گھر کے اندر خاموش رہنے والا یا ہر وقت تجاویز دینے والا، معقول کون؟ – اسدالرحمان بیگ
یہ حقیقت ہمارے معاشرے میں ایک مسلمہ امر کی حیثیت رکھتی ہے جسے ہر سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ افراد جو ہمیشہ خاموش اور گھر کے اندر کسی بھی مسائل یا موضوع پر زبان نہیں کھولتے اور کسی اچھے برے کاموں عادات اور عمل پر مداخلت و ہدایت نہیں کرتے انہیں سنجیدہ مانا جاتا ہے،اور وہ لوگ جو خاندان اور سماج میں بات بات پہ مداخلت و مشورہ دیتے رہتے ہیں وہ خاموش کی نسبت کم عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ تنظیمی و خانگی کھٹنائیں اور الجھنیں ایسے ہیں کہ جن پر ابھی تک موثر تحریر آرائی نہیں ہوئی ہے حالانکہ یہ پبلک کی سب سے بڑا اور روزانہ کی ابتریان ہیں آج اسی موضوع پر گفتگو ہوگی اور چاہیں گے کہ اس تبصرے سے معاشراتی کچھ ایسی ناہمواریاں گرفت میں آسکیں جو ابھی تک چشم روشن نے محسوس نہیں کی ہے ایسے مسائل اور الجھنوں کا سامنا ہمیں بار بار ہوتا ہے۔ لیکن اب تک ہم ان پر سنجیدہ قلم کشائی نہیں کرسکے آج ہم اس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں اور اس سے ایک غیر جانبدار اور آفاقی مکالمہ تصور کیا جانا چاہیے۔ کہ معاشرتی رویوں میں یہ بات نمائیاں ہے کہ گھر اور خاندان کے معاملات میں سکوت اختیار کرنے والا اور خیر و شر دونوں میں مداخلت سے بچنے والا شخص عموماً وقار اور سنجیدگی کا پیکر گردانہ جاتا ہے جبکہ ہر معاملے میں بولنے اور مداخلت کرنے والے افراد کو سماج کم عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے مگر حقیقت ان دونوں کے برعکس ہےجان بوجھ کر خاموش رہنے والا بے
شک اخلاقی الجھنوں سے دور ایک پرسکون زندگی گزار تو لیتا ہے تاہم یہ اچھا نہیں ہے ہاں البتہ وہ افراد جو یہ یقین رکھتے ہوں کہ وہ ایسے ہدایات و اختلافات کی سلجاؤ سے عاجز ہیں تو ایسی خاموشی کی ایک اہمیت ضرور ہے مگر دیدہ دانستہ اچھے برے کاموں میں تصورات یا تجاویز شامل نہ کرنے والا اخلاقی پیمانے میں کوئی وزن نہیں رکھتا اگر ہم کمبے کے اندر بے اعتدالیوں اور بے ضابطیوں میں بہتری کی کوشش نہ کریں تو خانگی حلقہ بے غیر ناخدا کے کشتی کی طرح بھٹک جاے گا ۔ اور اس کی وجہ سے انتشار اور رفقاتی بگاڑ کے راستے آسان ہو جائیں گے خاموشی اور ہدایات دراصل جذبات سے جانم لیتے ہیں۔ ہم یہ پرکنے کی کوشش کریں گے کہ خاموشی اور غصے کا پیمانہ و حد کیا ہے اور یہ بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ جذبات کا صحیح اور متوزن استعمال کیا ہے۔
کیا ہر کوئی تجدید و رہنمائی اور مثبت ہدایات دینے کے قابل ہو سکتا ہے؟ کیا جن اصولوں کو غلط سمجھ کر ہم برہمی و طیش کا جوابی عمل کرتے ہیں، کیا وہ امر واقعی غلط ہے؟ کیا وہ فی الواقعی لغزش ہے؟ یہ نہایت ہی اہمیت کے حامل سوال ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کے جذبات کو کچل دیتے ہیں اور ہر بات پہ روکتے ٹوکتے رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے ان کی مرضی کے بغیر کوئی حرکت نہ کریں۔
