Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نیپال نے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟ ……………فخرالدین اخونذادہ

Posted on
شیئر کریں:

بندہ جائے تو کس طرح جائے۔ پاکستان سے دوبئی جائے ، وہاں ائیر پورٹ میں آٹھ گھنٹہ ائرپورٹ کے بنچ میں پڑا رہے اور پھر کسی دوسرے جہاز میں بیٹھ کر کھٹمنڈو کے ائرپورٹ میں اترے۔ صرف تین گھنٹے کے مسافت میں واقع نیپال پہنچنے کیلئے آپ کو کئی ممالک سے ہوکر سولہ گھنٹے کاچکر لگانا پڑتا ہے ، اور آج کل یہی واحد راستہ ہے۔ اپنی ایئرلائن ،پی ائی اے کی نااہلی اور بدانتظامی نے جہاں ہم کو اندر سے کھوکھلا کیا ہے وہیں بین الاقومی سطح پر بھی دوست ممالک سے دور لے گیا ہے۔
نیپال ہمارا ایک اچھا دوست ملک ہے۔ اس نے ہر پلیٹ فارم میں پاکستان کے ساتھ دیا ہے۔ ہندو اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود کشمیر کے معاملے میں کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہے۔ جس کیوجہ سے اس کو کافی مشکلات کا بھی سامنا ہے ۔ گزشتہ بار میں یہا ں آیا تو یہاں تیل کی قلت تھی ۔ انڈیا نے نیپال سے مربوط تمام زمینی راستے بند کردیئے تھے۔ رقبے کے لحاظ سے ہمارا گلگت-بلتستان جتنا ملک، نیپال دو ممالک چین اور انڈیا کے درمیان گھر ا ہوا ہے۔ چین کی طرف کوہ ہمالیہ کے اونچے پہاڑ ہیں اور چین تک نقل وحمل کیلئے ہر موسم والا راستہ موجود نہیں ہے۔ صرف انڈیا سے ہوتے ہوئے اسے سمندر اور بین الاقوامی مارکیٹ میں پہنچنا پڑتا ہے۔ اِن مشکل حالات میں گھرے ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ دوستی میں کوئی کمی نہیں لائی ہے۔ پاکستانیوں کے لیےپیشگی ویزہ کی شرط نہیں، ٹکٹ لے لیں اور نیپال پہنچیں،ائیرپورٹ پر اترتے ہی چند منٹاندرویزہ مل جاتا ہے، پہلے دورے کی فیس بھی نہیں لی جاتی، سال میں دوسری بار چکر لگانے والوں کو معمولی سی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ کوئی سوال و جواب نہیں ہوتا۔ عام لوگ بھی پاکستان دوستی کے معاملے میں حکومت سے پیچھے نہیں ہے۔ یہاں سے تعلق رکھنے والے میرے کئی ایک دوستوں کو ہمارے کرکٹرز کے ساتھ بہت دلی لگاؤ ہے وہ انڈیا سے ہم کو ترجیح دیتے ہیں ۔میرےآرمِی سے تعلق رکھنے والے ایک میجر دوست کہتا ہے کہ کاکول میں اس کا ایک بیچ میٹ نیپالی تھا وہ آج کل نیپالی آرمی میں بڑے عہدے پر فائزہے۔ گورکھا بٹالین کو جنم دینے والی قوم اپنے فوجیوں کی تربیت کے لیے ہمارے ہاں بھجوانا ہم پر نیپال کے لوگوں کے اعتماد کا اظہار ہے اور دوستی کا بڑا ثبوتبھی۔
لیکن وطن عزیز میں ہمارے پالیسی سازوں نے خیرنااندیشی نے ہمیں اس ملک سے کا فی دور لے گیا ہے۔ پہلے یہاں پی آئی اے کیایک فلیٹ آتی تھی ، اب اس کو بند کر دیا گیا ہے ۔ شاید بہانہ “خسارے والے روٹ ” ہوگا۔ لیکن مجھے کوئی اور وجہ نظر آرہی ہے۔ ویسے پی آئی اے کا ہر روٹ خسارے کا ہی ہے۔ میرے خیال سے سب سے بڑی وجہ نیپالسےہماری قیادت کا کاروباری مفاد وابستہ نہ ہونا ہے۔ یہاں ان کواقامہ نہیں ملتا، یہ ملک غریب ہے اور منی لانڈرنگ کی جنت نہیں ہے۔ ہماری کرپٹ قیادت اُسی جگہ کیلئے اسانیاں پیدا کرتی ہےجس میں ان کو ذاتی مالی فائدہ ہو۔ ملکی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیج دینے کیلئے ان کے پاس ہزاروں بہانے ہیں ۔ پی آئی اے کی کھٹمنڈو سروس بند ہونے سےکاروبار پر بھی بہت زیادہ فرق پڑگیا ہے، نیپال میں پاکستان اشیاء کی بہت بڑی مانگ ہے، ایک دکاندار نے جوں ہی ہمیں بحیثیت پاکستان تعارف سُنا تو فوراً پاکستانی ملبوسات، سپورٹس کے سامان اور کچن آئٹم خصوصی طورپر شان مصالحہ جات کے قصیدے پڑھنے لگا، انہوں نے بتایا کہ براہ راست سروس بند ہونے سے اُن کے کاروبار کانقصان ہوگیا ہے ، اور سمگلنگ کو فروغ مل گیا ہے ، انہوں نے بتایا کہ اب پاکستانی اشیاء مختلف روٹس سے نیپال پہنچ بھی جاتی ہیں تو اُن کی قیمت اسماں کو چھورہی ہوتی ہے۔ اُن کا خلوص دیکھیئے کہ پی آئی اے روٹ کی بندش کو انڈیا کی سازش بتارہاتھا، دوسری بدقسمتی یہ ہے کہچاروں طرف خشکی میں گھرے اس چھوٹےسے ملک کی اپنیکوئی ایئرلائن سروس نہیں ہے۔ لہذا ہمیں عربوں کے جہاز میں بیٹھ کر مشرق وسطیٰ جانا پڑتا ہے اور وہاں کے ائر پورٹ میں صرف ایک کب نیم گرم چائے تین سو میں پی کر یہاںآنا ہے۔ تعلیم سے متعلق ایک مباحثہ میں پاکستان سے کئی ایک لوگ مدعو تھے لیکن فلائٹ مہنگی اور دور ہونے کی وجہ سے صرف دو لوگوں کو ٹکٹ بھجوایاگیا۔ جتنی رقم میں عربوں کے جہاز میں ایک بندہ سفر کرتا ہے اتنی رقم میں پی آئی اے کی براہ راست فلائٹ سے کم ازکم دو لوگوں کیلئے بندوبست ممکن ہے۔
دوسری طرف انڈیا اور افغانستان کے تعلقات کو دیکھیں۔ اس وقت دنیا میں جو سب سے سستی ٹکٹ ہے وہ کابل -دہلی روٹ کا ہے ۔ انڈین ایئرلائنز افغانی مسافروں کو ہر قسم کے سہولت دے رہی ہیں ۔ہمارے فیس بکی افغانی دوست دوپہر کو انڈیا میں اترتے ہیں تو شام کو واپس کابل میں ۔ چھوٹے موٹے کاموں کے لیے انڈیاپہنچ جاتے ہیں ۔ اور ہم ایک اچھے دوست ملک نیپال کو عربوں کے جہازوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا ہے ۔ نیپال کے لیے زمینی راستہ نہ ہونے کے برابر ہے اور تین اطراف میں انڈین حدود میں گھرے ہونے کی وجہ سے زمینی روابط کیلئے انڈیا پر انحصار ہے۔ نیپال باقی دنیا سے منسلک ہوائی راستوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ پی آئی اے فلائٹ سروس کو نیپال کے لیے بند کرنا اس ملک سے ناطہ توڑنے کے مترادف ہے۔اس پالیسی نے نیپال کے پاس انڈیا کو ہم پر ترجیح دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ وہ جائے تو کہاں جائیے ایک ہوائی راستہ تھا اس کو بھی آپ نے بند کردیا۔ اگر واقعی انڈیا اپنے ہوائی حدود میں ہماری ایئرلائن کو گزرنے نہیں دیتا تو چینی حدود استعمال کی جاسکتی ہے، کوئی اور ذریعہ نکالا جاسکتاہے، لیکن یہ سب اُس وقت ممکن ہوگا جب آپ اپنے ہمسایوں کو بغیرلالچ کے پرکھیں گے۔ اُن کو اہمیت دیتے وقت یہ نہیں دیکھیں گے کہ اُن کی جیب میں کتنے ڈالر ہیں۔ نیپال سارک کا ممبر ہے اس سارک تنظیم میں اُس کا باقاعدہ ووٹ ہے، ہم ایم این اے منتخب ہونے کیلئے ووٹروں کی خوشی کیلئے خسارے کی بس سروس چلاسکتے ہیں لیکن ملک کو ملنے والے ووٹ کیلئے رعایتی فضائی سروس برداشت نہیں کرسکتے۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
16459