Chitral Times

بزمِ درویش۔۔۔۔ حرم کعبہ کے عاشق ۔۔۔۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

کرہ ارض پر کروڑوں ایسے سحر انگیز منا ظر ہیں جن کو دیکھ کر بڑے سے بڑا منکرِ خدا بھی بے ساختہ پکا راُٹھتا ہے کہ اِس کا یقیناًکو ئی عظیم خا لق ہے ‘ایسے دل کش منا ظر کہ دیکھنے والا پتھر کا مجسمہ بن جا ئے ‘آنکھ جھپکنا بھو ل جا ئے ‘سانس رک جا ئے ‘دنیا سے بے خبر ہو جا ئے اور پھر ایسے بھی بے شمار منا ظر ہیں جن کو دیکھنے کے لیے انسان بار بار جانا چا ہتا ہے لیکن چند بار جانے کے بعد ہی انسان کا دل بھر جاتا ہے وہ کسی نئے منظر یا جزیرے کی تلا ش میں نکل پڑتا ہے ‘انسان یکسانت کا شکار ہو کر جلدی بو ر ہو جا تا ہے ‘انسا ن تنو ع پسند ہے ‘اختراع جدت کو پسند کر تا ہے ‘کسی بھی منظر کو چند بار دیکھنے کے بعد نیا منظر چاہتا ہے لیکن کر ہ ارض کا ئنات میں ایک ایسا منظر بھی ہے جیسے لا کھوں بار دیکھنے کے بعد بھی انسان کا دل نہیں بھر تا بلکہ ہر بار دیکھنے کے بعد پیا س اور بڑھ جاتی ہے ‘ہزاروں بار دیکھنے کے بعد بھی ہزاروں بار دیکھنے کی تمنا دل میں مچلتی ہے ‘میرے سامنے حرم کعبہ ایک دل نشیں بہت بڑے قالینی جائے نماز کی طرح بچھا ہوا تھا جس پر لاکھوں سجدے چاند ستا روں کی طرح چمک رہے تھے ‘آسمان کی ساری کہکشائیں حرم کعبہ کے حسن کو دوبالا کر نے کے لیے کعبہ کے صحن میں آکر سجدے کر رہی تھیں اِن کہکشاؤں کی وجہ سے حرم کعبہ دلہن کی طرح سجا ہوا تھا چاروں طرف رنگ و نور کے فوارے پھو ٹ رہے تھے چاند ستا رے غلا فِ کعبہ کو دیوانہ وار چوم رہے تھے حرم میں آیا ہوا ہر انسان اِس نشے میں طرف تھا کہ وہ یہاں ہے یہاں سانس لے رہا ہے ‘سجدے کر رہا ہے ‘عبا دت کر رہا ہے وہ فون پر اپنے عزیزوں سے بھی یہ خو شی شئیر کر رہا تھا ‘بو ڑھا آسمان چودہ صدیوں سے دیوانوں کی دیوانگی دیکھ رہا تھا ‘فرشتے محو حیرت تھے انسان جو ہزاروں دنیا وی خداؤں کو سجدے کرنے کے بعد یہاں آکر سجدہ دیتا ہے تو ہزاروں سجدوں سے نجات پا جا تا ہے جب اُس کی جبیں اِس دہلیز پر جھکتی ہے تو بندگی آسمانوں کو چھونے لگتی ہے صدیوں سے یہاں پر دیوانوں کے قافلے آتے ہیں چند دن گزار کر دوبارہ آنے کی تمنا لے کر واپس اپنے گھروں کولو ٹ جاتے ہیں لیکن اِن دیوانوں میں کچھ ایسے بھی یہاں آئے جو پھر دوبارہ واپس نہیں گئے حرم کعبہ نے اُن کے پیروہ میں عشق و مستی ایسی طلا ئی زنجیریں پہنا ئیں کہ وہ پھر وہ دنیا کی ہر زنجیر سے آزاد ہو گئے کعبہ کا منظر اِس قدر بھا یا کہ پھر اُنہوں نے کو ئی دوسرا منظر دیکھنا ہی نہ چاہا پھر اُن کی زندگی کی ڈوری اِس منظر سے بندھ گئی پھر اُنہوں نے واپس کبھی مُڑ کر نہ دیکھا کعبہ کے عاشق یہ دیوانے قسمت والوں کو ملتے ہیں اگر کسی کو مل جائیں اور یہ با ت کر نے پر آما دہ بھی ہو جا ئیں تو طلسم ہو ش رباکے