داد بیداد ۔ پشاور کا تانگہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ایک کا لم میں پشاور کے سینما گھروں کا ذکر آیا تو آج کے درینہ قاری خلیل احمد نے تو جہ دلا ئی کہ جی ٹی روڈ پر میٹرو سینما بھی ہوا کر تا تھا میں نے کہا جی حضور! ہوا کر تا تھا پھر کہنے لگے سینما روڈ پر ہائی سکول نمبر 3کے پیچھے تانگہ سٹینڈ ہوتا تھا میں نے کہا جی ہاں! ہوتا تھا، کہنے لگے تانگہ سٹینڈ پر سجے سجا ئے تانگے میں جوتی ہوئی سفید گھوڑی ہوتی تھی میں نے کہا ہو تی تھی اور ساتھ ہی مجھے پشاور کا پورا تانگہ کلچر یا د آیا گیا وہ بھی پشاور کی انمول ثقا فت تھی جس کا پورے بر صغیر میں چر چا تھا فلمی گیت میں آیا ہے ”تانگہ لا ہوری میرا گھوڑا پشاوری میرا بیٹھو میاں جی بیٹھو لا لا میں ہوں البیلا تانگے والا“ پشاور ی گھوڑا اپنی خو ب صورتی اور پھر تی کے لئے شہرت رکھتا تھا
جب جا پا ن، یو رپ اور امریکہ سے گاڑیاں منگوا نے کا رواج نہیں تھا، جب بجلی، تیل، کمپیو ٹر اور دیگر ترقیا تی اشیاء کی چکا چوند کا زما نہ نہیں آیا تھا جب زند گی چیو نٹی کی رفتار سے چل رہی تھی جب تر قی کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھومنے کا عادی نہیں تھا تب ہمارے ابا و اجداد کے پا س تانگہ ہوا کر تا تھا اور تانگہ عیا شوں کی سواری سمجھا جا تا تھا، پشاور کے شہری تانگے کو چاروں اطراف سے سفید چادروں کے پر دوں میں ملبوس کر کے خوا تین اور بچوں کو لیکر تانگے کی سواری کر تے تھے پشاور کے شرفاء کے لئے تانگہ ایسا تھا جیسا دہلی اور لکھنو کے شرفا ء کے ساتھ پا لکی کا نا م لیا جا تا ہے سینما روڈ پر تانگے میں جو سفید گھوڑی جُتی ہوا کر تی تھی اُس کی جھلک شکر پڑیاں اسلا م اباد کے عجا ئب گھر میں نظر آتی ہے
ساگوان اور صندل کی لکڑی کا تانگہ ہے سنہرے پہیوں کے اوپر ہا تھی کے چمڑے کا سائبان ہے اور اعلیٰ قسم کے سفید سنگ مر مر کی گھوڑی ہے دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ تانگہ اب چل پڑے گا پھر زقند بھرے گا مگر ہمارے لئے اس کا نظارہ ہی غنیمت ہے وہ دن گئے جب تانگہ واحد سواری کے طور استعمال ہوتا تھا پشاور میں تانگوں کے بے شمار سٹینڈ تھے ہشتنگری، فردوس سینما اور نا ز سینما کے سٹینڈ بھی مشہور تھے، گنج، ڈبگری، بھا نہ ما ڑی اور شعبہ بازارکے سٹینڈ بھی خا صے مقبول تھے نو تھیہ اور لا ل کڑ تی کے سٹینڈ بھی خا صے پر ہجو م ہوا کر تے تھے تاہم کا بلی دروازے کے با ہر سینما روڈ پر جو تا نگہ سٹینڈ تھا وہ سفید گھوڑی کی وجہ سے سب کی تو جہ کا مر کز تھا،
تانگے کی مزید سجا وٹ کر کے اسے شادیوں کے لئے لے جا یا جا تا تھا، شہر کے محلہ دار، ملک، خا ن، خوا نین،علما ء اور مشا ئخ کو دعوت پر بلا یا جا تا تو میز بان اپنے معزز مہما نوں کے لئے سجے سجا ئے تانگے کا بند وبست کر تا تھا، شہر کے آزاد خیا ل اور زندہ دل نو جوان سیر کے لئے با ہر نکلتے تو خوب صورت گھوڑی والے تانگے کا انتخا ب کر تے کھلے سڑک پر آتے تو کو چوان سے کہتے گھوڑی دوڑا ؤ اور گھوڑی کی دوڑ سیر کے لطف کو دو با لا کر تی جس تانگہ سٹینڈ پر سفید گھوڑی نہ ہو تی وہ سٹینڈ سنسان ہو تا اس لئے ہر تانگہ سٹینڈ پر سفید گھوڑی والا تانگہ ضرور باندھا جا تا، زما نہ ایسا تھا کہ لو گوں کے پا س غلہ، انا ج، گھی، دودھ مکھن اور پنیر ہو تا تھا انڈا، مر غی اور گوشت ملتا تھا لیکن پیسہ لو گوں کے پا س نہیں ہو تاتھا اُس زما نے میں پشاور سے صدر تک تانگے کا کرایہ صرف 3روپے تھا کو چوان اگر 6سواریاں بٹھا تا تو ہر سواری سے آٹھ آنے لیا کر تا تھا اور یہ بھی خا صی اچھی رقم شما ر ہو تی تھی آج پشار کے اندر پروان چڑ ھنے والی نئی نسل کو تانگہ اور کو چوان کا پتہ ہی نہیں اگر کسی کو اپنی قدیم تہذیب اور ثقا فت سے محبت ہو تو عجا ئب گھر میں جا کر دیکھ سکتا ہے

