Chitral Times

’’خربوزوں کی چوکیداری ‘‘ …………محمد عنصر عثمانی ، کراچی

Posted on

سانحہ قصورکے محرکات تلاشتی اس قوم کو کیا کہیں۔ہر ایک نے اپنے تائیں اندازے لگا کر قاتل کوقرار واقعی سزا ددینے کی آواز اٹھائی۔اچھا ہے قوم کو دیر سے ہی سہی ،مگر کچھ توانصاف مانگنے کاخیال آیا۔لیکن ساتھ ہی کئی طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں ،جو کہ دل دوز واقعے کے نشانات مٹاکر پھر سے مجرموں کو کھلا سانڈھ بنادیں گی۔سب نے اپنی اپنی لالٹینیں پکڑیں ،اور مدھم روشنی میں قیامت کی علامات دھونڈنے نکل کھڑے ہویے۔قیامت تو زینب کے گھر والوں پہ ،والدین پہ گزر گئی۔اولاد نعمت ہے،اس سے کون واقف نہیں ۔یہ آپ بھی جانتے ہیں ،اور زینب کے والدین بھی ۔پھر کیا وجہ ہے کہ کوئی جنسی تعلیم ناگزیر گردانتا ہے، کسی کو آگہی کا شوشا چھوڑنا ہے ،تو کسی نے نصاب تعلیم میں تبدیلی کانعرہ لگا رکھا ہے۔لبرل کو ایک اور دریا مل گیا ہے وہ اپنے ڈول بھر بھر کر کیچڑ اچھالیں گے،اور اس واقعے سے کس کس طرح کے نتائج اخذ کریں گے اورکررہے ہیں ،یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔

جب سب کا اپنا پانچ کلو کا بٹا ہے تو ، میرے بھائی جمہوریت اور قانون کوتو کھڈے لائن لگادینا چاہیے۔جناب سراج الحق صاحب کی تقریر نے ہر آنکھ کو اشک بار کردیا تھا۔متآثرہ خاندان سے ملاقات میں درد دل سے کہا : ’’ یہ ملک اقتداریوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔غریب کا توکوئی پرسان حال نہیں۔انہوں نے وزیر اعظم کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہویے کہا ،کہ جمہوری ملک کے سربراہ کو چاہیے تھا کہ وہ خود یہاں آتے ، یہاں ہی پڑاؤ لگاتے، اور خاندان والوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہویے مجرموں کو گرفتار کراکر اپنی نگرانی میں سزا دلواتے۔اپنے حسن ظن میں مشہور میاں شہباز شریف صاحب منہ اندھیرے آیے ، دعائیں دی،تسلیوں کی گردانیں پڑھیں، اور یہ جا وہ جا۔مجرم کو پتا نہیں زمین نگل گئی ، یا آسمان کھا گیا۔انصاف غریب کے لیے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔اگر یہ سانحہ کسی ایوان اقدار کے بچوں کے ساتھ پیش آتا تو دیکھتے آپ ، ملک کا پہیہ جام ہوجاتا۔انتظامیہ کی کرسیاں کھسکتی محسوس ہو تی، ادارے ہائی الرٹ ہوجاتے ،اور بڑے بڑے مگر مچھ تالابوں سے باہر نکل آتے ۔لیکن قصور جیسے شہر جہاں12 معصوم بچیوں کو درندگی کانشانہ بنایا گیا ، تو حکرانوں کے جوں تک نارینگی۔اس لیے زینب کے والدنے کہا :’’غریب تو سب کیڑے مکوڑے ہیں،اور قانون بنا ہی اشرافیہ کی خدمت کے لیے ہے۔‘‘

انتہائی دکھ کی بات ہے کہ سارے سیاسی رہنما ایسے دل دوز سانحات کے بعد اپنے سیاسی بیان بازی سے لواحقین کو مزید کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔اس پر مستضاد کہ غیر فعال افسران کی طرف سے بھی جو زبان استعمال کی جاتی ہے ، وہ زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتی ہے۔کیا سیاسی رہنماؤں کو ملک کے نظام آئین ، نظام عدل و قانون کا علم نہیں۔یا پھر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک کہ بعدایک بعد 12 معصوم و بے گناہ لاشوں پہ حکومت دھماچوکڑی مچا رہی ہے۔سانحہ قصور ہمیں کئی رخ دے گیا ۔بہت درددل سے اور سرکو شرم سے جھکا لیتا ہوں، جب ننھی زینب پہ گزرا وقت یاد آتا ہے ۔رونگٹے کھڑے کردینے والے وہ لمحات ، ذرا حکمران چشم تصور سے اپنی اولاد کے ساتھ محسوس کریں ۔جگر منہ کو آنکھیں ماتھے سے جالگیں گیں۔