سحر انگیز با ب رقم ہو تے چلے جا تے ہیں میں آج اِسے ہی کسی پراسرار بندے کی تلاش میں تھا میں پچھلے کئی گھنٹوں سے اِدھر اُدھر گھو م رہا تھا نیچے اچھی طرح گھو منے کے بعد اب میں اوپر والے فلور پر آگیا تھا میں جب تھک جاتا آب زم زم کا ٹھنڈا شیریں گلاس لے کر کسی کو نے میں بیٹھ جا تا نظریں خا نہ کعبہ پر گا ڑ دیتا اور قطرہ قطرہ کا لے کو ٹھے کے لا زوال حسن کو اپنے دل و دما غ میں اتا رنے لگتا آپ جب بھی پر شکو ہ جلال سے بھر پو ر بیت اللہ کو دیکھتے ہیں آپ کی روح جھو م جھو م جا تی ہے ‘کا فی دیر خانہ کعبہ کو دیکھنے کے بعد میں ایک بار پھر چل پڑا دنیا جہاں سے آئے ہو ئے حاجیوں کو دیکھ رہا تھا کعبہ کے درو دیوار کو بھی رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جو مستقل یہاں موجود تھے چلتے چلتے میں نے دیکھا ایک بزرگ جس کی عمر ستر سال سے زیا دہ ہو گی اُس نے جنگلے کو پکڑا ہوا ہے فرش پر لیٹا ہوا تھا مضبو طی سے جنگلے کو پکڑا ہوا ہے اور ٹکٹکی باندھے خا نہ کعبہ کو دیکھے جا رہا ہے وہ تقریباً بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا میں بھی اُس کے قریب ہی فرش پر بیٹھ گیا میں تجسس سے اُس کو دیکھ رہا تھا تھو ڑی دیر بعد ہی مجھے احساس ہو اکہ وہ بلکل بھی حر کت نہیں کر رہا اب میرے تجسس میں پریشانی بھی شامل ہو نا شروع ہو گئی مجھے لگا شاید وہ بے ہو ش نہ ہو گیا ہو اب میں سرک کر اُس کے اور بھی قریب ہو گیا جب کچھ وقت اور گزر گیا تو میں نے بابا جی کے کندے پر ہا تھ رکھا لیکن شدید حیرت اُس وقت ہو ئی جب میرے کندھے ہلا نے پر بھی اُس نے میری طرف نہ دیکھا اب مجھے شدید تشویش لا حق ہو ئی کہ بے ہو ش یا گزر نہ گیا ہو ‘اب میں نے زور سے ہلا یا تو بابا جی کے جسم میں تھوڑی زندگی کا احساس ہوا اب میں نے مدد طلب نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا تو بنگا لی ورکر نظر آیا میں اُس کے پاس گیا اُس سے مدد چاہی وہ چل کر میرے ساتھ آیا بابا جی کو دیکھا اُس کو اُٹھا کر بٹھا یا چند با تیں کر نے کی کو شش کی تب بنگا لی ورکر میری طرف متو جہ ہوا اور بو لا میں اِس بابا جی کو جانتا ہو ں یہ سالوں سے حر م شریف میں ہی رہتا ہے ‘دن رات یہاں گزارتا ہے اِس کا کام ہی یہ ہے نان سٹا پ خا نہ کعبہ کو دیکھنا اکثر اِس پر جذب کی حالت طا ری ہو جاتی ہے تو اِس کو اپنی بھی خبر نہیں رہتی اکثر بھو ک پیاس کی وجہ سے بھی اِس کی یہ حالت ہو جاتی ہے ‘اب بھی اِس کی یہ حالت بھو ک سے ہے آپ اِس کو کھا نا وغیرہ کھلا دیں تو یہ ٹھیک ہو جا ئے گا میں نے فو ری طو رپر اپنے بیگ سے ٹھنڈا میٹھا جو س نکا لا اور بابا جی کے ہونٹو ں سے لگا دیا جو با با جی نے پینا شروع کر دیا ساتھ ہی میں نے بسکٹ بھی نکال لیے جو با با جی نے کھانا شروع کر دئیے ‘بابا جی کی مدہم ڈوبتی آنکھوں