Chitral Times

چترال کے یتیم اور بے سہار بچوں کا واحد ادارہ’’ محافظ بیت الاطفال‘‘ میں عید ملن پارٹی

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز )محافظ بیت الاطفال کے ہاسٹل میں اتوار کے روز عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں خاص معاونین اور سرپرستوں کے علاوہ مختلف مکاتب فکرے کے افراد مدعو تھے۔ عید ملن پارٹی کا مقصد یتیم بچوں کے ساتھ کچھ لمحات گزارنا اور ان بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے لائحہ عمل طے کرنے کیلئے مشاورت بھی تھا۔ تقریب سے قاضی اکرام، کرم الہیٰ ، شہزادہ مدثر الملک ، عماد الدین و دیگر نے خطاب کیا۔مقرریں نے کہا کہ محافظ بیت الاطفال چترال کے ننھے مننھے ، یتیم بچوں کا وہ گھر ہے جہاں تعلیم وتربیت اور رہائش کے ساتھ ہر چیز معیار کے مطابق ان کو مہیا کیا جارہاہے جبکہ ادارے کی قیام کا مقصد چترال کے ہر یتیم اور تعلیم سے محروم بے سہارا بچے تک پہنچنا اور انھیں پاکستان کے اچھے سے اچھے ادارے میں پڑھانا تاکہ کل کو یہ بچے پوری دنیا میں وطن عزیز کا نام روشن کرسکیں ۔
انھوں نےکہاکہ آج کے معاشرے میں اہم مسئلہ نسل نو کی اخلاقی و معاشرتی لحاظ سے درست سمت میں سرپرستی کا فقدان ہے ۔ اس عدم توجہی کے باعث نونہالان قوم اور بالخصوص معاشرے کا وہ قیمتی سرمایہ اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے انسانیت کی پٹری سے نکل جاتے ہیں اور معاشرے کیلئے ناسور بن جاتے ہیں۔
یادرہے کہ محافظ بیت الاطفال چترال میں اپنی نوعیت کا پہلا اور واحد ادارہ ہے جو یتیم اور بے سہارہ بچوں اور بچیوں کیلئے سہارہ بناہوا ہے ۔ اور ضلع بھر سے انتہائی بے سہارہ یتیم بچوں کیلئے رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے ۔ جہاں فلحال بیس سے زیادہ بچوں کو رکھا گیاہے ۔ اور انھیں بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم ، ٹیوشن اور ساتھ دینی تعلیم دی جارہی ہے ۔

ادارے کا روح رواں استاد عماد الدین نے بتایا کہ ضلع بھر سے درجنوں بچوں اور بچیوں کا اندراج کیا گیا ہے ۔ اور ان میں سے انتہائی ضرورت مند بچوں کو ہاسٹل میں رکھا گیا ہے ۔ جبکہ مالی مشکلات کے باعث سب کو چترال میں شفٹ نہیں کرسکے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ فلحال بیس سے زیادہ ایسے بچوں کو رکھا گیا ہے جو کہ انتہائی ضرورت مند اور مجبور تھے ۔ فلحال پانچ کمروں پر مشتمل مکان ہاسٹل کیلئے کرایہ پر لیا گیا ہے ۔ جوں ہی مخیر حضرات کی طرف سے ادارے کے ساتھ مالی تعاون کیا گیا تو مذید بچوں کو چترال لایا جائیگا ۔ جبکہ مالی مشکلات کے باعث صرف دو بچیوں کو الگ ہوسٹل میں داخل کیا گیا ہے ۔ جو کہ چترال میں زیر تعلیم ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ ہم ہاسٹل میں رہائشی بچوں کو گھر جیسا ماحول مہیا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے تاکہ وہ خو د کوبے سہارا یا والدین کی کمی کو محسوس نہ کرسکے ۔

انھوں نے بتایا کہ بے سہارابچے بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کے باعث غیر اخلاقی و غیر معاشرتی راستوں کی اندھیر نگری میں اپنی منزل تلاش کرنے لگتے ہیں اور کتاب و قلم سے ان کا رشتہ ہمیشہ کیلئے ٹوٹ جاتا ہے ۔ معاشرے کی اس قیمتی سرمائے کی معاشرتی ضیا ع اور اس کے بھیانک نتائج کا احساس و ادراک کرتے ہوئے محافظ بیت الاطفال کے نام سے اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ جس سے مخیر حضرات کی تعاون سے مذید فعال کیا جائیگا۔

ادارے کا ایک اور سرپرست شہزادہ مدثر الملک نے بتایا کہ ہاسٹل کیلئے دنین میں ایک مخیر شخصیت نے زمین عطیہ کیا ہوا ہے ۔ جہاں پر یتیم بچوں اوربچیوں کیلئے ہاسٹل کی تعمیر کے ساتھ اُن خواتین کیلئے بھی الگ پورشن تعمیرکی جائیگی جو کسی نہ کسی وجہ سے گھر اور خاندان سے الگ ہوجاتے ہیں اور واپس گھر جانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں ۔

ادارے کے ایک اور منتظم ولی نے بتایا کہ یہ ادارہ چند دوستوں کی تعاون سے چلایا جارہا ہے ۔ جن میں زیادہ تر اساتذہ ہیں جو اپنی قلیل تنخواہ سے کچھ حصہ اس ادارے کو دیتے ہیں انھوں نے بتایا کہ صرف بیس بچوں پر مہینے میں لاکھ روپے سے زیادہ خرچہ آتا ہے ۔ جبکہ ہماری خواہش ہے کہ مذید بچوں اور بچیوں کی مستقبل کو سنوارا جائے۔

 

ادارے کے منتظمین نے چترال ٹائمز کی وساطت سے ملک کے اندر اور بیرون ملک مقیم مخیر حضرات اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے اس کا ر خیر میں حصہ ڈالنے کی استدعا کی ہے ۔ اور ا س موقع پر اس بات کو پھر سے دھرایا گیا کہ چترال کے ایک مخیر شخصیت نے محافظ بیت الاطفال کیلئے زمین کا عطیہ دیا ہوا ہے ۔ مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تاحال اس پر عمارت تعمیر نہ ہوسکی ہے ۔

 

آئیے بے سہاروں کا سہارا بنیئے!
حدیث پاک میں رسول پاک ﷺ نے یتیم کے کفیل کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کا مژدہ سنایا ہے ۔ اور ان کے سروں پر دست شفقت پھیرنے سے گناہوں کے معافی کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔

 

اگر کوئی مخیر شخصیت یا ادارہ محافظ بیت الاطفال کے بچوں کے لئے اپنا حصہ ڈالنا چاہے تو وہ درجہ ذیل نمبر وں پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔
رابطہ نمبر: 03469836815, 03215892245, PTCL 0943-414191یا چترال ٹائمز کے وساطت سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں ۔
پتہ: محافظ بیت الاطفال نزد ڈسٹرکٹ جیل چترال مستوج روڈ دنین چترال

muhafiz rozatul atfal danin chitral 1
mohafiz darul atfal chitral 6

mohafiz darul atfal chitral 5

mohafiz darul atfal chitral 7

muhafiz rozatul atfal danin chitral 2

mohafiz darul atfal chitral 3

mohafiz darul atfal chitral 2

mohafiz darul atfal chitral 4

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
11216

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پولیس غذر کی غیر قانونی اور کالے شیشوں والی گاڑیوں کے خلاف کاروائی

Posted on

غذر(چترال ٹائمز رپورٹ)ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پولیس ضلع غذر نے اسسٹنٹ سب انسپکٹر عرفان حیدر کی سرکردگی میں غیر قانونی گاڑیوں کے خلاف گاہکوچ اور چٹورکھنڈ میں سخت کاروائی عمل میں لایا۔ تمام گاڑیوں سے کالے شیشے اور غیر نمونہ نمبر پلیٹس اُتار دیے گئے۔ غیر قانونی نمبر پلیٹس والی گاڑیوں کو پولیس نے اپنے تحویل میں لے لیا۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف اڈوں میں جا کر گاڑیوں کی فزیکل فٹنس بھی چیک کیا گیا تاکہ مسافروں کو مختلف حادثات سے بھر وقت بچایا جا سکے۔اسسٹنٹ سب انسپکٹر عرفان حیدر کا کہنا تھا کہ غیر رجسٹر ڈ گاڑیوں کو کچھ دن بعد تحویل میں لیا جائے گا۔گاڑیوں کے مالکان اور ڈرائیوروں سے بھی گزرش کی گئی ہے کہ وہ دوران سفر اپنے گاڑی کے اصلی کاغذات اپنے ساتھ رکھے تاکہ محکمہ اور مسافروں کو دوران سفر مشکلات درپیش نہ ہو۔
Gazr excise police karwaye 3

Gazr excise police karwaye 1

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
11182

چترال پولیس نے بمبوریت میں کیلاش خواتین کو ہراسان کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا۔

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ )‌چترال پولیس نے بمبوریت میں کیلاش خواتین کو ہراسان کرنے والے ملزم کو گرفتارکیاہے۔ ایمل خان کو چترال کی لیڈی پولیس نے پشاور سے گرفتار کیا۔ لیڈی پولیس سے گرفتاری کا مقصدملزم کو یہ احساس دلانا تھا کہ چترال کی خواتین کمزور نہیں اور ان کو ہراسان نہیں کیا جاسکتا۔ڈی پی او چترال منصورآمان نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے کہ جنہوں نےسوشل میڈیا پر خواتین کوہراسان کرنے جیسے اہم سماجی موضوع کو اجاگر کیا۔

[fbvideo link=”https://www.facebook.com/faykhan333/videos/10156311330964336/” width=”500″ height=”400″ onlyvideo=”1″]
دریں اثنا چترال کے مختلف مکاتب فکر تبدیل ہونے والے ڈی پی او منصورآمان کو شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں‌نے جاتے جاتے ایک اہم ملزم کوگرفتار کرکے انصاف کےکٹھرے تک پہنچا دیا ہے .انھوں‌نے ایس ایچ او بمبوریت اور بمبوریت پولیس کی بھی کاوشوں‌کو سراہا ہے .

chitral police arrest amal khan in case of harrasement of kalash ladies

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
11161

جے سی سی نے تین منصوبوں بشمول چترال شندور روڈ کی منظوری دی ہے،سی پیک منصوبوں پر بریفنگ

Posted on

جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی نے تین منصوبوں بشمول چترال شندور لنک روڈ کی منظوری دی ہے ۔۔۔سی پیک منصوبوں پر بریفنگ
پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) خیبر پختونخوا کے نگران وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات عبد الروف خٹک کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت زیر تعمیر اور زیر غور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں تفصیلی بحث کی گئی ۔ اس کے علاوہ موقع پر مختلف منصوبوں کی عوامی افادیت اور اہمیت پر گفت و شنید بھی ہوئی جبکہ جاری منصوبوں پر کام کی نوعیت انکی مالی حیثیت اور انکے معیار سمیت علاقائی ترقی میں کردار پر تفصیلی تبادلہ خیا ل ہوا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ جوائنٹ کو آرڈینیشن کمیٹی کی منظور کردہ منصوبوں پر کام جاری ہے جنمیں حویلیاں تا کوٹ ایکسپریس وے جسکی مجوزہ اخراجات کا تخمینہ 130 بلین روپے ہے، سکھی کناری ہائیڈ رو پاور پراجیکٹ (تخمینہ لاگت 180 بلین روپے)اور ہکلا ڈی آئی خان موٹر وے (تخمینہ لاگت 129 بلین روپے) شامل ہیں جبکہ مذکورہ کمیٹی نے اپنے چھٹے اجلاس میں خیبر پختونخوا کیلئے مزید 03 منصوبوں کے اصولی منظوری دی ہے جس میں چترال شندور لنک روڈ، رشکئی سپیشل اکنامک زون اور سر کلر ریل پراجیکٹ شامل ہیں ۔ اجلاس میں ان منصوبوں پر جاری اقدامات کا جائزہ لیا گیا جبکہ نگران وزیر منصوبہ بندی و ترقیات نے تمام ترقیاتی منصوبوں پر عمل در آمد کو بروقت یقینی بنانے کیلئے اقدامات کی ہدایت کی اور اس سلسلے میں چھوٹے بڑے تمام اقدامات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی ہدایت کی ۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
11159

عوامی ایکشن کمیٹی گلگت کا اجلاس، آرڈر 2018یکسرمسترد

چترال (چترال ٹائمزرپورٹ ) عوامی ایکشن کمیٹی گلگت کا ایک اہم اجلاس گزشتہ دن زیر صدارت چیئرمین مولانا سلطان رئیس مرکزی دفتر واقع ڈار پلازہ گلگت میں منعقد ہوا جس میں ایگزیکٹیو باڈی کے تمام ممبران نے شرکت کی۔اجلاس میں گلگت بلتستان کی 70سالہ محرومیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آرڈر2018 ؁ء کا ایک دفعہ پھر جائزہ لینے کے بعد یکسر مسترد کرتے ہوئے اسےGBکے مظلوم و بے آئین عوام کے ساتھ سراسر مزاق قرار دیا۔جبکہ یہ امر واضح ہے کہGB کا آئینی استحکام مملکت پاکستان کے استحکام کی ضمانت ہے۔مگر مسند اقتدار پر بیٹھنے والے حکمرانوں نے آئینی بدنیتی کی بنیاد پر اپنے ذاتی مفادات کی چراگاہ بناتے ہوئے گزشتہ 7دہائیوں سےGBکو بے آئین رکھا عوامی ایکشن کمیٹیGBکے مسائل و مشکلات اور بڑھتی ہوئی عوامی بیداری کے پیش نظر اس امر پر یقین رکھتی ہے کہ آرڈر پر آرڈر اس قوم کا مقدر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔لہٰذا آرڈر2018 ؁ء کو یکسر مسترد کرتے ہوئے باضابطہ اور منظم جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں علماء کرام، دانشوروں اور یوتھ کو آن بورڈ رکھتے ہوئے لائحہ عمل طے کیا گیا۔اجلاس میں متفقہ طور پر مندرجہ ذیل قراردادیں منظور ہوئیں۔
۱۔ یہ اجلاس آرڈر2018 ؁ء کو یکسر مسترد کرتا ہے اور وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت GBکو عوامی امنگوں کے مطابق بااختیار نظام دیا جائے۔
۲۔ یہ اجلاس چیف سیکریٹری بابر حیات تارڈ کے حالیہ بیان پر سخت غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے اور اس بیان کو گلگت بلتستان کے عوام کی تذلیل گردانتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ موصوف کی یہ کوئی پہلی غلطی نہیں ہے سوچے سمجھے منصوبے کے تحتGBکے عوام میں غم و غصہ پیدا کیا جارہا ہے تاکہ آرڈر 2018کے خلاف شروع ہونے والی تحریک سے توجہ ہٹا سکے۔یہ اجلاس چیف سیکریٹری آفس سے جاری کئے جانے والی وضاحتی بیان کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ جب تک موصوف خود بلتستان جاکر پوری قوم سے معافی نہیں مانگتا احتجاج جاری رہے۔عوام سے اپیل ہے کہ اس ضمن میں ہونے والے اجتماعات میں مقررین ریاست یا ریاستی اداروں پر تنقید سے گریز کریں۔
۳۔ یہ اجلاس تاجر اتحاد سست بارڈر کے تین نکاتی و مطالبات کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہCPECروٹ سست کے مقام پر گزشتہ 2ہفتوں سے جاری دھرنے والوں کے تین نکاتی جائزہ مطالبات کو تسلیم کرکے تاجر برادری کی بے چینی کو دور کیا جائے۔
یہ اجلاس GBکو قومی دھارے میں شامل کرنے اور مکمل آئینی حیثیت کے تعین کے حوالے عیدالفطر کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی جس میں تمام پارٹی سربراہان اور علاقے کی با اثر اور معزز شخصیات کو دعوت دی جائے گی تاکہGBحقوق کے حوالے سے ایک قومی بیانئے پر متفق ہو سکیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
11030

جشن شندور سے متعلق بے سروپا خبریں‌نہ پھیلائی جائے…شہزادہ سکندر الملک

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) پولوا یسوسی ایشن چترال کے صدر شہزادہ سکندر الملک نے گلگت بلتستان کے ایک مقامی اخبارمیں شندور فیسٹول سے متعلق شائع شدہ خبر کے بعض حصوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں شندور میں چترال کی ضلعی انتظامیہ اور گلگت بلتستان کے حکام کے درمیان جشن شندور کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں متفقہ فیصلہ ہوا تھاکہ خیبر پختونخوا ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی مالی معاونت سے اس فیسٹول کا انتظام و انصرام ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن چترال ، چترال سکاوٹس اور پولیس کرے گی جبکہ سیکیورٹی کے انتظامات میں گلگت بلتستان پولیس کو بھی شامل کیا جائے گا۔ جمعرات کے دن جاری کردہ ایک اخباری بیان میں انہوں نے کہاہے کہ 1982ء سے اس فیسٹول کے لئے فنانسنگ کا کام اس صوبے کا ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کرتا رہا ہے جوکہ اب بھی جاری ہے جبکہ اس کا انتظام ضلعی انتظامیہ کے ہاتھ میں رہا ہے جسے چترال سکاوٹس کی مدد حاصل رہی ہے اور اس سال بھی یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔ شہزادہ سکندر الملک نے کہاکہ فیسٹول میں مہمان خصوصی کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا لیکن اخبار نے اس بارے میں غلط بیانی کی ہے۔ شہزادہ سکندر الملک نے زور دے کرکہاکہ جشن شندور چترال اور گلگت بلتستان کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ان میں اخوت کے جذبے کو پروان چڑہانے کا اہم ذریعہ ہے اور اس موقع کو اختلافات کو ہوا دینے کے لئے استعمال ہرگز نہیں کرنی چاہئے اور ایسے بے سروپا خبروں کی اشاعت سے غلط فمہیاں جنم لیں گے جوکہ دونوں علاقوں کے مفادات کے خلاف ہوگا۔
sikandarulmulk

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
11019

جنرل پرویز مشرف کے کاغذات برائےقومی اسمبلی این اے ون چترال میں جمع کرائے گئے

چترال ( محکم الدین ) سابق صدر پاکستان اور آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی این اے ون چترال کیلئے داخل کر دیے گئے ۔ پارٹی کے ضلعی صدر سلطان وزیر ، ویمن ونگ کی سکرٹری جنرل تقدیرہ اجمل ، فوکل پرسن وقاص احمد ایڈوکیٹ ، شہزادہ امیر الحسنات پی کے ون کے نامزد امیدوار اور محسن حیات نے پارٹی ورکروں کے ایک بڑے ہجوم میں پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسر این اے ون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج چترال محمد خان کو پیش کی ۔ اس موقع پر آل پاکستان مسلم لیگ کے سابق واحد ایم این اے شہزادہ افتخارالدین بھی پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے این اے ون کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کیلئے موجود تھے ۔ پیر کے روز کاغذات نامزدگی کے داخلے کی آخری تاریخ ہونے کی بنا پر ریٹرننگ آفیسران کے آفس کی حدود میں امیدواروں اور اُن کے حامیوں کا زبردست رش رہا ۔ اور ریٹرننگ آفیسران بھی بغیر وقفہ کئے مسلسل کام کرتے رہے ۔سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے کاغذات نامزدگی داخل ہونے کے بعد چترال کی انتخابی ماحول میں گرمی آگئی ہے ۔ لیکن اب بھی لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں ہے ۔ کہ پرویز مشرف الیکشن لڑنے کیلئے پاکستان اور چترال آسکتے ہیں ۔ پرویز مشرف کی پارٹی کی طرف سے ڈاکٹر امجد این اے ون چترال ،تقدیرہ اجمل اور سلطان وزیر نے این اے ون اور پی کے ون اور شہزادہ امیرالحسنات المعروف شہزادہ گل و محسن حیات نے پی کے ون کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کئے ۔ پرویز مشرف کی طرف سے کاغذات ناصر علی شاہ نے جمع کیا اوررسید وصول کیا جبکہ مشرف کی طرف کی تجویز کنندہ کے طور پر مشرف کے معروف دوست احمد خان آف برغوزی نے دستخط کئے جبکہ ان کے بیٹے کا نام بطور تائید کنندہ درج تھا۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین این اے ون ، عبدالولی خان ایڈوکیٹ پی کے ون کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کئے ۔قبل ازین متحدہ مجلس عمل کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے اُمیدوار ہدایت الرحمن نے جمیعت العلماء اسلام کے درجنوں کارکنان اور نامزد امیدوار این اے ون چترال مولانا عبد الاکبر چترالی کی معیت میں کاغذات نامزدگی داخل کی ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مولانا عبد الاکبر نے کہا ۔ کہ چترال کے لوگوں کی ہر مرتبہ یہ خواہش رہی ہے ۔ کہ علماء اور مذہبی جماعتوں میں اتحاد ہو ۔ اور مسجد و مدرسہ اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں ۔ تو آج یہ عوام کیلئے انتہائی خوشی کا مقام ہے ۔ کہ علماء میں اتحاد قائم ہوا ہے اور ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن کیلئے میدان میں ہیں ۔ اس لئے چترال کے لوگ بھی اپنے مطالبے کا پاس رکھتے ہوئے ایم ایم اے کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کریں ۔ بعد آزان پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے این اے ون چترال کیلئے سابق ایم پی اے سلیم خان اور پی کے ون کیلئے سابق ایم پی اے حاجی غلام محمد نے کاغذات نامزدگی داخل کی ۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے پہلے نامزد امیدوار سلیم خان اور حاجی غلام محمد نے کہا ۔ کہ پیپلز پارٹی جب بھی اقتدار میں آئی ہے ۔ چترال کیلئے ناقابل فراموش کام کئے ۔ چترال کے اندر ترقیاتی منصوبوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ جنہیں پیپلز پارٹی کی حکومت اور اُن کے نمایندوں نے ممکن بنا یا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اقتدار میں آنے کے بعد تعلیم و صحت کے ساتھ ساتھ چترال تاجکستان روڈ ، چترال گلگت روڈ ، گولین بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھانا ، چترال مستوج اور چترال ٹو بمبوریت روڈ کی تعمیر ہماری تر جیح ہیں۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہم ہی چترال کو دو ضلع بنائیں گے ۔ سلیم خان اور حاجی غلام محمد نے لوگوں سے اپیل کی ۔ کہ ترقی کو سامنے رکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں ۔ اس موقع پرکارکنان نے پارٹی کے حق میں زبر دست نعرے لگائے ۔ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں آزاد اُمیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کئے ہیں ۔ جن میں سابق بیورکریٹ شہزادہ دروشپ تیمور خسرو سر فہرست ہیں جنہوں نے این اے ون کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کی ہے ۔ جبکہ شہزادہ امان الرحمن بھی پی کے ون کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کریں گے ۔ سیاسی پارٹیوں میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے این اے ون کیلئے عبداللطیف ، پی کے ون کیلئے اسرار الدین اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے این اے ون کیلئے عیدالحسین اور پی کے ون کیلئے ڈاکٹر سردار احمد نے پہلے ہی کاغزات نامزدگی داخل کر دیے ہیں تاہم کاغذات نامزدگی داخلے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس لئے ریٹرننگ آفیسران کی طرف سے این اے ون چترال اور پی کے ون چترال کے امیدواروں کی فائنل فہرست کا انتظار ہے ۔

chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 3

chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 7
chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 1

chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 17

chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 16
chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 13

chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 14

chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 15
chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 10

chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 9

chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 8
chitral nomination papers gen musharraf and pmln mma independence 6

ppp chitral nomination papers 2

ppp chitral nomination papers 3

ppp chitral nomination papers 5

ppp chitral nomination papers 6

ppp chitral nomination papers 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
10922

بچوں کی زندگی بچانے کے لئے مخیر حضرات اور حکومت سے امداد کی اپیل

ساکنہ بشقیر بالا گرم چشمہ سے تعلق رکھنے والے گل ولی خان ولد نصیر خان نے تمام مخیر حضرات اور حکومت وقت سے اپیل کی ہے کہ ان کے دو بیٹے Heamophieia A کے مرض کا شکار ہیں۔ بڑے بیٹے عمر ولی خان جس کی عمر 18 سال ہے گزشتہ 17 سال سے وہ ان کا علاج کرارہے ہیں مگر تنگدستی کی وجہ سے وہ ان کا بھر پور علاج نہیں کر پا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا بیٹا اپاہیج ہونے کے قریب ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو ہر ماہ 22 ہزار کی انجیکشن لگتی ہے اب گزشتہ دو سال سے ان کے چھوٹے بیٹے جنید ولی کو بھی یہ بیماری لاحق ہوگئی ہے بیماری ابھی شروع کے اسٹیج میں ہے اور ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر ابھی سے ان کا صحیح علاج کیا گیا تو وہ عمر بھر کی معذوری سے بچ سکتے ہیں۔ وہ غریب آدمی ہیں اور اپنے بیٹوں کا علاج کرانے سے قاصر ہے۔ اب تک علاج معالجے میں ان پر 7لاکھ کا قرضہ بھی چڑھا ہوا ہے۔ گل ولی نے تمام مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی غریبی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے بیٹوں کے علاج میں ان کی مدد کریں تاکہ رمضان کے مبارک مہینے میں ان کو ثواب دوگنا ہو کر ملے۔گل ولی نے موجودہ حکومت، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے بھی اپنے بچوں کے علاج کے مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔ مخیر حضرات گل ولی خان کے موبائل نمبر 0346-9205798 پر ان سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ یا ان کے یوبی ایل بینک اکاؤنٹ نمبر 07680010040947650015 برانچ کوڈ 0140768یا نیشنل بینک گرم چشمہ کے اکاؤنٹ نمبر 3118679856پر امدادی رقم جمع کرسکتے ہیں۔
Umar nd Juniad patients chitral

