Chitral Times

مٹی کا مزدور ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

زندگی کی تجارت میں آخری سودا ہوتا ہے کہ روٹی ختم ہو جائے تو نوکری کر لو، سو میں نے بھی مزدوری شروع کی، اور اب میں ایک مٹی کی کان کا مزدور ہوں، کام ختم ہوجانے کے بعد ہماری تلاشی لی جاتی ہے، ہمارے نگران ہمارے جوڑ جوڑ الگ کر دیتے ہیں، پھر ہمیں جوڑ دیا جاتا ہے، ہمارے نگران ہمیں لاپروائی سے جوڑتے ہیں، پہلے دن میرے کسی حصے کی جگہ کسی اور کا کوئی حصہ جوڑ دیا گیا تھا، ہوتے ہوتے ایک ایک رواں کسی نہ کسی اور کا ہوجاتا ہے، خبر نہیں میرے مختلف حصوں سے جڑے ہوئے مزدوروں میں کتنے کان بیٹھنے سے مرگئے ہوں گے، مٹی چرانے کے عوض زندہ جلا دئیے گئے ہوں گے۔

مٹی کی کان میں کئی چیزوں پر پابندی ہے، مٹی کی کان میں پانی پرپابندی ہے، پانی مٹی کی حاکمیت کو ختم کر کے اسے اپنے ساتھ بہا  لے جاتا ہے، اگر نگرانوں کو معلوم ہوجائےکہ ہم نے مٹی کی کان میں آنے سے پہلے پانی پی لیا تھا، تو ہمیں شکنجے میں الٹا لٹکا کر سارا پانی نچوڑ لیا جاتا ہے، اور پانی کے جتنے قطرے برآمد ہوتے ہیں اتنے دنوں کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے۔

مٹی کی کان میں آگ پر پابندی نہیں ہے، کوئی بھی نگران آگ پر پابندی نہیں لگاتے آگ کان کے مختلف حصوں کے درمیان دیوار کا کام کرتی ہے، میں بھی آگ کی چار دیواریوں کے درمیان کام کرتا ہوں، کوئی بھی مزدوری آگ کی چار دیواریوں کے بغیر نہیں ہوسکتی، مٹی کی کان میں آگ کا ایک اور کام بھی ہے، کبھی کبھی نگران ساری کان کو اچانک خالی کرانا چاہتے ہیں اس وقت کان میں آگ پھیلا دی جاتی ہے، اس دن اگر کوئی سلامت نکل جائے تو اس کی تلاشی نہیں لی جاتی، مٹی ایسے ہی دن چرائی جاسکتی ہے

میں اس کے لیے مٹی چراؤں گا، اور تحقیق کروں گا کہ کان میں آگ کس طرح لگتی ہےاور کان میں آگ لگاؤں گا اور مٹی چراؤں گا۔

اتنی مٹی کہ اس آدمی کے لئے ایک مکان، ایک پانی انبار کرنے کا کوزہ ، اور ایک چراغ بنادوں اور چراغ کے لئے آگ چراؤں گا، آگ چوری کرنے کی چیز نہیں مگر ایک نہ ایک ضرورت کے لئے ہر چیز چوری کی جاسکتی ہے۔ پھر اس آدمی کو میرے ساتھ رہنا گوارا ہوجائے گا، آدمی کے لئے اگر مکان ہو، پینے کے پانی کا انبار ہو اور چراغ میں آگ ہو تو اسے کسی کے ساتھ بھی رہنا گوارا ہوسکتا ہے، میں اسے اپنی روٹی میں شریک کروں گا، اور اگر روٹیاں کم پڑیں تو روٹیاں چراؤں گا۔

ویسے بھی نگران ان مزدوروں کو جو کان میں شور نہیں مچاتے، بچی کھچی روٹیاں دیتے رہتے ہیں میں نے مٹی کی کان میں کبھی کوئی لفظ نہیں بولا اور اس سے باہر بھی نہیں، میں اپنے بنائے ہوئے آدمی کو اپنی زبان سکھاؤں گا اور اس سے باتیں کروں گا میں اس سے مٹی کی دکان کی باتیں نہیں کروں گا، مجھے وہ لوگ پسند نہیں جو اپنے کام کاج کی باتیں گھر جاکر بھی کرتے ہیں، میں اس سے باتیں کروں گا گہرے پانیوں کے سفر کی اور اگر میں اس کے سینے میں کوئی دھڑکنے والا دل چرا کر لگا سکا تو وہ بھی لگائوں گا، اس طرح اس سے محبت کی باتیں کروں گا، اُس لڑکی کی، جسے میں نے چاہااور اس لڑکی کی بھی، جسے وہ چاہے گا، میں اس آدمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا کسی بھی آدمی کو کوئی ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔

میں اس میں سفر کا حوصلہ پیدا کروں گا اور اسے اس خطے میں بھیجوں گا، جہاں درخت مٹی میں پانی ڈالے بغیر نکل آتے ہیں اور وہ ان بیجوں کو میرے لئے لے آئے گاجن کے اگنے کے لئے پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، میں روزانہ ایک ایک بیج مٹی کی کان میں بوتا جاؤں گا، بوتا جاؤں گا، ایک دن کسی بھی بیج کے پھوٹنے کا موسم آجاتا ہے، مٹی کی کان میں میرا لگایا ہوا بیج پھوٹے گا اور پودا نکلنا شروع ہوگا، میرے نگران بہت پریشان ہوں گے، انہوں نے کبھی کوئی درخت نہیں دیکھا ہے، وہ بہت وحشت زدہ ہوں گے اور بھاگیں گے۔

میں کسی بھی نگراں کو بھاگتے دیکھ کر اس کے ساتھ کان کے دوسرے دہانے کا پتا لگالوں گا کسی بھی کان کا دوسرا دہانہ معلوم ہوجائے تو اس کی دہشت نکل جاتی ہے۔ جب میری دہشت نکل جائے گی، میں آگے کی دیوار سے گزر کر مٹی کی کان کو دور سے جاکر دیکھوں گا، اور ایک ویران گوشے میں اوپر کی طرف ایک سرنگ بناؤں گا، سرنگ ایسی جگہ بناؤں گا جس کے اوپر ایک دریا بہہ رہا ہو۔