میں چمک آنا شروع ہو گئی جسم بھی بے جان سے انرجی میں ڈھلنے لگا اب با با جی ممنون نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے بابا جی پشتو زبان بو لتے تھے لیکن ٹو ٹی پھو ٹی اردو بھی بو ل رہے تھے اب میں نے بابا جی کو دبا نا شروع کر دیا پھر میں نے بابا جی سے کہا کہ مجھے بہت بھو ک لگتی ہے آئیں ہم کھانا کھا کر آتے ہیں بابا جی نے انکا ر دیا لیکن جب میں نے بار بار با با جی کو کہا تو وہ میرے ساتھ چلنے پر تیا ر ہو گئے اب ہم باب عبد العزیز سے نکل اُس طرح بڑھے جدھر کھا نے کو مل جاتا تھا ٹھنڈے اور ٹھنڈی عما رت کے فرش پر بٹھا کر میں نے مر غ پلا ؤ اور کو لڈ ڈرنکس لئے اور آکر بابا جی کے سامنے بیٹھ گیا گرما گرم کھا نے کی تھال نما ٹرے کو رکھا کولڈڈر نک کے کین کو کھولا اور بابا جی کی طرح ملتجی نظروں سے دیکھا کہ شروع کر یں اب بابا جی اور میں نے ایک ہی تھا ل میں کھا نا شروع کر دیا بابا جی چاول کھا ئے جا رہے تھے اُن کے ہا تھ اور منہ سے جو چاول واپس گر تے اُن کو اپنی طرف اور تا زہ چاول بابا جی طرف کر تا جا رہا تھا بابا جی میری حرکتوں پر شفیق نظروں سے میری طرف دیکھتے وہ با دشاہ میں غلا م میں نو کر کی طرح با دشاہ کو کھانا کھلا رہا تھا اُن کے جھو ٹے چاول میں تبرک لنگر کے طور پرکھا رہاتھا ہر نو الے میں نشہ سرور تھا اِس دوران میں بار بار اُنہیں ڈرنک بھی پیش کرتا اچھی طرح کھا نے کے بعد میں بابا جی کے لیے کڑک چائے لے کر آیا چائے دیکھ کر بابا جی خو ش ہو ئے میں اور بابا گرم تلخ شریں چائے کے گھونٹ اپنے حلقوں سے نیچے اتار رہے تھے یہ میری زندگی کا سب سے لذیز کھا نا تھا میں باباجی کے لیے اگلے وقت کا کھانا اور ڈرنک بھی لا یا تھا جو میں نے اُن کے روکنے کے باوجود اُن کے پرانے تھیلے میں ڈال دیا اب ہم حرم کعبہ کی طرف بڑھے واش روم اور وضو کے بعد ہم پھر باب عبدالعزیز سے حرم کعبہ میں داخل ہو ئے میں غلاموں کی طرح بابا جی کے ساتھ چل رہا تھا میں نے بابا جی کو بتا ئے بغیر کھا نے کے ساتھ سعودی ریا ل بھی رکھ دئیے تھے اگر بابا جی دیکھ لیتے تو کبھی نہ لیتے اب ہم پھر ایسی جگہ پر آگئے تھے جہاں سے خانہ کعبہ پو رے جلال کے ساتھ نظر آرہا تھا میں نے بابا جی سے درخواست کی کہ وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا ئیں انہوں نے ہاتھ اٹھا دئیے اور پو چھا کیا دی تو میں نے کہا میرے ملک پاکستان کے لیے دعا کر یں اور ان تما م غریبوں کے لیے جو سالوں یہاں آنے کا خواب دیکھ رہے ہیں بابا جی کی آنکھوں سے مو تی ٹپک کر اُن کی داڑھی مبا رک پر آکر چمکنے لگے و ہ دعا مانگتے رہے اورمیں عشق و سرور میں بھٹکتا رہا پھر دعا کے بعد بابا جی نے مجھے پکڑا اپنے قریب کیا اور میرے ما تھے پر بو سہ دیا بابا جی کے بو سے کی حرارت میری روح کی گہرائیوں میں چاند ستا روں کی طرح روشنی بکھیرتی گئی ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
752

کالم : بزمِ درویش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خانہ کعبہ کے مہمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

اللہ کا گھر بیت اللہ آج بھی ہمیشہ کی طرح آباد تھا ‘حرمِ کعبہ پر لمحہ ہر پل یو نہی آباد و شاد رہتا ہے ‘عشق و محبت میں ڈوبے دیوانوں کا قافلہ بیت اللہ کے گر د دن و رات ‘دھو پ چھا ؤں ‘سرد گرم کی پروا کئے بغیر ہر وقت مسلسل حر کت کر تا نظر آتا ہے ‘حج کا مو سم دنیا جہاں سے آئے دیوانوں سے حرم کعبہ بھر چکا تھا میں آج کا سارا دن حرم کعبہ میں گزارنے آیا تھا ‘دنیا جہاں ‘دوستوں ‘رشتہ داروں سے کٹ کر صرف حرم کعبہ اور میں اور کچھ بھی نہیں ‘میں رشک بھری نظروں سے حرم کعبہ کے درو دیوار کو دیکھ رہا تھا ‘یہاں کے سیکورٹی اہلکار صفائی کے کاموں پر ما مور لوگ جن کی قسمت میں کعبہ کا دیدار لکھ دیا گیا تھا میں طواف کر چکا تھا اب میں ریلیکس ہو کر ادھر اُدھر گھوم رہاتھا میں جب تھک جاتا تو آب زم زم پی کر کسی جگہ بیٹھ جا تا اور خا نہ کعبہ کو ٹکٹکی با ند ھ کر دیکھنا شروع کر دیتا ‘خانہ کعبہ کو آپ جب بھی دیکھتے ہیں تو اُس کے شکو ہ و جلال سے آپ کا ذہن حواس خمسہ کی قید سے آزاد ہو نے لگتا ہے آپ کے رگ و پے میں ہلچل سی مچ جا تی ہے ‘نشے و سرور کی ایمانی بو ندیں آپ کے با طن کو روشن اور سرشاری سے ہمکنا ر کر تی ہیں ‘میں اللہ کے گھر اور اُس کے بندوں کو دیکھ رہا تھا جو طواف کر رہے تھے بلند آواز میں تلبیہ پڑھ رہے تھے خدا کو پکا ر رہے تھے دنیا کے چپے چپے سے آئے ہو ئے دیوانوں کے جسموں پر کفن جیسی جو دو چادریں تھیں ‘ایک لبا س ‘ایک جنوں ‘ایک احساس ‘نہ کو ئی با دشاہ نہ کو ئی فقیر ‘نہ کو ئی خوبصورت نہ کو ئی عام شکل کا ‘سب کی رگوں میں خون کی جگہ عشق و مستی کا نشہ دوڑ رہا تھا یہ سارے لو گ دنیا جہاں کے آرام و آسائش چھو ڑ کر بیت اللہ کے دیدار کو آئے ہوئے تھے ‘صدیوں کے پیا سے ایک ایسے جزیرے میں آگئے تھے جہاں پر ایمان افروز محبتوں کرموں شفقتوں کی رم جھم جا ری تھی اور سالوں کے پیا سے اپنی روحانی جسمانی پیا س کو بجھا رہے تھے ہر ایک خو د کو دنیا کا خو ش نصیب ترین فرد سمجھ رہا تھا ‘اپنی قسمت پر نازاں تھا ایک ایک لمحے کو خوب انجوائے کر رہا تھا یہاں پر گزرا ایک ایک لمحہ صدیوں پر بھا ری تھا یہ لمحے صدیوں پر محیط صدیاں اِن لمحوں کے سامنے ذرے سے بھی کم حیثیت رکھتی تھیں اِن میں اکثر یت ایسے دیوانوں کی تھی جنہوں نے ساری عمر ریزہ ریزہ جو ڑ کر اِس گھر میں آنے کے خوا ب کی تعبیر دیکھی تھی بے شمار راتیں اِس خوا ب کی تعبیر کے انتظار میں کا ٹی تھیں ‘لاکھوں دعاؤں کا ثمر پایا تھا ‘ہزاروں رکو ع و سجو د کے بعد آج یہ دن دیکھنا نصیب ہوا تھا اور آج