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
10919

عید الفطرکیلئے15سے18جون تک عام تعطیلات کا اعلان

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) مرکزی حکومت نے عید الفطر کے سلسلے میں‌عام تعطیلات کا اعلان کیا ہے . وزارت داخلہ کی طرف سے جاری نوٹفیکشن کے مطابق 15جون سے 18جون تک عید الفطر کے تعطیلات ہونگے .
eid notification

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
10849

سابق صدر جنرل پرویز مشرف این اے ون چترال سے الیکشن لڑیں‌گے،

اسلام آباد (چترال ٹائمز رپورٹ )‌ سپریم کورٹ نے سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کیلے کاغذ ات نامزگی جمع کرانے کی اجازات دی ہے ۔ اور خود 13 جون کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کو کہا ہے پاکستان آنے پر کوئی گرفتاری نہی ہو سکتی. اج عدالتی فیصلے کے فورا بعد کاغذات نامزگی NA 1 چترال بہجوا دی گئی ہے جو کل جمے کو جمع کرائے جائیں‌گے. جبکہ مذید چار اور کنسٹیچیونسی سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے جائیں‌گے.
آل پاکستان مسلم لیگ کی اسلام آباد آفس کے محراب ولی خان نے چترال ٹائمز کو بتایا کہ پروز مشرف عید کے فوران بعد پاکستان تشریف لائیں‌گے کارکنان نے زبردست جوش و خوروش استقبال کی تیاریاں شروع کردی ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
10801

مزدور بہت مجبور…….. سید تنویر حسین شاہ گلگت

Posted on

’’اس شہر میں مزدور جیسا کوئی در بدر نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا کوئی گھر نہیں ‘‘
ہر سال یکم مئی کو یوم مزدور منایا جا تا ہے ۔اس دن ٹی چینلز پر ٹاک شوز ،ریڈیو پر خصوصی پروگرامز اور اخبارات میں سپیشل ایڈیشن شائع ہوتے ہیں ۔اسی طرح کانفرسسز اور جلوس کا بھی اہتمام کیا جا تا ہے ۔آپ حیرا ن ہو گئے ہونگے کہ آج یکم مئی تو نہیں اس کے باوجود مزدوروں کے حوالے سے تحریر کا کیا مقصد ہو سکتا ہے ۔مزدور معاشرے کا وہ مجبور طبقہ ہے جس کی زندگی انتہائی مشکل ترین ہوتی ہے ۔ہم سب کو ان کے مجبوریوں اور مشکلات کا علم ہونے کے باوجود ان کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ان کی مشکلات کا تذکرہ ہمیں صرف یکم مئی کو ہی یاد آتے ہیں ۔یکم مئی کے دن ٹی وی چینلز پر حکمران ،سیاستدان اور سماجی شخصیات مزدوروں کے ساتھ خوب ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور مزدوروں کے حوالے سے بنائے قوانین پر عملدرآمد پر زور دیتے ہیں لیکن اگلے دن ہی یہ دعوے اور باتیں دفن ہو جاتی ہیں اور یکم مئی کو پھر یہ دعوے اور باتیں انہیں آتے ہیں،پھر سے یہی دعوے اور باتیں روایتی انداز میں ہوتی رہتی ہیں ۔مزدوروں کو سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مزدور انتہائی سخت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔قارئین کچھ دن پہلے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی جانب ہمیں مزدوروں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ڈاکومنٹری بنانے کا کہا گیا ۔اس سلسلے میں دوستوں کے ہمراہ مزدوروں کی تلاش میں ہم نے گلگت شہر اور مضافات کا سروے کرنے کی غرض سے نکل پڑے ۔اتنی شدید گرمی تھی کہ چلنا بہت مشکل تھا لگ نہیں رہا تھا کہ اتنی سخت گرمی اور رمضان کے مہینے میں ہمیں کوئی مزدو مزدوری کرتے ملے گا ۔اس غرض سے جب ہم نے جوٹیال کا رخ کیا تو ہمیں کئی مزدور ملے جو کہ اس شدید گرمی اور رمضان کے مہینے میں بھی محنت مزدوری میں مگن تھے ۔چونکہ ہمارا ٹاسک ان مزدوروں سے ملنا اور ان کے مسائل کی ریکارڈنگ کرنا تھا ۔اس حوالے سے کئی مزدوروں سے ملے ۔جن ،جن سے ہم ملے ان سب میں ایک مسئلے کا ہر کسی نے ذکر کیا کہ جہاں جہاں کام کرتے ہیں وہاں کام کے آخر میں پیسے وقت پر نہیں ملتے ایک مہینہ مزدور ی میں لگ جاتا ہے اور دوسرا مہینا اس کام کے پیسے لینے کیلئے متعلقہ مالکوں کے پیچھے در بدر ہونا پڑتا ہے ۔سخت ترین کام کے عوض معاوضہ کم ملتا توہے لیکن کم معاوضہ بھی وقت میں نہیں ملتا اور اس کے پیچھے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتا ہے ۔ان مزدوروں میں زیاد تر مزدور وں نے اپنے مسائل کیمرے کے سامنے میں آکر بیان کرنے سے انکار کیا جب ہم نے وجہ پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ اگر یہ باتیں ہمارے مالکوں کو پتہ چلا تو ہمیں پیسوں کی ادائیگی نہیں کرینگے اور ساتھ مزدوری سے بھی فارغ کرینگے ۔
قارئین !خود ہی اندازہ لگائے کہ مزدور کتنا مجبور ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو بھی بیان نہیں کر سکتا ۔مزدور اپنے بچوں کی خاطر خود ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہے ۔مزدوروں کے حوالے سے کئی قوانین بنائے گئے ہیں لیکن ان قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ مزدور کے مشکلات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے ۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کے اس کمزور طبقے کی آواز بنے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔
’’جو موت سے نہ ڈرتا تھا بچوں سے ڈر گیا
اک رات خالی ہاتھ ۔۔۔۔۔جب مزدور گھر گیا‘‘

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10757

شندورپولو فیسٹیول امسال 7جولائی کو منعقد کیا جائے گا، محمد طارق

Posted on

فیسٹیول سے قبل گراؤنڈ کی تزہین و آرائش،پانی کی سپلائی، ثقافتی اشیاء کے سٹالز،ٹرانسپورٹ کا انتظام ،سیاحوں اور وی وی آئی پیز کیلئے خصوصی انتظامات ،کلچرل نائٹ اور دیگرامور اجلاس میں زیرغور
پشاور( نمائندہ چترال ٹائمز) شندور پولو فیسٹیول رمضان المبارک کے باعث 5سال کے طویل عرصے کے بعد امسال اپنی مقرر کردہ تاریخ 7سے 9جولائی منعقد ہوگا ،جس میں سیاحوں کیلئے چترال سے شندور کیلئے ٹرانسپورٹ سروس اور گلگت بلتستان اور چترال کی مقامی ثقافت کی رونمائی کیلئے ثقافتی سٹالز سمیت محفل موسیقی کا بھی انعقاد کیا جائے گا ، ان خیالات کا اظہار سیکرٹری محکمہ سیاحت، ثقافت ، کھیل، آثارقدیمہ و امورنوجوانان محمد طارق نے کانفرنس روم ٹورازم کارپوریشن پشاور میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ سیاحت و ثقافت بابرخان، ایف سی ہیڈ کوآرٹر سے کرنل ثاقب، منیجنگ ڈائریکٹر ٹورازم کارپوریشن مشتاق احمد خان، ڈی پی او چترال منصور امان، ڈپٹی سیکرٹری محکمہ کھیل جمشید خان، جنرل منیجر ایڈمن اینڈ پراپرٹیز سجاد حمید، ڈپٹی ڈائریکٹرانفارمیشن عطاء الحق،ڈپٹی کمشنر چترال ارشادسدھیر ، سیکشن آفیسر سی اینڈ ڈبلیوانجینئر شبانہ مجیب، پی او ایڈمنسٹریشن امتیاز خان، جی ایم ٹی آئی سیز محمد علی سید، کیپٹن شہزاد144ونگ مستوج، اسسٹنٹ کمشنر مستوج اعون حیدر، ڈپٹی سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ رفیق مہمند، صدر چترال پولو ایسوسی ایشن سکندر الملک، پیسنجر سیلز منیجر پی آئی اے فیاض احمد، ڈائریکٹر کلچر اجمل خان ،پروڈیوسر ریڈیوپاکستان سرداراعظم خان اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری محکمہ سیاحت محمد طارق نے کہاکہ شندور پولو فیسٹیول بین الاقوامی شہرت یافتہ کھیل ہے ،فیسٹیول میں چترال اور گلگت بلتستان کی مقامی ثقافت کی بہترین انداز میں رونمائی کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ قومی ایئرلائن پی آئی اے 5سے 12جولائی چترال کیلئے خصوصی پروازوں کا اہتمام کرے جبکہ چترال سے شندور کیلئے مقامی سیاحوں کی رسائی کیلئے ٹرانسپورٹ سروس کا بھی آغاز کیا جائے گا ، شندور میں سیاحوں کی رہائش کیلئے بہترین ٹینٹ ویلیج بنایا جائے گا جبکہ کوشش ہے کہ امسال مقامی ثقافت کی رونمائی کیلئے ثقافتی سٹالز بھی لگائے جائیں، تین روزہ فیسٹیول میں کلچرل نائٹ سمیت علاقائی ہنرمندوں اورعلاقائی ثقافت کے فروغ کیلئے مختلف پروگرام بھی تشکیل دیئے جائینگے ،سیکرٹری محکمہ سیاحت محمد طارق نے کہاکہ شندور پولو فیسٹیول گزشتہ سال کی نسبت مزید احسن طریقے سے منعقد کیا جائے گا اوراس میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ چترال ، پاک فوج اور دیگر اداروں کا بھی تعاون حاصل رہے گا ، ہماری کوشش ہے کہ امسال شندور پولو فیسٹیول میں ملکی سیاحوں کیساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاح بھی گزشتہ سال کی نسبت زیادہ شرکت کریں تاکہ اس فیسٹیول کو کامیاب بنانے سمیت چترال میں سیاحت فروغ پا سکے، اس موقع پر انہوں نے فیسٹیول میں ٹینٹ ویلیج کے قیام ، پولو گراؤنڈ کی تزہین و آرائش، واٹرسپلائی ، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے احکامات جاری کئے،ان کا کہنا تھاکہ گزشتہ سال شندور پولو فیسٹیول کا کامیاب انعقاد کیا گیا جس میں گلگت بلتستان اور چترال کی ٹیموں نے شرکت کی، اجلاس میں فیسٹیول سے متعلق سہولیات جن میں پانی کی سپلائی، ملکی سطح پر فیسٹیول کی رونمائی، پمفلٹ اور براؤشرز کی چھپائی، انفراسٹرکچر جس میں سڑکیں اور دیگر راستوں کی تعمیر،گراؤنڈ کی تزہین وآرائش و لیولنگ،پاور سپلائی جنریٹر،ٹیلیفون کنکشن،ٹرانسپورٹ، الیکٹرانک میڈیا کی کوریج،کھانے پینے کا انتظام،سیکورٹی،لوکل ٹرانسپورٹ ،سیاحوں اوروی وی آئی پیز کیلئے ہیلی کاپٹر یا دیگر ٹرانسپورٹ سروسز ،شام کے اوقات میں کلچر نائٹ، میوزیک فیسٹیول، آتش بازی وغیرہ،دن میں پیراگلائیڈنگ، چترال ڈانس اور دیگر پرفارمنس،فوڈسٹالز،چترال اور گلگت کی مقامی ثقافتی اشیاء کے سٹالزاور دیگر اہم امور زیر غورآئے ، ان تمام امور کی مکمل تکمیل اور بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کافیصلہ کیا گیا۔
shandur festival 2018

shandur festival 20182

shandur festival 20183

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
10735

غذر سیاحت کے آئینے میں……..تحریروتصاویر؛کریم رانجھا

Posted on

یوں تو گلگت بلتستان کو قدرت نے تمام تر رعنائیوں سے نوازا ہے لیکن وادی غذر کی خوبصورتی کی اپنی الگ پہچان ہے۔میٹھے پانی کے چشمے، ندیاں،جھیلیں اور ان میں موجود نایاب ٹراؤٹ مچھلی غرضیکہ فطرت نے اس وادی کو بیش بہا نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔اس وادی کی سرحدیں ایک جانب مشہور زمانہ شندور کے ذریعے خیبر پختونخواہ اور دوسری جانب اشکومن سے ہوتے ہوئے افغانستان اور دیگر وسط ایشیا ئی ممالک سے جاملتا ہے ۔غذر کو اگر ’’جھیلوں کی سرزمین ‘‘کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔جھیلیں ہی ہیں جو اس وادی کو دیگر علاقوں سے ممتاز بناتی ہیں۔ہندارپ،کھکھش،پھنڈر اورخلتی کی جھیلیں ٹراؤٹ مچھلی کے شکار کے لئے پاکستان بھر میں مشہور ہیں ۔ان کے علاوہ اشکومن اٹر لیک،قرمبر لیک کی خوبصورتی بھی دیدنی ہے۔اشکومن کے مرکزی گاؤں چٹورکھنڈ سے چار گھنٹے کی پیدل ٹریکنگ کے بعد نالہ شکارگاہ کے مقام پر تین بڑے بڑے جھیل موجود ہیں جن کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔اس مقام پر ایک جھیل جو کہ ’’لوٹ چھت‘‘یعنی بڑی جھیل کے نام سے مشہور ہے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب گرمیوں میں جھیل بھر جاتا ہے تو آس پاس کے نالوں(ہاسس،شیرقلعہ اور چٹورکھنڈ)میں بھی خوب چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔مقامی لوگ اس بات کی تصدیق یوں کرتے ہیں کہ نالہ شکارگاہ میں گلہ بانی کے پیشے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے گرمیوں کے موسم میں مکھن پیک کرکے ٹھنڈا رکھنے کی خاطر اس جھیل کے کنارے رکھا،اگلی صبح مکھن غائب تھا،کہتے ہیں کہ کافی عرصے بعد یہی مکھن کسی زیرآب سرنگ سے ہوتے ہوئے نالہ شیر قلعہ میں چشمے کے پاس سے ملا(دروغ بر گردن راوی)۔ٹیرو اور درکوت(یاسین) میں موجود چشموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد کے لئے اکسیر ہے۔

Ghazur GB 1
غذر کے بیشتر نالے دروں کے ذریعے آپس میں ملے ہوئے ہیں،ملکی وغیر سیاحوں کی کثیر تعداد سالانہ ٹریکنگ کے لئے ان مقامات کا رخ کرتی ہے،قرمبر سے ایک جانب چیلینجی پاس واقع ہے اور شمال کی جانب افغانستان کی پٹی ہے۔مقامی لوگ گرمیوں کے موسم میں اس راستے کے ذریعے بروغل اور واخان کا رخ کرتے ہیں اور ان علاقوں سے خوش گاؤ اور دیگر مویشی سستے داموں لاکر فروخت کرتے ہیں۔
نالہ اسمبر سے ہوتے ہوئے یاسین کی جانب نکلا جاسکتا ہے ۔پھنڈر کے نالہ ہندارپ اور کھکش سے ہوتے ہوئے دیر ’’باشقر‘‘پہنچا جاسکتا ہے۔پکورہ،نلتر پاس ٹریکنگ کے شوقین حضرات کے لئے انتہائی پر کشش ہے۔

Ghazur GB 3
وادی غذر قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن برسوں کی حکومتی عدم توجہی کے باعث اس وادی کو وہ مقام نہ مل سکا جو کہ اس کا حق بنتا تھا،اس پسماندگی کے لئے حکومت کا کوئی ایک ادارہ ذمہ دار نہیں بلکہ ہر شعبے میں غذر کو پیچھے دھکیل دیا گیا لیکن اس وقت ہمارا موضوع سیاحت کا شعبہ ہے جو بری طرح زوال کا شکار ہے،سیاحوں کے لئے قیام کا کوئی بندوبست نہیں،علاقے میں ٹوریسٹ انفارمیشن سینٹرز موجود نہیں ،پورے ضلع میں دو پی ٹی ڈی سی ہوٹلز ہیں،پرائیوٹ سیکٹر میں بھی اس پر کام نہیں ہورہا ،سرکا ری ریسٹ ہاؤسز میں ’’ریزرویشن‘‘کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں۔گزشتہ دنوں تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والی طالبات کا وفد دورے پر آیا ہوا تھا،ان کے مقامی گائیڈ کے بقول ان طالبات کو ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس میں واش روم استعمال کرنے کے لئے بھی ’’اجازت نامہ‘‘طلب کیا گیا۔موجودہ حکومت ٹورزم کے فروغ کے دعوے توبہت کرتی ہے اگر سہولیات پر بھی توجہ دی جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔غذر کے بیشتر خوبصورت مقامات سیاحوں کے لئے ابھی تک ’’ان ایکسپلورڈ‘‘ ہیں اور لوگ اس جانب آنا بھی چاہتے ہیں لیکن جب تک ہم انہیں مناسب سہولیات فراہم نہ کر سکیں کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ایمت (اشکومن) کے مقام پر جی بی سکاؤٹس کی چوکی قائم ہے جہاں سے آگے مقامی افراد کے علاوہ کسی پاکستانی کو بھی جانے کی اجازت نہیں حالانکہ انٹرنیشنل بارڈر اس چوکی سے 70کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

Ghazur GB 2
سال نو کے آغاز پر ’’غذر کلچرل اینڈ سوشل فورم‘‘ نامی طلبہ تنظیم نے لوک ورثہ اسلام آباد میں ’’ایکسپلور غذر‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس کا بنیادی مقصد علاقے میں سیاحت کا فروغ تھا۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان جناب حفیظ الرحمٰن نے اس تقریب سے بحثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے علاقے میں سیاحت کے شعبے کو درپیش مسائل کا ذکر بھی کیا اور حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کی تفصیل بھی بیان کی ۔ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لئے پرائیوٹ سیکٹر کو بھی آگے آنا ہوگا۔حکومت اخوت بنک کے ذریعے علاقے کے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو بلاسود قرضے فراہم کرے گی نیز دو سے چار کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے بھی قرضہ دیا جائے گا لیکن اس اعلان پر عملدرآمد اب تک نہ ہوسکا۔

Ghazur GB 5
بلاشبہ سیاحت نہ صرف غذر بلکہ پورے گلگت بلتستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔امن وامان کی بہتر ہوتے صورتحال کے باعث سالانہ لاکھوں سیاح ان علاقوں کارخ کررہے ہیں لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ٹورزم انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان سیاحوں کو سنبھال نہیں سکتے۔گلگت سے ٹوریسٹ غذر کے بالائی علاقوں کی جانب جاتا ہے تو اس کو رات بسر کرنے کے لئے جگہ دستیاب نہیں لہذٰا وہ واپس گلگت کا رخ کرتا ہے۔صوبائی حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں متعلقہ پرائیوٹ اداروں کی سرپرستی کرے،علاقے کے نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی انتظام کرے۔ہر تحصیل میں کم ازکم پی ٹی ڈی سی کا ایک موٹل تعمیر کیا جائے ،ہوٹلنگ کے شعبے سے وابستہ افراد کو آسان شرائط پہ قرضے اور تکنیکی معاونت فراہم کیا جائے تبھی ہم سیاحت کی انڈسٹری سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

Ghazur GB 2

Ghazur GB 4

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10662

گلگت بلتستان آرڈر 2018 ۔۔۔۔ خدشات ، تحفظات اور اُمیدیں….تحریر : محمد شراف الدین فریاد ؔ

Posted on

گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2018 ؁ء کی منظوری پر جہاں حکمران جماعت خوش نظر آرہی ہے تووہاں متحدہ اپوزیشن اور عوامی ایکشن کمیٹی کے اکابرین نے آسمان سر پر اُٹھا لیا ہے اور مخالفت میں اس حد تک گئے ہیں کہ گزشتہ روز مشترکہ پریس کانفرنس میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں رابطہ مہم چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو یہ آرڈر ہرگز قابل قبول نہیں ۔ برداشت کا وقت ختم ہوا ہے ،جب تک ہمیں آئین پاکستان میں شامل کرکے مکمل آئینی صوبہ نہیں بنایاجاتا وفاقی حکومت کے کسی بھی اصلاحاتی پیکج کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ ادھر وفاقی کابینہ کی طرف سے گورننس آرڈر 2018 ؁ء کی منظور ی کے بعد وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی صاحب نے فوری گلگت کا دورہ کیا اور قانون ساز اسمبلی کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گلگت بلتستان آرڈر 2018 ؁ء کو گلگت بلتستان بھر کے تابناک مستقبل کے لیے تاریخی اقدام قرار دے دیا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اختلاف رائے سب کا بنیادی حق ہوتا ہے لیکن اپوزیشن کا اختلاف اُصولوں پر ہونا چاہیے اور انہیں حکومت کا موقف بھی سننا چاہیے ۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018 ؁ء کے تحت اختیارات کی منتقلی کے معاملے پر ہمیں اپنی جماعت کے اندر سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اب گلگت بلتستان کے عوام کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام کو حاصل ہیں ۔
قارئین کرام ! بے شک ہم وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی صاحب کے اس بات سے ہرگز متفق نہیں کہ اس آرڈر کے تحت گلگت
بلتستان کے عوام کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام کو حاصل ہیں مگر متحدہ اپوزیشن اور حکومت مخالف قوتوں نے اس پیکج کے مخالفت میں احتجاج کے جو حدود پارکیے یہ بھی کسی صورت درست نہیں ہے۔ اس طرح کے احتجاجی دھرنوں ، جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ جیسے واقعات سے سانحات جنم لیتے ہیں ، اللہ اللہ کرکے گلگت بلتستان میں امن قائم ہوا ہے محض اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کسی بڑے سانحے کی تلاش قومی خدمت ہرگز نہیں ہوسکتی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے حالیہ دورہ گلگت کو اطمینان بخش اس لیے قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس بے آئین خطہ کے عوام کی حوصلہ افزائی کے لیے خود آئے اور پیکج کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی ۔ گلگت بلتستان کے عوام اس اصلاحاتی پیکج کو مقامی انتظامی نظام میں بہتری کے طور پر قبول تو کرسکتے ہیں مگر اسے اپنا مکمل آئینی حق نہیں سمجھتے ۔ گلگت بلتستان کے عوام کو ملک کے دیگر صوبوں کے شہریوں کے برابر حقوق تب حاصل ہوں گے جب انہیں بھی پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ کے الیکشن میں ووٹ دینے کا حق ملے گا ۔یہاں کے عوام بھی اپنے مملکت کے صدر اور وزیر اعظم کے چناؤ میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے ۔سننے میں آرہا تھا کہ سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ان کی سفارشات میں بحیثیت مبصرین گلگت بلتستان سے تین تین نمائندوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دینے کی بات کی گئی ہے اگر ایسا ہوتا تو گلگت بلتستان کے عوام کے لیے زیادہ بہتر ہوتا اور عوام اسے آئینی حق کی طرف زبردست پیش رفت کے طور پر ضرور قبول کرتے اور حکومت مخالف قوتوں کو سیاسی چال چلنے کا موقع بھی نہیں ملتا مگر اس کے برعکس اگر گلگت بلتستان آرڈر 2018 ؁ء کے تحت نئی اصلاحات لائی گئی ہیں تو یہ بھی مکمل آئینی حقوق کی جانب اہم ترین پیش قدمی ہے اور اسے آئینی حقوق کی جانب پیش قدمی کے طور پر ہمیں قبول کرنا چاہیے ۔ موجودہ قانون ساز اسمبلی اب گلگت بلتستان اسمبلی کہلائے گی جیسے پنجاب اسمبلی ، سندھ اسمبلی ، کے پی کے اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کا نام دیا گیا ہے۔ چیف کورٹ کے بجائے اب گلگت بلتستان ہائی کورٹ ہوگی جو صوبائی حقوق کی جانب پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ اس آرڈر 2018 ؁ء کے تحت گورنر کا چناؤ مقامی سطح پر ہی کیا جائے گا جبکہ ججوں اور چیف جسٹس کا انتخاب بھی گلگت بلتستان سے ہی ہوگا تو یہ اس خطے کے عوام کے لیے نیک شگون ہے بلکہ صوبائی خودمختاری کی جانب ایک اہم قدم بھی ہے۔ ہمیں ان حقائق کو بھی کم از کم تسلیم کرنا ہوگا اور تنقید برائے تنقید کی سیاست سے ہٹ کر حقائق پر شاباش دینے کا حوصلہ بھی پید ا کرنا ہوگا ۔گزشتہ ایام وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب کا ایک نجی ٹی چینل کا پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں اُنہوں نے سینئر صحافی سلیم صافی صاحب کے ایک سوال کا خوبصورت اندا ز میں جواب دیا جو مجھے بہت ہی اچھا لگا جس میں اُنہوں نے کہا کہ ” اگر ہم آئندہ دوسالوں تک گلگت بلتستان کو آئینی دائرے میں نہ لاسکے تو آرڈر 2018 ؁ء کو عبوری آئین بنا دیا جائے گا ” صاف ظاہر ہے جب عبوری آئین ہوگا تو کوئی نہ کوئی قومی قیادت ضرور آئے گی جو اس عبوری آئین کو مکمل آئین کا شکل بھی دے سکتی ہے۔ ٹی وی پروگرام میں ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کی کل آبادی 16 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جو ایک صوبہ بننے کے لیے کافی نہیں ہے تو اس بات پر ہم وزیر اعلیٰ صاحب سے اختلاف کریں گے ، اس موقع پر حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب کو بتانا چاہیے تھا کہ اس وقت کے پی کے کے پاس چترال ، کوہستان اور ملازئی کے جو علاقے ہیں وہ ماضی میں گلگت بلتستان یونٹ کا حصہ رہے ہیں ،اگر مذکورہ خطے کے پی کے سے نکال کر ہمیں واپس کیے جائیں تو نہ صرف ہماری بکھری ہوئی تہذیب و ثقافت جڑ سکتی ہے بلکہ ایک صوبے کے لیے مطلوب افراد کی کمی بھی دور ہوسکتی ہے۔ ہم اس بات پر ہرگز اتفا ق نہیں کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کبھی کشمیر کا حصہ رہا تھا ہاں البتہ ہم کشمیری ڈوگرہ کی انتظامی تسلط کا حصہ ضرور تھے اگر کسی کے زبردستی قابض ہونے سے وہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے بھی اسی کا ہوتا ہے تو پھر 1847 ؁ء سے قبل ہم پر کشمیری ڈوگرہ نہیں بلکہ پنجاب کے سکھ قابض تھے ۔ کیا ہم پنجاب کے سکھوں کے بھی حصہ ہوں گے ۔۔۔۔؟ ایسا ہر گز نہیں ہوتا ۔ اگر مضبوط تاریخی دلائل دیے جائیں تو کشمیر کاز کو نقصان دیے بغیر گلگت بلتستان کا آئینی مسلہ حل ہوسکتا ہے جس کے لیے سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے ۔
بہر حال گلگت بلتستان کا نیا مسؤدہ آرڈر 2018 ؁ء کی منظوری پر جہاں گلگت بلتستان کی اپوزیشن و حکومت مخالف جماعتیں مخالفت کررہی ہیں وہاں ہمارے ہمسایہ حریف ملک بھارت کو بھی اس کے اجراء پر تکلیف ہوئی ہے حالانکہ اسے یہ حق حاصل نہیں کہ ہمارے معاملات میں مداخلت یا مخالفت کریں ،کیونکہ ہم نہ تو ماضی میں بھارت یا اس کی انتظامیہ کا حصہ دار رہے ہیں اور نہ ہی بھارتی حکومت کا کبھی اس علاقے پر کنٹرول رہا ہے ۔ کشمیری ڈوگروں کی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد 16 نومبر1947 ؁ء کو اس خطے کے عوام نے خود کو پاکستان میں شامل کر دیا ہے تب سے ہم اپنے آپ کو پاکستانی کہلا رہے ہیں ۔ بھارت ہمارے خطے پر دعویداری کے بجائے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑ رہا ہے اس سے باز آجائیں اور کشمیر پر سے اپنی غیر قانونی و خونی تسلط ختم کریں اور اپنے دل و دماغ سے نکال دیں کہ وہ گلگت بلتستان پربھی پنجے گاڑسکتا ہے جیسے اس خطہ (گلگت بلتستان ) کے دو اہم یونٹوں کارگل و لداخ پر پنجے گاڑ چکا ہے ۔ بھارت کو گلگت بلتستان کے ان دو اہم علاقوں کارگل اور لداخ سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا ۔
آخر میں گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ صاحب اور پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ کے ان بیانات پر کچھ ضرور کہوں گا ۔ مہدی شاہ صاحب کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ موجود ہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پہلے سکردو کے عوم اور اب گلگت کے عوام نے مسترد کیا ۔ اُنہوں نے آرڈر 2009 ؁ء کو آئینی حقوق کی جانب پہلا قدم قرار دیا ۔ مہدی شاہ صاحب ! وزیر اعظم صاحب کو عوام نے نہیں بلکہ چند سیاسی نمائندوں نے مسترد کیا ہوگا کیونکہ شاہد خاقان عباسی کی گلگت آمد کے موقع پر ہم نے کہیں بھی مخالفت میں عوام الناس کا کوئی قابل ذکر اور بڑا اجتماع نہیں دیکھا دوسری بات اگر مہدی شاہ صاحب 2009 ؁ء کے آرڈر کو آئینی حقوق کی جانب پہلا قدم کے طور پر شادیانے بجا رہے تھے تو حکمران جماعت والے2018 ؁ء کے آرڈر کو آئینی حقوق کی جانب تیز ترین پیش قدمی کے طور پر جشن منا رہے ہیں تو یہ کیسے غلط ہوسکتا ہے۔۔۔؟
امجد حسین ایڈوکیٹ صاحب کو اس بات کی تکلیف ہے کہ اس آرڈر 2018 ؁ء کے تحت ہمیں پاکستانی شہر ی تسلیم کیوں کیا گیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اس سے گلگت بلتستان کے عوام مسلہ کشمیر کی رائے شماری کی حق سے محروم ہوجائیں گے ۔ امجد صاحب آپ یہ کیسی باتیں کرتے ہیں کبھی کہتے ہو کہ ہم کشمیری نہیں ہیں ہمیں الگ آئینی صوبہ دیکر حق حاکمیت دی جائے تو دوسری طرف پاکستانی شہری بننے پر احتجاج کرتے ہو اور کشمیر کی رائے شماری سے محروم ہونے کی تکلیف تمہیں ستاتی ہے۔ میرے بھائی ! اگر ہم کشمیری ہی نہیں ہیں تو اس رائے شماری سے ہمارا کیا تعلق ۔۔۔؟ اب اگر کشمیر کا مسلہ قیامت تک حل نہیں ہوگا تو ہم کیا ایسے ہی رہیں گے ۔۔۔؟ ہمیں اس نام نہاد رائے شماری کی سوچ سے باہر آنا ہوگا اور مضبوط تاریخی دلائل سے خود کو تنازعہ کشمیر سے الگ کرنا ہوگا، تب اس خطے کے عوام کو ان کے تمام تر بنیادی ، سیاسی و آئینی حقوق مل سکتے ہیں ، بصورت دیگر قیامت تک ہم بھی یوں ہی کشمیر کے مسئلے میں لٹکے رہیں گے ۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10633

