Chitral Times

معاشی استحکام کا عوامی مفہوم ۔ محمد شریف شکیب

معاشی استحکام کا عوامی مفہوم ۔ محمد شریف شکیب

وزارت خزانہ نے رواں مالی سال کے ابتدائی تین مہینوں میں بجٹ خسارہ 745ا رب روپے ظاہر کیا ہے۔اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نان ٹیکس ریونیو میں کمی، قرضوں پر سود کی ادائیگی میں اضافے اور ممکنہ طور پر شرح سودبڑھنے سے بجٹ خسارے میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق حکومت کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق مجموعی قومی پیداوار کے 1.4 فیصد کے مساوی رہا۔مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر نے 14کھرب روپے کا ریونیو جمع کیا۔ 3ماہ کے دوران ایف بی آر کا جمع کردہ ریونیو سالانہ ہدف کا تقریبا ایک چوتھائی ہے۔

پاکستان کے عام شہری کے لئے بجٹ خسارہ، سٹاک ایکس چینج میں تیزی یا مندی، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور ریونیو اہداف میں کمی بیشی معنی نہیں رکھتے۔ عام شہری آٹا، چینی، گھی، دالوں، گوشت، چکن، انڈوں، دودھ، دہی اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی کو معاشی استحکام سمجھتا ہے۔ سرکار نے مختلف بین الاقوامی تجزیاتی اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر ملکی معیشت کو روبہ استحکام ظاہر کرکے عوام کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے کہ مشکل وقت گذر گیا۔اب بتدریج حالات معمول پر آرہے ہیں جس کے اثرات عام آدمی کو جلد نظر آئیں گے۔ جبکہ دوسری جانب ادارہ شماریات کے مطابق 2021کے دس مہینوں میں چینی 36 روپے 52 پیسے فی کلو اضافے کے بعد 120 روپے 52 پیسے فی کلو ہوگئی، آٹے کا بیس کلو والا تھیلہ 224 روپے 72 پیسے اضافے کے بعد 1198 روپے 50 پیسے ہو گیا۔

گھی کی اوسطاً فی کلو قیمت 101 روپے16 پیسے بڑھی جبکہ مٹن 150 روپے62 پیسے، بیف 88 روپے67 پیسے،ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر ایک ہزار روپے سے زیادہ مہنگا ہوگیا۔1400روپے کا بارہ کلو والا سلینڈر اب 2559روپے کا ہوگیا۔مالی سال کے ان دس مہینوں میں دودھ، دہی، دال مسور، دال چنااور سبزیوں و پھلوں کی قیمتوں میں بھی پچاس فیصد تک اضافہ ہوا۔ جبکہ مرغی کا گوشت 120روپے کلو سے 260روپے کلو تک جاپہنچا۔حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر یہی تبدیلی ہے اور نئے پاکستان میں زندہ رہنا اتنا ہی مشکل ہے تو ہمیں پرانا پاکستان ہی لوٹادیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ کورونا کی مہیب وباء ہے جس نے دنیا کی معیشت کا تیاپانچہ کرکے رکھ دیا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے پیچھے اعلیٰ مناصب پر براجماں چند کرم فرماؤں کی نوازشات کا بھی عمل دخل ہے۔

اوپن مارکیٹ کی چیکنگ کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں۔ متعدد سرکاری ادارے اپنے طور پر مارکیٹ کے دورے کرتے ہیں جن کا مقصد قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے اور معیار کی نگرانی سے زیادہ ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ایک محکمہ اپنا حصہ بٹور کے جاتا ہے تو دوسرے محکمے کے لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ اور مٹھی گرم کرنے کے صلے میں وہ گرانفروشوں، ذخیرہ اندوزوں،جعل سازوں اور ملاوٹ کرنے والوں کو کلین چٹ دے دیتے ہیں اور حکام کو دی جانے والی رشوت کا اصل زر منافع سمیت تاجرطبقہ بیچارے عوام سے وصول کرتاہے۔ایک وفاقی وزیر کا بیان نظر سے گذرا۔

کہتے ہیں کہ اپوزیشن والے چینی اور آٹا مہنگا ہونے پر شور مچانے کے بجائے ان چیزوں کی قیمتیں کم کیوں نہیں کرتے کیونکہ ملک میں تمام فلور ملیں اور شوگر ملیں ان کی ملکیت ہیں۔ وفاقی وزیرکے ان ریمارکس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس ملک میں چند لاکھ افراد یا چند ہزار خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا ہے۔ وہ پالیسیاں بھی بناتے ہیں ان پر اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے عمل درآمد بھی کراتے ہیں۔یہاں ملازم پیشہ، متوسط اور غریب طبقہ ہی بے آسرا اور تختہ مشق ہے۔اگر حکومت اس ستم رسیدہ طبقے کیساتھ زرا بھی ہمدردی رکھتی ہے تو ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے مرہم رکھنے کی کوشش کرے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54630

آزاد کشمیر کا سوتیلا ضلع ۔ پروفیسر عبدالشکور شاہ

                                                            

آپ سوتیلے ماں باپ،اوربہن بھائیوں سے تو بخوبی واقف ہیں مگر انسانوں کے علاوہ علاقے اور اضلاع بھی سوتیلے ہو تے یہ بات آپ کے لیے تعجب کا باعث ہو گی۔میں آزادکشمیر کے ضلع نیلم کے ساتھ دہائیوں سے روارکھے جانے والے سوتیلے سلوک کی فائل آپ کی میز پر رکھ کر آپ کے انصاف کا منتظر ہوں۔مانا کہ دنیا میں ہر جگہ غربت ہے مگر نیلم میں دہائیوں سے جوکھیل کھیلا جارہا ہے وہ دنیا میں کہیں بھی ممکن نہیں۔ نیلم کے %80 لوگ وادی سے باہر کام کرتے!کیوں؟ کیا یہ شوق ہے؟ کیا یہ دولت اور پیسے کی حرص ہے؟ کیا یہ مجبوری ہے؟ جی مجبوری ہے،کیوں کے آج تک نیلم کو دانستہ طور پر پس ماندہ رکھا گیاہے۔ میں یہ نہیں کہتا نیلم کو پیرس بنا دو! مگر کم از کم دوسرے اضلاع جیسا ضلع تو بنا دو!کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد صنعتوں پر ہوتی ہے۔

صنعتوں سے نہ صرف لوگوں کوروزگار ملتا ہے بلکہ حکومت ٹیکس بھی اکٹھے کرتی۔ مگر نیلم کے معاملے میں الٹی گنگا بہتی۔ نیلم میں حکومت ٹیکس تو لیتی ہے مگر کوئی صنعت نہیں لگاتی، تو بے روزگاری نہ ہو کیا ڈالر برسیں؟!جنگلات میں نیلم آزاد کشمیر کے تمام اضلاع میں پہلے نمبر پر ہے۔مگر اس میں لکڑی کا کوئی کارخانہ نہیں لگایا گیا! آزادحکومت ریاست جموں و کشمیر کی سال 2018 کی اعداد و شمار کی بک کے مطابق آزاد کشمیر میں کل2576صنعتیں ہیں اور نیلم کے حصے میں ایک بھی نہیں ہے اور آج تک نیلم کا حال جوں کا توں ہے۔ کیا نیلم آزاد کشمیر کا حصہ نہیں ہے؟ کیا نیلم میں انسان نہیں رہتے؟ کیا ہمار کوئی حق نہیں ہے؟ کیا ہم صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟!لکڑ نیلم سے آتی اور کارخانے آپ دوسرے اضلاع میں لگائیں کیا یہ انصاف ہے؟یہ نیلم کے ایوانوں میں بیٹھے موجودہ اور سابقہ لوگوں کی بے بسی ہے، بے حسی ہے یا ملی بھگت ہے؟!کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

جی فیصلہ آپ نے کرنا ہے کیوں کے ان حاکموں کو بھی آپ ہی اپنے ووٹ کے زریعے لے کے آتے ہیں۔مظفرآباد میں لکڑی کے 38 کارخانے،پونچھ میں 37کوٹلی میں 62  میر پور میں 56بھمبر میں 30 لکڑی کے کل 223کارخانے اور نیلم میں ایک بھی کارخانہ نہیں لگایا گیا۔ٹیکسٹائل کی صنعت  کے آزاد کشمیر میں 06کارخانے اور نیلم میں ایک بھی نہیں۔آٹے کے 5کارخانے نیلم میں ایک بھی نہیں۔ کاغذ سازی کی صنعت کے 2کارخانے، نیلم میں ایک بھی نہیں جبکہ نیلم جنگلات میں پہلے نمبر پر ہے۔ اسلحہ سازی کے ملک میں 42کارخانے اور نیلم میں کوئی بھی نہیں جبکہ لائن آف کنٹرول کا علاقہ ہے۔

آزاد کشمیر میں 829پولٹری فارمز ہیں۔ مظفر آباد میں 90پونچھ 120کوٹلی 75میر پور 164بھمبر 180 اور نیلم میں کوئی بھی نہیں۔ نیلم میں پولٹری فارمنگ ہر گھر میں ہوتی ہم اس کو صنعت میں بدل کر روزگار مہیا کر سکتے۔ وادی نیلم میں گھروں میں کی جانی والی مرغ بانی بھی بیماریوں کاشکار ہے۔ وادی کی %60مرغیاں مختلف  بیماریوں کا شکار ہو جاتی۔ دیگر اضلاع میں فارمز لگا سکتے، نیلم میں مرغیوں کی بیماریوں کے لیے ہی کوئی بندوبست کردیں۔ توبہ توبہ کیسی باتیں کرتے شاہ جی، نیلم میں تو ہم انسانوں کے لیے دوائیاں اور ڈاکٹر مہیا نہیں کرتے آپ کو مرغیوں کی فکر ستائے جارہی!  جنہوں نے کارخانے لگانے انکا روزگار تو لگا ہوا ہے۔ انہیں کسی کے روزگار کی کیا فکر! وہ تو پانچھ سال بعد جیسے تیسے کر کے ووٹ لے ہی جاتے۔ مگر اب شاید اتنا آسان نہ ہو۔سٹیل ورکس صنعت کے مظفرآباد میں 25پونچھ میں 60کوٹلی 181میر پور 88 بھمبر میں 50کارخانے جبکہ ضلع نیلم میں کوئی کارخانہ نہیں۔پلاسٹک انڈسٹری کے آزاد کشمیر میں 19 کارخانے نیلم میں کوئی بھی نہیں۔

سٹیل ری رولنگ فرنیچر کی صنعت کے آزاد کشمیر میں 11 کارخانے اور نیلم نظر انداز۔ پرنٹنگ پریس کی صنعت کے مظفرآباد میں 10پونچھ میں 15کوٹلی میں 10 میر پور میں 24بھمبر میں 3 جبکہ نیلم میں کوئی کارخانہ موجود نہیں ہے۔ آزاد کشمیر میں 186کرش مشینں موجود مظفرآباد میں 6 پونچھ میں 60کوٹلی میں 34میر پور میں 35بھمبر میں 51اور نیلم میں بس انسان کرش کرنے کی مشینیں پائی جاتی۔آر سی سی پائپس کی صنعت کے کل 115کارخانے موجود ہیں مظفر آباد میں 3پونچھ میں 50کوٹلی میں 41میر پور 16 اوربھمبر میں 5۔ نیلم میں ووٹ لینے کے بعد ہاتھ کی پانچھ انگلیاں دکھائی جاتی بائے بائے کرنے کے لیے۔ فوڈ انڈسٹری کے آزاد کشمیر میں 144کارخانے ہیں۔ مظفرآباد میں 40پونچھ میں 60کوٹلی میں 22میرپور میں 18 بھمبر میں 4 اور نیلم میں کوئی بھی کارخانہ نہیں ہے۔ جوتا سازی کی صنعت کے2 کارخانے دونوں میر پور میں ہیں جہاں کی 90%آبادی بیرون ملک مقیم ہے۔ شاید کوٹھیوں میں جوتے رکھتے ہوں۔ نیلم میں کوئی کارخانہ نہیں شاید اس لیے نہیں لگایا نہ جوتوں کا کارخانہ ہو گا اور نہ جوتے پڑنے کا خدشہ۔ نیلم والو (پولاں بڑاو ہونٹر)۔آٹوانڈسٹری کے 2کارخانے دونوں میر پور میں،جہاں سب کے پاس ذاتی سواری موجود ہوتی۔

ہمیں تو نیلم کے کرائے نامے کے لیے جتن کرنے پڑتے کارخانے لگوانے تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔کاسمیٹکس کی صنعت کے کل 3 کارخانے ہیں 2 میر پوراور1بھمبر میں۔ وادی نیلم  میں کوئی کارخانہ نہیں۔ وادی نیلم والے فی الحال (نسواکے تے گزارا کرسکو)۔پی وی سی پائپ کی صنعت کے کل5کارخانے ہیں 2مظفرآباد اور 3میرپور میں جبکہ نیلم والوں کو پلاسٹک کے پائپ دیے گئے  وہ بھی سوراخوں والے۔ پائپ دیتے تو ٹینکی نہیں ہوتی، ٹینکی دیتے تو پائپ نہیں ہوتے۔ ملک میں برف بنانے کے 17کارخانے ہیں مظفرآباد اور پونچھ میں 1,1کوٹلی میں 3میرپور میں 8 اور بھمبر میں 4 کارخانے ہیں۔ نیلم میں بس نکارخانے ہیں یا فائلوں کے سرد خانے ہیں۔ برف ہمیں چاہیے بھی نہیں کیوں کے برف کا نام سن کر مجھے یورپ یاد آجاتاہے۔ برف میں ہم خود کفیل ہیں بلکہ اگر حکومت ساتھ دے تو ہم ایکسپورٹ کر سکتے۔ متذکرہ بالا کارخانوں کے علاوہ322 متفرق کارخانے بھی موجود ہیں۔ جن میں سے مظفرآباد میں 20پونچھ میں 10کوٹلی میں 41میرپور میں 171 اور بھمبر میں 80 کارخانے ہیں اور نیلم میں الو بنانے کے علاوہ کوئی کارخانہ نہیں ہے۔

کچھ لوگ پارٹی پرستی میں اس حد تک چلے جاتے اور مہنگائی کے اس عالم میں بھی ہنسا ہنسا کر ہلکان کر دیتے، کہتے کنٹرول لائن کی وجہ سے کارخانے نہیں لگائے جاسکتے۔ سبحان اللہ۔(ماں صدقے تسدے بوتھے تو) جناب آزاد کشمیر  کے جن اضلاع میں کارخانے لگے ہوئے کیا وہاں بارڈر نہیں ہے؟ کیا پاکستان میں جن علاقوں کے ساتھ بارڈر لگتا کیا وہاں کارخانے نہیں ہیں؟ نیلم میں سرکاری گیسٹ ہاوسسز بن سکتے،سرکاری دفاتر بن سکتے،یم ایل ایز کی قیام گاہیں بن سکتی تو کارخانے کیوں نہیں؟ مگر کیوں بنائیں کارخانوں میں کون سے امیروں کے، ایم ایل ایز کے بچوں نے کام کرنا جو کارخانے بنوائیں۔ ان کے لیے تو گیسٹ ہاوسسز عوام کے ٹیکسوں سے بنے  ہوئے۔ وہ پکنک کے لیے چکر لگا لیتے ابا جی کی الیکشن مہم بھی چلا لیتے اور محکمہ تعلیم کا ترتیب دیا ہوا مخلوط رقص بھی دیکھ لیتے۔

اب اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں سے میرا سوال ہے ہم نے نیلم کے لیے کیا کیا؟ اتنی دہائیوں میں کوئی ایک کارخانہ بھی نہیں لگایا۔آپکے بچوں کو کام اور نوکری کی ضرورت نہیں نیلم کے بچوں کو تو ہے۔کیا ہم اس لیے ووٹ دیتے کے ہمیں جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا جائے؟ کیا ہم ایک مخصوص ٹولے کو نوازنے کے لیے ووٹ دیتے؟ بتائیں اب نیلم والے کدھر جائیں بھوکے مر جائیں؟آپ تو انکی کھالوں کو بھی ووٹوں کے لیے استعمال کریں گے۔کیوں کے نیلم میں مردے بھی ووٹ ڈالتے۔ووٹ کے وقت تو یہ کہتے جی بلاؤ اپنے رشتہ داروں کو پنجاب سے آنے جانے کا کرایہ ہم دیں گے۔کیا کبھی یہ بھی کہا بلاؤ ان کو انکے گھر کا ایک ماہ کا راشن ہم دیں گے۔ کرونا سے کتنے لوگ بے روزگار ہیں ان کی کوئی خبر ہے؟ ہمارے ایم ایل ایزووٹ کے لیے ہرگھر کا ایڈریس ڈھونڈ لیتے!یقین مانیے وہ گھر بھی ڈھونڈ لیتے جن کا ہمیں بھی پتہ نہیں ہوتا۔ وادی کے حکمران ہمارے ووٹوں اور ٹیکسوں سے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے اور ہم نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے۔ نیلم کو دوسرے اضلاع کے برابر حقوق دیں۔ اب حقیقت چھپنے والی نہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54624

موسم سرما میں، لاکھوں افغان ہجرت اور فاقہ کشی میں سے کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور-قادر خان یوسف زئی

موسم سرما میں، لاکھوں افغان ہجرت اور فاقہ کشی میں سے کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور
افغانستان کی نصف آبادی  22.8 ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار !
قادر خان یوسف زئی

افغانستان میں بیرون مداخلت اور خانہ جنگیوں نے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ کرکے رکھ دیا۔ جنگ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی بے گناہ کو تو اس حملے سے نقصان نہیں پہنچا بلکہ حملہ آور کوئی بھی ہو، اس کا پہلا ٹارگٹ اپنے دشمن کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔اس حملے کی زد میں ایسے افراد بھی آجاتے ہیں جن کو نشانہ حملہ آور نہیں بناتا۔ افغانستان چار دہائیوں سے مسلسل جنگ سے نبر الزما ہے۔ پہلے عسکری جنگ تھی تو اب معیشت بحالی کی جنگ ہے۔ پہلے بھی افغانی عوام پر استعماری طاقتوں کے غول حملہ آور ہوئے تھے اور اب بھی انخلا کے بعد معاشی طور پر افغانستان کے لئے سب سے دشوار گذار مرحلہ عوام کو امن کے ساتھ روزگار کا یقینی بنانا ہے۔ دنیا کو افغانستان میں تشدد کے خاتمے کا انتظار تھا، لہذا آج اس موقع پر کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان ماضی کے مقابلے میں پرتشدد واقعات میں امن کے راستے کی جانب گامزن ہوچکا ہے۔ داعش اور دیگر افغان طالبان مخالف جنگجوؤں کی پسپائی کے جواب میں شدت پسندی اور انتقامی کاروائی بھی ہو رہی ہے لیکن مجموعی طور افغان طالبان اپنے ملک میں حیرت انگیز طور پر امن کو قائم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ جرائم کی کمی اور سزا کا خوف ایسے عناصر پر بیٹھا ہوا ہے جو عوام کے اغوا برائے تاوان سمیت بھتہ خوری اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔


اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے تازہ رپورٹ میں خبردار کیا کہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کی ضروریات اس حد تک بڑھ گئی ہیں جس کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے اور تنازع سے متاثرہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی، 22.8 ملین افراد، کو نومبر سے”شدید غذائی عدم تحفظ” کا سامنا ہوگا۔  رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس خطرے میں مبتلا 32 لاکھ بچوں کی تعداد پانچ سال سے کم ہے۔ جو سال کے اختتام تک غذائیت کی شدید قلت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام، ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،”افغانستان کا بحران اس وقت اگر دنیا کا بد ترین بحران نہیں تو دنیا کے بد ترین بحرانوں میں ضرور شامل ہے، اور وہاں خوراک کی شدید قلت ہے۔” بیسلی نے کہا کہ، ”اگر ہم افغانستان میں جان بچانے والی امداد نہ بڑھا سکے اور وہاں معیشت بحال نہ ہو سکی تو اس موسم سرما میں، لاکھوں افغان ہجرت اور فاقہ کشی میں سے کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں گے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ”ہم تباہی کی الٹی گنتی پر ہیں اور اگر ہم نے اس وقت کوئی اقدام نہ کیا تو ہمیں ایک مکمل تباہی درپیش ہو گی“۔


دوسری جانب اگر افغانستان کی جنگ میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی جنگی مہم کا تخمینہ کو عالمی اداروں کی جانب سے سامنے لایا گیا ہے اس کے مطابق کھربوں ڈالر ز جنگ میں جھونکے گئے اور اس وقت کی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ نے مبینہ غبن اور فراڈ کے ذریعے رقوم کا بیشتر حصہ اپنے خزانوں میں جمع کیا  اور عوام کو محروم رکھا، سابق کابل انتظامیہ کی کرپشن کی داستانوں سے دنیا میں گونج تھی لیکن عالمی قوتوں کے مفادات نے انہیں بہرا بننے پر مجبور کیا اور تباہ در تباہی کی وجہ سے آج امن آنے کے بعد افغان آبادی کی نصف تعداد ٖبدترین غذائی قلت کے بحران سے دوچار ہے۔ چونکہ امریکہ نے افغان عبوری حکومت کے اثاثے بھی منجمد کردیئے ہیں اس لئے افغان انتظامیہ کے لئے دوہری مشکلات کا سامنا ہے۔ افغان طالبان کی حکومت نے خوراک کی کمی کے شکار خاندانوں کے لئے کام برائے خوراک کی مہم شروع کی ہے، جس میں رقم کے بجائے بھوک سے بچنے اور بچوں کو غذائی قلت کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے غذائی اجناس دینے کی منصوبہ بندی اختیار کی گئی ہے۔


2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے، اور 2019 (ستمبر تک) کے لیے خرچ کا تخمینہ 38 ارب ڈالر ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالر خرچ کیے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جنگ کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے براؤن یونیورسٹی کے ‘کاسٹ آف وار ‘ منصوبے میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی جنگ کے بارے میں امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔ جنگ کے بعد امدادی فنڈ اور غذائی قلت سے بچاؤ کے لئے امریکہ اور نیٹو ممالک کی جانب سے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا اور نت نئے تحفظات سامنے لا کر افغان عوام کے خوف میں اضافہ کررہے ہیں۔


امریکی حکام نے ایک بار پھر اس امر کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں داعش خراساں دو برس کے اندر امریکہ پر حملے کئے جانے کی استعداد حاصل کرلے گی۔ امریکی اداروں کی یہ رپورٹ خود اقوام عالم کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا اب بھی افغان حکومت کو دنیا کے بڑے فتنے سے بچاؤ کے لئے اخلاقی بنیادوں پر اپنے غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے، کھربوں ڈالر جب امن کے بجائے جنگ پر خرچ کئے جاسکتے ہیں تو پھر چند ارب دار افغان عوام کو غذائی قلت کے بدترین بحران سے نمٹنے کے لئے بھی دیئے جاسکتے ہیں، امریکہ سمیت کوئی بھی عالمی قوت کی جانب سے این جی اوز کے ذریعے امداد کی ترسیل کھوکھلے وعدے ظاہر کررہے ہیں کہ اب بھی افغان مخالف قوتیں، تباہی کا تماشا دیکھنا چاہتی ہیں۔ امریکہ سمیت نیٹو ممالک جنہوں نے اپنی افواج کے لئے افغانستان مشن میں اربوں ڈالر خرچ کئے، وہاں بدترین غذائی قلت کے بحران کو مزید سنگین ہونے سے بچانے کے لئے انسانی بنیادوں پر کام کرسکتی ہے۔
روس، چین، پاکستان سمیت کئی ممالک اقوام عالم پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ افغانستان کی عبوری حکومت کو مزید مشکلات کا شکار نہ کرے اور انہیں تسلیم کرنے کے پیش رفت کریں، لیکن صور ت حال روز بہ روز ابتر ہوتی جا رہی ہے اور اب تو اقوام متحدہ کے اداروں کی خوف ناک رپورٹ نے حالات کو مزید دسنگین بنادیا ہے کہ اس وقت افغانستان کی نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہوچکی ہے اور موسم سرما سے بہار آنے تک یہ بحران شدت اختیار کرلے گا اور مزید لاکھوں افغانی غذائی قلت کے باعث سنگین صورت حال کا سامنا کررہے ہوں گے، چین، روس، پاکستان سمیت افغانستان سے ہمدردی رکھنے والے ممالک کو پہلے ہی امریکہ اور مغربی بلاک کی شدید مخالفت کا سامنا ہے، ان کی جانب سے افغان حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل سے مسئلے کا حل نکلنے کے بعد ضد کا شکار ہوجائے گا، جس کے بعد امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک ایک نئے اتحادی بن کر ان ممالک پر دباؤ میں مزید اضافہ کردیں گے جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ افغانستان ایک بار پھر عالمی قوتوں کے بلاکوں میں کچل جائے اور اس کے نتائج سے بعد ازاں مغربی ممالک کو کوئی خوشی ملے یا نہ ملے لیکن ان کے خلاف نفرت میں بے تحاشا اضافہ ہوسکتا ہے اور اس کے ردعمل میں کوئی بھی کاروائی کا ہونا افغان عوام کو مورد الزام ٹھہرانے سے نہ بچ سکے گا۔


 اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ے جی-20 کے رہنماؤں کے افغانستان سے متعلق ایک غیر معمولی اجلاس  میں دنیا کو باور کراچکے کہ”اگر ہم نے اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے افغان باشندوں کی مدد نہ کی تو جلد ہی اس کی بھاری قیمت نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا کو چکانی پڑے گی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل  کا مزید کہنا تھا کہ افغان شہریوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان کے پاس روزگار نہیں ہے، انہیں اپنے حقوق کا تحفظ حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ افغان باشندے اپنے ملک سے فرار ہو کر دوسرے علاقوں کی طرف جائیں گے۔ موجودہ صورت حال میں وہاں غیر قانونی منشیات، مجرمانہ سرگرمیاں بڑھنے اور دہشت گرد نیٹ ورکس مضبوط ہونے کے خطرے میں اضافہ ہو گا“۔ یہ امن پسند اور انسانیت کے درس دینے والے تمام ممالک کے لئے نوشتہ دیوار ہے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہے، افغان حکومت کو تسلیم کرکے انہیں مہلت دیں کہ اپنے نظام کے ثمرات سے داعش جیسے شدت پسندوں کی سرکوبی کریں یا پھر بھوک سے بدحال نوجوان مجبور ہوکر شدت پسندی کا حصہ بنیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54621

خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ محمد شریف شکیب

کورونا وائرس کی شدت میں بتدریج کمی آنے سے کاروبار زندگی معمول پر آنے لگا ہے۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ملک میں مثبت کیسز کی شرح 1.44 فیصد ریکارڈ ہوئی ہے۔این سی او سی نے ملک کے مختلف شہروں میں ویکسی نیشن کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد60فیصد ویکسی نیشن والے شہروں سے پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیاہے۔ جن میں پشاور، اسلام آباد،، گلگت، میرپور،راولپنڈی، اسکردو، ہنزہ، باغ، بھمبر، جہلم، غذر اور کھرمنگ کو بھی ویکسین شدہ شہر قرار دیاگیاان شہروں میں چالیس سے ساٹھ فیصد تک ویکسی نیشن مکمل ہوئی ہے۔ بہترین ویکسین شدہ شہروں میں شادی بیاہ کے اجتماعات پر عائدپابندیاں ہٹادی گئیں ان شہروں میں اسپورٹس گراونڈز، تجارت، ان ڈور ڈائننگ اور کاروبار پر سے پابندیاں بھی اٹھالی گئیں.

بہتر ویکسی نیشن والے شہروں کے اندر اور بین الاضلاعی سفر میں مسافروں کی تعداد 100فیصد کردی گئی۔40فیصد سے کم ویکسی نیشن والے شہروں میں اجتماعات، شادی بیاہ اور اسپورٹس گراؤنڈزپر پابندیاں 15نومبر تک برقراررہیں گی، ان شہروں میں تجارت،کاروبار، ان ڈورڈائننگ، سنیما،جم، مزارات اور ٹرانسپورٹ کے شعبے پر پابندیاں بدستور موجود رہیں گی۔کاروباراور میل جول کی اجازت ملنے کے باوجود مہلک وائرس کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ دو سال قبل چین سے کورونا کی وباء پھیلی تھی۔ چین نے فوری حفاظتی اقدامات کی بدولت وباء پر قابو پالیا تھا۔ مگر اب یہ وباء چین میں دوبارہ سر اٹھانے لگی ہے۔ کورونا سے بچ جانے والے واحد افریقی ملک ٹونگا میں بھی یہ وائرس پہنچ گیا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کو کورونا کی پہلی لہر کے بعد دوسری، تیسری اور چوتھی لہر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔دنیا بھر میں اس وباء کی وجہ سے جتنی اموات ہوئی ہیں وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران مجموعی اموات سے زیادہ ہں۔ جانی نقصانات کے ساتھ اس خوفناک مرض نے دنیا کی معیشت کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ ممالک کے درمیان تجارت بند ہونے سے اشیائے ضروریہ کی طلب اور رسد میں فرق کے باعث قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں امریکہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ اور برطانیہ جیسے صنعتی ترقی یافتہ اور متمول ممالک میں بھی مہنگائی نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک نے معاشی مسائل کی وجہ سے غیر ملکی ورکرز کی تعداد نصف سے بھی کم کردی ہے۔

پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا سمیت ترقی پذیر ممالک کی معیشت ابھی تک ڈانواں ڈول ہے۔ پاکستان نے جزوی لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا کے منفی اثرات کو کافی کم کیا ہے۔ پہلی اور دوسری لہر کے دوران لوگوں نے حفاظتی اقدامات کا خصوصی خیال رکھا تاہم پابندیوں میں نرمی کے بعد لوگوں نے احتیاط برتنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ماسک اور سینی ٹائر کا استعمال اب خال خال ہی نظر آتا ہے۔ سماجی فاصلے کا خیال رکھنا پرانی بات ہوگئی۔ خدمات اور سفری سہولیات کوویکسی نیشن سے مشروط کرنے کی بدولت اکثر لوگوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ویکسی نیشن کروائی ہے۔این سی او سی نے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کی بھی ویکسی نیشن کی ہدایت کی ہے۔ اس کے باوجود بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف ایک کروڑ افراد ویکسی نیشن کراچکے ہیں۔ اور یہ تعداد اور ویکسی نیشن کی رفتار تسلی بخش نہیں۔

آج بھی ملک میں روزانہ مثبت کیسز کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اب بھی ہزاروں افراد وینٹی لیٹر پر ہیں جب تک عالمی ادارہ صحت اور این سی او سی کی طرف سے وباء کے خاتمے کا اعلان نہیں کیاجاتا۔ احتیاط برتنا لازمی ہے۔ کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل اسی وباء سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنی جان، اپنے والدین، بہن بھائیوں، بیوی بچوں اور عزیز و اقارب کی زندگی بچانے کے لئے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ویکسی نیشن ضرور کروائیں ویکسین کی ایک ڈوز کی قیمت ساڑھے آٹھ ہزارروپے ہے ۔یہ سہولت حکومت کی طرف سے مفت فراہم کی جارہی ہے۔ جس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54529

خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں ! – قادر خان یوسف زئی



 ملک میں ہنگامہ آرائیوں کے شعلے بھڑکتے گئے اور بھڑکائے چلے جارہے ہیں، عوام کی خاموش اکثریت اداسی سے معمور ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے بمشل، لب ِ دوز(بظاہر) محو تما شا ہے۔ احساس ہے کہ ان کے دل پر کیا گذر رہی ہے کیا کسی کومعلوم؟۔  اس طبقے کی تعجب انگیز، غیر متوقع خاموشی پر احباب کی طرف سے استفسارات، تقاضے، مطالبے، مشورے، شکوے بلکہ شکایت ہائے رنگین اور بعض گوشوں کی طرف سے طنز و طعن کے تیر و نشتر تک موصول ہو رہے ہیں اور یہ،  ان سب کے باوجود لب بند ہیں، قلم میں ایسی سیاہی سے محروم جس کے حروف تاریکی میں اجالے کا گماں دیں۔جہاں تک ملک میں برپا ہونے والے خلفشار اور انتشار سے اثر پزیر ہونے کا تعلق ہے، یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ بہت کم قلوب ہوں گے جو اس جیسے وقفِ کرب و اضطراب ہوں اور اس کی وجہ ظاہر ہے۔پاکستان کا وجود ہمارے نزدیک اس خطہ ئ زمین کے تحفظ، بقا اور استحکام کی اہمیت کس قدر ہے، اگر (خدانکردہ) اس خطہئ زمین کو کچھ گزند پہنچ گیا تو، اوروں کی تو شاید دنیا ہی اجڑے گی، ہم جیسوں کی تو (محارہ کے مطابق) دین و دنیا دونوں ویران ہوجائیں گے، جو کچھ ملک میں ہورہا ہے اس سے ہمارا قلب ِحزیں قیامت کی گذرگاہ بن رہا ہے، لیکن اس کے باوجود۔۔
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
 ورنہ کیا بات کر نہیں آتی؟


اور وہ بات جس کی وجہ سے ہم جیسوں کو اسی چپ لگی ہے، کوئی سراسر پردہ نہیں۔ کوئی ایسا راز نہیں جسے کھلے بندوں کہا نہ جاسکے، بات بالکل صاف اور واضح ہے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی مفاد پرستیوں کے نشہ میں بدمست ہیں اور کچھ مشتعل، جذبات کے جنون میں پاگل ہو رہے ہیں۔ آپ سوچئے کہ جو شخص ” کسی نشے میں دُھت‘ یا شدت جنون میں ہلڑ مچا رہا ہو اُسے ایسی حالت میں کوئی نصیحت بھی کار گر ہوسکتی ہے؟۔ ایسی حالت میں ہر نصیحت بیکار اور ہر مشورہ عبث ہوتا ہے۔بے کار اور عبث ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کچھ اور۔ لہذا ایسے حالات میں خاموشی کے سوا کوئی چارہ ئ کار نہیں ہوتا، اگرچہ اس قسم کی خاموشی مغز ِ استخواں تک کو جلا کر راکھ کردیتی ہے بقول غالب۔۔
گر    نگاہ ِ کرم     فرماتی     رہی    تعلیم ضبط
شعلہ خس میں جیسے، خوں رگ میں نہاں ہوجائے گا


اس وقت ملک کی خاموش اکثریت ہی واحد ایسا طبقہ ہے جسے کچھ بتانا اور سمجھنا مفید ہوسکتا ہے، ورنہ  انتظار میں رہیں کہ مدہوشوں کا نشہ اُترے اور موسم ِ جنون کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئے تو  ان سے کہاجاسکے کہ ذرا دیکھو کہ تم نے جو گھر اجاڑا ہے، خود تمہارا اپنا گھر ہی تو نہیں۔ یہ اَمر باعث اطمینان بھی ہے کہ ملک کی ساری آبادی اس جنون کا شکار نہیں ہو رہی، اس نشہ میں مدہوش یا جنون میں مبتلا تو ملک کی 22کروڑ آبادی کا اقل ِ قلیل حصہ ہے،شاید چند ہزار۔۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی بقایا، اس قدر کثیر آبادی کیا سوچ رہی اور کیا کررہی ہے، اس پر مایوسی کیوں طاری ہے، آپ اس طبقہ ِ ساکت و صامت کے کسی بھی فرد سے بھی ملیں گے تو اس کے لب پر پہلا سوال یہ ہوگا کہ ”اب کیا ہوگا؟ “، اس ملک کا کیا بنے گا۔


