Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال اور صوبے کے دوسرے حصے: ایک تقابلی جائزہ……..پرفیسرکریم بیگ

Posted on
شیئر کریں:

جس کھیت سے دھقان کو میسر نہیں روزی……………..چترال اور صوبے کے دوسرے حصے: ایک تقابلی جائزہ….پرفیسرکریم بیگ

چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا شمالی ضلع ہے جس کی شمالی سرحدی لائن بروغل سے لیکر انتہائی جنوب میں ارندو کے گاوءں تک افغانستان کے کئی اضلاع کے ساتھ ملحق ہے شمال میں بروغل کے سطح مرتفع سے شروع ہوکر یہ بونڈری لائن بلند و بالا چوٹیوں کی وجہ سے یہ واخان کی وادی سے بالکل الگ ہوکر جنوب مغرب کی طرف پھیلی چلی گئی ہے اور واخان کے انتہائی نشیبی حصے میں قاضی دہ کے آس پاس زیبک کے علاقے تک پہنچی ہے اوراس سارے فاصلے میں پاک افغان سرحد بلند و بالا چوٹیوں کیوجہ سے مکمل طور پر نا قابل عبور ہے زیبک چترال کے ارکاری کی وادی کے عقب میں واقع ہے اور وہاں سے نیچے نورستان کا علاقہ دوراہ ،بگشٹ اورکالاش وادیوں کے پیچھے پھیلا ہوا ہے اور چترال کی سرحد ان سب کے ساتھ ملی ہوئی ہے اس لئے اس کی دفاعی اہمیت بہت زیادہ ہے اور قابل توجہ بھی اور اسی بنیاد پر فرنگی حکمران چترال پر ہر وقت توجہ مرکوز رکھتے تھے اور اس کی سرحدوں پر کڑی نگاہ رکھی جاتی تھی ۔یہ لمبی سرحد کئی سو کلو میٹر بنتی ہے۔خود چترال شمالی علاقہ جا ت سے شروع ہوکر دیر اور سوات تک پھیلی ہے اور اس کے چودہ ہزار آٹھ سو پچاس مربع کلو میٹر رقبے کو جو کبھی ایک خود مختار ریاست تھی صوبے اور مرکز سے مناسب اہمیت نہیں دیجاتی جس کا ثبوت یہ ہے کہ:

۔اس کو آبادی کی بنیاد پر جو کہ کم ہے فنڈز دئے جاتے ہیں حالانکہ اس کو رقبہ کی مناسبت سے فنڈ دیا جانا چاہئے کہ یہاں کی ایک ایک انچ زمین countکرتی ہے اور اس کو آباد کرنا حکومت وقت کی زمہ داری ہے۔

۔ ایک وسیع رقبے پر پھیلی پہاڑی ضلع کے اندر سڑکوں کی حالت افسوسناک حد تک خراب ہے اتنے وسیع ضلع کے اندر پکی سڑکوں کی کل لمبائی دو سو کلو میٹر کے لگ بھگ ہے اور باقی تمام وادیوں میں سات فٹ چوڑائی کی کچی سڑکیں حکومت وقت کی کار کردگی کا رونا روتی ہیں انہی سڑکوں پر سردیوں کے برف میں ٹریفک جاری رکھنے کی کوشش کرنا ایک سعی لا حاصل ہے اسی لئے یہاں سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں اور آبادی بڑھنے کی رجحا ن کے برعکس یہاں آبادی کم ہو رہی ہے۔ جس ضلع کے پکی سڑکوں کی مجموعی لمبائی دو سو کلو میٹر ہو اس کے باشندے اپنے آپ کو محروم کیوں نہ سمجھیں؟ کیا یہ ان لوگوں پر ظلم نہیں ہے ؟ کیا ان کے ساتھ گزشتہ سالوں میں انصاف کیا گیا ہے؟ سچ بولو اور سچ کہنے میں بے غیر تی مت کرو.

۔ انہی سڑکوں پر چلنے والی گاڑی ڈبل کرایہ لیتی ہے اس کا پوچھنے والا کوئی نہیں۔
۔ ان دور دراز علاقوں میں بہت سی اشیاے صرف نایاب ہونا کونسی تعجب کی بات ہے؟ کیا لوگ اس محرومیت کو محسوس نہیں کرتے؟
۔ جہاں کوئی معیاری طبی سہولت، کوئی معیاری درسگاہ، کوئی خصوصی زریعہ آمدن،کوئی سرکاری سرپرستی میسر نہ ہو تو ایسی محروم آبادی اپنی یتیمی کا واویلا نہ کرے تو کیا کرے؟ خود کشی کرے؟ ملک چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے؟

۔ جس ضلع کا قومی کا ایک اور صوبائی اسمبلی کا بھی ایک ممبر ہو تو ایسے میں لوگ گلہ نہ کریں تو کیا شاباش کریں!
۔ جس ضلع میں بجلی گھر سے ایک سو آٹھ میگا واٹ بجلی قومی گرڈ کو ملے لیکن مقامی آبادی کے گھروں میں دیا اور لالٹین جلایا جاتا ہو، کیا وہ حکومت وقت کو تمغۂ حسن کارکردگی پیش کریں؟
ہم آ خر کس چیز کے لئے حکومت وقت کی تعریف و توصیف کریں ۔
ہمیں کیا ملا ہے؟
کیا دیا جارہا ہے؟
ہمارے لئے کیا کچھ کیا جا رہا ہے؟
کہاں کیا جارہا ہے؟
ہماری محرومیت کا زمہ دار کون ؟ ہمارے ساتھ اس زیادتی کا زمہ دار کون؟ کیا ہم بھی مملکت خدا داد پاکستان کے شہری نہیں ہیں؟
کیا ہمارے شہری حقوق نہیں ہیں؟
کیا ہمارے انسانی حقوق نہیں ہیں ؟
کیا ہمیں اس صوبے میں اور اس ملک میں جینے کا حق حاصل نہیں ہے؟ ہم بجا طور پر محرومیت کو محسو س کرتے ہیں ، ہمارے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک ہورہا ہے،ہم تغصب کی بد بو سونگھ رہے ہیں ، ہمیں قصدا نظر انداز کیا جا رہا ہے، ہم اپنے حقوق غضب ہوتے دیکھ رہے ہیں ، اکثریتی طاقت کو ہمارے خلاف استعمال کیا جانے لگا ہے، ہم خود کو اور اپنی مستقبل کو غیر محفوظ خیال کرنے لگے ہیں ۔ کیا ہم اس سلوک کے حقدار ہیں ؟؟؟ْ
مجھے ان سوالات کا جواب چاہئے۔
۔۔۔۔۔جس کھیت سے دھقان کو میسر نہیں روزی
۔۔۔۔۔۔اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلادو
۔۔۔۔۔میں نا خوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو

رحمت کریم بیگ۔چترال


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, مضامینTagged
19727