توشہ خانہ کیس میں سزا کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست، ٹرائل کورٹ سے متعلقہ ریکارڈ طلب، سزا آج ہی معطل کرنے کی درخواست مسترد
اسلام آباد(چترال ٹایمزرپورٹ)اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کی درخواست کی سماعت میں نوٹس جاری کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ سے متعلقہ ریکارڈ طلب کر لیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ سمات کی۔چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم میں شامل وکلاء ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔سابق وزیرِ اعظم کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز ایک وکیل کو ایف آئی اے نے 8 گھنٹے اپنے پاس رکھا۔وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عدالت ایک آرڈر کر دے کہ وکلاء کو تنگ نہ کیا جائے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مجھے شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے صبح بتایا تھا۔شیر افضل مروت نے کہا کہ اب ایک ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے کہ ہم نے پولیس والوں کے کپڑے پھاڑ دیے۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے 3 سال قید اور 1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، چیئرمین پی ٹی آئی کا حق دفاع ختم کیا گیا، حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست اس عدالت میں زیر التوا ہے، حق دفاع کا معاملہ زیر التوا ہونے کے باوجود فیصلہ دیا گیا، صرف اس ایک بنیاد پر سزا کو ختم کیا جا سکتا ہے، ٹرائل کورٹ زیادہ سے زیادہ جو سزا سنا سکتی تھی وہ سنائی گئی، یہ عدلیہ کا مذاق بنانے کے مترادف تھا، کبھی نہیں ہوا کہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہو اور فیصلہ دیا جائے، ٹرائل کورٹ نے جس جلد بازی میں یہ سب کچھ کیا ایسا کبھی نہیں ہوا،
عدالت سے استدعا ہے اپیل پر فیصلے تک چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کی جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس کیس میں پہلے الیکشن کمیشن کو بھی سن لیں۔وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں توشہ خانہ کیس کا روزانہ بنیاد پر ٹرائل ہوا، میرے کلرک کو ہائی کورٹ داخل ہونے سے روکا گیا، میں نے اسے کہا تمہارے ساتھ جو ہو رہا ہے وائس نوٹ میں بھیجو، میں اس کا ٹرانسکرپٹ بھی جمع کرا رہا ہوں، میں نے اس سے متعلق چیف جسٹس کے نام درخواست دی، میں ٹرائل کورٹ میں 12:15 پر پہنچ گیا تھا، بتایا گیا کہ 12:30 پر فیصلہ سنایا جائے گا، جب جج صاحب آئے تو میں روسٹرم پر تھا، میں نے درخواست دی مگر جج نے کہا میں فیصلہ سنانے لگا ہوں، اب جب ایسی صورت حال بن گئی تو جج کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ جج نے مجھے مکمل نظرانداز کرتے ہوئے فیصلہ سنانا شروع کر دیا، ٹرائل جج کے آرڈر میں ہماری تو حاضری ہی نہیں لگائی گئی، جج صاحب آرڈر میں لکھ دیتے کہ میں آیا ہوں لیکن مجھے سنا نہیں گیا، اب عدالت دیکھ لے کہ یہ سزا معطلی کا مثالی کیس ہے یا نہیں، یہ ٹرائل ایسے چلایا گیا جیسے ہم روزانہ کوئی آرڈر چیلنج کرنے ہائی کورٹ آتے تھے، ایک طرف ہم ٹرائل چلا رہے تھے
دوسری طرف سیشن عدالت کے حکم نامے چیلنج، ٹرائل جج نے انتہائی جلد بازی میں ٹرائل چلایا، ہائی کورٹ نے 2 درخواستوں پر 7 دن میں فیصلہ کرنے کا کہا، ٹرائل جج نے تیسرے ہی دن فیصلہ کر دیا، تیسرے نہ سہی، پانچویں دن فیصلہ کر دیتے، کیا جلد بازی تھی؟ آخری دن میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور احتساب عدالت میں مصروف تھا، ساڑھے 10 بجے ٹرائل جج کو بتایا گیا کہ میں ٹرائل کورٹ آرہا ہوں۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ خواجہ صاحب نوٹس جاری کیا ہے، جواب آجائے تو پھر دیکھتے ہیں۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایک دو گزارشات عدالت کے سامنے کرنا چاہتا ہوں، مجھے سنے بغیر ایک فیصلہ لکھ دیا گیا تو اس کی کیا اہمیت ہے، آپ نے 6 ماہ سننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فیصلہ سنے بغیر دیا گیا، کسی گواہ نے نہیں کہا کہ جو کچھ کیا گیا وہ دانستہ اور جانتے بوجھتے تھا، اگر ایسا کچھ لکھا گیا تو وہ جج صاحب نے اپنی جانب سے ہی لکھا ہے۔خواجہ حارث نے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کر دیاسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کل سماعت ممکن نہیں، میں نے شیر افضل مروت صاحب کو بھی بتا دیا تھا، کل میرے میڈیکل چیک اپ ہیں۔عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت ملتوی کر دی۔واضح رہے کہ توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹرگوہر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ مرکزی اپیل پر فیصلے تک سزا معطل کر کے چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
