Chitral Times

چارہ گر خود بیچارے بن گئے – محمد شریف شکیب

Posted on

چارہ گر خود بیچارے بن گئے – محمد شریف شکیب

پشاور پولیس لائن دھماکے کے نتیجے میں پورا ملک سوگوار ہے۔اس سانحے نے کئی خاندان اجڑ دئیے۔دھماکے میں مسجد کی چھت بیٹھ گئی جو زیادہ جانی نقصان کا سبب بن گئی۔ابھی تک حکام یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ دھماکہ کس نوعیت کا تھا۔ آئی جی پولیس کا نگران وزیر اعلی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ دھماکہ خیز مواد قسطوں میں پہنچایا گیا۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسجد پر ڈرون حملہ ہوا ہے جس کی وجہ سے چھت بیٹھ گئی تاہم پولیس کا اصرار ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا اور دھماکے میں استعمال ہونے والا بارودی مواد دس بارہ کلو گرام ہو سکتا ہے۔واقعے کی تحقیقات کے لئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔اس واقعے کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ پشاور، چارسدہ، مردان، سوات سمیت صوبے کے بیشتر اضلاع میں پولیس اہلکاروں نے پولیس فورس پر پے درپے حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ہیں اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے والی فورس میں خود عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے کی شکایت کی ہے۔

 

باوردی مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان کے تحفظ کے لئے مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو وہ پولیو مہمات میں سیکورٹی فراہم نہیں کریں گے۔وفاقی حکومت نے پولیس میں پھیلی ہوئی بے چینی کا نوٹس لیا ہے۔آئی جی آفس نے بھی صوبہ بھر کے ڈی پی اوز کو دربار منعقد کرنے اور پولیس فورس کا مورال بلند کرنے کے لئے اقدامات کی ہدایات جاری کی ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف بائیس سالہ جنگ میں خیبر پختونخوا پولیس نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔صفت غیور، ملک سعد اورعابد علی سمیت سینکڑوں پولیس افسروں اور اہلکاروں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔یہ پولیس اہلکار ہی ہیں جو اس وقت بھی سڑکوں پر گشت کرتے ہیں جب عوام گھروں میں گہری نیند سوئے ہوتے ہیں۔الیکشن اور پولیو مہم میں بھی وہی پیش پیش ہوتے ہیں۔

 

وی آئی پی شخصیات کے گھروں، دفاتر اور موومنٹ کے دوران بھی پولیس اہلکار ان کی حفاظت کرتے ہیں۔قدرتی آفات میں بھی ریسکیو اور امدادی سرگرمیوں کی قیادت پولیس کرتی ہے۔دوسری جانب ان کی سہولیات کا جائزہ لیں تو ان کے پاس نہ جدید اسلحہ ہوتا ہی کہ وہ دہشت گردوں ، ڈاکووں، زہزنوں،چوروں اور جرائم پیشہ و سماج دشمن عناصر کا مقابلہ کر سکیں۔تھانوں کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ پیٹرولنگ کے لئے ان کے پاس مناسب گاڑیاں ہیں نہ ہی ان میں فیول ڈالنے کے لئے فنڈ ہے۔تنخواہ اتنی ہے کہ بمشکل بچوں کو دو وقت کی روٹی ہی کھلا سکتے ہیں۔

 

پولیس فورس ملک کے اندر امن قائم کرنے، عوام کی جان، مال، عزت و آبرو کے تحفظ اور سیاست دانوں سمیت اہم شخصیات کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار ہے۔اس فورس کو جدید تقاضوں کے مطابق سازوسامان سے لیس کئے بغیر پائیدار امن کا قیام ایک خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پولیس فورس اپنے تحفظ کے لئے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ ارباب اختیار و اقتدار کو ڈسپلن کی آڑ میں اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھانے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے قومی مفاد میں ان کی شکایات کا فوری ازالہ کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71059

چارہ گر خود بیچارے بن گئے – محمد شریف شکیب

چارہ گر خود بیچارے بن گئے – محمد شریف شکیب

کہتے ہیں کہ جب یتیم روزہ رکھے تو دن بھی لمبے ہوجاتے ہیں۔ اہل ریشن کے مقدر میں جو سختی ہے وہ معاف ہوتی نظر نہیں آتی۔ سرخ مٹی کی سرزمین اور افسانوی شہرت کا حامل اپر چترال کا خوبصورت گائون ریشن دو اطراف سے قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ شاید کسی بد نظر کی نظر بد اس گائوں کو کھا گئی ہے اوپر سے گلیشیئر پھٹنے سے ہر سال سیلاب آتا ہے اور نیچے دریا چترال کی مسلسل کٹائی سے ایک تہائی گائوں صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ریشن نالے کے قرب وجوار میں لوگ تعمیرات کرتے اور باغات لگاتے رہے اور سیلاب انہین مٹاتا رہا۔ اب گذشتہ چند سالوں سے لوگوں نے تعمیرات چھوڑ دی ہیں نالے کے کناروں پر پشتوں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ دریا کے کٹائو سے ریشن کو بچانے کی فکر سرکاری اداروں کو اس وقت دامن گیر ہوتی ہے جب دریا اپنی جوبن پر ہوتا ہے اور اس کی بے قابو لہریں زیریں ریشن کے مکانات، باغات اور زرخیز زمینوں کو نگلنے لگتی ہیں۔

 

دریا کے کٹائو کی وجہ سے ریشن کے داخلی مقام شادیر میں اپر چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی سڑک بھی دریابرد ہوچکی ہے۔ مقامی لوگوں نے اپنے مکانات گرا کر اور باغات وفصلیں کاٹ کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عارضی سڑک کے لئے جگہ دی تھی سیاسی رہنمائوں اور اعلی سرکاری افسروں کی طرف سے متاثرین کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ایک ماہ کے اندر ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔ دریا کے کٹائو کی وجہ سے تقریبا چالیس گھرانے بے گھر ہوچکے ہیں اور وہ گذشتہ دوتین سالوں سے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں مگر ان کی بحالی و آبادی کاری کے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوسکے۔حکومت کی بار بار وعدہ خلافیوں سے تنگ آکر شادیر کے مقام پر متاثرین نے اپر چترال کا واحد زمینی راستہ بلاک کردیا ہے۔

 

ان کا مطالبہ ہے کہ متاثرین کو فوری طور پر معاوضہ دیا جائے۔ بے گھر لوگوں کی آبادکاری کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں اور دریا کنارے مضبوط پشتوں کی تعمیر پر کام شروع کیاجائے۔اب دریا کی سطح گر چکی ہے اگر آنے والے چار مہینوں کے دوران دریا کنارے پشتوں کی تعمیر کا کام ابھی سے شروع کیاجائے تو دریا میں طغیانی آنے سے پہلے ریشن کو مزید تباہی سے بچایاجاسکتا ہے۔مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ اب تک حکومت کے پاس یہ جواز ہے ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے پر معیشت کی کشتی ڈبونے کے الزامات لگارہے ہیں عوام بخوبی جانتے ہیں کہ قومی اداروں کو کرپشن کا گڑھ بنانے، مہنگائی اور بے روزگاری کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچانے اور معیشت کو دیوالیہ ہونے کے قریب لانے میں سب نے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے۔عوام جن سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں وہ خود اپنے ساتھ ناانصافی کا رونا رورہے ہیں۔اس لئے اہل ریشن کو کچھ عرصے مزید تباہی و بربادی کی سختیاں جھیلنی پڑیں گی کیونکہ جو چارہ گر تھے وہ خود بے چارے بن گئے ہیں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
69828