وہ اِس نشے میں تھے کہ دنیا جہاں کی دولت اُن کے ساتھ آگئی ہے یہ وہ لو گ ہو تے ہیں جو زندگی میں پہلی اور آخری با ریہاں آتے ہیں اور یہ ایک ہی با ر میں ایسا نشہ سرور آسودگی اپنے دامن میں بھر کر لے جاتے ہیں جو اُن کی با قی زندگی کے لیے کافی ہو تی ہے با قی زندگی جب بھی یہ یہاں پر گزارے لمحوں کو یا د کر تے ہیں اِن کی آنکھوں میں چمک اور لہروں پر نو ر پھیل جاتا ہے یہ اُن لوگوں سے بلکل مختلف ہو تے ہیں جو یہاں بار بار آتے ہیں یا یو رپ امریکہ جا تے ہیں ‘ انتظا ر کی طویل راتوں کے کر ب کے بعد وصل یا رکی لذتیں یہی سادہ لو گ سمیٹتے ہیں جو یہاں صرف ایک بار آتے ہیں اِن میں سے زیا دہ دن رات حر م میں گزارتے ہیں یا حرم سے دور کسی سستے عام ہو ٹل میں زمینی بستروں پر ڈیرے ڈالتے ہیں ایک وقت کا کھا نا کھا تے ہیں سار ا وقت بیت اللہ کے دلان میں گزارتے ہیں یہ دن رات خدا کی کبریا ئی کے نغمے الا پتے ہیں کر ہ ارض کے چپے چپے سے آئے ہو ئے یہ لو گ اپنی جسموں کی پیا س یہا ں بجھا تے ہیں جب یہ اپنے گھروں سے چلتے ہیں تو دعاؤں کی پو ٹلیاں اپنی بغلوں میں دبا کر چلتے ہیں پھر انہیں جب بھی مو قع ملتا ہے نما ز سے پہلے یا بعد میں بیت اللہ کے کسی گو شے میں آب زم زم پی کر اپنی دعا ؤں کی پو ٹلی کھو ل کر ایک ایک کر کے خدا کے حضور پیش کر تے جا تے ہیں انہوں نے اپنی ڈائریوں اور کاغذ کے ٹکڑوں پر اپنے دوستوں اہل خا نہ رشتہ داروں کی حاجتوں کے گوشوارے بنا رکھے ہو تے ہیں اور پھر یہاں خا لق کا ئنات کے حضور پیش کر دیتے ہیں اِن دعاؤں کو دیکھ کر مجھے بھی بہت سارے عزیزوں دوستوں کے نا م اور دعائیں یا د آتی ہیں لیکن میں دعائیں نہیں کر پا تا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ بیت اللہ کا مالک خدا ئے بزرگ و برتر تو ہر خیال سے واقف ہے پھر میں ملتجی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ کر پکا ر اُٹھتا ہوں اے خدا تو تو سب جا نتا ہے سب پر کر م فرما اور پھر میں بیٹھ کر سب دوستوں رشتہ داروں کے نام اور دعائیں یا د کر نے لگتا ہوں جنہوں نے سلام اور دعا کا کہا تھا دما غ کے پر دے پر سارے نام بار ی بار ی آنا شروع ہو جاتے ہیں حیرت اُس وقت ہو تی ہے اِ س کیفیت میں ایسے نا م بھی یاد آتے ہیں جن سے ملے آپ کو برسوں بیت گئے جنہوں نے آپ کو کچھ کہا بھی نہیں ہو تا لیکن اُ ن کے لیے دعائیں زمزموں کی طرح لبوں سے پھو ٹتی ہیں اور پھر یہ دعا اہل پاکستان سے گزر کر کر ہ ارض پر مو جو د تما م مسلمانوں کی دعائیں؂ کر نے کے بعد اب میں یہاں پر آتے ہو ئے مہمانوں کو دیکھنا شروع کر دیتا ہوں ‘دن رات دنیاجہاں سے ہزاروں لوگ قافلوں کی شکل میں دیوانہ وار بیت اللہ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں عشق و محبت میں ڈوبے یہ قافلے چودہ صدیوں سے مسلسل یہاں