Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بی جے پی و ہندو انتہا پسندتنظیموں کے انسانی حقوق و مذہب کی کھلی خلاف وزریاں…قادرخان

Posted on
شیئر کریں:

بی جے پی و ہندو انتہا پسندتنظیموں کے انسانی حقوق و مذہب کی کھلی خلاف وزریاں…….. پیامبر ***قادر خان یوسف زئی

مندر ، مسجد ، گائے اور مورتی کے نام پر فرقہ وارانہ سیاست کرنے والی بھارتی انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کو ریاستی الیکشن میں عبرت ناک شکست کا سامنا ہوا ہے ۔ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات ہوئے۔مدھیہ پریش، راجستھان، چھتیس گڑھ بی جے پی، شیوسینا، راشٹریہ سیوک سنگھ اور جن سنگھ جیسی بدنام زمانہ مسلم دشمن جماعتوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی اور میزو رام میں میزو رام نیشنل فرنٹ کی بھرپور کامیابی نے بظاہربھارتی سیاسی صورتحال کے نئے رخ کی نوید دی ہے۔ گزشتہ ریاستی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014 میں راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں واضح بڑی کامیابیاں حاصل کیں تھی۔ لیکن اس مرتبہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی کے امکانات پر بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
راجستھان میں ریاستی انتخابات کے دوران بی جے پی کی سیاست اکھڑ گئی اور 199نشستوں کے ایوان میں کانگریس نے واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کرلی ، کانگریس نے 100جبکہ بی جے پی 74نشستیں حاصل کرسکی ۔ یہ مودی سرکار کے لئے غیر متوقع جھٹکا ثابت ہوا ہے۔چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو دوسرا بڑا سیاسی جھٹکا لگا جب خلاف توقع حکمراں جماعت90میں سے صرف11سیٹوں پر کامیاب ہوئی اور کانگریس نے69نشستیں حاصل کرکے مودی سرکار کو سکتے میں ڈال دیا ۔تلنگانہ ریاست میں مقامی جماعت’ تلنگانہ راشٹرز سمیتھی‘ نے199میں سے85نشستوں میں سبقت حاصل کی ۔ کانگریس نے 23جبکہ آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین نے6نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار کی دوڑ سے باہرکردیا ۔ اس ریاست میں کانگریس کے ساتھ تلنگانہ راشٹرز سمیتھی اتحادی حکومت بنانے جا رہی ہے ۔میزورم ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن یہاں بھی تبدیلی کی زبردست ہوا چلی اور مقامی جماعت میزو نیشنل فرنٹ نے40میں سے25نشستیں جیت لیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی ۔ جبکہ کانگریس نے6نشستیں حاصل کیں۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے نتائج نے بی جے پی کے 15 سالہ انتہا پسندی کی حکمرانی کی سیاست کا خاتمہ کردیا اور راجھستان میں بھی بی جے پی کو شکست کا سامنا ہوا ۔ تاہم اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کانگریس تین ریاستوں میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے اور کانگریس کے سیاسی اعتماد میں اضافہ نظر آرہا ہے ۔ بھارت کی سیاست و انتخابات پر گہری نظر رکھنے والے سنیئر تجزیہ کاروں سیاست دانوں کے مطابق 2019کے انتخابات میں بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس و دیگر سیاسی جماعتوں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کے امکانات کافی نمایاں نظر آرہے ہیں۔ انتہا پسند جماعت نے بھارتی عوام کو منقسم کرنے اور مذہب کے نام پر سیاست کا ایجنڈا پنایا اور انڈیا میں انتہا پسندی کی سوچ کو پروان چڑھایا ۔ گوکہ بعض تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ قومی انتخابات میں ریاستی الیکشن اثر انداز ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ قومی انتخابات میں مقامی ایشوز پر سیاست نہیں کی جاتی۔ لیکن اس وقت متعدد بھارتی اخبارات اپنے اداریوں اور تجزیوں میں ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی ناکامی کا سب سے بڑا بنیادیسبب فرقہ وارانہ سیاست کو قرار دے رہے ہیں۔ریاستی انتخابات میں بی جے پی چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں پندرہ اور راجستھان میں پانچ برسوں سے حکومت کر رہی تھی۔بھارتی ریاست میں جہاں مودی سرکار کی فرقہ وارانہ پالیسوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری جانب نوٹ بندی ، کسانوں کی بڑی تعداد میں خودکشیاں، نوجوانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے حل نہ کرنا، نس بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ نے بی جے پی کو بڑا سیاسی جھٹکا دیا ہے۔نریندر مودی کے بڑے بڑے وعدے بطور خاص زیادہ ملازمت کی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی میں اضافے کا نہ ہونا بھی شکست کے اہم اسباب میں شامل ہیں کہ عوام سے کئے جانے والے بڑے بڑے وعدے جب پورے نہیں کئے جاتے تو بھارت کا نجات دہندہ کہلانا والا بھی شکست کھا سکتا ہے۔ رافیل کرپشن کیس، ملازمت کی کمی اور کسانوں کی پریشانی آئندہ سال کے انتخابات کے لئے بھی اہم ایشوز قرار دیئے جا رہے ہیں اور یہ مقامی مسائل نہیں قرار دیئے جاسکتے ۔مودی سرکار بھارت کے غریب عوام کے مسائل کے حل سے زیادہ اس بات پر زیادہ توجہ دیتی رہی ہے کہ بھارتیوں کو مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے خلاف کس قدر بھڑکایا جاسکتا ہے۔ اپنے زہریلے طرز عمل کی وجہ سے بھارت کی عوام مودی سرکار سے بیزار نظر آتی ہے ۔ جس کا مظاہرہ انہوں نے بی جے پی کے مضبوط گڑھوں میں مخالف ووٹ دے کر کیا ۔مقبوضہ کشمیر کے موجودہ پنچائتی (بلدیاتی) الیکشن میں بھی مودی سرکار فوجی جبر ا ور کنٹرول کے باوجود ووٹنگ کا تناسب بمشکل 18 تا 23 فیصد حاصل کرسکی۔ بھارت میں اگلے برس قومی انتخابات کا مرحلہ ہے اور اس ضمن میں مودی سرکار کی ساری توجہ پاکستان مخالف بیانات اور ہرزہ سرائی پر مرکوز ہے۔خطے میں بے امنی کی فضا بنائے رکھنا اور اقلیتوں کے خلاف جانب دارانہ طرز عمل نے مودی سرکار کے اصل چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بھارتی سیاسی جماعتوں کو نفرت کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کے بجائے ان کی تکالیف کو دور کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دنیا کی آبادی پر عالمی بینک کی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے1 ارب 14کروڑ یعنی 86 فیصد افراد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے پانچ ڈالر یعنی 325روپے سے بھی کم ہے اور 68فیصد عوام غربت کی کم ترین سطح پر ہیں۔’گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی‘ کے مطابق بھارت میں 58 ملین سے زیادہ یا 4.5 فیصدافراد ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ ڈیپریشن بھارت میں موت کے منہ میں جلد چلے جانے کی دسویں سب سے بڑی وجہ رہی جب کہ 2005 میں یہ بارہویں نمبر پر تھی۔ ڈیپریشن کا مرض بھارتی مردوں (3.6 فیصد) کے مقابلے عورتوں(5.1 فیصد) میں زیادہ عام ہے۔ یہ نہایت تشویش کی بات ہے کہ 15 تا 19 برس کی عمر گروپ کے افراد میں ڈیپریشن اور دیگر دماغی بیماریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں مینٹل ہیلتھ کیئر پر صحت بجٹ کا صرف 0.06 فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے جو بنگلہ دیش (0.44 فیصد) سے بھی کم ہے۔ وفاقی بجٹ میں 7.81 فیصد اضافے کے ساتھ 295511 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، جبکہ بھارتی جنگی جنون کے سبب دفاعی بجٹ میں مجموعی طور پر 30 کھرب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