 مجھے ایک دریا چاہئیے، میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنا دریا بیچ کر ایک پل خریدا تھااور چاہا تھا کہ اپنی گزراوقات پل کے محصول پر کرے مگر بے دریا کے پل سے کوئی گزرنے نہیں آیا، پھر میں نے پل بیچ دیا اور ایک ناؤ خرید لی مگر بے دریا کی ناؤ کو کوئی سواری نہیں ملی، پھر میں نے ناؤ بیچ دی اور مضبوط ڈوریوں والا ایک جال خرید لیا مگر بے دریا کے جال میں کوئی مچھلی نہیں پھنسی، پھر میں نے جال بیچ دیا، اور ایک چھتری خرید لی اور بے دریا کی زمین پر مسافروں کو سایہ فراہم کرکے گزارہ کرنے لگا مگر دھیرے دھیرے مسافر آنے بند ہوتے ہوگئے، اور ایک دن جبسورج کا سایہ میری چھتری سے چھوٹا ہوگیا تو میں نے چھتری بیچ دی اور ایک روٹی خرید لی۔ ایک رات یا کئی راتوں کے بعد جب وہ روٹی ختم ہوگئی تو میں نے نوکری کرلی اور ۔۔۔۔۔نوکری مُجھے مٹی کی کان میں ملی !!! 

matti ka mazdoor shakira nandani
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
51000

تمام آنکھیں میری آنکھیں ہیں – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

تمام آنکھیں میری آنکھیں ہیں آنکھیں بھی کیا خوب ہیں، ایک بار کھلتی ہیں تو موت پر ہی بند ہوتی ہیں۔ کھلنے اور بند ہونے کے درمیانی عرصے میں سوتی جاگتی آنکھیں کیا کچھ اپنے اندر سمو لیتی ہیں۔ یہ نہ صرف دل و ذہن کو چہرے پر لے آتی ہیں بلکہ پورا وجود ہی آنکھ کی پتلی میں سمٹ آتا ہے۔ 

اگر ان سے رنگ و نور کے چشمے پھوٹتے ہیں تو باہر کے رنگوں کو بھی ہر لمحہ یہ اپنے اندر سموتی رہتی ہیں۔ کبھی آسمان کی بلندی، کبھی خورشید کی تمازت، کبھی چاند کی اداسی تو کبھی سمندروں کے مد و جزر ان کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔ ایک منظر کے بعد دوسرا منظر، پھر منظر کے بعد کا منظر، پھر پس منظر، گویا جسم کا یہ دروازہ ہر منظر کے لئے کھلا ہی رہتا ہے۔ میری آنکھوں نے کیا دیکھا، کیا سمجھا، کیا کھویا، کیا پایا، کسے اپنایا، کسے ٹھکرایا، کہاں بھٹکیں، کہاں ان کی سرزنش ہوئی، کس منظر کو یاد رکھا، کسے بھلا دیا، کس سے بات کی، کس سے منہ موڑا، کہاں اٹھیں، کہاں جھک گئیں، کہاں دل بن گئیں، کہاں ذہن میں ڈھل گئیں، کہاں ان پر پیار آیا، کہاں انھیں نوچ کر پھینکنے کو جی چاہا، ایک نہ ختم ہونے والا منظر نامہ ہے جو قلم کے راستے کاغذ کی روح میں اتر گیا ہے۔ 

آنکھیں بند کرتی ہوں تو اندر کی آنکھ پلکیں جھپکنے لگتی ہے۔ آنکھیں کھولتی ہوں تو خود آنکھ بن جاتی ہوں۔ لگتا ہے کائنات کی سب آنکھیں میرے وجود پر آ گئی ہوں۔ ہر زاویہ نگاہوں کی زد میں آ کر انکشاف کی نئی قیامتیں توڑ تا رہتا ہے۔ 

باطن کی آنکھ کھل جائے تو ظاہری آنکھیں مضطرب ہو جاتیں ہیں۔ چشمِ حیراں کو دلاسا دینا چاہا مگر تلاش و جستجو میں کوئی سرا ہاتھ نہ لگا۔ دل سے پوچھا تو وہ خود آنکھ بن گیا۔ ذہن سے سوال کیا تو کئی آنکھیں اس کے اندر روشن ہو گئیں۔ روح سے پوچھا تو اس کی تابناکیوں نے نئے عالم آشکار کر دیئے۔

 کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا دیکھ رہی ہوں، کیا آنکھ سے اوجھل ہے اور کیا اوجھل نہیں ہے۔ جو نظر آتا ہے وہ ہے نہیں ہے، سب دھوکا ہے، باطل ہے، فریبِ نظرہے، جو ظاہر کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی وہی سچ ہے، وہی حق ہے، وہی جستجو، وہی راستہ، وہی منزل ہے، وہی خواب ہے، وہی تعبیر ہے، اندھیرا فریب دیتا ہے، آنکھ اس فریب کوسمجھتی ہے۔ اندھیروں میں بھی متلاشی آنکھیں ظلمت کا پردہ چاک کر کے وہ دیکھ لیتی ہیں جو دیکھنا چاہتی ہیں۔ اندھیرا چشمِ بینا کی راہ میں دیوار نہیں بن سکتا۔

 آنکھیں راستے کی ہر دیوار گرانا جانتی ہیں۔ بشرطیکہ ہنر مند ہوں، لگن رکھتی ہوں، کیف و مستی سے سرشار ہوں، جذب کا ایسا عالم ہو کہ ہر چیز وجد میں آ جائے۔ کائنات پاؤں میں گھنگرو پہن کر محوِ رقص ہو جائے، ڈھولک کہیں اور بجے، رقص کہیں اور ہو۔ یہ آنکھ کے عرفان کی انتہا ہے۔

 پیدائش اگر ایک انتہا ہے تو موت دوسری انتہا۔ ہم خاکی صورت لوگ ان انتہاؤں کے درمیان قید ہیں ، جتنے مجبور ہیں اتنے بااختیا ر بھی ہیں ،جتنی لگن ہے ، جتنی تڑپ ہے، اتنا ہی اختیار بھی ہمارے حصے میں آئے گا۔پھر سب عیاں ہو جاتا ہے ، آگہی کے در وا ہو جاتے ہیں ، پردے اٹھتے ہیں ، اصل تماشا نظر آتا ہے۔ بس جادۂ عرفاں پر چلنے کی ضرورت ہے ۔ باطن کی آنکھ ایک کے بعد ایک منظر دیکھتی ہے تو ظاہر کی آنکھ حیرتوں میں ڈوب جاتی ہے۔