آرہے ہیں اور آتے رہیں گے ہر روز لا کھوں لوگ حرم کعبہ میں آتے ہیں دو چار دن گزار کر واپس اپنی بستیوں میں لو ٹ جا تے ہیں لیکن بیت اللہ کا دلان اِن قافلوں سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے پروانوں کے قافلے شب و روز دلان کعبہ میں اُترتے رہتے ہیں اِن مہمانوں سے سرائیں ہمیشہ بھری رہتی ہیں یہاں پر آنے والے زیا دہ تر دیوانے چند دن گزار کر چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہو تے ہیں جو ایک بار یہاں آئے اور پھر کبھی مُڑ کر واپس نہ گئے ‘خانہ کعبہ کا نظا رہ اِس طرح رگ و جان دل و دما غ میں اُتر تا ہے کہ پھر اِسے خا نہ کعبہ کو نظروں سے اوجھل نہیں ہو نے دیتے حرم کعبہ کا نظا را انہیں اپنا قیدی بنا لیتا ہے پھر وہ کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتے اپنے گھر بار رشتے داروں کو چھوڑنے والے یہ لوگ بہت عجیب اور پر اسرار ہو تے ہیں جو مکہ مدینہ کی خا ک کو اپنی آنکھ کا سرما بنا لیتے ہیں جو دنیا سے منہ مو ڑ کر صرف یہاں کے ہو جا تے ہیں ‘جو دن رات حر م کعبہ میں ہیں گزار لیتے ہیں ما دیت پر ستی میں غرق اربوں انسانوں میں یہی چند لو گ ایسے ہو تے ہیں جو دنیا کو ٹھو کر ما ر کر صرف یہاں کے ہو کر رہ جا تے ہیں ‘یہی ہو تے ہیں خدا کے دوست جو ہاتھ اٹھا دیں تو رحمت کر م چھلک چھلک پڑے جو قسم کھا لیں تو خدا اُن کی ہی ما نے اِن دیوانوں کے قرب میں چند لمحے آپ کی سالوں کی عبا دت پر بھا ری ہو تے ہیں جو کثا فت سے لطا فت کے پیکر میں ڈھل چکے ہو تے ہیں اب میں ایسے ہی پر ااسرار نوا رانی پیکر وں کی تلا ش میں تھا اِس میں کو ئی شک نہیں کہ ایما ن کے نو ر میں نہا تے ہی پراسرار بندے مشکل سے ہی ملتے ہیں اور اگر کسی کو مل جا ئیں تو اُس کے بھا گ جا گ جا ئیں اب یہ لو گ دنیا داروں کی نظر وں سے گم ہو چکے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ گم ہو کر بھی اتنا کچھ پا چکے ہو تے ہیں بھا ری خزا نے اِن کے سامنے مٹی کے ذرات سے زیا دہ اہمیت نہیں رکھتے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
660

بزمِ درویش ……….حرم کعبہ……….. تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

رات کا شاید آخری پہر رخصت چاہ رہا تھا اور میں مکہ شریف کے آرام دہ ہو ٹل کے ٹھنڈے کمرے میں نرم گداز بستر پر سو رہا تھا کہ اچانک میرے کا نوں میں سرگو شی ہو ئی یہاں آکر بھی ہم سے دور ہو اور پھر میرے خوا بیدہ اعصاب بیداری میں ڈھلتے چلے گئے‘ میں اٹھا وضو کیا اور بر ق رفتار ی سے حرم کعبہ کی طرف دوڑا‘ اُس حرم کعبہ کی طرف جہاں رات کی سیا ہی نے داخل ہو نے کی کبھی جرا ت نہ کی ‘جہاں صدیوں سے صرف اجا لوں کا ہی راج ہے اور روز محشر تک روشنیاں اور نور کے فوارے اِسی طرح پھو ٹتے رہیں گے میرا ہو ٹل باب عبدالعزیز کے عین