Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قصور واقعہ ۔ ۔ ظلم و بربریت کی اندوہناک کہانی ۔………فکروخیال۔ فرہاد خان

Posted on
شیئر کریں:

 

قصور کے افسوسناک واقعے پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چُکا، زینب کے ساتھ بربریت کی جو داستان رقم ہوئی اس پر ہر آنکھ پُرنم ہے اور ہر دل پر گہرا بوجھ ، کسی نے بہت ہی اچھی بات کہی کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کا دل کالا ہے ، زہن اور ضمیر کالے ہیں اور خون بھی کالا۔ بظاہر یہ بھی ہماری طرف انسان ہیں مگر انسانیت کے نام پر ایسے دھبے ہیں کہ ان کے سامنے شیطانیت بھی شرمندہ ہوجاتی ہے ، زینب کا واقعہ کوئی نیا نہیں ایسے کئی واقعات ہوئے  ان کے مجرم پکڑے گئے نہ مظلومون کی داد رسی ہوئی ، ہوس کے پچاریون کی پکڑ ممکن ہوئی اور نہ معصوم کلیون کو کچلنے اور مسلنے کے سلسلے بند ہوئے ،یہ جو بربریت ہے ازل سے جاری ہے اور وجہ یہ ہے کہ کسی مجرم کو بھی اب تک عبرتناک سزا نہ دی جاسکی ،جب قاتل بے خوف دندناتے پھرتے ہوں ، جب ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے ایف ائی ار تک درج کرنے میں دشواری ہو، جب غریب انصاف کےلئے در در کی ٹھوکرین کھارہے ہوں اور جب قاتلون کو ہار پہنا کر فتح کے نشان کے ساتھ پرتپاک انداز میں رہا کرکے لے جایا جاتا ہو تو انصاف کہان ڈھونڈیں ، داد رسی کی امید کس سے کی جائے اور جب اندھے گونگے اور بہرے نگہبان ہوں تو انصاف ملے کہان سے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قصور میں اسی ایک ماہ کے دوران بارہ بچے اغوا ہوچکے ، اور خدشہ یہ ہے کہ انجام ان سب کا زینب جیسا ہو، کہا جاتا ہے کہ انصاف ہوگا اور قاتلون کو کیفرکردار تک پہنچایا جائیگا مگر وہی پرانی وعدے اور وہی پرانی یقین دہانیان ، ہم بھی صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ قاتلون کی جلد گرفتاری ممکن ہو، اور مظلومیں کو انصاف ملے ، قاتلون کو عبرتناک سزا ملے اور ایسی سزا ملے کہ ائندہ کسی کو ایسا قبیح کھیل کھیلنے کی جرات نہ کرے ۔ عدل و انصاف کے رکھوالون سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ متاثرہ خاندان سمیت دوسرے متاثرین کو انصاف ملے ۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق دو ہزار پندرہ سے دو ہزار سترہ کے دوران اب تک صرف قصور ضلع میں سات سو اکیس بچے اغوا ہوئے جن کی عمریں پانچ سے گیارہ سال کے درمیان تھیں،زیادتی کا نشانہ بنے اور پھر ان میں سے کئی بےرحمی سے قتل کردیئےگئے۔ان پے درپے واقعات پر سنجیدگی سے کسی نے بھی نوٹس نہیں لی اوراب تک کے حالات اس نہج پر ہیں کہ غریب انصاف کی امید سے دل برداشتہ ہے اور صاحب ثروت لوگ تو پیسے کے بل بوتے قاتلون کو اذاد کرواکر رفو چکر ہوجاتے ہیں ، زینب کے خون کا حساب بھی کس طرح لیا جائے گا اس پر ایک گومگو کی کیفیت ہے ، دل نہیں مان رہا کہ انصاف ملے گی ، زہن اب تک اس بات پر راضی نہیں کہ قاتلون کو عبرتناک سزا ہوگی کیونکہ ہمارے نظام کی خامیان اس قدر ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور پھر ان سے عدل و انصاف کی توقع اور وہ بھی ایک بےبس والدین ،کیا یہ ممکن ہے ۔اللہ کرے کہ ایسے درندہ صفت لوگوں کا انجام اس قدر دہشتناک ہو کہ ائندہ ایسا کرنے سے پہلے کوئی سو بار سوچ لے ۔ زینب کے معاملے پر بھی انصاف کے لئے دعا ہی کرسکتے ہیں گو کہ قاتل کی تلاش جاری ہے مگر سوچنے کا مقام یہ ہے اس قبیح سوچ کو کیسے ختم کیا جائے ، ان جیسے گھناونے جرائم کو انجام دینے والے معاشرے کے ناسور لوگوں کی اس گری ہوئی سوچ کا خاتمہ کیسے ممکن ہو ، کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر کام ایسے ایسے کرتے ہیں کہ عرش ہل جاتا ہے ، قہرخداوندی کب نازل ہو بس اس کی دیر ہے ورنہ انسان کہلانے کے قابل نہیں رہے ، زینب کے خون کا حساب کون دے گا اور نازک پھولون کو کچلنے والے کب پکڑے جائیں گے۔ پنجاب کے ہمارے محترم وزیر اعلی ابھی تک ایسے کئی واقعات کا صرف نوٹس لینے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے، ان نوٹس پر عمل درامد ابھی تک صفر ہے ،سیاسی بنیادون پر کیسز کا درج کیا جانا یا اثررسوخ کی بنا پر ان کیسز پر عمل درامد نہ ہونا افسوسناک ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مظلوم غریب خاندان کو کئی طرف سے ڈرا دھمکا کر اس قدر بے بس کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے کیسز سے خود دستبردار ہوجاتے ہیں اور صلح کے نام پر ان پر دباد ڈال کر کیس ختم کردیئےجاتےہیں، پنچائیت کے فرسودے فیصلےاب بھی صادر ہوتے ہیں اور اس معاملے میں ہماری پولیس برابر کے زمہ دار ہے،۔حرف آخر یہ ہے کہ اسجیسے سوچ کے خلاف جہاد وقت کی اہم ضرورت ہے ایسے قبیح واقعات کے خلاف جہاد اور معاشرے کو باخبر رکھنے کی زمہ داری ہم سب کی ہے۔


شیئر کریں: