Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دریائے کابل نہیں، دریائے چترال……… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

کوئی مشکل نام زبان پر نہ چڑھے تو اسے مختصر کرکے نیا نام رکھا جاتا ہے۔ یا کوئی توتلی زبان رکھنے والا کسی شخص ، چیز یا جگہ کا نام اپنے انداز میں دلچسپ یا غلط بولے تو وہی مختصر نام ہی عام ہوجاتا ہے جسے عرف عام میں پیار کا نام دیاجاتا ہے اردوزبان کی اصطلاح میں وہ غلط العام کہلاتا ہے۔ اس تمہید کا مقصد دریائے چترال کو دریائے کابل قرار دینے کی تاریخی غلطی کی تصحیح کرنا ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ روز جامعہ پشاور کے ایریا اسٹیڈی سینٹر میں ایک سمینار ہوا۔ جس میں مقررین کا کہنا تھا کہ افغانستان بھارت کی مالی امداد سے دریائے کابل پر ایک درجن ڈیم بنانا چاہتا ہے۔ جس سے ورسک ڈیم خشک ہوجائے گا ۔پشاور، چارسدہ اور صوبے کے دیگر علاقے بنجر بن جائیں گے۔سمینار کے شرکاء نے دریائے کابل کے بہتر استعمال کے لئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان پانی کا معاہدہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان کے جغرافیے سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ دریائے کابل ایک غلط العام نام ہے۔ اس دریا کا منبع چترال کے انتہائی شمال مغرب میں قرمبرہ جھیل ہے۔ اس جھیل سے نکلنے والے دریا کو مستوج پہنچنے تک دریائے یارخون کہا جاتا ہے۔ راستے میں درجن بھر مقامات پر ندی نالوں اور چشموں کا پانی اس میں گرتا ہے ۔ مستوج اور سرغوز کے سنگم پر شندور کے پہلو سے نکلنے والا لاسپور نالہ دریائے یارخون میں شامل ہوتا ہے۔ میراگرام، آوی اوربونی نالے کا پانی بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ جون سے ستمبر تک گرمی کی شدت میں اضافے اور گلیشیئر زیادہ پگھلنے سے اس دریا میں طغیانی آتی ہے اورجنالکوچ سمیت دریا کے کنارے نشیبی آبادیاں زیر آب آتی ہیں۔ بمباغ کے مقام پر تریچ میر کے دامن سے پھوٹنے والا دریائے موڑکہو بھی دریائے مستوج سے آ ملتا ہے۔ بمباغ سے نیچے اس دریا کا نام دریائے چترال بن جاتا ہے۔ کوراغ گول، بندوگول، ریشن گول اور بروم گول کے بڑے نالے بھی اس میں گرتے ہیں۔برنس، مروئی ،موری لشٹ اور استانگول سے ہوتا ہوا جب یہ دریا ماشیلیک کے مقام پر پہنچتا ہے تو گولین کا شفاف نالہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے اسی مقام پر 108میگاواٹ کا گولین گول پاور ہاوس بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ پھر یہ دریا کوغذی، کوجو ،راغ اور کاری سے ہوتا ہوا جب لینک کے مقام پر پہنچتا ہے تو گبور، شیخ سلیم اوروادی گرم چشمہ اور اوژیر کے گلیشئرز سے نکلنے والا دریائے گرم چشمہ بھی دریائے چترال میں شامل ہوتا ہے۔ دنین، چترال ٹاون، جوغور، بروز، چمرکن، ایون، دروش، سوئر،نگراور دامیل کے نالے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور ارندو کے مقام پر چترال کا یہ دریا بریکوٹ میں افغان علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ بریکوٹ سے آگے غازی آباد کے قریب آسمار کا نالہ بھی اس میں گرتا ہے۔ کنڑ(اسد آباد) سے ہوتا ہوا جب یہ دریا جلال آباد پہنچتا ہے تو اس کا نام بدل کر دریائے کنٹر بن جاتا ہے۔ جلال آباد سے آگے دریائے چترال دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور ورسک ڈیم میں گرتا ہے۔افغان علاقے کنٹر سے جب دریائے چترال گذرتا ہے تو یہ اس کا کابل سے فاصلہ سو کلو میٹربھی زیادہ بنتا ہے۔ نجانے کس بے خبرمفکر نے اس کا نام دریائے کابل رکھا ہے۔ افغان حکومت دریائے چترال پر ایک سے زیادہ ڈیم بنا ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ دریا کی سطح آبادی سے بہت نیچے ہے۔ صرف کنٹر کا علاقہ دریا کے کنارے آباد ہے۔ اگر حکومت پاکستان چاہئے تو نصف درجن مقامات پر بند باندھ کر ٹنل کے ذریعے اس کا رخ سوات اور دیر کی طرف موڑ سکتی ہے۔ دریائے کابل کے مناسب استعمال کا
معاہدہ کرنے سے قبل حکومت پاکستان کو دریا کا اصل نام بحال کرکے دریائے چترال رکھنا چاہئے۔ اور افغان حکومت پر واضح کرنا چاہئے کہ اگر اس نے دریا پر بند باندھنے کی کوشش کی تو چترال میں ہی ٹنل بناکر اس کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا جائے گا۔ جس سے بریکوٹ سے جلال آباد تک افغانستان کے درجنوں دیہات بنجر بن سکتے ہیں۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت دریائے چترال کے پانی اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائلٹی بھی چترال کو دے کر ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کرے۔ اگر لائل پور کا نام فیصل آباد، صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا بن سکتا ہے تو دریائے کابل کا نام دریائے چترال کیوں نہیں بن سکتا۔ اگر اس کے لئے آئینی ترمیم بھی لانی پڑے تو تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کی وسیع تر مفاد میں اس کی حمایت کرنی چاہئے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
14412