Chitraltimes Banner

سوشل میڈیا، پوسٹ کرنے سے پہلے دل سے سوچئے ۔ تحریر:ثناء اللہ مجیدی

Posted on

سوشل میڈیا، پوسٹ کرنے سے پہلے دل سے سوچئے ۔ تحریر:ثناء اللہ مجیدی

گزشتہ کچھ دنوں میں دو ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے ایک بار پھر یہ سوال زندہ کر دیا ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو کس سمت لے جا رہے ہیں۔ پہلا واقعہ گلگت بلتستان میں پیش آیا جہاں اہلِ سنت کے ایک جید عالمِ دین پر حملہ ہوا اور اس افسوسناک سانحے کے بعد سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پوسٹس اشتعال انگیز تبصرے اور مذہبی زہر کا سیلاب پھیل گیا

دوسرا واقعہ لال مسجد کے تنازعے سے جڑا ہے جہاں حقائق کے اختلاف نے ایک علمی وتحقیقی بحث کو ذاتی طعن و تشنیع اور اخلاق سے گرے ہوئے جملوں میں بدل دیا اور جہاں اختلافِ رائے علم و توازن سے حل ہو سکتا تھا وہاں سوشل میڈیا نے اسے دشمنی کا رنگ دے دیا۔ یہ دونوں واقعات اس تلخ حقیقت کی علامت ہیں کہ سوشل میڈیا اب اصلاح کا نہیں بلکہ فتنہ و انتشار کا میدان بنتا جا رہا ہے اسی بنیاد پر یہ مضمون لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ ہم خود سے سوال کریں: کیا واقعی یہ آزادیِ اظہار ہے یا ہم اپنے ہی معاشرے کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں؟ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جسے جدیدیت سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے دنیا اب ایک کلک کی مسافت پر ہے اور خبر لمحوں میں سرحدیں پار کرتی ہے، ہر شخص اپنی بات چند سیکنڈ میں دنیا بھر تک پہنچا دیتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس جدت نے ہمیں اخلاق برداشت اور تہذیب بھی سکھائی؟ سائنس نے ظاہری فاصلے مٹا دیے مگر دلوں کے فاصلے بڑھا دیے سوشل میڈیا جو علم و اصلاح کا ذریعہ بن سکتا تھا آج شور و فساد کا میدان بن گیا ہے

یہاں سچ پروپیگنڈے میں اور حق تعصب میں دب جاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو بولنے کا حق دیا مگر سوچنے کی صلاحیت چھین لی اب ہر شخص مصنف بھی ہے قاضی بھی، اور کبھی کبھار مجرم بھی سچ اور جھوٹ کے درمیان صرف ایک“شیئر”کا فاصلہ رہ گیا ہے ایک ویڈیو ایک تصویر ایک جملہ لمحوں میں ہزاروں ذہنوں کو متاثر کر دیتا ہے چاہے وہ حقیقت ہو یا فریب۔ ہم نے الفاظ کو ہتھیار بنا لیا ہے اور بھول گئے ہیں کہ الفاظ زخم دیتے ہیں، یہی الفاظ کسی کی عزت، خدمت اور کردار کو مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ اسلام نے زبان کے استعمال میں احتیاط اور بات کرنے میں عدل و تحقیق کا حکم دیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ“جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے”(صحیح بخاری: 6018) اور قرآن مجید میں ارشاد ہے:“اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو”(سورۃ الحجرات) افسوس کہ آج ہم تحقیق نہیں کرتے، صرف فارورڈ کرتے ہیں، اور نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ“آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے”(صحیح مسلم)، یہی وہ معیار ہے

جو ہمیں ہر پوسٹ، ہر شیئر اور ہر کمنٹ سے پہلے یاد رکھنا چاہیے۔ علماء کرام کو چاہیے کہ اپنی زبان و تحریر میں حکمت، وقار اور توازن برقرار رکھیں اور اختلاف کو علمی انداز میں پیش کریں تاکہ عوام کو سچ سمجھنے میں آسانی ہو عوام کا فریضہ ہے کہ وہ علماء کی باتوں کو بغض یا جذبات کے بجائے دلیل اور عدل کی روشنی میں پرکھیں، اور ریاست کی ذمہ داری بھی محض بیانات تک محدود نہیں ہونی چاہیے جو عناصر مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں ان کے خلاف فوری قانونی کارروائی ضروری ہے سائبر کرائم قوانین کو فعال بنایا جائے اور مذہبی شخصیات کی تذلیل کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، کیونکہ اگر ریاست بروقت قدم نہ اٹھائے تو یہی فتنہ کل خونی تصادم کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا ایک طاقت ہے اور طاقت کا درست استعمال ہی شعور کہلاتا ہے اگر ہم اپنے اکاؤنٹس کو علم، محبت اور اصلاح کے لیے استعمال کریں تو یہی سوشل میڈیا امت کی وحدت کا ذریعہ بن سکتا ہے اگر ہم اپنی پوسٹس میں شائستگی، رواداری اور خلوص پیدا کریں تو یہ پلیٹ فارم نفرت نہیں بلکہ دعوتِ خیر کا میدان بن سکتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:“مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں”(صحیح بخاری)، یہ حدیث دراصل سوشل میڈیا کے ہر صارف کے لیے آئینہ ہے، ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہمارے الفاظ، ہماری پوسٹس یا ہماری ویڈیوز کسی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں بن رہیں، کیا ہم اپنی آزادی کے نام پر دوسروں کے جذبات کو روندنے لگے ہیں، کیا ہم اپنے دین کی اصل تعلیمِ صبر، محبت اور رواداری کو بھلا نہیں بیٹھے۔ ہر پوسٹ، ہر ویڈیو، ہر خبر کو شیئر کرنے سے پہلے خود سے یہ تین سوال ضرور کریں: کیا یہ سچ ہے؟ کیا یہ کسی کی عزت مجروح کرے گی؟ کیا یہ معاشرتی امن کے لیے مفید ہے یا نقصان دہ؟ یاد رکھیں“شیئر”کرنا صرف ایک بٹن دبانا نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے جھوٹ پھیلانا جرم ہے اور سچ چھپانا بھی جرم ہے اگر ہم نے اس نفرت کی آگ کو نہ روکا تو یہ ہمارے گھروں مساجد اور اداروں کو جلا دے گی۔ آئیے آج ہم سب ایک عہد کریں کہ ہم اپنی زبان قلم اور انگلی کو امانت سمجھیں گے کسی جھوٹی خبر الزام یا نفرت انگیز بات کو آگے نہیں بڑھائیں گے اختلاف کو دشمنی نہیں بنائیں گے اپنے الفاظ کو دلیل احترام اور محبت کا ذریعہ بنائیں گے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم سچ پھیلائیں گے، عزتوں کی حفاظت کریں گے اور سوشل میڈیا کو فتنہ نہیں بلکہ فہم و شعور کا ذریعہ بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے سچ پھیلانے اور اپنی زبان و تحریر کو دینِ حق کے لیے استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔۔

کلامِ پاک میں ہے جس کا نام قولِ سدید
اسی سے آدمی بنتا ہے صاحبِ تمکین

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
115265