 مشکلات ہزار پیش آئیں اگر ا ن کا حل آپ کے سامنے ہے تو آپ پر کبھی مایوسی طاری نہیں ہوگی، مایوسی اس قت طاری ہوگی جب کسی مشکل کا حل سمجھ میں نہ آئے۔منزل کتنی ہی دور کیوں نہ ہو اور آپ کتنے تھکے ہوئے بھی کیوں نہ ہو، اگر اس تک پہنچنے کا راستہ آپ کے سامنے ہے، تو آپ کچھ وقت تک سستانے کے لئے بیٹھ جائیں تو اور بات ہے، آپ مایوس نہیں ہوں گے، آپ مایوس اس وقت ہوں گے جب آپ کو کوئی راستہ نظر نہ آئے۔قوم کے اس کثیر حصہ کی جس کا میں ذکر کررہا ہوں، اس وقت یہی حالت ہے۔ یہ جو ہر شخص سرتا پا سوال ہے کہ ”اب کیا ہوگا“، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس تباہی سے نکلنے کا کوئی راستہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ دبے لفظوں میں بتانے کا مقصد یہی ہے کہ اپنی فکر کو خود ساختہ تبدیلی سے آزاد کریں، تاکہ جن راستوں کو بند دیکھ کر مایوسی چھا رہی ہے اس کی گرد ہٹائی جاسکے۔ ہم سب کی یکساں خواہش ہے کہ یہ خطہ ئ  زمین محفو ظ رہ جائے اور اللہ تعالی ابدالآباد تک محفوظ رکھے اور یہاں ایسا طبقہ تبدیلی کے سحر سے باہر نکلے، جو نہ خود غرض، مفاد پرست ہو اور نہ ہی طاقت کے نشے میں اپنے ہواس و حواس کھو بیٹھے۔


اَنا پرست نظاممیں سیاسی جماعتوں میں باہمی جذبات ِ نفرت اور عدوات مستقل شکل اختیار کرلیتے ہیں، جن کا مظاہرہ روزمرّہ کی زندگی میں بالعموم اور پارلیمان کے ایوانات میں بالخصوص سال بھر ہوتا رہتا ہے۔ بعض اوقات تصادم اس قدر شدت اختیار کرجاتا ہے کہ جنگ کی سی شکل پیدا ہوجاتی ہے، حزب ِ اقتدار کو قانون، پولیس یا فوج کی قوت حاصل ہوتی ہے، حزب ِ اختلاف کے پاس یہ کچھ نہیں ہوتا، وہ ان کے مقابل، عوام کے جذبات کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، مزاحمت میں قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوجاتا ہے، املاک ضائع ہوتی ہیں، نظم و نسق درہم برہم ہوجاتا ہے، ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے، اس تصادمات میں ملک کی آبادی کا بہت قلیل حصہ ملوث ہوتا ہے، ملک کی کثیر آبادی ان سے الگ اور ان ہنگاموں کے سخت خلاف ہوتی ہے، ان حالات میں ان کی نظریں تیسری قوت کی جانب اٹھتی ہیں کہ بطور ثالث کی حیثیت اختیار کرے اورکشتی لڑنے والے ان دو پہلوانوں کو چھڑا دے۔ ثالث یا مفاہمت کے نہ ہونے سے دو افراد کے درمیا ن لڑائی سے صرف  ان  کا نقصان ہوگا، لیکن حزب ِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف کے تصادمات سے ملک برباد اور قوم تباہ ہوجاتی ہے، قوم کا وہ امن پسند طبقہ، جس کا ا ن متصادم گروہوں کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا، بھلا وہ ملک اور قوم کی اس تباہی پر خون کے آنسو کب تک بہاتا رہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54519

کرونا ویکسین ڈوپلومیسی – قادر خان یوسف زئی

کرونا ویکسین ڈوپلومیسی دنیا کی چار ارب آبادی کا انحصار کوویکس کی طرف سے دی جانے والی ویکسین پر ! قادر خان یوسف زئی

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)  نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ غریب ممالک کو ضرورت کے مطابق ویکسینز نہ ملنے کی وجہ سے وبا کم از کم مزید ایک سال جاری رہے گی۔ڈبلیو ایچ او کے سینیئر اہلکار ڈاکٹر بروس ایلوارڈ کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ کووڈ کا بحران ’آسانی سے 2022 کے آخر تک جا سکتا ہے۔‘دوسرے برِ اعظموں کی 40 فیصد آبادی کی نسبت افریقہ کی صرف پانچ فیصد سے کم آبادی کو ویکسین لگائی گئی ہے۔ دنیا  کے غریب ممالک اس وقت بڑے امتحان سے گذر رہے ہیں، غریب اور ترقی پزیر ممالک کو کرونا کی وجہ سے درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لئے اپنی قوت اور طاقت کا اندازہ نہیں رہا۔ کرونا  ویکسینز کی فراہمی امیر ممالک تک محدود ہو گئی ہے، غور طلب مقام یہ بھی ہے کہ غریب ممالک غریب سے غریب ہوتے جا رہے ہیں، مہنگائی کا عفریت انہیں چار اطراف سے کچھ اس طرح گھیر چکا ہے کہ انہیں اپنے عوام کو بچانے کے لئے امیر ممالک کی جانب دیکھنا پڑ رہا ہے۔ کرونا ویکیسن کے تیاری کے مراحل میں ابتدائی اندازے یہی لگائے گئے تھے کہ ویکیسین کی تیاری میں کئی برس لگ سکتے ہیں لہذا اس وقت تک لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ تاہم سائنسدانوں نے تمام اندازوں کے برعکس برسوں کے بجائے چند مہینوں میں ویکسین بنا کر دوا ساز اداروں کے لئے منافع کمانے کا بڑا دورازہ کھول دیا۔


 دنیا کے سامنے اصل چیلنج یہ تھا کہ کرونا کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ویکسین کو دنیا بھر میں پھیلایا جائے۔ امریکا، چین سمیت کئی ممالک نے کرونا  ویکسینز کی فراہمی کے لئے قدرے بہتر اقدامات کئے لیکن اسے دنیا کے کمزور طبقے کے لئے ناکافی سمجھا جارہا ہے۔ کوویکس گروپ کے ذریعے ایسے ممالک کو  ویکسینز فراہم کی جاتی ہے جو اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ عالمی امداد کے اداروں نے برطانیہ اور کینیڈا جیسے معاشی طور پر مضبوط ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے  ویکسینز کی بڑی خوراک خریدنے کے بجائے عطیہ لیں۔ برطانیہ نے5 لاکھ 39 ہزار 370 فائزر کی خواکیں اور کینیڈا نے ایک ملین کے قریب آسٹرازینیکا کی خوارکیں کوویکس گروپ سے حاصل کیں جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔کرونا وبا کے عالمی طور پر بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے بعد اس خدشے کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی تھی کہ کرونا وبا کی ویکسین کو جلد ازجلد تیار کیا جائے اور اس کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے کیونکہ غریب اور ترقی پذیر کمزور معیشت والے ممالک کے لئے مہنگی خوراکوں کا حصول انتہائی دشوار گذار دیا جارہا تھا کیونکہ ان کی معیشت پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہونے کے وجہ سے امیر ممالک کے مقابلے میں خریدنے کی استطاعت نہ تھی۔ کرونا ویکسین بنانے والے دوا ساز اداروں نے جیسے ہی ویکسین بنانے اور اس کے کامیاب تجارب کا اعلان کیا تو فوری طور پر امیر ممالک نے ان دوا ساز اداروں سے بڑے پیمانے پر ویکسین خریداری کے معاہدے کرلئے۔


کرونا وبا کے خاتمے کے لئے ویکسین کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا، مساوی رویہ اختیار کئے بغیر کرونا وائرس کی تمام عالمی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی چلی جائیں گی، لہذا اس امر کی جانب عالمی اداروں کو توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے مالی مشکلات کا حل نکالا جاسکے۔ برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک بھی اگر خیراتی امداد کے ذریعے ویکسین حاصل کرچکے ہیں تو اس عمل پر کوویکس گروپ کو اپنی پالیسی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ مضبوط معیشت کے حامل ممالک کو ویکسین کی مفت فراہمی کس طرح ممکن ہوسکی۔ خیال رہے کہ گاوی کوویکس ویکسینوں تک مساویانہ رسائی کے لیے وقف ایک بین الاقوامی شراکت داری ہے۔ اس کا ہدف 2021  کے اختتام تک کووڈ-19 ویکسین کی دو ارب خوراکیں تقسیم کرنا ہے۔ کوویکس میں، متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے تیاری اور جدت طرازی کا اتحاد، گاوی، یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت رابطہ کاری کا کام کرتے ہیں۔ دسمبر 2020 میں امریکی حکومت نے کوویکس کے لیے پیسوں کی منظوری دی تو گاوی کے چیف ایگزیکٹو، ڈاکٹر سیتھ برکلے نے کہا،“امریکی عوام کی طرف سے دی جانے والی اس امداد سے گاوی کو کوویکس اے ایم سی کے ذریعے کم آمدنی والی معیشتوں کو کووڈ-19 ویکسین کی خوراکیں خریدنے اور پہنچانے میں مدد ملے گی۔ اس سے بحرانی مدت میں کمی آئے گی، زندگیاں بچیں گیں اور عالمی معیشت کو دوبارہ مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔“ لیکن عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)  نے جب یہ بیان دیا غریب ممالک کو ضرورت کے مطابق ویکسینز نہ ملنے کی وجہ سے وبا کم از کم مزید ایک سال جاری رہے گی، تو اس کے بعد امریکا  جیسے ممالک کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔


امریکا اس وقت تک دنیا کے ممالک کے لیے ویکسینوں کی200 ملین خوراکوں کا عطیہ دے چکا ہے، لگ بھگ ایک سو ترقی پذیر ممالک کو بطور عطیہ دینے کے لیے ویکسین کی 1 بلین خوراکوں کی خریداری کی گئی اور کوویکس پروگرام میں مدد کرنے کے لیے بنائے گئے ویکسین کے اتحاد، گاوی کے لیے چار ارب ڈالر کا عطیہ بھی دیا گیا۔صدر بائیڈن نے 3 جون کے ایک بیان میں کہا تھا کہ”امریکہ اس وائرس کے خلاف دنیا کی مشترکہ جنگ میں ویکسینوں کا اسلحہ خانہ ہوگا۔ ہم ایک ایسی دنیا تعمیر کرنے کے لیے جو کچھ کر سکے کریں گے جو متعدی بیماریوں سے لاحق خطرات  کے خلاف دفاع میں زیادہ سلامتی والی  ہو اور زیادہ محفوظ ہو۔”آکسفیم کا اندازہ ہے کہ دنیا کی چار ارب آبادی کا انحصار کوویکس کی طرف سے دی جانے والی ویکسین پر ہے۔ برطانیہ کا کوویکس پروگرام کے تحت ویکسین لینے کے عمل سے پہلے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ ’برطانیہ کی ویکسین مہم کی کامیابی کے بعد ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اضافی ویکسین ان کے ساتھ شیئر کریں جنہیں اس کی ضرورت ہے۔دنیا میں تین ایسے ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ ویکسین لگائی گئی۔ چار ارب ویکسینز میں سے 40 فیصد یعنی 1.6 ارب چین میں لگائی گئی۔ بھارت میں تقریباً ساڑھے 40 کروڑ افراد کو اور امریکہ میں 34 کروڑ کے قریب ویکسین لگائی گئی۔


دنیا کے غریب ممالک نے دیر سے ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا اور وہ بھی کویکس کی طرف سے عطیہ کے باعث ممکن ہوا۔ تاہم ویکسین کی تقسیم برابری سے نہیں ہوئی۔چین غریب ممالک میں ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اہم کردار ادا کررہا ہے لیکن چین کی جانب سے ویکسین کی امداد کو عالمی سیاست کا نشانہ بناتے ہوئے ویکسین ڈوپلومیسی قرار دیا جارہا ہے، جس کی وجہ امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے چین کی تیار کردہ کرونا ویکسین کی افادیت کو کم ظاہر کئے جانا مقصود تھا تاہم پاکستان،بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، سری لنکا سمیت کئی ممالک کو فوری ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنایا اور سب سے پہلے ویکسین کی خوراکیں پہنچائیں۔ پاکستان میں چین کے تعاون کے باعث ہی پاک ویک ویکسین تیار کی ہے۔ کرونا کی تبدیل ہوتی نئی اشکال اور دنیا کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں ایسی کرونا ڈوپلومیسی کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے جس سے غریب اور ترقی پذیر ممالک کی عوام کو خطرات درپیش ہوں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کو صرف بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے عملی طور پر ویکسین کی مساوی تقسیم کو یقینی بنانا چاہے۔امریکا اور چین دنیا کی بڑی آبادی کو ویکسین فراہم کرنے کی تعداد میں اضافہ کریں تو اس سے جلد ازجلد عالمی سطح پر وبا پر قابو پانے میں آسانی ہوگی اور دنیا بھر کی معیشت کو نقصان پہنچنے کا ازالہ ممکن بنانے کے لئے مناسب لائحہ عمل اختیار کیا جاسکے گا۔ مضبوط مالہ معیشت کی حامل ممالک بالخصوص جی سیون اور جی 20کو اپنے امدادی پروگرام میں پیش رفت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا ابھی کرونا وبا سے محفوظ نہیں ہوئی۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
54465

سیاستدانوں کی دلچسپ پیش گوئیاں۔محمد شریف شکیب

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر زراعت منظور وسان نے اپنی تازہ پیشگوئی میں پانچویں مرتبہ حکومت جانے کی نوید سنائی ہے۔ کہتے ہیں کہ سلیکٹ ہونے والوں کی حکومت کی مہلت پوری ہوگئی اب الیکٹ ہونے والوں کا دور شروع ہوگا۔انہوں نے حکومت سلیکٹ کرنے والوں کو نماز پڑھنے اور توبہ استعفار کرنے کا مشورہ بھی دیدیا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات انہوں نے یہ کہہ دی کہ عنقریب ملک میں انتخابات ہوں گے جس کی جتنی سیٹیں ہونگی اس کے بعد طے کیا جائے گا کہ کس کو حکومت دینی ہے،ہوسکتا ہے کہ آئندہ سیٹ اپ میں پی پی پی اورن لیگ مشترکہ طور پر حکومت بنائیں یا پھر اپوزیشن میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔وزیراعظم سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ مجھے کپتان کا مستقبل غیر یقینی اور کھلاڑیوں کاتابناک نظر آرہا ہے،

انہوں نے انکشاف کیا کہ وفاقی کابینہ میں شامل کچھ وزراء عمران خان کے فیصلوں سے متفق نہیں ہیں، وہ مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ جب کشتی ڈوبنے والی ہو تواس میں سوار افراد بہانہ بناکر کود جاتے ہیں۔منظور وسان کا دعویٰ ہے کہ ان کی سو فیصد پیشگوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ پیش گوئی غلط ثابت ہو ہی نہیں سکتی کہ ملک میں انتخابات ہوں گے جو پارٹی اکثریت حاصل کرے گی وہ حکومت بنائے گی۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کو اگر اقتدار میں آنے کی مطلوبہ اکثریت نہیں ملی تو وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گی۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کے ایک سینئر وزیر نے جوابی پیش گوئی میں انکشاف کیا ہے کہ اپوزیشن کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں مزید دھڑے بندیاں ہونے والی ہیں۔کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر آنے والے ہیں اور ان مقدمات میں ملوث اپوزیشن کے آدھے لیڈرز جیل کی سلاخوں کے پیچھے جائیں گے اور ان کی جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں امیدوار ہی نہیں ملیں گے۔

سیاست دانوں کی پیش گوئیوں کے برعکس برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔یہاں کے معروضی حالات دیگر جمہوری ملکوں سے بہت مختلف ہیں۔ دنیا کی دیگر جمہوریاؤں میں لوگ کارکردگی اور قابلیت کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دوستی، رشتہ داری، قومیت، علاقائیت، لسانیت، مسلک، فرقے اور وقتی مفادات کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تعلیم ،کارکردگی اور قومی خدمت کے جذبے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ امیدوار کی مالی حیثیت، پارٹی قیادت کے ساتھ غیر مشروط وابستگی رکھنے والے اور الیکٹ ایبلز کو پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔ اور یہی الیکٹ ایبل لوگ ہی گذشتہ پانچ چھ عشروں سے ایوان ہائے اقتدارمیں دکھائی دیتے ہیں۔ ہر پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ الیکٹ ایبلز کو اپنے ساتھ ملالے۔ اور اس کام کے لئے وہ انہیں پارٹی ٹکٹ، من پسند وزارت کے علاوہ پرکشش مراعات کی پیش کش کرتی ہیں۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے بیس فیصد سیاست دان ہر پانچ سال بعد پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں سیاسی پارٹیوں میں الیکٹ ایبلز کی بھی پی ایس ایل اور آئی پی ایل کی طرح ڈرافٹنگ ہوگی۔سیاست دانوں کے لئے پلاٹینئم، گولڈ اور براؤنز گروپ ہوں گے۔ جو پارٹی زیادہ بولی دے گی وہی مشہور امیدوارخرید سکے گی۔ تاہم اس سیاسی رجحان سے سیاسی جلسے، جلوسوں، ریلیوں، زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کی گونج ختم ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ یہ کام پارٹی کے کارکن سرانجام دیتے ہیں جنہیں ہم عرف عام میں جیالے، ٹائیگرز، یوتھیے، سرفروش، جانثاروغیرہ کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ان کارکنوں کو اپنی قربانیوں کے صلے میں پارٹی ٹکٹ ملنے کی توقع ہوتی ہے جب یہ توقع ہی اٹھ جائے تو پارٹیاں جانثار کارکنوں سے محروم ہوسکتی ہیں۔ایسی بھیانک صورتحال کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54457

داد بیداد ۔ معدوم ہونے والی زبان۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ معدوم ہونے والی زبان۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اخبارات میں سوات کی تحصیل بحرین کے تاریخی گاوں مغل مار سے ایک صحا فی کی تحقیقا تی رپورٹ آئی ہے رپورٹ میں ہند آر یا ئی زبان بدیشی کی معدومیت کا ذکر ہے تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2021ء میں بدیشی زبان کے بولنے والے تین افراد زندہ ہیں جنکی عمریں 20اور 60سال کے درمیاں بتائی جا تی ہیں اخبارات میں جو تصویر یں آئی ہیں ان میں محبت خا ن سفید ریش ہیں ایک بزرگ کی داڑھی سیا ہ ہے نو جوان کلین شیو نظر آ رہا ہے علا قے کی مغزز شخصیت مو لا نا شعیب نے صحا فی کو بتا یا کہ بدیشی ہزار ہا سا لوں سے یہاں بو لی جا تی تھی قرب جوار میں تور والی، گاوری اور پشتو زبا نیں بو لی جا تی ہیں .

اس وقت بدیشی بولنے والوں کی آبادی 4ہزار سے اوپر ہے مگر 40گھرانوں میں سے صرف تین گھرا نوں کے اندر تین افراد ایسے ہیں جو آپس میں بدیشی بولتے ہیں باتی کوئی بدیشی نہیں بولتا اگر کوئی آفت آگئی یا قدرتی موت سے یہ تین افراد دم توڑ گئے تو بدیشی زبان ختم ہو جائیگی علماء کہتے ہیں کہ جسطرح پرندوں، جا نوروں، پودوں اور درختوں کی انواع و اقسام اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت کی نشا نیاں ہیں اسی طرح زبانوں کی انواع و اقسام میں بھی قدرت کی بڑی نشا نی ہے اور قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے ایک زبان کا معدوم ہونا دنیا میں قدرت کی ایک بڑی نشا نی کی معدومیت ہو گی اخبار بین حلقوں کو یا د ہو گا 13سال پہلے 2008ء میں ایک رپورٹ آئی تھی کہ نیپال کی حکومت نے ایک معمر خاتون سومہ دیوی کی زبان کو محفوظ رکھنے کے لئے دنیا کے تحقیقی اداروں کے تعاون سے اس بڑھیا کے گاوں میں ریسرچ لیبارٹری، پریس اور مر کز تحقیق قائم کیا تھا 20عالمی اداروں کے 100سے زیا دہ ما ہرین اس گاوں میں 30سا لوں سے مقیم تھے

ان میں سے بعض اس بڑھیا کی صحت، ان کے خوراک، ان کی ورزش اور علا ج معا لجے پر ما مور تھے، بعض کے ذمے یہ کام لگا یا گیا تھا کہ خا تون کے پاس بیٹھ کر اس کی مادری زبان ڈیورا (Dura) کی کہانیاں ریکارڈ کریں، بعض کے ذمے گیتوں کی ریکارڈنگ تھی بعض کے ذمے خاتون کی زبان سے اس کی مادری زبان کے ذخیرہ الفاظ، اسماء، افعال، ضرب لامثال وغیرہ کی ریکارڈنگ کا کام تھا 2008ء میں سومہ دیوی کی عمر 82سال تھی ان کے انتقال کے بعد ڈیورا زبان کی بہت بڑی لائبریری وجو د میں آگئی جس میں معدوم ہونے والی زبا ن کی کہا نیاں بھی محفوظ ہیں گیت اور ذخیرہ الفاظ بھی محفوظ ہیں سومہ دیوی ایک مثال تھی اس مثال کو سامنے رکھ کر اگر حکومت پا کستان کا کوئی ادارہ کوشش کرے تو بدیشی زبان کے تین بولنے والوں کے لئے دنیا بھر سے کئی بڑی تنظیمیں سوات آسکتی ہیں ما نسہرہ کی ایک معدوم ہونے والی زبان کو محفوظ کرنے کے لئے نا رتھ ٹیکساس کی امریکی یو نیورسٹی نے ایک نو جوان کو سکا لر شپ دے کر امریکہ بلا یا ہے

نو جوان کو ڈگری دینے کے بعد ما نسہرہ کے پہا ڑی گاوں میں ریسرچ لیبارٹری قائم کی جا ئیگی یہ نو جوان با ہر سے آنے والے محققین کی مدد کرے گا اگر خیبر پختونخوا کی حکومت نے بدیشی زبان کے بچے کھچے الفاظ اور ادبی و لسا نی مواد کو محفوظ کرنے کے لئے محبت خان کی مدد سے سوات کی تحصیل بحرین کے گاوں مغل مار میں مر کز تحقیق قائم کیا تو سویڈن، ناروے، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، امریکہ، چین، روس اور جا پان سے بڑے بڑے ادارے سوات آئینگے جس طرح 1980ء کے عشرے میں ڈاکٹر جون بارٹ اور لیلی گرین کے آنے کے بعد گاوری اور تور والی زبانوں کو تحریر میں لا نے پر کام کا آغا ز ہو ا مقا می ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی ٹو لیاں وجود میں آگئیں اسی طرح بدیشی زبان کو معدومیت سے بچا نے کے لئے سنجیدہ اور مر بوط کا م کا آغا ز ہو جا ئے گا اور قدرت کی ایک اہم نشا نی معدومیت کے خطرے سے بچ جا ئیگی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54428

محبت میں ناکامی سے جسم فروشی تک- تحریر: افضال احمد


یو ٹیوب پر جسم فروش خواتین کی زندگی کے حوالے سے حقیقی ڈاکومنٹری پر مبنی ویڈیوز دیکھنے کے بعد قلم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ ویڈیوز بناوٹی نہیں تھیں حقیقی جسم فروش خواتین پر مبنی تھیں، جسم فروش خواتین سے انٹرویوز لیے گئے تو اُن کا کہنا تھا کہ ہم جتنی بھی احتیاط کر لیں ہمارے دھندے میں عورت کی موت کسی بڑی بیماری ایڈز، کینسر، ٹی بی، ہیپاٹائٹس سے واقع ہوتی ہے کوئی جلدی ان بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی دیر سے لیکن ہوتا ضرور ہے، دوسری طرف جب اولادوں کو پتہ چلتا ہے کہ ہماری ماں اس دھندے میں ملوث ہے تو اولادیں نفرت کرنے لگتی ہیں، یوٹیوب پر ایک چینل پر تقریباً 50 جسم فروش عورتوں کے انٹرویوز دیکھے 50 کی پچاس لڑکیاں انٹرویوز کے دوران رونے لگ گئیں کہ ہم اس دھندے سے بہت تنگ ہیں کوئی ہمیں اس دھندے سے نہیں نکالنا چاہتا، انٹرویوز میں خواتین نے بتایا کہ ہمیں مختلف جگہوں پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، پیسے بھی نہیں دیئے جاتے اور ایک انسان سے برائی کا کہہ کر بیس انسانوں کے آگے پھینک دیا جاتا ہے اور ہم وہاں کچھ بھی نہیں کر پاتیں۔ دل چیر دینے والی ویڈیوز تھی، پتہ نہیں مجھے اس پر لکھنا چاہئے تھا کہ نہیں، لیکن اصلاح کے نظریے سے لکھ رہا ہوں۔


جسم فروشی معاشرے کا خطرناک المیہ بن چکا ہے۔ جسم فروشی کے دھندے میں سب سے زیادہ وہ خواتین پائی جاتی ہیں جو گھروں سے اپنے عاشقوں کے چکروں میں بھاگ نکلتی ہیں اور آگے اُن کے عاشق انہیں دھوکہ دے دیتے ہیں، دوسری کیٹگری اُن خواتین کی ہوتی ہے جو عیاشی اور اپنی عیاشیوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اس راستے کو چنتی ہیں، تیسری کیٹگری اُن خواتین کی ہوتی ہے جو اپنا اور اپنے ساتھ جڑے پیٹوں کو پالنے کی خاطر اس راستے پر چلتی ہے، میں ان تینوں مجبوریوں کو سرے سے مانتا ہی نہیں، پہلی دو کیٹگری میں تو عورت خود کیساتھ خود دشمنی کرتی ہے اور خود سمیت اپنے پورے خاندان کی عزت خاک میں ملا دیتی ہے، تیسری کیٹگری کہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے جسم فروشی کی جاتی ہے، یہ بھی میں نہیں مانتا، میرا ماننا ہے کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے مانگو اللہ تعالیٰ آپ کو غلط راستے سے بچائیں گے اور آپ کیلئے زمین پر ایسے ذرائع پیدا کر دیں گے کہ آپ کو غلط راستے پر نہیں چلنا پڑے گا بشرطیکہ کہ آپ ذریعہ بننے والے انسان کا احترام کریں، جب آپ کی سوچ کا محور ہی یہ ہو گا کہ جسم فروشی کروں گی تو پیسہ ملے گا تو آپ ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں، آپ پیدا کرنے والے رب سے مایوس ہیں اور مایوسی پہلا گناہ ہے، اس گناہ کے بعد انسان دوسرے گناہوں کی جانب بھاگتا ہے۔


گھر سے بھاگنے والی لڑکی عاشقوں کے دھوکہ کے بعد یا تو موت کے منہ میں چلی جاتی ہے یا پھر کسی کوٹھے کی زینت بن کر عمر بھر وحشی درندوں کی درندگی کا شکار ہو کر روز مرتی ہے، گھر سے بھاگنے والی لڑکیاں ناجانے یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ جس کی خاطر آپ سب کو چھوڑ کر گھر سے بھاگ رہی ہو وہ آپ کیساتھ کیا سلوک کرے گا؟ کامن سی بات لڑکیوں کو سمجھ نہیں آتی کے ایک بے سہارا، لاوارث لڑکی کے ساتھ ہمارا معاشرہ کیا سلوک کرتا ہے؟ آپ اچھے بھلے وارثوں کے ہوتے ہوئے بھی ایک دو ٹکے کے عاشق کی خاطر گھروں سے بھاگ نکلتی ہو، اتنی تو عقل کرو کہ جو لڑکا آپ کو گھر سے بھاگنے کو کہہ رہا ہے کیا وہ عزت دار ہو گا؟ وہ آپ کی عزت کرے گا؟ تم لڑکیوں کو کیوں بھول جاتا ہے کہ جن والدین نے تمہیں اتنے ناز نخرے سے پال پوس کر بڑا کیا، تم انہیں دھوکہ دے کر دو ٹکے کے عاشق کیساتھ خوش رہ لو گی؟ کوئی ایک لڑکی مجھے دکھا دو جو گھر سے بھاگ کر سکھی ہو؟ جو عاشق ہوتا ہے وہ کبھی اپنی محبت کر رسواء نہیں کرتا، جو پہلا قدم ہی غلط اٹھانے ”گھر سے بھاگنے“ کو کہہ رہا ہو وہ عاشق نہیں دو ٹکے کا عاشق ہوتا ہے اور یاد رکھنا جس عاشق کا پہلا قدم ہی دو ٹکے کا ہو گا وہ آپ کیساتھ آگے چار ٹکے کا سلوک کرے گا اور جو لڑکیاں عاشق کو خود مجبور کریں بھاگنے کیلئے تو یاد رکھو لڑکیوں ایسی لڑکی کیساتھ نہ دو نہ چار بلکہ 8 ٹکے کا سلوک ہوتا ہے۔


ہمیں دو وقت کی روٹی کے حصول کی خاطر جسم فروشی کرنیوالی خواتین کا سہارا بننا چاہئے۔ ہمیں اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ میرے نزدیک اس سے بڑا کوئی کام نہیں کہ ایک مجبور عورت کے اخراجات برداشت کرکے یا اسے کوئی عزت دار روزگار فراہم کرکے برائی سے روکا جا سکے۔ جسم فروشی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے، جس کا احساس نہ جسم فروش عورت کو ہے نہ جسم خرید کرنے والے مرد کو ہے۔ دنیا بھی خراب آخرت بھی خراب، دونوں کا انجام عبرتناک موت ہوتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کی خاطر برائی کرنیوالی خواتین کی مدد کرنا ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہئے اور ہر پل اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اے میرے رب مجھے اتنی طاقت اور وسائل دے کہ میں اس برائی کے کام میں ملوث مجبور خواتین کو برائی سے بچا کر سکھی زندگی کی طرف لا سکوں۔ کہتے ہیں کہ کسی کو نصیحت کرنے سے پہلے خود اس پر عمل کرنا چاہئے، الحمد للہ! اللہ تعالیٰ کی دی توفیق اور وسائل کے ذریعے اس عمل کو روکنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔ اس دھندے میں ملوث خواتین سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ ایک بار صرف ایک بار سچے دل سے توبہ کرکے اپنے پیدا کرنے والے رب سے مانگ کر دیکھو انشاء اللہ تمہارا رب تمہارے لیے کسی نہ کسی انسان کو ذریعہ بنا دے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54426

دھڑکنوں کی زبان ۔ “محنت کے شاخسانے “۔محمد جاوید حیات


یہ آج کے نوجوان محنت سے دور کافی فاصلے پر ہیں ۔ان کے ذہنوں میں خواب سوار ہیں وہ کوئی معجزہ چاہتے ہیں اور اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
پس دیوار شب سونا نہیں ہے
معجزہ اب کوئی ہونا نہیں ہے


باتیں بہت ہائی فائی ہیں لگتا ہے علم کے خزانے ان کے پاس ہیں تمام مہارتوں کے ناخدا وہ ہیں ان کے سامنے تجربے اور عمر کی کوئی حیثیت نہیں۔جو واقعی با صلاحیت ہیں وہ خاموش ہیں بات یہ نہیں کرتے کوئی دعوی نہیں ۔ان کے پاس نمبروں کی گھٹڑیاں بھی نہیں۔ بمشکل فرسٹ ڈوژن ہونگے۔تعلیم یافتہ گلی کوچوں میں موج در موج ہیں ہر سال کئی ڈگری ہولڈر ہو رہے ہیں عملی میدان میں اگر ان کی قابلیت کو گیچ کیا جایے تو آپ انگشت بدندان ہونگے ۔حیران ہونگے آپ کو کسی ڈگری وغیرہ پر شک پڑے گا اس کے ٹھاٹھ باٹھ سے گھن آئے گا ۔یہ پیداوار جو ہم قوم کو دے رہے ہیں کیا یہ خام مال ہیں یا خستہ مال ۔۔یہ ہنرور ہیں یا بے ہنر ۔یہ خالی ذہن ہیں یا کچھ شد بت پاس رکھتے ہیں ۔ہمارے امتحانات ہمارے نتایج ہمار ے میرٹ سسٹم ہمارے طریقہ تدریس ہماری یونیورسٹیاں اور دوسرے تعلیمی ادارے کیا اہل پیدا کر رہے ہیں ۔

ہمارے سکالرز کیا واقع سکالر کہلانے کے لائق ہیں ۔۔کیا ہمارے ہاں Talent کی کوئی قدر ہے ۔یہ سب سوچنے اور سوچ کے بے چین ہونے کی باتیں ہیں ۔ہمارے نوجوان اس لیے خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں ۔دن گیارہ بجے اٹھتے ہیں۔کچھ وقت فیشن میشن اور سٹائل بنانے میں گزرتا ہے باقی وقت فیس بک وغیرہ میں گزرتا ہے درمیان میں Psl, Apl ,T20 وغیرہ آجائیں تو ان کاوقت مذید قیمتی ہوتا ہے ۔ آج کل التغرل نے بچے گھچے چند منٹ بھی چھین لیا ہے ۔۔آج کا نوجوان کس جہان میں ہے ۔۔اس کا Prime time جس پر آگے اس کی زندگی کا انحصار ہے اس کے ہاتھوں ضائع ہورہا ہے ۔بیچارے والدیں خواب دیکھتے ہیں ان کے ساتھ Argu نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تعلیم یافتہ ہیں ۔یہ مایوسی یہ نااہلی ہمیں کہیں نہ لے ڈوبے ۔

۔ماضی ایسی بے ہنر قوموں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔اس کے نوجوان نا اہل ہوتے رہے قوموں کےزوال کے اثار نمودار ہوتے رہے ۔۔ہمارے نوجوان ستاروں پہ کمند ڈالنے کے اہل ہونے کی بجایے فطرت گوسفندی اور عقابی روح کی آرزو کرنے کی بجایے بھوم و کرگس کی فطرت کے شناسا بنتے جاتے ہیں ۔۔ایک غیرتمند قوم کا نوجوان اہل، ہنرور، محنتی اور جفاکش ہوتا ہے گفتار کا غازی نہیں ہوتا ۔اس کا کردار بولتا ہے ۔اس کی صلاحیت قوم کا مداوا ہوتی ہیں ۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں احساس تک نہیں ۔جو نوجوان کسی سیاسی پارٹی کی حمایت میں میدان میں اترتے ہیں عجیب لگتا ہے کہ تعمیری سوچ سے بے بہرہ روبوٹ ہیں ان کے پاس اخلاق اقدار نام کی کوئی چیز نہیں ۔اگر کسی کھیل کے میدان میں جاو تو نوجوانوں میں صفت شاہینی نظر نہیں آئے گی۔کسی محفل میں جاوٴ توان کا لباس پوشاک نشست و برخواست دیکھ کر مایوسی ہوگی ۔اس مرحلے میں سوالیہ نشان کون ہیں ۔۔ادارے ،خاندان ،معاشرہ یا قوم کے بزرگ اور راہنما ۔۔۔جواب مشکل ہے

