داد بیداد ۔ ثقا فت کا مطلب ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
الفاظ بھی وقت کے ساتھ اپنے معنی بدلتے ہیں کبھی معنی بدل کر محدود ہوتے ہیں کبھی پہلے سے زیا دہ وسیع معنوں میں استعمال ہو تے ہیں مثلاًتر کستان، بد خشان اور ہندوستان میں مُلا کا لفظ بہت بڑے مذہبی عالم، مصنف، فقیہہ اور دانشور کے لئے استعمال ہوتا تھا ملا علی قاری، ملا عبد الباقی ثا بت وغیرہ ایسے ہی مشہور شخصیات کے نا م تاریخ میں مذکور ہیں، اس طرح مولانا کا لفظ بر صغیر پا ک و ہند میں بنگا ل سے خیبر تک اخبار نویس، انشاپروازاور مضمون نگار کے نا م کا حصہ ہو تا تھا، مولانا حسرت مو ہا نی، مولانا محمد علی جو ہر وغیرہ ایسے نا م ہیں جو ادب کی تاریخ میں مذکور ہیں اس طرح طا لب کسی بڑے عالم کے شا گر د کو کہتے تھے پشتو میں جس طرح ہلک کی جمع ہلکان ہے
اس طرح طالب کی جمع طالبان ہے گذشتہ چار دہا ئیوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے طالب اور طالبان کو نئے معنی پہنا ئے گئے اور پرانے معنی بھلا دیئے گئے اسی طرح ثقا فت ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی گذشتہ نصف صدی کے اندر محدود کر دیئے گئے بیسویں صدی میں ثقافت کا جا مع مفہوم یہ تھا کہ کسی قوم یا قبیلے کے رہن سہن کا جو طریقہ اور اسلوب ہو وہ ثقا فت کہلا تا تھا لبا س اور خوراک بھی ثقا فت کے اجزا میں شمار ہو تے تھے، مذہبی عبادات اور رسو مات بھی ثقا فت میں شامل تھے طرز تعمیر کو بھی ثقا فت میں گنا جا تا تھا، زراعت، گلہ با نی، دستکاری اور صنعت وحر فت، کھیل کو د اور فنون لطیفہ بھی ثقا فت کے اجزا تصور کئے جا تے تھے کسی قوم یا قبیلے کی اجتما عی دانش مل کر ثقا فت کا رو پ دھا ر لیتی تھی
یہ ثقا فت کا وسیع تر اور جا مع تر مفہو م تھا با لکل اسی طرح جمہور کا لفظ بھی وسیع تر معنی میں استعمال ہوا کر تا تھا مسلمانوں کی تاریخ میں جمہور سے مراد جید علما اور فقہا کا طبقہ تھا جب لکھا جا تا تھا کہ اس مسئلے پر جمہور کا اتفاق یا اجما ع ہے تو اس کا مطلب یہ ہو تا تھا کہ جید علما ء اور فقہا نے اس پر اتفاق کیا ہے متقد مین کی یہ خو بی تھی کہ ان میں مسلکی، فقہی اور سیا سی لحا ظ سے الگ الگ گروہ نہیں تھے
عبا سیوں کے دور میں معتزلہ کے نا م سے عقل پر ست گروہ پیدا ہوا، ابن عر بی نے وحدت الو جود کا پر چار کیا مگر جمہور کا مو قف غا لب رہا پھر وقت نے پلٹا کھا یا اسلا می مما لک کے اندر مغر بی افکار کو جگہ ملی، جمہور سے مراد عوام کی اکثریت قرار پا ئی عوام کی اکثریت معلوم کرنے کے طریقے وضع کئے گئے وقت گذر نے کے ساتھ جمہوریت کا مفہو م بدل گیا اکیسویں صدی میں بنگلہ دیش، بھا رت اور پا کستان میں جمہوریت کا مطلب زور زبر دستی ہے اکثریت کی رائے سے اس کا کوئی تعلق نہیں، ثقا فت نے معنی اور مفہوم کی کشتی میں جو سفر کیا
اس سفر میں اپنے سارے معنی اور مفہوم کھو دیے اکیسویں صدی میں ثقا فت صرف مو سیقی، رقص اور گلو کاری کو کہا جا تاہے مسجد، محراب، منبر، لباس، مکان، خوراک، زراعت، گلہ بانی اور رہن سہن کے اسلو ب وانداز کو ثقا فت سے خا رج کر دیا گیا ہے پشتوکے دانشور سید تقویم الحق کا کا خیل کہا کر تے تھے کہ ثقا فت سے اس کا مفہوم چھین لیا گیا ہے اردو کے بزرگ دانشور مشفق خوا جہ نے لکھا ہے کہ ثقا فت کا لباس اتار کر اُسے ننگا کیا گیا ہے اور یہ کام کسی فرد نے نہیں کیا وقت اور حا لات نے ایسا کیا ہے، الفاظ بھی وقت کے ساتھ اپنا معنی اور مفہوم بدلتے رہتے ہیں جیسا کہ شاعر کا مصر عہ تھا ”ثبات اک تغیر کو ہے زما نے میں“