 یہ کائنات حیرت کدہ ہے ۔ صرف دیکھنے والی آنکھ چاہئیے۔ حیرت زدہ آنکھوں نے جب اردگرد دیکھا تو سب اپنا ہی لگا۔ ہر آنکھ اپنی آنکھ اور ہر روشنی اپنی روشنی تھی۔ میری آنکھیں، میری نہ رہیں۔ کائنات میں بکھر کر ہر منظر کے چہرے پر ثبت ہو گئیں۔ اس ادل بدل میں سب آنکھیں میری آنکھیں بن گئیں۔ سب نقش میرے تھے، سب رنگ، سب جذب، سب کیف و مستی میرے اندر ہی موجود تھی۔ رگوں میں دوڑتا ہوا لہو ثناء خوانی کر رہا تھا۔ دل کسی کی یاد میں گریہ زاری کر رہا تھا۔ ایک شور تھا جو کبھی سکوت میں ڈھل گیا تو کبھی شعروں میں اتر کر کاغذ کے وجود سے لپٹ گیا۔ 

chitraltimes Eyes
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
50519

کامیابی کا تاج – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 میں اپنی منزل کی جانب چلا جا رہا تھا، آج سورج اپنی جگہ چھوڑ کر بہت نیچے آچکا تھا، جس کی وجہ سے ریت کے ٹیلے گرم سے گرم تر ہو کر سُرخ سُرخ دکھائی دے رہے تھے، گرم ہوا کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ آکسیجن بالکل نہیں ہے، میرے ارد گرد کسی بھی جاندار شے  کا وجود نہیں تھا، شاید گرمی سے بچنے کیلئے ہر ایک اپنے آپ کو سورج سے چھپا رہا تھا۔ آخر میں نے سورج سے پوچھا کہ “آج تم اپنی جگہ سے ہٹ  کر اتنا نیچے کیوں آگئے ہو؟ دیکھو تمہا ری وجہ سے چلنا مشکل ہو گیا ہے، کوئی بھی جاندار شے دکھائی نہیں دے رہی، ہر چیز تمہاری وجہ سے پناہ لے چُکی ہے، زمین بھی تمہاری گرمی برداشت نہیں کر پا رہی۔” سورج  نے تپ کر جواب دیا کہ “یہ وقت پوچھنے کا نہیں بلکہ اپنے آپ کو سنبھالنے کا ہے، میں تو اپنی منشاء سے چلتا ہوں اور میری ایک ہی جگہ ہے میں کبھی اپنی جگہ کو تبدیل نہیں کرتا، یہ تو زمین ہی ہے جو گردش میں ہے اور وہ میرے ارد گرد چکر لگا رہی ہے، اور آج اس نے اپنی جگہ تبدیل کرکے مجھ سے قریب آنے کی کوشش کی ہے،

میں آگ کا گولا ہوں، میرے نزدیک آنے کی کوشش مت کرو بلکہ دور سے دوستی کرو کیونکہ۔۔۔ دُور کے ڈھول سُہانے ہوتے ہیں“ پھر میں نے زمین سے پوچھا کہ تم سورج سے قریب ہونے کیلئے دوسرا دن نہیں چن سکتی تھیں؟ زمین نے چکرا کر جواب دیا کہ “میں اپنے مدار میں ہی گھومتی ہوں، دراصل آج میں تھوڑی بُہت ٹھنڈ  محسوس کررہی تھی، مُجھے سورج  کی تپش کی ضرورت درپیش ہوئی، جس کی وجہ سے میں نے اپنا گول بدن سورج کی جانب کر دیا، تم اپنے لئے کسی سایہ دار درخت کو ڈھونڈ  کر اُس کے نیچے پناہ  لینے کی کوشش کرو۔” یہ کہہ کر زمین چُپ ہو گئی۔ 

میں نے لُو سے بچنے کیلئے چاروں جانب نظریں دوڑائیں مگر مُجھے کوئی سایہ دار درخت کہیں بھی نظر نہ آیا پھر میں نے ایک چھوٹے سے درخت کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کی مگر درخت چھوٹا ہونے کے سبب اس کا سایہ بہت کم تھا اوراس سائے میں میرا صرف نصف جسم چُھپ سکتا تھا، ناچار میں نے اسے غنیمت جان کر اپنے سر والے حصے کو درخت کے سایہ میں کر لیا۔ مجھے پیاس بھی شدید لگ رہی تھی، مگر میرے ساتھ جو بچا ہوا پانی تھا وہ بھی اس چلچلاتی دھوپ میں گرم ہو چپکا تھا۔ میں نے پانی پینے کی کوشش کی پانی گرم ہونے کی وجہ سے میرے حلق سے نہیں اُتر رہا تھا۔ چاروں جانب موت کا مہیب سناٹا سا چھایا ہُوا تھا۔ اب میں نہ تو آگے جاسکتا تھا اور نہ ہی پیچھے۔ میرے ارد گرد کسی جاندار شے کا وجود نہیں تھا۔ میرا آدھا جسم سائے میں اور آدھا سورج کے رحم و کرم پر تھا۔ سورج  نے میرا ساتھ چھوڑ دیا اور ہوا بھی سورج کے سامنے بے بس تھی۔

زمین اپنے غم میں مبتلا تھی۔ ہر جاندار اپنے آپ کو بچانے کی تگ ودو میں تھا، اب میرے اور خُدا کے درمیان کوئی نہ تھا۔ تب میں نے اپنا چہرہ اوپر کی جانب کر کے خُدا سے عرض کی۔”اے خدایا!  قیامت مرنے سے پہلے آتی ہے یا مرنے کے بعد؟ اوپر سے کوئی جواب نہ آیا۔  میں نے اگلا سوال کیا کہ، کیا میرے مرنے کے بعد اس بیابان میں میری لاش کا دیدار کسی کو نصیب ہوگا یا نہیں؟اوپر سے اب بھی کوئی جواب نہ آیا۔ اب میں نے تیسرا سوال کیا کہ، جس مقصد کی خاطر میں گھر سے نکلا ہوں کیا وہ ادھورا رہ جائے گا؟حسبِ سابق پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔ پھر میں نے چوتھا اور آخری سوال کیا کہ،  کیا میں اس ویرانے میں گُھٹ  گُھٹ کر اس دُنیا سے چلا جائوں گا؟اس بار بھی کوئی جواب نہ آیا۔ شیطان میری اس حالت پر مجھے دیکھ  دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھا۔ تب میں نے شیطان سے پوچھا کہ، تم کیوں اتنا ہنس رہے ہو؟ کیا میں نے کوئی گناہ کیا ہے سوال کر کے؟ یا میرے سوال غلط تھے؟ نہیں! نہیں! ۔۔۔ تم نے تو بہترین سوالات کئے ہیں مگر شاید تمہیں معلوم نہیں کہ خدا انسان کے ساتھ براہِ راست بات نہیں کرتا، بلکہ جب انسان پاگل ہو جاتا ہے تو یہی سمجھنے لگتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ  براہِ راست بات کر رہا ہے۔ اب تمہیں بچانے والا کوئی نہیں، تم یہاں گُھٹ گُھٹ کر مرو گے۔ تمہارا دیدار کسی کو نصیب نہ ہو گا۔