Posted in تازہ ترین, مضامین
54424

مختصر سی جھلک – ادھوری کہانی ادھورا خواب-فریدہ سلطانہ فَری

 دنیا نام کے اس اسٹیج پرکچھ حقیقی کرداراپ کی کہانی کا بہت ہی اہم اورقیمتی حصہ ہوتے ہیں جن کے اِس اسٹیج سے اترجانے کے بعد چاہ کربھی وہ پھر سےاپ کی اِس کہانی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ کیونکہ اپنے حصے کاکردار بخوبی نبھا کروہ لوگ اپ کی کہانی سے کچھ اس طرح سے نکل چکے ہوتے ہیں کہ پوری کی پوری کہانی ہمیشہ کے لئے ادھورے پن اوراداسی کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ ادھورا پن اِس اسٹیج میں موجود ہرکردار کواس کےحساب سےمتاثر کردیتی ہے پھراس کے بعد اس کردار سے انسان کا واسطہ اور تعلق  ہمیشہ کے لئے منقطع ہوجاتا ہے ۔ یوں وہ اپ کے خوابوں اور خیالوں کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی دوسرا ان کے حصے کا کرداربخوبی نبھا بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔کیونکہ کہتے ہیں کہ یہ کرداراللہ پاک کا وہ تحفہ ہے جس کاکوئی نعمل بدل ہی نہیں۔۔۔۔۔۔

 ایسے ہی زندگی نام کے اس کہانی میں بہت سے کرداروں میں سے ایک حقیقی کردارجس کا اس کہانی کے تمام کرداروں  سے بہت ہی گہرا تعلق ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ باپ کا کردار ہے۔۔۔۔۔ مگران تمام کرداروں میں سے  بیٹی کے کردار پر اس کا بہت ہی نمایا ں اور گہرا اثرپڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یقینا آپ سب میری اس بات سے اتفاق کریں گے۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کی اس کہانی میں باپ کا کرداراوررشتہ  تمام رشتوں پر بھاری ہے۔۔۔۔۔ خصوصا ایک بیٹی کے لئے با پ کی موجودگی اوراسکا سایہ دینا میں ہی کسی جنت سے کم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ کی موجودگی کسی بھی بیٹی کے لئے راحت و سکون اور اعتماد کاباعث ہوتی ہے وہ آپ کو دُنیا سے لڑنے کے لئے ایک طاقت ہمت اورحواصلہ عطا کرتی ہے۔

باپ تو ایک چھت کی مانند ہوتا ہے جو آپ کو موسم کے سردو گرم ماحول سے تحفظ دیتا ہے۔حالات جتنے بھی ناساز ہوں وہ خود سامنا کرتا ہے۔ دن بھرکی مشقت کے بعد اُسے پہلا خیال اپنے بچوں کا آتا ہے کہ بچے میرے منتظر ہوں گے کیوں نہ جاتے ہوئے اپنی جیب کے مطابق ٹافی، سموسے، جلیبی یا ان کا من پسند کوئی کھلونا لیتا جاوں یا اس کو کوئی فرمائش یاد آجاتی ہے جوبچوں نے گھر سے نکلتے وقت کر ڈالی تھی۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ باپ قربانی کا دوسرا نام ہے۔

باپ کی  قدرو قیمت ان سے پوچھو جن کے سروں پہ باپ کا سایہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔مجھے اج بھی یاد ہے۔۔۔ اج سے کچھ سال پہلے۔۔۔۔۔ رمضان کا ۱۳ روزہ تھا۔۔۔۔ افطا رکے بعد میں کچن میں تھی اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی اورمیں نے فون اٹھایا تو میرے بڑے بھائی دھیمی اواز میں بولے کہ فریدہ ابو کی طبعیت خراب ہے تم آجاوجلدی۔۔۔۔۔۔۔۔میرے بدن پہ کپکپی سی طاری ہوگئی۔۔۔۔۔مگر اس کی توقع ہرگز نہیں تھی جو واقع ہوچکی تھی۔

میں تقریبا دس منٹ کی دوری پررہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ فون رکھنے کے تقریبا بیس منٹ بعد میں اپنے والدین کے گھر پہنچی۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ خاندان کے سارے لوگ جمع ہیں۔ اورارام ارام سے بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر سب پریشان ہوگئے۔۔۔۔۔۔ میرے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ میری دُنیا اجڑ چکی تھی اورمیرے سرسے شفقت کا ہاتھ اٹھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔بڑے بھائی مجھےابو کے کمرے میں لے گئے۔۔۔۔۔۔تو ابوکے جسم پرکفن ڈالا گیا تھا۔۔۔۔ میرے بھا ئی نے مجھے مضبوطی سے پکڑے رکھا تھا ۔۔۔۔۔ یہ منظر مجھ سے برداشت نہیں ہو ا اورمیں چیخ مارکر بے ہوش ہوگئی۔۔ ۔۔۔۔انسان کیا کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔خدا کے اس امر کے آگے۔۔۔۔۔۔برداشت و صبر وتحمل کے علاوہ  اور کوئ چارہ بھی تو نہیں تھا میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابو کے مرنے کا دکھ ایک طرف مگر اس سے بھی بڑا دکھ یہ تھا کہ ابو نے اخری وقت میں کئی بارمیرا نام لیا اورمیں اس اخری وقت میں اس کے پا س موجود نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اج بھی خواب ابو کے حوالے سے ادھورے دیکھتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیشہ خواب میں ابو کے پاس پہنچنے کی کوشش  کرتی ہوں اور پہنچ نہیں پاتی ۔۔۔۔اور وہ چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ اگراخری وقت میں اس کے پاس پہنچ پاتی توشاید میں یہ ادھورے خواب نہ دیکھتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس ادھوری کہانی کے خواب شاید ادھورے نہ ہوتے

۔۔۔۔۔۔۔۔               

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
54418

انتقال پرملال – استاذ القراء قاری فضل الہی کینیا میں انتقال کرگئے

حضرت الاستاذ، استاذ القراء حضرت اقدس قاری فضل الہی صاحب کینیا کے شہر نیروبی کے ہسپتال میں 87 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ سابق ریاست چترال کے ریاستی دور سرشجاع الملک کے دور حکومت 1934ء میں دورماڑی گہت موڑکہو چترال میں پیدا ہوئے۔ آپ قیام پاکستان سے پہلے بچپن میں حصول علم کے لئے پشاور آئے لیکن صحت کی خرابی کی وجہ سے واپس چترال چلے گئے۔ دروش، ایون، خورکشاندہ کے مساجد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ حفظ قرآن ایبٹ آباد کی پولیس لائن کی مسجد میں مکمل کی اور قراءت استاذ القراء حضرت قاری محمد شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مدرسہ تجوید القرآن رنگ محل لاہور سے حاصل کیا.

۔1960ء سے خدمت قرآن میں لگ گئے اور ضلع ہزارہ کے گاؤں بنسیر سے پڑھانا شروع کیا۔ 1968ء میں واپس لاہور اپنے استاذ قاری محمد شریف صاحب کے مدرسہ دار القرآن ماڈل ٹاؤن میں پھر پڑھنے پڑھانے لگے قراءت سبعہ کی تکمیل کی۔ 1971ء میں حضرت قاری محمد شریف نے ان کو حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب کی فرمائش پر دار العلوم کراچی بھیج دیا اور چار سال تک دار العلوم کراچی میں قراءت پڑھاتے رہے۔ 1974ء میں عمرہ کے لیے سعودی عرب چلے گئے اور مدینہ منورہ میں ایک خواب دیکھا جس میں آپ کو حکم دیا گیا کہ افریقی ملک کینیا چلے جائیں اور وہاں قرآن کی تعلیم کی اشد ضرورت ہے تو آپ افریقہ چلے گئے۔ تین ماہ تک مختلف مساجد میں قرآن پڑھانے کی اجازت مانگتے رہے بالآخر اجازت ملنے پر کینیا کے شہر اوسلو پڑھانا شروع کیا۔

اس وقت اپنے بال بچے کراچی میں چھوڑ کر گئے تھے جن کو سخت مشکلات کا سامنا رہا۔پھر کینیا بھی خدمت قرآن شروع کی۔ اس وقت وہاں کوئی ادارہ نہیں تھا آج قاری صاحب کی محنت رنگ لائی اور کینیا میں تین سو سے زائد قرآن کریم کے مدارس ہیں جو کہ تقریبا سب قاری صاحب کے زیر نگرانی اور ان کے شاگردوں کے قائم کردہ ہیں۔ دار العلوم کراچی سے عمرہ کے لئے جاتے وقت چھٹی لے کر گئے تھے پھر مفتی محمد شفیع صاحب کو معذرت کا خط لکھا۔ حضرت نے حکم دیا کہ بغیر اجازت کے گئے ہو اب وہاں کم از کم پچیس سال جم کر وہاں کام کریں۔ حضرت قاری صاحب فرماتے تھے کہ میں نے حضرت مفتی اعظم کی حکم کی تعمیل کی ہے اور میرے 47 سال ہوگئے ہیں۔ آپ حضرت مولانا احمد علی لاہوری سے بیعت تھے اور ان کے مجالس میں جاتے تھے اور مرشد چترال حضرت مولانا مستجاب خان صاحب سے بھی بیعت تھے۔آپ رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے مبعوث تھے اور ریٹائر منٹ کے بعد آپ کی خدمات کی وجہ سے رابطہ عالم اسلامی نے آپ کو رکن بنا دیا تھا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی درجات کو بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین (بشکریہ قاری فیض اللہ چترالی)

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, مضامین
54414

استارو اور چومبور پل، چترال کے دو عجوبے‎‎ – شمس الرحمن تاجک

استارو پل کراس کرکے آپ صرف استارو نہیں پہنچتے، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کہ مصداق یہاں سے آگے ایک پورا جہاں آباد ہے، اس پورے جہاں سے ووٹ مانگنے کا وقت قریب آچکا ہے پتہ نہیں کس منہ سے ان لوگوں سے ووٹ مانگا جائے گا اور کس دل سے وہ لوگ ووٹ دیں گے۔ مسند اقتدار پر براجمان لوگ جہاں آواز اٹھانے میں ناکام رہے ہیں وہیں دوسری طرف وہ لیڈرشپ جو الیکشن کے دنوں میں ہر کونے سے اُگ آتے ہیں ان کو بھی شرم نہیں آئے گی ان علاقوں کا دورہ کرکے۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ سب کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے مگر قیادت احتجاج تو کرسکتی ہے۔ نمائندے اور ملازم میں فرق یہی ہوتا ہے کہ ملازم صرف اس وقت تک کام کرتا ہے جب تک تنخواہ ملے اور لیڈر ہمیشہ کا ہوتا ہے۔


پل استارو کا ہو یا پھر وادی لٹکوہ کا۔ آواز کسی کے لئے نہیں اٹھایا جاتالیڈرشپ کی طرف سے۔ ہمیں اللہ کے فضل سے ایسی لیڈرشپ میسر ہے جو عوام کی تکلیف کو انجوائی کرتی ہے بجائے مسائل کے حل کے طریقے ڈھونڈنے کے وہ اقتدار میں نہ ہو تو مسائل پیدا کرنا اپنے فرائض میں شمار کرتی ہے۔ فضول کی چاپلوسی اور غیر حقیقی رویوں کو سیاست کا نام دے کر ذاتی مفادات حاصل کرنا ہی ان کی سیاست کا محور بن چکا ہے۔ قیادت کے فقدان اور ملک میں نسلوں سے تربیت کا حصہ رہنے والی ذاتی مفاد کے تقدیس کی وجہ سے ملکی اور عوامی مفاد ہمیشہ سے آخری نمبر پر رہا ہے جو اب ایک ناسور بن چکا ہے۔کیا اس ناسور کا کوئی علاج بھی موجود ہے یا پھر کوئی بہتری کہیں صرف دستک کا منتظر ہے۔

chitraltimes istaro torkhow bridge


چلیں یہ کتابی باتیں چھوڑیں اپنے پلوں کی بات کرتے ہیں ایک پل تحصیللٹکوہ کا ہے اور دوسری تحصیل تورکہو کا۔ دونوں پلوں سے مستفید ہونے والے عام لوگ عجیب کشمکش کا شکار ہیں۔ وادی لٹکوہ والے پل کی سال میں دو دفعہ لاکھوں روپے لگا کر مرمت کی جاتی ہے اور وادی تورکہو کا پل گزشتہ کئی سالوں سے فنڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے بن کے نہیں دے رہا ہے۔ لٹکوہ والے پل کی مرمت عام عوام سے لے کر این جی اوز تک نے اپنے فنڈز سے کرچکے ہیں جبکہ استارو پل کی تعمیر و مرمت کا کام صرف ان دنوں میں ہوتا ہے جب کسی وی آئی پی کی اس علاقے میں آنے کے چانس ز ہوں۔سوال پھر وہی بنتا ہے کہ کسی وی آئی پی کو پاگل کتے نے کاٹا ہے جو اس موسم میں تورکہو جائے گا۔ تورکہو کے باسیوں کو بھی وی آئی پی بننے کا گر معلوم ہے نہ ہی وہ پاگل کتے پالتے ہیں تاکہ وہ ان کو روز روز کاٹیں اور وہ گھر سے زیادہ استارو کے پل پر دکھائی دیں،مقتدر حلقے ان کا تماشا دیکھنے جائیں اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ میرے علم کے حساب سے نہیں بچا ہے۔ ان کے لیڈران کو اب بھی صبر کی تلقین کررہے ہیں کتنا صبر کسی کو نہیں معلوم۔
استارو پل سے مستفید ہونے والے لوگوں کے احتجاج کا طریقہ بھی انوکھا ہے۔ اس وقت تک وہ احتجاج نہیں کرتے جب تک پارہ منفی 20 کو چھو نہ لے۔ نتیجہ ایسی احتجاج کا وہی نکلتا ہے کہ تیسرے دن ہی انسانوں کے ساتھ ساتھ ان کا احتجاج بھی فریز ہوجاتا ہے۔ انتظامیہ اور مسند اقتدار کے مزے لوٹنے والے افراد کو ایسی جمادینے والی احتجاجوں کا اچھی طرح سے پتہ ہوتا ہے اس لئے پورے زور لگا کر ہمارے نمائندے اپنے اپنے علاقوں کے مسائل کے حل کے لئے احتجاج کرنے والے افراد کو اس وقت تک روکے رکھتے ہیں جب تک چترال میں ہر مائع چیز فریز نہ ہوجائے۔ جما دینے والی موسم کے احتجاجی جب زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں تو الفاظ بالشت بھر سفر کرنے کے بعد جم جاتے ہیں اس لئے سامعین تک نیک و بد کچھ بھی نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ استارو پل اس سال پھر سے عوام کے مسائل میں اضافے کا سبب بننے والا ہے بجائے آسانیاں پیدا کرنے کے۔

chitraltimes garamchashma bridge broken truck plunged into river


استارو پل کے ستارے کس تاریخ کو گم ہوئے، نہیں پتہ۔ مگرگرم چشمہ وادی کو باقی ملک سے ملانے والا واحد پل 12 اکتوبر کو ٹوٹ چکا ہے۔ ذرائع اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ پل کی خستہ حالی کے بارے میں وہیں ڈیوٹی دینے والے پولیس کے جوانوں نے پہلے ہی حکام کو آگاہ کیا تھا کہ پل ٹوٹنے والا ہے۔حسب روایت کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ گاڑیوں کی آمدورفت پر کوئی پابندی لگانا دور کی بات کسی نے گاڑیوں کے وزن اور پل کی موجودہ حالت کا اندازہ تک لگانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں کہ اس پر حیران ہوا جائے ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ یہاں ہمارے ملک میں انسانی جانوں سے زیادہ کمیشن پر توجہ دی جاتی ہے۔ بھلا پل ٹوٹے بغیر کچھ لوگوں کے چولہے کیسے جلتے۔ لہذا پل کو ٹوٹنے دیا گیا ایک حساب سے کہہ سکتے ہیں کہ چومبور پل کو حسب روایات توڑا گیا۔
چومبور پل توڑنے کے لئے جو اوقات مقرر کئے گئے ہیں وہ بھی سوچ سمجھ کر اور حالات کے مکمل تجزیے کے بعد ہی ہوا ہے اتنی تحقیق اگر پل کی مرمت پر کی جاتی تو علاقے کے لوگوں کو سانس لینے کی مہلت تو ملتی۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پل بہار کے موسم کے آغاز ہی میں اس وقت ٹوٹتا ہے جب آلو کی کاشت شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ روزانہ سینکڑوں کے حساب سے آلو کی بوریاں گرم چشمہ ٹرانسپورٹ ہورہی ہوتی ہیں اس بیچ میں پل توڑ دیا جاتا ہے تاکہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر فوری فنڈز فراہم ہوں اور فوری کمیشن کا بھی بندوبست ہو۔ پل ٹوٹنے کی دوسری تاریخ ہر سال آلو کی فصل تیار ہونے کے بعد رکھی جاتی ہے پھر ہنگامی حالات کا نفاذ اور پھر سے تکڑا کمیشن۔ اس سال بھی یہی ہوا۔ مگر اس دفعہ کچھ نیا ہوا ہے پل ٹوٹنے کے بعد انتہائی مہذب انداز میں گرم چشمہ میں احتجاج ریکارڈ کیا گیا جو کہ اس علاقے میں ایک نئی شروعات ہے۔ اس سے بھی اہم بات اس دفعہ پل نے مرمت ہونے سے انکار کردیا ہے اس کے تمام گٹر ٹوٹ چکے ہیں اب ایک دو گٹر لگا کر چھ سات گٹر کا پیسہ اکٹھا کرنا ممکن نہیں رہااگر یہ کھیل کھیلا گیا تو پل اگلے چند دنوں میں پھر سے ٹوٹ جائے گا۔ پل نے یہ ضمانت کب دی ہے کہ اس دفعہ ٹوٹنے پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوگا؟اس صورت میں آنے والے جانی نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا۔


ان دونوں عجوبوں کو پل بنانے کے لئے ہمیں وجوہات پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو اربوں کھربوں صرف ایک سوات میں کہا ں سے لا کر لگائے جاتے ہیں۔ حکومت مقروض ہے پھر موٹر وے صرف دیر تک ہی کیوں بنانے کا پلان ہے۔ کیا ٹھیکہ دار برادری صرف چترال میں کام کرتی ہے باقی ملک میں وزیر، وزیر اعلی اور وزیر اعظم کی نگرانی میں ترکول بچھانے کا کام کیا جاتا ہے۔ اگر چترال سے ریونیو کی مد میں ملک کو کچھ نہیں مل رہا ہے تو پھر وانا اور وزیرستان سے کیا ایسا مل رہا ہے جس کے بل بوتے پر وہاں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جاتا ہے ایسا جال اور اتنا پیسہ کہ تمام تر کمیشنوں، رشوت اور حرام خوری کے باوجود بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ آواز اٹھاؤ ورنہ کچھ نہیں ملنے والا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54399

ٹورازم کا فروغ وقت کی ضرورت ۔ تحریر: اشتیاق احمد


کسی بھی ملک کی معیشت میں بہتری،استحکام اور زر مبادلے میں اضافے کا باعث بننے والے کئی ایک عوامل اور محرکات شامل ہوتے ہیں وہیں پہ ٹوارزم کے فروغ سے مندرجہ بالا فوائد کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔


پاکستان کو اللّٰہ رب العزت نے حسین وادیوں،دلکش سبزہ زاروں،بلند و بالا پہاڑوں،قدرتی حسن سے مالامال آبشاروں اور ان علاقوں میں بسنے والے منفرد تمدن اور ثقافت سے مالامال لوگوں سے نوازا ہے کہ ان کی ثقافت اور وہاں کی منفرد اور دل کو چھو لینے والے آمن و آشتی سے مزین تہذیب و تمدن سے لیس افراد کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرکے پاکسان کی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت اور زرمبادلے میں اضافے کا سامان کیا جا سکتا ہے چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت کی سیاحت اور ان علاقوں میں سیاحت کے فروغ کے اقدامات روز روشن کی طرح عیاں ہیں،ان علاقوں میں ٹوارزم کےفروغ کو موجودہ حکومت نے جتنی اہمیت دی ہے اس سے نظریں چرانا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔


پی ٹی آئی کی حکومت نے سیاحت کو اپنا آولین ترجیح سمجھتے ہوئے ان علاقوں جن میں سوات،مالم جبہ،ناران کاغان،گلیات،کمراٹ اور چترال کو سیر و سیاحت کے لئے سر فہرست رکھا،ان علاقوں میں ملکی وغیر ملکی سیاحوں کا نہ رکنے والا قافلہ آمڈ آیا۔


وزیر اعظم عمران خان خود کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ ڈومیسٹک سیاحت کو فروغ دے کر ہم اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتے ہیں جو ان علاقوں میں بسنے والے افراد کی زندگیوں میں خوشحالی لا سکتی ہے اور وہاں کے باسیوں کیلئے تلاش روزگار میں کسی اور علاقے کی طرف رخ کرنے کی روش پر بھی قابو پا جا سکتاہے۔یورپ کے کئی ممالک کے علاوہ پاکستان کا دیرینہ دوست ملائیشیا ٹوارزم سے کروڑوں ڈالرز کما رہی ہے اور یہ خطیر رقم صرف واحد سمندری ٹوارزم سے حاصل کر رہا ہے ،ترکی پاکستان کی برآمدات سے بھی زیادہ ٹوارزم سے حاصل کر رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق چالیس ارب روپے اس مد میں ان کو مل رہی ہیں اور سوئزر لینڈ کو اس مد میں ساٹھ سے اسی ارب ڈال حاصل ہو رہے ہیں۔


چونکہ چترال بھی قدرتی حسن سے مالامال،اپنی منفرد ثقافت،تمدن،اپنی روایتی مہمان نوازی(جس کا اظہار کئی سربراہاں مملکت بھی کر چکے ہیں) وادی کیلاش اور اس میں بسنے والے اپنی مخصوص ثقافت کے حامل افراد،فری سٹائل پولو،پر آمن اور محبت سے سرشار لوگوں کی بستی ہے جہاں پر لہلہاتے کھیت،بلند وبالا پہاڑ،اپنی علاقائی مصنوعات،کیبل کار،نیشنل پارک،گرم چشمے،وادی بروغل اور وہاں کا فیسٹیول کے علاوہ حال ہی میں منعقد ہونے والی زائنی ٹاپ واقع موڑکہومیں نیشنل پیرا گلائیڈنگ کے مقابلے اس وادی کی اہمیت میں مزید چار چاند لگا دیتے ہیں اور ان کے علاوہ کئی اور علاقے ہیں جن کی طرف توجہ مبذول کراکے حکومت اور یہاں کے باشندے اپنی زندگی میں انقلاب لا سکتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے اور ملکی معیشت،بیروزگاری پر خاطر خواہ قابو پایا جا سکے گا اور ان فیسٹیولز اور علاقوں کو وسائل و بین الاقوامی سطح پر میڈیا کوریج فراہم کرکے ان کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کو اجا گر کیا جا سکتا ہے اور اللّٰہ کے فضل و کرم سے یہاں کے لوگوں کی پر آمن اور علاقے کی پر امن ہونے کی دلیل کو مزید تقویت مل جائے اور اس راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے اور موجودہ حکومت کی طرح آنے والی حکومتیں بھی اگر سیاحت کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں تو وہ وقت دور نہیں جب مملکت خدادا کی طرف سیاحوں کا نہ تھمنے والا قافلہ آمڈ آئے اور ان حسین و جمیل وادیوں کا رخ کریں جس کی وجہ سے ملکی معیشت میں استحکام،زر۔مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے علاوہ ہمارے پیارے ملک کا بہتر امیج مزید اجاگر کیا جا سکے جو کہ اس مملکت خداداد کے بد خواہوں کو اپنی موت آپ مار دے گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54391

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ – قادر خان یوسف زئی

 گذشتہ کئی ہفتوں سے ایک ایسی فضا بنی  ہوئی ہے جس کے مضر نتائج کی جسے کسی کو پرواہ ہی نہ ہو، منفی و مثبت نتائج سے لاتعلق ایک ایسی وحشت و انتشار کا عالم طاری ہونا جس کی مثال ماضی میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، ان حالات کی ذمے داری کس پر عائد کی جائے تو اس کا حتمی نتیجہ عقل و ضمیر کی عدالت میں ہیکیا جاسکتا ہے کہ، کیا یہ سب کچھ کسی منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے یا پھر جذبات سے مغلوب کرکے انسان کو ایک ایسے راستے پر چلنے پر مجبور کیا گیا جس کا نتیجہ بند گلی میں مقید ہوجانا ہے۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب جذبات کے تابع ہوجانے کا نتیجہ سامنے آتا ہے کہ انسان علم وعقل اور فکر وشعور ہونے کے باوجود ان سے کام لینے کے قابل نہیں رہتا، اس کے جذبات اس کی فکری صلاحیتوں کو سلب کرلیتے ہیں، وہ اس کی عقل و خرد پر پردے ڈال دیتے ہیں، اس کی فکر ہمیشہ خام رہتی ہے۔

اللہ تعالی اپنے بندے کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق اپنی عقل کو استعمال میں لائے اور اپنی فکر کو بامقصد بنائے۔غوروفکر وہ عمل ہے جس میں زمین کو بڑی محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہے، پھر غور و فکر سے نئی زندگی کی نئی نئی راہیں سامنے آتی ہیں جنہیں حرکت و عمل سے ہی طے کیا جاسکتا ہے، بے عمل قوم اس سے بھی گھبرا جاتی ہے، چنانچہ خام فکری کے جمود میں گرفتار رہ کر افراد قوم انسانیت کی ارفع و اعلیٰ سطح پر نہیں پہنچ پاتے۔


اس صداقت پر ایمان لانے کی ضرورت ہے کہ پختگی افکار ناممکن ہے جب تک انسانی فکر کی ہر افتاد اس علم ویقین سے ہم آہنگ نہ ہوجائے جس میں شکوک وضطراب کاکوئی دخل نہ ہو۔ہم جانتے ہیں کہ قوموں کا مستقبل ان کی ابھرنے والی نسلوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اگر قوم کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر ہوجائے تو قوم خود بخود صحیح قالب میں ڈھل جائے گی، ہمیں اس دور میں اپنے نوجوان طبقہ سے ان کے شتر بے مہار ہوجانے کی شکایت ہے، ہمیں ا ن کے بے لگام خیالات سے گلہ ہے، ان کی فکر و نظر سے اختلاف ہے، ہمیں ان کی کج روی اور سرکشی کا ملال ہے، یہ سب بجا اور درست!، مگر ہمیں ایک لمحے کے لئے یہ سوچنا گوارا نہیں کہ اس میں قصور کس کا ہے، اس ساری تخریب کا ذمہ دار کون ہے؟۔ بات تو صاف ہے کہ ہم نے انہیں فلاحی معاشرہ ہی نہیں دیا جو نئی نسل کی آبیاری کے لئے ناگزیر تھا۔ اگر آج بھی ہم اپنے نوجوانوں کے دل و دماغ میں اس حقیقت کو راسخ کردیں کہ انسان کا انفرادی اور اجتماعی زندگی کو،فلاح انسانیت کے لئے مختص کرنا اور مستقل اقدار کے تابع رکھنا ہے تو پھر ہی شرف ِ انسانیت اور پختگی فکر کا ضامن ہوسکتا ہے، جس کے بعد یقین کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے معاشرے کی راہ درست سمت پر ہوگی تو کل ہم اپنی نوجوان نسل کو ایسا معاشرہ فراہم کرسکتے ہیں جس کے افراد سیرت و کردار اور افکار و اطوار میں پختگی و پاکیزگی کے جیتے جاگتے پیکر ہوں، ہمیں رب کائنات نے جو زندگی بخشی ہے، تو اس کی مقصدیت کو سمجھ کر ہی ہم حیوانیت سے محفوظ رہتے ہوئے انسانیت کی سطح پر زندگی بسر کرسکتے ہیں۔


فکر کے ؒلغوی معنی ہیں،عام سوچ بچار، دھیان، تدبر، غور وغیرہ اور خام سے مراد کچا، کمزور۔ خام فکر سے مراد جھوٹی سوچ، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خام فکر وہ فکر ہے جو انسان کو تخریب کا راستہ دکھائے، یہ فکر تعمیری اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی، خام فکر کے مقابل پختہ فکر کا نام لیا جاتا ہے، جسے ہم فکر ِ رسا بھی کہتے ہیں، اس قسم کی فکر اعلیٰ عقل کے معنوں میں بھی مستعمل ہے اور ہمیشہ عقل کے تابع رہتی ہے۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ سادی عقل نے مختلف قوموں کو انتہائی عروج تک پہنچایا لیکن وہ قومیں انسانیت کے اصل مقام سے واقف نہ ہوسکیں، پرانے ماضی میں بابل، مصر، یونان اور مصر کی سلطنتیں مادی بلندیوں تک پہنچیں لیکن عقل کے مکر و فن نے ہر جگہ انہیں دوسری اقوام پر مسلط ہونے کی شبہہ دکھائی جس کی وجہ سے ان کی تہذیب اس مقام تک نہ پہنچ سکی جو انسانیت کے لئے وجہئ امتیاز ہے۔ عقل کی ہدایت کے لئے جب تک خاص اصول مقرر نہ ہوں، وہ راستہ کے کسی مقام کو ہی منزل قرار دے سکتی ہے، یہ وہ مقام بن جاتا ہے کہ انسان، انسانیت کی سطح سے گرکر حیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے، جس قوم کے افراد کی عقل و فکر ناپختہ ہو اس قوم کی فکری آزادی اس کے لئے سوہان ِ روح بن جاتی ہے، اس قوم کی آزادی، بے راہ روی میں تبدیل ہوکر رہ جاتی ہے اور اس قوم کے افراد بے سلیقہ ہوجاتے ہیں۔


جب ہم ملک گیر سطح پر مخصوص فکر و نظریئے کے حامل گروہ پر نظر دوڑاتے ہیں تو سارا معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے، ہم اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور جارہے ہیں، اسلام ہمیں عقل و فکر کی دعوت دیتا ہے لیکن ہمارے یہاں معاملہ کچھ اور ہی رنگ میں ڈھلتے نظر آتے ہیں، ہم اسلامی تعلیمات کا پرچار تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل بہت کم لوگ ہی کرپاتے ہیں، اس کے نتیجے میں جب مصائب کا انبار ہمارے سرسے اونچا ہوتا چلا جاتا ہے تو ہم ان اصولوں پر عمل سے گھبراتے ہیں۔ قرآن کریم پر اکثریت غور فکر کئے بڑھ جاتی ہے، نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے اسوہ حسنہ و سنت کے مطابق اکثریت نے خود کو ڈھالنے کی کوشش بھی نہیں کی،لیکن اس کے بڑے بڑے دعوے ظاہر کرتے ہیں کہ قول و فعل کے اس تضاد نے آج کے مسلمان کو اپنی اصل منزل سے کتنا دور بھٹک جانے پر مجبور کردیا ہے۔ یہی انسان جسے قدر ت نے تمام مخلوقات میں اشرف پیدا کیا وہ آج خود ہی اپنی عظمت کی دھجیاں اڑا کر حیوانی سطح کی زندگی سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔اگر ہم نے اپنی عقل و فکر کو خام ہی رہنے دیا تو یاد کھیئے اس حقیقت کو کوئی نہ جھٹلا سکے گا کہ


ہو فکر اگر خام تو آزادیئ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
پھر جب ہم قانونِ مکافات کی زد میں آئے تو۔۔
جاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54376

قومی ہیرو کی یاد میں : سر آغاخان سوئم کی تعلیم کیلئے تحریک – سجاول احمد

2نومبر کو سر سلطان محمد شاہ آغا خان (1877-1957) کی پیدائش کے دن کے طور پر یاد کیا جاتاہے
جنھوں نے مسلمانوں کی سماجی،ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اورتعلیمی ترقی کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔
-سجاول احمد


ایک سماجی مصلح کے طور پر، سر سلطان محمد شاہ آغا خان،برصغیرمیں، مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے ایک سرگرم حمایتی تھے۔اپنے ابتدائی وقت سے ہی اْنھوں نے اس بات کا احساس کر لیا تھا کہ مسلمانوں کا مستقبل اْن کے مذہب کے بنیادی پیغام میں موجو د ہے یعنی تعلیم کا حصول۔ سرآغا خان کے لیے یہ تصورات، اسلام کے سنہری دور میں اْس کی شان و شوکت کی بنیاد تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے یہ بات لازمی تھی کہ وہ خود کو،پورے جوش و جذبے کے ساتھ جدید تعلیم کے لیے وقف کر دیں تاکہ اپنی عظمت و وقاردوبارہ حاصل کر سکیں۔

سر آغا خان نے اپنی پوری زندگی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اگر تعلیم میں اْن کی دلچسپی اْن کا جنون تھا تومسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے اْن کی کوششیں حقیقی جدوجہد تھیں۔قومی اسٹیج پر، جب وہ صرف 25برس کے تھے،سنہ 1902ء میں آل- انڈیا محمدن ایجوکیشنل کانفرنس میں سامنے آئے۔اْسی برس، وائس رائے لارڈکرزن نے اْنھیں، مسلمانوں کی تعلیم کے لیے لگن کے اعتراف میں،امپیرئیل لیجسلیٹو کونسل کی رُکنیت کے لیے نامزد کیا اور اس طرح وہ کونسل کے سب سے کم عمر رْکن بن گئے۔کونسل میں اْن کی تقریروں نے انھیں ایک ہونہار لیڈرکے طور پر شناخت دی جس کے بعد اْنھوں نے متعدد تعلیمی اقدامات کی راہنمائی کی اور آنے والے کئی برسوں میں مسلمانوں کے لیے ایک چیمپئن کے طور پر سامنے آئے۔ اْس وقت، اْنھوں نے برصغیر میں ایک یونیورسٹی کا خواب دیکھناشروع کیا جہاں مسلم نوجوانوں کو تیار کیا جا سکے۔ مسلمانوں کی عقلی ترقی کا بہترین طریقہ اینگلو اورینٹل کالج – ’مسلم آ کسفرڈ‘ – کا قیام تھا جو”اپنے لوگوں کے اْس وقار کو بحال کرنا تھا جواْس وقت پھیکا پڑ چکا تھا۔“

