Chitral Times

Apr 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بے زبان جانور اور بولتا مسلمان –  تحریر: اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

بے زبان جانور اور بولتا مسلمان –  تحریر: اقبال حیات اف برغذی

گھر کے اندر بیٹھا تھا کہ یکا یک باہر آنگن میں “مینا” پرندوں کی شدید چیخ و پکار سے کان کے پردے پھٹنے کے خطرے سے دوچار ہونے لگے کھڑ کی کھول کر دیکھا تو ایک بلی ایک “مینے” کو منہ میں دبائےبھاگنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جس پر پوری برادری یکجا ہو کر بھر پور انداز میں اس دشمن کے خلاف برسر پیکار تھی۔ اور ہر کوئی جھپٹ کر اس پروار کر رہی تھی تھوڑی دیر معرکہ آرائی کے بعد اس قبیلے کو اپنے ساتھی کو دشمن کے منہ سے چھڑانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اور بلی جان بچانے کے لئے دم دبا کر بھاگ گئی ۔ متاثرہ پرندہ زخمی ہونے کی وجہ سے اڑنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا ۔ اس لئے اسکے قبیلے کے بعض پرندے درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹ**ھ کر اور بعض اسکے قریب آکر پر خلوص غمخواری کرنے کا احساس ہوتا تھا ۔

 

اسکی زخمی کیفیت پر ترس کھا کر میں باہر نکل کر اسے پکڑ کر درخت کی ایک ٹہنی پر چھوڑا ۔ اس دوران مجھ پر بھی اسکے قبیلے کی طرف سے بھر پور حملہ ہوا۔ اور میں فوری طور پر خود ان کے غیض و غضب کے ماحول سے کچھ فاصلے پر کھینچا۔ اور ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بے زبان جانوروں کی باہمی محبت، اتفاق اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے بھر پور جذبے کے آئینے میں اپنا کردار دیکھ کر شرم سے میرا سر جھک گیا۔ اور انگلی سے مٹی کریدتے ہوئے قرآن کی طرف سے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دینے کے تناظر میں اپنی حیثیت مختلف درپیش حالات واقعات کی شکل میں سینما کی سکرین پر آنے والی فلموں کی طرح میری ذہین کے دریچے کھولنے لگے ۔ اور ضمیر کو جھنجھوڑنے پر پورہ وجود زلزلے کے جھٹکے کی صورت میں لرز گیا۔ اور اپنا پورہ کردار سامنے نظر آنے لگا ۔ کہیں دنیاوی لالچ کے لئے ایمان کے جھنڈے کو لپیٹ کر چھپانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ کہیں دشمن سے لرذان وترسان ہوکر بھائی کے رشتے کے ہاتھ پاوں کو زنجیروں میں جھکڑکر دشمن کے حوالے کرکے اپنےآپ کو محفوظ تصور کر کے خوش ہوتا ہوں ۔ کہیں اپنے ازلی دشمن کی طرف سے بنیاد پرستی کی فہرست سے اپنے نام کے اخراج پرمسرت کا اظہار کر رہا ہوں ۔

 

اور کہیں اپنے دینی بھائیوں کوان کے معصوم بچوں کے ساتھ بے دریغ قتل عام پر اُف تک کہنےکی جرات نہیں کرتا ۔ اور اس تنازعے سے اپنا دامن بچانے کے لئے غیرت کا شلوار اترنے کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہوں الغرض “غریب ہندو نہ دنیا کے نہ آخرت” کے قول کے مصداق اپنی حالت زار پر دل کی گہرائیوں سے آہ نکلنے اور پرندوں کے دوبارہ چیخ و پکار پر بیدار ہو کر دیکھاتو اس زخمی پرندے کو اپنے پروں کے سہارے اڑانے کی کاوش ہو رہی تھی ۔ بےساختہ فلسطینی مسلمان معصوم بچوں کی لاشین اٹھانے اور کتے گھسیٹ کر لے جانے کا منظر یادآکر میری آنکھوں سے آنسووں کے قطرے میرے ننگے قدموں پر گرے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی سرد تھے ۔ کیونکہ جذبات سطحی طور پر ھونے کی وجہ سے جگر میں گرمائش نہیں ہوتی ۔ ورنہ فکر و خیال اگر حقیقت کی تپش کے حامل ہوتے تو معصوم مسلمان بچوں کی بے دریغ قتل عام پر محبت کے جذبات سے لبریز آہ بھرنے سے ہی اسرائیل جل کر خاکستر ہوتی۔ کیونکہ حقیقت اپنا رنگ دکھانے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔جس طرح بغیر اسلحے کے مینا پرندوں نے اپنے سے طاقتوردشمن کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کئے ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
87227