تمہارے جسم کا سارا گوشت صحرا کے جانور کھا جائیں گے۔ تمہاری ہڈیاں ہر طرف بکھر جائیں گی۔ تم اپنے مقصد میں اُس وقت تک  کامیاب نہ ہو پائو گے جب تک تم خدا کو بھول کر میرے پیروی نہیں کرو گے۔ جو تم نے سوچا تھا وہ سب بھول جاؤ۔ اب اپنی موت کا انتطار کرو تمہیں بچانے والا کوئی نہیں آئیگا۔ آئو میرے ساتھ شامل جائو۔ میری پیروی کرو۔ میری نصیحتوں پر عمل کرو۔ میں تمہیں دُنیا میں ہیرو بنادوں گا۔ ہر طرف تمہارا ڈنکا بجے گا، دولت کمانے میں، میں تمہاری مدد کروں گا اور جب تم دولت مند بن جائو گے تب لو گ خود بخود تمہاری عزت کریں گے۔  کیا تُم، میرے ساتھی بنو گے؟ میں غُصّے میں اُٹھ  کھڑا ہوا اور گَرج کر کہا،  نہیں!!!!!!  ایسا نہیں ہو سکتا مجھے پتہ ہے کہ ”جس کا کوئی نہیں تواُس کا خدا ہوتا ہے“۔مجھے خدا پر پورا بھروسہ ہے، میں جس مقصد کی خاطر گھر سے نکلا ہوں  وہ مقصد ضرور پورا ہو جائے گا۔

 تم، میرے اور میرے خدا کے درمیان بولنے والے ہوتے کون ہو؟ مجھے اپنے خدا پر پورا یقین ہے اور یقین ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ کہہ کر جب میں شیطان کی جانب دیکھا تو وہ غائب ہو چُکا تھا۔ درختوں کے سائے بڑھ چُکے تھے، سورج کی گرمی کَم ہو چُکی تھی۔ پانی بھی ٹھٹندا ہو چکا تھا۔ میں نے خُدا کا نام لے کر پانی پیا، اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو دیکھا سورج کی شدت ختم ہو چُکی تھی اور میں بھی اپنے آپ کو بہتر محسوس کر نے لگا ٹھا۔ تب مجھے ایک دانشور کا قَول یا د آیا۔”جب تقدیر کسی پر مہربان ہونا چاتی ہے تو پہلے اسے مشکلات میں ڈال کر اس کا امتحان لیتی ہے، کہ آیا یہ انسان اس قدر مضبوط ہے کہ کامیابی کا تاج اس کے سر پر رکھا جاسکے“اب میرے پاؤں میں بھی کھوئی ہوئی طاقت واپس آرہی تھی۔ میں نے خُدا کا شکر ادا کیا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ 

kamyabi shakira
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
50306

خاموشی – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی


خاموشی خیر کی علامت ہے جبکہ شور، شر کا مظہر ہے۔ شورپسند لوگ شورش پسند ہوتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ فتنہ فساد کی سوجھتی ہے جبکہ خاموشی پسند کرنے والے فطرتاً امن پسند ہوتے ہیں۔ “ڈاکٹر شاکرہ نندنی”

انسان خاموشی کو توڑتی ہوئی ایک چیخ کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ نتیجتاً ساری زندگی ہنگامہ بازی میں گزاردیتا ہے۔ ہر وقت بے اطمینانی، مسئلے، پریشانی، اضطراب لیکن موت کی خاموشی آتے ہی وہی پریشان حا ل انسان کتنا شانت اور کتنا پرسکون ہوجاتا ہے۔ ہنگامہ اور شور زندگی کے صحیح عکاس نہیں۔ اسی طرح سنّاٹا اور ویرانی بھی زندگی کے ترجمان نہیں ہیں۔ ان کے برعکس خاموشی زندگی کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ جو لوگ سنّاٹے اور خاموشی میں فرق نہیں کرپاتے وہ خاموشی کی اہمیت نہیں جان سکتے۔ سنّاٹا بے روح اور بے آواز ہوتا ہے جبکہ خاموشی زندگی کی عکاس ہی نہیں، زندگی کو جنم بھی دیتی ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ دل کی دھڑکن کا ہر بار ایک وقفے کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا اور پھر خاموشی کے اسی وقفے سے اگلی دھڑکن کا جنم لینا زندگی کو جنم دینا نہیں تو اور کیا ہے! پھر خاموشی سنّاٹے کی طرح بے آواز بھی نہیں بلکہ خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب مکمل خاموشی ہو، ہونٹ بھی خاموش ہوں تب دو دھڑکتے دلوں کی جو گفتگو ہوتی ہے اسے اہلِ دل بخوبی جانتے ہیں۔ آواز کی دلکشی بھی خاموشی کے پس منظر کی محتاج ہے۔ ہوٹلوں اور بازاروں میں پوری آواز کے ساتھ نشر کئے جانے والے گیت سَر میں درد پیدا کردیتے ہیں جبکہ وہی گیت آپ رات کو مکمل خاموشی کے پس منظر میں مدھم آواز سے سُنیں تو آپ خود بھی ان گیتوں کے سُروں کے ساتھ جیسے بہتے چلے جائیں گے۔

سرگوشی اور دھیمی گفتگو آواز کے خاموشی کی طرف جھکاؤ کے مظہر ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ آوازوں میں جو لطف سرگوشی اور دھیمی گفتگو میں ہے وہ بلند لہجے کی آواز میں نہیں ہے۔ بعض لوگ خاموشی کو شکست کی آواز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ اور مستقبل سے بے خبر”حال مست“ ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خاموشی تو فتح کی پیش خبری ہوتی ہے۔ جب سمندر خاموش ہو یا فضا میں ہوا خاموش ہو تب خاموشی طوفان اور آندھی کی صورت اپنا جلالی روپ دکھاتی ہے۔

سقراط نے زہر پی کر، حسینؑ نے شہید ہو کر اور ابن منصور نے سولی قبول کرکے خاموشی سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابرو ں کے سامنے شکست ہی تھی۔ لیکن درحقیقت ان مظلوموں اور سچوں کی خاموشی اُن کی فتح کی پیش خبری تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ مظلوموں کی خاموشی کی یہ سچائی ہمیشہ سے قائم ہے۔

chitraltimes silence khamoshi
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , ,
50154

ایک جھلک زندگی کی

کل ایک جھلک زندگی کو دیکھا

وہ راہوں پر کھڑی، گُنگنا رہی تھی

پھر ڈھونڈا اُسے اِدھر اُدھر 

وہ آنکھیں جھپکائے، مُسکرا رہی تھی

اِک عرصے بعد آیا مُجھے قرار

وہ سہلا کر مُجھے، سُلا رہی تھی

ہم دونوں خفا ہیں ایک دوسرے سے 

میں اُسے اور وہ مُجھے، سمجھا رہی تھی

میں نے پوچھ لیا کیوں اتنا درد دیا تُو نے

وہ ہنسی اور بولی، میں زندگی ہوں پگلے!