سامنے تھا میں باب عبدالعزیز سے گزر کر حرم شریف کے روشن صحن میں داخل ہو رہا تھا نیند بیداری اور نشہ سرور سے میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے اچانک فجر کی اذان سے فضا ؤں میں روح پرور ارتعاش سا بر پا ہوگیا روح بلالی کی شیرینی میں ڈوبے عطر بیز کلما ت میری روح اوربا طن کے عمیق ترین گوشوں میں نشے سرور کے دریا بہا نے لگے اذان کے کلما ت سے میرے با طن کے اندھیروں میں سینکڑوں نو رانی چراغ جلنے لگے میرے جسم کے پور پور میں لرزش سی طا ری ہو نے لگی اللہ کی کبریائی کا اظہا ر چاروں طرف جا ری تھا اذان کے مشکبو کلما ت کی پھوار جا ری تھی اذان بلا لی نے عجب سماں باندھا ہوا تھا صبح کا وقت اذان کے الفاظ حرم کعبہ کے در و دیوار سفیدو سبز نو ر میں نہا ئے مینا ر غلا ف کعبہ سے ٹکراتے الفاظ دیوانہ وار دلوں کو مسحور کر رہے تھے اور جب میری نظر خا نہ کعبہ پر پڑی تو ہمیشہ کی طرح میں نشے مستی میں غر ق ایسی کیفیت کہ الفاظ ساتھ نہ دے سکیں ‘روشنیوں میں ڈوبے صحن حرم کے درمیان میں خالق کائنات کے سیا ہ پو ش گھر کا جا ہ و جلا ل اچانک مجھے لگا خا لق کا ئنات کا نور آسمان سے اتر کر حرم کعبہ میں پھیل گیا ہے خدا کا پیما نہ رحمت خو ب چھلک رہا ہے چاروں طرف خدا کے کرم کی صدائیں جا ری ہیں ما نگ لے جو مانگتا ہے یہ دعاؤں کی قبو لیت کا وقت ہے یہ گنا ہوں کی بخشش کا وقت ہے ‘خدا کی رحمت مو سلا دھار بر سات کی طرح بر س رہی ہے اور گنا ہ گا روں کے گنا ہ خوب دھل رہے ہیں اِس خیال کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں بھی سیلا ب کروٹیں لینے لگا اور پھر یہ خیا ل کہ اے پروردگار تو دلوں کے نہاں خانوں میں دبی ہو ئی خوا ہشوں دعاؤں سے بھی خوب واقف ہے تو اُن خیالوں سے بھی واقف ہیں جو ابھی ہمارے دلوں میں نہیں آئے اے ماں سے زیا دہ شفیق رب ہم تو دعا مانگنے کا طریقہ بھی نہیں جا نتے تو بہتر جانتا ہے‘ میں نشے میں ڈوبا خا نہ کعبہ کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں ایک نماز کا ثواب دیگر مسا جد میں ایک لا کھ نمازوں سے بھی بڑھ کر ہے کچھ دوست حساب لگا تے ہیں کہ مسجد الحرام میں ایک نماز کی فضیلت پچپن سال چھ ماہ بیس دن کی نمازوں کے برا بر بنتی ہے اِسطرح ایک دن کی پا نچ نمازوں کا ثواب دوسو ستر سال نو مہینے دس دن کی نمازوں کے برا بر ہے اِس تصور کے ساتھ ہی جسم و روح میں خو شی اورخو شبو کے قافلے اترنے لگتے ہیں اور بیت اللہ کے صحن میں عقیدت مندوں کے ریلے رنگ و نور کے سیلا ب میں لہروں کی طرح اٹھ رہے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان کے سارے ستا رے رنگ و نور کے سیلاب کے ساتھ حرم کعبہ کے صحن میں حرم کعبہ کو بو سے دینے اُتر آئے ہیں کعبہ کا صحن بقعہ نور بناہوا تھا کعبہ کے درو دیوار میں فروزاں لا کھوں بر