Chitral Times

May 13, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چارہ گری…………. درمکنون

Posted on
شیئر کریں:

دنیا مین رہنے اور زیست کا مزہ لینے کے لیے جوشے ہماری ہمدم بنتی ہے وہ ربط اور تعلق ہے۔ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرنا اور غمحواری کے ذریعے کسی کے جلتے پھپولوں پر پھاہا رکھنا انساں کی فطری جبلت کا حصہ ہے۔گہرے شعور اور احساس کی بدولت انسانیت کے بارے میں دردمندی کا جذبہ پہدا ہوتا ہے۔یہی جذبہ انساں کواشر ف الخلوقات کی مسند عطا ہونے کا واضح ثبوت ہے۔یہ زندگی گوناگوں کیفیات کی حامل ہے۔یہ عالم رنگ و بو پر قانع نہیں ہوتی۔کہیں انسان کو اپنی بیحسثیتی اور کم مائگی پر کڑنے پر مجبور کرتی ہے۔اور کہیں افلاک کا سینہ چاک کرکے کہکشاوّں کو پنجہ زیست مہں دبوچنے کی صلاحیت بحشتی ہے۔کبھی ھما ؛لرے اندر شکست وریحت کا فطری عمل شروع ھوتاہے۔ اور کبھی ہم داخلی و خا ر جی واقعات سے دست و گر یبان ہوتے ہیں۔رومانو ی اور تصو راتی دنیا کا حقیقی و مادی دنیا سے ٹکراو ہوتا ہے۔ماننے اور نا ماننے کی جنگ ہمارے وجود کو لرزا دیتی ہے تو حالت یوں ہوتی ہے۔۔۔
نگاہ و دل تیرے بارے میں متفق ہی نا تھ
میں خود سے کتنا لڑا ہوں تیری محبت میں
دنیا ،معاشرہ،کا ئنات اور انسانوں کے بارے میں تصورات کبھی ہمیں یزدان کی طرف کھینچتے ہیں تو ہم اس فکر میں ہوتے ہیں کہ طہارت اور پاکیزگی کا پلڑا جھکنے نا پائے.اور کبھی ہم شیطان کی طرف لڑھکتے رہتے
ہیں ،غالب کہتا ہے۔۔۔ ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا میرےآاگے
اسی کھینچا تانی میں ٓافتابزندگی ڈھلنے لگتا ہے۔اس بیتے سمے ہم بہت سے ایسے افراد کو بھول چکے ہوتے ہیں،جو ہماری واپسیکی راہ تکتے تکتے پتھرائی ہوئی ٓانکھو ں سے اپنا دامن بھگوتے ہیں۔کچھ کو ہم سے بہت سے گلے شکوے کرنے ہوتے ہیں،بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمارے قرب کی تمنا میں عمر کی سواری کو ہانکتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں،لیکن ہمیں خبر نہیں ہوتی کیونکہ ہم ایک دوسرے سے مسابقت کی وحشیانہ دوڑ میں بہت ٓاگے نکل چکے ہوتے ہیں۔اس دوران زندگی کا حلیہ بدل چکا ہوتا ہے،جب تک سارا معاملہ سمجھ میں ٓاجائے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ہم حالات کے اس پل صراط سے گزرتے ہیں جس سے ٓاگے کسی مرغزار کی امید نظر نہیں ٓاتی، کیونکہ ڈھارس بندھانے کو سہارا نہیں ملتا،اس کی وجہ ہماری اپنی ذات اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ربط و تعلق اور احساس کا وہ ناتا ہم نے کب کا توڑ دیا جو کٹھن راستوں پر سفر کو ٓارام دہ بناتا ہے۔اس وقت ہمارے پاس سوائے اپنی ذات میں پناہ لینے کہ کوئی اور چارہ نہیں ہوتاتو پھر اجنبییت،تنہائی اور یاسییت کے سائے ہمارے سروں پر منڈلانے لگتے ہیں،غم زیست ایک ڈرونے خواب جیسا لگنے لگتا ہے تو ہم زہر کے تلخ گھونٹ حلق سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے مرحلے میں جب کہیں سے امید کی کوئی کرن پھوٹتی ہوئی محسوس نہ ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجالوں کی علمبرداری کرنے والے ظلمت و بدصورتی کو گلے لگانے والے چند لوگ تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیتے ہیں،جو اپنی بے لوث محبت اور سچے انسان دوستی کے زریعے ہماری طرف خلوص اور محبت کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔تب اندازہ ہوتا ہے کہ احساس اور درد مندی کا رشتہ بہت عظیم رشتہ ہوتا ہے جو چارہ گری کا ذریعہ اور دکھوں کا مداوا ہے۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
17702