Chitral Times

قصور کی ننھی زینب کا قصور؟ ……….محمد شریف شکیب

Posted on

پنجاب کے شہرقصورسے تعلق رکھنے والی سات سالہ معصوم بچی زینب امین کی فائل فوٹو اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پڑی اس کی لاش کی تصویردیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ زینب کے والدین بچوں کو ان کے چچا کے گھر چھوڑ کر عمرہ ادا کرنے گئے تھے۔ ننھی زینب چار کلمے یاد کرچکی تھی۔ پانچواں کلمہ پڑھنے کے لئے معمول کے مطابق گھر سے نکلی۔ اور لاپتہ ہوگئی۔ چچا نے پولیس میں رپورٹ درج کرادی۔ پولیس نے ایک ماہ کے دوران اسی نوعیت کے درجن بھر کیسز میں ملزموں کا سراغ لگانے کے لئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بھی بنادی۔ چار دن بعد زینب کی تلاش پر مامور پولیس اہلکار کو کسی نے اطلاع دی کہ کچرے کے ڈھیر پر ایک بچی کی لاش پڑی ہے۔علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جس پولیس اہلکار نے زینب کی لاش ڈھونڈ لی تھی انہوں نے زینب کے چچا سے چھ ہزار روپے انعام بھی لیا۔چشم تصور سے دیکھا جائے کہ اجتماعی زیادتی کے دوران ننھی زینب پر کیا گذری ہوگی۔تواس تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔زینب کی سانسیں جب اکھڑ رہی تھیں تو آسمان کیوں نہ رویا۔زمین کیوں نہیں پھٹی ۔ اس سانحے کے بعد اگر وہ زندہ بھی رہتی تو زندہ لاش بن کر جیتی۔ پولیس کہتی ہے کہ قصور میں گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد انہیں جان سے مارنے کے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ کوئی ایک جنونی اور اذیت پسندشخص ہے۔زینب کی عمر کی بچیاں پاکستان کے تقریبا ہر گھر میں موجود ہیں۔ جس نے بھی یہ دردناک کہانی سنی یا دیکھی۔ انہیں ایسا لگا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک ہوا ہے۔زینب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہمارا قومی ضمیر مردہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔کوئی نصاب تعلیم کو دہائیاں دیتا ہے۔ کوئی پنجاب پولیس کی کارکردگی پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ کوئی کرپٹ حکومت کو واقعے کا ذمہ دار گردانتاہے۔ تو کوئی ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والوں کو ہی موردالزام ٹھہراتا ہے کہ نہ خواتین بن سنور کر گھروں سے نکلیں ۔اورنہ ہی ہوس کے پچاریوں کی درندگی کا نشانہ بنیں۔ہم نے آزادی کے بعد بہت سے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ ملک بھر میں یونیورسٹیوں، کالجوں، سکولوں، مدارس اور مساجد کا جال بچھا دیا ہے۔ لیکن انسانی قدروں کے بارے میں کسی سکول، مدرسے، کالج اور یونیورسٹی میں درس نہیں دیا جاتا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔اپنے فرقے، مسلک، عقیدے ، زبان، نسل اور قوم کے بارے میں بھی جاننے کا ہمیں شوق ہے۔ لیکن انسانیت کا سبق جو قرآن حکیم نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہمیں بتایا تھا۔ اسے یاد کرنے کی ہم نے کوئی کوشش نہیں کی۔ بیشک ہمیں بہترین مسلمان اور محب وطن پاکستانی بننا ہے مگر اس سے پہلے ہمیں بہترین انسان بن کر دکھانا ہے۔ جس دن انسانیت کا احترام کرنا سیکھ گئے۔ اس دن ہمارا ایمان مکمل ہوگا۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کو یہ حدیث مبارکہ یاد ہے کہ سرکاردوعالم کو بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا تھا۔ دنیا مانتی ہے کہ خاتم النبین نے احترام انسانیت اور اخلاق حسنہ کا وہ درس دیا۔ جس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن سرور کونین کے امتی ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود ہم نے دین اسلام کا یہ اہم ترین سبق یکسر بھلا دیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہمیں اخلاقی بے راہروی، اشتعال، تشدد اور منافرت کی صورت میں ہر طرف نظر آتا ہے۔ انسانوں کی شکل میں وحشی درندے ہمیں ہرطرف دندناتے پھیرتے نظر آتے ہیں مگر انہیں پکڑنے اور سزا دینے سے قانون بھی معذور ہے۔ زینب ظلم و ستم کا نشانہ بننے والی پہلی بچی نہیں۔ اس معاشرے میں جابجا ایسے مظلوم دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایسے واقعات ہر روز ملک کے کونے کونے میں رونما ہورہے ہیں۔ لیکن قوم سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس وجہ سے خاموش ہے کہ مظلوم کے لئے اٹھنے والی آواز دبادی جاتی ہے۔لیکن اس بار کراچی سے خیبر تک زینب پر ہونے والے ظلم کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں جس سے یہ امید پیدا ہورہی ہے کہ شاید ہمارا ضمیر جاگ چکا ہے۔ زینب نے اپنی عصمت اور ننھی جان کی قربانی دے کر قوم کے مردہ ضمیر کو جھجھوڑ کر جگا دیا ہے۔ قصور کی ننھی زینب کا قصور کیا تھا یہ کوئی نہیں جان سکتا۔ لیکن پیاری زینب۔ آپ نے قربانی دے کر قوم کو ایسا سبق دیا ہے جو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ہم سب زینب کے مقروض بھی ہیں اور ممنون بھی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4422

