Chitral Times

May 8, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ر وزے کے تقاضے………. تحریر: اقبال حیات آف بر غذی

Posted on
شیئر کریں:

روزہ صرف کھانے پینے پر قدعن لگانے کا نام نہیں۔ بلکہ اس کا دائرہ پورے وجود تک پھیلا ہو تا ہے۔ بدن کے ہر اعضاء سے سرذد ہو نے والی نا فر مانیوں اور خلاف شرع کاموں سے اجتناب یہاں تک کہ دل کی کیفیات کو بھی صاف اور شفاف رکھنے سے روزے کے تقاضے پو رے ہو سکتے ہیں۔ جہاں غیر اخلاقی باتوں کے سننے، نظروں کے ناروا استعمال ہا تھ پاؤں کی بے رہروی اور ذبان کی آلودگی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وہاں فاسد خیا لات، بد خواہی اور ہر قسم کی منفی تصورات کو بھی دل کے قریب پھٹکنے نہ دینا روزے کی روح کی سلامتی کا آئینہ دار ہے۔ چونکہ روزہ غریب اور افلاس کی کیفیت سے آگاہی اور اس بنیاد پر دوسروں کی غمخواری کے فلسفے اور خدا اور بندے کے درمیاں براہ راست تعلق کی حیثیت کا حامل عمل ہے۔ اس لئے معاملات کو اس ضابطے کے مطابق انجام دینے کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کسی روزہ دار کی افطاری کا اہتمام کر نے سے روزے کے برابر ثواب ملنے کا اسلامی تصور یقینی طور پر اس امر کا متقاضی ہے کہ کاروبار کے دوران بھی جائیز اور ناجائز منافع خوری کا خیال رکھتے ہو ئے خریداروں کے دسترس کو یقینی بنا یا جا ئے۔ اور روزہ داروں کی ضروریات سے نا جائز فائدہ اٹھانے سے اجتناب کیا جا ئے۔ بصورت دیگر دنیاوی لحاظ سے کمائی کا رنگ نظر آئیگا۔ مگر اخروی اعتبار سے روزے کے فیوض و بر کات سے خاطر خواہ استفادے کی صورت نہیں بن سکتی۔ اس سلسلے میں انتظامیہ کا بھی یہ فرض بنتا ہے۔ کہ وہ خصوصاََ رمضان کے مقد مہینے میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں پر کڑی نظر کے سلسلے میں کسی قسم کی رورعایت اور غرض و غایت کو فرض کی ادائیگی میں مائع ہو نے نہ دے تاکہ خدا ترس عوام کے گلے پر کند چھری چلا نے جیسے قبیح فعل کا ارتکاب نہ کر سکیں۔ اگر چہ بحیثیت مسلمان ہمیں خود رمضان کے مقدس مہینے کی حرمت کا خیال رکھتے ہو ئے بند گان خدا سے خصوصی محبت کے مذہبی تقاضے کے لئے خود میں تڑپ پیدا کر نا ہے اور اس سلسلے میں کسی کی نگاہداری اور انتباہ کی ضرورت نہیں مگر بد قسمتی سے ہم مادہ پر ستی کے چنگل میں ایسے پھنسے ہو ئے ہیں کہ دینی تقاضوں اور خدا کی رضا جوئی کے تخیلات سے ذہن کے نہاں خانے خالی ہو چکے ہیں۔ اور اغیار کی اپنی مذہبی اہمیت کے حامل ایام کے دوران بندگان خدا کی خیر خواہی کے جذبے کو دیکھ کر بھی شر مسار نہیں ہو تے اور ہماری دینی غیرت انگڑائی نہیں لیتی۔ اس لئے رضائے الہی کے حصول کی خوش بختی سے سر فراز ہو نے کے لئے روزے کی بنیادی فلسفے کے رنگ کو رنگین کر نے کی صورت میں افطار کے وقت دعا کے لئے اٹھنے والے ہاتھ انعام و اکرام خدا وندی سے کھبی بھی خالی نہ ہونگے۔ بصورت دیگر اگر رسمی طور پر روزے کے مقدس مہینے کو بو جھ سمجھ کر اور تراویح کے لئے تیز نماز پڑھنے والے امام کے متلاشی ہو کر اپنا یا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کی کیفیت سے دو چار ہو نے کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ کیونکہ جس عمل میں حکم خداوندی کی بجا آوری کا جذبہ اور شوق شامل نہ ہو وہ عمل “مچوڑ یوخسمت انگار تو ذوہچ “کے مترادف ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
22181