تُجھے جینا سکھا رہی تھی۔

ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted in شعر و شاعریTagged , ,
50063

سرداری کا راز …ڈاکٹر شاکرہ نندنی

چین کے مفکر فطرت کو “ تاؤ “ کہتے ہیں اور ان کی ساری عمر اسی فطرت کے اصولوں کے مطابق گزارنے میں گزر جاتی ہے۔ چینی قوم میں دانائی سر فہرست مانی جاتی ہے۔ بزرگ چینی کہا کرتے تھے۔

آخر میں جس چیز کو سکیڑنا ہو، اسے پہلے بڑھانا پڑتا ہے

جس چیز کو کمزور کرنا ہو، اسے پہلے مظبوط بنانا ہو گا
جس چیز کو ختم کرنا ہو گا، اسے پہلے قائم کرنا ہو گا

جو شخص کچھ لینا چاہتا ہے، اسے پہلے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ دینا پڑے گا

جو لوگ یہ کلیہ نہیں جانتے سمجھئے ان کی بصیرت میں کمی ہے۔ اسی نا سمجھی کی وجہ سے نرمی پر سختی غالب آ جاتی ہے اور کمزور پر طاقت غلبہ پا جاتی ہے۔

اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مچھلیوں کو وہیں رہنے دیجئے جہاں وہ ہیں اور ملک کے اسلحہ کو وہاں رکھئیے جہاں کسی کی نظر نہ پڑے ۔

پانی کو دیکھئے اس کائینات میں کمزور کی طاقتوری کا بہترین مظہر ہے ۔۔ پانی کا ایک ایک قطرہ بڑی نرمی، بڑی آہستگی سے ٹپکتا رہتا ہے اور چٹان جیسی سخت چیز میں سوراخ کر دیتا ہے ۔

 چینی مفکر لاؤتر نے کہا ۔۔

“ بڑے بڑے دریاؤں اور اتھاہ سمندروں نے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے ندی نالوں پر یہ سرداری ، یہ بادشاہت کیسے حاصل کی؟

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بڑے بڑے دریاؤں اور اتھاہ سمندروں نے چھوٹے ندی نالوں کی نسبت زیادہ نیچی جگہ ڈھونڈی اور یہی ان کی سرداری کا راز ہے

“ دوستو ! صلح جوئی اور خاکساری میں بےپناہ قوت پوشیدہ ہے ۔ سچے دل سے سوچئے، آج یہی فطری کمی ہر طرف افراتفری پیدا کر رہی ہے ۔ 

sardari ka raz chinese poster
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
49988

ضرورتِ رشتہ……….. ڈاکٹر شاکرہ نندنی

woman zarorate rishta

ضرورتِ رشتہ

میری عمر 30 سال ہے، میں ایک اچھے گھرانے کی فرد ہوں اور میری تعلیم بھی اچھی ہے۔ انتظام خانہ داری تو کیا انتظام ملک گیری بھی میرے لئے کچھ مشکل امر نہیں۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اور چہیتی نور نظر ہوں۔

دنیا جہان کے والدین کی طرح میری ممی کی بڑی آرزو ہے کہ ان کے گھر بھی بابل کے گیت گائے جائیں۔ ڈیڈی کی بھی خواہش ہے کہ میں اپنی زندگی کا ساتھی منتخب کر لوں۔ سہیلیوں کو بھی میری جدائی کے گیت گانے کا بڑا ارمان ہے، سیکڑوں ہزاروں رشتے آچکے ہیں۔ لیکن کوئی میرے معیارِ انتخاب پر پورا نہیں اترا اور سہیلیوں نے زندگی تنگ کررکھی ہے۔ وہ بار بار پوچھتی ہیں کہ یہ سب امیدوار مجھے کیوں پسند نہیں آئے؟


انہی باتوں سے تنگ آ کر آخر میں اپنے “معیارِ انتخاب” کا اعلان کر رہی ہوں۔ جو صاحب اس معیار پر پورے اتریں صرف وہی درخواست بھیجیں، ایسی تمام درخواستیں مدیرہ ماہنامہ ‘بانو’ کی معرفت آنی چاہئیں۔ میں مردوں کے خطوط صیغۂ راز میں رکھنا ضروری نہیں سمجھتی، اس لئے جو صاحب پہلے ہی سے شادی شدہ ہوں کوئی درخواست نہ بھیجیں ورنہ ضرور ان کی بیوی کو بھی وہی درخواست بھیج دی جائے گی۔

درخواستوں کے ہمراہ تصویر بھیجنا لازمی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ تصویر امیدوار کی ہی ہو ورنہ انٹرویو کے لئے آنے جانے کا خرچہ امیدوار کے ذمہ ہوگا۔ اگر کچھ صاحبان کو ابتدائی انتخاب میں پسند کر کے سہیلیوں کے مشاورتی بورڈ کے سامنے بلایا گیا، تو ان کا ایک طرف کا فرسٹ کلاس کا کرایہ انتخاب میں کامیاب ہونے والے امیدوار سے بطور ہرجانہ دلوایا جائے گا۔

خاندان۔
نام اور رسموں پر مرمٹنے والا نہ ہو۔

عمر۔
نہ اتنی زیادہ ہو کہ انجانے لوگ بیوی کا باپ تصور کر لیں اور نہ اتنی کم کہ برادرِ خورد۔

تعلیم۔
کم سے کم ایم، اے تک ہو اور زیادہ سے زیادہ پر کوئی پابندی نہیں۔ فلسفہ سے دور بھاگتا ہو، اردو ادب، انگریزی ادب سے دلچسپی رکھتا ہو لیکن خود کو بیوی سے زیادہ قابل نہ سمجھے۔

عادات و اطوار۔
نیک چلن ہو اور کبھی کسی خوبصورت لڑکی کا پیچھا نہ کرتا ہو اور بقولِ غالب “چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد” کا قائل ہو۔

شوق۔
جواری نہ ہو، تاش سے لے کر ریس کے میدان تک کسی بھی قسم کے جوئے کا شائق نہ ہو۔ ہوٹلوں اور کلبوں کا دلدادہ نہ ہو، رات کو گھر دیر سے نہ آتا ہو۔ شادی کے بعد بیوی کی مرضی کے شوق اختیار کرنے اور بیوی کو ناپسندیدہ شوق چھوڑ دینے کا معاہدہ اسٹامپ پیپر لکھ کر دینا ہوگا۔

دوستی۔
احباب کا جھنڈ نہ رکھتا ہو کہ بیوی کی زندگی ہی چائے بناتے ہی گزر جائے۔

پکچر۔
صرف بیوی کے ساتھ دیکھنے کا خواہشمند ہو۔

معلومات۔
زمین سے چاند تک کی معلومات ضرور ہوں مگر باورچی خانے کے متعلق اس کی معلومات صفر کے برابر ہو۔ اگر کھانے میں نمک نہ ہو تو چوں نہ کرے ، اور شیرنی میں شکر کی جگہ غلطی سے نمک پڑ جائے تب بھی کھانا چھوڑ کر نہیں اٹھنا ہوگا۔