Sultan Mahomed Shah Aga Khan III

علی گڑھ کی عظیم تحریک جسے سر سید احمد خان اور سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے شروع کیا تھا یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے نجات کی چابی اسی میں ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اس غیر معمولی خدمت کے ساتھ، ان کا اہم کردار علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام تھا۔ اْنھوں نے تعلیم اورمہارت کے اس عظیم مرکز کے قیام کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے جیسے کئی کام انجام دئیے۔اْن کا کہنا تھا:”مسلم انڈیا کے بچوں کے لیے میں ایک بھکاری کے طور پر گھر گھر، گلی گلی مانگنے جا رہا ہوں۔“خود بھی سر آغا خان نے فراخدلی سے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ اپنی اس گرمجوشی اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعے یونیورسٹی کے لیے تین ملین روپے سے زیادہ اکھٹا کرنے اور سنہ 1920ء میں مستقبل کی علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسلام کے لیے ایک زبردست خدمت تصور کی جانے والی یہ یونیورسٹی سر آغا خان کے بزرگوں کی مصر اور دیگر مقامات پر، جن میں، دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی،جامعہ الازہر کی بنیاد رکھنے تعلیمی روایات میں پیش رو کی حیثیت سے تاریخی تسلسل کی یاددلاتی ہے۔
مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے، سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے پاکستان کے موجودہ تعلیم نظام کے لیے بنیادی خاکہ تیارکیا اور 20ویں صدی میں 200 اسکول قائم کیے جن میں سے پہلا اسکول، سنہ 1905ء میں گوادر(بلوچستان) میں قائم کیا۔لڑکیوں کے لیے ڈائمنڈ جوبلی اسکول یا ڈی جے اسکول پاکستان کے دوردراز شمالی علاقہ جات سمیت پورے پاکستان میں قائم کیے گئے۔آج، آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN)نے، جس کی قیادت اْن کے پوتے ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان IVکر رہے ہیں، نے پاکستان کے تعلیمی میدان میں ترقی لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک نے دنیا بھر میں ایجنسیوں اور ادارو ں کے سب سے بڑے سلسلے کے ذریعہ بین الاقوامی فریم ورک تیار کیا ہے جس میں، مسلمان خواہ اکثریت میں رہتے ہوں یا اقلیت میں، غربت کے خاتمے اور معیار زندگی بہتر بنانے میں حکومتی اسٹرکچرز کی مدد کرتے ہیں۔

Aga Khan III

مزید برآں، سر آغا خان کے لیے خواتین کی شمولیت کے بغیر معاشرے کی لازمی اور محفوظ اقدار کو برقرار رکھنا اور سماجی تبدیلی نا ممکن تھا۔خواتین کی آزادی اور انھیں تعلیم کے میدان میں مساوی مقام دینے کے خوش بیان حمایتی کے طور پر، سر آغاخان سلطان محمد شاہ نے اس حد تک فرمایا کہ ”میرے اگر دو بچے ہوتے اور ان میں سے ایک لڑکا اور دوسری لڑکی ہوتا اور میں اْن میں سے صرف ایک کو تعلیم دلا سکتا تومجھے اس بات میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوتی کہ میں لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلاتا۔“وہ انتہائی اعلی ٰمعیار کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر بھی پختہ یقین رکھتے تھے۔اس قسم کی ہدایت دیتے ہوئے، ایک مرتبہ، اْنھوں نے کہااسے”ہماری توانائی اور خواہشات کے بنیادی اور عملی مقاصد“ہونا چاہیے۔

سر آغاخان کی نظر میں،تعلیم کا ہرمرحلہ یا سطح اہمیت میں برابر ہے۔سنہ1911ء میں، آل-انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں اْنھوں نے زور دے کر کہا کہ معاشرے کی بنیادمضبوط ابتدائی تعلیم ہے کیوں کہ ”کوئی بھی ٹھوس سپر اسٹرکچرنرم زمین پربحفاظت قائم نہیں رہ سکتا۔“عوام ایسے راہنما پیدا نہیں کر سکے جو قوم کو طاقت کے جائز مقام تک اٹھا سکتے ہوں، اثر انداز ہو سکتے ہوں، کارآمد ثابت ہو سکتے ہو ں اگر ان کے پاس بنیادی تعلیم نہیں ہے۔“

سر سلطان محمد شاہ آغا خان کو،تحریک آزادی کی سنہری تاریخ میں،پاکستان کے انتہائی قابل احترام اور مشہور راہنما اور سفارت کارکی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔


٭٭٭

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
54355

جنرل الیکشن کے بعد مسلم لیگ نون کے ورکروں کو بے یارو و مدد گار چھوڑا گیا ۔ تحریر: محمد ذاکر زخمی

جنرل الیکشن 2018 کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کے ورکروں کو بے یارو و مدد گار چھوڑا گیا ۔تحریر: محمد ذاکر زخمی

ضروری نہیں کہ امیدوار ہرالیکشن میں جیت ہی جائے ہار کر بھی خود کو متحرک اور ورکروں کو حوصلہ دیا جاسکتا ہے اور زمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے علاقے کی تعمیرو ترقی میں حصہ دار بنا جاسکتا ہے ۔چترال کی سیاست اس سوچ اور فکر سے یکسر مختلف ہے ۔الیکشن کے بعد جیتے ہوئے من چاہے کچھ بھی کرسکتا ہے اس کے غلط کو غلط اور صحی کو صحی کہنے والے کوئی نہیں ہوتے ۔شیر جنگل کا بادشاہ کے مصداق وہ اپنے ہر فیصلے پر ازاد ہوتا ہے ۔چاہے اس کا اثر عوام پر مثبت پڑے یا منفی وہ کلی خودمختار ہوتا ہے۔ اپوزیشن کا کام یہ ہی ہوتا ہے ان غلط فیصلوں پر انہیں لگام دے اور صحیح فیصلوں پر ان کا ساتھ ہواس طرح مثبت سیاست کی بنیاد اپنے نسلوں کو فراہم کی جا سکتی ہے ۔

چترال کی سیاست کی ستم ظریفی یہ ہے کہ انتخابات کے بعد ناکام امیدوار اگلے الیکشن کے تاریخ اعلان ہونے تک اپنے کاروبار میں مگن رہتا ہے۔ اور کاغذات نامزدگی جمع کرکے انتخابی نشان لیتےہوئے اسے گلے لٹکاتے ہوئے عوام کے دکھ درد سہنے اور علاقے کو جنت بنانے کے خوش کن نعروں کے ساتھ حاضر خدمت ہوتا ہے ۔قرعہ فال کسی کے نام نکلنا الگ بات ہے ورنہ اس قسم کے لوگ لیڈر کہلانے کے قابل ہر گز نہیں۔ انہیں موقعہ پرست اور مطلب پرست ضرور کہا جا سکتا ہے ۔پاکستان مسلم لیگ نون کوئی مانے یا نہ مانے چترال کے محسن ہے خصوصا 2013 کے جنرل الیکشن میں چترال ان کے شدید مخالف کے امیدوار کو منتخب کرکے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پہنچا دی۔اور نون کے امیدوار بری طرح شکست ہوئے۔

chitraltimes prince iftikhar ud din

مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی مضبوط حکومت بنی ۔پاکستان بھر میں آل پاکستان مسلم لیگ کی واحد جیتی نشست سےچترال کے منتخب کردہ اے پی ایم ایل کے واحد ممبر چترال سے موجود تھے ہونا یہ چاہیے تھا کہ نواز شریف اپنے شدید ترین مخالف ممبر کو یکسر نظر انداز کرتے اور ایسا کر بھی سکتا تھا لیکں نواز شریف چترال اور چترالیوں سے محبت کے خاطر اپنی انا اڑے انے نہیں دیا بلکہ دوسرے تمام ممبروں سے بڑھ کر اسے عزت دی اور ان کے ہر تجویز اور منصبوں کو چترال کے خاطر فوقیت دی۔ اور انہیں کاغذ پر منظوری دینے کے بجائے عملی طور پر منظور کرکے باقاعدہ کام دیکھنے کو ملا۔ان سب کے ذکر باعث طولت ہوگی۔لاواری ٹینل ہو یا،بجلی کا مسلہ،ٹیلی نار ہو یا گیس پلانٹ کا مسلہ مغربی روٹ ہو یا گرم چشمہ روڈ،زلزلہ کی تباہ کاری یا سیلاب کی ہر وقت نواز شریف چترال اور چترالیوں کو سینے سے لگاتےرہےاور ان کے دکھ درد میں عملی طور پر شریک رہے۔

اخری بارلاواری ٹنیل افتیتاح کے لیے جب ٹینل ایا تو برملا کہدیا کہ مجھے ووٹ دے یا نہ دیں میں چترال کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرتا رہونگا ۔مجھے چترال سے محبت ہے ووٹ سے غرض نہیں۔ کہنے کا مقصد نواز شریف کی احسانات ہیں چترال پر کوئی ڈھکی چھپی نہیں عیان ہیں۔ مخالفیں مخالفت کرتے رہے ان کے خلاف دل کھول کر پروپکنڈہ کرتے رہے حقیقت حقیقت ہی ہے ایک دن عیان ہونا ہے۔ اس میں شہزادہ افتخارالدین سابق ایم این اے کی کاوشوں اور جد جہد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ چترال کی ترقی کے خاطر نواز شریف کا ساتھ دیا خود پارٹی کی لعن طعن برداشت کی کہنے والے پرویز مشرف سے بے وفائی کہہ سکتے ہیں لیکن چترال کی پسماندگی دور کرنے کے خاطر ان سے بے وفائی ضرور کی لیکن چترال سے بے وفائی نہیں کی اور دور اندیشی اور اعلی قابلیت کو برویے کار لا کر چترال کے لیے کئی میگا پروجیکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔اگر مبالعہ نہ ہو تو اس وقت بھی جو بڑے منصوبے چالو ہیں یا ان پر عمل کی باتیں ہو رہی ہیں ان سب میں کسی نہ کسی طرح شہزادہ افتخارالدین کے حصے ہیں۔

chitraltimes engineer amir muqam


ان تمام کے باوجود اگر ایک کردار کا ذکر نہ کی جائے تو نا انصافی اور تاریخ کو مسخ کرنے کی مترادف ہے۔چترال کی ترقی کے پیچھے ایک کردار ہمیشہ نمایان رہا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دل میں چترال کے لیے محبت پیدا کرنا ہو یا نواز شریف کو چترال کی طرف متوجہ کرنا وہ کردار پاکستان مسلم لیگ نواز کے موجودہ صوبائی صدر اینجینئر امیر مقام ہے۔ان دونوں اہم شخصیات کے دل میں چترال کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے اور چترال کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کلیدی کردار امیر مقام کا ہی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد نہ صرف چترال بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی نون لیگ کو خاطر خواہ کامیابی کسی نہ صورت نہ ملی اور چترال میں بھی نون لیگ سیٹ لینے میں ناکام ہوئی۔لیکن ناکامی کے بعد سے اب تک چترال میں نون لیگ غیر متحرک ہے۔ورکروں کے ساتھ رشتے ناطے ختم کر دیے۔میٹینگز وغیرہ بند ہوئے۔ ورکراب پت جھڑ کے پتوں کی طرح بکھر رہے ہیں ۔مایوس ہیں ۔انھیں سنبھالنے والا،حوصلہ دینے والا متحد رکھنے والا چترال لوئر اور اپر میں کوئی نہیں۔

آل پارٹیز اجلاس میں نون لیگ کی کرسی خالی پڑی رہتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ میں بلانے کے لیے کوئی موزون بندہ نہیں لہذا وہ بھی خالی پڑی رہتی ہے۔ اگر کوئی جذباتی ورکر میٹنگ کال کرنے کی کوشش کرے تو برائے نام لیڈر ان کو کوستے ہیں۔خفا ہوتے ہیں اور ناراضگی کا اظہار کرتے۔ان تمام حالات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بلدیاتی الیکشن میں جنرل کونسلر کے لیے امیدوار نون لیگ کے پاس نہیں۔یہاں اس وقت کوئی تنظیم نہ ضلعی سطح پر اور نہ تحصیل یا یوسی سطح پر موجود ہے ۔ان حالات میں ورکروں کی مایوسی بجا ہے کہ ایک پارٹی کی اتنی خدمات ہوتے ہوئے اسے دیدہ و دانستہ خاک میں ملا دی جاتی ہے۔اس وقت خصوصا” اپر چترال کے جملہ مایوس ورکرز ایک بار پھیر صوبائی صدر امیر مقام سے امید یں وابستہ کیے ہوئےہیں کہ امیر مقام اس پارٹی کو مزید بربادی سے بچانے میں کردار ادا کرکے مایوس اور بے یار و مدد گار کارکنوں کے حوصلہ بڑھائے۔ اور اسے منظم کرنے میں کردار ادا کرے۔ یاد رہے کسی بھی پارٹی کا منظم ہونا نہ صرف پارٹی کے مفاد میں ہے بلکہ علاقے میں اس کے کردار سے مثبت اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

chitraltimes mia nawaz sharif
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54350

لا وارث شعبہ (شعبہ خصوصی تعلیم) – تحریر: عبدول باری

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ محکمہ سماجی فلاح و بہبود اور خصوصی تعلیم نے شعبہ خصوصی تعلیم کے چند خالی آسامیوں کے لئے اشتہار جاری کیا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت تھی۔ کیونکہ عرصہ دراز سے محکمہ سماجی فلاح و بہبود اور خصوصی تعلیم کی ترقی اور فلاح کے لیے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے سابق ملازمین یا تو ترقی پا چکے ہیں یا ان کی مدت ملازمت مکمل ہونے کی وجہ سے محکمہ ہذا کے چند بنیادی آسامیاں خالی پڑی ہیں نوجوان نسل کو موقع دینا اور نوجوان ملازمین کا انتخاب کرنا ادارے کے لیے انتہائی ضروری تھا۔ مگر یاد رہے کہ ہر کام کے لیے مخصوص قابلیت اور اہلیت درکار ہوتی ہے چونکہ خصوصی تعلیم میں خدمات سرانجام دینے کے لیے امیدوار کا خصوصی تعلیم سے وابستگی ہونا اتنا ہی ضروری ہے کہ جتنا ایک ڈاکٹر کے لیے میڈیکل سائنسز سے وابستگی ہونا لازمی ہے۔

لہذا محکمہ برائے سماجی فلاح و بہبود کے اشتہار میں جو مطلوبہ قابلیت اور اہلیت رکھا گیا ہے وہ ہمارے لئے باعث تشویش ہے کیوں کہ خصوصی تعلیم اور عام نظام تعلیم میں بہت بڑا فرق ہے مثال کے طور پر اگر جنرل ایجوکیشن کے چند اہم آسامیوں کے لیے بی ایڈ کا ہونا لازمی ہے تو بلکل اسی طرح خصوصی تعلیم کے ان آسامیوں کے لیے شعبہ خصوصی تعلیم کا ڈگری ہونا ضروری ہے۔ اس کے برعکس مذکورہ بالا محکمے نے اشتہار میں خصوصی تعلیم کے آسامیوں کے لئے بی ایڈ کا شرط رکھا ہے اور خصوصی تعلیم کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ حلانکہ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ان آسامیوں کے لئے خصوصی تعلیم کی ڈگری ہی کو لازمی قرار دیا جاتا۔ کیونکہ کہ جب بیچ ہی صحیح نہیں ہوگی تو تناور درخت کہاں سے آئے گا۔ لہذا حکام بالا سے گزارش ہے کہ شعبہ خصوصی تعلیم اور شعبہ خصوصی تعلیم کے طالب علم کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک نہ رکھا جائے بلکہ شعبہ خصوصی تعلیم کی فلاح کے لیے شفاف اور موثر حکمت عملی اختیار کیا جائے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54345

غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ (1908-1929)۔ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

(1908-1929)

31)اکتوبریوم شہادت کے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                امت مسلمہ وہ عظیم الشان ملت ہے جس نے دورغلامی میں بھی اپنی مایہ ناز روایات کو سربلند رکھاہے،اورطوق غلامی کے باوجود اس امت کی کوکھ سے ایسے سپوت جنم لیتے رہے ہیں جن کے کارہائے نمایاں پر ایک زمانہ حیران و ششدر اور انگشت بدنداں رہا ہے اورامت کا پرچم ہمت واستقامت بلندوبرتر رہا۔حب رسولﷺاس امت کا خاصہ ایمان ہے اوریہ واحد جذبہ ہے جس نے غلامی کی اندھیری غاروں میں،جہاں قومیں اپنا وجود گم کر بیٹھتی ہیں اور ان کے نام و نشان تک مٹ جاتے ہیں،امت مسلمہ اس روشن چراغ کی بدولت ایک بار پھر شاہراہ آزادی پربام عروج زمانہ کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔بنی اسرائیل پرچارسوتیس سال تک مصریوں کی غلامی مسلط رہی اور انبیاء علیھم السلام کی قیادت اور کتب آسمانی کانزول بھی انہیں آج تک اس غلامی کے اثرات سے نکال نہیں سکے اور خدائی ذلت و مسکنت اب بھی ان کا مقدر ہے جبکہ یہ فیض محمدی ﷺ ہے کہ امت مسلمہ پر جہاں شرق تا غرب بدیسی آقامسلط رہے اور اپنی حتی المقدور مساعی کے باعث اس امت کا سب مال و اسباب چھین چکنے کے باوجود عشق نبیﷺان کے سینوں سے سلب نہ کرسکے۔تعلیم سے دفاع تک اور معاشرت سے معیشیت تک اور اقتدارکے ایوانوں سے گلیوں،سڑکوں اور بازاروں کی عامی اصطلاحات تک،ان بدیسی آقاؤں نے سب کچھ بدل ڈالاحتی کہ ہماری قوم میں اپنا ذہنی پسماندہ غلام طبقہ بھی انڈیل دیاجوآزادی کے بعد بھی آج تک اپنے گزشتہ آقاؤں کے رنگ میں رنگاہواہے لیکن اس سب کے باوجودالحمداللہ ایمان کی دولت سے وہ اس امت کو محروم نہ کر سکے۔مسلمان کے سینے میں جب تک حب نبیﷺ موجود ہے وہ دنیاکے سارے معاملات پرمصلحت سے کام لے لے گالیکن ذات نبویﷺ پر وہ کسی طرح کادباؤبرداشت نہیں کرے گا،یہی ہماراماضی ہے،یہی ہمارا حال ہے اور جب تک یہ سورج چاند ستارے موجودرہیں گے یہی ہمارا مستقبل ہوگا،اس دنیامیں بھی محسن انسانیت ﷺسے تعلق خاطر ہماری پہچان ہے اور اس دنیامیں بھی خدائی کارکن اسی نسبت سے ہمیں پہچانیں گے،انشاء اللہ تعالی۔

                غازی علم دین شہید امت مسلمہ کی عظیم الشان تاریخ کا دمکتاہوا ماہتاب ہے۔3دسمبر1908ء کو لاہور کے ایک محلے کوچہ چابک سواراں میں پیداہوئے،خوش قسمت والد ”صالح مند“پیشے کے اعتبار سے لکڑی کے ماہر کاریگر تھے۔شہید نے ابتدائی تعلیم اسی محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی اور عنفوان شباب میں قدم رکھتے ہی اپنے آبائی پیشے سے وابسطہ ہو گئے اور اپنے والد محترم اور بڑے بھائی میاں محمدامین کی شاگردی اختیار کر لی۔1928ء میں آپ نے سنت انبیاء علیھم السلام تازہ کی اور ہجرت کر کے تو کوہاٹ منتقل ہو گئے جہاں بنوں بازار میں لکڑی کی باختہ سازی کاآغاز کیا۔مشاہیرتاریخ اسلام میں سے ایک”غازی علم دین شہید“کے یہ کل حالات زندگی ہیں۔علامہ اقبال نے فیضان نظر اور مکتب کی کرامت کے فرق کے ساتھ ایک بہت بڑے فکروفلسفے کو گویادریاکو کوزے میں بندکر دیاہے۔نہ معلوم کس ماں نے کس کس طرح کی لوریاں سناتے ہوئے اس بطل حریت کو اپنے سینے کے بہشتی چشموں سے سیراب کیاتھا اور مقدس باپ نے خون پسینہ ایک کر کے کس کس طرح سے رزق حلال کے لقمے اس کے حلق میں ٹپکائے تھے کہ ایمان وعمل کاایک سمندر اس نوجوان کے قلب سے جاری و ساری ہوااور عشق نبیﷺنے اس مرد مجاہد سے وہ کام لے لیا کہ دنیاو آخرت کے وعدے اس کے لیے صادق ہو گئے۔

                سرزمین ہندوستان پر صدیوں سے مسلمان اور ہندو اقوام باہم شیروشکر ہوکر آباد تھے اور ایک دوسرے کے مقدسات کااحترام کرتے تھے۔ایک  زمانے سے چونکہ مسلمانوں کی حکمرانی تھی اور ہندو رعایاکی حیثیت سے ریاست کے باشندے تھے اسی لیے کوئی خون خرابہ،بگاڑ،انتشار یادھینگامشتی نہیں ہوئی۔بلکہ تاریخ  شاہد ہے ہندو قومیتوں کو خوش کرنے کی خاطر مسلمان حکمران بعض اوقات ایسی حدود سے بھی آگے گزر گئے کہ ان کے اپنے ہم مذہب ان سے نالاں و گریزاں رہنے لگے۔گردش ایام کو یہ امن و آشتی شاید پسند نہ آئی اور ایک فتنہ پرورقوت نے اس جگہ پر اپنا گھرکرلیااور ”لڑاؤاورحکومت“کرو کے عنوان سے یہاں کی ملتوں اور قومیتوں کو جوباہم یک جان دوقالب تھیں انہیں باہم دست و گریبان کر دیا۔مسلمان چونکہ اصول ہائے جہاں بانی سے واقف حال تھے اور گزشتہ ایک ہزار سالوں سے دنیاکے تخت اقتدارپر جلوہ افروز رہے تھے اس لیے بدیسی حکمرانوں کی ان چالبازیوں کو سمجھ گئے لیکن ہندوقومیتیں بوجوہ نابلد رہیں اور انہوں نے بدیسیوں کی آشیربادکی خاطراپنے ہم وطنوں سے نازیبا چھیڑچھاڑ شروع کر دی،شومی قسمت کہ یہ مشق ستم تادم تحریرجاری ہے۔اسی کھیل کاایک کردار”کمار پرسادپریت“ایک ہندوتھا جس نے ”چامی پتل لاچی“کے قلمی یافرضی نام سے ایک شرانگیزکتاب لکھی جس میں محسن انسانیتﷺکی شان میں گستاخی کرکے تومسلمانوں کی دل آزاری کی گئی تھی۔اگرچہ کسی نازیباتحریرکاوقوع پزیرہونا بھی ایک قابل مواخذہ امر ہے لیکن ایسی قابل اعتراض تحریرکاشائع ہوجانا اس سے بھی زیادہ موجب دل آزاری ہے۔”مہاشے راج پال“لاہورکا وہ مکروہ کردارہے جس نے1923ء میں اس بدبودارکتاب کی اشاعت جیساشرانگیزکام کیا۔ہندوتنگ نظری ملاحظہ ہوکہ 1912ء میں قائم ہونے والا یہ ادارہ اپنے کرتوتوں کے باعث شاید اپنی موت مر جاتالیکن 1947ء کے بعداس ادارے کو دہلی منتقل کردیاگیااور آج یہ ادارہ”راج پال سنز“کے نام سے ہندوستان کے صف اول کے اشاعتی اداروں میں اس کا شمار ہوتاہے۔

                اس کتاب کی اشاعت مسلمانوں کی غیرت ایمانی پر بجلی بن کر گری اورہندوستان کی ملت اسلامیہ میں اس کتاب نے بہت بڑااضطراب پیداکردیا۔مسلمان راہنماؤں نے پہلے قانون کاسہارالیااورانگریزکی عدالت میں اس کتاب کی ضبطی کی درخواست جمع کرائی،نتیجہ، کتاب کے ناشرکوچندماہ کی قید۔اس سزاکے خلاف ناشر نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تو جسٹس دلیپ مسیح نے اس کتاب کے ناشرکورہاکردیا۔گویابدیسی استعمار چاہتاتھاکہ یہ معاملہ طول پکڑے اور ہندؤں اورمسلمانوں کے درمیان کشت و خون کی ہولی کھیلی جائے۔فطری ردعمل کے باعث مسلمانوں نے جمہوری راستے اختیارکیے اورمظاہروں کاسلسلہ چل نکلا۔انگریزسرکارنے مسلمانوں کی دل شکنی کامداواکرنے کی بجائے ایک طرف تومسلمان راہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی تودوسری طرف راجپال کی حفاظت کے لیے پولیس کی نفری فراہم کر دی،گویا آگ کو مزید بھڑکادیا۔مسلمان آج بھی انگریزکی اس سازش کو سمجھتے ہیں لیکن صدافسوس کی ہندو اس وقت بھی اس سے نابلد رہے۔اب مسلمان مجبور تھے کہ خود ہی کچھ کریں چنانچہ 24ستمبر1928کولاہور کے ایک شیردل غازی خدابخش نے راجپال پر حملہ کیالیکن وہ بچ نکلا،غازی خدابخش کو سات سال قید کی سزاہوگئی،افغانستان کے غازی عبدالعزیزنے راجپال پر حملہ کیالیکن وہ راجپال کو پہچاننے میں ناکام رہے تو اس کی جگہ اس کادوست ماراگیااورراجپال بچ گیا،غازی عبدالعزیزکوچودہ سال قیدکی سزاہوگئی۔ان حملوں کے باعث راجپال کچھ عرصے کے لیے شہرچھوڑ گیا۔واپس آیا تو غازی علم دین شہیدنے اس پر خنجرکے وار کرکے تواسے جہنم رسید کردیا۔پولیس نے غازی علم دین شہیدکودھرلیااس لیے کہ غازی نے فرارہونے کی کوشش ہی نہ کی تھی۔22مئی 1929ء کوسیشن کی عدالت نے غازی کو پھانسی کی سزا سنادی۔

                اعلی عدلیہ میں اپیل دائر کی گئی اورقائداعظم محمدعلی جناح نے اس مقدمے کی پیروائی کی اوربیرسٹر فرخ حسین نے آپ کی معاونت کی اوران شہرہ آفاق اعلی قانون دان وکیلوں نے فیس میں کچھ بھی قبول نہ کیااور خالصتاََیہ مقدمہ فی سبیل اللہ لڑا۔قائداعظم ؒ اپنے زمانے کے مہنگے ترین وکیل تھے اور بڑے بڑے امیر لوگ بھی ان کی خدمات لیتے ہوئے ایک بار نہیں سو بار سوچتے تھے۔اس موقع پر قائداعظم ؒ نے اپنے سچے مسلمان ہونے کا اور پکے عاشق رسولﷺ ہونے کا لازوال ثبوت دیااور بمبی سے لاہور آتے رہے،لاہور میں قیام کرتے رہے اور عدالتی پیشیوں میں مقدمہ لڑتے رہے لیکن معاوضے کے طورپر ایک پائی بھی وصول کرنے کے روادار نہ ہوئے۔15جولائی1929کوعدالت عالیہ نے بھی اسی سزاکوبرقراررکھا۔ان تمام مراحل میں غازی علم دین شہید نے کہیں بھی جھوٹ نہ بولااور اپنے تاریخ ساز کارنامے کااقرارہی کرتے رہے۔جیل میں جب انہیں سزائے موت کافیصلہ سنایاگیاتووہ مسکرائے اور اسے اپنی شہادت کے عنوان سے کامیابی قراردیا۔قائداعظم محمدعلی جناح لندن کی قانونی کونسل میں بھی اس مقدمے کولے کر گئے لیکن انگریزکی مسلمان دشمنی سے کسی انصاف کی توقع عبث تھی اور عبث ہے۔غازی علم دین شہید نے اپنی وصیت میں شریعت محمدی پر پابندی کی تلقین کی اور31اکتوبر1929ء کو یہ اکیس سالہ نوجوان میانوالی کی جیل میں منصب شہادت پر فائز ہیو کر ہمیشہ کے لیے امرہوگیا۔

                مسلمانوں کے خوف سے انگریزسرکار نے شہید کاجسدخاکی اس کے ورثاکے حوالے نہ کیااور اسے ایک نامعلوم مقام پر دفنا دیا۔مسلمانوں کاایک وفد علامہ اقبال ؒکی قیادت میں گورنرپنجاب کوملااور امن و امان کی یقین دہانی کرائی جس کے باعث کئی ہفتوں بعدقبر کشائی کی گئی اور وہاں موجود انگریزافسرنے بدبوکے خدشے کے باعث اپنی ناک پر رومال بھی رکھ لیالیکن جسد خاکی انتہائی تروتازہ اور خوشبوکے جھونکوں کے ساتھ قبر سے باہرآیااور لاہور لایاگیا۔۔کم و بیش چھ لاکھ افراد اس بابرکت جنازے میں شامل ہوئے،قاری شمس الدین خطیب جامع مسجدوزیرخان نے نماز پڑھائی اور جنازہ کاجلوس ساڑھے پانچ میل  لمباتھا۔یہ خوش قسمت نوجوان اس لحاظ سے بھی خوش بخت نکلاکہ جہاں قائداعظمؒ جیسے محسن امت نے اس کا مقدمہ لڑا تھاوہاں علامہ محمد اقبالؒجیسے عاشق رسول نے اسے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔میانی صاحب کے قبرستان میں یہ شہید نبوت ابدی نیند سے آسودہ راحت ہے،گویا ”زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے“۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54293

داد بیداد ۔ بد امنی کی نئی لہر۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

افریقی مما لک سوڈان اور ما لی سے بد امنی کی خبریں آرہی ہیں مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھی ہے اسرائیل نے فلسطینی رفاہی تنظیموں اور امدادی اداروں کے اثا ثے منجمد کر دیئے ہیں سعودی عرب اور کویت سمیت عرب ریا ستوں نے لبنا ن کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیئے ہیں تر کی نے 10مما لک کے سفیروں کو ملک سے نکا ل دیا ہے ان ہنگا مہ خیز خبروں کے دوران امریکی حکمران ڈیمو کریٹک پارٹی کے سینیر لیڈر سابق وزیر خار جہ اور مو جودہ نما ئندہ خصو صی جا ن کیری نے سعودی عرب کا دورہ کر کے عرب ریا ستوں کے سر براہ اجلا س میں شر کت کی ہے سر براہ اجلا س میں یمن، شام، لبنا ن، ایران اور افغا نستان کے خلاف سخت مو قف اختیار کرنے کا عزم ظا ہر کیا گیا .

ان حا لا ت میں سینیر سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے جنگ زدہ مما لک کوا یک بار پھر نئی جنگ کی بھٹی میں جھو نک دینے کے لئے سٹیج تیار کیا جا رہا ہے آئیندہ برسوں میں امن کی اُمید نہیں بد امنی کے خد شات بہت زیا دہ ہیں یہ سفارت کا روں کی مایو سی نہیں بلکہ حا لات کا جبر ہے اور حا لات کو دیکھ کر آنے والی بد امنی کی لہر کا اندازہ لگا یا جا رہا ہے افسوس نا ک بات یہ ہے کہ مادی ترقی، سائنسی ایجا دات اور ٹیکنا لو جی پر دست رس کے باو جو د بیسویں صدی امن سے محروم رہی، اکیسویں صدی آئی تو عراق اور افغا نستان کے ساتھ ساتھ شام، یمن اور دیگر مما لک بھی جنگ کی لپیٹ میں آگئے ایک عالمی مفکر کا قول ہے انسان نے پرندے کی طرح ہوا وں میں اڑنا سیکھا مچھلیوں کی طرح سمندروں میں تیرنا سیکھا لیکن انسا نوں کی طرح زمین پر امن کیساتھ رہنا نہیں سیکھا .

ایک مشہور شخصیت کا قول ہے اگر تم نے تعلیم حا صل کر کے شہری آبا دیوں پر بمباری کرنے،سکولوں کو منہدم کرنے، ہسپتا لوں میں مریضوں کو بموں سے اڑا دینے کی مہا رت حا صل کی تو تمہاری تعلیم سے کسی جنگل میں بکر یاں چرانے والے چرواہے کا ان پڑھ ہونا لا کھ در جہ بہتر ہے ہمارے دوست پرو فیسر فاطمی کہتے ہیں کہ دنیا بارھویں صدی کی طرف واپس جارہی ہے اگر اس رفتار سے واپسی کا سفر جاری رہا تو بہت جلد ہم لو گ چنگیز خا ن کے دور میں داخل ہو جائینگے یہ بات صداقت سے خا لی نہیں تا ہم اس پر اضا فہ بھی کیا جا سکتا ہے اضا فہ یوں ہو گا کہ چنگیز خا ن کا دور مو جودہ زما نے سے افضل اور بہتر تھا اُس دور میں فوج کے مقا بلے پر آنے والا فو جی ما را جا تا تھا.

گھر میں بیٹھا ہوا بوڑھا، نا بینا یا بیمار قتل نہیں ہوتا تھا مو جو دہ تر قی یا فتہ زما نے میں سکول میں پڑھنے والے معصوم بچے، ہسپتال میں بستر پر پڑے ہوئے بے حال بیمار اور گھروں میں بے خبر بیٹھے ہوئے بزرگ اور خواتین قتل کر دی جا تی ہیں راکٹ، میزائیل اور بم آسمان کی بلندیوں سے گرتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ نشا نے پر کون ہے؟ چنگیز خا ن صرف دشمن کو مار تا تھا آج کا سائنسدان بے گنا ہ اور معصوم شہریوں کی جا ن لے لیتا ہے.