عمران خان کیخلاف وکیل قتل کیس؛ سپریم کورٹ بینچ پر اعتراض اٹھ گیا
اسلام آباد(سی ایم لنکس) سپریم کورٹ میں کوئٹہ وکیل قتل کیس کی سماعت میں شکایت کنندہ کے وکیل امان اللہ کنرانی نے جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس حسن اظہررضوی پر اعتراض اٹھادیا اور تحریری غیر مشروط معافی مانگنے سے بھی انکار کردیا.بنچ کے سربراہ جسٹس یحیی آفریدی نے دونوں جج صاحبان سے زبانی معافی قبول کرنے سے متعلق پوچھا تو جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ الزامات واپس لینے پرمعافی قبول کرسکتا ہوں، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے زبانی معافی قبول سے انکار کرتے ہوئے کہا ایبسلوٹلی ناٹ۔جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کوئٹہ وکیل قتل کیس نامزدگی کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پرسماعت کی.چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا میرے موکل کو دوسرے مقدمے میں گرفتارکرلیا گیا،وکیلوں کوایف آئی اے کی جانب سے طلب کیاجارہا ہے.جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے دوسرا کیس نہیں صرف کوئٹہ وکیل قتل کیس ہے، اپنے دلائل صرف زیر سماعت مقدمے تک ہی محدود رکھیں.
ایک موقع پر دوران سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے وکیل شکایت کنندہ امان اللہ کنرانی سے پوچھا آپ نے ایف آئی آر پڑھی ہے، آپ روسٹرم پر آئیں۔ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی نے جواب دیا جی میں نے ایف آئی آر بھی پڑھی ہے اور وہ فیصلہ بھی پڑھا ہے جس میں آپ نے پنجاب انتخابات کیس پر ازخود نوٹس لینے کا کہا تھا،جسٹس حسن اظہررضوی کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں مقدمہ زیرالتوا ہے.جسٹس حسن اظہر رضوی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا آپ ججزکی کردارکشی کیسے کرسکتے ہیں؟ میرے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں کون ساکیس زیرالتواہے؟ ثبوت دیں، ورنہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے.جسٹس مظاہرنقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کواجازت کس نیدی اس طرح سیہمارے بارے میں بات کریں؟وکیل امان اللہ کنرانی نشست پربیٹھنے لگے توبنچ نے روسٹرم پر بلا لیا جسٹس یحیی آفریدی نے کہاکہ اگرآپ کوججزپرکوئی اعتراض تھا توتحریری طورپرجمع کراناچاہیے تھا.
جسٹس مظاہرنقوی نے کہاکہ آپ نے جوالزامات لگائے اس کا جواب دیناہوگا ہم کمزورنہیں ہیں، ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے، کیا آپکو کسی نے ججز پر الزامات لگانے کی ذمہ داری دیکر یہاں بھیجا گیا ہے.ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی نے کہا کہ آپ فریق کیوں بن رہے ہیں.جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اپنے الزامات واپس لیں، میں نے 35سال عزت سے گزارے ہیں، آپ نے کیسے الزام لگایا میرے خلاف کوئی ایف آئی آر ہے یا کوئی کیس زیر التواء ہے.امان اللہ کنرانی نے جواباً کہا کہ جج صاحب آپ چلائیں مت، میں آپ کاغلام نہیں ہوں،میں ایک آزاد پاکستانی شہری ہوں۔جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی کہا کیا ہم غلام ہیں؟ فوری طورپرعدالت سیغیرمشروط معافی مانگیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا آپ کا رویہ نامناسب ہے،اپنے الزامات واپس لیں اور غیر مشروط معافی مانگیں.ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی نے کہا میں معافی مانگتا ہوں. بنچ کے سربراہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا میں معافی قبول کرتا ہوں.