صحت۔
اچھی ہو، نہ اتنا دبلا ہو کہ آندھی میں اڑ جانے کا خدشہ رہے، نہ اتنا تندرست کہ محلے کے لڑکے فٹ بال سمجھ کر ٹھوکر ماریں، توند آگے کو نکلی ہوئی نہ ہو۔

کھیل کود۔
فٹ بال، ہاکی، یا کرکٹ کا مایۂ ناز کھلاڑی ہو، لیکن لڑکیوں سے دور بھاگتا ہو ، بچپن میں بھی کبھی لڑکیوں کے ساتھ آنکھ مچولی نہ کھیلی ہو۔

قد۔
نہ اتنا لمبا ہو کہ کہ لوگ ریگستان کے متبرک جانور کا خطاب عطا کردیں اور نہ اتنا چھوٹا کہ میاں ٹینی، بیوی کلنگ والا معاملہ ہو جائے۔

بال۔
گھنے سیاہ ہوں ، گھنگریالے نہ ہوں کہ لڑکیاں مرنے لگیں۔

پیشانی۔
اتنی تنگ نہ ہو کہ تقدیر میں لکھی جانے والی بہت سی نعمتیں چھوٹی پیشانی کے باعث رہ جائیں، اور نہ اتنی چوڑی کہ پلے گراؤنڈ معلوم ہو۔ نہ اتنی بلند کہ سوتے میں بچے ٹیلے پر چڑھنے کی مشق کرنے لگیں۔

رنگ۔
بہت گورا نہ ہو، (کیونکہ گوری میں خود ہوں) نہ بہت کالا ہو کہ دیکھتے ہی رات ہونے کا خدشہ ہو۔

اَبرو۔
گھنے مگر ناک کے اوپر سرگوشیاں نہ کرتے ہوں ، کیونکہ ایسے لوگ عاشق مزاج ہوتے ہیں۔

آنکھیں۔
چھوٹی اور سرخ نہ ہوں، کہ کوئی خونی نہ سمجھ لے ، نشیلی ہوں لیکن نشہ کسی بھی قسم کا نہ استعمال کرتا ہو تاکہ کسی بھی بات کا برا نہ منائے۔

ناک۔
چھوٹی ہو تاکہ کسی بھی بات کا برا نہ منائے، اور اگر لمبی ہو تو اتنی لمبی نہ ہو کہ کوئی راشٹر پتی کی سواری کے لئے پکڑ لے جائے، نہ اتنی نازک ہو کہ بیوی کی تیز آواز سے کٹ جائے اور نہ اتنی سخت کہ بڑے سے بڑے حادثے کا بھی اثر نہ ہو۔

کان۔
کا کچا نہ ہو۔

ہونٹ۔
عورتوں کی طرح نازک اور پتلے نہ ہوں ، نہ ہی اونٹ کی طرح موٹے اور بھدے۔

ٹھوڑی۔
بھارت بھوشن کی نہیں دلیپ کمار کی ہونی چاہئے۔

داڑھی، مونچھ۔
چہرے کی گھاس بلیڈ مہنگے ہونے پر بھی پابندی سے کاٹتا ہو۔

گردن۔
ہرن سے ذرا ہی دبی ہوئی ہونی چاہئے۔

بَری۔
نہایت شان دار ہونی چاہئے، ایسی شاندار کہ لوگ کھانا پینا بھول کر صرف عش عش کرتے رہیں، لیکن غش نہ کھائیں۔
نوٹ۔
بری میں جوڑے یا زیور ایک ہی مانگے کا نہ ہو اور نہ نقلی، ہیرے کا کم از کم ایک سیٹ ہونا ضروری ہے ، ویسے زیادہ پر بھی اعتراض نہ ہوگا۔

مہر۔
نوشہ کے سر کے بالوں کی مناسبت سے رکھا جائے گا۔ جتنے بال ہوں گے اتنے ہی روپے کا مہر ہوگا اس لئے بالوں کا گن کر آنا ضروری ہے کیونکہ مہر فوراً ادا کرنا ہوگا، معاف بالکل نہ کیا جائے گا۔

رسمیں۔
شادی میں دیگر رسمیں تو ہم نے ترک کردی ہیں لیکن دلہن کے پیر ضرور دھونے پڑیں گے اور ‘بیوی میں تمہارا غلام’ ، تین بار ضرور کہنا ہوگا۔ شادی کے تین سال بعد چال چلن سے مطمئن ہوجانے پر “غلامی” سے آزاد کر دیا جائے گا، امید ہے کہ اس وقت تک بیوی کا ہر حکم سر آنکھوں پر بجالانے کی عادت پڑ چکی ہوگی جو تمام عمر باقی رہے گی۔ رشتے دار ساس نندیں ہوں تو مضائقہ نہیں لیکن نکتہ چیں نہ ہوں، ورنہ ایسی صورت میں فوراً الگ گھر کا بندوبست کرنا ہوگا۔

بچے۔
اگر رات کو بچے روئیں تو ان کوفوراً ہی دوسرے کمرے میں لے جاکر بہلائے تاکہ بیوی کی نیند میں خلل نہ آئے۔

دیگر عادتیں۔
باہر سے مونہہ پھلائے ہوئے گھر میں نہ داخل ہو ہر وقت خوش رہے اور بیوی کو بھی خوش رکھے۔

لڑائی۔
ہر مہینہ معمولی سی جھڑپ ہونی ضروری ہے کیونکہ بڑا مزا اس ملاپ میں ہے جو صلح ہوجائے جنگ ہوکر، صلح میں پہل ہمیشہ شوہر کو کرنی ہوگی۔

خدمت۔
رات کو سونے سے پہلے پیر دبوانے کا نہیں بلکہ دبانے کا شائق ہو۔

غصہ۔
برتنوں پر اتر سکتا ہے مگر بیوی یا بچوں پر نہیں، برتنوں پر بھی یہ خیال رکھنا ضروری ہوگا کہ میرے جہیز کے نہ ہوں۔

فرمائشیں۔
ایک فرمائش پر دو چیزیں اپنی طرف سے لائے گا۔

شاپنگ۔
ہر مہینے کی شروع تاریخوں میں ہونی ضروری ہے۔

مزاج۔
شکی بالکل نہ ہو۔ اور نہ ہی سہیلیوں کے ساتھ پکنک یا پکچر وغیرہ جانے پر پابندی لگائے۔