اور سوچتے ہیں کہ یہ ایک بہترین تربیت کے قانون و ضوابط ہیں ورنہ کوئی بچہ اگر نہ ڈرے تو وہ فرمانبردار اور تابدار نہیں کہلاتا اس کا ثمر یہ ملتا ہے کہ بچے ہمہ وقت سہمے سہمے رہتے ہیں اور کوئی حرکت اپنی آزاد اختیار سے کر نہیں پاتے۔ ہمارے اجداد یہ بات بڑے فخر سے محفلوں میں دھراتے رہے ہیں کہ وہ اپنے بزرگوں کے مجالس میں اس قدر گھبرایا ہوا رہتے تھے کہ کھڑے ہو کر کوئی ضروری کام بھی اپنی مرضے سے کرنے کی جرات نہ کرتے کیا ایسا اصلاح ایسی سربراہی بجا ہے؟
یہ سمجھ پانا ہر عام انسان کی بس کی بات نہیں کہ صحیح اور غلط کیا ہے؟ کیا حقیقتاً درست ہے اور کیا مناسب ہے؟ اور کیا ان کے ڈانٹ ٹپٹ کا جواز معقول ہے؟
ایک صاحب کچھ بچوں کی شرارت پر اچانک طیش میں آ کر کھڑا ہوا اور شدید اشتعال میں اس شریف بچے کو پیٹا جو چھپ چھاپ ایک طرف خاموشی سے کھڑا تھا جبکہ شریر بچے سب بھاگ گئے تھے۔ یہ غصے کا غلط استعمال ہے۔
ایک صاحب گھر میں سالن کے ذائقے پر غصہ ہوا جبکہ دوسرے نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج سالن بہت ہی اچھا اور میرے فیورٹ اصولوں کے مطابق پکا ہے اب کیا سالن بقول مذکورہ بلا واقعی بدزائقہ تھا یا مؤخر ذکر لذیذ تھا؟ اس میں غلط کیا تھا اور صحیح کیا؟ کیا یہ دونوں سالن کے ٹھیک میعار کا درست تجربہ رکھتے تھے؟ اکثر افراد جو عالی ذوق اور عالی محفلوں سے ناآشنا ہیں اکثر شیف کے تیار کردہ پکوانوں پر ناپسندگی کا اظہار کرتے دیکھا گیا ہے اس سے یہ تاثر ملا کہ کھانوں کا صحیح میعار مابنے والا بھی ہر کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ جمالیات انسان کی ایک پیچیدہ صفت ہے لیکن گھروں کے اندر کھانے کے ذائقوں پر زیادہ تر جھگڑے اور رائے غلط بنیاد پر ہوتے ہیں ہاں البتہ کھانے کے اصولوں کو سمجھنے اور کچن کے عورتوں کو ہدایت دینے کا واقعی کوئی اہلیت رکھتا ہو تو اس کی ہدایت معتبر ہے لیکن اہلیت کی ثبوت کیا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے لہٰذا نہ بے سمجھے خاموش رہنے والا اور نہ بے تیکے مشورہ دینے والا بلکہ وہی شخص وقعت رکھتا ہے جو بصیرت مند، معتبر، باوقار اور صاحبِ فہم ہو۔
ایک حقیقی عالی شخصیت، عظیم کردار، ( ہیرو ) وہی ہوتا ہے۔ جو جس کمیونٹی اور گھر میں رہتا ہے اس کے اقدار، اصولوں، نشست و برخاست ، تغام، لباس ،ضروریات اور مجبوریوں کو پڑھ سکے اور نہ صرف اسے ایک پرسکون معاشرتی، معاشی اور عالی اخلاق میں سانس لیتی ہوئی زندگی دلا سکے بلکہ اپنی صحت، فیشن طرز زندگی، ضروریات اور درپیش چیلنجز کا بھی کامیابی سے مقابلہ کرسکے۔