زینب کے والدین اپنی ننھی پری کی جدائی کے غم سے نہیں نکل پایے۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ حکومت وقت سے انصاف ملنے کی کوئی امید لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ان کے جگرکا تکڑا تو جنت کے محلات میں ہوگا ،لیکن لمحہ فکریہ حکومت ،ایوان اقدار کے شیروں ،اور سیاسی بیان بازی میں خود سر ، اور بااثر لیڈروں کے لیے ہے،کہ ملزم ابھی تک ان کے ہاتھ سے کوسوں دورہے۔ ہر شہری کو کئی طرح کے مسائل کاشکار کردیا گیا۔ سیاست دان میڈیا ،الغرض ہر ایک نے عوام کو ایسی لال لائٹ کے یچھے لگا دیا ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں۔اور اصل امتحان جس میں یہ پوری قوم جکڑی ہوئی ہے ، اس سے نہ کسی حکمران کو سروکار ہے، اور نہ عوامی سوچ میں اس کا کوئی مثبت رد عمل نظر آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جرائم نیا منہ لے کر پید اہوجاتا ہے،اور مجرم سنگین نوعیت کی وارداتیں کر کے بھی آزاد گھومتے ہیں۔یہ ہمارے ناقص قانون ، تفتیشی عمل کی ناکامی، اور پیچیدہ عدالتی نظام کے لیے آئینہ نہیں تو اور کیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں سخت سزاؤوں کا فقدان ہے۔کیوں کہ ہم خدا رسول کے نہیں ، امریکہ ویورپ کے جواب دہ ہیں ۔اگر قاتل کو پھانسی دے کر اسی کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا جایے تو ہماری تہذیب کو بے بہرا ہونے کا طعنہ ملے گا ۔ اور ہمارے حکمران یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایساکیا تو وہ قدامت پسند کہلائیں گے ۔انسانی حقوق سے نابلد وعہد حاضر کے تقاضوں سے ناآشنا قرار دیے جائیں گے۔ہم نے خود ہی خربوزوں کی چوکیداری کے لیے گیدڑ بیٹھا رکھے ہیں ۔اور جب تک ہم باڑ لگا کر خربوزوں کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے ،سانحہ قصور جیسے واقعات رکنے والے نہیں۔ تادم تحریرراجن پور سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ ایک بچی کی زیادتی شدہ لاش ملی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
4715

قصور واقعہ ۔ ۔ ظلم و بربریت کی اندوہناک کہانی ۔………فکروخیال۔ فرہاد خان

Posted on

 

