Chitral Times

پھر کب آؤ گے؟کراچی کی آخری رات اور اب سفرِ اسلام آباد.

Posted on

 

بالآخر آشا جیت گئی اور ہم ہار گئے۔ ہم نے اپنی گزشتہ کسی تحریر میں کہا تھا کہ ’’اب تین مہینے تک آشا کارٹونز سے دل بہلاتی ہے یا پریشاں رہ کر ہمارا دل تڑپاتی ہے۔‘‘ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ دن تو خیر دن ہوتا ہے۔ جیسے تیسے گزر ہی جاتا ہے۔ مگر یہ کم بخت رات گزرنے کا نام نہیں لیتی۔ آشا بھی دن کو کارٹونز وغیرہ دیکھ کے دل ضرور بہلاتی لیکن رات کو سوتے وقت جب میں اس کو بیڈ پہ سلانے کی کوشش کرتا تو کہتی ’’بابا! تم اپنے بیڈ پہ سو جانا اِدھر میرے پاش (پاس) مما شوئے (سوئے) گی۔‘‘ میں جل کے کہتا ’’بیٹا! مما تو گلگت میں ہے۔‘‘ تو اپنی توتلی زبان میں کہتی ’’نہیں نہیں بابا! مما خواب میں آئے گی تو کہاں شوئے(سوئے) گی؟‘‘ میرا دل کٹ سا جاتا میں کہتا ’’بیٹا ٹھیک ہے مما کے لیے تو بہت ساری جگہ ہے وہ اُس طرف سوئے گی اور میں اِس طرف۔ سنا ہے مما پاپا کے بیچ نیند بہت اچھی آتی ہے۔‘‘ وہ پھر کہنے لگتی ’’بابا اِس طرف تو اذین کاکا شوئے گا۔‘‘ اب بندہ کرے تو کیا کرے۔ بڑی مشکلوں سے ننھی آشا نیند کی آغوش میں چلی جاتی اور میں اپنے بیڈ پہ آکے دراز ہوتا۔ نیند نہیں آتی تو غزل سنتا یا کافی کا مگ لے کے گیلری میں جاتا اور رات سے تنہائیاں بانٹتا۔ فرحت عباس شاہ نے خوب ہی کہا ہے؎

تو ہے سورج، تجھے معلوم کہاں رات کا دُکھ

تو کسی روز میرے گھر میں اُتر شام کے بعد

بس یہ روز کا معمول تھا۔

اُدھر سے میری مسز فون پہ کہتیں کہ اذین آشا کو بہت یاد کرتا ہے۔ آشا کی یاد میں دو دفعہ بخار بھی چھڑا ہے۔‘‘ اب اتنا سب کچھ سننے اور سہنے کے بعد بھی تین مہینے کا انتظار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ فوری طور پر آشا کے ڈاکٹر سے میٹنگ کی اور ان کو ساری تفصیلات بتائی تو انہوں نے کمال مہربانی سے اجازت دی اور کہا کہ ’’سر! آپ دو مہینے بعد ان کو لے آجائے کیونکہ آپریشن اچھا ہوا ہے، سٹی اسکین اور ایکسرے کی رپورٹ بھی بہت اچھی ہے، اس لیے ہم تین مہینے کے بجائے دو مہینے میں ہی پلستر اٹھائیں گے اور اس کے بعد انشااللہ آشا چلنے لگے گی۔‘‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اب گھر جانے کی خوشخبری آشا کو دیدی کیونکہ وہ جیت گئی تھی اور ہم ہار گئے تھے اس لیے فوری طور پر ٹکٹ لی اور آشا کو کل رات سونے سے پہلے میں نے کہا ’’بابا جانی! کل ہم جہاز میں بیٹھ کے مما اور اذین کاکا کے پاس جائیں گے۔‘‘ آشا یہ سب سن کر بہت خوش ہوئی۔ پھر یہ نہیں کہا کہ بابا! تم اپنے بیڈ پہ جاؤ بلکہ مجھ سے کہا کہ ’’بابا! جلدی ادھر ہی سو جاؤ کل مما اور کاکا کے پاش (پاس) جانا ہے۔‘‘

ننھی آشا تو دل میں ارمانوں کا ہجوم لیے سو گئی۔ وہ خوش تھی ان کو اپنی مما اور اپنے پیارے کاکا کے پاس جانا تھا۔ اس لیے وہ سو گئی۔ اببس کوئی اور تھا تو صرف کراچی کی آخری رات، تنہائیاں اور ہم۔ نہ جانے پروین شاکر کی یہ غزل کیوں سونے نہیں دے رہی تھی؎

آج کی شب تو کسی طور گزرے جائے گی

آج کی شب تو بہت کچھ ہے، مگر کل کے لیے

ایک اندیشۂ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں

دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد

رنگِ اُمید کھلے گا کہ بکھر جائے گا

وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا

جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا

خواب کا شہر رہے گا کہ اُجڑ جائے گا

کہتے ہیں وقت نہیں رُکتا لیکن کہیں نہ کہیں ہم رُک جاتے ہیں۔ سرخ اینٹوں سے بنے کسی آنگن میں کہیں باورچی خانے میں چولہے کے پاس دھری پیڑھی پر یا کسی چھت پر لیٹے تارے گنتے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب لمحے ہمیں قید کر لیتے ہیں۔ کوئی چائے کی پیالی ایسی ہوتی ہے کہ جس کا ذائقہ زبان کبھی بھول نہیں پاتی۔ کوئی سرگوشی، کوئی مسکراہٹ، کوئی مہک، کوئی قہقہ، کوئی آنسو، کوئی سناٹا، تمام عمر کے لیے زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے۔ پُرانی یادوں پر نئی یادیں سجانا درحقیقت ایک مشکل امر ہے جبھی تو ہم تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور زندگی مسکراتی ہوئی پاس سے گزر جاتی ہے۔

