Chitral Times

بچے تو سب کے سانجھے ہیں ………….محمد شریف شکیب

Posted on
خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیم کا بجٹ 118ارب روپے سے بڑھا کر 138ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ این ٹی ایس کے ذریعے 40ہزار اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں مزید پندرہ ہزار اساتذہ بھرتی کئے جائیں گے۔ جس سے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری ہوگی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبے بھر میں 28ہزار 178سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں ۔جن میں 406ہائر سیکنڈری، 2108ہائی،2642مڈل اور 23022پرائمری سکول شامل ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 23ہزار325ہے۔ جن میں پرائمری اساتذہ کی تعداد 72ہزار 110ہے۔ مڈل سکولوں میں 15ہزار 183اساتذہ پڑھاتے ہیں ۔ہائی سکولوں کے اساتذہ کی تعداد 26ہزار471جبکہ ہائر سیکنڈری سکولوں کے تدریسی عملے کی تعداد 9ہزار 561ہے۔صوبائی حکومت نے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ اس شعبے میں گذشتہ چار سالوں کے دوران نمایاں اصلاحات کی گئی ہیں۔ سٹاف اور سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بھی کام ہورہا ہے۔جن میں چاردیواری کی تعمیر، فرنیچر، سٹیشنری ، بجلی، پانی اور بیت الخلاء کی سہولیات کے ساتھ سائنس، کمپیوٹر لیب اور لائبریریوں کے قیام کے منصوبے شامل ہیں۔اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ غیر حاضر اور دیر سے آنے والوں کو جرمانے بھی کئے جارہے ہیں۔ تعلیم کے لئے مختص118ارب روپے کے بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ اساتذہ کی تنخواہوں ، پنشن، مراعات اور تربیت پر خرچ کیا جاتا ہے۔چونکہ سرکاری سکولوں پر خرچ ہونے والی رقم قومی خزانے سے آتی ہے۔ اس لئے قوم کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کی پائی پائی کا حساب رکھنا ضروری ہے۔ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کا یہ عمل مکمل نہیں ہوا۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جن میں بھوت سکولوں کا کھوج لگانا، ان میں تعینات بھوت اساتذہ اور دیگر سٹاف کی تنخواہیں روکنا، محکمہ تعلیم کے اہلکاروں اور بھوت اساتذہ سے تنخواہوں اور مراعات کی مد میں لوٹی گئی رقم واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرنا بھی شامل ہے۔ حکومت کے لئے سرکاری سکولوں کا معیار پرائیویٹ سکولوں کے مساوی لانا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ صوبے کے آٹھ تعلیمی بورڈز کے تحت ہونیو الے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں کوئی سرکاری سکول ٹاپ ٹین میں جگہ نہیں بناسکا۔ جو اس حقیقت کا مظہر ہے کہ سرکاری سکولوں کے نصاب اور طریقہ تدریس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ساتھ ہی سرکاری تعلیمی اداروں سے نااہل اور سفارشی عملے کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ جس کے بغیر معیار بہتر بنانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکتیں۔سرکاری سکولوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے اور معیار بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی ارکان، منتخب نمائندوں، محکمہ تعلیم کے ادنیٰ و اعلیٰ افسروں کو اپنے بچے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے کا پابند بنایا جائے۔صوبائی حکومت اور محکمہ تعلیم کو سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ پرائیویٹ اداروں اور مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں بچوں کی بھی خبرلینی چاہئے۔ کیونکہ یہ بھی اسی قوم کے بچے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں دینی مدارس کی تعداد بارہ ہزار سے زیادہ ہے جن میں 80ہزار بچے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دینی مدارس میں پڑھنے والے 90فیصد طلباوطالبات کے والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے مدارس میں بھیجتے ہیں۔ جہاں انہیں مفت تعلیم کے ساتھ رہائش کی سہولت بھی ملتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں 9لاکھ سے زیادہ بچے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں صوبہ بھر میں سات ہزار پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں جن میں 70ہزار اساتذہ کو روزگار ملا ہوا ہے۔ ضلع پشاور میں 13ہزار تعلیم یافتہ نوجوان پرائیویٹ سکولوں میں تدریس سے وابستہ ہیں صوبائی دارالحکومت میں دو لاکھ چالیس ہزار بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیم کے لئے مختص 138ارب سالانہ بجٹ سے پرائیویٹ سکولوں اور مدارس کے بچوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔پرائیویٹ سکول اور مدارس صوبے میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے ساتھ شرح خواندگی بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس لئے قومی وسائل میں ان کا بھی حق بنتا ہے۔صوبائی حکومت، ماہرین تعلیم اور منصوبہ سازوں کو فروغ تعلیم کے لئے پالیسی وضع کرتے ہوئے پرائیویٹ اداروں اور مدارس میں زیرتعلیم طلبا و طالبات کے مفادات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ بچے تو سب کے سانجھے ہیں چاہے وہ سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہوں، پرائیویٹ سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں حصول تعلیم کے لئے کوشاں ہوں۔
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6266