نیا عالمی منظر نا مہ اس بات کی شہا دت دیتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی کی تباہ کن جنگوں کے بعد 2021ء میں بھی کسی عالمی رہنما کو امن کے قیا م کی فکر نہیں ہے عالمی رہنما وں کی ملا قات جہاں بھی ہو تی ہے جنگ کے لئے محا ذ کھو لنے پر غور ہوتا ہے اور ہر ملا قات کے بعد جنگ کا نیا محا ذ کھل جا تا ہے ایک شیطا نی چکر ہے جس میں اسلحہ بنا نے والی کمپنیوں کے ساتھ پرو پگینڈہ کرنے والی کمپنیاں آگے بڑھتی ہیں سیا ستدان میدان میں آکر دونوں کمپنیوں کے کارو بار کو ما ل و دولت فراہم کر تے ہیں چنا نچہ ایک محاذ پر جنگ کی آگ ٹھنڈی ہوتے ہی دوسرے محا ذ پر جنگ کی نئی آگ بھڑکا ئی جا تی ہے آج کل ما لی، سوڈان، یمن اور شام کے بعد افغا نستان کو ایک بار پھر جنگ کی آگ میں جھونکنے کا انتظام ہو رہا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54284

پس وپیش – واقعاتی ڈرامہ – اے.ایم.خان

پہلے ڈرامہ سنتے اور پڑھتے تھے اب ڈرامہ دیکھتے ہیں۔یہ دیکھنے کا سفر وہاں سرکاری ٹی۔وی سے شروع ہو جاتا ہے، بعد میں پرائیوٹ چینلز پر اور اب سوشل میڈیا پر بھی ڈرامے  دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جب ڈرامہ سننے اور پڑھنے کا دور تھا تو کوئی قصہ سنتا یا پڑھتا تو وہ دوسروں کو بھی سناتا تھا۔ اب وہ روایت ختم ہو چُکی ہے  کہ لوگ ڈرامہ دیکھنے کے بعد منہ دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔

بعض لوگ  ڈرامہ کے  بہت شوقین ہوتے ہیں تو بعض وقتاً فوقتاً دیکھ لیتے ہیں، اور ایسا بھی ہے کہ بعض لوگ ڈرامہ دیکھتے ہی نہیں۔ یہ صرف ڈرامہ دیکھنے والوں کا ایک جائزہ ہے، ڈرامہ کرنے والوں کی بات تو الگ ہے کیونکہ بات کردار پر آجاتی ہے۔

ڈرامہ میں بعض کردار تو لوگوں کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی اُس اداکار کی پسند سے اپنی پسند، بات، چال ڈھال اور ڈائیلاگ اپنالیتے ہیں۔ اور یہ انداز ایک زمانے سے ہوتے آرہے ہیں۔

ایک طرف دیکھیں تو یہ موسولینی کے فسطائیت کے نظریے کے قریب ہے کہ  عوام کو کچھ سمجھ نہیں آتی تو اسی لئے اُنہیں دیکھنے اور پڑھنے کی چیزیں بھی دی جائے، تو دوسری طرف ہم ریاست کی مہربانی سے شہرہ آفاق ‘ڈرامہ’ اپنے گھروں میں مفت دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اب آپ یہ نہ پوچھیں کہ اسطرح کام کا اثر معاشرے پر کیا ہوتا ہے کیونکہ یہاں پوچھنے والا  کوئی نہیں ہے۔

کیا حالت ایسی ہے کہ  جو ڈرامہ بنتا ہے اُسے دکھانا اور اس کے بارے میں بات کرنا مشکل ہو چُکا ہے؟ آپ کی اپنی رائے مختلف ہوسکتی ہے، میرے رائے کے مطابق ایسی کوئی بات نہیں ہے کم ازکم ڈرامہ کی بات ڈرامائی انداز میں کرسکتے ہیں۔

گزشتہ سال فیس بک کے ایک پیج  سےبچے کے ہراسمنٹ کے حوالے سے انگریزی میں ایک پوسٹ  سامنے سے گزرا۔ یہ پوسٹ تکلیف دہ تھی لیکں اُس پوسٹ پر پہلا  کمنٹ نہایت دلچسپ تھی جس میں گلم گلوچ کے بعد اُس فرد نے لکھا تھا کہ کیا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ دُنیا والوں کو بتاتے کہ ہمارے علاقے میں یہ واقعہ ہوا ہے۔ اگر خواہ مخوا ہ لکھنا چاہتا تھا تو اپنے مقامی زبان میں لکھتے تو دوسرے لوگوں کو سمجھ نہیں آتا۔

کیا یہ فلسفہ  اب بھی  رائج عام  تو نہیں ہے۔

اگر ایک ایسا ڈرامہ ہوا ہو اور پھر اُس کی خبر آجائے تو وہ ڈرامائی خبر بن جاتی ہے۔

مارکیٹ اور من گھڑت خبر کے حوالے سے ایک تجزیہ کار نے کیا خوب لکھا کہ دُنیا میں جمہوری اور آمرانہ حکومتیں اس کا اندازہ نہیں کرتے کہ صحافی اور رپورٹر کی اظہار رائے کی آزادی پر پابندی اور قدغن لگانے سے کتنا نقصان ہورہا ہے۔ ہم نے اب تک حکومتوں کی بات کی ہے معاشرے کی پابندی پر کسی نے بات نہیں کی ہے۔ بہرحال شاید نقصان کا اندازہ اُس وقت ہوجاتا ہے جب یہ کسی  بندےکے ساتھ ہو جاتا ہے۔

کیا صوبائی حکومت نے ۲۰۱۳ ء میں معلومات تک رسائی کا قانون پاس کرکے عوام پر احسان اور ادارون کو ہلکان کر چُکا ہے؟ اس پر آراء مختلف ہوسکتے ہیں لیکن سب اس بات کو مانتے ہیں کہ  خبر درست ، شفاف ،غیر جانبدارانہ اور اسمیں ذاتی پسندوناپسند شامل نہ ہو۔

اچھا ، مجھے آج یہ معلوم ہوا کہ اسطرح کا ایک قانون بھی ہے جس سےہمیں معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے اور  ادارے  معلومات کی فراہمی کے پابند ہیں ۔ ظاہری بات ہے اس قانون پر عملداری اُس کا عملی پہلو ہے۔

اگر وہاں کوئی نظریاتی ڈرامہ جب ریلیز ہوجاتی ہے تو اُسکا  آخری قسط بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ اُس میں کہانی مکمل ہوجاتی ہے یعنی اُس نظریے کی تکمیل تو ہوجاتی ہے۔  باقی سب کچھ بُھول کر لوگ صرف آخری قسط پر اکتفا کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شروع میں جو کچھ ہوا ہےخیر  آخری قسط اُن سب باتوں کو صاف کر دیتی ہے۔ لیکن اس کا معاشرے پر ایک اثر ہوتا ہے وہ ایک کیفیت ہے۔ یعنی جو  نظریاتی ڈرامہ کا آخری قسط دیکھتا ہے  اُس میں بات کرنے کی سکت ختم ہو جاتی ہے جسطرح وہ  ڈرامہ جس کے آخری قسط میں  ایک کم عمر غیر مسلم لڑکی آخر میں مسلم ہوجاتی ہے اور سٹیج سمٹ جاتے ہی سب دیکھنے والے اُس کیفیت کا شکار ہوگئے تھے۔

اور جو اُس ڈرامے کے بارے میں پڑھ رہے تھے جیسے ہی سٹیج میں یہ ڈرامہ ختم ہوئی تو اُن میں بھی وہ کیفیت طاری ہوئی یعنی پڑھنے والوں میں بھی بات کرنے کی سکت باقی نہ رہی۔ بالکل  اسی طرح یہ واقعاتی ڈرامہ کی تحریر  آخری قسط لکھتے ہی سمٹ کر رہ گئی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54271

مارچ، احتجاج، دھرنے اور عوامی مسائل -پروفیسر عبد الشکور شاہ

میں 1215کسانوں نے نوابوں اور جاگیردارانہ مظالم کے خلاف احتجاجی دھرنے دیے۔یورپ میں طاعون کی وباء (بلیک ڈیتھ)کے تین عشروں بعد1381میں طبقاتی نظام اور کسانوں کے استحصال کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا گیا جسے ہم پیزنٹ ریولٹ کے نام سے جانتے ہیں۔1517میں مارٹن لتھر کنگ نے سیاہ فام لوگوں کے حقوق اور کیتھولک چرچ کی اجارہ داری کے خلاف دھرنے دیے۔1773میں بوسٹن ٹی پارٹی کے نام سے ہونے والے دھرنے نمائندگی کے بغیر ٹیکسوں کی ادائیگی کے خلاف دیے گئے۔1778-1799میں انقلاب فرانس،1812میں لیدیٹس احتجاج مزدوروں کے حقوق اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے جنم لینے والی بے روزگاری کے خلاف کیا گیا جس نے بعد میں برطانوی مزدور تحریک کی شکل اختیار کر لی۔1913 میں سفرریگیٹس احتجاجی دھرنے خواتین کو ووٹ کا حق دلانے کی خاطر دیے گے۔ 1960 کی دہائی میں سول رائٹس کے لیے احتجاجی دھرنے دیے گئے ان کے مقاصد میں سیاہ فاموں کوامریکہ میں ووٹ، نوکری اور دیگر بنیادی حقوق کا حصول شامل تھا۔1964 اور 1989 میں جمہوریت کی بحالی کے احتجاجی دھرنے دیے گے.

۔ 1980 اور 1990 کے دوران معیار زندگی میں بہتری کے لیے احتجاجی دھرنے دیے گے۔ سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ 2011 میں حسنی مبارک کے خلاف احتجاج ہوا اور پھر یہ سلسلہ یوں چل پڑا جس کاماضی میں خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ پاکستان میں جنرل سکندر مرزا کے دور حکومت میں 1956-1958  کے دوران احتجاجی دھرنے دیے گئے جو 1958 میں مارشل لاء کا سبب بنے۔ 1965 کی جنگ کے بعد مہنگائی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے احتجاجی دھرنے دیے گے۔1968 میں مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کی وجہ سے یہ تحریک زور پکڑ گئی اور ذولفقار علی بھٹو بھی اس تحریک کا حصہ بنے۔ 1977میں ذولفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائینس نے احتجاج شرو ع کیا، اگرچہ بھٹو صاحب معاملات طے کرنے ہی والے تھے مگر جنرل ضیاء الحق نے تختہ الٹ دیا۔ 1981میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک شروع ہوئی جو 1985 کے جنرل الیکشن کے اعلان کے ساتھ ختم ہو گئی.

۔ 1992میں محترمہ بینظیر بھٹو نے نوازشریف حکومت کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی۔محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک بار پھر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں جنرل کاکڑ نے نواز شریف صاحب کو استعفی دینے پر مجبور کیا۔2008میں جنرل مشرف نے ججوں کو برطرف کر دیا تو ججز اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک حتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ 2013میں ہزارہ برادی نے کوئٹہ بم دھماکے کے شہداء کی لاشیں رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا۔ 2013-14میں گم شدہ افراد کے حق میں احتجاجی دھرنے دیے گئے۔ 2013-14 کو دھرنوں کا سال ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس عرصے میں پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری نے ماڈل ٹاون سانحہ اور آئینی ترمیمات کے لیے دھرنا دیا۔ پی ٹی آئی نے الیکشن میں دھاندلی اور کرپشن کے خلاف ایک بڑا اور لمبا دھرنا دیا۔ پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ یوں چلتا رہا اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے الیکشن دھاندلی کے الزامات لگا کر دھرنے دینا شروع کر دیے۔ مولاناخادم حسین رضوی صاحب نے ختم نبوت کے لیے دو سے زیادہ مرتبہ اسلام آبادمیں دھرنے دیے۔ سیاسی پارٹیوں نے پی ڈی ایم کے نام سے مشترکہ محاذ بنا کر ملک بھر میں احتجاجی دھرنے اور جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

ہزارہ برادری نے دوسری بارلاشیں رکھ کر دھرنا دیا جو کے مطالبات تسلیم ہونے پر ختم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ بے شمار چھوٹے دھرنے بھی ہوتے رہے اور ابھی کچھ مقامات پر ہو بھی رہے ہیں۔تحریک لبیک پاکستان نے گزشتہ کچھ دنوں سے پھر مارچ کا آغاز کر دیا ہے۔ مختلف مقامات پر افسوس ناک واقعات بھی پیش آئے جن کا ازالہ کر نا ناممکن ہے۔ پرامن احتجاج کے لیے جگہ فراہم کرنے کا اعلان کرنے والی پی ٹی آئی اب کنٹینرز لگانے، خندقیں کھودنے اور رینجرز بلانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ نیٹ ورک اور سڑکوں کی بندش کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہے۔ کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے پہلے ہی بہت متاثر ہو چکے ہیں۔ اب احتجاج کے نام پر تعلیم ادارون کی بندش سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان میں ہر دھرنا عام آدمی کی بہتری کے نام پر دیا جاتا ہے مگر اپنی جیبیں گرم کرنے کے بعد معاہدے ہو جاتے ہیں اور عام آدمی جوں کا توں روتا پیٹتا رہ جاتا ہے۔مذہبی جماعتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور مذہب کے نام پر عوام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا دونوں کسی بھی لحاظ سے درست قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔تمام پارٹیاں اپنے مفادات کے لیے مارچ کرتے، دھرنے دیتے اور احتجاج کرتے ملک اور عوام کی خاطر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ محکمہ صحت اپنی تنخواہیں بڑھانے، الاونس بڑھانے اوردیگر مراعات کے لیے دھرنے دیتا مگر ہسپتال بنانے، ہسپتالوں میں بہتری لانے، مریضوں کے لیے سہولیات کی فراہمی کے لیے دھرنے نہیں دیے جاتے۔

محکمہ بلدیہ دھرنے دیتا تو اپنی تنخواہوں کے لیے دیتا ملک میں صفائی کا نظام بہتر بنانے کے لیے نہیں دیتا۔ واپڈا ملازمین اپنی نوکریاں پکی کروانے، تنخواہیں بڑھانے، الاونس لینے اور دیگر سہولیات کیلیے  دھرنے دیتے مگر بجلی کی کمی پوری کرنے، بجلی کا نظام درست کروانے، لوڈشیڈنگ ختم کرنے، نئے ڈیم بنوانے، بلات میں غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے تو کبھی دھرنے نہیں دیے۔ واسا والے بھی ذاتی مفادات کے لیے دھرنے دیتے مگر ملکی اور قومی مفادات کے لیے کبھی گھر سے باہر نکلنا گوارہ نہیں کیا۔ اساتذہ اپنی تنخواہیں بڑھانے، سکیل اپگریڈ کروانے، مراعات، سہولیات اور الاونس کے لیے دھرنے دیتے۔ انہوں نے کبھی نظام تعلیم میں بہتری، اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے، سکولوں میں سہولیات کی فراہمی کے لیے، آبادی کے تناسب سے سکولوں کی تعمیر کے لیے، سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ سکولوں کے مقابلے میں لانے کے لیے، طریقہ تدریس میں بہتری لانے کے لیے، حاضری کویقینی بنانے کے لیے کبھی دھرنا نہیں دیا۔ یہ سب مفاداتی اور ذاتی دھرنے ہیں۔ سیاست دانوں نے دوسری حکومت گانے اور اپنی حکومت لانے کے لیے دھرنے بھی دیے ہیں، احتجاج بھی کیے ہیں مگر عوام کی بہتری کے لیے صرف لولی پاپ۔ عوامی نام پر دیے جانے والے دھرنے بھی ذاتی مفادات کے لیے ہو تے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے مہنگائی، ناانصافی، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی، ناخواندگی او ر صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے خلاف نہ تو کبھی اتحاد بنایا اور نہ ہی دھرنے دیے۔

ہم لاقانونیت کے خلاف دھرنے کیوں نہیں دیتے؟ ہم ظلم و جبر کے خلاف دھرنے کیوں نہیں دیتے؟ ہم بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف دھرنے کیوں نہیں دیتے؟ کیونکہ یہ عوام کا مسلہ ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ جو موروثی سیاست کے زریعے عوام پر مسلط ہے یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ نسل در نسل حکمرانی کرنے والے تو مہنگائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ امیروں کے کتے موج کر تے ہیں جب کے غریب کی دہلیز پربھوک و افلاس کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ جنہوں نے کبھی بھوک دیکھی ہی نہیں وہ بھوکوں کا غم کیسے سمجھیں گے۔ جنہوں نے کبھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ہی نہیں کیا وہ عوام کی سفری مشکلات کو کیسے سمجھ سکتے۔ جنہوں نے کبھی زندگی میں خود سبزی یا فروٹ منڈی جا کرخریداری نہیں کی انکو مہنگائی کا کیسے علم ہو گا۔ جنہوں نے کبھی مزدور کی طرح دیہاڑی لگائی ہی نہیں وہ مزدور کے مسائل کو کیسے سمجھ سکتے۔عوامی ٹیکسوں سے بنے ذاتی محلات میں رہنے والے کرائے کے مکانوں میں گزارہ کرنے  والوں، بے گھر جھگیوں میں بسنے والوں اور بے آسرا فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے مسائل کو کیسے سمجھ سکتے۔ یہ سب غریب، بے بس، مظلوم عوام، ملک و قوم، مذہب و برابری کے نام پر دھرنے دیتے، اپنی جیبں بھرتے، مراعات لیتے، الاونس میں اضافہ کرواتے، سکیل اپ گریڈ کرواتے اور پھر رفو چکر ہو جاتے۔ پاکستان میں دھرنا مافیا ایک ہتھیار بن چکا ہے اگر اسے بروقت نہ روکا گیا تو ملک ان دھرنا پرستوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو تا رہے گا اور یہ دھرنا پرست مافیا محض اپنے مفادات کے لیے دھرنے دیتا ملکی یا قومی مفاد سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54263

دادبیداد ۔ ہندوتوا کی سیا ست کا ہُنر۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیض

آج کل بھارت کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیا ستدانوں کو دیکھیں یا دیگر سیاستدانوں کے بیا نات اور ان کی تقریروں کے روز بروز بدلتے لہجوں اور باتوں کو پر کھنے کی کو شش کریں تو یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ سیا ست علم بھی ہے ہنر بھی اور ہنر کا مادہ علم پر حاوی ہے ایک سیا ست دان ایک شہر میں جو بیان دیتا ہے دوسرے شہر میں اس کے بر عکس بیان دیتا ہے ایک سیا ست دان ایک ہی مسئلے پر چار چار موقف سامنے لا تا ہے اور اس پر اترآتا ہے یہ ایک ہنر ہے یہ سیا ست کا حُسن ہے جس زما نے میں سویت یو نین کے اندر سخت ترین پا بند یاں تھیں اُس دور میں ایک یہو دی پرو فیسر کو سویت یو نین سے اسرائیل منتقل ہو نے کی اجا زت ملی یہو دی پرو فیسر بال بچوں کو لیکر ما سکو کے ہو ائی اڈے پہنچا تلا شی کے دوران ان کے سا مان سے لینن کا مجسمہ بر آمد ہوا حکام نے پوچھا یہ کیا ہے؟ پر و فیسر نے کہا سوال غلط ہے یو ں پو چھو یہ کون ہے؟

حکا م نے پوچھا یہ کون ہے پرو فیسر نے کہا یہ لینن ہے ہمار ا نجا ت دہندہ، سویت انقلا ب کا با نی، روسی عوام کا محسن میرا لیڈر، میرا آئیڈیل میں اس کو یاد گار کے طور پر ساتھ لے جا رہا ہوں حکام نے اجا زت دیدی جب تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اترا پھر تلا شی کا مر حلہ آیا پھر سوال ہوا یہ کیا ہے؟ پرو فیسر نے پھر کہا سوال غلط ہے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ یہ کون ہے حکام نے پوچھا یہ کون ہے؟ پروفیسر نے کہا یہ وہ ملعون ہے جس کی وجہ سے روس میں یہو دیوں کی زند گی اجیرن ہوئی یہ روسی انقلاب کا با نی لینن ہے میں ہر روز ہزار بار اس پر لعنت بھیجتا ہوں اس لئے اس کو ساتھ لا یا ہوں جب تک زندہ ہوں اس پر لعنت بھیجتا رہوں گا حکام نے اجا زت دے دی پر و فیسر کو تل ابیب میں شا یان شان گھر ملا ایک دن اس کے چا ہنے والے احباب جمع ہو ئے احباب نے دیکھا کہ ایک مجسمہ ڈرائنگ روم کی میز پر رکھا ہوا ہے احباب نے پوچھا یہ کون ہے؟ پرو فیسر نے کہا سوال غلط ہے یوں پوچھو یہ کیا ہے احباب نے پوچھا یہ کیا ہے؟

پرو فیسر نے کہا یہ دس کلو گرام سونا ہے! احباب حیراں ہوئے تم نے اس کو کیسے یہاں تک پہنچا یا پرو فیسر نے کہا ما سکو کے ہوائی اڈے پر یہ نجا ت دہندہ بن کر آیا، تل ابیب کے ہوائی اڈے پر یہ ملعون ٹھہرا یا گیا اب یہ میری دولت ہے احباب نے کہا آپ نے کما ل کر دیا پرو فیسر نے کہا اس کو سیا ست کہتے ہیں اور یہ ایسا ہنر ہے جو زند گی کے ہر موڑ پر کا م آتا ہے بھارت میں ہندو توا کی سیا ست اور چانکیہ پا لیسی اس ہنر کا منہ بولتا شہکا ر ہے بھا رتی سیا ست دان یو رپ اور امریکہ جا تے ہیں تو انسا نی حقوق کا علم بردار بنتے ہیں جمہوریت کا چمپین بن جا تے ہیں واپس نئی دہلی پہنچ جا تے ہیں تو مسلما نوں اور سکھوں کو بنیا دی حقوق دینے سے انکار کر تے ہیں کشمیر میں جمہوری طرز کے استضواب رائے سے منہ موڑ تے ہیں گویا انسا نی حقوق اور جمہوریت بھی یورپ اور امریکہ کو دکھا نے کے لئے کام میں لا ئے جا تے ہیں لینن کے مجسمے کی طرح وہاں نجا ت دہندہ اور یہاں ملعون ٹھہرا ئے جا تے ہیں اصل حقیقت دولت ہے جس طرح بھی ہاتھ آئے لگتا ہے سیاست میں یہودیوں کا جو نظر یہ ہے ہندووں کا بھی وہی نقطہ نظر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54261

ایک عہد تمام ہوا ۔ تلخ و شیریں:نثار احمد

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق ریجنل ڈائریکٹرمقبول الہی بھی داغ ِ مفارقت دے گئے۔ یوں اہلِ چترال کا ایک محسن انسان ہی تہہ ِ خاک نہیں چلا گیا، ساتھ ساتھ ایک عہد بھی تمام ہوا۔ اس عہد ِ زریں کا آغاز مرحوم ڈائریکٹر نے چترال میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل آفس کی بنیاد رکھ کر کیا تھا۔ ریجنل آفس کی بنیاد رکھنے کا سیدھا سیدھا مطلب فاصلاتی نظام ِ تعلیم کی سہولت چترال کے چپے چپے تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھانا تھا۔ ماشاءاللہ ڈائریکٹر مرحوم نے بیڑا اُٹھانے کی ہمت و جرات پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ کی انتھک عملی کوششوں سے یہ بیڑا پار بھی ہو گیا۔ اس زمہ داری سے آپ کے سرخ رو ہو کر نکلنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ اپنی ساٹھ سالہ مدّت ملازمت پوری کر کے بطورِ ریجنل ڈائریکٹر ریٹائرڈ ہو رہے تھے تو چترال کا کوئی کونا ایسا نہیں تھا جہاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈگری یافتگان موجود نہ ہوں۔

maqbool elahi director aiou


علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل آفس کے قیام سے پہلے بی ایڈ، سی ٹی، ڈی ایم اور پی ٹی سی وغیرہ جیسی پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے چترال میں کوئی تدریسی مرکز موجود نہیں تھا۔ چنانچہ طلبا و طالبات ان پیشہ ورانہ ڈگریوں کے حصول کے لیے پُرمشقت سفر طے کر کے پشاور جاتے تھے۔ ان طلبا وطالبات کوکبھی لواری ٹاپ کی برفیلی چوٹی عبور کرنا ہوتا تھا تو کبھی افغانستان کا پرخطر اور تھکا دینے والا سفر جھیلنا پڑتا تھا۔ اوپر سے رہنے اور کھانے پینے کے اخراجات الگ بوجھ ہوتے تھے۔ یہ ڈائریکٹر صاحب کی برکت تھی کہ فاصلاتی نظام تعلیم کی وجہ سے نہ صرف ان مصائب و مشکلات سے خلاصی ملی بلکہ بڑی تعداد میں لوگوں کو گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے اور روزگار پانے کا موقع ملا۔


آج مرحوم کے جنازے میں اہل ِچترال کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، اور ان کے گھر تعزیت کیلئے آنے والوں کا تانتا بندھا دیکھ کر ذہن میں یہی خیال آ رہا تھا کہ جس شخص کے زیر ِ بار رہنے والے طلبا وطالبات چترال کے کوچے کوچے میں موجود ہوں اس کی وفات پر بروغل سے لے کر لواری پاس تک مختلف طبقہائے فکر اور شعبہائے زندگی والوں کا آنا کوئی اچھنبھا نہیں ہے۔ آپ یقیناً اصلی والے فخر چترال تھے۔ آج ایک صاحب بتا رہے تھے کہ بارہا ایسا ہوتا تھا کہ کوئی طالب علم داخلہ یا امتحانی فیس ادا کرنے کی استطاعت سے محروم ہوتا اور ڈائریکٹر مرحوم اپنی جیب سے اس کی فیس ادا کرتے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق مرحوم کی عمر تقریباً سڑسٹھ برس تھی۔ آپ گزشتہ دو تین سالوں سے اسلام آباد میں ہی مقیم تھے۔ آخری دنوں میں بھی اسلام آباد ہی کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔

ذکر و اذکار اور صوم و صلوٰۃ کے اس حد تک پابند تھے کہ مہربان الٰہی حنفی کے مطابق مرض ِ وفات میں بھی اشاروں کنایوں سے ذکرونماز کی ادائیگی کرتے رہے۔ سوگواروں میں بیانوے سالہ حاجی رحمت الٰہی (والد محترم) کے علاوہ تین بیٹے (ظہور الٰہی، فرمان الہٰی، احسان الہی) چھوڑے ہیں اور بیٹیاں بھی۔ علاوہ ازیں مرحوم کے تین دوست جیسے بھائی سوگواروں کی فہرست میں اوپر موجود ہیں۔ شمشیر الہیٰ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بطورِ ڈی ایس پی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ محبوب الہیٰ بطورِ ایس ڈی ای او محکمہء تعلیم سے وابستہ ہیں۔ مہرباں الٰہی حنفی پبلک سروس کمیشن میں سپرٹنڈنٹ کی حیثیت سے اپنا فرضِ منصبی بھی نبھا رہے ہیں اور بطورِ شاعر و سماجی کارکن دیگر ادبی و سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ خوش اخلاقی، ملنساری، تواضع اور خدمت خلق تینوں بھائیوں کا مشترکہ وصف ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے تمام لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54257

داریل تانگیر کا ژومال تنازع – تحریر: ثمرخان ثمر

موضع گیال داریل اور تانگیر کے تین مواضع لرک ، دیامر اور رم شیخ کے مابین “ژومال” نامی چراگاہ بشمول جنگل مدتوں سے باعث تنازع بنا رہا ہے۔ فریقین مذکورہ اراضی کو اپنی اپنی ملکیت گردانتے رہے ، ہزاروں افراد اراضی اور جنگل پر تصرف حاصل کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ، اک نسل جوان ہو کر بوڑھی ہوگئی اور پیری کی منزل ضعف پر قدم رکھ کر تشنہ حسرتوں سمیت منوں مٹی تلے جا سوئی۔بچے بوڑھے ہوگئے اور بوڑھے گزر گئے لیکن تنازع جوں کا توں رہا ، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا گیا۔نشو پاتا گیا ، شدت اور تمازت آتی گئی۔ کئی بار فریقین مورچہ زن ہوئے اور کئی بار خون ریز تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ 


یہ تنازع پہلی بار 1963 میں عدالت پہنچا۔ دیوانی مقدمات کیسے لوگوں کا بھُرتا بنا دیتے ہیں اور کیسے انتظار کے جاں گسل لمحات سے دوچار کرتے ہیں؟ سب جانتے ہیں۔ گزشتہ ستاون برسوں سے یہ مقدمہ مختلف عدالتوں میں چلتا رہا۔ چوٹی پر پہنچ کر واپس ایڑی پر آتا رہا۔فریقین کا کروڑوں پیسہ کورٹ کچہری کی نذر ہوگیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ لوگوں میں دوریاں ، نفرتیں ، کدورتیں ، چپقلشیں اور عداوتیں بڑھتی گئیں ۔ کئی مواقع ایسے آئے جب فریقین کے درمیان مسلح جھڑپیں بھی ہوئیں ۔ الغرض دیوانی مقدمات کا فیصلہ عدالتوں سے نکل پانا محال ہے۔ مثل مشہور ہے “دِیوانی آدمی کو دیوانہ کر دیتی ہے” یہ مثل یہاں پر بالکل صادق نظر آتی ہے۔ دیوانی مقدمات کا تصفیہ عدالتوں سے ہو پانا بہت مشکل ہے۔ ایسے تنازعات کا واحد حل جرگہ ہے۔ 


جرگہ ہمارے قبائلی تنازعات، مسائل اور لڑائی جھگڑوں کو نمٹانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور لشکر کشی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ خواہ کتنی بھی جنگیں کیوں نہ لڑی جائیں،  کتنی بھی لشکر کشی کیوں نہ کی جائے،  جب تک “مذاکرات کی میز” پر فریقین روبرو بیٹھ نہیں جاتے،  تنازعات ختم نہیں ہو سکتے۔ تاریخ عالم پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم پڑتا ہے کہ دو اور دو ملکوں،  قوموں،  فریقوں یا خاندانوں کے مابین پیدا ہونے والا تنازع آخرکار مذاکرات کی میز پر روبرو بیٹھ کر ہی حل ہوا ہے۔ بےجا طاقت شہروں کے شہر تو اُجاڑ سکتی ہے مگر تنازع حل نہیں کر سکتی۔ لوگوں کے دلوں سے نفرت و عداوت کی چنگاری بجھا نہیں سکتی۔ حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے کہ کیسے امریکہ اور اتحادی دولت و طاقت کے گھمنڈ میں افغانستان اُمڈ آئے اور دو دہائیوں تک افغان عوام پر ظلم و ستم اور جارحیت و بربریت کے پہاڑ توڑے؟  اور کیسے اس خودساختہ جنگ کا نتیجہ برآمد ہوا؟  کیا امریکہ اور اتحادی افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود فاتح کہلائے؟  کیا انھوں نے افغان عوام کو فتح کیا؟  کیا وہ ان کے دل جیت پائے؟  ہرگز نہیں۔ طاقت و دولت مسئلے کا حل نہیں ہے۔ واحد حل مذاکرات ہے اور یہ کام جرگہ ہی انجام دے سکتا ہے۔


ستاون برسوں میں ژومال تنازع حل فرمانے کے لئے کئی جرگے بنے، کچھ وقت لیا اور منظر سے غائب ہوئے۔ یعنی جرگے بنتے ٹوٹتے گئے۔ کوئی تصفیہ نہ ہوسکا، کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ یہ مسئلہ پوری شدت کے ساتھ قائم و دائم رہا۔ کامیاب جرگے کے لئے چند باتیں ناگزیر ہوتی ہیں۔ جرگہ خالص ہو،  غیرجانبدار ہو، بےلاگ اور بےلوث ہو۔ صادق و امین ہو، خشیت الہی ہو، وقت دے سکتا ہو اور فریقین کا مکمل تعاون حاصل ہو۔ اگر یہ باتیں موجود ہوں تو کوئی وجہ نہیں جرگہ اپنے نصب العین میں کامیاب نہ سکے۔ ہمارے یہاں قبائلی جرگہ سسٹم نہایت موثر اور کارآمد رہا ہے۔ تنازعات حل فرمانے کا یہ طریقہ نہایت پرانا ہے اور جتنا یہ قدیم ہے اتنا ہی سودمند ہے۔ ان علاقوں میں ننانوے فیصد تنازعات کا پائیدار حل جرگوں نے ہی نکالا ہے۔ کئی خاندانی دشمنیاں،  جن کی بھینٹ چڑھ کر کئی کئی افراد لقمہ اجل بن گئے اور آخر جرگہ بٹھانا پڑا اور دشمنیاں دوستیوں میں بدل گئیں۔ جرگے کا حجم بڑا ہونا اہم نہیں ہے اور نہ ہی ضروری ہے،  اہم بات یہ ہے کہ جرگہ کتنا مخلص اور غیرجانبدار ہے؟  ہم نے تین چار اراکین پر مشتمل جرگے بھی دیکھے ہیں جن کی مخلصانہ کاوشیں رنگ لے آئیں اور برسوں پر محیط دشمنیوں اور تنازعوں کا قلع قمع ہوگیا۔ 


الحمد للہ دیامیر اور کوہستان مردم خیز علاقے ہیں۔ نامی گرامی عمائدین ہیں، جرگوں کے ماہرین کی یہاں کمی نہیں ہے۔ ان علاقوں سے دس بارہ عمائدین کمر کس لیں تو مجھے اُمید ہے بہت جلد یہ مسئلہ دفنا سکتے ہیں۔ حکومت گلگت بلتستان کو چاہیے کہ ایسے جرگوں کا سرکاری سطح پر اہتمام کرے اور سرکار سرپرستی کرے۔ جرگہ کے ساتھ ہر ممکن تعاون فرمائے۔عوام گیال داریل اور لرک دیامر تانگیر کو اب سوچنا ہوگا۔ یہ دور اب ان چیزوں کا نہیں رہا۔ فریقین کو لچک دکھانی ہوگی۔ “کچھ دو اور کچھ لو” پر عمل کرنا ہوگا۔ میں مذکورہ علاقوں کے عوام سے مخاطب ہوں۔ کتنا بھی زور لگا لیں، کتنی بھی لشکر کشی کرلیں، آپ ایک دوسرے کو ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک مذکورہ علاقوں کا ایک فرد بھی زندہ ہے،  تنازع باقی ہے۔ یہ بزور طاقت حل ہونے والا مسئلہ نہیں ہے۔ کب تک نفرتیں پالتے رہیں گے؟  کب تک زمین کے ایک ٹکڑے کی خاطر لڑتے رہیں گے؟ پچھلی چھے دہائیوں میں سوائے نفرتوں کے،  کمایا کیا ہے؟ علمائے کرام،  عمائدین، باشعور اور تعلیم یافتہ افراد آگے آئیں۔ پائیدار امن تلاش کریں۔ رویوں میں لچک پیدا کریں۔ جب چھے دہائیوں میں کورٹ کچہریوں میں حل نہیں نکلا تو مستقبل میں بھی نکلنے کی آس نہیں ہے۔ یہ اُمید رکھنا ہی عبث ہے کہ عدالتوں سے دیوانی مقدمے کا فیصلہ نکلے گا۔


حالیہ کشیدگی کے بعد یہ بات انتہائی ناگزیر ہوگئی ہے کہ اس مسئلے کو اب دفن ہوجانا چاہیے۔ بخدا ایک ایک جوان کی زندگی ایسی ہزاروں چراگاہوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ خدانخواستہ دو چار گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی تو ہمیں ادراک ہوجاتا۔ کف افسوس ملتے رہ جاتے مگر بےسود۔ آپ کے مدمقابل کافر نہیں، آپ کے مسلمان بھائی ہیں۔ ایسے معاملات میں جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ لمحوں کی غلطیوں کا خمیازہ انسان صدیوں بھگت لیتا ہے۔ میری دعا ہے رب ذوالجلال سے کہ برسوں پر محیط رنجشوں اور عداوتوں کو محبتوں اور اُلفتوں میں تبدیل کر دے۔ یہ خواہش اور دعا ان شااللہ “ژومال” کے آر پار رہنے والے ہر باسی کے دل میں ہوگی۔بس ذرا سی تحریک کی ضرورت ہے۔اللہﷻ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
54219

کام کے بدلے خوراک کی پالیسی۔ محمد شریف شکیب

افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے فوجی انخلاء اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی برادری نے بھی افغان عوام سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان اور چین نے طالبان حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ پاکستان اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بار بار امریکہ اورعالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ رونما ہونے کا خدشہ ہے اقوام عالم کو فوری طور پر افغانستان کی مدد کرنی چاہئے۔

افغانستان میں انسانی بحران کے اثرات رونما ہونے لگے ہیں کساد بازاری سے دوچار معیشت، بے روزگاری میں اضافے اور غربت کی شرح میں اضافے کے بعد طالبان حکومت نے کام کے بدلے خوراک کی ایک انوکھی اسکیم متعارف کرائی ہے طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ پلان ملک میں انسداد فاقہ کشی میں مدد فراہم کرے گا۔ لوگوں کو کام کے بدلے میں کھانا فراہم کیا جائے گا،افغان حکومت کے ترجمان نے کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے بھوک اور بے روزگاری سے لڑنے کے لیے ایک نیا پلان بنایا ہے۔ اس کے تحت ہزاروں بے روزگار افراد کو کام کے بدلے میں تنخواہ کے طور پر گندم فراہم کی جائے گی۔کام کے بدلے خوراک کا پروگرام افغانستان کے تمام بڑے شہروں اور دیہات میں شروع کیا جائیگا۔

پروگرام سے صرف کابل میں 40 ہزار افراد مستفید ہوں گے۔افغان حکومت کو توقع ہے کہ اس اقدام سے بے روزگاری اور غربت کی شرح کم کرنے مدد مل سکتی ہے۔ حکومت نے کابل کے لیے 11 ہزار 600 ٹن گندم جبکہ جلال آباد، ہرات، قندھار اور مزار شریف کے لیے 55ہزار ٹن گندم مختص کی ہے۔افغانستان اگرچہ زرعی ملک ہے تاہم سوا چار کروڑ کی آبادی کی ضرورت کے مطابق زرعی پیداوار وہاں نہیں ہوتی۔ اس کی 80فیصد درآمدات اشیائے خوردونوش پر مشتمل ہوتی ہیں۔تنخواہ کی مد میں گندم کی فراہمی کا یہ منصوبہ عارضی طور پر قحط سے بچاؤ میں مفید ثابت ہوسکتا ہے مگر یہ غذائی بحران کا مستقل حل نہیں ہے۔ امریکہ نے فوجی انخلاء کا فیصلہ نہایت عجلت میں کیا ہے اس نے انخلاء کے بعد افغانستان کی تعمیر نو، بحالی اور معیشت کو سہارا دینے کا کوئی پلان نہیں دیا۔

افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی شاید اسی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ اپنے حالیہ انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے شرائط کی پروا کیے بغیر کیلنڈر پر مبنی انخلا کا فیصلہ کیا۔ اشرف غنی کی سربراہی میں افغان حکومت نے جاری جنگ کے اثرات کا غلط اندازہ لگایا، اشرف غنی سیاسی تصفیے کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے۔زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اشرف غنی حکومت نے سیاسی تصفیے کی بجائے اسٹیٹس کو کو ترجیح دی۔طالبان حکومت کو بھی عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد سمیت اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔

موجودہ دور کے گلوبل ویلج میں کوئی بھی ملک اپنی ضروریات خود پوری نہیں کرسکتا۔ افغانستان جیسے پسماندہ ملک کو زندگی کے ہر شعبے میں بیرونی امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام عالم کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لئے مروجہ بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد، انسانی حقوق کی ضمانت، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کو جائز حقوق دینے ہوں گے جس کا طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلق قائم کرنا طالبان حکومت کے لئے ناگزیر ہے۔ جن میں پاکستان، چین، ایران اور وسطی ایشیائی اسلامی ریاستیں شامل ہیں۔ طالبان نے افغانستان سے متعلق ایران کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کی وجہ سے کابل اور تہران کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوسکتے ہیں۔ ایسے جذباتی فیصلوں سے اجتناب کرکے ہی قوموں کی برادری میں افغان قوم اپنے لئے جگہ بناسکتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54217

بزمِ درویش ۔ ہم شرمندہ ہیں۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی رحلت بلا شبہ ایک قومی المیہ ہے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ڈاکٹر قدیر خان صاحب پہلے شخص ہیں جن کو عوامی مقبولیت کا وہ مقام ملا جو کسی کو نہ ملا قائداعظم اور اُن کے ساتھیوں کے بعد آنے والے لیڈروں کی یہ خواہش ضرور رہی کہ وہ کوچہ اقتدار پر قبضہ کر نے کے بعد دلوں کے حکمران بھی بن سکیں لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب عوام نے کسی لیڈر کے دلفریب جھوٹے وعدوں کے بعد اُس کو عوامی مقبولیت بخشی تو چند سال بعد ہی ایسے لیڈر کو چہ اقتدار کے ساتھ ساتھ عوام کی نظروں سے بھی گر گئے بہت سارے تو ذلت رسوائی کے گہرے غار میں اسطرح دفن ہوئے کہ آج لوگ ان کے نام تک سے واقف نہیں ہیں ماضی کی طرح موجود ہ حکمرانوں کو بھی شہرت اور عوامی مقبولیت کا بہت زیادہ زعم تھا لیکن صرف تین سال گزرنے کے بعد ہی جب عوام کے سامنے ان کا نام لیا جاتا ہے تو عوامی رد عمل میں جو غیظ و غضب پایا جاتا ہے.

عوام کس طرح گالی گلوچ پر اُتر آتے ہیں اس سے خوب اندازہ ہو تا ہے شہرت مقبولیت کے غبارے سے کتنی جلدی ہوا نکل چکی ہے لیکن جو عوام کی خدمت کرتے ہیں ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتے ہیں ان کی شہرت مقبولیت کا چراغ بجھنے کی بجائے گزرے وقت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روشن ہو تا چلا جاتا ہے اس کانظارہ اہل وطن بلکہ اقوام عالم نے کھلی آنکھوں سے عظیم ڈاکٹر قدیر خان صاحب کے جنازے میں دیکھا جب فیصل مسجد اسلام آباد کی طرف آنے والی سڑکوں پر شریک ہونے والے پروانوں کا سیلاب آیا ہوا تھا پھر تیز آندھی بارش میں عوام نے جس گرم جوشی عقیدت سے شرکت کی یہ ڈاکٹر صاحب کی عوامی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے آپ کے جنازے میں عقیدت و محبت کے لازوال مناظر دیکھنے میں آئے تمام آنے والوں کے تاثرات سے لگ رہا تھا جیسے اُن کا کوئی بہت قریبی چلا گیا ہو لیکن وزیر اعظم صاحب کی عدم شرکت بہت سارے سوالیہ نشان چھوڑ گئی کہ ڈاکٹر صاحب بائیس کروڑ عوام کے دلوں میں تو بستے ہی تھی لیکن اہل سیاست نے اُن کو جو گہر ے زخم دئیے وہ ہماری تاریخ کا درد ناک باب بلکہ المیہ ہے کیا کوئی اپنے قومی ہیرو محسن کے ساتھ ا ِ سطرح کا سلوک کر تا ہے کہ قومی محسن کو اُس کے گھر میں قید کر دیاگیا اُس کے میل جول پر پابندیاں لگا دی گئی.

یہاں تک کہ اُس کی بیٹی اور نواسوں کو بھی اپنے باپ نانا کے ملاقات کے لیے مہینوں انتظار کر نا پڑتاتھا کیا محسن پاکستان اِس طرح کے ناروا سلوک کا مستحق تھا نہیں بلکل نہیں وہ شخص جو یورپ میں کامیاب آرام دہ زندگی گزار رہا ہو جس کے پاس زندگی کی ساری آسائشیں موجود ہوں ایک شاندار پرآسائش زندگی جس کا انتظار کر رہی ہو وہ سانحہ مشرقی پاکستان کا گھاؤ لے کر پاکستان اِس لیے آتا ہے کہ دشمن پاکستان بھارت ایٹمی دھماکے کر کے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے وہ دل میں یہ درد کے کر کہ اللہ تعالیٰ نے اگر مجھے وطن عزیز کو ناقابل تسخیر بنانے کا آرٹ دیا ہے تو کیوں نہ اِس کو پاکستان کے لیے عمل میں لاؤں پھر جوان ڈاکٹر قدیر خان صاحب 1974ء میں پاکستان آکر ارباب اقتدار کو اپنی صلاحیتوں کا بتاتے ہیں کہ میں ایٹمی قوت بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہوں پھر حکومت کے کہنے پر یور پ کا آرام دولت چھوڑ کر پاکستان منتقل ہو جاتے ہیں پھر آٹھ سال کے قلیل عرصے میں بہت تھوڑے وسائل اور مالی مدد کے حکومت کو خوشخبری دیتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے ہم لوگ ایٹم بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن سیاسی حکومت یورپ امریکہ کے خوف سے دھماکہ نہیں کرتی جو آخر کار 1998ء میں ہوتا ہے.

پاکستان 58اسلامی ملکوں میں پہلا ملک تھا جس نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا بھارت کے نامور صحافی کلدیپ نئیر پاکستان آتے ہیں تو ڈاکٹر قدیر صاحب اُس کو بتا دیتے ہیں کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے اگر بھارت نے میلی آنکھ سے دیکھا تو اُس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جائے گا اِسی طرح کرنٹ ڈپلومیسی کے تحت جنرل ضیاالحق نے بھارت جا کر بھارتی وزیر اعظم کے کان میں کہا تھا کہ ہم ایٹمی قوت بن چکے ہیں جو ہم نے نمائش کے لیے نہیں بنایا اگربھارت نے کوئی حماقت کی تو اُس کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا اِس طرح بھارت ہر قسم کی مہم جوئی سے باز آگیا دنیا کو جب پتہ چلا کہ پاکستان جیسا غریب ترقی پذیر ملک جو اپنے ملک میں سوئی قینچی بھی بنانے پر قادر نہیں اُس نے یورینیم کو عمل سے گزار کر دنیا کا بہترین ایٹم بم بنا لیا ہے اب یورپ امریکہ برطانیہ کو اپنی طاقت بقا خطرے میں نظر آنا شروع ہو گئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اردگر د سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا پھر دوبئی سے لیبیا جاتے ہوئے بحری جہاز کو راستے میں پکڑ کر اُس کی تلاشی لے کر یہ الزام لگا یا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایٹمی را زاور طریقہ کار کرنل قذافی کو بھیج رہے تھے.

لیبیا کے علاوہ ڈاکٹر صاحب پر یہ بھی الزام لگا دیا کہ انہوں نے ایران اور کوریا کو بھی ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کر نے میں بنیادی کردار ادا کیا پھر آپ پر الزام لگا یا گیا کہ آپ کے اربوں ڈالر باہر کے ملکوں میں پڑے ہیں برطانوی اور امریکہ خفیہ ایجنسیوں نے مختلف جھوٹ پر مبنی دستاویزات جنرل مشرف کو پاکستان بھیجی کہ یہ ثبوت ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے ہالینڈ سے ایٹمی راز چرائے اب اسلامی ممالک کو یہ ٹیکنالوجی دے رہے ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ہالینڈ کی کورٹ میں بہت عرصہ تک ڈاکٹر صاحب کے خلاف مقدمہ چلا جس میں ڈاکٹر صاحب کو باعزت بری کر دیا گیا جب امریکہ برطانیہ نے مشرف پر دباؤ بڑھایا کہ ڈاکٹر قدیر صاحب کو ان کے حوالے کیا جائے تو آمر وقت مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو بلا کر دھمکی دی کہ آپ اقرار جرم کر لیں نہیں تو آپ کو امریکہ کے حوالے یا پاکستان کی جیل میں قید کر دیاجائے گا.

پھر اہل وطن نے وہ رسوا کن منحوس دن دیکھاجب 4اپریل 2004ء کو ڈاکٹر صاحب محسن پاکستان پاکستان ٹیلی ویژن پر آکر سارے الزام خود پر لے کر معافی مانگتے ہیں کہ ساری غلطی میری ہے اِس اقرار کے بعد ڈاکٹر صاحب کو اُن کے گھر پر قید کر دیا گیا بیٹی اور اُس کے بچوں کو دور کر دیا گیا فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کا پہرہ بیٹھا دیاگیا یہ صلہ تھا جو حکومت نے دوبار نشان پاکستان اور کئی بار صدارتی ایوارڈ یافتہ محسن کو دیا ہم نے اپنے محسن کو رسوا کر کے قید میں ڈال دیا جبکہ بھارت میں ڈاکٹر ابو الاکلام کو صدر ہندوستان بنا کر عزت سے نوازا گیاڈاکٹر صاحب سے جب کسی نے پوچھا آپ کو کوئی پچھتاوا تو آپ انتہائی دکھی لہجے میں بولے کاش پاکستان کی خدمت نہ کر تا یورپ سے واپس نہ آتا مجھے میری حب الوطنی کا صلہ قید اور رسوائی کی صورت میں ملا جبکہ ڈاکو چور حکمران عزت کے تمغے سجائے سر عام پھر رہے ہیں یہ تو حکمرانوں کا ظالمانہ سلوک تھا جبکہ ہم پاکستانی ڈاکٹر صاحب سے بہت شرمندہ اور معافی مانگتے ہیں کہ محسن پاکستان کو وہ مقام نہ دے سکے جس کے وہ مستحق تھے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
54162

چترال کی ترقی کے منصوبے- محمد شریف شکیب


وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے چترال کے لئے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ اپنے دورہ چترال کے دوران وزیراعلیٰ نے 40 ایکڑ اراضی پر محیط چترال اکنامک زون کا تجارتی بنیادوں پر اجراء کیا۔اکنامک زون میں 62 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری اور آٹھ ہزار ملازمتوں کے مواقع متوقع ہیں۔ وزیراعلیٰ نے سنگور پل،دنین بائی پاس روڈ اور ایون کیلاش ویلی پل کا افتتاح کیاجن پر مجموعی طور پر 83کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے ساڑھے 6کروڑ کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ریسکیو سٹیشن اور 9 کروڑ روپے کی لاگت سے ڈگری کالج میں قائم بی ایس بلاک کا افتتاح بھی کیا۔ وزیراعلیٰ نے کلکاٹک چترال روڈ، بروز پل اورکریم آباد روڈ کا بھی افتتاح کیا۔یہ منصوبے 44کروڑ روپے کی لاگت سے اگلے دو سالوں میں مکمل ہوں گے۔

وزیراعلیٰ نے 28 کروڑ روپے کی لاگت کے بیوٹی فکیشن آف لوئر چترال منصوبے کا اجراء بھی کیا۔وزیراعلیٰ نے چترال میں زمینوں کی سٹلمنٹ کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے اور سرکاری ملازمین کا فائر وڈ الاؤنس 45 روپے روزانہ سے بڑھا کر 100 روپے روزانہ کرنے کا اعلان کیا۔جو بلاشبہ صوبائی سرکاری ملازمین کے لئے بڑا ریلیف ہے۔ وزیراعلیٰ نے صحافیوں کیلئے میڈیا کالونی، ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال کی اپ گریڈیشن، ویمن ریسورس سنٹر، دروش میں سٹیڈیم کی تعمیر،دروش بائی پاس روڈاور غوچھارکوہ ایریگیشن چینل کی تعمیر کا بھی اعلان کیا۔جلسہ عام سے اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے بتایا کہ لوئر چترال میں سپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، دروش اور گرم چشمہ میں کالجز کا قیام بھی ترقیاتی پروگرام میں شامل کیاگیاہے۔

چترال یونیورسٹی کیلئے رواں بجٹ میں ایک ارب 28 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔لوئر چترال کی ترقی کیلئے 33 ارب روپے کے منصوبوں پر کام جاری ہے جن کی تکمیل سے ضلع میں ایک مثبت تبدیلی رونما ہو گی۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ چترال بونی مستوج روڈ پر بھی کام جلد شروع کیا جائے گا۔2013کے عام انتخابات میں چترال سے پی ٹی آئی کو کامیابی نہیں ملی۔قومی اسمبلی کی نشست پر آل پاکستان مسلم لیگ اور صوبائی سطح پر اپر اور لوئر چترال سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی نے خواتین کی خصوصی پر فوزیہ بی بی کو کامیاب کروایا۔

2018کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست متحدہ مجلس عمل اور صوبائی اسمبلی کی اکلوتی نشست پر جے یو آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ نامزد امیدواروں کو عام انتخابات میں کامیابی نہ ملنے کے باوجود پی ٹی آئی نے اقلیتوں کی خصوصی نشست پر کیلاش قبیلے سے وزیرزادہ کو ایم پی اے اور بعد ازاں وزیراعلیٰ کا معاون خصوصی بنایا اور سینٹ کی نشست پر چترال کی خاتون ورکر فلک ناز کو ٹکٹ دے کر کامیاب بنایا۔تحریک انصاف کی حکومت نے ہی چترال کے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے اپر چترال کو الگ ضلع بنادیا۔ تاہم ضلع اپرچترال کو انتظامی عملہ کی تعیناتی کے سوا الگ ضلع بننے کے ثمرات ابھی تک نہیں ملے۔

ضلعی ہیڈ کوارٹر کے دفاتر بھی کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں۔سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں بروغل، ریچ، تریچ اور دوسرے دور افتادہ علاقوں تک رسائی کے لئے ہموار سڑک موجود نہیں۔دنیا کے بلندترین قدرتی سٹیڈیم شندور کو جانے والا راستہ بھی نہایت تنگ، پرپیچ اور خستہ حال ہے۔ اپرچترال کے عوام کو توقع تھی کہ وزیراعلیٰ اپنی پہلی ترجیح میں نوزائیدہ ضلع اپرچترال کا دورہ کرکے وہاں کے مسائل سے خودآگاہی حاصل کریں گے اور ان کے حل کے لئے اقدامات کریں گے۔وزیراعلیٰ کی لوئرچترال سے واپسی پر اپرچترال کے عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ توقع ہے کہ وزیراعلیٰ اپنی پہلی فرصت میں گوناگوں مسائل سے دوچار ضلع اپرچترال خود جاکر وہاں عوام کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔

chitraltimes cm mahmood khan speech chitral
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54155

داد بیداد ۔ او دور کے مسافر! ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

جب کوئی قریبی دوست وفات پا تا ہے فلمی گیت کا مصر عہ یا دا آتا ہے ”او دور کے مسافر ہم کو بھی ساتھ لے لے ہم رہ گئے اکیلے“ قریبی دوست افسا نہ نگار، تدوین کار،ا دیب شاعر، مترجم اور ما ہر تعلیم گل مراد خا ن حسرت کی وفات ایسا ہی سانحہ ہے آپ سکول کیڈر کے افیسر تھے مختلف تدریسی اور انتظا می عہدوں پر فرائض انجا م دیے چند سال ضلع دیر با لا کے ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر بھی رہے ایک دقیقہ رس محقق اور ایک معا ملہ فہم دوست تھے خیبر پختونخوا کے تعلیمی حلقوں میں ان کا نا م عزت و احترام کے ساتھ لیا جا تا تھا 75سال کی عمر میں پشاور کے بڑے ہسپتال میں زیر علا ج رہنے کے بعد 25اکتو بر کی سہ پہر کو انتقال کر گئے انہیں اپر چترال کے گاوں پارکو سپ میں واقع ان کے آبا ئی قبر ستان میں سپر د خا ک کیا گیا.

آپ 1946میں علاقے کے مخیر شخصیت مدرس،سیا سی، سما جی و دینی رہنما شکور رفیع کے ہاں پیدا ہوئے سٹیٹ ہا ئی سکول چترال سے میٹرک کا امتحا ن پا س کیا اُس زما نے میں کسی کا بیٹا میٹرک پا س کر تا تو سر کاری افیسر اُس کے گھر جا کر والدین کی منت سما جت کر کے اس کو سر کاری ملا زمت دیتے تھے چنا نچہ اُس وقت کے افیسر تعلیم محمد جناب شاہ (تمغہ خد مت) نے ان کی والد کی رضا مندی حا صل کر کے ان کو ریا ستی سکول میں استاد مقرر کیا اپنی ذا تی قابلیت سے اُس نے ملا زمت کے دوران جے وی، ایس وی اور دیگر کورس بھی کر لیے بی اے کا امتحا ن بھی دیا بی ایڈ کے لئے پشاور یو نیورسٹی کے ادارہ تعلیم و تحقیق میں داخلہ لیکر اعلیٰ نمبروں سے ڈگری حا صل کی اس کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحا ن پا س کر کے ہیڈ ما سٹر کا عہدہ بھی حا صل کیا مشہور ما ہر تعلیم شیر ولی خا ن اسیر آپ کے برادر نسبتی بھی ہیں، شاگرد بھی رہ چکے ہیں اور گہرے دوست بھی ہیں ایک مجلس میں بات چل نکلی تو اہل مجلس کو بتا یا کہ حسرت کی جو انی صبح کے تارے کی طرح روشن اور بے داغ گذری ہے ان کے دامن پر جھوٹ، فریب اور خیا نت کا کوئی داغ نہیں دوستوں کی محفل میں ان کو قرون اولیٰ کے بزر گوں کی نشا نی کہہ کر یا د کیا جا تا تھا.

ہم نے انہیں دفتر میں نظم و ضبط کا پا بند، نجی زند گی میں سنجیدہ گی اور متا نت کے ساتھ خو ش مزا جی اور خوش طبعی کا پیکر پا یا ان کا خا ندان یخشے بارھویں صدی میں چینی تر کستان سے نقل مکا نی کر کے چترال آیا مشہور صو فی شاہ رضا ئے ولی اور سلطنت رئیسہ کے با نی شاہ نا در رئیس بھی اُسی دور میں چترال وارد ہوئے تھے اویغر زبان میں یخشی کا مطلب ہے خو ب، اعلیٰ اور اچھا اس حوالے سے ان کا قبیلہ آج بھی یخشے کہلا تا ہے گل مراد خا ن حسرت نے کھوار زبان میں شا عری بھی کی افسا نے بھی لکھے ان کے افسا نوں کا مجمو عہ ”چیلیکیو چھا ع“ بید کی ٹہنیوں کا سایہ 2019میں شائع ہوا.

آپ نے انجمن ترقی کھوار کے پلیٹ فارم سے منعقد ہو نے والے تین سیمینار وں کی رودادوں کو الگ الگ جلدوں میں مرتب کر کے شائع کیا دو بین لاقوامی کا نفرنسوں میں چترال کی ثقا فت پر تحقیقی مقا لے پیش کئے کانفرنس کی رودادیں اکسفورڈ یو نیور سٹی پر یس نے شا ئع کی آخری تحقیقی مقا لہ آپ نے سہ ما ہی ادبیات کے ڈائمنڈ جو بلی نمبر کے لئے کھوار افسا نہ کے ارتقا پر لکھا ہے جو زیر طبع ہے داغستا نی شاعر اور مصنف رسول حمزہ کی سوا نح عمری میرا داغستان کا تر جمہ کھوار میں کر رہے تھے کتاب میں ان کی دلچسپی کی وجہ سے یہ تھی کہ داغستان اور چترال کی ثقا فتوں اور لغتوں میں حیرت انگیز مما ثلت پا ئی جا تی ہے گل مرادخا ن حسرت کی وفات حسرت آیات سے خیبر پختونخوا کا صوبہ ایک علمی اور ادبی شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔

انتقال پرملال

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54107

طالبان کیلئے قیام امن ترجیح اول ۔ محمد شریف شکیب

افغانستان میں ایک ہفتے کے دوران مساجد میں دوخود کش دھماکوں کے نتیجے میں 96افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ گذشتہ جمعہ کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز میں نماز جمعہ کے دوران مسجد میں خود کش دھماکہ ہوا تھا جس میں پچپن نمازی شہید اور ستر سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ابھی قندوز دھماکے کے زخم تازہ تھے کہ اگلے جمعہ کے روز قندہار کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکہ ہوا۔جس میں چالیس سے زائد افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔کالعدم شدت پسند تنظیم داعش نے دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

پچھلے دنوں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بیان آیاتھا کہ داعش سے نمٹنا طالبان کے لئے مشکل نہیں، اس کے کارندے افغان شہری ہیں باہر سے کوئی اس تنظیم میں شامل نہیں، ملک بھر میں داعش کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیاگیا ہے اور جلد ہی ان کا مکمل صفایاکیاجائے گا۔15اگست کو جب سے طالبان نے کابل میں عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ اس وقت سے اب تک افغانستان میں داعش نے چار مرتبہ بڑا حملہ کیا ہے۔ 3 اکتوبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد کے باہر دھماکے کے نتیجے میں جانی نقصانات ہوئے تھے۔طالبان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ دہشت گردوں کا تعاقب کررہی ہے اور ہماری افواج داعش کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں داعش کے کئی کارکنوں کو گرفتار کیاگیا اور ان کے کئی محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کر دیاگیا ہے جبکہ ان کے کئی حملوں کو بے اثر کر دیا ہے۔

افغانستان میں پے در پے خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے طالبان حکومت کے لئے نہ صرف داخلی سلامتی کی صورتحال گھمبیر ہوگئی ہے بلکہ کابل حکومت پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ قندوز اور قندہار میں ہونے والے دونوں دھماکے اہل تشیع کی مساجد میں ہوئے ہیں۔ طالبان حکومت نے عالمی برادری سے خواتین اور مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دی ہے۔امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے طالبان پر اپنے وعدے پورے کرنے کا مسلسل تقاضا کیاجارہا ہے۔ افغانستان میں بدامنی پیدا کرنے اور طالبان حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں جن قوتوں کے مفادات پوشیدہ ہیں ان دھماکوں کے پیچھے انہی قوتوں کا ہاتھ ہوسکتاہے۔کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو ہوئی ہے۔ بھارت نے وہاں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے نام پر پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔

کابل میں سفارت خانے کے علاوہ افغانستان کے آٹھ شہروں میں اپنے قونصل خانے قائم کئے تھے جہاں مبینہ طور پر شدت پسندوں کو تربیت اور مالی امداد فراہم کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کیاجارہا تھا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے بھارت کا سارا کھیل تلپٹ ہوگیا۔مودی حکومت کو افغان پالیسی کی وجہ سے اندرون ملک شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ بالواسطہ دیگر شدت پسند تنظیموں کے ذریعے افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ اور نیٹو بھی افغانستان میں اپنی فوجی شکست کی خفت مٹانے اور طالبان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بھی اس گھناونا کھیل میں ملوث ہوسکتے ہیں۔افغانستان میں امن کا قیام نہ صرف طالبان حکومت بلکہ پورے خطے کے لئے ناگزیر ہے۔ اس لئے طالبان حکومت کو شدت پسندی پر قابو پانے اور پائیدار امن کے قیام پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔ ہزارہ برادری نے طالبان کے ساتھ مفاہمت کے لئے سب سے پہلے ہاتھ بڑھایاتھا۔ پے در پے حملوں کے بعد ان میں مایوسی اور بددلی پھیلنا قدرتی امر ہے۔ ملک سے شدت پسندی ختم کرنے کے لئے موثر قانون سازی، سزاؤں پر عمل درآمد کے ساتھ طالبان کے پاس اپنے ہمدرد ممالک پاکستان، ترکی اور چین سے تیکنیکی مدد حاصل کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54101

بنیادی انسانی حقوق – تحریر:صوفی محمد اسلم

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ لگانے کیلئے پاسداری انسانی بنیادی حقوق بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی معاشرہ/ملک کو ترق ی یافتہ اور مہذب نہیں کہا جاسکتا جہاں انسانی بنیادی حقوق کا خیال نہ رکھا جاتا ہو۔  بنیادی انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو ہمارے پاس صرف اس لیے ہیں کہ ہم بطور انسان دنیا میں موجود ہیں۔ وہ کسی ریاست اور حکومت کی طرف سے نہیں دیے گئے ہیں بالکہ یہ آفاقی ہیں جو ہم سب کے لیے موروثی ہیں ، قومیت ، جنس، نسل ، رنگ ، مذہب ، زبان ، یا کسی اور حیثیت سے بلاتر ہیں۔ انسان کے پیدائیش سے لیکر موت تک جو بنیادی حقوق ہیں، ہر شخض ان حقوق کا حقدار ہے، چاہیے وہ جس ملک، شہر اور قوم سے رکھتا ہو۔ ایک معربی فلسفی کہتا ہے حقوق معاشرتی ذندگی کے نہایت ضروری لوازمات ہیں جن کے بغیر کوئ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاسکتا۔ایک اور مفکر کہتا ہے کہ ایک متوازن زندگی کی قیام اور انسان کی تکمیل کیلئے انسانی بنیادی حقوق ضروری لوازمات کا درجہ رکھتا ہے۔بنیادی انسانی حقوق کو کسی شخض تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے کا کسی کو بھی حق حاصل نہیں۔

جہاں باضابطہ انسانی حقوق کے نظریہ کی بات کی جائے تو اس کے متعلق  اختلاف رائے پایا جاتےہیں جیسے کوئ کہتا ہے کہ ان حقوق کا باضابطہ اغاز یونان سے ہوا ہے۔ کوئ اقوام متحدہ کےمنشور انسانی حقوق کے منظوری کے تاریخ کو اس نظریہ کا بنیادسمجھتے ہیں اور کوئی اسلامی تعلیمات میں بھی انسانی حقوق کی ادائیگی سے متعلق مفصل احکامات کو  بنیادی ابتدائی نطریہ سمجھتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ  انسان دنیا میں تشریف لایا اور یہاں معاشرہ تشکیل پائ۔ جہاں وہ اپنی ضروریات ،حقوق اور زمہ داریوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے ۔ ارتقاء انسانی حقوق کو ثابت کرنے کے لئے تحریری منشور کی ضروت نہیں بلکہ  انسان کے روایات،  رسم رواج، اور ثقافت بیان کرتے ہیں کہ انسان کی ابتدائ تاریخ  سے ہی یہ بنیادی حقوق اسے حاصل ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ماضی میں اکثر یہ حقوق کسی نہ کسی صورت میں پامال ہوتے رہے ہیں۔ جیسے مشہور فلسفی جین جیکس روسو کہتا ہے کہ انسان ازاد پیدا ہوا ہے مگر اج کل وہ ہرجگہ زنجیروں میں جگڑا ہوا ہے۔سیموئل موئن کہتا ہے کہ انسانی حقوق کا تصور شہریت کے جدید احساس کے ساتھ جڑا ہوا ہے ، جو پچھلے چند سو سالوں تک سامنے نہیں آیا۔ بہر حال قبل ازدور جدید  میں اس سے متعلقہ مثالیں موجود ہیں  البتہ قدیم لوگوں کے پاس آفاقی انسانی حقوق کا جدید دور کی طرح کا تصور نہیں تھا۔

اسلام حقوق العباد کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ تعمیل حقوق العباد کے سلسلے میں ایک وسیع نظام متعارف کرایا گیا جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے اپس کے معاملات سے لیکر غیر مسلم کے بھی حقوق واضح کیے گئے ۔ رشتہ داروں، ہمسائوں، یتیموں، بیوائوں یہاں تک کہ جنگی قیدیوں کے بھی بنیادی حقوق کی پاسدار اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے

خطبہ حجۃ الوداع میں بھی حقوق العباد کے مفصل ہدایات و احکام موجود ہیں۔ اسلام حقوق العباد کی ادائیگی پر اتنا زور دیتا ہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی کیلئے حقوق العباد کو لازمی شرط قرار دیا گیا۔ دورجدید کی بات کی جائے تواقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 10دسمبر 1948کو انسانی حقوق کا منشور منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہر انسان کی حرمت، مساوات اور ازادی کو تسلیم کرنا انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔ یہ پہلا تحریری عالمی منشور تھا جس کو پوری دنیا میں لاگو کیا گیا۔ منشور میں زندگی، ازادی، مساوات، یکساں قانوں، حرمت، تعلیم، ازادی رائے شامل ہیں۔کسی کو ازیت دینا، ظلم کرنا، غیر انسانی سلوک کرنا، قیدبیجاکرنا اور جلاوطن کرنے کو سختی سے منع کیا گیا۔ ریاست کو انسانی حقوق کی تحفظ کا زمہ داری دیا گیا۔

پاکستان نیشنل اسمبلی 1973کو اسلامی قوانیں اور اقوام متحدہ چارٹر کو سامنے رکھتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق مرتب کرکے پوری پاکستان میں  لاگو کیا گیا۔ آئین پاکستان کے ارٹیکل 8 سے ارٹیکل 28 انسانی حقوق پر بحث کرتی ہے۔ ارٹیکل 8 کہتا ہے کہ ایسا کوئ قانوں نہیں بنایا جائے گا جو انسانی حقوق کے منافی ہو۔ہر شہری کی جان مال کی حفاظت ریاست کی زمہ داری ہے۔ارٹیکل 9 اس بات کا ضمانت دیتا ہے کہ کہ سوائے جہاں  قانون اس کا متقاضی ہو کسی بھی شخض کو اس کے حق زندگی یا ازادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ارٹیکل 10 میں درج ہے کہ ملزم کو ضروری تحفظ دیاجائے گا۔ ارٹیکل 11غلامی، بے گار کی تمام صورتیں ،انسانی خرید فروخت ممنوع ہے۔ 14سال سے کم عمر سے ملازمت یا مزدوری کروانا منع ہے۔ ارٹیکل 14 گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی۔ ارٹیکل 15 ہر شہری کو ملک میں نقل حرکت اور ملک کے کسی بھی حصے میں اباد ہونے کا حق حاصل ہے۔ارٹیکل 18 جائز تجارت، کاروبار کی ازادی ہوگی۔ارٹیکل 20 مذہب کی پیروی کی ازادی حاصل ہے۔ارٹیکل 24 کسی کو جائیداد سے محروم کرنے کی اجازت نہیں۔ارٹیکل 25 سب قانوں کی نظر میں برابر ہیں۔ سب کو یکسان تعلیم فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے۔ ارٹیکل 27 ملازمتوں میں امتیاز کے خلاف تحفظ۔ ارٹیکل 28 ہر شہری کو اپنے رسم رواج،  زبان اور ثقافت کو برقرار رکھنے کی اجازت ہے۔

ان حقوق کو روح تصور کیجاتی ہے ان کا تعلق ہم سب سے ہیں نہ کہ صرف ان سے جس پر ظلم و زیادتی ہورہی ہو۔ قوانین اور انسانی بنیادی حقوق کے پاسداری کے بنا کوئ قانوں قابل تعمیل تصور نہیں کی جاسکتی ہےیہی حقوق زندگی میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے بحثیت  انسان اور بحیثیت مہذب شہری ہمیں چاہیے کہ اپنے بنیادی حقوق کو پہچانے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ریاست میں تین ادارے ہوتے ہیں جو ان حقوق کی ادائیگی میں دخل اندازی سے روکتا ہے وہ ہیں قانوں ساز اسمبلیاں،  عدلیہ اور انتظامیہ۔ بوقت ضرورت ان اداروں سے مدد طلب کرے  ۔آئین نافز الوقت کی پاسداری  ہی مستحکم  اور پر امن ملک /معاشرہ کی ضامن ہے۔

وماعلینا الاالبلاغ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54091

نوائے سُرود – حیات جاویدانی – شہزادی کوثر

اعمال وافعال کے گرد زندگی کا محور بنایا گیا ہے ،ہر فرد وقت مقررہ پر اپنے اعمال سے عہدہ برآ ہو کر آگے کی منزل کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ اور کوئی دوسرا اس کی جگہ سنبھالتا ہے ۔کاروبار زندگی کا یہ دستور ازل سے ابد کے درمیان ایک سلسلہ لا متناہی بن کر رائج ہے ۔کسی کی مجال نہی کہ اس سے روگردانی کرے یا اسے توڑنے کی کوشش کرے ۔کسی کے ہونے سے پہلے اور نہ ہونے کے  بعد بھی اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا کیونکہ اس نظام کو کسی کی موجودگی یا عدم دستیابی کی ضرورت نہیں پڑتی،ہر قسم کے لوگ اس کا حصہ بنتے ہیں، لیکن اپنا نقش وہی لوگ دھرتی کے سینے پہ ثبت کر جاتے ہیں جو کچھ خاص صفات کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں یا جو اپنی اچھی صحبت اور بہترین تربیت کے بل بو تے پر لوگوں کی زندگیوں پر اپنے دیرپا اثرات چھوڑ جاتے ہیں ۔ایسے بہت سے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے کردار کی عظمت کے باعث حیات جاوید حاصل کر پاتے ہیں انسانیت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنانے والے اور اپنے ملک کے لوگوں کی بھلائی کے لئے اپنی ذات کو فراموش کرنے والے ہمارے ارد گرد موجود ہیں،جو کبھی تو یتیموں اور مسکینوں کی چھت بن جاتے ہیں اور کبھی ظلم کے خلا ف ڈھال۔ کبھی زمانے کے بے رحم پنجوں سے ابن آدم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور کبھی دنیا کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بنتے ہیں ۔ایسی عظیم ہستیوں کی موجودگی ہی ہمارے بکھرتے معاشرے کی شیرازہ بندی کےلئے انتہائی ضروری ہے۔نوع انسانی کی خدمت کا یہ جذبہ ان میں کہاں سے آیا                                                                                                    

 یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی                         

ہستی کی اس کہانی میں ایسے مثبت کردار نبہانے والے اللہ کی رحمت کا عکس ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی دنیا میں کمی نہیں جو نہ تین میں نہ تیرہ میں ،،، خاموشی اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے والے یہ افراد خانہ پوری کا فریضہ انجام دیتے محسوس ہوتے ہیں ۔سفر زیست میں کچھ ایسے معصوم بھی ہیں جنہیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا نظام ان کی زندگی سے مشروط ہے اگر انہیں کچھ ہو گیا تو دھری سانس لینا بھول جائے گی دریاوں کا شور سناٹے میں بدل جائے گا اور آسمانوں کی دھڑکنیں بند ہو جاہیں گی، حقیقت میں کچھ بھی نہیں رکتا                                              

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں                                    

نظام کائنات کو چلانے والے عوامل اسی طرح موجود ہیں ،ایک فرد کی حیثیت اس کے سامنے پرکاہ جتنی بھی نہیں ۔اس وسیع کائنات میں انسان اشرف ہے لیکن اسکا موجود ہونا یا نہ ہونا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ،گویا نہ ہونے کے برابر حیثیت لے کر انسان دنیا میں آتا ہے اور مقرر شدہ لمحے گزار  کر روانہ ہوجاتا ہے ۔ ایک فرد پودا لگاتا ہے لیکن اس کا فائدہ کسی دوسرے کو ہو تا ہے ،یہی دستور ہے زمانے کی گردش کا ،کہ یہ کسی کے لیے نہیں رکتا  کسی کی پروا نہیں کرتا ۔کوئی ساتھ چلے تو ٹھیک ،نہ چل پائے تو یہ گردش اسے مشت خاک بنا دیتی ہے اسی گردش ارض وسما میں حیات جاویدانی انہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے ،جن کی زندگی کا کوئی خاص مقصد ہوتا ہے،جو ایک نصب العین کے تحت اپنے شب و روز گزارتے ہیں، ۔ اس فہرست میں وہ لوگ سب سے نمایاں ہیں جو مذہب ،انسانیت اور ملک وقوم کی خاطراپنا سب کچھ قربان کرنے کی جرات رکھتے ہیں ۔  ۔۔      

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
54085

عصبیت کا مرض ایک ناسور – تحریر:اشتیاق احمد


عصبیت کے معنی طرفداری،تعصب سے کام لینے،دھڑے بندی اور دلیل ظاہر ہونے کے بعد حق بات کو نہ ماننے کا نام ہے۔تعصب کی کئی ایک شاخیں ہیں جس میں حسبی ونسبی، قبیلہ پرستی وذات برادری کی عصبیت،لسانی و وطنی عصبیت،ملکی و قومی عصبیت،علاقائی،مالداری وکثرت اولاد کی وجہ سے تفاخر وتعاظم اور غیروں کو حقیر و ذلیل سمجھنے کا جذبہ ان ہی تمام عوارض قبیحہ کی وجہ سے موجزن ہوتا ہے اور ان تمام تر خرابیوں اور بیماریوں میں سب سے زیادہ قبیح میری نظر میں حسبی و نسبی تعصب ہے،اس کے بعد قبیلہ پرستی و ذات پرستی کا تعصب ہے۔


اتحاد،اتفاق اور یگانگت ایسی چیزیں ہیں جس کے محمود و مطلوب ہونے پر دنیا کے تمام بنی نوع انسان خواہ کسی زمانے، مذہب و مشرب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا اس بات پر اتفاق ہے اس میں دو رائے ہونے کا امکان نہیں۔اس سے معاشرے سے الفت و محبت ارتقاء پذیر ہوتی ہے،معاشرے مثالی بنتے ہیں،قومیں ترقی کے منازل طے کرتی ہیں اور باہمی اخوت و بھائی چارگی کے فروغ کو تو ہمارے آقائے نامدار صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔


انتشار،نفرت انگیزی،تکبروغرور،انانیت، قومیت،تفرقہ بازی،مسلکیت ایسی بیماریاں ہیں جس سے معاشرہ ایسے بکھر جاتے ہیں جس طرح ٹوٹے ہوئے دھاگے سے موتی، قوموں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمان ایک قوم، یک جان دوقالب(کہ جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو دوسرا حصہ اس درد کو محسوس کرے) بن کے کھڑے رہے دنیا میں مسلمانوں کی حکمرانی رہی ہے اور جب سے یہ بیماریاں مسلمانوں کے اندر آئی ہیں تب سے ہمارا شیرازہ بکھرتا نظر آرہا ہے اور پھر اس ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لئے بہت جتن کرنے اور پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کچھ محرکات اور قوتیں ایسی بھی مل جاتے ہیں جو ان چیزوں کو مزید تقویت دے کر کبھی ایک نہیں ہونے دیتے۔جب یہ بیماریاں کسی قوم میں پیدا ہو جائیں تو سب کچھ کرنے پر انسان کو آمادہ اور مائل کرتے ہیں۔رشتہ دار،عزیز واقارب،گھر،خاندان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آباد بستیاں اور گھر آجڑ جاتے ہیں،ان کے درمیان نفرت،دشمنی جنم لینے لگتی ہے۔اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں معاشرے کا جائزہ لیں تو جس چیز سے ہمارا معاشرہ روبہ زوال اور اپنا منفرد تشخص کھو رہا ہے وہ عصبیت ہے۔


تعصب اور عصبیت پسندی سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے، اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنے سے اس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور یہی عصبیت آج ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے میں اپنا کرداد ادا کر رہی ہے اور ہم خواب خرگوش کے مزے لے کر اس سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں۔اسی عصبیت نے اسلامی اخوت و بھائی چارگی کو تہہ و بالا کرلے رکھ دیا ہے۔عصبیت پسندی کی وجہ سے آج ہم نے اس عظیم نعرے کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے اور اس تعلیم کو بھی بھول چکے ہیں جس میں آقائے نامدار اور رحمة اللعالمین نے ارشاد فرمایا ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اس کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے؛۔


اسلام ایک ایسا جامع و مکمل،یکتا و منفرد دین ہے جس نے اپنے تابع ہونے والوں کی مکمل راہنمائی کی ہے،پیدائش سے لے کر موت تک قدم قدم پر بہترین راہنما اصول بتلائے ہیں،اسی نسبت دے اسلام عصبیت کے متعلق ایسے واضح اور قیمتی اصول بیان فرمائے کہ جن سے تعصب اور عصبیت پسندی کی دیوارِیں ہل گئیں،ان کا وجود لرزہ براندام ہے،اسلام نے حیوانیت،درندگی،ظلم۔واستبداد،جبر و مشقت،تعصب و عصبیت سے نکال کر ایسا صالح اور مثالی معاشرہ،جینے کا منظم نظام عطا کیا جن کی بدولت ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں،لیکن ہم نے ان تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ان سے روگردانی،احکامات کی۔نافرمانی اور اسوہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بغاوت کرکے دنیا میں نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔دوسری طرف اللّٰہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے بنایا اور۔مختلف قومیتوں اور خاندان بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اور پرہیزگاری اور برتری کے معیار کو صرف تقویٰ پر محمول کیا گیا۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے باہمی رویوں اور سوچ میں اس بیماری کی بیخ کنی کی ضرورت ہے اور بھائی چارگی اور اتفاق و اتحاد کو ایسے فروغ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم یک جان اور دو قالب کے مانند سوچنا شروع کر دیں تاکہ پھر سے اپنے درخشان کل کو آج میں بدل سکیں اور تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دہرائے اور ہم ایک بار پھر چمکتے ستارے کی مانند ابھرتے ہوئے نظر آئیں اور دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہوں کہ ہم۔مختلف قومیتوں اور نظریات ست تعلق ضرور رکھتے ہیں لیکن ہمارے اندر کی دھڑکننیں اور بھائی چارگی اور ہمارے بقائے کا راز ہی ایک بن کے رہنیکے راز میں ہی مضمر ہے اور خاکم بداہن ایسا نہ۔ہو”” تو ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں؛؛۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54083

پیالی میں طوفان یا سونامی ؟ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے


یوں تو خون کے چھینٹے اور آتش ِ فتنہ کی چنگاریاں فرشتوں کی نگاہوں نے خمیر آدم ہی میں بھانپ لیں تھیں، لیکن محشرستان کے حواری شاید خون ریزی اور فساد انگیزی کا ایسا منظر شعلہ بار دیکھنا چاہتے ہیں جو چشم ِ فلک نے، اس کی نظیر اس سے پیشتر کبھی نہ دیکھی ہو، اس حقیقت ِ ہوش ربا کے سامنے تھیوکریسی کی چالاک داستانیں فسانہ بن گئی ہیں، ایک ایک فیصلے میں لاکھوں انسانوں کی دسترس سے امن کے حصول کو ناممکن بنانا اور شدت پسندی سے بستیوں کی بستیاں فروعی مفادات کے خواہش مندوں کے ہاتھوں،   آگ بجھانے کے بجائے نذرِ آتش ہوجانا تو آبادیوں کی آبادیاں ہجرات کے ہاتھوں کھنڈرات کی تمثیل کا منظر پیش کر چکی ہیں۔
 نہ زمین پر امن نہ پانی میں اماں، نہ ہوا میں پناہ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بے امنی کے سپہ سالاروں نے اپنے عفریتی لشکرو ں کے ہجوم کے ہجوم، پہاڑوں کے غاروں اور سمندروں کے تہوں سے آزاد کرکے بے لگا م چھوڑ دئیے کہ وہ بے گناہ عوام پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح چھپٹ پڑیں اور بوڑھے، بچے،عورتیں، بیمار، ضعیف کسی کی تمیز روا  نہ  رکھتے ہوئے جو سامنے آئے اُسیمخصوص مفادات کی آگ میں بھون کر چباتے چلے جائیں، یہ تو ان کا حال ہے جو اس حلقہ بے امن کے اندر ہیں لیکن جو باہر ہیں وہ بھی سکون کی نیند نہیں سو سکتے۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ سہما ہوا ہے کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے، ملک بھر میں ایک وحشت اور بے یقین صورت حال کی کیفیت طاری، سراسمیگی چھائی  اورپریشانی پھیلی ہوئی ہے۔ ناتواں و غریب عوام ایک گوشے میں کھڑے کانپ رہے ہیں،”نیکی“ ایک گونے میں دبکی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا اُبالی جارہی ہو، اور کوئی کہہ نہیں سکتا کہ جب یہ اُبال بیٹھے گا تو دنیا کیا سے کیا ہوچکی ہوگی، سیاسی افراتفری، اور  نام نہاد عظیم تر مفادات کی اس وحشت ناک لڑائی کا انجام نہ جانے کیا ہو گا۔


ایسی وحشت و سراسمیگی میں کس دماغ کو فرصت مل سکتی ہے کہ وہ کچھ سوچے، غور کرے، لیکن اگر آپ کو کوئی لمحہ فرصت کا مل سکے تو ذرا سوچئے تو سہی یہ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟۔ مہنگائی کے ستائے عوام تو مستقبل کے لئے توانا نسل بھی تیار نہیں کرپا رہے اور نوجوان نسل علم اور تہذیب کی روشنی سے محروم در محروم ہوتے جا رہے ہیں، اشرافیہ کے بھرے خزانوں کی معراج کمال پر ہے لیکن یہ ضرور جان رکھیں کہ احساس محرومی کے شکار یہ عوام جب کسی انتشار پر آئے تو پھر ان سے تہذیب و تمدن کا اجارہ دار کچھ بھی کہے، وہ وقت کا ضیائع ہوگا، پھر ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ انسانیت کو جھاڑ کر الگ کرکے رکھ دیں۔
 آج دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان اسی فکر میں غرق بیٹھے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ایجاد کریں، جس سے کم ازکم وقت میں زیادہ زیادہ سے انسان تباہ ہوجائیں، کیا انسان کو علم و ہنر کی نعمت سے اسی لئے نوازا گیا تھا کہ وہ اس سے درندوں کے تیز ناخنوں کا کام لے، پھر سوچئے توسہی اس قدر عقل و شعور رکھتے ہوئے ساری دنیا کو دانش وانش کا سبق دینے والوں کے سر پر جنگ کا جنون کیوں سوار رہتا ہے، آپ اس پر جس قدر غور کرلیں، ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ آج کے مادہ پرستی کے ماحول سے متاثر انسان جب حق کی بات کو سنتا ہے تو ہنس دیتا ہے، لیکن خود مادہ پرستی ہی اب اس کے منہ پر وہ تھپڑ لگا رہی ہے کہ اس کے بعد اس کا ہوش میں آنا ضروری ہے، دنیا کو خدا فراموشی اور احساس سے محرومی کی سزا  کا انتظار کیوں ہے۔


کسی کو نہیں معلوم نت نئے نقلاب کے مزید کتنے بھیانک نتائج بھگتنے ہوں گے، کسی کو غم ِ روزگار سے فرصت نہیں کہ معاملات پَرسکون قلب سے غورکرے، حالاں کہ پوری دنیا کے لئے وقت اب آچکاہے کہ پورے سکون و تحمل سے سوچیں کہ اس قسم کی تبدیلی کے انقلاب،جس میں غریب مزید غریب تر اور دولت مندوں کے خزانوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جھوٹے نعروں اور وعدوں کی کوکھلی ترقی کا انجام بالاآخر کیا ہوگا۔ حالات بڑے نازک اور وقت بھی کم ہیں،لیکن یقین پھر بھی ہے کہ اگر ان حالات پر سنجیدگی سے غور کرلیا جائے تو چہ عجب کہ یہی خطہ انسانیت کی خدمت کے عہد کو پورا کرنے کا اہل ہوسکے۔عوام  کو اس بڑے بحرانی سمندر میں ہاتھ پیر باندھ کر پھینکنے کے بجائے فطرت کے اس قانون کو آواز نہ دی جائے کہ مہلت کا وقفہ بھی نہ مل سکے۔


آج کمزور معیشت و بے امنی کے اسباب اور اٹھنے والی آوازوں کو کسی بھی طور دبایا جاسکتا ہے اور اس کی تائید میں آوازیں بھی خریدیں جاسکتی ہیں لیکن آنے والا مورخ جب آج کے حالات کا جائزہ لے گا تو دیکھے گا کہ ایسے وقت میں جب قوموں کی قسمتوں کے فیصلے ہو رہے تھے خود عوام نے اپنے ساتھ کیا کیا، جس کی تقویت میں اس قوم کی زندگی کا راز پوشیدہ تھا، تو اس وقت حق کی آواز کو کوئی دبا نہ سکے گا، سوچئے کہ آپ کو کس صف میں کھڑا ہونا ہے، ذرا نہیں پورا سوچئے کہ عوام کے محنت سے نچوڑنے جانے والے خون پسینے کی کمائی کہاں خرچ ہو تی رہی اور ہورہی ہے۔مخصوص عناصر اپنا گورگھ دھندے کس چھتری تلے بیٹھے بے خوفی سے چلا رہے ہیں، عوام کو صوبائیت، لسانیت، مسالکی اور فرقہ واریت کے ہتھیار تھما کر آزادی دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی چھری سے اپنا ہی گلا کاٹ سکتے ہیں۔ حکومت وقت کے ہر قانون مروجہ کی اطاعت بطور فریضہ عائد ہوجاتی ہے لیکن کچھ فرائض ریاست کے بھی ہوتے ہیں۔


 پیالی میں طوفان برپا  ہوچکا، عوام اور حکمرانوں کے درمیان خاردار تاروں کی باڑجگہ لے چکی ۔بادی ئ النظر ایسا لگتا ہے کہ کسی جماعت کا فریضہ یہ بن چکا ہے کہ چاہے کسی بھی جماعت یا لاچار عوام کے جذبات کو ٹھیس لگے، یہ نہ کہیں کہ امن عامہ میں خلل واقع ہوا ہے، سانس لینے پر پابندی ہی باقی رہ گئی ہے لیکن یہ کہاں کا اصول جہانداری ہے کہ حکومت بیسیوں مرتبہ ایسے فیصلے کرتی ہو جن کی غلطیاں خود ان کے سامنے آجاتی ہوں اور انہیں آئے دن ان فیصلوں کی ترمیمات جاری کرنی پڑے،اگر اس فیصلہ کو ویسا ہی سمجھ لیا جائے تو بات کبھی نہ بڑھے، لیکن ضد کا کیا علاج۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54065

پراناچورن باسی اور بدبودار ہوچکا۔ محمد شریف شکیب

حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز پر مختلف برانڈز کے گھی کی قیمتوں میں 40سے 1090روپے تک کا اضافہ کردیا ہے۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ نئی قیمتوں کا اطلاق فوری طور پر ہوگیا ہے۔10لیٹر کوکنگ آئل کا کین 2500 روپے بڑھ کر 3590روپے کا ہوگیا۔دوسری جانب حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں مزید 1روپے 39پیسے فی یونٹ کا اضافہ کردیاہے۔ وفاقی کابینہ نے بجلی مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔ وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ نواز شریف حکومت نے 45فیصد مہنگے بجلی گھر لگا کر قومی جرم کیا،ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے 2030تک پاکستان کو 3ہزار ارب روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں،

شریف خاندان ایسے منصوبوں کے ذریعے عوام کے گلے میں پھندا لگا کر گیا اور ہم آج اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال گذر گئے حکومت کے پاس اب ڈیڑھ سال کی آئینی مدت باقی رہ گئی ہے۔ ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں حکومت نے سیاحت، ماحولیات، مواصلات اور دیگر شعبوں میں کافی کام کئے۔حکومت کو بہت سے چیلنجوں کا بھی سامنا رہا۔جن میں سب سے بڑا چیلنج کورونا کی عالمی وباء کا تھا۔جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، کاروبار سمیت زندگی کے تمام شعبے بری طرح متاثر ہوئے۔حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کے برعکس لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوگئے۔ پچاس لاکھ گھر بناکردینے کا منصوبہ بھی خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس عرصے میں مہنگائی کی شرح میں تقریباً دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عام آدمی کے لئے دو وقت پیٹ بھر کر کھانا محال ہوچکا ہے۔

پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں صرف پندرہ بیس لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان میں سیاست دان، صنعت کار، کارخانے دار، بڑے تاجر، برآمدکنندگان، اعلیٰ سرکاری افسران، ذخیرہ اندوز، ناجائز منافع خور، مافیا گروپس اور جرائم پیشہ عناصر شامل ہیں، تنخواہ دار طبقہ، دیہاڑی دار مزدور اور غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذارنے والوں کی تعداد مجموعی آبادی کا 95فیصد ہے گویا بائیس کروڑ کی آبادی میں سے اکیس کروڑ اسی لاکھ افراد مہنگائی کی وجہ سے نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں۔ اور یہی وہ طبقہ ہے جو انتخابات میں کنگ میکر کا کردار ادا کرتا ہے۔ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک کمزور اور مقبول قیادت سے محروم اپوزیشن ملی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کا ڈیلیور نہ کرنا افسوس ناک ہے۔ تین سال تک موجودہ حکومت تمام خرابیوں کی ذمہ داری سابقہ حکمرانوں پر ڈالتی رہی اور عوام کو بھی حکمرانوں کی باتوں کا کسی حد تک یقین آتا رہا۔ مگر اب یہ چورن بکنے والا نہیں ہے۔

حکومت کو ٹھوس کارکردگی پرمبنی نیا چورن لانا ہوگا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار میں آنے والی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو جس قدر سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے مقابلے میں موجودہ حکومت کودرپیش مسائل برائے نام ہیں۔ پانچ سالوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک شکست خوردہ قوم سے ناقابل تسخیر جوہری قوت بنادیا۔ عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔ تیسری دنیا کے نام سے ترقی پذیر ممالک کا ایک بلاک بنایا۔ چین کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ترقی کی نئی راہیں تلاش کیں۔ سوویت یونین کے ساتھ دوستی کرکے سٹیل مل کا تحفہ حاصل کیا۔ ملک کو پہلی بار متفقہ آئین دیا۔ بھٹو کی پارٹی اپنے قائد کے کارناموں کی بدولت آج بھی سانسیں لے رہی ہے۔عمران خان کو بھی بھٹو کے نقش قدم پر چلنا ہوگا عوام کو ریلیف پہنچانے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔بجلی، گیس، تیل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانی ہوگی۔اور یہ کام نہ صرف ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لئے ناگزیر ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی بقاء کا انحصار بھی موجودہ حکومت کی اگلے ڈیڑھ سالوں کی کارکردگی پر ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
54031

صرف اعلانات نہیں، عمل درآمد کرائیں – محمد شریف شکیب


خبر آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے اشیائے خوردونوش پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔یہ فیصلہ وزیراعظم کی زیر صدارت مہنگائی اور معاشی صورتحال پرغور کے لئے بلائے گئے اجلاس میں کیاگیا۔ وزیراعظم نے وفاقی وزرا کو پرائس کنٹرول کمیٹیوں پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وزراء اپنے حلقوں میں مصنوعی مہنگائی پر نظر رکھیں اورگرانفروشوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔وزیراعظم عمران خان نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کا حکم دیا۔انہوں نے کم آمدنی والے لوگوں کو پٹرول پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا جس کے تحت موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کو رعایتی نرخوں پر پٹرول فراہم کیاجائے گا۔ جبکہ یوٹیلٹی سٹورز پر بھی نادار لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی خریداری پر سبسڈی دی جائے گی۔

جس دن وزیراعظم نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی ہدایت کی اسی روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان نہیں،ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں حالیہ اضافہ صرف پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ ہے، دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور مہنگائی پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں، خوردنی تیل کی قیمتوں میں چند روز کے اندر 45 سے 50 روپے فی لیٹر کمی کریں گے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی چار بنیادی وجوہات ہیں، پچھلے سال پوری دنیا کو غیر معمولی آفت کا سامنا کرنا پڑا، اقوام عالم کے درمیان تجارت بند ہوگئی۔کورونا کی شدت میں کمی کے بعد جب دنیا معمول پر آئی تو اشیائے خوردونوش کی طلب بڑھنے اوررسد کم ہونے سے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

دنیا میں کروڈ آئل کی قیمت میں 81.55 فیصدجبکہ پاکستان میں 55.17 فیصد اضافہ ہوا، بین الاقوامی مارکیٹ میں گیس کی قیمت میں 135 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کی ڈومیسٹک گیس کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ چینی کی قیمت میں عالمی منڈی میں 53 فیصد جبکہ پاکستان میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔حکومت اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے کم آمدنی والے لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر سبسڈی دینے کا اعلان کرتی ہے مگر ان فیصلوں پر عمل درآمد کی نگرانی کے فقدان کی وجہ سے اس کے ثمرات لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ سرکاری سٹورز پر جن اشیاء کی نرخوں میں کمی کا اعلان کیاجاتا ہے وہ اشیاء وئر ہاؤسز سے اوپن مارکیٹ پہنچ جاتی ہیں اور سرکاری سٹورز پر چینی، کوکنگ آئل، آٹا اور دیگر رعایتی چیزیں کبھی دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔

سرکاری ادارے حکومت کو قیمتوں میں استحکام کی جو رپورٹ دیتے ہیں وہ بھی زمینی حقائق سے مختلف ہوتی ہیں۔ مارکیٹ میں مرغی کا گوشت ڈھائی روپے فی کلو سے تجاوز کرگیا ہے۔ آلو سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ قیمتوں کی بلند ترین سطح کو قیمتوں میں استحکام قرار دینا مہنگائی کے مارے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ حکمران عام طور پر اپنے ملک میں قیمتوں کا موازنہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ناروے، ہالینڈ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کرتے ہیں۔ مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک اور پاکستان میں لوگوں کی فی کس آمدنی کتنی ہے اور ان کی قوت خرید میں کتنا فرق ہے۔

وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کو مہنگائی کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل کا بخوبی احساس ہے اور وہ اس کا اظہار بھی اکثر کرتے رہتے ہیں لیکن ان مسائل کا جو حل وہ تجویز کرتے ہیں وہ سطحی اور مصنوعی ہوتے ہیں ان تجاویز کو عمل کا جامہ پہنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وزیراعظم مہینے میں ایک بار اپنے فیصلوں اور احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ بھی طلب کریں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ انہوں نے عوامی مفاد میں جو فیصلے کئے ہیں ان پر کس حد تک عمل درآمد ہوا ہے اور عوام کو اس سے کتنا فائدہ پہنچا ہے۔ محض اعلانات سے عوام کو ریلیف نہیں بلکہ مزید تکلیف پہنچتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54016

داد بیداد ۔ معدنیات کی دولت ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

ایک بڑھیا کی کہا نی ہے بڑھیا اپنی جھو نپڑی میں اکیلی رہتی تھی بیٹا ہر مہینے اس کو روزمرہ ضروریات کے لئے معقول رقم ایک لفا فے میں ڈال کر پہنچا تاتھا بڑھیا لفا فے کو چوم کر اپنی پیشانی سے لگا تی تھی آنکھوں پر مل کر دوبارہ دیکھتی تھی اور ایک صندوق میں ڈال کر تا لہ لگا تی تھی وقت اس طرح کسمپرسی کی حا لت میں گذرتا رپا یہاں تک کہ بڑھیا کی مو ت واقع ہوئی، لو گوں نے بڑھیا کو دفنا نے کے بعد صندوق کھو لا تو اس میں درجنوں لفا فے تھے اور لفا فوں میں لا کھوں روپے تھے جو بڑھیا نے چوم کر پیار اور محبت سے رکھے ہوئے تھے بیٹے نے اس لئے بھیجا تھا کہ بڑھیا کی زندگی میں کوئی سہو لت ہو لیکن ان لفا فوں سے بڑھیا کی زند گی میں کوئی سہو لت نہیں آئی وطن عزیز پا کستان میں بلو چستان کے ریکو ڈک سے لیکر سند ھ کے تھر کول اور چترال کے فولاد، یو رینیم یا سونے کے معدنی ذخا ئر تک سوئی اور کر ک کے گیس سے لیکر سندھ اور بلو چستان کے تیل تک ہر قسم کی دولت قدرت کی طرف سے مو جو د ہے لیکن ہم نے 72سالوں سے ان کو صندوق میں بند کر کے تا لا لگا یا ہوا ہے اور قومی زندگی مر زا غالب کی طرح یو ں گذر تی ہے ؎
قرض کی پیتے تھے مئے اور کہتے تھے ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


ہماری حکومتوں نے ریکو ڈک میں سونے کے ذخا ئر سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھا یا جتنا ہم نے کروڑوں ڈالروں میں اس کا جر ما نہ اداکیا ہے ایسے میں خیبر پختونخوا کی صو بائی حکومت نے معدنیات سے فائدہ اٹھا نے کے لئے انقلا بی قدم اٹھا تے ہوئے معدنیات سے مالا مال پہاڑوں اور صحراوں کی لیز(Lease) کا آن لا ئن سسٹم متعارف کرایا ہے خیبر پختونخوا کی سرکاری ویب سائیٹ پر معدنیات کی لیز کے قواعد وضوابط کے ساتھ نقشے اور روابط (maps & coordinates) بھی دیئے گئے ہیں کسی دفتر کا چکر لگا نے کی ضرورت نہیں کسی کی مٹھی گرم کرنے کی حا جت نہیں معدنیات کی لیز میں دلچسپی رکھنے والے کاروباری شہری اس ویب سائیٹ سے معلو مات حا صل کر کے جگہ پسند کر کے آن لا ئن در خواست جمع کر سکتے ہیں یوں گھر بیٹھ کر کاروباری خواتین اور حضرات سونے، فولاد، گیس، تیل اور یو رینیم کے قیمتی ذخا ئر کے ما لک بن سکتے ہیں

گذشتہ ڈیڑھ سال کا تجربہ اور مشا ہدہ یہ ہے کہ امریکی، بر طانوی اور چینی کمپنیاں آن لائن فارم جمع کر کے لا کھوں مر بع کلو میٹر کے رقبوں کا لیز لے لیتی ہیں پا کستانی سرمایہ کار اس میں دلچسپی نہیں لیتے مقا می لو گ شکا یت کر تے ہیں کہ ہمارے پاس سر ما یہ نہیں لیز حا صل کرنے کے بعد ہمیں کیا ملے گا، سرحد چیمبر آف کا مر س اینڈانڈسٹری کے کوارڈینیٹر سرتاج احمد کا کہنا ہے کہ ہماری مثال اُس بڑھیا سے مختلف نہیں جو نو ٹوں سے بھرے لفا فوں کو صندوق میں ڈال کر تا لا لگا تی تھی اور مر تے دم تک غربت، نا داری اور بے چار گی کا رونا روتی تھی دولت اس کے گھر میں مو جود تھی مگر وہ اس دولت سے کا م لینا نہیں جا نتی تھی امریکی کمپنی معدنیات کے 6ہزار مربع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تی ہے چینی کمپنی معدنی ذخا ئر کے 5ہزار مر بع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تی ہے پا کستانی سر ما یہ کار 300مربع کلو میٹر رقبے پر نظر رکھتا ہے جبکہ مقا می درخواست گذار بڑی مشکل سے کوارڈنیٹ نکال کر 40مر بع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تا ہے اس میں وسائل اور دولت کا مسئلہ نہیں درخواست گذار کے دما غ میں خلل ہے وہ 50مر بع کلو میٹر سے آگے سوچنے کی صلا حیت نہیں رکھتا وہ اس بات سے واقف نہیں کہ لیز لینے کے بعد کسی بڑی کمپنی کے ساتھ شراکت اختیار کر کے جوائنٹ وینچر کے ذریعے وہ اربوں کی سرمایہ کاری میں حصہ دار بن سکتا ہے معدنیات کی لیز کے لئے آن لا ئن درخواستوں کی سہو لت صو بائی حکومت کا بڑا کار نا مہ ہے مستقبل میں اس کے دور رس نتائج برآمد ہو نگے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53996

اسلامی حکومت کیسی ہوتی ہے؟ ۔ غزالی فاروق


اٹھارویں صدی کے وسط تک اسلام ایک شاندار درخت کی مانند تھا جس کی شاخیں مضبوط تھیں اور اس کی ڈالیاں ہری بھری اور شاداب تھیں اور یہ درخت اپنی  پوری آب و تاب کے ساتھ تروتازہ اور پھل دار تھا۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں یورپ میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں عالمی منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہو گیا جس کے بعد عالمی رہنما کی حیثیت رکھنے والی اسلامی ریاست اپنا مقام کھو بیٹھی اور اس کا زوال نمایاں ہو گیا۔مغربی ایجادات نے مسلمانوں کو اتنا مرعوب کیا کہ وہ اپنے اسلامی نظریات پر ہی نظرِ ثانی کرنے لگے۔ کچھ لوگ تو اتنے آگے بڑھ گئے کہ انھیں اسلامی افکار اور قوانین میں خامیاں نظر آنے لگیں جس کے نتیجے میں اسلام کے نفاذ میں کمزوری آنا شروع ہو گئی۔ اسلام کے نفاذ میں کمزوری اور اسلام کے فہم کے دھندلے ہو جانے کی وجہ سے اسلامی ریاست کی شان و شوکت پہلی جیسی نہ رہی اور اس نے اپنی اصل طاقت کھو دی۔ اسلامی نظریات کے فہم کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگِ عظیم  اول میں مسلمانوں کی شکست کے پیشِ نظر برطانیہ نے مصطفیٰ  کمال کے مدد سے اسلامی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔

مسلمانوں اور اسلام کے افکار کی حفاظت کرنے والی  ریاست خلافت  عثمانیہ کے انہدام کے بعد  مغرب نے مسلمانوں کے علاقوں  کے حصے بخرے کیے اور آپس میں بانٹ لیے۔ یوں  بالآخر مغربی تہذیب  مسلم علاقوں پر راج کرنے لگی اور یہ علاقے  یورپ ، روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا اکھاڑا بن  گئے۔ مغربی تہذیب کی علمبردار ریاستوں نے اسلامی تہذیب کے باقی ماندہ افکار  کو  مسلمانوں کے  اذہان سے کھرچنے اور اس کی جگہ مغربی تہذیب کے افکار ٹھونسنے کیلئے ان کی تعلیم، میڈیا، ثقافت اور ہر نظام کو  مغربی طرز پر استوار کردیا۔ اگر کسی علاقے میں مسلمانوں نے اس مغربی ایجنڈے کا انکار کیا تو انہیں مغرب  کی فوجی اور اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر مغربی سیکولر نظام کے آگے جھکنے پر مجبور کیا گیا۔

آج اکیسویں صدی میں مسلم دنیا مغربی نظام کی تباہ کاریوں اور افسوسناک نتائج سے تنگ آ چکی ہے لیکن اس کے پاس اسلام کی تہذیب کی طرف  واپسی کیلئے درکار افکار کا فقدان ہے جو مغربی نظام کو اسلام کے نظام سے تبدیل کر دینے کی راہ میں حائل ایک  رکاوٹ ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے ان سچے تصورات کو دوبارہ اجاگر  کیا جائے جو مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کی شروعات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان   تصورات کے ذریعے ہی مسلمان اس قابل ہو سکیں گے  کہ وہ اس اسلامی ریاست کو پہچان سکیں جس کا قیام  اسلامی طرزِ زندگی کے ازسرِ نو آغاز کیلئے  لازم ہے۔جہاں دنیا بھر کی بیشتر اسلامی تحریکات مسلم ممالک میں اسلا م کے نظام  کی واپسی  کیلئے کوشاں ہیں وہاں ان تصورات کو سمجھنے اور واضح کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، تاکہ مغرب کہیں تبدیلی کی ان   مخلصانہ کوششوں  کے باوجود مسلمانوں کی  فکری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں دھوکہ دے کر ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام سے دور نہ کر دے۔

  کسی بھی  ریاست کو  ایک اسلامی ریاست  کہلانے کے لئے  جن  بنیادی صفات  کا حامل ہونا لازمی ہے  ان میں  سے  سب سے پہلی صفت  اس ریاست کی بنیاد کا دین اسلام  پر مبنی ہونا ہے۔رسو ل اللہ ﷺ  نے جب مدینہ میں ریاست قائم کی اور حکومت سنبھا لی تو پہلے دن سے ہی  دین اسلام  کو اس ریا ست اور اقتدار کی بنیاد بنا یا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے  حکمرانی میں اسلام کے احکامات  کی خلاف ورزی پر عوام کو   حکمران کا کڑا احتساب کرنے کا حکم دیا اور اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ میں شامل کیا۔ اسی طرح  دین اسلام    کا اسلامی حکومت کی بنیاد ہونے کا مطلب یہ  بھی ہے کہ  تمام قانون سازی صرف اور صرف  اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات تک محدود ہو گی اور اس معاملے میں اسلام کے علاوہ کسی اور آئیڈیالوجی   کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا۔لہٰذا ایک اسلامی حکومت میں تمام ریاستی معاملات بشمول عدلیہ، اقتصادیات، معاشرت، حکومت، داخلہ و خارجہ پالیسی، تعلیم، صنعت، صحت، فوج، بیت المال وغیرہ صرف اور صرف اسلامی احکامات  کے مطابق  منظم ہوتے ہیں۔

پھر کوئی بھی ملک صرف اس وقت ایک مکمل اسلامی ریاست قرار پاتا ہے جب  وہاں کی امان ( یعنی علاقے کی اندرونی و بیرونی خطرات سے  حفاظت)مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اوروہاں  اسلام ہی کے احکامات نا فذ ہو ں ۔ اگر اِن میں سے کوئی ایک شرط بھی موجود نہ ہو تو وہ علاقہ  اسلامی ریاست نہیں ہو  گا ۔رسول اللہ ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کیلئے جو بیعت لی، اس میں یہ دونوں شرائط موجود تھیں۔انصار نے مدینہ میں اسلام کی حکمرانی کو  اور  رسول اللہﷺ کو حاکم کے طور پر قبول کیا  تھا اور کسی   بیرونی  طاقت پر انحصار کیے بغیر  اس ریاست کی امان کا خود  ذمہ لیا تھا۔

اسلامی ریاست کی تیسری بنیادی صفت  اس میں  حکمرانی کا   اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہونا  ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت میں حکمرانی انسانوں کی  اجتماعی  دانائی کی بنیاد پر نہیں بلکہ  اللہ سبحانہ وتعالی  کی لامحدود دانائی پر مبنی وحی کی بنیاد  پر منظم ہوتی ہے جسے نافذ کرنے کا اختیار  صرف ریاست کے سربراہ  یعنی خلیفہ کو ہوتا ہے۔  ایک اسلامی حکومت   میں قانونی آراء کو ان کی فکر کی مضبوطی کی بنیاد پر ترجیح  دی جاتی ہے جبکہ اجتماعی حکمرانی پر مبنی حکومت میں قانونی آراء کو عوامی قبولیت اور خواہشات  کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے ۔اسلام اجتماعی حکمرانی کی نفی کرتا ہےاور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک ریاست کے ایک سے زیادہ حکمران ہوں۔ خلیفہ ہی وہ شخص ہوتا ہے جسے ریاست کے مسلمان شہری بیعت کے ذریعے اسلام کو نافذ کرنے اور پھیلانے کی اتھارٹی سونپتے ہیں اور خلیفہ یہ فرائض  اپنے  معاونین، والیوں اور عاملین پر مبنی ریاستی ڈھانچے کے ذریعے سرانجام  دیتا ہے   ۔

اسلامی حکومت کی  چوتھی صفت یہ ہے کہ اس  میں حکمران  کے انتخاب یا تقرری کا  حق امت کے پاس ہوتا ہے جو اسلام کے نظام کے نفاذ اور اسلامی دعوت کو پوری دنیا تک لے کر جانے پر  حکمران کا انتخاب  کر کے اسے خلیفہ کے منصب پر فائز کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ  اس وقت مدینہ کے حکمران بنے جب محرم کے مہینے میں   عقبہ کی گھاٹی میں  بیعت ِ عقبہ  ثانیہ کا واقعہ  پیش آیا،جس میں اوس اور خزرج کے قبائل  سے آئے ہوئے مسلمانوں نے اپنی رضامندی  سے رسول اللہ ﷺ کو  اطاعت اور حفاظت  پر حکمرانی کی بیعت دی۔ لہٰذا وہ حکومت اسلامی نہیں ہو سکتی جہاں حکمران کے انتخاب کا  حق امت سے چھین  کر کسی مخصوص طبقے یا گروہ  کو دے دیا جائے ۔

 جمہوریت کی طرح اسلام نے بھی اختلافِ رائے کو رفع کرنے  اور قانون بنانے کیلئے مختلف آراء میں ایک رائے کو اختیار کرنے کا طریقہ کار رضع کیا ہے جو جمہوری طریقہ کار سے یکسر مختلف ہے۔ایک اسلامی حکومت میں ریاست کے سربراہ  یعنی خلیفہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  متعدد اسلامی آراء میں سے مضبوط ترین رائے کو قانون کی حیثیت سے اختیار کر سکتا ہے۔شرعی احکامات کے معاملے میں مضبوط ترین رائے کا انتخاب شرعی دلیل کی مضبوطی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر، ابوبکر ؓ نے اپنے اجتہاد کے مطابق  ایک نشست میں تین طلاقوں کو ایک طلا ق قرار دیا اور مال غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان برا بر تقسیم کرنے کو اختیار  کیا اور اس معاملے میں نئے اور پرانے مسلمانوں  کے درمیان فرق نہیں کیا۔  لیکن جب عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے  اپنے اجتہاد کے مطابق ان مسا ئل میں ابو بکرؓ کی رائے سے مختلف   رائے کو اختیار کیا  اور تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیا اور مال کی تقسیم میں اسلام میں سبقت اور ضرورت مندی کو مقدم رکھا اوربرا بری کی بنیا دپر تقسیم نہیں کی۔

کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے چھٹی  بنیادی صفت  یہ  ہے  کہ  اس ریاست کا مکمل آئین  ،تمام قوانین  اوردیگر پالیسیاں  صرف اور صرف وحی  پر مبنی نصوص سے اخذ شدہ ہوں۔اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے نازل کردہ  وحی ہی وہ راہنمائی  اور ہدایت ہے جس پر عمل کرنا تمام دنیا کے انسانوں کیلئے روزِ قیامت نجات کا ذریعہ ہے۔ وحی سے مراد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔ لہٰذا  حکمرانی  اور نظام کیلئے   قوانین کی بنیاد صرف  قرآن و سنت ہیں، اور وہ  ماخذ جو قرآن و سنت ہی پر  مبنی ہوں ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے  فرمایا: ﴿وَمَن لَّمۡ يَحۡڪُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ﴾”اورجو اللہ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہی لوگ ظالم ہیں”(المائدۃ:45)۔ اور فرمایا: ﴿وَأَنِ ٱحۡكُم بَيۡنَہُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعۡ أَهۡوَآءَهُمۡ﴾”اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ (احکامات)  کے مطابق حکومت کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں”(المائدہ:49)۔

اسی طرح  کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے یہ بھی  ضروری ہے  کہ  وہ دیگر ممالک کے ساتھ صرف  اسلام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے اور دینِ  اسلام کو پوری دنیا پر غالب کرنے کیلئے دعوت کی علمبردار بنے۔ مدینہ میں مسلمانوں کی فوجی طاقت کا قریش سے کمزور ہونا مسلمانوں کو معلوم تھا  لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے قریشِ مکہ سے تعلقات اسلام ہی کی بنیاد پر رکھے ، ان پر غلبہ حاصل کرنے کی پالیسی کو جاری رکھا اور بالآخر مکہ میں فتح حاصل کی۔رسول اللہ ﷺ نے  اپنے  دور کی جتنی بھی عالمی طاقتوں کے بادشاہوں کو خطوط بھیجے، وہ سب باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کیلئے نہیں بلکہ صرف  اسلام  کو قبول کرنے اور اسلام کی حاکمیت تسلیم کرنے کی طرف دعوت دینے  پر مبنی تھے۔ اسامہ ؓ کے لشکر کی تیاری جسے آپ ﷺ   نے اپنے وصال سے پہلے سخت بیماری کی حالت میں بھی روانہ کرنے پر اصرار کیا، وہ   سلطنتِ روم کو اسلام کی اتھارٹی کے نیچے لانے کیلئے تھا۔اس کے علاوہ تمام خلفاء راشدین کے دورِ خلافت میں اسلامی ریاست مسلسل پھیلتی رہی اورمسلمان  دیگر دنیا میں موجود نظاموں کو چیلنج کرتے ہوئے    اسلامی دعوت  کو ان علاقوں تک وسعت دیتے  رہے۔

لہٰذا اسلام کسی ایسی ریاست کا تصور پیش نہیں کرتا جو  اندرونی طور پر تو اسلام کے احکامات کے نفاذ کا دعویٰ کرے لیکن  دنیا کی عالمی طاقتوں کے سامنے  اپنے مقام اور حیثیت کو تسلیم کروانے کیلئے عالمی ورلڈ آرڈر کو تسلیم کر لے۔اسلام میں ایسی کسی ریاست کا تصور موجود نہیں  جو مغربی عالمی قوانین کی پاسداری کرے، اقوامِ متحدہ یا سلامتی کونسل یا آئی ایم ایف یا عالمی عدالتِ انصاف جیسے استعماری  اداروں کو تسلیم کرے یا ان میں شمولیت اختیار کرے، قومی ریاستوں کے تصور کی بنیاد پر ریاست کی مستقل سرحدوں کو تسلیم  کرے اور اپنی  سرحدوں کے پار مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے تسلط سے آزاد کروانے کو   اپنا اولین مسئلہ نہ سمجھے، ایسی کسی ریاست کے وجود کیلئے اسلام میں کوئی شرعی  دلیل موجود نہیں۔

یقیناً موجود  دور میں ،جب مغرب مسلم دنیا پر اپنی زبردست  ثقافتی اورفکری یلغار کے ذریعے مسلم اذہان سے اسلامی تصورات کو کھرچنا چاہتا ہے، وہاں مسلمانوں کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے والے ان افکار  کا مکمل فہم حاصل کریں تاکہ اسلام دشمن عالمی طاقتیں اور مسلم دنیا میں موجود ان کے ایجنٹ حکمران  امت کو اسلامی حکومت کے نام پر کوئی دھوکہ نہ دے سکیں۔یقیناً یہ ان اسلامی تصورات کا درست  فہم ہی ہو گا جو تمام دنیا کے مسلمانوں کومغرب کے تسلط سے آزاد ہونے کا اور اور اسلام کے عادلانہ نظام کو پوری دنیا تک لے  کر جانے  کا   نکتۂ آغاز بنے گا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
53994

چترالی بازار پشاور، ارتقا، خدمات اور اہمیت – عنایت جلیل قاضی

چترالی بازار پشاور، ارتقا، خدمات اور اہمیت – عنایت جلیل قاضی

مشہورزمانہ تاریخی بازار،قصہ خوانی کےعقب میں، ایک گلی نما بازار، ٹھٹی بازار کے نام سے ہوا کرتا تھا،جو ہندو اور انگریز ادوارمیں، پشاور کا بازار حسن کہلاتا تھا۔ اس بازارکے بالاخانوں میں، ڈھول کی تھاپ پر،پائل کی جھنکار میں، صنف نازک کی جسمانی شاعری رات گئے تک جاری رہتی۔ رات کے پچھلے پہر، رند، خماراور نیند سے بوجھل، نیم کھلی آنکھوں کے ساتھ ، قصہ خوانی،جہانگیرپورہ اور شاہ برہان کی گلیوں میں، تھرتھراتے، ڈگمگاتے قدموں اور خود کلامی کے ساتھ چلتے پھرتے نظرآتے۔ پھریوں ہوا، کہ اس بازار میں کچھ صوفی منش لوگ آئے، اوران کی کاوشوں سے، بازار حسن،اسلام آباد بازار بن گیا۔

یہ غالباً 1939 کی بات ہے، کہ لویر چترال کے گاٶں کُجو سے دو بھائی، قاضی خیر محمد اور قاضی محمد میاں، جوقاضیاں کُجو کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اس بازار سے متصل جہانگیرپورہ بازار میں، ایک دکان کھول لی۔ چند سال بعد،1942میں، اپر چترال کے اویر نامی گاٶں سے شمس الرحمٰن انوری (قوم خوشے) نے میں ٹھٹی بازارمیں، چترالی مصنوعات کی دکان کھولی، اور یوں،اس بازار میں چترالی مصنوعات کی کاروبار کا آغاز ہوا۔ سلسلے چلتے رہے اورکارواں بنتے گئے اور اس وقت، اس بازار میں، چترالیوں کی کل 180 دکانیں ہیں (جبکہ ضلع پشاور میں چترالیوں کی کل دکانوں کی تعداد 850 سے ذیادہ ہے)۔ اس کاروبار سے وابستہ، سینگڑوں کاریگر، رزق حلال کما نے میں مصروف ہیں۔ یہ بازار، پشاور میں چترالیوں کی آماجگاہ اور پناہ گا ہے۔

chitrali bazar peshawar 4

یقیناً ، ابتدائی دور، نووارد چترالیوں کے لئے ایک مشکل دور ہوتا ہوگا، یہاں کے لوگ ماضی قریب تک، ذہنی طور پر چترالیوں کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ان کی سادگی کی وجہ سے، اپنے سے کم تر سمجھنا، دھوکہ دینا، زور زبردستی کرنا روزمرہ کا معمول تھا۔ چترالیوں کے ساتھ، اکیسویں صدی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہتا ہے، تو اس زمانے کی بات ہی کچھ اور ہوگی۔ ہماری شرافت ہماری طاقت نہیں، بلکہ ہماری کمزوری سمجھی جاتی ہے اور ہم، ہر قدم پر استحصال کا شکار نظر آتے ہیں۔ ذرہ سوچئے، اس زمانےمیں کن حالات سے یہ بہادر لوگ دوچار رہے ہوں گے۔ لیکن اس بازار کے ابتدائی لوگ ، دیانتداری، صداقت اور صبر سے کام لیتے رہے اور قلیل عرصے میں چترال کےلئے نرم گوشہ اور شناخت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان ابتدائی لوگوں میں، شمس الرحمٰن انوری، حافظ اویری، نادر خان، میراحمد بلبل، صالحین صاحب۔ حاجی سعیداللہ، حاجی رحمت خان،سیکریٹری نورغازی،صدر امان اللہ، ماسٹر ولی الدین، حاجی میر طانیت شاہ، حاجی عظیم،بزرگ حاجی۔ حسین حاجی۔ حاجی تکبیر خان، خان حاجی، ولی شاہ حاجی، حاجی محمد شاہ، حاجی عزت من شاہ المعروف کابلی جان،حاجی حبیب اللہ، گلسمبر خان، فضل خان ماما۔ میرزہ خان، عبدالواحد، حاجی گل محمد، اور حاجی غیاث الدین نے اچھے نام کمائے۔ بعد میں آنے والوں میں، صادق آمین مرحوم، حاجی خلیل الرحمان، حاجی فضل خان، شاکرالدین،محمد فاضل، حاجی صفدر حکیم ، حاجی حکیم، حاجی امان اللہ، عمرعظیم، قیوم لالہ، محمد طئیب ،حسن محمود، ابراہیم، دوردانہ خان، فیض اللہ، شکور اعظم، اسلام الدین،حاجی مقصود، حاجی ژنوژان، زار بہار، حاجی الیاس شیرعبداللہ اور شیرعزیز نے کاروبار میں نام کماکر صاحب جائداد ہوئے۔

چترالی بازار پشاور، چترالیوں کو بہت کچھ دے چکا ہے اور دے رہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم کام، کاروباری ذہن سازی ہے۔ چترالی، من حیث القوم، کاروبار کو ذیادہ پسند نہیں کرتے اور سرکاری ملازمت کے دلدادہ نظرآتے ہیں، لیکن اس بازار نے ان کو کاروبار کی طرف راغب کیا اور اس سے وابستہ لوگ، معاشی طور پر مستحکم ہوکر دوسرے لوگوں کے لئے مثال اور ترغیب کے سبب بنتے گئے۔ یوں اس بازار نے چترال کے کئی خاندانوں کو،غربت سے نکال کرآسودہ حال کردیا۔ پھر لوگ ملتے گئے ، کارواں بنتے رہے۔ 180 دکانیں اور ان سے جُڑے لگ بھگ تین ہزار کاریگر، چترالی مصنوعات کے روزگار سے وابستہ ہیں۔ اگر ہم ایک درمیانی دُکان کے حساب سے بازار کا جائزہ لیں تو، اس بازار میں لاکھوں کپھوڑ بنتے،اور بکتے ہیں جن سے اچھی خاصی آمدن ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ چترالی واسکٹ، کوٹ اور چوغے کی بھی بڑی مانگ ہے۔ ساتھ ساتھ سینگڑوں کاریگر، دان رات کام کرکے چترال کی اقتصادی ترقی میں بہت بڑا حصہ ڈال رہے ہیں۔

chitrali bazar peshawar1

تعلیم کے حوالے سے بھی اس بازار کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ چترال سے تعلق رکھنے والے کئی افسران، ڈاکٹرز اور دیگر لوگوں کا زمانہ طالب علمی میں اس بازار سے بلواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رہاہے اور انتہائی مشکل اوقات میں اس بازار سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ بازار کے 180 دکانداروں اورسینگڑوں کاریگروں کے بچے اور رشتہ دار، پشاور میں دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ بازار سے وابستہ ہر فرد کے گھر میں کم ازکم ایک دینی یا دنیاوی تعلیم یافتہ ضرور موجود ہے۔ اس وقت ضلع پشاور کے اندر 90 مساجد کے خطیب اور امام چترالی ہیں اور ذیادہ تر کا تعلق بلواسطہ یا بلا واسطہ اسی بازار سے ہے۔ امسال، اسی بازار سے وابستہ ماجداللہ، سی ایس ایس پاس کر چکا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹرخالد اقبال، انجنئر ظہیرالدین، انجنئر سیف اللہ، انجنئر نسیم اللہ، ایڈوکیٹ صادق امین، ایڈوکیٹ توفیق اللہ (صدر چترال لائرز فورم)، پروفسر ڈاکٹر جمیل چترالی۔سرجن ڈاکٹر محب الرحمان۔ سنئر صحافی عبدالودود بیگ۔ سابق سٹلمنٹ آفیسر شاہ نادر،پروفیسرڈاکٹراسداللہ ،معروف وکیل نیاز اے نیازی۔ ڈاکٹر محمد قاسم ، ایڈشنل ڈپٹی کمشنر عبدالولی چیف، پروڈیوسر نظام الدین ۔ ڈپٹی ڈائرکٹر محمد خالد، آئی ٹی کی دنیا کا ایک کامیاب نام عطاٗالرحمٰن، پرائڈ آف چترال کے ایڈمن خلیل احمد، سنئر صحافی فیاض احمد، معروف ٹووراوپریریٹر جلیل احمد اسی بازار سے وابستہ رہے ہیں۔

اس بازار کی سیاسی خدمات کے حوالے سے بات کی جائے تو، چترالیوں کو سیاسی شعور اور حقوق دلوانے کے حوالے سے اس بازار کے تاجروں نے ہراول دستے کا کام کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ سب سے پہلے میر احمد بلبل، محمد نادر خان نے چترال یونئین تشکیل دے کر سیاسی بیداری کا آغاز کردیا۔ میر احمد بلبل پیپلزپارٹی کا جیالا تھا اور عمر کے آخری لمحے تک اس منشور سے جُڑے رہے۔ بعد میں صادق امین مرحوم نے بازار کا بھاگ ڈور سنبھالا تو پشاور میں چترالیوں کو ایک نئی شناخت مل گئی۔ چترالی بازار کے لوگ جلوس جلسوں میں، شاہراہیں بند کرنے کے قابل ہوگئے۔ صادق امین سیاسی طور پر عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ بلور برادران اور دوسرے سیاسی زعما، ان کے والد صاحب، ماسٹر ولی الدین کے شاگرد رہے ہیں۔ صادق امین مرحوم، پشتو، ہندکو اور اردو پر مکمل دسترس رکھتے تھے اور فن تقریر کے بھی ماہر تھے۔ سیاسی داوپیچ کے بھی ماہر تھے۔

chitrali bazar peshawar2

انہوں نے چترال یوتھ ارگنازئشین اور چترال تجار یونئین جیسی متحرک فورمز کی بنیاد رکھی۔ صادق امین کی سیاسی خدمات ہمیشہ سنہری حروف میہں لکھی جائیں گی۔ سیاسی لحاظ سے اس وقت میدان عمل کے شیرعبدالطیف کا تعلق بھی اسی بازار سے ہے۔ عبدالطیف گزشتہ 22 سالوں سے تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ، ایک سنیر رہنما ہیں۔ عبدالطیف کے بھائی عبدالرزاق اس وقت چترالی بازار کے صدر نشین اور تحریک انصاف کے ایک فعال سیاسی کارکن ہیں۔ انجمن تاجران پشاور کے جائنٹ سکریٹری ہیں اور سیاسی داو پیچ سے باخبر ہیں۔ اسی بازار سے وابستہ شاکرالدین کاروبار، وکالت اور سیادست تینوں سے وابستہ ایک فعال چترالی ہے۔ سیاسی لحاظ سے، پیپلزپارٹی سے وابستہ ہے۔ صادق امین کے فرزند انجمند، فہد آمین، اس بازار کے نووارد ہیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعد چترالی بازار کے کاروبار کے ساتھ جُڑگیا ہے۔ یہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہیں، مٹی زرخیز ہے اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں، والد صاحب کی سیاسی خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ہماری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔ لواری ٹنل تحریک ، پشاور میں چترالیوں کی سب سے بڑی تحریک تھی اور اس کا مرکز یہی چترالی بازار تھا۔ یہی دکاندار اپنا کام کاج چھوڑ کربھوک ہڑتالی کیمپ لگاتے رہے، جلوس جلسے کرتے رہے۔ مرکزی قائد مولانا عبد الاکبر کے ساتھ، جناب صادق امین مرحوم، جناب عبدالطیف اور دوسرے دکاندار، اپنا سب کچھ قربان کرتے رہے۔

chitrali bazar peshawar

چترالی بازار پشاور کی، چترال کے لئے سماجی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ بےسہارہ چترالوں کو سہارا دینا، بیماروں کو عطایات خون دینا، مُردوں کو دفنانا یا لاشوں کو چترال بھجوانے کی انتظامات کرنا اور چترال سے متعلق مسائل کو حل کرنا، گویا ان کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے اس بازار کی سب سے بڑی خدمت وزیر باغ پشاور میں ایک وسیع و عریض چترالی قبرستان کا قیام ہے۔ اس قبرستان کا کل رقبہ 84 مرلہ ہے جس کی اس وقت مالیت کم از کم 5 کروڑ روپے سے ذیادہ ہے۔ یہ جگہ 1991 میں خریدی گئی تھی اور تب سے اب تک اس میں کوئی 400 کے لگ بھگ چترالی مدفون ہیں۔ اور 200 تک مزید گنجائش باقی ہے۔ اس سے پہلے پشاور میں انتقال کرنے والے چترالیوں کے لئے تدفین کا انتظام کرنا یا میت کو براستہ افغانستان چترال بھجوانا انتہائی تکلیف کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ چترالی بازار کی کاوشوں کی بدولت، یہ انتہائی تکیلف دہ کام اسان ہو چکا ہے۔

chitrali bazar peshawar3

اس بازار اور اس کے مکینوں نے چترالی ثقافت کو بھی چترال سے باہر متعارف اور ترقی دینے میں ایک بےمثال کردار آدا کیا ہے۔ کپھوڑ، واسکٹ، چوغہ اور کوٹ، جو چترالی لباس اور شناخت کی علامت ہیں، اسی بازار کے طفیل پوری دنیا میں چھاگئے۔ کپھوڑ اب پورے صوبے کی پہچان بن چکا ہے، بلکہ افغانستان کے شمالی اضلاع بھی اس کو اپنا چکے ہیں۔ شمالی اتحاد نے ایک زمانے میں کپھوڑ کو وردی کا حصہ تک بنا رکھا تھا۔ چترالی بازار کے اندر چترالی کھیل تماشوں اور موسیقی کے دلدادہ بیٹھے ہوئے ہیں جو کئی بیروزگار فنکاروں اور کھلاڑیوں کو موسم سرما میں مہینوں تک مہمان بناکر رکھتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان پشاور میں جس وقت کھوار پروگرام کا اجرا ہوا، تو اسی بازار سے وابستہ لوگ،فنکار بھی بنے اور سامع بھی۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اس وقت کے ثقافت پسند لوگوں نے بڑے کردار آدا کئے۔ باالخصوص بچوں کے پروگرام میں حصہ لینے والے بچے، اسی بازار کے دکانداروں کے بچے ہوا کرتے تھے۔ حاضر وقت میں، زیباوار خان ہمدرد کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہر وقت ان کی رہائش گاہ میں ستار، دف، جریکین اور ایک گلوکار موجود ہوتا ہے۔

chitrali bazar peshawar4

گھُڑ سواری سے لے کر فٹبال تک، مرغ زرین کے پر سے لیکر پیتاوا تک ، ہر ضرورت کی چیز ان کے پاس موجود ہوتی ہے اور ہر مشکل وقت میں کھلاڑی اور فنکار کا یہی سہارا بنتا ہے۔ فٹبال، چترالیوں کا ایک انتہائی پسندیدہ کھیل ہے جس کے لئے تمام چترالی جمعے کے دن کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے معروف عالم دین اور مقرر مولانا بجلی گھر نے کہا تھا کہ ” مجھے زندگی بھر دو چیزوں کی سمجھ نہیں آئی ایک چترالیوں کا فٹبال اور دوسری پاکستان کی سیاست، دونوں میں کوئی ضابطہ قانون کی پاسداری نہیں ہوتی” چترالی بازار سے وابستہ لوگوں نے شاہی باغ یا وزیر باغ میں فٹبال کے بے مثال ٹورنمنٹس منعقد کروائے۔ ان میں جو لوگ سر فہرست رہے ان میں میراحمد بلبل مرحوم، صادق امین مرحوم، وزیر خان، عبدالعلی خان، عبدالودود، شاہ نادر اور شاکر الدین قابل ذکر ہیں۔ 1988 سے 2005 تک کوئی 30 ٹورنامنٹس میں، راقم بھی ایک منتظم اور کامنٹیٹر کی حیثیت سے حصہ لیتا رہا ہے۔ انہی ٹورنمنٹس سے کھلاڑی ابھرے اور قومی فٹبال ٹیم تک، جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ ان تمام خدمات کے پیش نظر، دیگرچترالیوں کو چاہئے کہ اس کام اور کاروبار کو ہدف تنقید بناکر، ان پر طنز کے تیر برسانے کی بجائے ان کی خدمات کا ادراک اور اعتراف کریں تاکہ چترال کے ہزاروں بیروزگار نوجوان کاروبار کی جانب راغب ہوجائیں اور خودکُشی پر مجبور نہ ہوجائیں۔

chitrali bazar peshawar5
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53963

لاکھوں بچے اور بچیوں سے بدترین جنسی استحصال، انسانیت کی تذلیل ! – قادر خان یوسف زئی

کمسن بچوں اور بچیوں سے جنسی استحصال کی خبریں دل دہلانے والی ہوتی ہیں، ایسے واقعات سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تہذیب و روایات کے ساتھ سماجی اقداروں کا موازنہ کرکے شرمناک واقعات کے اسباب و سدباب پر غور کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ سخت سزاؤں کا خوف دلانے کے لئے قانون سازی و جرم ثابت کرنے کے لئے تفتیشی عمل ایک دقت طلب مرحلہ ہے۔ کسی بھی ایسے واقعے کو ثابت کرنے میں تاخیر سے متاثرہ بچے سنگین نفسیاتی الجھنوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی علاقے میں جنسی زیادتیوں کے واقعات نے معاشرتی انحطاط پزیری کے اصل اسباب کو جاننے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے تاہم بااثر شخصیت اور سماجی و اخلاقی تقاضوں کے نام پر زبان بندی ایک ایسا مرض بن جاتا ہے جس میں مجرم بے خوف و متاثرہ فرد سنگین مسائل میں اپنی زندگی کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔  بچوں سے جنسی استحصال پر مخصوص ذہن رکھنے والے اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ریٹنگ بڑھانے کے لئے بھی متنازع معالات میں مخالف طبقات کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کردیتے ہیں، کسی کے غلط فعل کو کسی مذہب یا قومیت سے جوڑنے کا عمل کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تاہم جہاں مذہب کے نام پر ایسے واقعات سامنے آئیں تو پھر معاشرتی بگاڑ کی درستگی کے لئے یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ غیر جانب دار اور تعصب سے بالاتر ہو کر بغیر کسی صنفی امتیاز،نگ نسل اورمذہب اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے آگاہی کی ضرورت  کو اپنایا جائے۔


پاکستان میں مخصوص مذہب بیزار طبقہ جنسی استحصال کے واقعات میں مذہبی شخصیات کے ساتھ ساتھ اُس کے ادارے، نظام اور درس و تدریس کو نشانہ بناکر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ تعلیمی ادارے و درسگاہیں مبینہ فحاشی و جنسی استحصال کی گڑھ ہیں۔ یہ ایک قابل مذمت سوچ و نظریہ ہے جس کومخصوص مفادات کے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی تمام طبقات کی یکساں ذمے داری بنتی ہے۔ گذشتہ دنوں فرانسیسی مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں لاکھوں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کی رپورٹس نے انسانیت کو ہلاکر رکھ دیا۔ فرانس اپنے مذہبی آزاد پسند نظریات کی وجہ سے دیگر مذہبی اکائیوں کے لئے متنازع ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ملک کے مقرر کردہ ایک کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ فرانسیسی پادریوں نے گذشتہ 70 برسوں میں دو لاکھ زائد ایسے بچوں کا جنسی استحصال کیا جن کی عمریں 10سے13برس کے درمیان تھیں۔بچوں سے جنسی استحصال کے واقعات کا کسی بھی مذہبی ادارے کے رہنماؤں اور سرپرستوں کے ساتھ وابستگی ان گنت لوگوں کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے۔


فرانس کے علاوہ مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ میں بھی سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے کلیسائی اداروں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے بڑی تعداد میں واقعات سامنے آئے۔ بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پر تحقیق کرنے والے Jesuit پادری ایڈم ذاک کا کہنا تھا کہ 2018 سے لے کر گذشتہ برس کے آخر تک پولینڈ کے صرف ایک چرچ میں 368 جنسی استحصال کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ کلیسائی اہلکاروں کی طرف سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بچے اور بچیوں کی بڑی تعداد بتائی گئی ہے کہ ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے تک جنسی استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریا میں 2010 تک 800 جنسی استحصال کے واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ آئرلینڈ میں 14500، جرمنی میں 3677، فلپائین میں 200، آسٹریلیا میں 15000 اور امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ انگلینڈ اور ویلز میں سرگرم کئی مذہبی تنظیموں پر بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا.ایک آزاد تحقیقاتی رپورٹ میں بھی ان الزامات کا ذکر ہے۔رپورٹ کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث کل38 تنظیمیں شامل ہیں.اس انکوائری میں  2015 سے لے کر 2020 کے دوران متعدد مذہبی تنظیموں کی چھتری تلے رونما ہونے والی سرگرمیوں اور کارروائیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اس دوران یہ واضح ہوا کہ بچوں کے ساتھ اس استحصالی عمل میں ملوث افراد یا تو مذہبی تنظیموں کے ملازم تھے یا پھر ان سے وابستہ افراد تھے اور جنسی استحصال کے تمام واقعات کو رپورٹ بھی نہیں کیا گیا۔تفتیش کاروں نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد کی یہ استحصالی سرگرمیاں یقینی طور پر طاقت و اختیار کا غلط استعمال تھا۔ ایسے افراد کو مذہبی اکابرین کی سرپرستی اور کسی حد تک حمایت بھی حاصل تھی۔


نوبل امن انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی ‘ کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن‘ (کے ایس سی ایف)  کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پولیس ہر سال بچوں کے خلاف جنسی استحصال کے درج تین ہزار شکایات کے بارے میں کوئی ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہتی ہے اور یہ معاملات عدالت پہنچنے سے پہلے ہی بند کر دیے جاتے ہیں۔یہ تحقیقاتی رپورٹ بھارتی حکومت کے جرائم کا اعدادوشمار رکھنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی) کی طرف سے 2017 سے  2019 کے درمیان حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہے۔ بھارت میں پربھوداسی نامی مبینہ روایت ساتویں صدی کے درمیان پروان چڑھی۔ مذہب کے نام غریب اور معصوم بچیوں کا بدترین جنسی استحصال کرنا شروع کیا جاتا ہے۔ انڈین نیشنل ہیومن رائٹس آف کمیشن کے مطابق 2013 میں دیو داسیوں کی تعداد 4 لاکھ 50 ہزار تھی جو 2017 میں پچاس فیصد بڑھی۔ زیادہ تر پربھوداسیاں آندھراپردیش، کرناٹکا اور مہاراشٹر میں ہیں، ان دیوداسیوں کی عمر 11 سے 15 برس کے درمیان ہوتی ہے۔ خیال رہے بھارت اور اریکہ کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین، بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ سب سے زیادہ جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔


 سال 2020 میں پاکستان کے چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے مجموعی طور 2960 واقعات رپورٹ ہوئے۔یر سرکاری تنظیم ساحل کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کی نسبت اس سال ان واقعات میں 4 فیصد اضافہ ہوا۔ساحل کی رپورٹ کے مطابق ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال روزانہ 8 سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ اس سال بھی پچھلے سال کی طرح لڑکیوں کے ساتھ جنسی تشدد کی شرح لڑکوں کی نسبت زیادہ رہی-جاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2020 میں 1510 لڑکیاں اور 1450 لڑکوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مذہبی اسکولوں اور مدرسوں مں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا رجحان انتہائی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ تاہم اس طرح کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر نہیں آتے۔ اے پی کے مطابق اس کی دو بڑی وجوہات میں ایک تو یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں مذہبی مبلغ یا مدرسے کے اساتذہ بہت زیادہ با اثر ہیں اور دوسرا یہ کہ جنسی استحصال یا زیادتی کے معاملے پر بات کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ تو معاشرے میں ان موضوعات پر زیادہ تر بات کی جاتی ہے اور نہ ہی عوام سطح پر اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔


جنسی استحصال و کم عمر بچوں، بچیوں سے لے کر لڑکیوں اورخواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا اباافراط ہونا ایک انسانی المیہ ہے۔ مذہب کی آڑ میں ایسے شرم ناک جرائم کرنے والے اپنی جنسی خواہشات کے غلام تو قرار دیئے جاسکتے ہیں لیکن انہیں کسی بھی مذہبی اقدار سے نہیں جوڑا جانا چاہے۔ کوئی بھی مذہب اس قسم کے غلیظ و شرم ناک حرکات کی اجازت نہیں دیتا لیکن جنسی مریض جو کسی بھی لبادے میں ہوں، وہ جنسی استحصال میں مذہب، رشتہ اور انسانی و اخلاقی اقدار کو روند ڈالنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس مرحلے پر سب اہم و قابل توجہ ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کے تحفظ کے لئے اُ ن اقدامات پر توجہ مبذول کریں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں جو وقتاََ فوقتاََ سماجی مسائل کے حل سے منسلک تنظیمیں، ادارے یا حکومت جاری کرتے رہتے ہیں،انہیں جنسی استحصال کے سدباب کے لئے اُن اسباب کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جس کے سبب مذہبی و انسانی اقداروں کو برباد کردیا جاتا ہے۔ بالا سطور میں درج اعداد و شمار اُن کمیشن کی رپورٹ سے اخذ کئے گئے جنہوں نے جنسی استحصال کے بڑھتے واقعات پر ذمے داروں کا تعین کیا۔ جنسی استحصال اور زیادتی کے واقعات سے بچاؤ کے لئے ہر سطح پر آگاہی، دنیا کے تمام ممالک کو یکساں دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ ایسا مربوط نظام اپنائیں جس میں سنگین جرائم کا ارتکاب کم سے کم ہو۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53961