شہرِ قائد، کراچی یہ شہر بے مثال اس شہر کے ساتھ بڑی یادیں وابستہ ہیں۔ اس لیے اس کی گرفت سے رہائی مشکل لگتی ہے۔ ’’شہرِ قائد کے شب و روز‘‘ کے نام سے میرا سفرنامہ بھی آخری مراحل میں ہے جو اس محبت کی ایک کڑی ہے۔ اس کی مٹی میں ایک کشش ہے اب جب دفتر کی گاڑی ہمیں ائیر پورٹ چھوڑ کر چلی گئی۔ میں آشا کو گود میں لیے لمبے لمبے ڈھنگ برتا بورڈنگ کے پروسس سے ہوتے ہوئے ائیر پورٹ کے ویٹنگ روم پہنچا تھا۔ ہینڈ بیگ ایک طرف رکھا آشا کو گود میں لیے وہاں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ کر کھڑکیوں سے شہر قائد کا نظارہ کر رہا تھا۔ مٹی کی سوندھی سوندھی مہک کے ساتھ شرارتی ہوا کی جونکھیں میری کانوں سے ٹکراتی رہیں اور شاید یہ کہتی رہیں کہ ’’پھر کب آؤ گے؟؟؟‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
6658

آشا حد کردی بابا کی جانی!………..کریمی

کہتے ہیں بچے نقل اتارتے ہیں لیکن آج کل کے بچے نہ صرف نقل اتارتے ہیں بلکہ من کی بات جانتے ہیں یا یوں سمجھئیے کہ آپ کو شیشے میں اتارنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ میں جب بھی کھلے آسمان کی طرف دیکھتا ہوں۔ پھر دیکھتا ہی رہ جاتا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ میری ننھی پری آشا نوٹ کر رہی ہے۔ اب جب کراچی کی تنہائیاں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ ان سے راہِ فرار کا ذریعہ سجھائی نہیں دیتا تو میں آشا کو لے چھت پہ جاتا ہوں تو آشا پاپا مون دیکھو مون کا رٹ لگاتی ہے اور تکرار بھی کہ پاپا مجھے مون لاکے دو ناں۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ پاپا بھی مون کی روشنیوں میں صرف بھیگ سکتا ہے، اس کی ٹھنڈک کو اپنی روح کی گہرائیوں تک محسوس کرسکتا ہے لیکن اسے پا نہیں سکتا۔ میری جانب مسلسل خاموشی کو دیکھ کر آج تو آشا نے حد کردی۔ براہ راست اپنے ننھے ہاتھ چاند کی طرف اٹھاکے پتہ ہے کیا کہتی ہے۔ مون آؤ ناں میرے پاس۔ میں تمہیں بسکٹ کھلاتی ہوں۔ ہم کھیلتے ہیں پاپا بھی ہیں۔ حد کرتے ہیں یار یہ بچے بھی۔ اس دن آغا خان ہسپتال کے سبزہ زار میں بیٹھے میں ایک دفعہ پھر نیلگوں آکاش میں کھو گیا تھا۔ آشا نے مداخلت کی کہا پاپا! تمہیں سن بہت پسند ہے ناں۔ وہ دیکھو سن۔ سن مون کی طرح مہربان تھوڈی ہے؟ ایک دم آنکھوں میں چب جاتا ہے۔ آشا نے بھی اپنی آنکھوں میں چھبن محسوس کی لیکن باز نہیں آئی بلکہ میرے چشمے اتار کے خود پہنی اور ایک دفعہ پھر سن سے مخاطب ہوئی۔ وہی معصومانہ حرکتیں، وہ باتیں، وہی خواہشیں کہ سن آؤ ناں میرے پاس۔ میں تمہیں بسکٹ کھلاتی ہوں۔ ہم کھیلتے ہیں۔ پاپا بھی ہیں۔ یہ تصویر انہی معصوم خواہشوں کی عکاسی ہے۔ ننھی آشا اکثر مون، سن اور سٹارز سے باتیں کرتی رہتی ہے۔ ان کی ان حرکتوں کو دیکھ کر ایک آزاد نظم یاد آئی۔

 

Asha Karimi gilgit335555

 

ستاروں سے کہو

اب رات بھر ہم ان سے باتیں کر نہیں سکتے

کہ ہم اب تھک گئے جاناں!

ہمیں جی بھر کے سونا ہے

کسی کا راستہ تکنے کا یارا بھی نہیں ہم کو

مسافر آگیا تو ٹھیک ہے لیکن،

نہیں آتا تو نہ آئے

ان آنکھوں میں ذرا بھی روشنی باقی نہیں شاید

وگرنہ تیرگی ہم کو یوں گھیرے میں نہیں لیتی

مگر یہ سب،

ازل سے لکھ دیا تھا لکھنے والے نے

ستاروں سے کہو، بہتر ہے ہم کو بھول ہی جائیں

ہمیں آرام کرنا ہے

ضروری کام کرنا ہے

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
5832