Chitral Times

ذرا سوچئے ۔۔۔۔۔ نقصان ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر :ہما حیات

Posted on

خشک پتوں کا ہواؤں سے بکھر جانا تھا
دل کے درد کا آنکھوں سے اتر جا تا تھا
پھر خزا ںآئی ہے بلبل کو رلانے کے لئے
پھر رنگو ں کو بھی پھولوں سے بچھڑ جا تا تھا

 

خزان کا موسم یوں بھی شعرا کے لئے دلچسپی کا باعث ہو تا ہے درختوں سے پتو ں کے جدا ہونے کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں کہ اکثر قارئین کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں بلبل کی بے بسی اور گل سے جدا ہونے کی داستان سے اکثر افراد کے اندر صلہ رحمی پیدا کر دیتے ہیں اس کے علاوہ بھی درختوں کا خالی پن دیکھ کر دل بھر جا تا ہے خیر جو بھی ہوآخر کار یہ بھی ایک موسم ہے اور ہر موسم کی طرح اس سے بھی لطف اندوز ہونا ہے لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں بہت کچھ سکھا دیتے ہیں اگر عندلیب کے پھول سے بچھڑ جانے کے منظر سے کسی میں صلہ رحمی پیدا ہو سکتی ہے تو کچھ لو گوں کے کاموں اور سوچ دیکھ کر آپ کے اند ر بہت ساری تبدیلیاں آسکتی ہیں آج میں بھی اپنے ساتھ آنے والے ایک واقعے کا ذکر کروں گی جس نے میرے اندر احساس ذمہ داری پیدا کی ۔

 

ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نالے اور سڑک ایک ساتھ ہوتے ہیں اور ان نالوں یا سڑکوں کے کنارے درخت بھی ہوتے ہیں جب خزاں آجاتا ہے تویہ پتے ان نالوں میں گرتے ہیں جس سے ان نالوں کا پانی بند ہو جاتا ہے اور رُخ بدل کر سڑکوں پر آجاتا ہے اب ہمارے یہاں سردی اتنی ہے کہ پائپ کے اندر پانی جم جاتا ہے یہ تو پھر بھی سڑکوں پر بہتا ہے اب اگر سڑک پر پانی جم جائے تو اس سے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ آ پ خود بہتر لگا سکتے ہیں ۔

 

تو ہوا یوں کہ ایک دفعہ میں کالج سے گھر جارہی تھی راستے میں میں نے دیکھا کہ ایک خاتون ان نالوں کی صفائی کررہی ہے پہلے میں نے سوچا کہ اپنے مال مویشیوں کے لئے پتے جمع کررہی ہونگی لیکن جب قریب پہنچی تو مجھے سخت خوشی ہوئی کیونکہ اپنے کندھے سے بیگ لٹکا کے یہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ محترمہ تھیں جن کے ہاتھوں میری تعلیم تربیت ہوئی ہے میری ٹیچر نالیوں کو صاف کر کے لوگوں کو نقصانات سے بچا رہی تھی میر ادل چاہا کہ میں گاڑی روک کر اتر جاؤں اور ان کا ہاتھ بٹاؤں لیکن گاڑی کی رفتار اتنی تیز تھی کہ میں چند لمحو ں میں ان سے بہت دور نکل آئی جس کا مجھے آج بھی افسوس ہے ۔

 

وہ محترمہ تو اپنے لئے پتے جمع کررہی تھیں اور نہ ہی کسی اور کے لئے وہ تو بس بہت بڑے خطرے سے دوسروں کو بچا رہی تھیں بات صرف اس محترمہ کی نہیں ہے اگران کی طرح ہر کوئی اپنی ذمہ داری کا احساس کرلے اور اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر غور کرلے تو یقین مانئے ہم بہت سے جانی اورمالی نقصانات سے بچ سکتے ہیں اور پھر ذرا سوچئے ۔۔۔۔۔۔نقصان کسی کا بھی ہو ہمیں اسکواپنا نقصان سمجھنا چاہیے ۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
2796

ذرا سوچئے ۔۔۔۔ تحریر :ہما حیات چترال

Posted on

آج کل کے دور میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ لوگوں کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے کم وسائل میں بھی سخت محنت کر کے ان مسائل کا حل نکاتے ہیں یہ لوگ کسی کے مدد کے طلب گار نہیں ہوتے انہیں اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور یہ تب تک محنت کرتے ہیں جب تک انکو کامیابی حاصل نہیں ہوتی مثلاً لاسپوریارخون ،تورکہو ،لوٹ اویر ،ارکاری ،کریم آباد وغیرہ کے لوگ جو کئی سالوں سے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے آج شام ڈھلتے ہی ان کے گھر روشنیوں میں نہلا جاتے ہیں انھوں نے اپنے کم وسائل میں اتنی بجلی پید ا کرلی ہے کہ ان کا کام ہو جانے کے باو جود بھی کئی واٹ بجلی یوں ہی ضائع ہو جاتی ہے یہ تو تھا دیہاتی لوگوں کا حال اب ذرا شہری لوگوں کے حالات پر بھی غور کیجئے شہری علاقوں مثلاً دروش ،چترال ،بونی وغیرہ کے لوگوں کا ٰخیال ہے کہ ان کے مسائل صرف حکومت ہی حل کر سکتی ہے اور یہ لوگ حکومت کو اپنی عوامی قوت دکھانے کیلئے صرف جلوس اور نعرے بازی کرتے ہیں ان جلسوں کے پیچھے بھی کئی سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہوتا ہے وہ اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے لوگوں کو ان جلسوں میں دھکیل دیتے ہیں اب آپ میرے چند سوالوں پر غور کیجئے کیا یہ محنت کرنے والے درست ہیں یا پھر جلوس اور نعرے بازی کرنے والے ؟ان کے ان جلوسوں سے فائدہ کس کس کو ہوتا ہے ؟اور نقصان کون برداشت کرتا ہے کیا صرف سڑکیں بند کرنے سے آپ کو بجلی مل سکتی ہے ؟با لکل نہیں آپ کے ان احمقانہ حرکتوں سے تکلیف صرف آپ کو ہی ہوتی ہے کسی بیمار ماں کو ہوتی ہے سکول جانے والے چھوٹے بچوں کو ہوتی ہے کسی دور کے مسافر کو ہوتی ہے اگر دیہات کے لوگ اپنے گھروں کو روشن کرسکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں ؟اس جدید دور میں جہاں آپ کو پانی بھی میسر ہے اور ٹیکنیکل ماہرین بھی تو کیا آپ بجلی پیدا نہیں کر سکتے تو کیا سڑکوں پر نعرے بازی کرنے والی عوامی قوت کو اپنی طاقت بنا کر اپنے لئے بجلی کا انتظام نہیں کر سکتے ؟ خدارا!خود پر رحم کیجئے آگر آپ سچ میں اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو ہمت کیجئے اپنے آپ پر بھروسہ کیجئے اور پھر سوچئے ’’ہمت مردان مدد خدا‘‘

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
400