گلگت بلتستان ٹیکس فری زون ہی بہتر رہے گا ۔۔۔۔! ….تحریر: محمد شراف الدین فریا دؔ

Posted on

گزشتہ روز ڈپٹی سپیکر قانون ساز اسمبلی جعفراللہ خان کی صدار ت میں ہونے والے اجلاس میں جب اپوزیشن ممبر ان جاوید حسین اور کاچو امتیاز حیدر کی طرف سے ایک مشترکہ قرار داد اسمبلی میں پیش کی گئی جس میں گلگت بلتستان کو ٹیکس فری زون دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا رکن اسمبلی جاوید حسین نے کہا کہ سی پیک کے تناظر میں گلگت بلتستان کو مکمل فری زون قرار دیا جائے ۔ گلگت بلتستان متنازعہ ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا ٹیکس لاگو نہیں کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام سی پیک سے فائدہ حاصل کر سکیں جی بی کے عوام اورتاجروں کے معیشیت کا دارومدار بارڑر ٹریڈ سے ہے سی پیک کے تناظر میں گوادر پورٹ فری ہوسکتاہے تو گلگت بلتستان کیوں نہیں یہ سیاسی مسلہ نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان کے عوام کا مسلہ ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیر قانون شرارت کرکے قرارداد کو لٹکانا چاہتے ہیں اکثریتی رائے سے قرار داد منظور کی جائے ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کیپٹن (ر) شفیع نے کہا کہ اورنگزیب ایڈوکیٹ اور عمران ندیم گلگت بلتستان کے عوام پر ٹیکس لاگو کرنا چاہتے ہیں گلگت بلتستان کے عوام ٹیکس کے نام کے ہی خلاف ہیں صوبائی حکومت نے دوبارہ ٹیکس مسلط کرنے کے لیے سفارشات تیار کر لی ہے۔صرف میں نے دستخظ نہیں کی ہے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے اُنہوں نے گلگت بلتستان کو ٹیکس فری زون بنانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس موقع پر جواب دیتے ہوئے وزیر قانون اورنگزیب ایڈوکیٹ نے کہا کہ ٹیکس لاگو کرکے سفارشات پر اپوزیشن لیڈر کے دستخط ہے انکم ٹیکس 2012 ؁ء کو ختم کرکے نئے ریفارمز لانے کے لیے ۔ اس موقع پر اپوزیشن رکن نواز خان ناجی نے بھی قرار داد کی حمایت کی اور بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گوادر کو مصنوعی اہمیت دی گئی ہے ،گلگت نہ ہوتا تو کیا سی پیک واخان سے گزرتا ، گلگت بلتستان سی پیک کا انٹری پوائنٹ نہیں بلکہ شہ رگ ہے ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے کاچو امتیاز حیدر خان نے کہا کہ جب بھی حقوق کی بات کرتے ہیں تو کشمیر کا مسلہ لا کھڑا کیا جاتا ہے ہمیں کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں۔جب تک گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی نہیں ملتی کوئی ٹیکس نہیں لگنا چاہیے اُنہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان سے گزرے بغیر سی پیک مکمل نہیں ہوسکتا ۔ چیئر مین پبلک اکاونٹس کمیٹی کیپٹن (ر) صفدر علی خان نے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا ایک خوبصورت علاقہ ہے ٹریڈرز کو فری کیا جائے قرار داد کی مکمل حمایت کرتا ہوں ۔ عمران ندیم اور راجہ جہانزیب نے بھی قرار داد کی بھرپور حمایت کی ۔ ایک موقع پر ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان اور کاچوامتیازحیدر کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا جب کاچو امتیاز بار بار مداخلت کرکے بولنے کے لیے کھڑے ہوگئے تو ڈپٹی اسپیکر نے بیٹھنے کو کہا بار بار مداخلت پر ڈپٹی سپیکر نے کاچو امتیاز کو سخت لہجے میں کہا کہ آپ مجھے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے ٹیکس ہماری غلطی کی وجہ سے لگا ہے میری مرضی ہے میں قرار داد کو منظور کروں یا مسترد۔اس موقع پر میجر (ر) امین سپیکر کے حمایت میں کھڑے ہوئے اور کاچو امتیاز حیدر کو خاموش کرانے کی کوشش کی ، حکومتی بنچز پر بیٹھے ممبران اور وزراء نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سی پیک کے تناظر میں گوادر کو فری زون قرار دیا گیا ہے تو جی بی کو بھی ٹیکس فری زون قرار دیا جائے سی پیک پربڑے بڑے شادیانے بجائے گئے ہیں عوام کو بڑے بڑے خواب دکھائے گئے ہیں تبدیلی محسوس ہونی چاہیے ۔ غلام حسین ایڈوکیٹ نے بھی سوست چیک پوسٹ کی کو شتیال شفٹ کرنے کا مطالبہ کیا شفیق او روزیر تعلیم ابراہیم ثنائی نے بھی قرار داد کی حمایت کی ۔ معاملہ اس وقت بگڑا جب وزیر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے جذباتی اور کاغذو ں میں نہیں ہونی چاہیے گلگت بلتستان کو ٹیکس فری زون بنانا گورننس آرڈر اجازت نہیں دیتا کیا ٹیکس فری زون قرار دیکر ایک بڑی کمیونٹی کو بھی شامل کریں جی بی کے کاروباریوں کے لیے ٹریڈ فری ہونا چاہیے قرار داد پر نظر ثانی کی ضرور ت ہے قانونی پیچیدگیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے قرار داد پر آئینی او رقانونی ایشوز ہیں اس موقع پر اپوزیشن ممبران کیپٹن شفیع ، کاچو امتیاز اور نواز خان ناجی نے ڈپٹی سپیکر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپ اکثریتی رائے پر قانون منظور کریں لیکن ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ٹیکس جاوید اور کچھ لوگوں کی وجہ سے لگا ہے جو آج شور کررہے ہیں اس وقت یہ گیری کا کاروبار کرتے تھے ہم چاہتے ہیں کہ ٹیکس فری ہو لیکن وفاقی لوگوں کا مال لاکر نہیں ۔ اس موقع پر نواز خان ناجی سخت طیش میں آکر گرما گرم تقریر کرتے ہوئے ایوان سے واک آوٹ کرگئے اس کے ساتھ اپوزیشن کے تمام ممبران بھی اجلاس سے واک آوٹ کر گئے جس پر کورم کی نشاندہی پر ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا ٹیکس کے حوالے سے قرار داد کو وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی ، اقبال احسن ، عمران ندیم اور کیپٹن (ر) سکندر پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جو اس کا جائزہ لیکر رپور ٹ آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔
قارئین کرام ! ہمارے اراکین اسمبلی باالخصوص وزیر قانون کو گلگت بلتستان ٹیکس فری زون سے متعلق قرار داد کو ہنگامہ آرائی کے نذر کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ کوئی بھی خطہ جو آئینی حقوق سے محروم ہو اس کے بارے میں بین الا قوامی قوانین کیا کہتے ہیں ۔۔۔؟
بعض اراکین خطہ گلگت کو متنازعہ قرار دے رہے ہیں ہم اس سے بھی اتفا ق نہیں کرتے ہیں کیونکہ تاریخی حقائق کے مطابق گلگت بلتستان کا متنازعہ کشمیر سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے یہ حقائق کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں کہ مہاراجاوں نے اس خطے پر زبردستی قبضہ کرکے 1847 ؁ء سے 1935 ؁ء تک اپنا انتظامی تسلط قائم رکھا پھر 1935 ؁ ء تا 02 جولائی 1947 ؁ء تک اس خطے پر برطانوی حکومت کا عمل دخل رہا اور 3 جولائی 1947 ؁ء سے 31 اکتوبر 1947 ؁ء تک برطانوی حکومت کے ساتھ ساتھ کشمیری ڈوگرہ دونوں کا عمل دخل رہا ہے جس سے یہ مطلب نکالنا ہرگز جائز نہیں ہے کہ یہ خطہ کشمیر مہاراجاوں کا تھا وہ لوگ یہاں پر زبردستی قابض ہوئے تھے اور یہاں کے عوام انہیں بے دخل کرکے خود کو آذاد کرایاہے اور 16 نومبر1947 ؁ء کو باضابطہ طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا ہے جب سابق وزیر پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اس خطے کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں جائزہ کمیٹی تشکیل دی تھی تو اس خطے کے عوام میں اُمید کی ایک کرن پیدا ہوگئی تھی مگر یہ ہمارے خطے کی سیاسی قیادت و صوبائی حکومت کی کمزوری ہی قرار دی جاسکتی ہے کہ اُنہوں نے اس موقع سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا اور گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرانے کے لیے مضبوط تاریخی حقائق کا دفاع نہیں کرسکے ۔ ورنہ کہا جارہا تھا کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گلگت بلتستان کے تین تین منتخب نمائندوں کو بحیثیت مبصرین قومی اسمبلی اور سینٹ میں جگہ دینے کا فیصلہ ہوا ہے بحیثیت مبصرین اگر اس خطے کو قومی اسمبلی او رسینٹ میں نمائندگی مل جاتی تو یہ آئینی حقوق کے لیے پہلا قدم تصور کیا جاسکتا تھا اس کے بعد اگر گلگت بلتستا ن میں بعض ضروری ٹیکس عائد کیے جاتے تو شاید عوام قبول کرلیتے ۔اب اس خطے کی صورت حال یہ ہے کہ نہ تو آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر 1 میں شامل ہے اور نہ ہی پاکستان کے قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی حاصل ہے پھر اُوپر سے خطے کے عوام پر ٹیکس لاگو کرنا سراسر ناانصافی اور بین الا قوامی قوانین کے خلاف ورزی ہے ۔ بہتر یہی ہوگا کہ جب تک اس خطے کے عوام کو مکمل آئینی حقوق نہیں دیے جاتے تب تک اس خطے کو ٹیکس فری زون ہی قرار دیا جائے ۔ اُمید ہے کہ ٹیکس سے متعلق حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ ان معاملات کو یک زبان ہوکر متفقہ طور پر حل کرنے کی کوشش کرے گی۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10599

سی پیک میں گلگت بلتستان کا حصہ……. قسط دوم(آخری)……تحریر: دیدار علی شاہ

پچھلے کالم میں سی پیک کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اب بات کریں گے گلگت بلتستان میں سی پیک کے تحت صنعتی زون کے حوالے سے ، حکومتی نمائندوں سے ہم بار بار یہ سُن چکے ہے کہ سی پیک کے تحت پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی صنعتی زون بنے گا۔ اس حوالے سے دسمبر 2016 میں پاک چین تعاون کمیٹی کا چھٹا مشترکہ اجلاس میں پاکستان کی طرف سے وفاقی وزرا سمت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تھیں۔
اور اُن کے اعلامیے میں یہ بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے اندر مختلف صنعتی زونز کی تعمیر کی منظوری دی گئی۔ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ اس اجلاس میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں تھی اور نہ اعتماد میں لیا گیا تھا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کے لئے کوئی قابل غور منصوبہ نہیں ہے۔ اور عوام میں بھی اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
ابھی ایک مہینے پہلے گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں صنعتی زون کے حوالے سے جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اور کہا گیا کہ متفقہ طور پر’’ مقپون داس ‘‘ اور ’’ مناور ‘‘ نامی جگیں غور و خوست کے بعد انتخاب کیا گیا ہے۔ اب یہاں پر بھی یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ وفاق کی طرف سے ابھی تک واضح طور پر نہیں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں صنعتی زون بنے گا پھر جگہ کا انتخاب کیسا؟ اگر صنعتی زون کی منظوری ہوئی ہے تو کس نے یہ منظوری دی ہے؟ اگر یہ سیاسی چال ہے تو اس علاقے کے ساتھ ہمیشہ کی طرح زیادتی ہوگا، نہیں تو اس صنعتی زون بننے سے اس علاقے میں معاشی سرگرمیوں کا نیا باب ثابت ہوگا۔
سی پیک کے تحت صنعتی زون کے حوالے سے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں پہلے سے صنعتیں ہے، کاروبار زیادہ ہے، معاشی طور پر مضبوط بھی ہے ،تو وہ لوگ ان معاشی زونز میں سی پیک بزنس پلان کا حصہ بن کر بھر پور معاشی فوائد حاصل کر سکتیں ہے۔
مگر گلگت بلتستان میں ایسی صورت حال نہیں ، یہاں حالات مختلف ہے ، کوئی صنعتیں نہیں اور کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے یہاں پر صنعتی زون اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے یہاں پر موجود معاشی مواقعے کو مدنظر رکھتے ہوئے طریقہ کار کے تحت پلان واضع کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات طے ہے کہ OBOR کے تحت بننے والی CPEC آنے والے وقتوں میں پاکستان میں معاشی لحاظ سے اہم کردار ادا کرے گااور پوری دنیا میں ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے معاشی و دفاعی لحاظ سے تبدیلیاں رونما ہونگے۔ اب گلگت بلتستان ایسے کونسی اقدامات کریں کہ وہ اس اقتصادی راہداری سے معاشی اور معاشرتی طور پر فائدہ حاصل کر سکیں ایسے چند تجاویز عرض ہے۔
یہ بات گلگت بلتستان والوں کو ذہن نشین کرنی ہے کہ سی پیک ایک بزنس پلان ہے اور اس میں دنیا کے معاشی طاقتوں کا اثر ہے ، یہ ہو کر ہی رہے گا۔ لہذا گلگت بلتستان نے اگر اسے معاشی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی تو اس کا معاشی مستقبل ہوگا ، یا اسے خیرات یا امداد کے طور پردیکھا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔
سی پیک کے تحت گلگت بلتستان کو وفاق کتنا حصہ دیتا ہے اور گلگت بلتستان خود سی پیک سے اپنے معاشی و معاشرتی ترقی کے لئے کتنا حصہ لینے میں کامیاب رہتا ہے یہ دونوں الگ الگ باتیں ہے، کیوں ؟ زرا سوچئے کہ وفاق صرف صنعتی زون ، بجلی کی پیداوار اور کچھ چھوٹی چھوٹی پروجیکٹس ہو سکتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایک دن میں سی پیک کے تحت چار سو ٹرکس (کنٹینرز) خنجراب کے راستے گلگت سے گزرئیں گے تو اس کا ہمارے ماحول پر کتنا اثر پڑے گا؟ اتنے زیادہ آمدورفت سے یقیناًہمارے ماحول پر بُرا اثر پڑے گا اور ساتھ آب و ہوا، گلیشیرزپر انتہائی درجے کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلی اور ترجیحی بنیاد پر ماحول کی تحفظ کے لئے اقدامات ہوں۔
دوسری چیز یہاں کے نوجوان نسل کو ٹیکنکل کورسز کا اہتمام کرنا ہے۔ کیونکہ اگر یہاں پر صنعتی زون بنتا ہے تو وہاں پر افرادی قوت کی اشد ضرورت ہوگا جبکہ ایسے ٹکنیکل لوگوں کا گلگت بلتستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ گلگت میں ٹیکنکل کالج کا قیام یا پھر یہاں کے بچوں کو پاکستان کے دوسرے صوبوں میں تربیت دیا جائے یا چین میں اس کا اہتمام کیا جائے۔ تاکہ یہاں پر معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے افرادی قوت بھی پورا کیا جاسکیں۔
تیسری چیز یہاں کے نوجوان نسلوں کے لئے چین کے مختلف یونیورسٹیوں میں ماسٹرز، ایم فیل اور پی ایچ ڈی لیول کے لئے اسکالرشپ کا آغاز کیا جائے تاکہ چینی زبان ، کلچر، سی پیک اور وہاں کے ترقی کے میعار اور کام کو دیکھ کر گلگت بلتستان میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
چوتھی چیز گلگت بلتستان کے ثقافت اور زبان کے تحفظ اور ترویج کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب سی پیک کی معاشی سرگرمیاں پوری گلگت بلتستان میں شروع ہونگے تو اس کے کچھ منفی اثرات بھی ہونگے جس کا اثر یہاں کے ماحول، زبان اور ثقافت پر گہرا ہوگا، کیونکہ ملکی و غیر ملکی سیاح اور کاروباری افراد یہاں کا رخ کریں گے جس کی وجہ سے یہاں پر آبادی کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ اس کی وجہ کاروباری تناظر میں پاکستان کے دوسرے صوبوں سے لوگ یہاں پر زمین خرید لیں گے کیوں کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق پاکستان کے لوگ گلگت بلتستان میں زمین خرید سکتے ہے جبکہ کشمیر میں یہ قانون لاگو نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بروقت اقدامات مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
پانچواں چیز یہاں کی خشک میوہ جات اور زراعت میں بہتری لانا ہیں، اس حوالے سے پھل دار درخت زیادہ سے زیادہ لگانا اور ساتھ میں یہاں کے خشک میوہ جات کو تیار کر نے کے لئے پلانٹس کی تنصیب اور اسے مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے اقدامات انتہائی ضروری ہے۔اس کے ساتھ زراعت کے شعبے میں بھی بہتری کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔
چھٹا چیز سیاحت کا فروغ ہے ، ابھی تک گلگت بلتستان میں سیاحوں کی رہن سہن کے لئے کوئی قابل قدر انتظامات نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ سی پیک کے تحت یہاں پر آسان شرائط پر قرضہ اسکیم کا اجرا کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگ ہوٹلز اور دوسرے بنیادی ضروریات سیاحتی مقامات پر تعمیر کیا جا سکیں۔
ساتواں چیز انرجی سیکٹر ہے یہاں پر پاور پلانٹس کی تعمیر کر کے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کو روشن کر سکتیں ہے۔
آٹھواں چیز یہاں پر معدنیات کے ذخائر ہے جس کو استعمال کر کے گلگت بلتستان میں غربت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتیں ہے اور پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنا سکتیں ہے۔
نوایں چیز گلگت بلتستان کی حدود میں شاہرہ قراقرم پر سیکورٹی یونٹس کے لئے افرادی قوت یہاں سے بھرتی کرئیں گے یا یہ بھی پنجاب سے آئیں گے؟
دسویں چیز گلگت بلتستان کے حدود میں جو تجارتی کنٹینرز چلیں گے ، ان سے حاصل ہونے والے ٹال ٹیکس گلگت بلتستان کے لئے یا وفاق کو جائے گا؟
یہ بات حقیقت ہے کہ اگر اس مرتبہ وفاق نے سی پیک کے تحت گلگت بلتستان کے لئے کوئی خاص منصوبے نہیں رکھا ، تو پھر یہاں پر پاسماندگی، غربت، جہالت میں مزید اضافہ ہوگا اور احساس محرومی پیداہوگاجس کی وجہ سے بدامنی کا خدشہ رہے گا۔ اس لئے اس علاقے کی وسیع تر مفاد کے لئے حکومت پاکستان سی پیک کے تحت معاشی سرگرمیوں کے لئے یہاں پر زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کریں۔ اور یہاں پر ترقی کی رفتار کو تیز کر کے ایک ایسی ماحول تیار کریں جو معاشی، معاشرتی ، ماحولیاتی اور تعلیمی لحاظ سے پختہ ہو سکیں۔ ایسا کرنے سے مستقبل میں ریاست پاکستان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے اس علاقے کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی گئی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور اس بار بھی گلگت بلتستان کو نظر انداز کیا گیا تو پھر خدشہ ہے کہ حکومت کے لئے بہت سارے مشکلات پیدا ہو سکتی ہے، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ گلگت بلتستان کے رہنے والوں میں اب شعور پیدا ہوگئی ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے اندر اور باہر مختلف فورمز پر گلگت بلتستان کی حقوق کی بات زور پکڑتی جا رہی ہے۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کو بااختیار بنا کر اسے ترقی کی رفتارپر گامزن کرنا، اس کی ایک اچھی مثال یہ ہے کہ حال ہی میں چین نے صوبہ سنکیانگ جو مسلم اکثریتی صوبہ ہے اور پسماندہ بھی تھا، اب سی پیک کے تحت وہاں پر چین نے توجہ دیں کر، اب ترقی آسمان کو چھو رہی ہے۔ حالانکہ وہاں پر چند سالوں پہلے بدامنی نے بھی سر اٹھایا تھا مگر اب حکومت چین نے وہاں پر معاشی سرگرمیوں سے عوام کے محرمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
1977 کو شاہرہ قراقرم کی تکمیل کے بعد گلگت بلتستان میں بہت سارے تبدیلیاں رونماہ ہوئی ہے جس کے مثبت اثرات کے ساتھ کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوئی ہے ، اب40سال بعدیہ شاہرہ نہیں ہوگا بلکہ 55 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی اقتصادی راہداری ہے۔ اسے آج کی معاشی ، معاشرتی اور ماحولیاتی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اسی لئے گلگت بلتستان میں سی پیک سے متعلق تمام ممکنہ معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ماحولیاتی امور کو ذہن نشین اور طریقہ کار واضع کرتے ہوئے صنعتی زون کی تعمیر، بہتر سڑکیں، سیاحت کے فروغ، معدنیات کے لئے واضع پالیسی، ماحول پر منفی اثرات پر اقدامات ، زراعت کی بہتری اور بجلی کی پیداور کے لئے عملی طور پر منصوبہ بندی کے ساتھ کام شروع کرنا مقصود ہے ۔ ایسا کرنے سے گلگت بلتستان کا مستقبل روشن ہے ، گلگت ایک جدید شہرمیں تبدیل ہوسکتا ہے اور اس سے پاکستان معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے۔
اُس وقت چایئنہ نے شاہرہ قراقرم کی تعمیر دفاعی اور کمیونسٹ نظریہ کو وسعت دینے کے لحاظ سے تعمیر کیا گیا تھا مگر اب کوریڈور کی تعمیر کی وجہ اپنے معیشت کو وسعت اور مضبوط بنانا ہے۔ یہ ایٹمی طاقتوں کا کھیل ہے اور یہ کھیل اپنی معاشی مضبوطی کے لئے کھیلا جاتا ہے تاکہ دنیا میں وہ حکمران ہوں ، اس کھیل کے دوران چھوٹے چھوٹے علاقے اور رکاوٹوں کو کچلا جاتا ہے ، تاریخ میں ایسی واقعات بھری پڑی ہے ۔ اس لئے گلگت بلتستان عقلی و دانائی افکار کا مظاہرہ کر کے تاریخ میں اپنے آپ کو زندہ رکھیں۔
CPEC Logo 1

