Chitral Times

بوڑھا دل…………تحریر = میر سیما امان……. (Utopia#1)

Posted on

انسان تو اُسی وقت مر جاتا ہے جب اُ س پر بُڑھاپا آتا ہے۔جب اولاد پر اسکا وجود بوجھ بن جاتا ہے،جب معاشرہ اسکی یاداشت پر ہنسنے لگتا ہے۔جب سگے رشتہ دار اسے دیوانہ قرار دے کر اپنی محفلوں میں جگہ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔روح تو اسی وقت پرواز کر جاتی ہوگی جب جسم کا بوڑھا اور کمزور ہوجانا اسے دوسروں کا محتاج بنا دیتا ہے۔۔
.
اکثر اوقات مجھے سوچنا پڑتا ہے کون ہیں ہم۔۔۔۔؟؟؟کیا ہم یہ اعزاز لیکر پیدا ہوئے کہ ہم کبھی بوڑھے نہیں ہونگے؟؟ یا انڈین اور ہالی ووڈ موویز کیطرح ہم نے ہزار ہا سال جینے کا کوئی راز پا لیا ہے۔۔ ایک سترہ سال کا جوان جوانی میں مدہوش ہوکر بُڑھاپے کی تذلیل کرتا ہے تو سمجھ آجاتی ہے لیکن جب ۶۰ ، ۷۰ سال کا بندہ ۸۰ سال کے وجود کو تمسخر بنادیتا ہے تو واقعی برداشت جواب دے جاتی ہے۔۔پچھلے کافی عر صے سے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے چند موضوعات پر اسقدر مشاہدہ حاصل ہوچکا ہےکہ اب مجھے رشتوں سے کراہت محسوس ہونے لگی ہے۔۔
.
مجھے رشتے ”’ رشتے ”’ نہیں لگتے بلکہ بناوٹی پھول لگتے ہیں جنھیں محض کوٹ کے کالر یا کمرے کے گلدان میں سجایا تو جاسکتا ہے لیکن نبھایا نہیں جا سکتا۔۔کہتے ہیں دل جوان رہے تو ادمی بوڑھا نہیں ہوتا۔لیکن عین جوانی پر دل بوڑھا ہوجائے تو میرے مطابق پھر کبھی ادمی پر جوانی نہیں آتی ،،میرے ساتھ بھی شائد یہی ہواہے،،مجھے اپنا دل صدیوں پُرانا لگتا ہے۔۔ اگر میں یہ کہوں تو ہرگز غلط نہ ہوگا کہ میں نے ۱۰ سال کی عمر میں ۶۰ سال کی ۲۰ کی عمر میں ۷۰ سال کی اور ۳۰ کی عُمر میں ۸۰ برس کی سانسیں جی ہیں۔۔
.
میرے اندر ہر اُس بوڑھے کی روح موجود ہے جوگھروں، خاندان، علاقے میں کسی نہ کسی حیثیت سے موجود ہیں۔ جو ہر جگہ اپنی ضیفی کا ”بوجھ ”اٹھائے ہوئے ہیں۔یہ سارے ضیف وجود اسقدر خاموش ہیں کہ مجھے انکی اندر کی چیخیں سُنائی دیتی ہیں۔۔ بوڑھا ادمی مجھے وینٹی لیٹر پر لیٹے اس مریض کی طرح لگتا ہے جسے سانس نہیں آتی،جسکا دل کسی خوفزدہ چڑیے کی طرح ہوتا ہے ہر وقت گھبرایا ہوا،خوف سے پھر پھراتا ہوا۔ میں کسی بوڑھے رشتے کی خدمت نہیں کرسکتی،کسی کی مدد نہیں کرسکتی،میں کسی بوڑھے وجود کا بُڑھاپا اور ضیفی دور نہیں کرسکتی۔۔ لیکن مجھے دنیا کے تمام بوڑھے افراد سے ہمدردی ہے،مجھے اس ذلت پر رونا آتا ہے جو کسی ادمی کو صرف اسلیےاُ ٹھانا پڑتا ہے کیونکہ وہ بوڑھا ہوچکا ہے۔۔

میں دنیا کے کسی ایسے روایت کا حصہ بننا ہی نہیں چاہتی جو پیسے کے بدلے پیسا دینا تو جانتی ہے لیکن عزت کے بدلے عزت نہیں۔۔جو احسان کے نام پر دوسروں کی مالی مدد تو یاد رکھتی ہے لیکن کسی کا خلوص نہیں۔۔میں خود کو ایسے معاشرے کا فرد کہلوانا ہی نہیں چاہتی جسکے رجسٹر پر یہ تو درج ہوتا ہے کہ فلاں شادی پر کسی نے ” کیا کچھ ” دیا تھا مگر یہ درج نہیں ہوتا کہ ہمارے بُرے وقتوں میں ہمیں ” اپنا “” کہنے والا کون تھا۔ ایسا معاشرہ جہاں میراث کا ظاہری لقب ” والدین ” رکھ دیا گیا ہو۔۔ایسا معاشرہ جہاں ادمی ۸۰ برس کا ہوجائے تو اپنے ہی بنائے گھر میں غیر ہوجاتا ہو۔۔ایسا معاشرہ جہاں ادمی کی تمام نیکیاں، احسان ، خلوص اور محنت جیتے جی اُسکے””” ضیف آنکھوں”” کے سامنے اکارت جاچکی ہوتی ہیں۔۔ ہم نے تو بُرھاپے کو گالی بنا کر رکھ دیا ہے ناقابل برداشت گالی،،۔۔میرا بوڑھا دل اس معاشرے کو تسلیم کر ہی نہیں سکتا جہاں ہر بوڑھے وجود کی حثیت صرف اتنی ہے کہ کب اسکے ” نام ” کا ”اعلان ” ہوجائے اور ہم اس پر فاتحہ پڑھ لیں،،کیا ستم ہے۔۔۔۔۔۔ ،،، مورخہ=۸دسمبر ۲۰۱۹

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
33519