پکچر۔
ہفتہ میں دو بار سنیما لے جائے گا ، لیکن پکچر سے واپسی پر ہیروئن کی تعریف نہیں سنی جاسکتی ، فلمی رسالے ، رومانی و جاسوسی ناولیں پڑھنے سے بیوی کو کبھی منع نہ کرے گا بلکہ اور لالا کر دے گا۔

اخبار۔
بیوی کی موجودگی میں نہیں پڑھنا چاہئے، اور نہ ہی ناشتے کی میز پر۔

نیت۔
اتنی خراب نہ ہو کہ میری سہیلیوں کو روشندان سے جھانکتا رہے ، ویسے رستہ چلتی لڑکی کو آنکھ اٹھا کر دیکھ سکتا ہے مگر پیچھے مڑ کر نہیں۔

سمجھ۔
اتنی زیادہ ہو کہ اپنی بیوی کو دنیا بھر کی عورتوں سے زیادہ حسین اور قابل سمجھے۔

کنجوسی۔
صرف دوستوں کو کھلانے پلانے میں کنجوسی کرسکتا ہے۔

کمائی۔
ایمان داری سے سب بیوی کے ہاتھ میں دینی ہوگی ، حساب مانگنے کی تکلیف گواراہ نہ کریں۔

تنبیہ:
جن حضرات میں یہ خوبیاں ہوں صرف وہی حضرات نیچے دئیے گئے فارم کو فِل کریں۔ انتظار کروں گی

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
49924

ضامنِ زیبائی …..ڈاکٹر شاکرہ نندنی

ضامنِ زیبائی


خوبصورتی خُدا کی ایک نعمت ہے۔ چاہے انسان ہو یا حیوان، پرند ہو یا چرند، زمین ہو یا آسمان، ستارے ہوں یا سیارے۔ اس دنیا میں ہر چیز میں کچھ نہ کچھ خوبصورتی ضرور پائی جاتی ہے۔ جہاں خوبصورتی ہوتی ہے وہاں امن ہوتا ہے، پیار و محبت ہوتی ہے، خوشحالی ہوتی ہے، یقیناً جہاں خوبصورتی ہوتی ہے اُس جگہ میں کشش ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، چاند کی خوبصورتی کیوجہ سے لوگ اپنے محبوب کو چاند سے تشبیع دیتے ہیں، سمندر کی خوبصورتی کی وجہ سے لوگ سمندر کے کنارے آرام کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ لڑکیاں نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر نے کرنے کے لئے اپنے آپ کو خوبصورت بناتی ہیں اچھے اچھے کپڑے پہنتی ہیں، آنکھوں میں کاجل، ہونٹوں پہ سرخی لگا لیتی ہیں۔جب بھی کوئی آدمی اپنے آپ کو سُست، بے چین، تھکا ماندہ محسوس کرتا ہے تو پھر وہ خوبصورت جگہوں کا رُخ کرتا ہے۔

خوبصورت جگہ خُدا کا کرشمہ ہوتی ہے۔ خود بخود لوگوں کی تھکاوٹ، بے چینی، سُست روی کوختم کرتی ہے اکثر لوگ اپنے گھروں کو خوبصورت بنانے کے لئے نئے ڈیزائن تلاش کرتے ہیں خوبصورت اورمہنگی چیز خرید کر اپنے گھروں کی سجاوٹ کرتے ہیں گھروں کے سامنے مختلف پھول پودے اُگاتے ہیں تاکہ جس گھر میں وہ  رہ  رہے ہیں وہاں ان کو آرام نصیب ہو۔ آج کل جتنی نئی چیزیں ایجاد ہوتی ہیں۔ اُن کو دُنیا میں لوگوں کے سامنے لانے سے پہلے اُن کی خوبصورتی پر زیادہ  سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ تاکہ اُس چیز میں کشش ہو اور وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ زیادہ کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تھکاوٹ، بے چینی، سست روی  کا شکار ہوتے ہیں۔ اس بے چینی اور بے آرامی کو دور کر نے کے لئے خوبصورت پارک بنائے جاتے ہیں۔ نئے ڈیزائن کی نئی عمارات بنائی جاتی ہیں۔ سڑکوں کو کشادہ  کیا جاتا ہے، صفائی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، دفتروں کو خوبصورت، گھروں میں سجاوٹ، خوبصورت گاڑیاں،  خوبصورت نظارے، غرضیکہ کوئی ایسی چیز جس پر لوگوں کی نظریں پڑیں وہ خوبصورت دکھائی دے اور اس خوبصورتی کی وجہ سے لوگ بارہ گھنٹہ کام کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو تھکا ماندہ محسوس نہیں کرتے ۔اور خوبصورتی کی وجہ سے لوگ زیادہ کا م کرتے ہیں۔

خوبصورتی لانے کے لئے زیادہ محنت کرتے ہیں جہاں خوبصورتی ہوتی ہے وہاں ترقی ہوتی ہے اور وہاں امن بھی ہوتا ہے۔ترقی پذیر ملکوں میں خوبصورتی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بے چینی کا شکار ہوتے ہیں اکثر لوگ پرانے گھروں میں رہتے ہے۔ گھروں کے سامنے پھول اور پودوں کا نام ونشان ہی نہیں ہوتا۔ گلیاں گندگی سے بھری ہوتیں ہیں، نالیوں سے بدبو آتی ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، عمارات پرانی، دکانوں میں کوئی سجاوٹ نہیں۔ دفتروں میں خوبصورتی کا کوئی نام و نشان ہی نہیں لوگ جہاں بیٹھتے ہیں وہاں فخر سے گندگی پھیلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج  کل لوگ بے چینی کا شکار ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خوبصورتی کا نہ ہونا ہے۔ لوگ ساری رات سونے کے بعد جب تھوڑا بہت ریلیکس ہوتے ہے اور صبح اُٹھنے کے بعد جب ان کی نظریں گندی چیزوں پر پڑتی ہے، گندے نالوں کی بدبُو ان کے دماغ میں گھُس جاتی ہے تو وہ بے چینی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس بے چینی کو ختم کرنے کے لئے منہ کو نسوار سے بھر لیتے ہیں۔