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10562

جی بی آرڈر – لاٹھی سے لاٹھی تک………. فکرونظر: عبدالکریم کریمی

Posted on

آج کل گلگت بلتستان آرڈر زبان زدِ خاص و عام ہے۔ عوام و خاص میں شدید الفاظ میں اس کی مخالفت ہو رہی ہے۔ اس مخالفت میں اس وقت شدت آئی جب پُرامن مظاہرین پر آنسو گیس اور فائرنگ کی گئی۔ پھر کل قانون ساز اسمبلی میں وزیراعظم کے سامنے جو کچھ ہوا۔ وہ حکمران جماعت کی حماقت اور بقول کاکو ایمان شاہ وزیراعلیٰ صاحب کی جذباتی تقریر نے بھی جلتی پہ تیل کا کام دیا۔ اپوزیشن ممبران کی طرف سے آرڈر کی کاپیاں وزیراعظم کے سامنے پھاڑنا اور فوجی (ر) امین کا اپوزشن پہ آوازیں کسنا اور حملہ کرنا جبکہ جواب میں ایک اپوزیشن ممبر جہانزیب کا اپنی لاٹھی سے فوجی (ر) امین کی بھری محفل میں دھلائی کرنا یہ سب باتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ ہمارے پاس لیڈروں کی کال اور ٹھیکیداروں کی بہتات ہے۔ یہ ایک بہتر افہام و تفہیم کے ساتھ اسمبلی فلور پر وزیراعظم کو قائل کرسکتے تھے لیکن سب جذبات کی رو میں بہہ کر آپس میں لڑتے رہے اور دشمن تماشا دیکھتا رہا شاید اس لیے کہا گیا ہے کہ لڑاؤ اور حکومت کرو۔ مجھے جہانزیب صاحب کی لاٹھی سے زیادہ وزیراعلیٰ کی جذباتی تقریر، فوجی (ر) امین کی بے تکی حرکت اور دیگر حکومتی ممبران کی تالیوں اور ’’یس سر‘‘ والے رویے پہ افسوس ہو رہا ہے۔ آپ کو عوام نے تالیاں بجانے کے لیے اسمبلی نہیں بھیجا ہے۔ مجھے فوجی (ر) امین سے گلہ نہیں کیونکہ کچھ لوگوں کی عمریں تالیاں بجھاتے اور سیلیوٹ مارتے گزرتی ہیں۔ لیکن آپ سب سے گلہ ضرور ہے۔ جہانزیب صاحب کے لیے اس لیے بھی داد اور اس کی لاٹھی اس لیے بھی قابلِ برداشت ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد انہی لاٹھیوں کے ذریعے ڈوگرہ راج کو مار بھگایا تھا بس فرق اتنی سی ہے کہ اس وقت لاٹھی کا استعمال دشمن پہ ہوا تھا اب کی بار آپس میں ہوئی اور دشمن تماشا دیکھتا رہا۔ کاش اے کاش ان تمام ممبران میں اتفاق ہوتا وہ اپنی سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر کم از کم دھرتی ماں کے لیے ایک ہوتے اور وہ نا لائق سہی بات کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا سہی لیکن لاٹھیوں اور گھونسوں سے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہونے کی بجائے اگر وزیراعظم صاحب کی توضع اس لاٹھی سے کرتے تو کم از کم کل کی تاریخ میں یہ بات لکھی جاتی کہ ایک غیر منتخب وزیراعظم کو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی میں پیٹا گیا۔ اس کے بعد پھر اس طرح کے آرڈرز اور پیکیجز دینے سے پہلے حکمران سو دفعہ سوچتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ وجہ صاف ظاہر ہے ہر کسی کو اپنی کرسی کی فکرکھائی جا رہی ہے۔ دھرتی ماں کی عزت داؤ پہ لگی ہوئی ہے۔ ستر سال گزرنے کے باوجود دھرتی ماں کی شناخت کا مسلہ اٹکا ہوا ہے۔ اور ہم سیاسی وابستگیوں کی آڑ میں کبھی رائیونڈ کی غلامی تو کبھی لاڑکانہ کی اور کبھی بنی گالہ کی۔ میرے خیال میں یہ سیاسی وابستگی نہیں بلکہ غلامی اور سیاسی پستی ہے۔ دوستِ محترم جمشید دُکھی نے بہت پہلے کہا تھا؎
رشتہ کبھی میاں سے کبھی بے نظیر سے
دو دو شکار لوگ کریں ایک تیر سے
انسانیت کے نام پہ کب ہوں گے لوگ ایک
ہے میرا یہ سوال جہاں کے ضمیر سے
یا پھر یہ اشعار؎
بدل دے خو امیرِ وقت ورنہ
سبق اقبال کے شاہین دیں گے
نہ بجلی دے سکے آدھی صدی میں
وہ حاکم کیا ہمیں آئین دیں گے
وزیراعلیٰ صاحب میری طرح اپنے مسلک کے مولوی بھی ہیں۔ ایک اچھے اور ذمہ دار انسان ہیں۔ اب تک بخدا مجھے ان کے کام پر بڑا رشک تھا۔ مجھے ان کی پارٹی سے کوئی سروکار نہیں اور کسی بھی پارٹی سےوابستگی نہیں۔ قلم کار کسی ایک پارٹی کے نہیں ہوتے لیکن کچھ قلم کاروں کی تحریریں دیکھ کر الٹی آتی ہے وہ مخصوص مسلک یا پارٹی کا آرگن بن کر اپنے ضمیر کا سودا تو کر ہی لیتے ہیں لیکن قلم و کاغذ کی حرمت کو بھی داؤ پہ لگاتے ہیں۔ ان دنوں بھی ہمارے ایک قریبی دوست جس کا ہر جملہ حفیظ زندہ باد سے شروع ہوکر مسلم لیگ ن زندہ پہ ختم ہوتا ہے۔ بخدا! اسی ڈر اور خوف سے کہ کوئی مجھے کسی سیاسی پارٹی کا آرگن نہ سمجھے کہہ کر میں سیاسی معاملات پہ نہیں لکھنا چاہتا تھا لیکن کئی قدردانوں نے مجبور کیا کہ مجھے بھی دھرتی ماں کے حوالے سے عوامی موقف حکومت کے سامنے رکھنا چاہئیے۔ خیر! یہ بات جملۂ معترضہ کے طور پر بیج میں آئی۔ بات ہو رہی تھی حفیظ سرکار کی۔ میں حفیظ صاحب کو سابق وزیراعلیٰ مہدی شاہ سے کمپئیر کرتا ہوں تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ مہدی شاہ خود کہا کرتے تھے کہ وہ انڈر میٹرک ہے اور ’’دیکھیں جی ہم کہتا ھوں۔‘‘ اور ’’آں آں آں‘‘ کہتے کہتے اپنے پانچ سال گزار دیے یا یوں سمجھے کہ گزر گئے کیوں کہ اس کے بعد ان کی اور ان کی پارٹی کی اجتماعی نمازِ جنازہ عوام نے الیکشن میں جس طرح پڑھائی تھی وہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے اور عوامی میڈیٹ کا مثبت اظہار بھی۔ لیکن اس کے مقابلے میں حفیظ صاحب جن کو میں پرسنلی جانتا تک نہیں ہوں اور نہ کبھی ہماری ملاقات ہوئی ہے، نے کئی حوالوں سے کام کرکے دکھایا۔ کام نہ سہی وہ اچھے طریقے سے اردو میں بات تو کرسکتے ہیں۔ اپنا موقف بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کرسکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس غلامانہ آرڈر کے حوالے سے بھی عوام کی آواز بنتے۔ اس کے لیے عوام اور اپوزشن ممبران کے ساتھ مل کر وزیراعظم کے سامنے احتجاج کرتے تو وہ صرف پانچ سال کے وزیراعلیٰ نہیں اس خطے کے عظیم لیڈر کی صورت میں تاریخ میں رقم ہو جاتے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ یورپ میں کتوں کو جو حقوق حاصل ہیں ہمیں ان کتوں کے برابر بھی حقوق میسر نہیں۔ اس کے باوجود عوام خاموش ہیں لیکن کہتے ہیں خاموشی جب ٹوٹتی ہے تو قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ جمشید دُکھی نے خوب کہا ہے؎
خاموشی میں بھی کوئی مصلحت ہے
میرے اہلِ وطن بزدل نہیں ہیں
جو کتوں کو حقوق یورپ نے بخشے
وہ انسانوں کو یاں حاصل نہیں ہے
دوستِ محترم عبدالخالق تاج کے مزاح میں کہے گئے یہ اشعار بھی دعوتِ فکر دیتے ہیں؎
بڑی مشکل سے آزادی ملی ہے
مگر آئین سے خالی ملی ہے
وہ لے کر چل دئیے آئین کے پھل
ہمیں خالی یہاں تھالی ملی ہے
شہیدو! میرے گلشن کے گلوں میں
تمہارے خون کی لالی ملی ہے
یہی وجہ ہے کہ جب سی پیک کی بات آتی ہے تو ہم پاکستانی، کے ٹو، ہمالیہ، راکاپوشی کی بات آتی ہے تو ہم پاکستانی، وطن کی دفاع کی بات آتی ہے تو ہمارے بچے شہید ہوتے ہیں اور ہم پاکستانی لیکن جب حقوق دینے کی بات آتی ہے تو مسلہ کشمیر سے نتھی، ہم متنازعہ اور پتہ نہیں کیا کیا۔ حد ہوتی ہے جناب!
اب بھی وقت ہے۔ اس کالے قانون جو آرڈر دوہزار آٹھارہ کے نام سے گلگت بلتستان کے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب کو اپنی پوری کابینہ کے ساتھ گلگت بلتستان کے عوام کی آواز بن کر اس کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم صاحب نے یقین دلایا ہے کہ وہ اس حوالے سے مزید تبدیلیوں کے لیے تیار ہے بشرط کہ ہمارا موقف ہمارے نمائندے بہتر انداز میں حکومت کو پریذنٹ کرے۔ ورنہ وقت بڑا ظالم اور تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے کہ عوام جب اپنی اپنی لاٹھیوں کو لے کر گھر سے باہر نکلیں گے تو شاید اس عوامی طوفان کے سامنے کرسی جلد یا بدیر ٹوٹ ضرور جائے گی اور لاٹھی سے لاٹھی تک کا یہ سفر بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ کسی دل جلے نے خوب ہی کہا ہے؎
وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
جمشید دُکھی صاحب کے ان اشعار کے ساتھ اجازت؎
میری دھرتی تو میری آبرو ہے
تیری تصویر پیہم روبرو ہے
تیری رعنائیوں اور خوشبوؤں میں
میرے اسلاف کا شامل لہو ہے
شبِ ظلمت کا ہوگا کب سویرا
اندھیرا ہی اندھیرا چار سو ہے
پتہ سسرال کا دو تو خبر لیں
میری ماں تو بتا کس کی بہو ہے
Lathi

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10528

گلگت بلتستان کےعوام بھارتی حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے پروپیگنڈے کو مسترد کرتی ہے۔۔۔رانی صنم

Posted on

گلگت ( چترال ٹائمز رپورٹ ) گورننس آرڈر 2018 ؁ء گلگت بلتستان کو جہاں بھارتی حکومت نے مسترد کر دیا ہے تو وہاں مقامی اپوزیشن رہنماؤں کی سخت مخالفت سے واضح ہوگیا ہے کہ بھارتی حکومت اور مقامی اپوزیشن رہنماؤں کا موقف ایک ہی ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ یہ لوگ ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام بھارتی حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ “ن” خواتین ونگ کی سینئر نائب صدر رانی صنم فریاد ؔ کی صدارت میں منعقدہ پارٹی ورکر اجلاس میں کیاگیا ۔ اجلاس میں کہا گیا کہ نیا آئینی مسؤد ہ 2018 ؁ء گزشتہ پیپلز پارٹی کے مسؤدہ 2009 ؁ء سے کئی گنا بہتر اور بااختیار ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے اذلی دشمن بھارت کے پیٹ میں بھی درد ہونا شروع ہوگیا ہے اور ان کے ساتھ مقامی نام نہاد اپوزیشن لیڈر شور شرابہ کر ارہے ہیں۔ ان کے شور شرابوں اور احتجاجی دھرنوں کے پیچھے ان کے ذاتی مفادات کار فرما ہیں ۔ ان میں سے بعض اپوزیشن لیڈروں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے بچوں و عزیز و اقارب کے لیے اعلیٰ سرکاری عہدے ڈھونڈ رہے ہیں اور پیغامات بھیج رہے ہیں تو دوسری طرف سادہ عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن بہادر اور قوم کے لیے باعث فخر لیڈر ہیں جن کی مخلصانہ کوششوں سے گلگت بلتستان میں نہ صرف امن و خوشحالی کے پھول کھل چکے ہیں بلکہ علاقہ تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
10512

اسمبلی کے فلور پر………. تحریر:مفتی ثناء اللہ انقلابی گلگلت

Posted on

گلگت بلتستان میں پاکستان کے منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی آمد پر اسمبلی فورم میں جو کچھ ہوا اس پر افسوس کے سوا کیا کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔کل تک گلگت بلتستان کی عوام کے بارے میں مشہور زمانہ قول زبان زد عام تھا نمکین چائے پینے والے میٹھے لوگ، سیاسی اتار چڑھاؤ کے موسم خزاں میں بھی اپنے آباؤ اجداد کے درخشندہ ماضی اور قابل رشک روایات واقدار کے امین ایک بہترین میزبان کی حیثیت سے بہاروں میں کھلتے شگوفوں اور خوشبو سے معطر گلاب و چنبیلی کی طرح ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ مہمان کا پرتپاک استقبال کر کے ایک بہترین پیغام تاریخ میں رقم کرتے مگر صد افسوس ایسا نہ ہو سکا ۔ مہدی شاہ کے دور میں ہزاروں اختلافات کے باوجود حزب اختلاف ن لیگ نے پانچ سالہ دور میں قابل رشک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا مگر کیا کیا جائے جب کوئی قوم عروج سے زوال کا سفر شروع کرتی ہے تو پہلی اور آخری نشانی یہی ہے کہ اس قوم کے سرکردہ لیڈر حواس باختگی میں جمہوری اقدار اور عالمی سیاسی آداب و اخلاق سے عاری اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں ۔ حال میں تو گلگت بلتستان کی عوام کے مینڈیٹ کی توہین پر اتر آئے یوں ایک خوشگوار ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے چند نا عاقبت اندیش منتخب نمائندوں نے جی بی اسمبلی میں بد مزگی کا ماحول فراہم کیا ایسے حالات میں مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی سیاسی شعور سے نا بلد غریب عوام کیا توقع رکھے گی اپنے ان نا سپاس سیاسی نمایندوں سے موجودہ نازک صورت حال میں منتشر قوم کو یہ لوگ کیسے ایک قوم ایک وطن ایک نظریہ پر جمع کر سکیں گے جو چند گھنٹے خاموشی بردباری کے ساتھ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو سننے کی صلاحیت سے یکسر خالی ہیں وہ لوگ کیسے اس متنازع خطے کی ملٹی کمیونٹی عوام کو جدید دور کے چیلنجز اور عالمی بدلتے حالات میں اپنا کھویا وقار اور عظمت رفتہ کی بحالی کے راستے میں قوم کو ڈال سکیں گے ۔ اسمبلی فورم کے ممبرا ن تو سنجیدگی اور حسن تکلم کے بے تاج بادشاہ شائستہ زبان اور اعلیٰ اخلاق کے پر تو ہوتے ہیں مگر یہاں تو جی بی اسمبلی کو مچھلی بازار بنایا ہوا ہے، گالم گلوچ ، عدم برداشت ، ہاتھا پائی کے واقعات تو مہذب معاشرے کے مقدس ایوانوں کی توہین کے زمرے میں آتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آئندہ انتخابات میں ایسے نمائندوں کو اسمبلی کے فلور پر بھیجے جن کی نمائندگی قوم کو قعرمذلت سے نکال کر کامیابی و کامرانی اور ترقی کے عوج ثریا سے روشناس کرائیں ۔ الیکشن کے دنوں میں قومیت، لسانیت اور فرقہ واریت کے خوفناک لباس میں ملبوس سیاسی شعور سے کوسوں دور نابالغ ، لڑاکو اور فسادی قسم کے نمائندوں کی دولت کی ریل پیل کی چمک آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے پھر وہی ہوتا ہے جو آج کل گلگت بلتستان کے مقدس ایوانوں ہوا۔ تف ہے ایسی قیادت اور ایسی نمائندگی پر جو برداشت ، تحمل اور صبر کے لباس سے عاری ہو کر بد مزگی کے اسباب مہیا کر کے پوری قوم کی تذلیل کے مرتکب ٹھہرتے ہیں ہیں پھر فخریہ انداز میں اخبارات و جرائد کی شہ سرخیاں بن کر قومی دولت سے حاصل شدہ آرام دہ گاڑیوں میں باڈی گارڈوں کی جھرمٹ میں قہقہے لگا کر منظر سے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔گلگت بلتستان کی عوام اور اہل دانش و صحافی برادری کی بڑی اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے حالات میں قلم و کاغذ کا رشتہ قلم کے تقدس کے عین مطابق استعمال کر کے معاشرے کے ان گھناؤنے کرداروں کے ملفوف چہروں کی نقاب کشائی کر کے اصل حقائق سے پردہ اٹھائیں اور بتائیں اپنی قوم اور عوام کو کہ آپ کے ووٹوں کا مذاق سر عام اڑانے والے نمائندگی کا استحقاق نہیں رکھتے ۔جب گاڑی کا ڈرائیور ذہنی مریض ہو تو سواریوں کی دعائیں کوئی کام نہیں دیتی بلکہ منزل مراد تک رسائی سے قبل گاڑی کے ایکسیڈنٹ ہونے کا قوی اندیشہ مسافروں کو مسلسل ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتا ہے ایسے ہی منتخب نمائندے ریاستی آداب و اخلاق سے عاری اوچھے اور البیلے انوکھے اور نرالے حرکات و سکنات سے ماحول پراگندہ کریں تو ایسی قوم جلد اپنا وجود خطروں میں ڈال کر ہلاکت و بربادی سے اپنے رشتے استوار کرتی ہے۔ گلگت بلتستان کے باسیو خدا را اب کی بار ایسی غلطی مت کرنا کہ تمہیں دوبارہ ندامت کے آنسو بہانا پڑیں ، بڑی مشکل سے امن کا خوبصورت ماحول پروان چڑھا ہے ریاست مزید امن و سلامتی ، محبت و پیار کے جذبات کو پروان چڑھانے کی متقاضی ہے نہ کہ عد م برداشت ، ضد ، بغض، حسد اور کینہ کے ذہنی مریضوں کی آماجگاہ ہے ، ذہنی مریضوں کے لئے شفا خانے بنے ہوئے ہیں نہ کہ اسمبلیاں لہٰذا الحذر ایسے نا عاقبت اندیش نمائندوں سے قابل مذمت ہیں ریاست کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے ہم آواز بننے والے لیڈران کے غیر مناسب رویئے ہم گلگت بلتستان کی قوم امید کرتے ہیں کہ آئندہ کے لئے ہماری امیدوں پہ یوں پانی نہ ڈالا جائے بلکہ مکمل بردباری کے ساتھ ریاست کو چلنے دیا جائے۔ موجودہ ن لیگ کو چین و سکون کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کا موقع دیا جائے تاکہ حالیہ دنوں کی بد مزگی سے عوام میں پائی جانے والی بے نا م سی تشویش کا ازالہ ہو سکے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10510

اشکومن، فلنگ اسٹیشن میں آتشزدگی، علاقے کو بڑی تباہی سے بچایا گیا

Posted on

اشکومن(کریم رانجھا) ؔ گاڑی میں تیل ڈالنے کے دوران فلنگ اسٹیشن کے فلنگ ایریا میں آگ بھڑک اٹھی،موقع پر موجود افراد نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگ کو پھیلنے سے روک دیا،گاہکوچ سے فائر بریگیڈ کی گاڑی طلب ،کوئی جانی نقصان نہیں ہوا،پمپ میں آگ بجھانے والے آلات نہ ہونے کا انکشاف۔چٹورکھنڈ تحصیل آفس سے متصل طاہر فلنگ سٹیشن میں ہفتے کی صبح 7:30بجے آلٹو کار میں تیل بھرنے کے دوران شارٹ سرکٹ کے باعث آگ بھڑک اٹھی اس دوران موقع پر موجود افراد نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی کی مدد سے آگ کوپھیلنے سے روک دیا تاہم فلنگ مشین جل کر خاکستر ہوگیا،پولیس تھانہ چٹورکھنڈ کو اطلاع ملنے پر ایس ایچ او چٹورکھنڈ برکت اللہ نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور گاہکوچ سے فائر بریگیڈ کی گاڑی بھی طلب کرلی تاہم گاڑی کے پہنچنے سے قبل آگ پر قابو پایا جاچکا تھا۔آگ لگنے کی وجہ سے پمپ کا ملازم معمولی زخمی ہوا ۔آگ کے ٹینکی تک پہنچنے کی صورت میں بڑی تباہی کا خدشہ تھا۔پمپ کے ساتھ ہی تحصیل کی عمارت موجود ہے اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ آگ بجھانے کے لئے ضروری سامان Fire Extinguisherپمپ میں موجود نہیں تھا ،حادثے کے بعد ایک نجی سکول سے آلہ منگوایا گیا۔
petrol pump ishkoman