پھر بنچ کے سربراہ نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سے پوچھا کیا آپ معافی قبول کر رہے ہیں. جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے جواب دیا ایبسولوٹلی ناٹ. پھر جسٹس حسن اظہر رضوی سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا جی ٹھیک ہے.فوراً جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے جسٹس حسن اظہر رضوی سے پوچھا کیا آپ نے معافی قبول کر لی؟. جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا اگر الزامات واپس لیے جائیں تو میں معافی قبول کر لیتا ہوں.وکیل امان اللہ کنرانی نے ہاتھ جوڑکرمعافی مانگتے ہوئے کہاکہ آپ جج بنیں توٹھیک ہے لیکن اگرپارٹی بنیں گیتومیں بولوں گا پارٹی بننا ہے توکرسی سے اترجائیں.جسٹس یحییٰ آفریدی نے امان اللہ کنزانی سے کہا آپ غیر مشروط معافی نامے کا بیان حلفی جمع کرائیں.ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی نے جواب دیا میں تحریری معافی نہیں مانگوں گا آپ میرے خلاف کارروائی چلائیں.جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ٹھیک ہے ہم تحریری حکمنامہ جاری کریں گے. عدالت نے قرار دیا کوئٹہ وکیل قتل کیس میں حکم امتناع برقرار رہے گا. کیس کی سماعت 24اگست تک ملتوی کردی گئی.
چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا آج ہی معطل کرنے کی درخواست مسترد
اسلام آباد(چترال ٹایمزرپورٹ)چیئرمین پی ٹی آئی کوفوری ریلیف نہ مل سکا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء ٹیم کی آج ہی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی استدعا مسترد کردی۔عدالت نے درخواست پر نوٹسزجاری کردیئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چارپانچ دن میں کیس سماعت کیلئے مقرر ہوجائے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے سزا کے خلاف اپیل پر اور سزا کی معطلی کی درخواست پربھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو بھی سن لیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ ٹرائل کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل چلایا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 7 دن میں کیس قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلے کا حکم دیا۔ تیسرے دن میں نے کہا میں پیر کے روز یعنی پانچویں روز دلائل دوں گا۔ ٹرائل کورٹ نے سنے بغیر فیصلہ سنا دیا۔خواجہ حارث نے مزید کہا کہ میرے کلرک کو سپریم اور ہائی کورٹ میں مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا۔ آخری دن سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور احتساب عدالت میں مصروف تھا۔ ساڑھے دس بجے ٹرائل جج کو بتایا کہ میں ٹرائل کورٹ آرہا ہوں۔ میرے کلرک کا تعاقب کیا گیا اور اسے درخواستیں دائر نہیں کرنے دیں۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ ہمارے علم میں آیا ہے اس معاملے کو دیکھیں گے۔ بیرسٹر گوہر سماعت کے بعد آئیں اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔لطیف کھوسہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا حق دفاع ختم کیا گیا۔ حق دفاع ختم کرنے کی درخواست اس عدالت میں زیر التواء ہے۔ حق دفاع کا معاملہ زیر التواء ہونے کے باوجود فیصلہ دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے جج نے تین سال کی زیادہ سے زیادہ سزا دی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔ ٹرائل کورٹ زیادہ سے زیادہ جو سزا سنا سکتی تھی وہ سنائی گئی۔ یہ عدلیہ کا مذاق بنانے کے مترادف تھا۔ کبھی نہیں ہوا معاملہ ہائی کورٹ میں ہو اور فیصلہ دیا جائے ٹرائل کورٹ نے جس جلد بازی میں یہ سب کچھ کیا ایسا کبھی نہیں ہوا۔شیر افضل مروت ایڈوکیٹ نے کہا کہ میرے اوپر بھی پرچہ کاٹ دیا گیا ہے۔عدالت نے آج سزا معطلی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست پرنوٹسزجاری کردیئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء نے جمعرات تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی توچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل سماعت ممکن نہیں ہے لیکن جلد مقررکرنے کی کوشش کریں گے چارپانچ دن میں کیس مقررہوجائے گا۔