اخلاقیات پر مبنی نصاب……….. محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا حکومت نے اخلاقیات پر مشتمل مضامین تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اساتذہ کو بھی کلاس میں اخلاقیات پر درس دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جن اخلاقی مضامین کو نصاب میں شامل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے ان میں صحت اور ماحول کی حفاظت، انسان دوستی، صلہ رحمی، کفایت شعاری، امداد باہمی، والدین، خواتین اور بڑوں کا احترام، دیواروں پر لکھائی، گلیوں اور سڑکوں میں کوڑا کرکٹ اور گندگی پھیلانے سے پرہیز، ٹریفک قوانین کی پابندی، غریبوں اور محتاجوں کی مدد، چغل خوری اور تمباکو نوشی سے اجتناب جیسے موضوعات شامل ہیں۔چیف سیکرٹری نے اس حوالے سے محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کو احکامات جاری کردیئے ہیں۔ 35اخلاقی موضوعات پر لیکچر دینے کا سلسلہ تمام سرکاری سکولوں میں عنقریب شروع کیا جائے گا جبکہ اخلاقیات پر مشتمل مضامین کو اگلے تعلیمی سال سے نصاب میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔بچوں کو پڑھائی جانے والی درسی کتابوں میں جن مضامین کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ان کی تلقین دین اسلام نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی تھی۔اگر ہم قرآن حکیم اور سیرت طیبہ کا بغور مطالعہ کریں تو یہ ساری تعلیمات وہاں موجود ہیں۔ لیکن ہم نے قرآن کو طاقوں میں سجانے، گھر سے باہر نکلتے وقت چومنے،قسمیں اٹھانے، نماز کی ادائیگی اور رٹ کر امتحانات پاس کرنے تک ہی محدود کردیا ہے۔ قرآن کریم میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمانوں ، سمندروں اور ان میں موجود تمام چیزوں کو انسان کے لئے مسخر کردیا ہے۔ قرآن پاک کی اسی آیت پر تحقیق کرکے اغیار نے خلائی جہاز، راکٹ اور آبدوز بنائے، آسمان کی وسعتوں کو ناپنے اور نئے نئے سیاروں کی تلاش میں نکل پڑے۔ سمندروں کی تہہ میں سرنگیں بنائیں۔اس کی تہہ میں تیل تلاش کیا۔ پہاڑوں کو چیر کر لعل و گہر جمع کئے۔آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہونے لگتی ہیں یہ سارا علم قرآن سے لیا گیا ہے ۔ ہم نے ان تعلیمات کو یکسر بھلادیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ذاتی اور گھریلو استعمال کی معمولی چیزوں سے لے کر دفاعی سامان،تعلیم،صحت،زراعت کی جدید ٹیکنالوجی کے لئے غیروں کے محتاج ہیں۔جن اخلاقی مضامین کو نصاب میں شامل کرنے کی بات ہورہی ہے۔ وہ ایک مسلمان بچے کو ماں کی گود سے لے کر گھر کی دہلیز پرپہنچنے تک سیکھنا چاہئے۔ والدین کا احترام، بڑوں کی عزت کرنا، سلام میں پہل کرنا، معمول کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا، جھوٹ نہ بولنا، غیبت، چاپلوسی، چغل خوری سے پرہیز کرنا، قانون کی پاسداری، اپنے بدن، لباس اور ماحول کو پاک صاف رکھنا، گندگی پھیلانے سے گریز کرنا اور بری عادتوں سے دور رہنے کی تلقین بچے کو اس وقت سے ہی کی جانی چاہئے جب وہ توتلی زبان میں بول چال شروع کرتا ہے۔ شاعر مشرق نے فرمایا تھا کہ شجر سے پیوستہ رہتے ہوئے بہار آنے کی امید رکھنی چاہئے۔ جب شجر ہی نہیں رہے گا تو کونپلیں ، پتے اور پھول نکلیں گے نہ ہی سایہ ،پھل ایندھن ملے گا۔اخلاقیات پر بچوں کی تربیت کا عمل گھر سے شروع ہونا چاہئے۔ سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایک سال سے پانچ سال تک کی عمر میں بچے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ساری عمر نہیں بھولتے۔کیونکہ بچے کا دماغ کورے کاغذ کی مانند ہے۔ اس میں پہلی تحریر انمٹ ہوتی ہے۔دین اسلام کی طرح سائنس نے بھی ابتدائی عمر میں بچوں کی تعلیم و تربیت ، انہیں اخلاقی اقدار سے روشناس کرانے کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ والدین کا کام بچوں کو کھلانا پلانا اور ان کی فرمائشیں پوری کرنا ہی نہیں۔ بلکہ ان کااصل کام بچوں کو بہترین تربیت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ بڑے ہوکر معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔گھر کے ماحول سے نکلنے والا سلجھا ہوا بچہ ہی اچھاطالب علم اور عملی زندگی میں بہتر انسان بن سکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو جن گوناگوں مسائل کا سامنا ہے اس کی اہم وجوہات میں دین کو نہ سمجھنا، اسلامی تعلیمات اور اقدار سے دوری اور اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈالنابھی شامل ہے۔اخلاقیات پر مبنی مضامین نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محراب و منبر سے بھی اسلامی اخلاقیات پر درس دینا لازمی قرار دیا جائے۔ تاکہ امت مسلمہ کو اس کے اساس کے قریب لایاجاسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2476