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
10435

قلندر کی کتاب اور میراپیش لفظ ……..فکرو نظر: عبدالکریم کریمی

Posted on

یہ جولائی دوہزار بارہ کی بات ہے جب میری ڈیوٹی گوپس یاسین میں تھی۔ ایک یوتھ کیمپ کے حوالے سے کچھ دنوں کے لیے میں ہندور یاسین میں خیمہ زن تھا۔ ایک دن میں کیمپ آفس کے باہر سبزہ زار میں بیٹھا کچھ نوجوانوں کے ساتھ کسی موضوع پر محوِ گفتگو تھا۔ اتنے میں ایک نوجوان بڑے احترام سے کمر تک جھکتے ہوئے مجھ سے ملے۔ سلام دُعا کے بعد جب اس نوجوان نے اپنا نام نیت شاہ قلندرؔ بتایا تو یقین کیجیے گا مجھے وہ نوجوان نیت شاہ کم، قلندر زیادہ لگا تھا۔ ان سے اچھی طرح بات بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے اجازت لی اور دوبارہ حاضر ہونے کا کہہ کر رخصت ہوئے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ وہ نوجوان پھر حاضر ہوئے اور ایک خوبصورت ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہا: ’’سر! یہ میری یادوں کا البم ہے جو شاعری کی صورت میں صفحۂ قرطاس پر اُتارنے کی کوشش کی ہے۔ آپ ایک نظر اس پر ڈال دیجئے گا۔ شاید آپ کو میرے قلندر ہونے کا ثبوت ملے۔‘‘ میں ہنسا اور دِل میں یہ سوچتے ہوئے شرمندگی محسوس کی کہ یہ شاعر کتنے حساس ہوتے ہیں شاید انہوں نے میری نظروں کی حرکت کو سمجھ لیا تھا جو مجھے نیت جان کم اور قلندر زیادہ دکھا رہی تھی۔ اس میں میرا کیا دوش؟ بعض دفعہ انسان کا حلیہ اس کے اندر تک کی کہانی بتا دیتا ہے۔ خیر! میں نے اُن کی ڈائری لی اور ابھی پہلے ہی صفحے پر تھا کہ راز کھل گیا۔ نیت شاہ قلندرؔ کسی سے مخاطب تھے ؂
کوئی رنگیں سماں نہیں ہے ابھی
کوئی شورش یہاں نہیں ہے ابھی
زندگی پر جمود طاری ہے
کوئی جذبہ جواں نہیں8 ہے ابھی
اب ذرا بادل چھٹنے لگے۔ جب زندگی پر جمود طاری ہو، کوئی جذبہ جواں نہ ہو اور کوئی سماں بھی رنگین نہ ہو تو انسان قلندر نہ بنے تو کیا بنے…… لیکن نیت شاہ اس قلندری کے باوجود بھی حسین مناظر کے شاہد نظر آتے ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ ؂
حسن اِک لاجواب دیکھا ہے
جب اُنہیں بے نقاب دیکھا ہے
دن کو بھی چاندنی بکھیرے جو
میں نے وہ ماہتاب دیکھا ہے
جب انسان حسن کا اسیر ہوتا ہے تو خود کو بھول جاتا ہے اور ہر اس بات اور وقت کو لاشعوری طور پر یاد رکھتا ہے جب جب اس سے حسن سے دوچار ہونا پڑتا ہے یا یوں کہیے کہ پہلی محبت کب، کہاں اور کس سے ہوئی تھی اور کیونکر ہوئی تھی…… ایک ایک لمحہ یاد رہتا ہے جیسے نیت شاہ قلندرؔ کو بھی اچھی طرح یاد ہے ؂
بڑی اچھی طرح سے یاد وہ چودہ نومبر ہے
بہت گہری عقیدت سے ہم اُس دن کو مناتے ہیں
قلندرؔ کا کیا دوش…… یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے جو دردِ دل رکھتا ہے۔ میری کتاب ’’تیری یادیں‘‘ میں جب میری ایک آزاد نظم چھپی۔ جس میں جولائی کا ذکر اور پہلی محبت کا تذکرہ تھا تو گویا یہ نظم نوجوان نسل کے دل کی آواز ثابت ہوئی۔ آپ کی دلچسپی کے لیے وہ نظم آپ کی بینائیوں کی نذر کیے دیتا ہوں ؂
وہ سب بیتے ہوئے لمحے
جو تیرے ساتھ گزرے تھے
سنہرے مسکراتے دِن
حسیں مہکی ہوئی شامیں
نشے میں ڈولتی راتیں
تیری قربت میں جو بیتے
وہ ہر پل یاد آتے ہیں!!
وہ سارے پیار کے موسم
تیری قربت میں جو بیتے،
میں اب ان یادوں کی قربت میں جیتا ہوں
جولائی کامہینہ جب بھی آتا ہے
میرا دِل جھوم جاتا ہے
اسی پیارے مہینے میں
محبت مجھ پہ اُتری تھی
سنو! پیارے!
مجھے تم یاد آتے ہو
بہت ہی یاد آتے ہو
کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں
کہ کس کو یاد رکھنا ہے
کہ کس کو بھول جانا ہے
تمہاری یاد میں اکثر
بہت برسات ہوتی ہے
تو ایسے میں سبھی گزرے ہوئے لمحے
میری آنکھوں میں آکر رقص کرتے ہیں
وہی میں ہوں، وہی تم ہو
میری آنکھیں، تیرا چہرہ
مری دھڑکن، تری چاہت
مجھے تم یاد آتے ہو!!!
انسان جتنی بھی جمیلہ کاوشیں کریں یاعظمیٰ ارادے باندھے…… شگفتہ یادیں کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں…… بس ایک سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہتی ہیں…… میرے بیتے دنوں کی یادیں جب کتابی صورت میں نظرنواز ہوئیں تو ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ کی صدائے بازگشت ہر طرف سنائی دی…… مگر میں تھا اور میری یادیں تھیں کہ شاید پھر نہ ملیں ہم کے تکرار کے باوجود بھی ہم روبرو رہے، ملتے رہے، بچھڑتے رہے…… پھر ’’فکرونظر‘‘ کی نظرنوازیاں بھی یادوں کی برات میں شامل ہوتی رہیں کہ یادوں کی ایک ایسی برات جو ’’تیری یادیں‘‘ کی دسترخواں میں جامِ زیست نوش کرتی رہی…… گویا ہم سب پابہ رکاب ہیں جہاں یادیں ہوں وہاں پھول اور چاند چہرے و نرگسی آنکھیں ایسے لازم و ملزوم ہوتے ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ادھورا لگتا ہے۔ اکثر قارئین کو مجھ سے شکایت ہے کہ میری تحریروں میں پھولوں اور چاند چہروں و نرگسی آنکھوں کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میرے مطابق ان دو چیزوں سے محبت کیے بنا انسانیت کی معراج تک پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ ان میں سے ایک کے بغیر جہاں تصویرِ کائنات کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے تو وہاں دوسرے کے بغیر کائنات کی خوبصورتی کا تصوّر ہی نہیں کیا جاسکتا۔ شاید اس لیے یہ دونوں میرے لیے غیرمعمولی ہیں۔
نیت شاہ قلندرؔ کہاں کسی سے پیچھے رہنے والے ہیں اپنی یادوں کی دُنیا سے ہم، آپ، سب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں ؂
بیتے دنوں کی یادوں سے کوئی کرے سوال
کیوں روز آکے ہم کو یہ آنسو پلاتے ہیں
اسی طرح اپنی کتاب میں ایک اور جگہ کہتے ہیں ؂
کسی کی یاد میں ہم نے کیئے مٹی کی نذر
وہ موتیوں کا بھی کچھ تو حساب ہو جائے
موتیاں کیا ہیں؟ یہ عمر عزیز یا زندگی کے وہ یادگار دن ہوتے ہیں جو کسی کی یاد میں گزر جاتے ہیں۔ زندگی کے ہزار رنگ اور ہر رنگ میں ہزار داستاں…… کبھی کبھی زندگی، جوانی، یادیں، باتیں، چہرے…… ہاں چاند چہرے اور پتہ نہیں کیا کیا…… ایک دم یادوں کی سکرین میں ایسے نمودار ہوتے ہیں کہ انسان خود کو بے بس تصوّر کرنے لگتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جی چاہتا ہے کہ وقت کی زنجیر کو کھینچے مگر ایک سعیِ لاحاصل کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ جیسے مستنصر حسین تارڑ کی سفری داستاں ’’شمشال بے مثال‘‘ ہو یا سلمیٰ اعوان کی یادیں ’’سندر چترال‘‘…… ’’ہنزہ داستاں‘‘ میں ایک چاند چہرے کی طرف سے ایک گلاس پانی کا نذرانہ ہو یا میری زیر طبع کتاب ’’یہ میرا گلگت بلتستان‘‘ کا سفرنامہ…… بس داستانیں ہی ہوتی ہیں جو زندہ رہتی ہیں باقی سب نے فنا ہونا ہے یہاں تک کہ زندگی نے بھی۔ زندگی کے اسی فلسفے پر نیت شاہ قلندرؔ اپنی کتاب ’’داغ ہائے دِل‘‘ میں کہتے ہیں ؂
آفاتِ شب و روز سے نالاں ہے زندگی
لگتا ہے جیسے مرکبِ دوراں ہے زندگی
خالی ہیں یاں قلوب سب اُلفت کے نور سے
کیا پوچھتے ہو صورتِ زنداں ہے زندگی
ایک اور جگہ کہتے ہیں ؂
کانٹوں کی سیج ٹھہری نیتؔ اپنے واسطے
اور اُن کے واسطے گُلِ ریحاں ہے زندگی
زندگی کی اسی بے وفائی اور جان سے عزیز لوگوں کی جدائی پر ’’ہائے باباجی!‘‘ کے عنوان سے نیت شاہ قلندرؔ نے جو نظم لکھی ہے وہ ہمیں رُلانے کے لیے کافی ہے۔ اپنے مرحوم والد سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں ؂
جاتے جاتے کاش بابا کچھ بتا دیتے مجھے
اور پھر اِک بار سینے سے لگا دیتے مجھے
لب سے کوئی بات دِل کی تم سنا دیتے مجھے
ہاتھ سے کوئی نشانی تم تھما دیتے مجھے
جا رہا ہوں کہتے بابا اب نہ لوٹ آؤں گا کاش
خود بھی روتے اور جی بھر کر رُلا دیتے مجھے
کیوں گئے ہو یوں مجھے سوتے ہوئے میں چھوڑ کر
آپ نے ویسا بھی سونا تھا جگا دیتے مجھے
ہائے رے بابا گرا دینا ہی تھا یوں فرش پر
اتنی اُونچائی تلک پھر نہ اُٹھا دیتے مجھے
ہر ہُنر ہر کام ہر اِک بات سکھلا دی تھی کاش
اپنے بن دُنیا میں جینا بھی سکھا دیتے مجھے
چھین لینا تھا مرے بابا کو بے دردی سے یوں
میرے مالک پہلے پھر پتھر بنا دیتے مجھے
ایسے حالات سے دوچار ہوکر ہمیں قلندرؔ کی شاعری میں مایوسی کی بھی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جیسے ؂
اب کوئی بشر مجھ کو نہ جینے کی دُعا دے
اب لمحہ کوئی مجھ کو اضافی نہ خدا دے
یوں حالتِ بسمل میں پڑا رہنے سے بہتر
ہے کوئی مرے تن سے یہ گردن ہی اُڑا دے
قلندرؔ کی شاعری میں جہاں ہمیں عشق مجازی نظر آتی ہے وہاں پس منظر میں وہ عشق حقیقی کے پرچارک بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے ؂
ترے گلاب سے رُخسار جھیل سی آنکھیں
یہ کس پری سے مجھے واسطہ پڑا توبہ
یہ اُس کے نور کی تھوڑی سی اِک جھلک تو ہے
حسین کتنا ہوگا خود مرا خدا توبہ
کسی اور جگہ کہتے ہیں ؂
تو نے ہی بڑھایا ہے مرا رب سے تعلق
کیا سب سے جدا طرزِ عبادت جو عطا کی
المختصر، نیت شاہ قلندرؔ ایک پُزعزم نو آموز نوجوان شاعر ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی پہلی کاوش ہے۔ جس پر میرے قابلِ صد احترام دوستوں، عبدالخالق تاجؔ ، خوشی محمد طارقؔ اور جمشید خان دُکھیؔ کے تأثرات یقیناًقلندرؔ کی شاعری کو اٹھان دینے کے لیے کافی ہیں۔ تینوں احباب ادبِ شمال کی شان اور مان ہیں۔ ان کی رائے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے صرف اس کتاب کی نوک پلک درست کرنے کی حامی بھر لی تھی مگر قلندرؔ کے اصرار پر کتاب کا پیش لفظ بھی لکھنا پڑا۔ قلندرؔ کی کچھ غزلیں جہاں حلقۂ ارباب ذوق گلگت کے طرحی مشاعروں کی مرہونِ منت ہیں وہاں کچھ غزلیں میری کتاب ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ کی زمین پر لکھی گئی ہیں اور انہوں نے بہت خوب لکھا ہے۔ کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے اُسلوبِ کریمیؔ کو مشرف بہ قلندری کیا ہے۔ زمین وہی، بحر وہی، پکار وہی، یاس وہی…… پتہ نہیں کیا کیا…… لیکن ان کا انداز اور الفاظ مختلف ہیں۔ بقول سیف الدین سیفؔ ؂
سیفؔ ! اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دُنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
میں اس کتاب کی اشاعت پر نیت شاہ قلندرؔ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ’’داغ ہائے دِل‘‘ سے دو اشعار آپ کی بینائیوں کی نذر کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا ؂
سنگین کس قدر ہے خدایا سزائے دِل
کیا جانے کوئی خود جو نہ ہو مبتلائے دِل
اب سہنے ہی پڑینگے قلندرؔ یہ رنج و غم
جب تک ہے اس جہان میں باقی قضائے دِل
نیک خواہشات اور ڈھیر ساری دُعاؤں کے ساتھ۔
نوٹ: یہ پیش لفظ نیت شاہ قلندر کی کتاب ’’داغ ہائے دل‘‘ کے لیے لکھا گیا تھا۔ ان کی کتاب شائع ہوئی ہے۔لیکن نہ جانے اس پیش لفظ میں بعض پیراگراف کو کیوں نکالا گیا ہے۔ اس لیے پورا پیش لفظ آپ کی خدمت میں پیش کی۔ شکریہ!
dagh haye dil

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10361

لاسپورکے تاریخی ورثہ میوزیم میں گیارویں صدی عیسوی کی اشیاء کو نمائش کیلئے رکھا گیا ہے…محکمہ سیاحت

پشاور(چترال ٹائمز رپورٹ) ایکو ٹورازم کے فروغ کیلئے تجویز کردہ ایک چھوٹا سا منصوبہ ورثہ میوزیم کا اب حقیقت میں تبدیل ہوگیا، اپرچترال کے علاقے وادی لاسپورمیں ہرچین کے مقام پر یہ ایک ایسا میوزیم قائم کیا گیا ہے جس میں گیارویں صدی عیسوی کی اشیاء کو نمائش کیلئے رکھا گیا ہے ، یہ میوزیم شندور روڈ پر واقع ہے ،گلگت بلتستان سے شندور پاس سے ہوتے ہوئے مستوج کی طرف آتے ہوئے بھی اس میوزیم کی جانب باآسانی پہنچا جا سکتا ہے ،محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا پائیدار ٹورازم فاؤنڈیشن ،اے کے آر ایس پی کی کاوشوں کو سراہتی ہے جن کی سوچ اور محنت رنگ لائی اور لاسپور وادی کے ہرچین میں ورثہ میوزیم قائم کیا گیا ہے ، تفصیلات کے مطابق میوزیم میں گیارویں صدی عیسوی میں جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار، گھروں کی اشیاء، روایتی لباس، لکڑی کی بنی اشیاء، موسیقی کے آلات اور دیگر اشیاء کو رکھا گیا ہے ، پولو اس علاقے کا قدیمی اور تاریخی کھیل ہے جس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اس میوزیم میں قدیم دور کی پولو میں استعمال ہونے والے اشیاء بھی سجائی گئی ہیں ، اس کے علاوہ یہاں آنے والے سیاحوں کیلئے اپنی نوعیت کے انفرادی میوزیم کی سیر کے علاوہ ان کی رہائش کیلئے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر کیمپنگ سائیڈ بھی تعمیر کی جارہی ہے جس میں 30 افراد کی رہائش کی سہولت میسر ہوگی اور وہ یہاں کے ایکو ٹورازم ماحول سے لطف اندوز ہوسکے ہیں، اس کے علاوہ لاسپورکی مقامی آبادی سے آٹھ ایسے نوجوان بھی تیار کئے جائینگے جو کہ اس علاقے کارخ کرنے والے سیاحوں کیلئے بطور ٹریول گائیڈ اپنی خدمات پیش کرینگے ، اس کے ساتھ ساتھ وادی لاسپور میں چند تاریخی ثقافتی گھروں کی تزہین و آرائش بھی کی جائے گی اور ساتھ میں مقامی آبادی پر مشتمل گیسٹ ہاؤسز اور یہاں کی مقامی آبادی کی جانب سے تیار کردہ ثقافتی اشیاء کو فروغ دیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ مزید نئے اقدامات اگلے مرحلے میں اٹھائے جائینگے ، ٹورازم کارپوریشن کی بھی یہی کاوش ہے کہ صوبہ میں نئے سیاحتی مقامات کو آباد کیا جائے اور اس کے علاوہ مقامی آبادی کو سیاحتی مقامات کی آباد کاری سے مکمل فائدہ پہنچایا جائے تاکہ وہ اس فائدے سے مکمل مستفید ہوسکیں۔
Laspur mastuj chitral museum 2

Laspur mastuj chitral museum 3

Laspur mastuj chitral museum 5

Laspur harchin heritage museum 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged ,
10338

ضیا علی شہید- ٹوٹتی بکھرتی یادیں…… فکرونظر: عبدالکریم کریمی

نوٹ: کل ضیا علی شہید کی زیر نظر تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی تھی۔ ان کی تصویر اور تصویر پر ان کے چاہنے والوں کے کمنٹس دیکھتے ہوئے پرانی یادیں تازہ ہوئیں اور ضیا علی شہید پر لکھی گئی کئی سال پہلے کی ایک تحریر یاد آگئی جو ’’فکرونظر‘‘ کے کسی شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اُن دنوں میری ڈیوٹی گوپس غذر میں تھی۔ لیب ٹاپ میں ڈھونڈا، خوش قسمتی سے وہ تحریر مل گئی۔ خواہش ہوئی کہ قند مکرر کے طور پر آپ بھی پڑھے۔ بس ایک گزارش ہے کہ یہ تحریر کچھ سال پہلے کی ہے۔ اس کو اس تناظر پڑھا اور محسوس کیا جائے۔ شکریہ!
…………
Zia Ali Shaheed File Photo
رات سے برف بھاری ہو رہی تھی۔ دانت میں شدید درد کی وجہ سے میں رات بھر سو نہیں سکا تھا۔ صبح اپنے بیڈ روم سے باہر آیا۔ برف سے ڈھکی وادیِ گوپس ایک خواب ناک منظر پیش کر رہی تھی۔ دفتر جانے کے بجائے دانت کے درد کی شدت نے مجھے سول اسپتال گوپس پہنچا دی تھی۔ اسپتال میں مریضوں کا جمِ غفیر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ گزشتہ کچھ دنوں کے خشک اور ٹھنڈے موسم نے اپنا اثر دکھا دیا ہے۔ میں لوگوں کے پجوم کو چیرتے ہوئے ڈینٹل وارڈ میں داخل ہوا تھا۔ ہنستے کھلتے چہرے کے ساتھ ڈینٹل آفیسر مولا داد تمام مریضوں کو چھوڑ کر مجھ سے مصافحہ کرنے آگے بڑھے تھے۔ اس نوجوان کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی۔ اپنا تعارف کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’سر! میں ضیا علی شہید کا منجھلا بھائی ہوں۔‘‘
ضیا علی شہید………… یہ نام سن کر میں چونک پڑا تھا۔ اس کی وجہ ایک نہیں بلکہ کئی ایک تھیں۔ ان بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ تھی کہ گزشتہ سال بزمِ علم و فن سکردو کے زیر اہتمام ’’حسینؑ سب کا‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب میں، میں نے ایک تقریر کی تھی۔ جس کا عنوان ’’حسینؑ سب کا، کیا ہم سب بھی حسینؑ کے ہیں؟؟؟‘‘ تھا۔ بعد میں وہ تقریر ’’فکرونظر‘‘ کے کسی شمارے میں شائع بھی ہوئی تھی۔ پھر کیا تھا دھمکیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ امین ضیاؔ صاحب نے خوب ہی کہا ہے ؂
زبان سے کہتے ہیں ہم سب، حسینؑ سب کا ہے
یہ نعرہ دیکھ لو تاریخ میں کہ کب کا ہے
دھمکی دینے والے بار بار ایک نام لے رہے تھے کہ ’’جان عزیز ہے تو اس طرح کی تقریریں کرنے سے باز رہے ورنہ آپ کا انجام بھی ضیا علی جیسا ہوگا۔‘‘ خیر! دھمکی اپنی جگہ۔ ایسی چیزوں سے ضعیف الاعتقاد لوگ ڈرتے ہیں۔ اللہ پاک کا احسان ہے کہ میں ضعیف الاعتقاد نہیں ہوں۔ اس ذاتِ بابرکت پہ اتنا یقین کہ اس نے کب، کہاں اور کیسی موت دینی ہے اس سے ایک بال کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتی تو پھر یہ ڈر، خوف، دھمکی کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ ویسے بھی میں گھر میں الٹی کرتے ہوئے مرنے سے امن کے لیے مرنا مناسب سمجھوں گا۔ دوستِ محترم جمشید دُکھی کے بقول ؂
اگر ہو امن مجھ کو مارنے سے
مجھے سولی پہ لٹکاؤ خدا را!
آمد بر سرِ مطلب۔ ضیا علی شہید کے بارے میں لوگوں سے کافی کچھ سنا تھا لیکن اس دھمکی کے بعد ایک عجیب تجسّس پیدا ہوگیا تھا کہ آخر اس زمین زادے کا جرم کیا تھا جس کی وجہ سے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ دانت کے درد کی شدت نے ایک ڈینٹل آفیسر سے ملاقات کرواکر ایک دفعہ پھر حیرت و تجسّس کی دُنیا میں مجھے دھکیل دیا تھا۔ ضیا علی شہید کے بارے میں کچھ جاننے کی حسرت بڑھتی جا رہی تھی۔ مولا داد جیسے ذہین نوجوان کو مجھے یوں حیرت میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ انہوں نے رات کا کھانا اپنے دولت خانے میں ساتھ کھانے پر اصرار کیا۔
اب جبکہ میں ضیا علی شہید کے دولت خانے میں تھا۔ میرے سامنے ضیا علی شہید کی ماں اور ان کا منجھلا بھائی مولا داد تھا۔ ان کے والد محترم علی داد آج گھر پر موجود نہیں تھے اس لیے ان سے ملاقات کی حسرت باقی رہی۔ ضیا علی کے آباؤ اجداد کئی عشرے پہلے واخان افغانستان سے ہجرت کرکے یہاں گوپس میں آباد ہوچکے تھے۔ عجیب اتفاق ہے کہ لالک جان شہید کے آباؤ اجداد بھی واخان افغانستان سے ہجرت کرکے یاسین ہندور میں آباد ہوئے تھے۔ وخی تاجکوں کے ان دونوں سپوتوں نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا کہ آج پوری قوم کو ان پر ناز ہے۔ ضیا علی شہید کے گھر میں وخی تاجکی زبان بولی جاتی ہے۔ ضیا علی پانچ بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ ان کی بہنیں پیا گھر سدھار چکی ہیں۔ منجھلا بھائی مولا داد سول ہسپتال گوپس میں ڈینٹل آفیسر ہے۔ مولا داد نے دنیور گلگت سے شادی کی ہے۔ بھابی شستہ بروشسکی بولتی ہے۔ ضیا علی کا چھوٹا بھائی عاشق علی وطن عزیز کے کرپٹ نظام سے تنگ آکر روزگار کی تلاش میں دیارِ غیر کی خاک چھان رہا ہے۔ ضیا علی نے شادی نہیں کی تھی ان کی والدہ محترمہ کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے کئی بار ان سے شادی کا کہا تو انہوں نے مذاق میں ٹال دیا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ میں کسی کی بیٹی کو بیوہ بنانا نہیں چاہتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں زیادہ دیر زندہ رہ سکوں۔ ہم ان کی باتوں کو مذاق سمجھتے تھے۔ مگر آج ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ مذاق میں کہی ہوئی ان کی باتوں میں کتنی صداقت تھی۔‘‘
باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ کھانے کا دَور چلا۔ بڑے پُرتکلف کھانے دسترخواں پر سجائے گئے۔ نہ جانے یہ دانت کے درد کی شدت تھی یا ضیا علی شہید کے ساتھ ہونے والا ظلم کا احساس تھا مجھے یوں لگ رہا تھا میں کھانا نہیں کھا رہا بلکہ کھانا مجھے کھائے جا رہا ہے۔
کھانے سے فراغت کے بعد موضوعِ سخن ضیا علی شہید کی وہ ٹوٹتی بکھرتی یادیں تھیں جن کے سہارے ان کے خاندان والے زندگی کے ایام کاٹ رہے تھے۔ جبکہ ہماری حالت یہ تھی ؂
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
ضیا علی شہید کی تاریخ پیدائش گھر کے کسی فرد کو یاد نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ضیا علی جس پسماندہ علاقے میں پیدا ہوئے تھے وہاں صرف پیدائش ہوتی ہے تاریخ نہیں۔ تاریخ پیدائش اس لیے بھی نہیں مل پارہی کیونکہ جب وہ شہید کر دئیے گئے تو ان کے تمام اسناد بھی ضائع کر دئیے گئے تھے۔ سنہ ۸۰ء کی دہائی میں وہ گورنمنٹ ہائی اسکول گوپس سے میڑک کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے شہر قائد کا رُخ کرتے ہیں۔ اپنے قیامِ کراچی کے دوران وہ کراچی یونیورسٹی سے بی۔ ایس۔ سی (بیچلر آف سائنس) کا اِمتحان اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جی۔ ایس۔ ایف (غذر اسٹوڈنٹس فیڈریشن) کی بنیاد رکھ کر اس کے اوّلین صدر کی حیثیت سے اپنی سیاسی کیرئیر کا آغاز کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا رول ماڈل تصور کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی سے نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔
اُن دنوں جب وہ چھٹیوں پر اپنے گھر گوپس آئے ہوئے تھے۔ گوپس سے دو لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ عوام الناس جلسے جلوس کرتے ہیں۔ ضیا علی پہلی مرتبہ اس اغوا کے خلاف عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) کی اُس وقت کی انتظامیہ کے سربراہان چیف کمشنر خان عنایت اللہ خان اور فورس کمانڈر عبدالغفور خان گوپس پہنچتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ چیف کمشنر صاحب ضیا علی کی تقریر سے اس حد تک متاثر ہوتے ہیں کہ اسٹیج پہ آکر بڑے جذباتی انداز میں عوام سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ’’مجھے صرف چوبیس گھنٹے کی مہلت دی جائے اگر کل شام تک میں اُن اغوا شدہ لڑکیوں کو بازیاب کرانے میں کامیاب نہ ہوجاؤں تو خدا کی قسم! میری ایک ہی بیٹی ہے میں اُن کا نکاح ضیا علی سے پڑھوا لوں گا۔‘‘
ٹھیک چوبیس گھنٹے کے اندر اندر دوسرے دن شام سے پہلے ہی چیف کمشنر صاحب اُن اغوا شدہ لڑکیوں کو بازیاب کراکر ضیا علی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یوں یہ عوامی طوفان تو تھم جاتا ہے مگر ضیا علی دُشمنوں کی آنکھوں کا کانٹا بن جاتا ہے۔
پھر غذر سے ایف۔ سی ( فرنٹیر کور) کے انخلا میں بھی ضیا علی کی طرف سے ضلع گیر ہڑتالیں تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ضلع غذر میں امن و امان کا قیام بھی اسی کاوش کی مرہونِ منت ہے۔ ایف۔ سی کی بلڈنگ ابھی تک گاؤت گوپس میں خالی پڑی ہے۔ گلگت سمیت دیگر اضلاع میں ابھی تک غریب عوام ایف۔ سی کے رحم و کرم پر ہے اور امن و امان کے نام پر کروڑوں رقم ان کی نذر ہوچکی ہے جبکہ نتائج زیرو۔ خیر! یہ ایک الگ بحث ہے۔
یوں آئے روز اس نوجوان کی پوشیدہ صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آنے لگتی ہیں۔ کہتے ہیں جب وہ چھٹیوں میں گوپس اپنے گھر میں ہوتے تھے تو ان کے لیے کئی اعلیٰ شخصیات کی ٹیلی فون کالز آتی تھیں۔ اُس وقت صرف ہائی اسکول گوپس میں ٹیلی فون کی سہولت موجود تھی۔ پیپلز پارٹی سے نظریاتی وابستگی کی وجہ سے کئی دفعہ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد سے اُس وقت کی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے اسکول میں فون کیا اور اسکول انتظامیہ نے ضیا علی سے وزیراعظم صاحبہ کی بات کروائی۔ اس سے بھی آپ ضیا علی شہید کے سیاسی قد کاٹھ کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
میں ضیا علی شہید کے گھر میں نہ جانے کیوں ماضی کی پرچھائیوں کے پس منظروں میں کھو چکا تھا۔ ضیا علی کی ماں آنکھوں میں آنسو لیے اپنے لختِ جگر کی درد بھری داستان سنائے جا رہی تھی۔ پھر اس اعتماد کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوتیں کہ گویا میں ان کی درد بھری کہانی سن کر ان کو ان کا بیٹا واپس کرنے آیا ہوں۔
میں ایک دفعہ پھر ماضی میں کھو چکا تھا۔ مروَرِ زمانہ کے ساتھ وقت کی دُھول میں دن رات کا قافلہ گم ہوتا رہتا ہے۔ وادیِ گوپس ہے۔ فروری ۱۹۹۰ء ؁ کی بکھری بپھری ہوائیں چل رہی ہیں۔ ضیا علی کے والد محترم علی داد اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زمینداری کے کاموں میں مشغول ہے جبکہ بہن بھائی اپنی جان سے پیارے بھائی کی راہ تک رہے ہیں۔ ضیا علی بی۔ ایس۔ سی کی ڈگری لے کر کراچی سے اپنے گھر کی طرف رختِ سفر باندھ چکا ہے۔
میرے سامنے جگلوٹ تھانہ کی ایف۔ آئی۔ آر کی فوٹو کاپی پڑی ہے۔ جس کے مطابق ضیا علی اسلام آباد پہنچ کر ۱۰؍ فروری ۱۹۹۰ء ؁ کو ایک ویگن میں بیٹھ کر گلگت کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ویگن رات تین بجے پڑی بنگلہ پہنچ کر رُک جاتی ہے۔ ڈرائیور آگے جانے سے انکار کرتا ہے۔ سامنے واقع ایک مسجد میں پناہ لینے کے لیے ضیا علی سمیت دیگر مسافر وہاں چلے جاتے ہیں۔ مسجد خدا کا گھر………… امان، شانتی اور امن و آشتی کی جگہ۔ مگر ضیا علی سمیت دیگر مسافروں کے لیے قتل گاہ کا منظر پیش کرتی ہے۔ ان مسافروں سے مذہب کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ پنجتن پاک سے محبت کے جرم میں ان پانچ مسافروں کو مسجد میں جگہ نہیں دی جاتی ہے۔ ایک نامعلوم گاڑی میں ان کو بیٹھا کر چقر کوٹ کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ کٹھ مُلّا قتل کا فتویٰ دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے دین اسلام کو دُنیا میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ الحمدللہ! میں نے قرآن پاک حرف بہ حرف پڑھا ہے۔ احادیثِ نبویؐ کے مطالعے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ان تعلیمات کی روشنی میں، میں پورے وثوق اور ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ دین اسلام حلیمی، انکساری، برداشت، صبر، انسان دوستی، خیال داری اور بھائی چارگی کا درس دیتا ہے جس میں کسی بے گناہ کا قتل جائز نہیں۔ ہوسکتا ہے مُلّاصاحب کے ہاں اس کی اجازت ہو یہ مجھے نہیں معلوم۔ یوں ارضِ شمال کے اس قابلِ فخر فرزند کو دیگر مسافروں سمیت انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ ظلم و بربریت کی تاریخ رقم ہوجاتی ہے۔ سیاہ رات سیاہ سے سیاہ تر ہو جاتی ہے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے کہ کہاں وہ زمانہ کہ کفّار بھی مسجد میں داخل ہوتے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انہیں عام معافی کا اعلان کرکے ان کی نگہداشت خود فرما رہے ہوتے تھے اور کہاں اب………… شاید ایسی ہی مساجد کے بارے میں میرے دوست جمشید دُکھیؔ نے کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے ؂
مساجد آئے دن اِس شہر میں تعمیر ہوتی ہیں
ولیکن کعبۂ دِل ہر گھڑی مسمار ہوتا ہے
ضیا علی اور دیگر چار مسافرین جن میں دو ہنزہ خیبر کے اور دو نگر کے تھے، کو شہید کرنے کے بعد ایک ٹیوٹا گاڑی میں نامعلوم مقام کی طرف لے جایا جاتا ہے جبکہ ایک مسافر ملکی شاہ ولد رمضان ساکنہ بوبر پونیال کسی طریقے سے وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور دوسرے دن تھانہ جگلوٹ ضلع گلگت میں آکر اس واقعے کی ایف۔ آئی۔ آر درج کرتے ہیں۔
ایک ہفتے تک اس قابلِ فخر سپوت کی لاش تک غائب کر دی جاتی ہے مگر علاقے میں مسلسل جلسے جلوس اور اُس وقت کی انتظامیہ کی کاوشوں کی وجہ سے ۱۸؍ فروری ۱۹۹۰ء ؁ کی شام ضیا علی شہید کی لاش گوپس پہنچائی جاتی ہے۔ ضیا علی شہید کے والدین حسبِ معمول گھریلو کاموں میں مشغول، ان کے بہن بھائی منتظر کہ ان کا بھائی کراچی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اُن کے پاس آرہے ہیں۔ مگر کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا جگر گوشہ صرف کراچی کو ہی نہیں پوری دُنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکے ہیں۔ قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ماں باپ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ بہن بھائی اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ یوں سرزمین شمال کے اس قابلِ فخر سپوت کو ہزاروں چاہنے والوں کی سسکیوں اور آہوں میں ۱۹؍ فروری ۱۹۹۰ء ؁ کی صبح دس بجے ناردرن ایریاز پولیس کی سلامی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیوستِ خاک کیا جاتا ہے۔
ضیا علی شہید کو سپردِ خاک کرنے کے بعد اُس وقت کے ایس۔ پی غذر علی احمد جان اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں کہ ’’کچھ مہینے پہلے میں کراچی میں تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے باہر ہزاروں لوگوں پر مشتمل ایک مجمع تھا جو ایک نوجوان کی تقریر کو بڑی دلجمعی اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔ میں نے کسی سے تقریر کرنے والے کے بارے میں پوچھا توکہا گیا کہ شمالی علاقہ جات کا ایک نوجوان ہے۔ میرا تجسّس بڑھ گیا۔ میں نے ان کا نام دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ضیا علی نام ہے۔ غذر اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر ہیں۔ دوسرے دن میں نے گلگتی کچھ نوجوانوں سے اس نوجوان کے بارے میں معلومات لینے کے بعد ان سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایک ہفتے کے بعد ان سے صرف آدھا گھنٹے کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اُس آدھا گھنٹے کی ملاقات میں ہی میں اس نوجوان کی پوشیدہ صلاحیتوں کا قائل ہوا تھا۔ میں نے اُن کو شاباش دے کر کہا کہ آپ کراچی میں رہ کر ہمارا نام روشن کر رہے ہیں تو انہوں نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا تھا کہ میں بہت جلد اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں آکر اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کی باتوں میں صداقت تھی۔‘‘
کہنے والے کہتے ہیں کہ ایس۔ پی صاحب کی تقریر کے بعد لوگ جذبات پر قابو نہیں پا رہے تھے۔ وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر غذر غازی جوہر تقریر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں ہم نے ایک اور قائداعظمؒ کو مٹی میں ملا دیا ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت جلد قاتل قانون کے کٹہرے میں ہوں گے۔‘‘ مگر یہ صرف تسلیاں تھیں۔ اس فرزند کی شہادت نے سب کو جذباتی کر دیا تھا وہ اپنے بکھرے بپھرے جذبات پر قابو نہیں پا رہے تھے۔ پھر ضیا علی شہید کے نام ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کا خصوصی تعلیقہ مبارک (فرمان) آتا ہے جس میں شہید ضیا علی کی روح کے دائمی سکون کے لیے دُعائے اسیس اور علاقے کے لوگوں کو امن اور صبر سے رہنے کی تلقین پر علاقے میں امن و امان قائم ہوجاتا ہے۔
ضیا علی شہید کا قصور کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم۔ میرے سامنے ان کا سب سے بڑا قصور ان کا کھراپن تھا۔ جس کی وجہ سے وہ وقت کے ظالموں کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا تھا۔ بھلا ایسے کھرے انسان کو زندہ دیکھنا کس کو پسند تھا۔ ظالموں نے بے دردی سے ان کو راستے سے ہٹا دیا۔ ایسی شخصیات بار بار پیدا نہیں ہوتیں ان کے لیے صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر قائداعظمؒ ، لالک جان اور ضیا علی جیسے سپوت جنم لیتے ہیں اور مفکرِ پاکستان حضرت اِقبالؒ کو کہنا پڑتا ہے ؂
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شاید یہی وجہ ہے کہ ضیا علی شہید کے بعد وادیِ گوپس کی اس پٹی میں کوئی لیڈرشپ سامنے نہیں آئی۔ یکے بعد دیگرے دوسرے علاقے کے لوگ ان پر حکومت کرتے رہے۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس پٹی میں اتفاق و اتحاد کا شدید فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے بے حسی پنپ رہی ہے۔
دانت کے درد نے مجھے ایک ایسے درد سے آشنا کیا تھا کہ میں اُس درد میں تڑپتے تڑپتے خیالوں کی دُنیا میں پہنچ چکا تھا۔ اتنے میں مولا داد نے چائے کی پیالی میری طرف بڑھا کے مجھے متوجہ کیا تھا کہ ’’سر! چائے لے لیں۔‘‘
میں نے چائے کی چسکی لی۔ ضیا علی شہید کی ماں روئے جا رہی تھی۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو کے دو قطرے بے اختیار گر پڑے تھے۔ ضیا علی شہید کی شہادت کو ٹھیک ۲۳؍ سال ہونے جا رہے ہیں۔ فروری ۲۰۱۳ء ؁ کو ان کی ۲۳؍ ویں برسی منائی جا رہی ہے مگر اتنا بڑا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی لگتا یہ ہے کہ گویا صرف ۲۳؍ دن گزر چکے ہوں۔ وہی ماتم، وہی درد، وہی آنسو، نہ جانے کیا کیا۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ ربّ کے حضور دیر ہے اندھیر نہیں۔ کہنے والوں نے کہا، سننے والوں نے سنا اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ضیا علی کے قتل میں جو لوگ ملوث تھے وہ یکے بعد دیگرے عبرتناک موت سے دوچار ہوئے۔ جس ڈرائیور نے ویگن روکی تھی اور آگے جانے سے انکار کیا تھا وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ گاڑی حادثے میں دریا برد ہوئے اور اس کی لاش تک نہیں ملی جبکہ دوسرے قاتل کے گھر میں پریشر ککر پھٹنے سے ان کا پورا خاندان راگ کے ڈھیر میں تبدیل ہوا اور جس ملّا نے قتل کا فتویٰ دیا تھا وہ پاگل ہوکر عبرت ناک موت سے دوچار ہوئے۔ جی ہاں! ربّ کے حضور دیر ہے اندھیر نہیں۔
ان تلخ یادوں کے ساتھ نہ جانے میں کب نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم۔ صبح جلد ہی میری آنکھیں کُھل گئی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد میں اس قابلِ فخر سپوت کی قبر پہ فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ ہلکی سی برف پڑی ہوئی تھی۔ موسم ابرآلود تھا۔ اس سے کئی گنا زیادہ میرے دِل کا موسم ابرآلود ہوچکا تھا۔ دسمبر کی برفانی ہوائیں اوؤر کوٹ کو توڑ کر میرے سینے میں چُبھ رہی تھیں۔ ضیا علی شہید کی قبر میں نہ جانے کیا بات تھی میری نظریں مٹی کے اُس ڈھیر پر جم کر رہ گئی تھیں۔ ضیا علی شہید تو منوں مٹی تلے ابدی نیند سو چکا تھا مگر مجھے ایسا لگا کہ جیسے مٹی کا یہ ڈھیر مجھ سے مخاطب ہے اور دھمکی دینے والوں کی یاد دلا رہا ہے ’’جان عزیز ہے تو اس طرح کی تقریریں کرنے سے باز رہے ورنہ آپ کا انجام بھی ضیا علی جیسا ہوگا۔‘‘
بے احتیاطی میں بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
میری دُعا ہے کہ ربّ ضیا علی شہید کی روح کو دائمی سکون نصیب فرمائے۔ آمین!
جبینِ دہر پہ لکھوں میں دردِ دِل کیسے
قلم کی نوک میں گنجائشِ سخن کم ہے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10303

حرام گوشت ……….فکرونظر: عبدالکریم کریمی

Posted on

حرام گوشت بیچنے کی افواہیں ایک دفعہ پھر گردش میں ہیں۔ آج گوشت لینے مارکیٹ گیا لیکن حرام گوشت بیچنے کی باتیں بھی ذہن میں تھیں۔ اس لیے پریشانی تھی کہ کہیں حرام گوشت ہاتھ نہ لگے۔ میں ایک قصاب سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے پاس چکر لگاتا رہا، گوشت کو ٹٹول کر دیکھا۔ اب بھلا ایسے ٹٹونے سے حرام حلال کا کونسا پتہ لگنا تھا۔ پریشانی کے عالم میں ایک قصاب سے پوچھنا ہی پڑا۔
’’بابا! یہ گوشت حلال جانور کا ہی ہے ناں؟‘‘
بابا خاموشی سے گاہکوں سے پیسے لینے اور گوشت دینے میں مصروف تھا۔ بابا نے مجھے سنا نہیں یا میری بات ان سنی کر دی۔ ان کی طرف سے خاموشی پاکر میں نے مکرر سوال کیا۔ ’’بابا! یہ گوشت حلال جانور کا ہی ہے ناں؟‘‘ اس دفعہ سوال پوچھتے ہوئے قدرے میری آواز اونچی ہوگئی تھی۔ بابا نے میری طرف دیکھا نظروں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’صاب! یہ بکری کا سر اور پیر پڑے ہیں ابھی ابھی ذبح کیا ہے۔ بالکل حلال ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ میرے کہنے پر ایک کلو گوشت طول کے مجھے دیدیا پھر مجھ سے گوشت کی قیمت وصول کرتے ہوئے جو سوال بابا نے کیا وہ مجھے شرمندہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ بابا نے میرے ہاتھ سے نوٹ لیتے ہوئے بے ساختہ پوچھا تھا۔
’’صاب! یہ نوٹ بھی حلال ہی ہے ناں؟‘‘
Haram Gosht

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10235

اشکومن ، شدید ژالہ باری ، ایک شخص جان بحق

Posted on

اشکومن(کریم رانجھا) ؔ دس منٹ کی شدید بارش ،ژالہ باری،تیز ہوا ،درخت گرنے سے ایک شخص جاں بحق،اشکومن کے مختلف علاقوں میں ہفتہ کے سہ پہر شدید بارش اور ژالہ باری ہوئی اور اولے برسنے لگے۔اس دوران تیز ہوا چلنے سے اپنے کھیت کو پانی دینے والا چالیس سالہ شخص مسمی شیر ندیر ولد زر امان ساکن پکورہ درخت کی زد میں آکر شدید زخمی ہو گیا اور بعد ازاں ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ دیا ۔ذرائع کے مطابق متوفی تین بچوں کا باپ تھا اور نیٹکو میں بحثیت میکینک ملازم تھا۔
دریں اثنا چترال کے گردونواح میں بھی وقفے وقفے سے موسلادھار بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ جس کے نتیجے میں چترال کی موسم لوگوں کو سردیوں کے کپڑے دوبارہ پہننے پر مجبور کردیا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
10180

ماہ رمضان اور صبر……….. تحریر: نمبردار مفتی ثناء اللہ انقلابی

Posted on

رمض کے معنی ہے جل جانا چونکہ ماہ مقدس سال کے بارہ مہینوں کا سردار کہلاتا ہے صیام رمضان اور اعمال رمضان کا سب سے بڑا فائدہ امت محمدیہؐ کو یہ ہے کہ اس با برکت مہینے میں سال کے گیارہ مہینوں کی جتنی بھی بے احتیاطی اور گناہ ہوتے ہیں وہ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں جیسے میلے کپڑوں کو پانی سرف اور صابن مل کر صاف کرتے ہیں ایسے ہی رمضان اور اس کے خصوصی اعمال نیک، تلاوت قرآن، ذکر و فکر اور صبر و شکر کا نتیجہ گناہوں کو یکسر صاف کر کے مسلمان کو خالص کندن بنا کر باقی گیارہ مہینوں کا کفارہ کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔چنانچہ رحمت کائناتؐ نے اس مہینے کو عظیم مہینہ قرار دیکر تمام مہینوں کی سرداری کا تاج پہنایا ہے، ہمدردی کا مہینہ قرار دیکر اس مہینے کی اہمیت کو اجاگر کیا ، صبر کا مہینہ قرار دیا اس مہینے میں رزق مومن کا کوٹہ بڑھا دیا جاتا ہے ۔ طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال کے گیارہ مہینے میں جسم انسانی کی مشین بلا رکے معدہ چلتا رہتا ہے صرف اس ایک مہینے میں سحری تا افطار اس انسانی مشین کو آرام ملتا ہے جس کی وجہ سے جسم انسانی کی یہ مشین معدہ ریفرش ہو جاتا ہے یوں بے شمار اور بے نام بیماریوں کا خاتمہ یقینی ہو تا ہے۔
طبّی ماہرین شکم سیری کو بیماریوں کا گھونسلہ قرار دیتے ہیں کم کھانے ، کم بولنے اور کم سونے میں بھی تندرستی کا راز پوشیدہ ہے لہٰذا ماہ رمضان یوں تو مہمان بن کر آتا ہے میزبان یعنی روزہ دار کو بے شمار فوائد سے مستفید کرتا ہے ۔ رمضان اور صبر کا آپس میں گہرا تعلق بنتا ہے وجہ ظاہر ہے کہ یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔کتاب مقدس میں صبر و شکر کی تلقین متعدد مقامات پر کی گئی ہے، دن بھر کے روزے حلال چیزوں پر بھی قدغن لگائی گئی یوں باوجود خواہش کے صرف حکم ایزدی پر صبر کا دامن تھامے بھوکے پیاسے روزہ دار وقت افطاری کا انتظار کرتا ہے تو روزہ دار کی منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پسند ہے ۔ اذان مغرب اذن خداوندی ہے کہ اب سحری تک حلال روزی سے فائدہ اٹھا کر شکر بجا لاتا ہے بندۂ مومن جب رزق خدا وندی تناول فرماکر شکر کرتا ہے تو حدیث کی روشنی میں کھا کر شکر کرنیوالے کا اجر صبر کے ساتھ روزہ رکھنے والے کے برابر ہوتا ہے یوں دہرا ثواب سمیٹ کر روزہ دار خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔بابرکت مہینے کے پہلے دس دنوں کو سراپا رحمت درمیانے دس دنوں کو پوری مغفرت اور آخری دس ایام کو نار جہنم سے خلاصی قرار دیا گیا ہے اس لئے روزے اور روزہ دار دونوں یقیناًبڑی اہمیت کے حامل ہیں ، رحمتوں کو سمیٹنا مغفرت کے مستحق ٹھہرنا آگ سے خلاصی ۔
روزے کا مطلب سحری سے افطاری تک کے اوقات میں بھوکا اور پیاسا رہنا ہر گز نہیں بلکہ جسم انسانی کے تمام اعضاء کو پابند رکھنے کا نام ہے ، ہاتھ پاؤں کو بھی نا جائز اقدامات سے روکے رکھنا ہے ، آنکھ اور زبان کو بھی قابو میں رکھنا ہے ، بے جا غصہ کو بھی پی جانا ہے ، اگر کوئی خلاف طبع غصہ دلانے والی بات سے واسطہ پڑے تو کہنا بھائی میں تو روزہ دار ہوں صبر کا دامن تھامے رکھنا ہے ، روزہ دار اگر تاجر ہے تو گاہک کے ساتھ بھی سلوک اچھاکرنا ہے ، بد قسمتی سے یہاں تو ایک الگ ہی جدا گانہ رِیت چلی آرہی ہے کہ ماہ رمضان کے آتے ہی اشیاء خوردنوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں ، غریب کی جیب جواب دے جاتی ہے ، غریب کی قوت خرید سے باہر مہنگائی کا بازار گرم کیا جاتا ہے ، بے بنیاد و بے تکی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بازاروں میں باہم دست و گریباں مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ رمضان کا احترام کیجئے خدا را مفلس لوگوں پر رحم کھائیں تاکہ خدا بھی مہربانی فرمائے اہل زمین پر، روزے کی حالت میں گالم گلوچ اور مہنگائی کا طوفان بد تمیزی ہر گز رمضان اور مسلمان سے میل نہیں کھاتا اس لئے رمضان کے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔رمضان کے مہینے سے ہر مسلمان فائدہ اٹھا سکتا ہے ، رحمتوں کا مہینہ ہی ایسا ہے کہ خدا کی رحمتوں کی بارش ہر گھر ہر فرد ہر خاندان اور ہر بشر پر یکساں ہوتی ہے۔مگر تین قسم کے لوگ اس مبارک مہینے میں برکتوں سے محروم رہتے ہیں ان میں پہلا آدمی وہ ہے جو اپنے ماں باپ کا نا فرمان ہو، دوسرا وہ جو کھلم کھلا گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے، تیسرا وہ شخص جو رشتہ داریاں توڑتا ہے قطع رحمی کرنے والا رمضان کی برکات سے محروم رہتا ہے۔تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھنے والا شخص ایسا بد بخت اور محروم ہے کہ اس کی کوئی عبادت قابل قبول نہیں لہٰذا خدا را کم از کم اس مبارک مہینے میں اپنے تمام تر اعمال بد سے توبہ کر کے والدین کو راضی کریں، رشتہ داروں سے ناراضگی ختم کریں ، لوگوں کو معاف کرنا سیکھیں ، رشتے ناطے توڑنے کے بجائے معافی طلب کر کے رشتے جوڑیں ، اللہ کی نا فرمانی ترک کر کے نیک اور پارسا بننے کی مشق کریں یہی پیغام رمضان ہے کیونکہ یہ صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10151

کتاب المعارف (حصّۂ دوم)……… فکرونظر: عبدالکریم کریمی

استادِ محترم ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب صاحب کی تصنیف ’’کتاب المعارف‘‘ (حصۂ اوّل) پر تفصیلی بات ہوئی تھی۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کا حصّۂ دوم بھی عنایت کرکے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ اتنی جلدی میں حصّۂ دوم بھی زیور طباعت سے ہمکنار ہوا۔ میں نے شکریے کے ساتھ بے ساختہ ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا تھا۔ اس پر انہوں نے یہ کہہ کر مجھے مزید حیرت میں ڈال دیا ’’کریمی! اگر وسائل ہوں اور علم کے قدرداں موجود ہوں تو میں ایک مہینے میں ایک کتاب لکھ سکتا ہوں۔ لیکن اس مادیت پرستی کے دور میں اور خصوصاً کتاب دشمنی اور علمی لوگوں کی کمی کی وجہ سے شائع شدہ کتابوں پہ بھی افسوس ہوتا ہے کہ جس محنت، لگن اور شوق سے کتاب لکھی گئی تھی اس کی پذیرائی اس کی عشر عشیر بھی نہیں ہوتی ہے۔‘‘

استادِ محترم بہتر جانتے ہیں کہ ہم جس دور میں زندگی گزارتے ہیں یہ دور، دورِ ٹھیکیداران یا انتظامی امور کے نام پر چھوٹی حیثیت کے لوگوں کو نوازنے کا دور ہے۔ جس کی وجہ علم اور علمی اثاثوں کی کال ہے۔ جوکہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب سے اکثر سر راہ بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔ ابھی بھی اس پیرانہ سالی کے باوجود ان کو پیدل دفتر جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔
kitabul maarif
زمانے کی بے قدری تو دیکھئیے کہ آپ کا اسکالر پیدل سڑکوں کی خاک چھانتا ہوگا جبکہ چھوٹے چھوٹے لوگ کاروں میں فراٹے بھرتے پھر رہے ہوں گے۔ کہانی ختم نہیں ہوئی یہ چھوٹے چھوٹے لوگ جب اپنی چھوٹی چھوٹی ذہنیت کے ساتھ اسکالرز کی بے قدری بھی کریں تو سچ پوچھئیے مجھے اسماعیلی تاریخ کے ایک متنازعہ کردار بدرالجمالی اور ان کے بیٹے وزیر افضل یاد آتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے دور میں نہ صرف دینی علما کو دیوار سے لگایا تھا بلکہ اسماعیلی تاریخ کے اٹھارویں امام حضرت مستنصر باللہ علیہ السلام کو بھی مشکلات میں ڈالا تھا اور اس کے نتیجے کے طور پر نزاری اور مستعلوی جماعت کی صورت میں اسماعیلی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ لیکن وقت بڑا مہربان ہوتا ہے اور تاریخ بڑی منصف کہ اب بھی بدر الجمالی یا وزیر افضل کا نام لیتے ہوئے احساسات میں قدرے تلخی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جبکہ اس دور کے عظیم اسکالرز پیر ناصر خسروؒ، حمید الدین کرمانیؒ، قاضی نعمان، حسن صباح اور المؤئد فی الدین شیرازی کے علمی و ادبی سرمائے پر نظر پڑتی ہے تو انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کو دل کرتا ہے کہ اتنی بےقدری کے باوجود وہ تاریخ میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ان پاکیزہ ہستیوں کا نام لینا بھی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ شاید علم و ادب کی قدر حال سے زیادہ مستقبل میں ہوتی ہے۔ تاریخ یاد تو بدرالجمالی اور وزیر افضل کو بھی کرتی ہے اور ان اسکالر کو بھی لیکن اس یاد میں ایک فرق ہے بالکل اسی طرح جس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام بھی تاریخ میں زندہ ہے اور یزید کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ امام عالی مقام کا نام لیتے ہوئے درود و صلوات پڑھی جاتی ہے جبکہ یزید کا تذکرہ ہوتے ہی لعنت و ملامت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بس یہی فرق ہے یاد کرنے کا۔