جہاں ایک طرف بھارت کی یہ صورتحال ہو کہ ایک ارب سے زاید انسانوں کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے ۔ وہاں نریندر مودی کی معتصبانہ پالیسیوں کا یہ حال ہے کہ فرقہ واریت کی سیاست میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ بھارت کی عدلیہ کو بھی متاثر کردیا ہے۔ جس کی ایک مثال جسٹس ایس آر سین کے ایک مقدمے میں لکھے جانے والے اس فیصلے سے بھی اندازہ لگایا جاسکا ہے کہ ’’ ہندوستان کو ہندو راشٹر کے طور پر اعلان کر دیا جانا چاہیے تھامیگھالیہ ہائی کورٹ نے مودی سرکارسے یہ امید بھی لگائی ہے کہ وہ اس ملک ( بھارت) کو اسلامی ملک نہیں بننے دیں گے۔‘‘مودی سرکار نے مذہبی آزادی کو بھارت کی اقلیتوں کے لئے جرم بنا کر رکھ دیا ہے جہاں اقلیتوں کو اپنی مذہبی شعار ادا کرنے میں ریاستی جبر کا مسلسل سامنے رہتا ہے۔بی جے پی کی انتہا پسندی سے متاثر ہونے والوں نے ایودھیا میں بابری مسجد کو رام مندر بنانے کے لئے مذہبی آزادی کو جس طرح روندا اس پر امریکا کا آنکھیں بند کرلینا اور پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دینا ایک واضح جانب دار عمل ہے جس پر پاکستان نے بھرپور احتجاج بھی کیا کہ ایک جانب پاکستان میں تمام مذہبی اکائیوں کو ان کی عبادت گاہوں اور پرستش کی مکمل آزادی ہے اور ان کے مذہبی مقامات و رسومات کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ تو دوسری جانب ہندو انتہا پسند بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو صرف افواہ کی بنیاد پر بھیانک طریقے سے نشانہ بناتے ہیں اور سرعام ہندو انتہا پسند مسلم نوجوانوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کا ہاتھ روکنا والا کوئی نہیں ہوتا ۔
مودی سرکار کی حکومت کا ایک اجمالی جائزہ لیا جائے توعالمی اداروں کی رپورٹیں دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کے چہرے سے نقاب نوچ کراصل حقیقت کو سامنے لاتی ہیں ۔ جمہور ی ملک کا را گ الاپنے والا بھارت شام، عراق اور نائیجریا کے بعد مذہبی فساد ات کے اعتبار سے چوتھا نمبر پر ہے جبکہ مودی سرکار کے دور اقتدار میں بھارت میں گروہی تشدد کے واقعات میں اضا فہ ہوا ہے۔تھومپسن رائٹرز فاونڈیشن کے سروے میں جنسی تشدد، ہراسانی، ذہنی اور گھریلو تشدد سمیت خواتین کو درپیش مختلف قسم کے خطرات میں’’ بھارت نمبر ون ‘‘قرار پایا ہے۔ خواتین کی صحت جن میں زچگی کے دوران موت، پیدائش اور ایچ آئی وی/ایڈز پر کنٹرول کے معاملے میں انڈیا کا چوتھا نمبر جبکہ ملازمت میں جانبداری کے معاملے میں تیسرا اور (غیر جنسی) گھریلو تشدد کے معاملے میں بھی تیسرا نمبر ہے۔انڈین میڈیا این ڈی ٹی وی کے مطابق انڈیا میں خواتین کے ساتھ انتہائی نا روا سلوک کیا جاتاہے ،ریپ، میریٹل ریپ، جنسی تشدد اور ہراساں کیا جانا اور بچیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کیا جانا بلا کسی روک ٹوک جاری ہے۔ بھارت کی 24 ریاستوں میں جانوروں کے ذبح کرنے پر جزوی یامکمل پابندی عاید ہے۔ پابندی پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف مختلف ریاستوں میں سزائیں بھی رکھی گئی ہیں۔ جن جانور کے ذبیح پر پابندی ہے ان میں گائے، بچھڑا، بیل یا سانڈ ہے۔ سزا ؤں میں 6 ماہ سے دوسال تک قید اور 1 ہزارروپے سے 10 ہزارروپے تک جرمانہ لگایا جاتا ہے جبکہ راجستھان، پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر میں گائے کو ذبح کرنے پر 2سے 10 سال تک قید کی سزا مقرر ہے۔ گجرات کی ریاستی حکومت نے ایک ایسا قانون بھی پاس کیا جس کے تحت گائے کو ذبح کرنے، بیف بیچنے اور غیر قانونی طور پر گائے یا بیف کوایک جگہ سے دوسرے جگہ لیجانے پر سزائیں بڑھا دی گئیں۔ نئے قانون کے مطابق ایسے’’ جرائم ‘‘پر کم از کم 10 سال قیدانسانوں کے قتل کے کچھ جرائم کی طرح(اور زیادہ سے زیادہ سزا عمرقید)انسانوں کے قتل عمد کے برابر مقرر کی گئی ہے۔
