت کرتا تھا ۔ اس لئے اپنی پوری زندگی سنوغر کی تعریف و توصیف میں شاعری کرتا رہا ۔سنوغر کے سوا کوئی بھی جگہ اس کو پسند نہ تھی۔جیسا کہ ملنگ کا یہ شعر سب کو یاد ہے۔

جنتّ سنوغر  ژویوچے  اچھوئے             سنوغرو  ملنگ تہ  درداچھوچھوئے

ترجمہ: اے جنتّ نظیر سنوغر! تو اپنے چشمے کے پانی ، ندی، نالےاور خاص قسم کے  خود رو پھلدار درختوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسی بنا پر شاعر (سنوغر کا ملنگ)اپنی جان تک تجھے دینے کے لئےتیار ہے۔

زیرک ؔ کی جلاوطنی کے بارے میں مختلف قسم کی رائے ملتی ہیں۔ ایک رائے تو  یہ ہے کہ زیرکؔ اور اس کے بھائیوں کو  سنوغر سے جلاوطن کرنا اور سزائیں دینا صرف سیاسی بغاوت کا نتیجہ ہے،جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ زیرکؔ چونکہ اسماعیلی عقیدے سے تعلق رکھتا تھا۔ دنیوی حکمرانوں کو زیرکؔ کا اس عقیدے میں رہنا ان کے لئے کوئی نیک شگون نہیں تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ زیرکؔ کسی نہ کسی طرح اپنے اباواجداد کا عقیدہ چھوڑ دے اور سرکاری مسلک اختیار کرے۔اس مقصد کے حصول کے لئے زیرکؔ کو مال ودولت اور شاہی مراعات کی بھی لالچ دی گئی لیکن زیرکؔ نے ان سب کو ٹھکراکر اپنے ہی مسلک میں جینے اور مرنے کا فلسفہ پیش کیا ۔کیونکہ ان کے اشعار سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں اپنے مسلک اور اپنے امام کے لئے کس قدر محبت اور عشق ہےجس کو وہ ہر قیمت پر بیچنے کے لئے تیار نہیں تھے۔

 اُس زمانے میں زیارت خان زیرکؔ کے حکمران طبقہ سے بھی اچھے  تعلقات اور مراسم  تھے ۔چاہتے اپنا مسلک بدل کراُن  سے دنیوی مراعات حاصل کرسکتے تھے جیسا کہ اس زمانے میں یہ عام رواج تھا کہ لوگ  حوسِ زر کی لالچ میں اپنا مسلک یا عقیدہ تبدیل کرکے حکمران طبقہ سے بہت سے مراعات حاصل کرتے تھے۔ لیکن آپ نے اس فعل کو اپنے عقیدے کے خلاف سمجھا اور ہروقت اپنے امام کے دامن سے منسلک رہے۔اور اپنے شاعرانہ  خیالات کو  اسی عقیدے کے مطابق تمثیلی زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی ۔ (1936ء) کو حضرت امام سلطان محمد شاہ  آغا خان سوم کی گولڈن جوبلی منائی گئی  اور اس کی خبر بہت جلد  چترال میں بھی پہنچ گئی تو زیرکؔ کو بتایا گیا کہ آپ کے  امام کو پیسوں سے تولا جارہا ہے  تو اس پر زیرکؔ نے یہ شعر کہا۔

تہ ملنگ خوروشی اسوم  زمانو سوم                   لوہ پیسو  تول کورونیان  دردانو  سوم

ترجمہ: تیرا ملنگ یعنی زیرکؔ  زمانے کی ان کاراوئیوں سے خوش نہیں ہوں کیونکہ اس زمانے میں امام کو چند روپوں کے عوض تولا جارہا ہے۔سمجھنے والا سمجھتا ہے کہ امام کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور چند سکوّں  کی اہمیت کیا ہوگی؟

مختصر یہ کہ زیارت خان زیرکؔ اپنے دور کے ایک عظیم شاعر ، بہترین تیراک،مضبوط پہلوان اوراچھے  گھڑ سوار  تھے۔ شاعر ی میں تو اس کا بدل نہیں ہے ۔ آج بھی ان کی شاعری سے بوڑھے، جوان اور بچےّ سبھی لطف اندوز ہورہے ہیں۔ان کی شاعری میں  فلسفہ،  حکمرانوں کی بےوفائی  ضرور ہے لیکن دنیا کی بےثباتی،مایوسی،محبوب  کی بےوفائی اور شکوہ و شکایت نہیں ہے ۔ قیدو بند کے سخت  اور کٹھن حالات میں بھی مایوسی اور بزدلی نہیں دیکھائی بلکہ امید کی نوید سناتا رہا ہے۔جو بہت کم ہی شعراء کے حصےّ میں آئی ہے۔سنوغر کا باشندہ ہونے کے ناطے سنوغر کی اہمیت کو جنتّ کے منظر میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سنوغر کی اہمیت اور اس کی خوبصورتی ملنگ کی شاعرانہ ذوق اور اس کے خوبصورت خیالات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔اگر ملنگ کی شاعری نہ ہوتی تو سنوغر کی رونق اجاگر نہ ہوتی جتنا کہ آج ہورہی ہے۔

 اللہ تعالیٰ سنوغر کو اور بھی خوبصورت رکھے اور اس کے مکینوں کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔سنوغر کے تمام باسیوں سے خاص طور پر نوجوانوں سے میری التجا ہوگی کہ وہ  اس خوبصورت بستی کو مذید خوبصورت اور دلکش بنانے کے لئے  اپنا مثبت کردار ادا کریں۔سخت محنت کریں،آپنے  آپ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے  ناپسندیدہ سرگرمیوں سے اپنے  آپ کو پاک رکھیں۔بغض، کینہ،تغصب،نفرت،انسانیت کی بےقدری اور غداوت جیسے قبیح رزائیل سے اجتناب کرکے احترامِ انسانیت اور امن واشتی کے لئے  ہمہ وقت  کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔  کیونکہ یہ الہی قانون ہے کہ اس خدائے لم یزال نے اپنی مشیت سے اس بستی کو خوبصورت بناکر امانت کے طور پر  ہمیں تحفے میں  دیا ہے جس کے لئے ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ہماری شکرگزاری اس وقت ہوسکتی ہے کہ اس بستی کو اپنی خوبصورتی میں قائم رکھ کر آئندہ   آنے والی نسل کو منتقل کردی جائے۔تاکہ آنے والی نسل سکون اور اطمینان کی زندگی گزارتے  ہوئے   آگے بڑھیں۔ بقولِ  استاد محترم اعتمادی فدا علی ایثارؔ  :

         گفتار میں کردار  میں  ہوجائیں  یگانہ                               تا درسِ عمل تم سے ہی لے  اہلِ زمانہ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
40245