معجزہ رونما ہونے کی منتظرقوم ……….محمد شریف شکیب

Posted on

اگرچہ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں کوئی پوائنٹ آف نو ریٹرن نہیں ہوتا۔ کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں لیکن پاکستان اور امریکہ کے موجودہ تعلقات کو دیکھتے ہوئے چند لمحے کے لئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک ناقابل واپسی موڑ پر آگئے ہیں۔امریکہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف سترہ سالہ جنگ کے دوران دی گئی33ارب ڈالر کی امداد کا حساب مانگ رہا ہے اور پاکستان کوایران اور شمالی کوریا کے ساتھ واچ لسٹ میں شامل کیا ہے۔ تو دوسری طرف ہمارے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم نے اپنے وسائل سے لڑی ہے اور پندرہ سالوں میں پاکستان نے اس جنگ پر 120ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔ حکمران جماعت کے سربراہ کی طرف سے اب تک امریکی صدر کے الزامات اور دھمکیوں کے حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات سے کافی پریشان ہے۔ وہ امت مسلمہ، عالم اسلام، مملکت پاکستان ، قومی سلامتی جیسے موضوعات پر بات کرنا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں ، سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی طرف سے امریکہ مخالف جلسوں اور ریلیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی مذمت کے علاوہ امریکی پرچم نذر آتش کرنے اور صیہونی قوتوں کو بددعائیں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اس پر 1857کی جنگ آزادی کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آیا۔ انگریزفوج کی طرف سے جلیانوالہ باغ میں اندھادھند فائرنگ اور کئی مسلمانوں کو شہید کرنے کے واقعے کے خلاف امرتسر میں خواجہ سراوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں کہ ’’ خدا کرے کہ انگریزوں کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘ہماری حالت بھی ان خواجہ سراوں سے کچھ مختلف نہیں۔ ہم صرف بددعا ہی دے سکتے ہیں۔ اگرچہ پرائی جنگ میں ہمارا امریکی امداد سے کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے۔ مگر یہ بات مناسب وقت پر ہم امریکہ کو باور نہیں کراسکے۔ کیونکہ خارجہ تعلقات استوار کرنے کے لئے کافی عرصے تک ہمیں کوئی موزوں شخصیت نہیں مل سکی۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ نامناسب وقت پر مناسب بات کہنا اور مناسب وقت پر نامناسب بات کہنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آج اگرچہ ہماری بات مناسب ہے لیکن وہ بات کرنے کے لئے موقع نامناسب ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری سچی بات کابھی کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں ہماری قربانیاں خود ہمارے لئے طعنہ بن گئی ہیں۔یہودی لابی امریکہ کی مدد سے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں مصروف ہے۔ افغانستان، عراق، شام ، لیبیا، فلسطین ، بوسنیا،کشمیر اور ایران کے بعد پاکستان کو دبانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ 60اسلامی ممالک میں سے ترکی کے سوا کسی کی جرات نہیں ۔ کہ عالم اسلام کے ساتھ ہونے والی ان زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے غیر مبہم اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکہ کو ایران اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ ہمارے لیڈر شاید ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستانی یا پاکستان کو کسی امریکی ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے سرکاری سطح پر امریکی صدر کے بیان کو ایک خود مختار جوہری صلاحیت رکھنے والے اسلامی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں سمجھا۔دوسری جانب خود امریکی حکومت اعلان کررہی ہے کہ پاکستان نے اب تک امریکہ کو دی جانے والی ٹرانزٹ سہولت واپس لی ہے نہ ہی افغانستان میں اتحادی افواج کو سامان اور اسلحہ کی فراہمی روک دی ہے۔انہیں شاید کسی نے بتا دیا ہے کہ پاکستانی قوم اس وقت اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کہیں مذہب، مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہیں تو کہیں علاقے، قومیت اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے کا خون بہایاجارہا ہے۔ اقتدارکی ہوس نے ہمارے لیڈروں کو اندھا کردیا ہے۔ انہیں ملک کو درپیش سنگین صورتحال کا کوئی ادراک نہیں۔ وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی، بہتان طرازی، گالم گلوچ اور نیچا دکھانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ لوگوں کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر دامن گیر ہے۔ اور دشمنوں کو کھل کر اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ قوم اس امید پر جی رہی ہے کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور کوئی غیرت مند ، باکردار اور مخلص قیادت سامنے آئے اور بھنور میں پھنسی قوم کی نیا کو پار لگادے۔ ہوسکتا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت میں ایسا کوئی معجزہ رونما بھی ہوجائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4200