قصور کے افسوسناک واقعے پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چُکا، زینب کے ساتھ بربریت کی جو داستان رقم ہوئی اس پر ہر آنکھ پُرنم ہے اور ہر دل پر گہرا بوجھ ، کسی نے بہت ہی اچھی بات کہی کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کا دل کالا ہے ، زہن اور ضمیر کالے ہیں اور خون بھی کالا۔ بظاہر یہ بھی ہماری طرف انسان ہیں مگر انسانیت کے نام پر ایسے دھبے ہیں کہ ان کے سامنے شیطانیت بھی شرمندہ ہوجاتی ہے ، زینب کا واقعہ کوئی نیا نہیں ایسے کئی واقعات ہوئے  ان کے مجرم پکڑے گئے نہ مظلومون کی داد رسی ہوئی ، ہوس کے پچاریون کی پکڑ ممکن ہوئی اور نہ معصوم کلیون کو کچلنے اور مسلنے کے سلسلے بند ہوئے ،یہ جو بربریت ہے ازل سے جاری ہے اور وجہ یہ ہے کہ کسی مجرم کو بھی اب تک عبرتناک سزا نہ دی جاسکی ،جب قاتل بے خوف دندناتے پھرتے ہوں ، جب ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے ایف ائی ار تک درج کرنے میں دشواری ہو، جب غریب انصاف کےلئے در در کی ٹھوکرین کھارہے ہوں اور جب قاتلون کو ہار پہنا کر فتح کے نشان کے ساتھ پرتپاک انداز میں رہا کرکے لے جایا جاتا ہو تو انصاف کہان ڈھونڈیں ، داد رسی کی امید کس سے کی جائے اور جب اندھے گونگے اور بہرے نگہبان ہوں تو انصاف ملے کہان سے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قصور میں اسی ایک ماہ کے دوران بارہ بچے اغوا ہوچکے ، اور خدشہ یہ ہے کہ انجام ان سب کا زینب جیسا ہو، کہا جاتا ہے کہ انصاف ہوگا اور قاتلون کو کیفرکردار تک پہنچایا جائیگا مگر وہی پرانی وعدے اور وہی پرانی یقین دہانیان ، ہم بھی صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ قاتلون کی جلد گرفتاری ممکن ہو، اور مظلومیں کو انصاف ملے ، قاتلون کو عبرتناک سزا ملے اور ایسی سزا ملے کہ ائندہ کسی کو ایسا قبیح کھیل کھیلنے کی جرات نہ کرے ۔ عدل و انصاف کے رکھوالون سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ متاثرہ خاندان سمیت دوسرے متاثرین کو انصاف ملے ۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق دو ہزار پندرہ سے دو ہزار سترہ کے دوران اب تک صرف قصور ضلع میں سات سو اکیس بچے اغوا ہوئے جن کی عمریں پانچ سے گیارہ سال کے درمیان تھیں،زیادتی کا نشانہ بنے اور پھر ان میں سے کئی بےرحمی سے قتل کردیئےگئے۔ان پے درپے واقعات پر سنجیدگی سے کسی نے بھی نوٹس نہیں لی اوراب تک کے حالات اس نہج پر ہیں کہ غریب انصاف کی امید سے دل برداشتہ ہے اور صاحب ثروت لوگ تو پیسے کے بل بوتے قاتلون کو اذاد کرواکر رفو چکر ہوجاتے ہیں ، زینب کے خون کا حساب بھی کس طرح لیا جائے گا اس پر ایک گومگو کی کیفیت ہے ، دل نہیں مان رہا کہ انصاف ملے گی ، زہن اب تک اس بات پر راضی نہیں کہ قاتلون کو عبرتناک سزا ہوگی کیونکہ ہمارے نظام کی خامیان اس قدر ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور پھر ان سے عدل و انصاف کی توقع اور وہ بھی ایک بےبس والدین ،کیا یہ ممکن ہے ۔اللہ کرے کہ ایسے درندہ صفت لوگوں کا انجام اس قدر دہشتناک ہو کہ ائندہ ایسا کرنے سے پہلے کوئی سو بار سوچ لے ۔ زینب کے معاملے پر بھی انصاف کے لئے دعا ہی کرسکتے ہیں گو کہ قاتل کی تلاش جاری ہے مگر سوچنے کا مقام یہ ہے اس قبیح سوچ کو کیسے ختم کیا جائے ، ان جیسے گھناونے جرائم کو انجام دینے والے معاشرے کے ناسور لوگوں کی اس گری ہوئی سوچ کا خاتمہ کیسے ممکن ہو ، کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر کام ایسے ایسے کرتے ہیں کہ عرش ہل جاتا ہے ، قہرخداوندی کب نازل ہو بس اس کی دیر ہے ورنہ انسان کہلانے کے قابل نہیں رہے ، زینب کے خون کا حساب کون دے گا اور نازک پھولون کو کچلنے والے کب پکڑے جائیں گے۔ پنجاب کے ہمارے محترم وزیر اعلی ابھی تک ایسے کئی واقعات کا صرف نوٹس لینے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے، ان نوٹس پر عمل درامد ابھی تک صفر ہے ،سیاسی بنیادون پر کیسز کا درج کیا جانا یا اثررسوخ کی بنا پر ان کیسز پر عمل درامد نہ ہونا افسوسناک ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مظلوم غریب خاندان کو کئی طرف سے ڈرا دھمکا کر اس قدر بے بس کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے کیسز سے خود دستبردار ہوجاتے ہیں اور صلح کے نام پر ان پر دباد ڈال کر کیس ختم کردیئےجاتےہیں، پنچائیت کے فرسودے فیصلےاب بھی صادر ہوتے ہیں اور اس معاملے میں ہماری پولیس برابر کے زمہ دار ہے،۔حرف آخر یہ ہے کہ اسجیسے سوچ کے خلاف جہاد وقت کی اہم ضرورت ہے ایسے قبیح واقعات کے خلاف جہاد اور معاشرے کو باخبر رکھنے کی زمہ داری ہم سب کی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4476