اس لیے علمی و ادبی لوگوں کی علمی کاوشوں کی زمانہ اور زمانے والے لاکھ ناقدری کریں لیکن وقت بڑا مہربان ہے۔ ہیرے اور کوئلے کی حیثیت کا فیصلہ تاریخ کرتی ہے اور تاریخ کا فیصلہ بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دھرائے گی؟ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ کسی دل جلے نے خوب ہی کہا ہے؎

وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی

کتاب کا انتساب ان نا مساعد حالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کتاب کا انتساب اپنی شریکۂ حیات کے نام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میری رفیقۂ حیات بی بی مرینہ کے نام جنہوں نے وہ تمام صعوبتیں جھیلیں جن کا ہمیں کراچی منقل ہونے کے بعد سامنا کرنا پڑا۔ مجھے ملنے والی انتہائی قلیل تنخواہ پر گزر بسر کرنا اور دو بیٹیوں، دو بیٹوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا تقریباً ناممکن ہوا۔ ان نا مساعد حالات میں اس با ہمت خاتون نے انتہائی صبر و شکر کے ساتھ بوری بازار سے خریدے جانے والے ڈیڑھ سو روپوں کے کپڑوں پر قناعت کی اور اپنے چاروں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ مرینہ بی بی صبر میں حضرت ایوبؑ کی چیلی ہے اور شکر میں حضرت نوحؑ کی۔ خدا انہیں سلامت رکھیں۔‘‘

اب ذرا بادل چھٹنے لگے۔ یہ سچ ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن یہی سوال کئی برس پہے جب میں ’’قندیل‘‘ کا ایڈیٹر تھا، ڈاکٹر صاحب سے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا تھا تو آپ کا جواب عجیب تھا۔ کہنے لگے:

’’کریمی صاحب! مجھے دو وجوہات کی بنا پر اس قضئیے میں ذرا تأمل ہے۔ اوّل یہ کہ یہ بات بعض حالات میں یا جزوی طور پر درست ہوسکتی ہے مگر کلّی طور پہ یا ایک اصول کی حیثیت سے نہیں۔ یہ ایک عامیانہ بیان ہے جس کا رواج زیادہ تر استقبالیہ تقریبات، کنسرٹ ہالز اور موسیقی کی محفلوں میں دیکھا گیا ہے جو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ خواتین کی داد حاصل کرنے کے لیےمردوں کی ایک خوش آمدانہ چاپلوسی ہے۔ ورنہ کوئی شخص بطور عکس و عدل یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہر ناکام مرد کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ہے۔ پھر کیا کیا جائے گا۔ دوم یہ کہ یہ ثابت ہونا ابھی باقی ہے کہ میں کوئی کامیاب مرد ہوں۔ اس لیے معذرت خواہ ہوں۔‘‘

بھلا اس میں کس کو شک ہے کہ جہاں ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو وہاں لامحالہ ایک ناکام مرد کی ناکامی میں بھی بنتِ حوا پیش پیش ہے۔

یہ بات جملۂ معترضہ کے طور پر بیچ میں آگئی۔ بات ہو رہی تھی ڈاکٹر صاحب کی تصنیف ’’کتاب المعارف‘‘ کے حصۂ دوم کی۔ حسبِ سابق اس جلد میں بھی اسماعلی تھیولوجی پر بڑی گیرائی و گہرائی سے بحث کی گئی ہے۔ دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کا پہلا باب آیات خداوندی کی معرفت کے گرد گھومتا ہے۔ اسی طرح بالترتیب دوسرا باب اسما الحسنیٰ کی معرفت، تیسرا باب کلماتِ تامات کی معرفت، چھوتا باب روح القدس (نفسِ واحدہ) کی معرفت، پانچواں باب خدا و رسولؐ کی امانتوں کی معرفت، چھٹا باب قیامت کی معرفت، ساتواں باب کنز مخفی (چھپے ہوئے خزانے) کی معرفت، آٹھواں باب خلیفۂ خدا کے مرتبے کی معرفت، نواں باب انسانِ کامل کے مقام کی معرفت، دسواں باب بہشت اور دوزخ کی معرفت، گیارواں باب دینی اعلام کی معرفت، بارواں باب وسیلۂ نجات کی معرفت، چودواں باب میزانِ عمل کی معرفت، پندرواں باب الکوثر کی معرفت، سولہواں باب حقیقت کی ذاتی تلاش اور اس کی معرفت، سترہواں باب حق کی معرفت، اٹھارواں باب شہادہ (شہادت) کی معرفت، انیسواں باب اسلام کے ارکان کی معرفت اور بیسویں باب میں آپ کے سوالات اور ان کے جوابات کے عنوان سے اکثر اسماعلی جماعت اور جماعت کے باہر سے پوچھے جانے والے مخصوص سوالات کا تسلی بخش جوابات دئیے گئے ہیں۔ آج کا دور چونکہ ٹیبل ٹاک کا دور ہے۔ علمی بحث و مباحثے کے ذریعے سے ہی آپ اپنے بارے میں دُنیا کو بتا سکتے ہیں۔ اور جب تک ہمارے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کی مثبت تجسس ہوگی ہم ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور جتنی دوری ہوگی اتنی ہی غلط فہمیاں جنم لیں گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی یہ کاوش اسماعیلی مسلمانوں کے بارے میں جاننے کے لیے ایک راہ فراہم کرتی ہے۔

حوالہ جات و حواشی کتاب کی اہمیت کو اٹھان دینے کے لیے کافی ہیں جس میں بہت ساری کلاسیکل کتابوں کا حوالہ آپ کو ملے گا۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی زیر تبصرہ کتاب ان کلاسیکل کتابوں کا حاصلِ مطالعہ ہے۔

کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب کی دیگر تصانیف و تراجم کی فہرست دی گئی ہے۔ کتابوں سے شغف رکھنے والے ڈاکٹر صاحب کی ان تصانیف سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10144

کالاش قبیلے کی مشہور تہوار چیلم جوشٹ اختتام پذیر ، سیاحوں کی بڑی تعداد میں‌شرکت

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال کے انتہائی قدیم تہذیب کے حامل قبیلے کالاش کے موسم بہار کا تہوار چیلم جوشٹ یا جوشی تین دن تک رقص وسروود کی محفلیں سجنے کے بعد بدھ کے روز تینوں کالاش وادیوں بمبوریت ، بریر اور رمبور میں احتتام پذیر ہوا جس میں گزشتہ کئی سالوں کے برعکس ملکی اور غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ 14مئی سے شروع ہونے والی اس فیسٹول کا احتتام وادی بمبوریت میں کراکڑ میں واقع چہار سو(رقص گاہ) میں اجتماعی رقص پر ہوا جبکہ اسے قبل قریبی مقام پر کھلے میدان میں مختلف ٹولیوں میں کالاش مردوزن ناچتے رہے جس کے دوران وہ اپنے آباواجداد کو ایک ایک کرکے یادکرکے ان کے کارناموں کے گیت گا گاکر ناچتے رہے۔ چہار سو میں داخل ہونے کے لئے روایتی جلوس نکالاگیا جو کہ مخصوص راستے سے ہوتا ہوا چہار سو پہنچ گئی۔ جلوس میں افراد اپنے ہاتھ میں اخروت یا ناشپاتی کی سبز ٹہنی لہرارہے تھے اور ساتھ گار رہے تھے۔۔بمبوریت وادی کے طول وعرض میں ہر طرف سے عید کاسا سماں تھا جہاں ہر عمر کے مردوزن اور چھوٹے بڑے نئی سلے ہوئے روایتی کپڑوں میں ملبوس گھومتے ہوئے دیکھے گئے۔ اس موقع پر مقامی تماشائی بھی بڑی تعدادمیں وادی پہنچ گئے تھے اور وادی میں چہل پہل بڑھنے کے ساتھ ہوٹلوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔

سیاحوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر ٹینٹ ویلیج بھی بنایا گیا تھا جبکہ تہوار کے اختتام پر سیاحوں اور شہریوں میں سیاحتی مقامات کی خوبصورتی بحال رکھنے اور ان میں شعور اجاگر کرنے کیلئے کالاش کی تین وادیوں میں صفائی مہم کا بھی انعقاد کیا جائے گا ،

بیرونی اور اندرون ملک سے آئے ہوئے سیاحوں کے ساتھ ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھیر کی دعوت پر پاکستان کے ساٹھ سے زیادہ صحافیوں اور کالمسٹ نے فیسٹول میں شرکت کی ۔ اور ساتھ مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات بھی فیسٹول سے محظوظ ہوئے ۔

ڈپٹی کمشنر چترال کی خصوصی ہدایت پر اس سال فیسٹول کی اختتام پر صفائی کی خصوصی مہم چلائی جائی گی جبکہ مختلف مقامات پر کوڑا کرکٹ کیلئے ڈسٹبین نصب کئے گئے تھے۔ تہوار کے اختتام پر ڈپٹی کمشنر نے کالاش قبیلے میں مفت خوراک بھی تقسیم کی ۔ جس کو کالاش وادیوں کے مکین نے سراہا ۔ اس دفعہ ٹریفک کا بھی بہترین انتظام کیا گیا تھا ۔ سیاحوں نے ضلعی انتظامیہ اور چترال پولیس کی کاوشوں کو بھی سراہا ۔ جبکہ کالاش قبیلے اور چترال کے لوگوں کی مہمان نواز ی کی بھی تعریف کی ۔ ان کہنا تھا کہ جو تہذیب و تمدن ہم نے چترال میں دیکھا یہ پاکستان بلکہ دنیا کے کسی کونے میں بھی نہیں ہے ۔ انھوں نے دنیا بھر کے سیاحوں کو چترال کی خصوصی وزٹ کرنے کا بھی مشورہ دیا۔
kalash festival chitral 14

kalash festival chitral 11

kalash festival chitral 10

kalash festival chitral 1
kalash festival chitral 2

kalash festival chitral 4

kalash festival chitral 7
kalash festival2

kalash festival concluded in Chitral 4

kalash festival concluded in Chitral 2

kalash festival concluded in Chitral 3

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
10060

“ملکی کپ”پولو ٹورنامنٹ احتتام پذیر، چترال سکاوٹس ٹیم نے ٹائٹل اپنے نام کرلی

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام “ملکی کپ”پولو ٹورنامنٹ بدھ کے روز احتتام پذیر ہوا جس میں ضلع بھر سے 52پولو ٹیموں نے حصہ لیا جوکہ دس دن تک جاری رہا جس کافائنل فرنٹیر کور (چترال سکاوٹس ) کی ٹیم نے چترال پولیس کو صفر کے مقابلے میں نو گولوں سے شکست دے کر فاتح قرار پائی۔ اس موقع پر ضلع ناظم مغفرت شاہ مہمان خصوصی تھے جبکہ ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سودھر، کمانڈنٹ چترال سکاوٹس کرنل معین الدین، ڈی پی او منصور امان ، نائب ضلع ناظم مولانا عبدالشکور ، شہزادہ فاتح الملک علی ناصر ، عبدالولی خان ایڈوکیٹ نے کھلاڑیوں اور منتظمین میں انعامات تقسیم کئے۔ کالاش تہوار چیلم جوشٹ کے لئے چترال آنے والے سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں نے پولو ٹورنامنٹ کے میچ دیکھے جوکہ چترال کا منفرد ثقافتی ورثہ ہے۔ مین آف دی میچ کا اعزاز چترال سکاوٹس کے شہزاد احمد کو ملا جبکہ بہترین گھوڑا پالنے پر بیسٹ ہارس کا انعام چترال پولیس کے اشفاق احمد کو دیا گیا ۔ شہزادہ فاتح الملک علی ناصر نے اپنی طرف سے فاتح ٹیم کو 70ہزار روپے اوررنر اپ ٹیم کو 50ہزار روپے انعام دئیے۔ ڈی سی چترال کا کہنا تھاکہ پولو کے اس عظیم ایونٹ کے انعقاد سے جہاں اس علاقے میں سیاحت کو فروع ہوئی وہاں چترال میں مثالی امن وامان کا ایک سافٹ امیچ بھی پوری دنیا میں چلی گئی۔ اپنے خطاب میں ضلع ناظم مغفرت شاہ نے کہاکہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے پولو کے فروع میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور چترال میں اس کھیل کا مستقبل بھی تابناک ہے جس کا ثبوت جشن شندور میں گزشتہ کئی سالوں سے چترال ٹیم کی گلگت بلتستان کے خلاف شاندار کامیابی ہے۔ انہوں نے تاہم ڈسٹرکٹ کپ پولو ٹورنامنٹ کا نام ملکی کپ رکھنے پر اپنی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ قیام پاکستان کے سے پہلے چترال میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹ کو ملکی کہا جاتا تھا اور چترال کے عوام نے اس کے خلاف جدوجہد کرکے قربانی دی۔ انہوں نے کہاکہ چترال کے عوام کی ان قربانیوں کے نتیجے میں چترال میں پولیٹیکل ایجنٹ کی بجائے ڈپٹی کمشنر لابیٹھایا جبکہ قبائلی علاقوں کے عوام ا ب بھی ایف سی آر کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ ضلع ناظم نے کہاکہ لواری ٹنل پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد ہمیں کھیلوں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو زمانے کی تقاضوں کے ہم آہنگ بنانے اور مسابقت کے لئے تیار رکھنی چاہئے۔

chitral polo tournament 6

chitral polo tournament 4

chitral polo tournament 3

chitral polo tournament 1 chitral polo tournament 2

mulki cup polo torunament chitral final 10
mulki polo chitral1
chitral polo tournamnet 2chitral polo tournamnet 4
mulki cup polo torunament chitral final 14

mulki cup polo torunament chitral final 12

mulki cup polo torunament chitral final 6

mulki cup polo torunament chitral final 4

mulki cup polo torunament chitral final 5
mulki cup polo torunament chitral final 15

mulki cup polo torunament chitral final 2

mulki cup polo torunament chitral final 3

mulki polo chitral

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , , , , , ,
10025

کالاش تہوارچیلم جوشٹ آخری مراحل میں داخل،سیاحوں میں پھل اور گلدستے تقسیم کئے گئے

Posted on

چترال ( چترال ٹائمز رپورٹ) کالاش قبیلے کا مذہبی تہوار چلم جوشٹ اپنے آخری مراحل میں داخل ہوگیا، 14مئی سے شروع ہونے والا یہ تہوار ڈھول کی تھاپ پر رقص کیساتھ منانے کے بعد16مئی کو اختتام پذیر ہوگاجبکہ اختتامی تقریب 16مئی کو بمبوریت میں منائی جائے گی، ہندوکش کے قدیم ترین تہذزیب و ثقافت اور مذہب کے حامل کالاش قبیلے کا یہ تہوار ہر سال مئی کے مہینے میں منایا جاتا ہے ، تہوار کے دوسرے روزکالاش قبیلے کی خواتین نے کالاش کی جانب رخ کرنے والے سیاحوں اور مہمانوں میں مختلف اقسام کے پھل تقسیم کئے جبکہ خواتین نے غیر ملکی سیاحوں میں پھولوں کے گلدستے بھی بطور تحفہ پیش کئے ،اس موقع پر ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا کے چترال آفس کے سٹاف نے کالاش آنے والے سیاحوں میں آخروٹ سمیت دیگر خشک خوراک تقسیم کی، سیاحوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا نے سیاحوں کیلئے ٹینٹ ویلیج بھی بنایا کیونکہ سیاحوں کی رش کے باعث تمام ہوٹلز اور ویلیز سیاحوں سے بھر چکے ہیں اور اس سلسلے میں سیاحوں کو تکلیف سے بچانے کیلئے ٹینٹ ویلیج بھی بنایا گیا ہے تاکہ سیاح باآسانی ان ٹینٹوں میں رہائش اختیار کرسکیں، کالاش قبیلے کے لوگ تین وادیوں بمبوریت ، بریر اور رمبور میں آباد ہیں جن کے مجموعی گھرانے 515اور کل آبادی 4165افراد پر مشتمل ہے ، یہ قبیلہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سالوں سے اس خطے میں آباد ہے ، جوشی تہوار کا آخری روز بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جب کالاش قوم ایک میدان میں جمع ہوتے ہیں تو تمام خواتین چاہے ناچنا گانا شروع کردیتی ہیں اور پھر اس وقت کچھ مذہبی پیشوا ایک مقام پر اکٹھے ہو کر ہاتھوں میں پودوں کی سبز شاخ اٹھائے میدان کی طرف آتے ہیں اور یہ خواتین انہیں سلامی پیش کرتی ہیں، اس کے بات تہوار کا آخری لمحات اور رسومات منائی جاتی ہیں۔
kalash festival chelum jusht chitral 2nd day 2

kalash festival chelum jusht chitral 2nd day 3

kalash festival chelum jusht chitral 2nd day 4

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , , , , , ,
10014

غذر کے پچاس ہزار کنال بنجر زمین کو آباد کیا جائے گا۔۔رب نواز ایفاد مشن

Posted on

اشکومن(کریم رانجھا) ؔ ایفاد گلگت بلتستان میں بنجر زمینوں کی آباد کاری کے ذریعے معاشی انقلاب کامنصوبہ رکھتی ہے،غذر کے پچاس ہزار کنال بنجر زمین کو آباد کیا جائے گا،علاقے کے زمیندار ہمارے ساتھ تعاون کریں ان کی بھر پور مالی معاونت کی جائے گی،ہمارا مقصد دیہی علاقوں کی ترقی ہے۔’’قرمبر کنسٹرکشن اینڈ ٹریڈنگ کمپنی‘‘کے زیر اہتمام وادی اشکومن کے گاؤں بارجنگل میں ’’ایفاد‘‘ کے تعاون سے آلو کے درآمد شدہ بیج اور کھاد کی تقسیم کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایفاد مشن کے رب نواز نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے بنجر اور غیرآباد زمینوں کو پانی پہنچانا اور انہیں آباد کرنا ہمارا بنیادی مقصد ہے اور اس سلسلے میں فی الوقت ضلع غذر میں پچاس ہزار کنال بنجر زمین کی نشاندہی ہوچکی ہے اور بعض مقامات پر کام جاری ہے۔انشاء الللہ ہم بہت جلد ان بے آباد زمینوں کو لہلہاتے کھیتوں اور باغات میں بدل دیں گے اور اس سلسلے میں مقامی زمینداروں کا بھر پور تعاون ضروری ہے،اس موقع پر مقامی زمیندار اور خواتین کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ایفاد پراجیکٹ کے صوبائی کو آرڈینیٹر احسان میر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بارجنگل واٹر چینل کی فزیبلیٹی بن رہی ہے بہت جلد اس منصوبے پر بھی کام کا آغاز کردیا جائے گا۔ان کا مزید کہناتھا کہ ایفاد متنازعہ اراضی پر کام نہیں کرتی اس لئے مقامی زمیندار تنازعات آپس میں مل بیٹھ کر حل کرکے ہم سے رجوع کریں ہم آبادکاری کے لئے ہر قسم کی مدد فراہم کریں گے۔قبل ازیں ’’قرمبر کنسٹرکشن اینڈ ٹریڈنگ کمپنی‘‘ کے ایم ڈی میر وزیر میر نے ایفاد کی جانب سے فراہم کردہ آلو کی بیج کی افادیت اور ایفاد کی جانب سے علاقے کی زراعت کے فروغ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ اعلیٰ معیار کے درآمد کردہ بیج سے زمیندار آلو کی بہترین فصل حاصل کرینگے ،اس فصل کو زمیندار کے کھیت سے پانچ ہزار روپے فی بوری کے حساب سے خریداری کی جائے گی نیز کمپنی ایفاد ہی کے تعاون سے آسٹریلیا سے اعلیٰ نسل کے سو گائے درآمد کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے جو مقامی زمینداروں کو فراہم کئے جائیں گے،یہ گائے روزانہ پندرہ سے بیس لٹر دودھ دیتی ہیں جس سے علاقے کے زمیندار حضرات استفادہ کرسکتے ہیں۔تقریب کے اختتام پر جدید آلو پلانٹر کے ذریعے آلو کی کاشت کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
ghazr ifat qurumbar construction

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
10009

غذر کے معروف شاعر جاوید حیات کاکاخیل کا تین روزہ دورہ چترال

چترال( عنایت اللہ فیضی )غذر کے کہنہ مشق شاعر جاویدحیات کا کا خیل نے چترال کا تین روزہ دورہ کیا۔ چترال کی ادبی تنظیموں نے مہمان شاعر کی خوب ضیافت اور پذیرائی کی۔ پہلے روز انہوں نے ملکی پولو ٹورنمنٹ کے سلسلے میں چترال کلچرل کونسل اور ضلعی انتظامیہ کے اشتراک سے ہونے والے محفل مشاعرے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی ۔ مشاعرے میں انجمن ترقی کھوار، ادبی تنظیم میئر، کھوار قلم قبیلہ، کھوار اہل قلم اور نان دوشی میوزک سکول کیساتھ تعلق رکھنے والے ادیبوں ،شاعروں ، قلمکاروں اورفنکاروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ جاوید حیات کاکا خیل نے اپنا کلام بھی سنایا اور محفل سے خطا ب بھی کیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے مادری زبان کھوار کے لئے غذر گلگت بلتستان کے عوام کی محبت اور کاوشوں کا ذکر کیا۔ دوسرے روز انجمن ترقی کھوار چترال کے زیر اہتمام جاوید حیات کا کا خیل کے کھوار مجموعہ کلام’’ گُرزین ‘‘ کی تقریب رونمائی ضلع کونسل ہال میں منعقد ہوئی ، امیر خان میر مہمان خصوصی اور جاوید حیات کا کا خیل مہمان اعزاز تھے ۔ جبکہ سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر مکرم شاہ نے تقریب کی صدارت کی۔شہزادہ تنویر الملک، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، گل مراد خان حسرت ،ذاکرمحمد زخمی ، یوسف شہزاد ، ممتاز حسین بالیم او ر صوبیدار میجر (ر) قلندر شاہ نے کتاب اور شاعر کے حوالے سے جامع تبصرے کئے۔کھوار اہل قلم کی طرف سے اقرار الدین حسرو نے جاوید حیات کا کا خیل کو یادگاری ایوارڈ پیش کیا ۔مہمان خصوصی اور صدر محفل نے جاوید حیات کا کاخیل کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر جاوید حیات کا کاخیل نے انجمن ترقی کھوار چترال کا شکریہ ادا کیا۔ شام ڈھلے ریڈیو پاکستان سے جاوید حیات کا کا خیل کو لائیو پروگرام رابطہ میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ ایک گھنٹے کے پروگرام میں مہمان شاعر نے کمپیئر اور سامعین کے سوالوں کے جواب دیئے اوراپناکلام بھی سنایا۔ رات گئے انجمن ترقی کھوار چترال نے کلکٹر ہاؤس مشانگل دنین میں مہمان شاعر کے اعزاز میں پر تکلف ضیافت اور مشاعرہ منعقد کیا۔ اپنے دورۂ چترال کے تیسرے روز جاوید حیات کاکا خیل نے قلعہ چترال میں مہتر فاتح لملک علی ناصر سے ملاقات کی اور قلعے کے نوادرات دیکھے۔ بعدازاں شام کو ریڈیو چینل ہاٹ ایف ایم 97کے لائیوپروگرام میں مہمان خصوصی بنے۔ ڈیڑھ گھنٹے کے پروگرام میں انہوں نے اپنا کلام سنایا آر جے شیر اکبر صبا کیساتھ ان کی گفتگو براہ راست نشر ہوئی سامعین نے بھی پروگرام میں شرکت کی۔ یہ پروگرام انٹرنیٹ پر مڈل ایسٹ میں بھی براہ راست سنا جاتاہے۔ جاوید حیات کا کا خیل تین دنوں کی ادبی و سماجی مصروفیات کے بعد اپنے آبائی گاؤں گلا غموڑی غذر واپس تشریف لے گئے۔
javed kakakhel ghazur chitral visit 2

faizi chitral

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
10005

جشن شندور کے تمام انتظام و انصرام کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے حوالے کیا جائے۔۔ممبران کونسل