مودی سرکار کے مسلم دشمنی کا یہ عالم ہے کہ حکام کی جانب سے ایسے انتہا پسندوں کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کی جاتی جو کسی مسلمان پر صرف شبہ کی بنیاد پر تشدد ،یہاں تک کہ قتل تک کردیتے ہیں اگرانہیں اس بات کا علم ہوجائے کہ گائے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہو ۔ مودی سرکار کی انتہا پسند ریاستوں کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف متشدد رویہ صرف عام انتہا پسند تک محدود نہیں بلکہ انتہا پسند جماعت اور تنظیموں کے سرکردہ رہنما باقاعدہ ایسے اشتعال انگیز بیانات بھی دیتے ہیں جس سے مسلمانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔بین الاقوامی مذہبی آزادی رپورٹ برائے 2017 کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی تشدد کو جہاں ایک طرف ریاستیں پشت پناہی کرتی ہیں تو دوسری جانب عدالتوں سے انصاف فراہم نہیں ہوتا ۔ بھارت کی عدالتوں نے ایسے کئی واقعات میں انتہا پسند جماعت کے حق میں فیصلے کئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی عدلیہ میں بھی مذہبی تعصب کا عنصر شامل ہوچکا ہے۔ مذہبی آزادی رپورٹ 2017 کی عالمی رپورٹ کے مطابق گجرات ہائی کورٹ نے وشوا ہندو پریشد کے ایک ایسے لیڈر اٹل ویڈیا کوضمانت پر رہا کیا جو 2002 میں مسلم مخالف گلبر گ سوسائٹی کی ہلاکتوں کے24مجرموں میں شامل تھا ۔ ایک خصوصی عدالت نے 2002 میں گجرات میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران گلبرگ سوسائٹی کے علاقے میں 69افراد کے قتل میں ملوث ہونے پر 24 افراد کو مجرم ٹھہرایا تھاجن میں سے 11 کوعمر قید کی سزا اور 36 دیگر افراد کو بری کر دیا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ نے گلبرگ سوسائٹی کے حملے میں زندہ بچ جانے والی خاتون ذکیہ جعفری کی اپیل خارج کر دی تھی۔ ذکیہ جعفری کی درخواست میں 2002 کے ہنگاموں کی سازش کے سلسلے میں 58 افراد میں اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کا نام بھی شامل تھا۔ُ الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش کے مقام ڈاڈری میں محمد اخلاق سیفی کو مبینہ طور پر گائے کو ذبح کرنے کے حوالے سے بدترین تشدد کرکے ہلاک کئے جانے پر 18 افراد کو ضمانت دی۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی نے ان 18افراد کی ضمانتیں کر انے اور ایک ملزم کو کہ جیل میں مر گیا تھا اس کے اہل خانہ کو 8لاکھ روپے دینے اور ان ملزموں سرکاری نوکریوں میں بحال کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ اسی طرح راجھستا ن ہائی کورٹ نے نے 200انتہا پسند گاؤ رکھشا گروپ کے 5 ملزموں کو ضمانت دی جنہوں نے ہریانہ میں ڈیری فا رمر پہلو خان کا بہیمانہ قتل کیا تھا اور ان مجرموں کی شناخت سوشل میڈیا میں وائرل ویڈل سے ہوئی تھی۔ایک اور اہم واقعے میں خصوصی عدالت نے اجمیر کے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر بم دھماکا کرنے والے آر ایس ایس کے دو انتہا پسندوں کو ضمانت پر رہائی دی۔یہ دھماکہ افظار سے قبل کیا گیا تھا جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو نماز جمعہ ، عیدین اور دیگر مذہبی شعائر سے زبردستی روکا جاتا ہے۔ بھارتی جارحیت پسند فوج کرفیو لگا کر انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں کرتے ہیں ، اسرائیل کی طرز پر مسلم آبادیوں کو اقلیت میں بدلنے کے لئے ہندو پنڈتوں کی آباد کاری کی جا رہی ہیں۔ مسلم نسل کشی کی بازگشت تو اقوام متحدہ تک پہنچ چکی ہے لیکن بھارت میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف وزریوں اور مذہب کی آزادی میں پر تشدد اقدامات پر عالمی قوتوں نے اپنے فروعی مفادات کے لئے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ نریندر مودی وہی وزیر اعلیٰ ہے جس کی امریکا آمد پر پابندی عائد کردی گی تھی لیکن دوہرے و دوغلے معیار کا یہ عالم ہے کہ نریندر مودی اب ان کے سر کا تاج بن گئے ہیں۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ محکہ خارجہ۔ بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومین رائٹس، اینڈ لیبربین االقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ برائے 2017 بھارت کے سیکولر اور نام نہاد جمہوریت کا پردہ چاک کرنے کے لئے نوشتہ دیوار ہے ۔ لیکن امریکا کی جانب سے بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت کی مذہبی آزادی میں بدترین تشدد اور پابندی پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ۔ بلکہ ایسی رپورٹس پر خاص ردعمل بھی نہیں دیا جاتا ۔ دوسری جانب بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے امریکا کا جانب دارنہ رویہ عالمی برداری کے سامنے ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ملک میں جہاں سب سے زیادہ مسلمانوں اور مساجد کو انتہا پسند نشانہ بناتے ہیں۔ الٹا پاکستان کا نام واچ لسٹ اور پھر بلیک لسٹ میں شامل کردیا جاتا ہے۔ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر پابندیوں کی مثالیں ان گنت ہیں اور خود امریکہ محکہ خارجہ۔ بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومین رائٹس، اینڈ لیبر کی رپورٹ میں انکشافات اور تحقیقات کی رپورٹس شامل ہیں کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ برداری ، عیسائی کمیونٹی سمیت نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ بھی مذہبی بنیادوں پر زیادتیاں ہو رہی ہیں اور مودی سرکار کا رویہ انتہا پسندانہ ہے ۔مودی سرکار نے پاکستان کی جانب دو طرفہ امن کی کوششوں کو ہر طریقے سے سبوتاژ کیا اور پاکستان کی امن پسندی کا جواب اشتعال انگیز بیانات سے دیا ۔پاکستان نے امن میں پہل کرتے ہوئے کئی مواقع پر بھارت کو بامقصد مذاکرات ی دعوت دی لیکن مذاکرات سے خوف زدہ مودی سرکار پہلو تہی کرتے ہوئے بدستور بھارتی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہی ۔ لیکن جب پاکستان نے سکھ برادری کی اہم ترین مذہبی مقام کرتار پور میں خیر سگالی کا جو مظاہرہ کیا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ بھارت کو عالمی برداری کی جانب سے پاکستان کے اس اقدام پر پزایرئی اتنی امید نہیں تھی ۔ لیکن بھارت کے توقعات کے برعکس جس طرح عالمی برداری نے پاکستانی اقدامات کو سراہا اور مودی سرکارکا چہرہ بھارت میں بے نقاب ہوا اس کے براہ راست اثرات سے بھارتی عوام کو سوچنے کا یہ موقع ضرور ملا ہوگا کہ مودی ، حیلے بہانے کرکے راہ فرار کیوں اختیار کرتی ہے۔ جہاں ایک جانب 18کروڑ سے زائد سکھ برداری نے پاکستان کی حکومت کے جرات مندانہ اقدام پر مسرت اور انتہائی خوشی کا اظہار اور احسان مندی ظاہر کی تو ہندو انتہا پسند جماعت کو سکھ برداری کی یہ خوشی برداشت نہیں ہوئی اور پاکستان کے مثبت قدم کے خلاف حسب روایات جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لے کر عالمی برادری اور بھارتی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارتی عوام خطے میں امن کے لئے ایسی جماعتوں کا انتخاب کریں جو ان کے لئے جنگ کا نہیں بلکہ امن کا پیغام لائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
16810