چترال میں خودکشیاں اور تدارک – پروفیسر اسرار الدین
حال کے زمانوں میں بعض نا سمجھ طبقوں نے ایک سلوگن عام کیا ہے۔ کہ میرا جسم میری مرضی۔ حالانکہ نہ ہمارا جسم ہمارا ہے اور نہ مرضی ہماری ہے۔ انسان اگر صرف تین باتوں پر غور کرے تو اس کو اپنی حیثیت معلوم ہو۔ ذرا اپنے سے پوچھ لیں۔ کیا آپ اپنی مرضی سے دنیا میں آ ے۔ کیا اپنی مرضی سے یہاں سے جاؤگے۔ درمیانی جو وقفہ یہاں گزارنا ہے۔ کیا انسان اپنے تصورات کے مطابق اس زندگی کو ڈھال سکتا ہے؟ان تمام سوالات کے جوابات جب نفی میں ہیں تو پھر۔۔۔ انسانی جان اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔
قرآن کریم نے بارہا یہ حقیقت بیان کی ہے کہاور زندگی اللہ کی عطا ہے اور انسان اس کا مالک نہیں بلکہ امین ہے۔ اسی لیے قرآن میں صاف حکم دیا گیا ہے:
“اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے” (النساء: 29)
اسلام نے جان کی حفاظت کو سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں خودکشی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ چترال جیسے پُرامن اور خوبصورت خطے میں بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے، اور خاص طور پر نوجوان لڑکیاں اس سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔
—
نوجوان لڑکیاں کیوں زیادہ متاثر ہیں؟
یہ سوال ہر ذی شعور انسان کو جھنجھوڑتا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں:
– تعلیمی خواہشات اور مواقع کی کمی۔
– کم عمری یا زبردستی کی شادی۔
– گھریلو جھگڑے اور خاندانی دباؤ۔
– سماجی سختیاں اور عزت کے نام پر غیر حقیقی توقعات۔
– نفسیاتی دباؤ اور ڈپریشن، جسے عموماً سنجیدہ بیماری سمجھنے کے بجائے کمزوری سمجھا جاتا ہے۔
یہ سارے عوامل مل کر لڑکیوں کو مایوسی کی انتہا تک لے جاتے ہیں، اور وہ اپنی جان لینے جیسے ہولناک قدم کی طرف بڑھ جاتی ہیں۔
—
اسلام کا واضح موقف
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص اپنی جان کسی چیز سے ختم کرے گا قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا” (صحیح بخاری و مسلم)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ خودکشی وقتی مسائل کا حل نہیں بلکہ اخروی عذاب کا دروازہ ہے۔ اسلام انسان کو حوصلہ دیتا ہے، امید دیتا ہے اور صبر و دعا کے ذریعے زندگی کے امتحانات کو برداشت کرنے کی طاقت بخشتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ جو ایک جان کو قتل کرے گویا اس نے پوری اِنسانیت کو قتل کیا۔ سوری انعام 151
خواتین کا مقام اور ہماری ذمہ داری
اسلام نے عورت کو عزت اور تحفظ دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو”۔
لہٰذا نوجوان لڑکیوں کو سہارا دینا، ان کی تعلیم کا انتظام کرنا، ان کے جذبات کو سمجھنا اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
حل اور رہنمائی
– گھروں میں نرم رویہ اور اعتماد کا ماحول پیدا کریں تاکہ لڑکیاں اپنے مسائل بیان کر سکیں۔
– تعلیمی اداروں اور کمیونٹی سنٹرز میں counseling اور ذہنی سکون دینے والے پروگرام شروع ہوں۔
– علما و خطبا جمعہ کے خطبوں میں امید، صبر اور دعا کی اہمیت پر زور دیں۔
– حکومت اور سماجی ادارے خواتین کے لیے روزگار اور ذہنی صحت کے پروگرام شروع کریں۔
– میڈیا کو چاہیے کہ خودکشی کے بجائے صبر، حوصلے اور کامیابی کی کہانیوں کو زیادہ اجاگر کرے۔
—دستک ادارے کا قیام
چترال کے تناظر میں خصوصی اپیل
خوش آئند بات یہ ہے کہ چترال میں حال ہی میں ایک ادارہ قائم ہوا ہے جو ایسے لوگوں کو سہارا دینے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے جو مایوسی یا ڈپریشن کا شکار ہو کر خودکشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یہ ادارہ دراصل زندگی کی قدر اور اللہ کی عطا کردہ نعمت کو بچانے کا ایک عملی قدم ہے۔
ہم سب کو چاہئے کہ اس ادارے کی حوصلہ افزائی کریں، اس کے ساتھ تعاون کریں اور اس کا پیغام ہر گھر اور ہر فرد تک پہنچائیں۔ یاد رکھیں یہ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ امید کی کرن ہے، حوصلے کی علامت ہے اور زندہ معاشرے کی پہچان ہے۔
اگر ہم اجتماعی طور پر ایسے اداروں کا ساتھ دیں، ان کے مقاصد کو عام کریں اور ان کے ہاتھ مضبوط کریں تو ان شائاللہ چترال کی بیٹیاں اور نوجوان اس مایوسی کی اندھیری راہوں سے نکل کر زندگی کی روشنی کی طرف بڑھ سکیں گے۔
—
نتیجہ
خودکشی ایک لمحے کی مایوسی ہے مگر اس کے نتائج دائمی ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ مشکلات اللہ کی طرف سے امتحان ہیں، اور ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ قرآن کی یہ آیت ان کے دلوں کو سہارا دے سکتی ہے:
“یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے” (الشرح: 6)
لہٰذا ہمیں اپنے گھروں، مساجد، تعلیمی اداروں اور سماج میں امید اور ہمدردی کے چراغ جلانے ہوں گے تاکہ ہماری بیٹیاں مایوسی کی بجائے روشنی کی طرف بڑھیں اور اپنی زندگیاں اللہ کی عطا کردہ نعمت کے طور پر محفوظ رکھ سکیں۔