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) ضلع کونسل چترال کے اجلاس میں جشن شندور کے تمام انتظام و انصرام کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاگیاکہ مقامی انتظامیہ کو انتظامات تفویض نہ ہونے کی صورت میں سیاحوں اور مقامی شائقین پولو کا اس میں دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔منگل کے روز کنوینر مولانا عبدالشکور کے زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں اراکین نے اس بات پر زور دیاکہ گزشتہ کئی سالوں سے شائقین کے ساتھ ناجائز سلوک روا رکھا جارہا ہے جس کی وجہ سے فیسٹول اپنی کشش کھور ہی ہے جبکہ 1980ء کے عشرے سے جشن شندور کا انتظام ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نہایت کامیابی سے کرتی آرہی تھی ۔ اجلاس میں اے ڈی پی فنڈ کی اجراء میں غیرمعمولی تاخیر ، گولین گول ہائیڈرو پاؤر اسٹیشن سے بجلی کی فراہمی میں بے قاعدگی سے صارفین کودرپیش مشکلات، لواری ٹنل کی غیر ضروری بندش، ریور بیڈ اور نیشنل پارک پر تجاوزات کی بھر مار، ضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام ملکی کپ پولو ٹورنامنٹ پر تحفظات، ڈیزاسٹرفنڈز جاری نہ کرنے سے پیدا شدہ مشکلات اور دوسر ے امور زیر غور آئے۔ ضلع ناظم مغفرت شاہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ صوبائی حکومت نے جس کمزور اور بے مغنی بلدیاتی نظام صوبے میں رائج کردی ہے، اس کا خمیازہ اسے آنے والے الیکشن میں بھگتنا پڑے گاکیونکہ منتخب بلدیاتی نمائندے ضلع ناظم سے لے کر ویلج کونسلر تک سب اس نظام کے ہاتھوں بے دست وپا ہیں اور ہر ضلع میں ان کا سرکاری افسران کے ساتھ اختیارات کے تنازعے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈیزاسٹر 2015ء سے متاثرہ انفراسٹرکچروں کی بحالی کے لئے فنڈز کو غیر ضروری طور پر روکے رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اور اس میں خود وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ملوث ہیں جبکہ ضلع کونسل کے ممبران نے اپنے اپنے علاقوں میں سہولیات کی بحالی کی ادائیگی کرانے کے لئے در بدر کی ٹھوکر کھاتے پھر رہے ہیں۔ ضلع ناظم نے کہاکہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے زیر اہتمام انرجی ڈیپارٹمنٹ کی قیام پر کام جاری ہے تاکہ یہاں پن بجلی کی پیدوار کے تمام ممکنہ صورتوں سے استفادہ کیا جاسکے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ضلعی گورنمنٹ ترقیاتی فنڈز میں خود کفیل ہوسکے۔ انہوں نے کہاکہ بلچ میں ریور بیڈ اور چیو ڈوک میں نیشنل پارک کی زمین پر تجاوزات کے خلاف ایکشن لینے کے سلسلے میں تمام پہلوؤں پر کام کیا جارہا ہے تاکہ ایسی ٹھوس قدم اٹھایاجاسکے کہ مبنی برحقیقت ہو اور اسے چیلنج نہ کیا جاسکے۔انہوں نے کہاکہ ضلعی حکومت کوئی کام اس ایوان کی منظوری اور ارکان کی مرضی کے بغیر نہیں کیا اور ملکی کپ پولو ٹورنامنٹ کے لئے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے فنڈز کی فراہمی پر اگر اراکین کو اعتراض ہوتو اسے روک دیا جائے گا۔ اس سے قبل مولانا عبدالرحمن (برنس )نے کوہ کے علاقے میں بجلی کی روزانہ 16گھنٹے غیر اغلانیہ لوڈ شیڈنگ پر تشویش کا اظہار کیا اورکہاکہ گولین گول بجلی گھر چوبیس گھنٹہ چالو ہے لیکن کوہ میں صارفین کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کاسامنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چترال بونی روڈ نہایت خستہ حالت میں ہے لیکن سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کو بار بار توجہ دلانے کے باوجود کوئی بہتری نہیں آئی۔ ریاض احمد دیوان بیگی نے چترال پولو گراونڈ میں جاری ملکی کپ پولو ٹورنامنٹ کے موقع پر ممبران ضلع کونسل کے ساتھ اے سی چترال کی ایما پر چترال لیویز کے اہلکاروں کی طرف سے بدسلوکی پر شدید احتجاج کیا جبکہ انہوں نے تجاوزات کے خلاف سخت قدم اٹھانے کے لئے متعلقہ حکام کو توجہ دلانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے ڈسٹرکٹ سپورٹس افسر کی طرف سے تین لاکھ روپے اپنی مرضی سے خرچ کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ الحاج رحمت عازی نے ملکی کپ ٹورنامنٹ اور سپورٹس فنڈز کی تقسیم سمیت فارسٹ رائلٹی کی تقسیم کے طریقہ کار کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ غلام مصطفٰی ایڈوکیٹ (کوشٹ ) نے ڈیزاسٹر فنڈز کی اجراء میں تاخیر کی مذمت کی اور محمد یعقوب (کریم آباد) نے بھی ضلع کونسل کے ارکان کو ان کے جائز مقام دینے کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کی اور پولو گراونڈ میں ممبران ضلع کونسل کے غیر شائستہ سکوک کی مذمت کی۔ مولانا جمشید احمد (چترال ون) نے بھی چترال میں ریسکیو 1122 اور لاوی ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ میں غیرمقامی افراد کی بھرتی اور معمولی اسامیوں پر بھی مقامی افراد کو نظر انداز کرنے کی شدید مذمت کی۔ شیر محمد (شیشی کوہ) نے ایک قرارداد کے ذریعے جنگلات کی رائلٹی کو مروجہ طریقے سے تقسیم کرنے اور جے ایف ایم سی کو ان بورڈ لینے پر زور دیا جسے ایوان نے منظور کرلیا۔مفتی محمود الحسن (دروش ون)نے ایک قرارد اد کے ذریعے میں تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال دروش میں لیڈی ڈاکٹر کو ہسپتال کے قریب کلینک چلانے پر پابندی کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ ڈی ایچ او کی طرف سے کلینک کی بندش سے شدید مشکلات پیش آرہی ہے۔
district council ijlas chitral

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
10002

اسپیشل اسٹوڈنٹس گلگت کیلئے منعقدہ سپورٹس ویک اختتام پزیر، سپیکر قانون سازاسمبلی مہمان خصوصی

Posted on

گلگت(چترال ٹائمز رپورٹ)سپیشل ایجوکیشن کمپلکس گلگت میں سپورٹس ویک کا فائنل میچH.I.C(Green)اورPHC(Red)کے درمیان کھیلا گیا HIC Greenنے میچ جیت کر ٹرافی اپنے نام کرلی۔فائنل میچ کے مہمان خصوصی سپیکر قانون ساز اسمبلی حاجی فدا محمد خان ناشاد تھے۔سپیکر کو خصوصی بچوں نے خصوسی دوست کا شیلڈ پیش کیا۔ڈپٹی ڈائریکٹر بشارت اللہ نے سپیکر کو خصوصی دوست کا شکوہ اور خصوصی دوست کا جواب شکوہ بینر بھی پیش کیا۔سالانہ سپورٹس ویک پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت شریف سے ہوا جسکی سعادت زین العابدین، احتشام اور مدثر حسین ن حاصل کی۔ڈپٹی ڈائریکٹر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فدا محمد ناشاد وہ شخص ہے کہ جس کے ہاتھوں اس سپیشل ایجوکیشن کمپلکس کی سنگ بنیاد رکھی گئی ہے اور اسکی آمد کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
مہمان خصوصی سپیکر فدا محمد ناشاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے میں بہت سے پروگرامز میں جاتا رہا لیکن جتنی خوشی آج مجھے ان بچوں سے مل کر ہوئی ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی۔تعلیم خود ایک عبادت ہے۔مگر خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا عظیم تر عبادت ہے۔ سپیکر نے اساتذہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ عظیم انسان ہو کہ اللہ تعالی نے آپ کو اس عظیم کام کیلئے معمور کیا ہے۔اسکے علاوہ سپیکر نے کہا کہ سپیشل ایجوکیشن کا سنٹر ہر تحصیل میں قائم ہونا چاہئے۔خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤں گا اور ہر فورم پر سپیشل ایجوکیشن کی تعمیر و ترقی کیلئے کوشش کرونگا۔سپیکر نے کہا مجھے افسوس کہ سپیشل ایجوکیشن کمپلکس کے ہاسٹل میں نیب کا آفس قائم ہے۔سپیشل ایجوکیشن کمپلکس میںیہ بالکل نہیں ہونا چاہئے۔انشاء اللہ ہم کوشش کرینگے کہ جلد از جلد ہاسٹل خالی کراکے ان خصوصی بچوں کے حوالے کرینگے۔سپیکر نے مزید کہا کہ اس ادارے کے جتنے بھی مسلے مسائل ہیں ان کو حکام بالا تک آپ لوگ پہنچائیں ہم اپنی اولین فرصت میں حل کرینگے.
special students gilgit sports week 1

special students gilgit sports week 2

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
9996

کالاش قبیلے کی مشہور تہوار چلم جوشٹ کا افتتاح، پولو ٹورنامنٹ کافائنل 16مئی تک موخر

چترال( چترال ٹائمز رپورٹ) ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا کے زیراہتمام چترال کے کالاش میں منعقد ہونے والے چلم جوشٹ (جوشی) فیسٹیول شروع ہوگیا، فیسٹیول 16مئی تک جاری رہے گا تاہم فیسٹیول کے پہلے روز دودھ کی رسم ہوئی ، ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا کے تعاون سے صوبہ کے سیاحتی مقام کالاش میں منعقد ہونے والے جوشی فیسٹیول کو بھرپور انداز میں منایا جارہا ہے ، اس سلسلے میں سیاحوں کیلئے ٹینٹ ویلیج کیساتھ ساتھ سیاحوں میں سیاحتی مقام میں صفائی برقرار رکھنے کیلئے صفائی مہم کا بھی انعقاد کیاجائے گا مہم کالاش کی تین وادیوں میں امسال کی جائے گی ، تفصیلات کے مطابق چترال کے شہر کالاش میں بہار کی آمد پر منایا جانے والا کالاش قبیلے کا مشہور تہوار (جوشی)چلم جوشٹ 14 مئی سے شروع ہوگیا،پہلے روز کالاشی خواتین نے دودھ پلانے اور تقسیم کرنے کی رسم (چیرک پی پی ) منائی ، ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا نے سیاحوں کی سہولیات اور انہیں کسی بھی قسم کی تکلیف سے بچانے کیلئے ٹینٹ ویلیج بنائی ہے تاکہ سیاحوں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں کسی کو کوئی مشکل درپیش نہ ہوسکے اور سیاحوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جاسکیں ،جوشی فیسٹیول کالاش قبیلے کا سب سے اہم تہوار ہے کیونکہ اس تہوار کے اعلان کیساتھ سردیوں کے تکلیف دہ حالات کو رخصت کیا جاتا ہے اور بہار کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ مال مویشیوں کو گرمائی چراگاہوں پر لے جانے کی تیاری ہوتی ہے اور مویشیوں کے دودھ کی فراوانی ہوتی ہے ، تہوار میں پچ انجیئک کی رسم ادا کی جاتی ہے اس رسم میں پانچ سے سات سال کے بچوں کو کالاش کے نئے کپڑے پہنا کر ان کو بپتسمہ دیا جاتا ہے جبکہ گل پاریک کی رسم بھی ہوتی ہے جس میں گاؤں کے تمام زچہ و بچہ پر ایک نوجوان دودھ چھڑکتا ہے اور خواتین اس نوجوان کو چیہاری کا ہار پہناتی ہیں ۔
Kalash Festival Chelum jusht18 3

Kalash Festival Chelum jusht18 4
Kalash Festival Chelum jusht18 5 1

Kalash Festival Chelum jusht18 6

Kalash Festival Chelum jusht18 2
kalash festival chelum jusht 3

kalash festival chelum jusht 4

kalash festival chelum jusht 5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،دریں اثنا چترال ٹاون میں جاری ملکی پولوٹورنامنٹ بارش کی وجہ سے 16مئی تک موخر کردی گئی ہے ۔ گزشتہ چند دنوں سے چترال میں وقفے وقفے سے بارش کی وجہ سے پولو گراونڈ تالات کا منظر پیش کررہا ہے ۔ اور ساتھ کیچڑ میں گھوڑوں کی پھسلن کے خدشے کے سبب پولو کمیٹی نے آج کے فائنل میچ کو 16مئی تک موخر کردیا ہے ۔
chitral polo groun rain 4

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , , , , , ,
9978

اے کے آر ایس پی کی معاونت سے لاسپور ہرچین میں ہیریٹج میوزیم کا قیام

Posted on

چترال ( چترال ٹائمز رپورٹ)‌آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کے WES Project کے تحت سوئس ایجنسی فار ڈویلپننٹ اینڈ کوپریشن کی مالی معاونت سے ہیریٹج میوزیم لاسپور کا قیام عمل میں‌لایا گیا ہے. اس میو‍‌‍زم میں چترالی قدیم زرعی آلات ، جنگی ھتیار، گھریلو آوزار اور چترال کے ثقافتی پوشاک بڑے خوبصورت اندازمیں سجا‎ئے گئیےھیں۔ اس میو‍‌‍زیم میں موجود نودارت امیراللہ یفتالی نے اکٹھے کيے ھیں۔ اس میو‍‌‍زیم سے ضلع چترال کی خوبصورتی میں ایک اور اضافہ ہوا ہے اور سیاحوں کی دلچسپی کیليے AKRSPبھت جلد اس میو‍‌‍زیم کا افتیتاح کرکے عام عوام کیليے کھول دیگا۔
Laspur harchin heritage museum 2

Laspur harchin heritage museum 3

Laspur harchin heritage museum 4

Laspur harchin heritage museum 6

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , , , , , ,
9972

غذر کے کہنہ مشق شاعر جاوید حیات کا کا خیل کے کھوار مجموعہ کلام ’’ گُرزین ‘‘ کی تقریب رونمائی

چترال ( عنایت اللہ فیضی ) انجمن ترقی کھوار چترال کے زیر اہتمام غذر گلگت بلتستان کے کہنہ مشق شاعر جاوید حیات کا کا خیل کے کھوار مجموعہ کلام ’’ گُرزین ‘‘ کی تقریب رونمائی ضلع کونسل ہال میں منعقد ہوئی ، ممتاز دانشور مکرم شاہ نے صدارت کی ۔ امیر خان میر مہمان خصوصی جبکہ کتاب کے مصنف جاوید حیات کا کا خیل مہمان اعزاز تھے انجمن ترقی کھوار کے مرکزی صدر شہزادہ تنویر الملک نے کتاب اور صاحبِ کتاب کا تعارف کراتے ہوئے اکادمی ادبیات پاکستان کا شکریہ ادا کیا ۔ جن کے مالی تعاون سے ادبی کتابوں کی اشاعت ممکن ہوئی ہے ۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ خوبصورت طباعت کیلئے انہوں نے حافظ نصیر اللہ منصور کا خصوصی شکریہ ادا کیا تقریب میں یوسف شہزادہ ، گل مراد حسرت، عنایت اللہ فیضی، ذاکر محمد زخمی ، ممتاز حسین اور قلندر شاہ نے کتاب اور شاعر کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں کھوار کے شعراء ماضی میں بھی نمایاں رہے ہیں مگر امان کے رومانوی گیت کے سوا کسی کا کلام محفوظ نہیں رہا ۔ جاوید حیات کا کا خیل غذر کے پہلے شاعر ہیں جن کا کھوار مجموعہ کلام شائع ہوکر منظر عام پر آیا ہے ۔ مضمون نگاروں نے شاعر کے تخیل ، ان کے فن اور خصوصی طور پر کتاب میں کھوار کے متروک لغات کا ذکر کیا اور شاعرکی کاوش کو داد دی ۔ مجموعہ کلام میں حمد، نعت ، صوفیانہ کلام ، اصلاحی نظمیں اور غزلیات شامل ہیں۔ مہمان اعزاز جاوید حیات کا کا خیل نے ان کے مجموعہ کلام ’’ گُرزین ‘‘کو شائع کرنے پر انجمن ترقی کھوار‘‘ چترال کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے خوش خبری دی کہ گلگت بلتستان کی حکومت نے کھوار کو سکولوں کے نصاب کا حصہ بنانے کی منظوری دی ہے اور نصاب سازی پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ مہمان خصوصی امیر خان میر نے غذر ، گلگت بلتستان اور چترال کے قدیم روابط ، ثقافتی و تاریخی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دی۔ اپنی صدارتی تقریر میں مکرم شاہ نے بجا طور پر کہا کہ جاوید حیات کا کا خیل نے لمبا سفر طے کیا ہے ۔ ان کے اباؤ اجدادنے 200 سال پہلے زیارت کا کا صاحب نوشہرہ سے ترک وطن کر کے غذر میں سکونت اختیار کی ۔کھوار ان کی اولاد کے لئے مادری زبان بن گئی پھر شاعر کا مجموعہ کلام چترال سے شائع ہوا۔ گویا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔ نوجوان فنکار انصار الٰہی نعمانی نے کتاب سے ایک غزل مخصوص دھن میں پیش کر کے سامعین سے داد حاصل کی۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
9938

پولوٹورنامنٹ کا فائنل میچ پیر کے دن کھیلا جائیگا ،رسہ کشی ، تیر اندازی کے شرکاء میں انعامات تقسیم

Posted on

چترال ( محکم الدین ) سات روزہ مُلکی ٹورنامنٹ کا فائنل پولو میچ بارش سے پولوگراؤنڈ گیلا ہونے کے سبب اتوار کے روز نہیں کھیلا جا سکا ۔ تاہم رسہ کشی اور تیر اندازی کے مقابلے اور کلچرل شو کا انعقاد کیا گیا ۔ اس سے قبل گورنمنٹ کامرس کالج چترال کے ہال میں محفل مشاعرہ ، کلچرل شو ہو ا ، جبکہ یونیورسٹی آف چترال کے طلبہ کی طرف سے لگائے گئے مختلف اسٹالز کی نمائش کی گئی ۔ جس میں طالبات کی طرف سے چترال کی دستکاری ، گولین کے طلبہ کی طرف سے منرل واٹر کی تیاری ، چترالی گیتوں کومقامی سٹوڈیو میں کمپوز کرنے ،مناسب ریٹ پر لوکل ٹیکسی سروس کے ائیڈیاز بھی پیش کئے گئے ۔ پروگرام میں کتابوں کے اسٹال بھی لگائے گئے تھے ۔ مُلکی ٹورنامنٹ میں چترال بھر سے 45 پولو ٹیموں نے حصہ لیا ۔ جبکہ فائنل میچ چترال پولیس اور چترال سکاؤٹس کے مابین کھیلا جائے گا ۔ ٹورنامنٹ میں پولو سمیت تمام روایتی گیم شامل تھے ۔ جن سے چترال کے تماشائی بہت محظوظ ہوئے ۔ اتوار کے روز رسہ کشی اور تیز اندازی کے مقابلے ہوئے جس میں کمانڈنٹ چترال ٹاسک فورس کرنل معین الدین ، ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھر نے بھی حصہ لیا ۔ بعد آزان مہمان خصوصی کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس نے کامیاب کھلاڑیوں میں ٹرافی تقسیم کئے ۔ اس موقع پر تماشائیوں کی ایک جم غفیر موجود تھی ۔ جس میں غیر ملکی سیاح بھی شامل تھے ۔ تقسیم انعامات کے بعد چترالی ثقافتی شو میں ڈپٹی کمشنر ، کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس ، کیپٹن ( ر) شہزادہ سراج الملک اور غیر ملکی سیاحوں نے ڈانس کرکے جشن سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر ساجد نواز ، اسسٹنٹ کمشنر مستوج اون حیدر گندل ، سٹلمنٹ آفیسر سید مظہر علی شاہ ، ڈی جی ریسکیو 1122ڈاکٹر خطیر ، ایمر جنسی آفیسر امجد خان ، اے ڈی ای او عبدالرحمت و دیگر موجود تھے ۔

mulki polo tournament chitral
mulki polo tournament chitral3

mulki polo tournament chitral2222

mulki polo tournament chitral22

mulki polo tournament chitral2
mulki polo tournament chitral 8

mulki polo tournament chitral 2

mulki polo tournament chitral 3

mulki polo tournament chitral 5

mulki polo tournament chitral 7

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
9890

کالاش تہوار چیلم جوشٹ اخری مراحل میں داخل ، اختتامی تقریب 16مئی کو بمبوریت میں منعقد ہوگی

Posted on

چترال (محکم الدین ) ہندوکُش کے قدیم ترین تہذیب و ثقافت اور مذہب کے حامل کالاش قبیلے کا مذہبی تہوار چلم جوشٹ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے ۔ 14مئی سے 16مئی تک تہوار ڈھول کی تھاپ پر رقص کے ساتھ منانے کے بعد اختتام م پذیر ہو گا ۔ تہوار کی کئی رسمیں اب تک ادا ہو چکی ہیں ۔ جبکہ مزید رسمیں آخری دنوں میں ادا کی جائیں گی ۔ ویلیز اپنی خوبصورتی کے آخری حدوں کو چھو رہے ہیں ۔ تو کالاش خواتین اپنی روایتی ملبوسات میں اس منظر میں پریوں کی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں ۔ خوشی اور محبت کا ماحول ہے ۔ اور مہمانوں کا ایک جم غفیر ہے ۔ جو بیرونی دنیا اور پاکستان کے مختلف شہروں سے فیسٹول میں شرکت کرنے اور لطف اندوز ہونے کیلئے یہاں پہنچ چکے ہیں ۔ اس سال غیر ملکی سیاحوں کی بہت بڑی تعداد جہاں ایک طرف اس شعبے سے وابستہ لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بن گئے ہیں وہاں دوسری طرف اُن کی آمد علاقے میں امن کی بحالی اور تفریحی ماحول کو اُجاگر کرنے کا سبب بن گیا ہے ۔ چترال شہر اور ویلیز سب جگہوں میں ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے ۔ اور اُنہیں ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ چلم جوشٹ میں شرکت کرنے والے سیاحوں کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ ہونے کی وجہ سے ویلیز کے ہوٹلز پہلے سے ہی بُک ہو چکے ہیں ۔ تاہم مختلف ہوٹلوں اور ٹوررزم کاپوریشن خیبر پختونخوا کی طرف سے کیمپنگ کے انتظامات کر دیے گئے ہیں ۔ جبکہ ضلعی انتظامیہ تہوار کے شروع ہونے سے پہلے ہی مقامی ہوٹلوں کے مالکان سے میٹنگ کرکے سیاحوں کو صاف ماحول ، صاف خوراک فراہم کرنے ا ور مناسب قیمت وصول کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ تاکہ سیاحت پر منفی اثر نہ پڑے ۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایک بہتر قدم یہ اُٹھایا گیا ہے ۔ کہ غیر ملکی سیاحوں کو سکیورٹی کے نام پر جس طرح یرغمال بنایا جارہاتھا ۔ اس میں نرمی کی گئی ہے ۔ جس سے غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے ۔ اور ماحول سیاح دوست بن گیا ہے ۔ چلم جوشٹ کالاش قبیلے کا انتہائی معروف تہوار ہے ۔ جو ہر سال ماہ مئی میں منایا جاتا ہے ۔ یہ تہوار دراصل سردیوں کے مشکل ماحول سے نکل کر بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے ۔ اور اس تہوار کے اختتام پر مال مویشیوں کو چرانے کیلئے گرمائی چراگاہوں کی طرف لے جایا جاتا ہے ۔ جہاں چہار مہینے اُنہیں پہاڑوں پر رکھنے کے دوران دودھ سے پنیر دیسی گھی وغیرہ تیار کرکے اُنہیں سردیوں کیلئے سٹور کیا جاتا ہے اور خزان کا تہوار اُچال کے موقع پر مال مویشیوں اور دودھ سے تیا ر شدہ اشیاء کو گاؤں لایا جاتا ہے ۔ چلم جوشٹ اسی خوشی کا اظہار ہے ۔ کہ سردیوں کی مشکلات کے دن گزر گئے ۔ اور راحت و خوشی کے دن موسم گرما کی صورت میں آگئے ہیں ۔ کالاش قبیلے کے لوگ تین وادیوں بمبوریت ، بریر اور رمبور میں آباد ہیں ۔ جن کی مجموعی گھرانے 515اور کل آبادی 4165افراد پر مشتمل ہے ۔ یہ قبیلہ تقریبا ساڑھے چار ہزار سالوں سے اس خطے میں آباد ہے ۔ جو کسی زمانے میں صوبہ کنڑ افغانستان سے چترال کے بالائی علاقوں اور گلگت تک پھیلے ہوئے تھے ۔ تاہم آج یہ تین وادیوں تک محدود ہیں اور اپنے مذہبی تہوار آزادی سے مناتے ہیں ۔ جن میں چلم جوشٹ تہوار کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , , , , ,
9871

ٹورازم کارپوریشن کے زیراہتمام سیاحتی مقام کالاش تک بائیک ریلی کاانعقاد

Posted on

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ ) ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا کے زیراہتمام چترال کے علاقہ کالاش میں منعقد ہونے والے چلم جوشٹ (جوشی) فیسٹیول سے قبل موٹربائیک اسلام آباد سے باراستہ مردان اور پھر چترال پہنچنے کے بعد کالاش پہنچ گئے ، ریلی 10سے زائد موٹربائیکرز شرکت کررہے ہیں جنہوں نے دشوار گزار راستوں پر چترال اورپھر کالاش تک کا سفر تہہ کیا ، موٹربائیک ریلی کا مقصددنیا کو پیغام دینا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا پرامن شہر ہے اور یہاں سیاح باآسانی بغیر کسی خوف کے ملک میں کسی بھی جگہ سیر و تفریح کرسکتے ہیں، ٹورازم کارپوریشن کے تعاون سے بائیکرزریلی میں شریک شرکاء نے چترال سے کالاش تک کے سفر کا آغاز گزشتہ رات کیا،کالاش میں ہر سال منعقد ہونے والے چلم جوشٹ (جوشی) فیسٹیول امسال 14مئی سے شروع ہورہا ہے جوکہ 16مئی تک جاری رہے گا،اس سلسلے میں ٹورازم کارپوریشن صوبہ کے سیاحتی مقامات پر شہریوں اور سیاحوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے صفائی مہم کا بھی آغاز کررہا ہے اور کالاش کی تین وادیوں میں امسال صفائی مہم کی جائے گی جبکہ ساتھ ہی فیسٹیول میں آنے والے سیاحوں کیلئے فری کیمپنگ ویلیج بھی بنایا گیاہے تاکہ سیاح اس کیمپ ویلیج سے مستفید ہوسکیں، امسال ٹورازم کارپوریشن نے نوجوان موٹربائیکر پر مشتمل ایک ریلی کا بھی انعقاد کیا ہے جس کا مقصد گلیات کے علاوہ اب صوبہ کے دیگر سیاحتی مقامات کو بھی آباد کرنا ہے تاکہ سیاح اب ان مقامات کا بھی رخ کریں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
9868