تھوڑی دیر کے بعد باربار اپنے ہی سامنے تھوکتے رہتے ہیں یا نالیوں میں پیشاب کرنے لگتے ہیں اور گندگی کو مزیر بڑھاتے ہیں۔وہ یہی سمجھتے ہیں کہ نسوار منہ میں ڈالنے کے بعدان کی بے چینی کم ہوجاتی ہے مگر وہ اور زیادہ بے چین ہوتے ہیں بعد میں صرف گلیوں کو ناپتے رہتے ہیں۔ اور کسی کام کے ہی نہیں ہوتے ۔ہمارے ہاں لوگوں کا کوئی کردار تو ہوتا نہیں جس کی وجہ سے اُن کو پہچاننا بھی مشکل ہوتا ہے، اور اکثر لوگ اسی وجہ سے افراتفری، بے چینی کا شکار ہیں اور اس بے چینی اور افراتفری کو ختم کرنے کے لئے اور کوئی راستہ ہی نہیں۔ صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے خوبصورتی۔جس وقت خوبصورتی آئے گی اُسی وقت گندگی ختم ہو جائے گی۔ جب گندگی ختم ہو گی تو بے چینی بھی ختم ہوگی، جب بے چینی ختم ہوگی تو سُست روی بھی ختم ہوگی، تب لوگ اپنے آپ کو فریش اور چُست محسوس کریں گے، تو یقیناً وہ کام کرنا شروع کریں گے۔ ذہن کام کرنا شروع کرے گا۔ طالب علم پڑھائی پر توجہ دیں گے۔ ٹیچرز پڑھانے میں محنت کریں گے۔ پیسے بھی آئیں گے، ترقی بھی ہوگی اور خوشحال زندگی بھی شروع ہوگی۔ ”خوبصورتی خوشحالی کی ضمانت ہے“” اور خوشحالی امن کا گہوارہ ہے“

ضامنِ زیبائی
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
49815

دعائے مغفرت….ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 پورٹو پُرتگال میں ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں مر رہا تھا۔ بچے سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔۔بچے نے کہا؛ میں فٹ بال کا ورلڈکپ دیکھنا چاہتا ہوں۔ نہ صر ف بچے کو بالکل اس کے پو رے خاندان کو جہاز اور میچ دونوں کی ٹکٹیں فراہم کی گئیں۔۔ بچہ میچ دیکھ آیا اور پھر کچھ عرصے بعد اس جہاں کو، اپنے روتے ماں باپ کو اور اپنے بہن بھائیوں کو  ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلا گیا۔۔ ماں باپ، افسوس کے لئے آنے والوں کو کہتے ہمارا بچہ تو معصوم تھا، اس کے لئے سورہ فاتحہ اور دعائے مغفرت کے ساتھ ساتھ کیا آپ ان ڈاکٹرز، ان نرسوں اور اس ہسپتال کی انتظامیہ کے لئے دعا کر سکتے ہیں (پوچھنے پر بھی انہیں یاد نہیں آیا نہ انہیں پتہ تھا کہ ان سب مسیحاؤں کے مذہب کیا کیا تھے) کہ مرنے کے بعد وہ جنت میں جائیں کہ انہوں نے ہمارے  مرتے ہو ئے بچے کے لئے ہسپتال کو جنت بنائے رکھا ؟؟؟؟ 

بچے کے لئے دعا کر نے کے لئے آنے والوں نے اس بات پر ناک بھوں چڑھائی مگر والدین، صدمے میں ہیں، یہ سوچ کر، ذیادہ بحث نہ کی مگر اس فرمائش کو دل ہی دل میں بہت برا کہا۔ پھر ایک اور ملک ہے جو اسلامی ملک کہتے ہیں، جہاں مسلمانوں کی بہتات ہے اور اس سے بھی زیادہ اسلام کے نعرے بلند ہو تے رہتے ہیں۔ جہاں کسی غیر مسلم کے مرنے پر اظہار افسوس بھی کر لیا جائے تو میان سے تلواریں نکل آتی ہیں۔ وہاں ایک بچی کو، اس کی مالکن نے، جس کے پاس اس کے ماں باپ چند روپوں کے عوض غلامی میں دے گئے تھے، پنجرے سے طوطا اڑا دینے پراتنا مارا کہ انسانیت کا نام ہی مٹ گیا۔

اس غریب بچی سے مرتے وقت تو کیا زندگی میں بھی کوئی پہلی خواہش پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ نہ کوئی ادارہ نہ کوئی انسان۔ وہ ایک اسلامی ملک میں ایک ایسی مسلمان عورت کے ہاں غلام تھی کہ جس کی فیس بک پوسٹیں اور وٹس ایپ میسجز درود شریف، اسلام کی سر بلندی، جمعہ مبارک اور کافروں پر لعنتوں اور جو مسلمان ہو کر بھی صرف انسانیت کی باتیں کریں ان پر کفر کے فتوؤں پر مشتمل ہو تے ہیں۔ 

اب اگر کو ئی میرے پاس آئے اور مجھے بتائے کہ پورٹو کا وہ کافر ڈاکٹر فوت ہو گیا ہے جس نے ایک مرتے بچے کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کو کیا کیا کچھ نہیں کیا تو میرے دل سے اس کافرکے لئے مغفرت اوراس کے لواحقین کے لئے صبر کی دعا نکلے گی۔ اور اگر کوئی مجھے اس خاتون کی موت کی خبر دے گا جس نے ایک ہنستی مسکراتی بچی کو چھوٹی سی غلطی پر مار مار کر ادھ مواکر دیا تھا تو مجھے لاکھ کفر کے فتوے مل جائیں، لاکھ قرانی آئیتوں اور احادیث کے حوالے دے دئیے جائیں میرے دل سے اس مسلمان عورت کے لئے مغفرت کی دعا نہیں نکلے گی۔ تو بس پو چھنا یہی تھا کہ کیا ایسا کر کے میں بھی کافر ہو جاؤں گی؟ اور مسلمان میرے لئے بھی جنت کے دروازے بند کر دیں؟ اگر کسی کا جواب مجھے کافر کہہ دینے میں ہے تو میں پھر بھی کہوں گی کہ یہ سودا مہنگا نہیں۔

جنت دوزخ کا معاملہ اللہ کی بابرکت اور مہربان ذات پر چھوڑ کر ہم دنیا کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنا نے کے لئے کچھ کر سکیں اور اس بنا پر مجھے دوزخ بھی ملے تو گوارا ہے۔ میں نے اس سر پھری کوایسا سب کچھ کہنے سے روکنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔

اس کو کافر قرار دئیے جانے کی دھمکیاں بھی دیں۔ مگر وہ بضد رہی۔ میں نے سوچا آج اس کے اندر غصے کی آگ ہے، آج اسے چھوڑ دو، کل کو آکر پھر سمجھاؤں گی۔ نہ سمجھی تو اس کو راہ ِ راست پر لانے کی دعا کر وں۔ میں نے یہ بات اپنی ایک پریکسٹنگ مسلمان دوست کے آگے رکھی اس نے مجھے اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا اور نصیحت کی کہ ایسے لوگوں کی صحبت میں رہو گی تو ایمان سے جاؤ گی۔۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو مر نے کے بعد تمہاری مغفرت پڑھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ اور میں سوچ رہی تھی کیا ان سب لوگوں کی دعائے مغفرت میں اتنی طاقت ہے کہ یہ کسی کو بھی بلیک میل کر سکتے ہیں؟ 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
49779