قی قمقموں اور فانوسوں کی دلکش سحر انگیز روشنی کعبہ کی طرف لپک لپک کر جا رہی تھی برآمدوں کی چھتوں پر انتہا ئی طا قت ور سر چ لا ئیٹس دہکتے سورجوں کی کی طرح لگ رہی تھیں بلند و با لا مینا روں میں سفید اور سبز روشنیوں کے ملا پ نے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی روشنی چاروں طرف پھیلا رکھی تھی سفید اور سبز رنگ کے نور نے انتہا ئی دل آویز نو ر کا سماں باندھا ہوا تھا حر م کعبہ زمین سے آسمان تک رنگوں روشنیوں میں نہا یا ہوا تھا کعبہ کا حرم دیوانوں سے بھرا ہواتھا اُن کے سالوں کے خوا بوں کی تعبیر کا دن تھا بیت اللہ کی تہجد اور فجر کی نماز دیوانوں نے برسوں اِس خوا ب کو دیکھ رکھا تھا اور آج اِس خوا ب کی تعبیر وہ جا گتی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے دیوانوں کو یقین نہیںآرہا تھا کہ کر ہ ارض کے سب سے خو بصورت منظر کا حصہ ہیں یہاں آنے کی یہاں سانس لینے کی نماز پڑھنے کی خواہش کس کے دل میں نہ مچلتی ہو گی لیکن قسمت جس کو یہاں لا تی ہے یہ یہاں آنے والا ہی محسوس کر سکتا ہے دیوانے کعبہ کے گرد ایک ہی مرکز کے مدار میں گر دش کر رہے تھے سب نے جھو لیاں پھیلا رکھی تھیں سب کے جسم کشکول بن چکے تھے اور جسم کا رواں رواں دعا میں ڈھل چکا تھا اِس طرح دیوانے صفا اور مروا کی مقدس پہا ڑیوں کے درمیان چل رہے تھے دیوانوں کے یہ قافلے صدیوں سے اِن مقدس پہا ڑوں کے درمیان اِسی طرح چل رہے تھے اور قیامت تک اِسی جو ش سے چلتے رہیں گے رب کا ئنات کو اپنے محبوب بندوں کے بعض اعمال یا ادائیں اِسطرح بھا تی ہیں کہ پھر وہ انہیں قیامت تک کے لیے عبا دت کا حصہ بنا دیتا ہے صفا مروا کی پہا ڑیوں کے دوران چلتے دوڑتے سب کو ہی حضرت بی بی ہا جراں کی یا د آتی ہو گی پیا س سے بے حال حضرت اسما عیل ؑ کی پیاس اور ایڑیاں رگڑنے کا منظر یاد آتا ہوگاور پھر خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسما عیل ؑ کا خا نہ کعبہ کی دیواروں کو بلند کر نا اور پھر خا لق کا ئنا ت کو اپنے اِن محبوب بندوں کی ادائیں اِس طرح پسند آئیں کے اِن کو عمرے حج کا حصہ بنا دیا چاروں طرف لبیک اللھم لبیک کی صدائیں پھیل رہی تھیں میرے دل و دما غ میں عجیب سی ہلچل مچی ہو ئی تھی کر ہ ارض کے نیک ترین بند ے اپنے خدا کے حضور حاضری دینے آئے ہو ئے تھے اِن میں ایک سے بڑھ کر ایک انسان جو جب بھی ہا تھ اٹھا تا ہو گا تو در رحمت چھلک پڑتا ہو گا اور پھر نماز فجر کے لیے صفیں درست ہو نے لگیں میں بھی صحن کعبہ میں نماز کے لیے کھڑا ہو گیا خا نہ کعبہ نظروں کے عین سامنے‘ آہ یہ سچ مجھے یقین نہیں آرہا تھا پھر نماز شروع ہو ئی قرآن پاک کے روح پرور کلمات اور پھر جب سجدے میں گئے تو خو شی سے میری آنکھوں سے آبشار اُبل پڑے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
299